Surat Assajdah

Surah: 32

Verse: 29

سورة السجدة

قُلۡ یَوۡمَ الۡفَتۡحِ لَا یَنۡفَعُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِیۡمَانُہُمۡ وَ لَا ہُمۡ یُنۡظَرُوۡنَ ﴿۲۹﴾

Say, [O Muhammad], "On the Day of Conquest the belief of those who had disbelieved will not benefit them, nor will they be reprieved."

جواب دے دو کہ فیصلے والے دن ایمان لانا بے ایمانوں کو کچھ کام نہ آئے گا اور نہ انہیں ڈھیل دی جائے گی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ ... Say: "On the Day of Al-Fath..." meaning, `when the wrath and punishment of Allah befall you, in this world and the next,' ... لاَا يَنفَعُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِيمَانُهُمْ وَلاَا هُمْ يُنظَرُونَ no profit will it be to those who disbelieve if they (then) believe! Nor will they be granted a respite. This is like the Ayah, فَلَمَّا جَأءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَـتِ فَرِحُواْ بِمَا عِندَهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ ... Then when their Messengers came to them with clear proofs, they were glad with that which they had of the knowledge... (40:83-85) Those who claim that this refers to the conquest of Makkah go too far, and have made a grievous mistake, for on the day of the conquest of Makkah, the Messenger of Allah accepted the Islam of the freed Makkan prisoners-of-war, who numbered nearly two thousand. If what was meant by this Ayah was the conquest of Makkah, he would not have accepted their Islam, because Allah says: قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ لاَ يَنفَعُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِيمَانُهُمْ وَلاَ هُمْ يُنظَرُونَ Say: "On the Day of Al-Fath, no profit will it be to those who disbelieve if they (then) believe! Nor will they be granted a respite." What is meant by Al-Fath here is Judgement, as in the Ayat: فَافْتَحْ بَيْنِى وَبَيْنَهُمْ فَتْحاً (Nuh said:) So Aftah (judge) between me and them. (26:118) and: قُلْ يَجْمَعُ بَيْنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ يَفْتَحُ بَيْنَنَا بِالْحَقِّ Say: "Our Lord will assemble us all together, then He will judge between us with truth." (34:26) وَاسْتَفْتَحُواْ وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ And they sought judgement and every obstinate, arrogant dictator was brought to a complete loss and destruction. (14:15) وَكَانُواْ مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُواْ although aforetime they had invoked Allah to pass judgement over those who disbelieved. (2:89) إِن تَسْتَفْتِحُواْ فَقَدْ جَأءَكُمُ الْفَتْحُ If you ask for a judgement, now has the judgement come unto you? (8:19) Then Allah says: فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَانتَظِرْ إِنَّهُم مُّنتَظِرُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

291یوم الفتح سے مراد آخرت کا فیصلے کا دن، جہاں ایمان مقبول ہوگا اور نہ مہلت دی جائے گی۔ فتح مکہ کے دن مراد نہیں ہے کیونکہ اس دن طلقاء کا اسلام قبول کرلیا تھا، جن کی تعداد تقریباً دو ہزار تھی (ابن کثیر) طلقاء سے مراد وہ اہل مکہ ہیں جن کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ والے دن سزا و تعزیر کے بجائے معاف فرما دیا تھا اور یہ کہہ کر آزاد کردیا تھا کہ آج تم سے تمہاری پچھلی ظالمانہ کاروائیوں کا بدلہ نہیں لیا جائے گا۔ چناچہ ان کی اکثریت مسلمان ہوگئی تھی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٣٠] یعنی کافروں کا ہمیشہ یہ سوال ہوتا ہے کہ یہ جو ہم پر عذاب کا وعدہ دیا جاتا ہے یا ایمان لانے والوں کے لئے مدد اور فتح و نصرت کی نوید سنائی جاتی ہے تو ایسے وعدے کا کوئی معین وقت بتلا دیا جائے۔ اور یہ معین وقت بتلا دینا ہی حکمت الٰہی کے خلاف ہوتا ہے۔ لہذا ایسے سوال کے جواب میں کفار کی توجہ اس کے دوسرے پہلوؤں کی طرف مبذول کرائی جاتی ہے جن پر عمل کی بنیاد اٹھتی ہو۔ اور یہی قرآن کا حقیقی مقصد ہوتا ہے۔ یہاں بھی اس سوال کا جواب اسی انداز میں دیا گیا ہے کہ تم اسی مہلت کو غنیمت سمجھو جو اس وقت تمہیں حاصل ہے۔ کیونکہ وہ فیصلہ کا دن آگیا تو اس وقت نہ تمہارا اسلام لانا کچھ فائدہ دے سکتا ہے اور نہ مزید مہلت ملے گی۔ نہ تمہیں سنبھلنے کا موقع ملے گا لہذا اس کے لئے بےچین ہونا چھوڑ دو ۔ البتہ اگر اپنے فائدہ کی بات سوچ سکتے ہو تو سوچو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ لَا يَنْفَعُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِيْمَانُهُمْ ۔۔ : یعنی تمہارے اس سوال سے تمہیں کچھ حاصل نہیں، تم اس مہلت کو غنیمت سمجھو جو اس وقت تمہیں حاصل ہے۔ کیونکہ فیصلے کا وہ دن آگیا تو آنکھوں دیکھی حقیقت پا کر نہ تمہارا ایمان لانا تمہیں کچھ فائدہ دے گا اور نہ مزید مہلت ملے گی۔ دیکھیے سورة مومن (٨٤، ٨٥) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

To answer that, Allah Ta&ala said: قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ لَا يَنفَعُ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا إِيمَانُهُمْ (Say, &On the day of decision their belief will not be of any use to disbelievers,&-29) This amounts to saying: Why are you asking us about the day of our victory while that day is going to be a day of trouble for you? When victory comes to us, you would have already been overtaken by punishment. May be, right here in this world - as it happened in the battle of Badr - or, in the Hereafter. And when the punishment of Allah seizes someone, then, no profession of faith at that time, no declaration of &Iman at that stage is accepted. (as mentioned by Ibn Kathir) There are some others who have interpreted the &day& in: مَتٰی ھٰذا الفَتح (|"When will this decision take place?|" ) as the day of Qiyamah. The summarized explanation of this verse in Bayan-ul-Qur&an appearing in the original edition of Ma` ariful-Qur&an is based on this tafsir. ( The translation of al-lath as &decision& as given in the text admits both probablities) Al-hamdulillah The Commentary on Surah As-Sajdah Ends here.

اس کے جواب میں حق تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) قل یوم الفتح لا ینفع الذین کفروا ایمانہم، ” یعنی آپ ان کے جواب میں یہ کہہ دیجئے تم ہماری فتح کا دن ہم سے کیا پوچھتے ہو وہ دن تو تمہاری مصیبت کا ہوگا کیونکہ جس وقت ہماری فتح ہوگی تو اس وقت تم عذاب میں گرفتار ہوچکے ہو گے، خواہ دنیا میں جیسے غزوہ بدر میں ہوا یا آخرت میں۔ اور جب اللہ کا عذاب کسی کو پکڑ لیتا ہے پھر اس کا ایمان قبول نہیں ہوتا۔ کذا ذکرہ ابن کثیر۔ اور بعض حضرات نے اس جگہ متیٰ ھذا الفتح کے معنی روز قیامت کے کئے ہیں۔ اوپر خلاصہ تفسیر میں اسی کو اختیار کیا گیا ہے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ لَا يَنْفَعُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِيْمَانُہُمْ وَلَا ہُمْ يُنْظَرُوْنَ۝ ٢٩ نفع النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] ( ن ف ع ) النفع ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

تو اس پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ آپ ان سے فرما دجیے کہ فتح مکہ کا دن وہ دن ہے کہ جس دن بنی خزیمہ کا ایمان لانا ان کو قتل سے نہیں بچا سکے گا اور ان کو قتل سے مہلت دی جائے گی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٩ (قُلْ یَوْمَ الْفَتْحِ لَا یَنْفَعُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِیْمَانُہُمْ ) انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایمان لانے کا فائدہ انہیں تبھی ہوگا اگر وہ اپنی دنیوی زندگی کے دوران ایمان لائیں گے ‘ جبکہ آخرت کے تمام حقائق پردۂ غیب میں چھپے ہوئے ہیں ‘ لیکن جب یہ لوگ عالم آخرت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تب ان کا ایمان لانا ان کے لیے مفید نہیں ہوگا۔ (وَلَا ہُمْ یُنْظَرُوْنَ ) آج انہیں جو مہلت ملی ہے اس میں اگر وہ توبہ کرلیں تو یہ ان کے لیے مفید ہوسکتی ہے۔ لیکن موت کے آثار ظاہر ہوتے ہی یہ مہلت ختم ہوجائے گی ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

42 That is, "It is not a thing for which you should feel so impatient and restless. When the torment of Allah comes, you will get no time to mend your ways. Make the best of the time which is available before the coming of the torment. If you will believe only when you see the torment, it will not avail you anything then."

سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :42 یعنی یہ کونسی ایسی چیز ہے جس کے لیے تم بے چین ہوتے ہو ۔ خدا کا عذاب آگیا تو پھر سنبھلنے کا موقع تم کو نصیب نہ ہو گا ۔ اس مہلت کو غنیمت جانو جو عذاب آنے سے پہلے تم کو ملی ہوئی ہے ۔ عذاب سامنے دیکھ کر ایمان لاؤ گے تو کچھ حاصل نہ ہو گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٩‘ ٣٠۔ تفسیر ابن جریر اور تفسیر سدی وغیرہ میں قتادہ کی روایت ١ ؎ سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے (١ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ١٧٩ ج ٥۔ ) اس کا حاصل یہ ہے کہ صحابہ (رض) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سن کر مشرک لوگوں سے کبھی کبھی بات چیت کے وقت کہا کرتے تھے کہ ایک دن ایسا آنے والا ہے کہ اسلام کا غلبہ ہوگا اور شرک سے مکہ بالکل پاک ہوجائے گا اور مسلمانوں کو مشرکوں کے شرک کا کھٹکا بالکل اور اس دوبارہ زندگی میں مسلمان عزت سے رہیں گے اور مشرک ذلت و خواری سے مشرک لوگ مسلمانوں کے جواب دیا کرتے تھے کہ آخر بتلاؤتو سہی کہ یہ کب اور کون سے دن ہوگا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی بعضے مفسروں نے اس فتح سے فتح بدر مرادلی ہے اور بعضوں نے فتح مکہ لیکن حافظ عماوالدین ابن کثیر اور اور مفسرین نے اس قول پر یہ اعتراض کیا ہے کہ قرآن شریف کی اس آیت کے مضمون سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس فتح کا وقت اس طرح کا وقت ہوگا جس میں کا فرلوگوں کا ایمان مقبول نہ ہوگا فتح بدر اور فتح مکہ کے بعد تو ہزا رہا آدمیوں کا ایمان مقبول ہوا اس صورت میں صحیح تفسیر آیت کی وہی ہے جو حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے مشہور شاگرد مجاہد (رح) نے کی ہے کہ اس فتح کے دن سے قیامت کا دن مراد ہے کہ اس دن اہل اسلام کی مغفرت ہوگی ان کی شفاعت قبول ہوگی ان کو جنت کی نعمتیں ملیں گی اور مشرک اس دن طرح طرح سے خوار ہوں گے اپنے کوئی ندامت کام آوے گی نہ ان کا اسلام لانے کا وعدہ قبول ہوگا اب آگے فرمایا کہ اے رسول اللہ کے تم ان منکرین حشر کی عقلی حجتوں کا کچھ خیال نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے موافق تم بھی اس دن کا انتظار کرو اور ان لوگوں کو بھی اس کا انتظار کرنا چاہیے وقت مقرہ پردہ دن سب کی آنکھوں کے سامنے آجائے گا مسند امام احمد کے حوالہ سے حضرت عائشہ (رض) کی معتبر روایت اوپر گزر چکی ہے کہ منکر نکیر کے وسال جواب کے بعد ہر آدمی کو دوزخ کا ٹھکانہ دکھا کر اللہ کے فرشتے یہ کہہ دیتے ہیں کہ اس ٹھکانے میں جانے اور رہنے کے لیے تجھ کو قیامت کے دن دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ مسند امام احمد اور صحیح بان حبان ١ ؎ میں ابوہریرہ (رض) سے معتبر روایت ہے (١ ؎ الرغیب والترہیب ص ٣٨٢۔ ج ٣ باب فی التفخ فی الصور و قیام الساعۃ۔ ) جس ہیں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگ اپنے اپنے کام میں لگے ہوں گے کہ ایک دفعہ ہی صور ٹھونکا جاکر تمام دنیا کی عمر بھی مقرر ہے لیکن یہ بات تو علم الٰہی میں ٹھہر چکی تھی کہ مکہ کے ان منکرین قیامت میں سے کوئی شخص صور کے پھونکے جانے اور اصل قیامت کے قائم ہونے تک زندہ نہ رہے گا اس واسطے ان لوگوں کو قیامت کے انتظار کی تنبیہ جو آیت میں فرمائی گئی ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ جس طرح ان کے بڑے بوڑھے ان کی آنکھوں کے سامنے مرگئے اسی طرح یہ لوگ اپنی مت کا انتظار کریں دم نکلتے ہی ان کو معلوم ہوجائے گا کہ قیامت کے دن ان کا کام انجام ہونے والا ہے صحیح بخاری ومسلم کی حضرت عائشہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی جس کا حاصل یہ ہے کہ جب لوگ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قیامت کا حال پوچھا کرتے تو آپ ایک نو عمر لڑکے کی طرف نظر ڈال کر یہ فرما دیا کرتے کہ اگر یہ لڑکا جیتا رہا تو یہ بوڑھا نہ ہونے پائے گا کہ اتنے میں تم لوگوں کی قیامت قائم ہوجائے گی۔ اس حدیث کا مطلب وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا جس کا حاصل یہ ہے کہ ان قیامت کا حال پوچھنے والوں کو آپ یہ جواب دیا کرتے تھے اس لڑکے کے بوڑھا ہونے سے پہلے موجودہ لوگوں میں سے اکثر لوگ مرجاویں گے اور مرتے کے ساتھ ہی ان میں سے ہر ایک کو اپنا قیامت کا انجام معلوم ہوجاوے گا۔ سورة سجدہ ختم ہوئی۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(32:29) قل : ای قل لہم یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوم الفتح۔ مضاف مضاف الیہ۔ فیصلہ کا دن۔ یوم القیامۃ۔ ولاہم ینظرون۔ واؤ عاطفہ۔ اس کا عطف جملہ سابقہ لا ینفع ۔۔ پر ہے۔ لاینظرون۔ مضارع مجہول جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے نظر ینظر (باب نصر) نضر سے۔ ان کو مہلت نہیں دی جائے گی۔ مہلت اس مار کہ دینا میں بھیج کر ان کا ایمان قبول کیا جائے۔ ای لایمہلون بالاعادۃٰ الی الدنیا لیؤمنوا۔ فائدہ : یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے سوال تو یہ کیا کہ یہ فیصلہ کا دن جس کا تم دعوی کرتے ہو کب آئے گا ؟ اس کا جواب میں فیصلہ کی نوعیت بیان کی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا اصل مقصد جلد بازی دکھانا اور استہزاء کرنا تھا۔ سو اس کے مقصد کے مد نظر کہا گیا ہے کہ :۔ لا تستعجلوا ولا تستھزء وا۔ (تم جلدی مت مچاؤ اور استہزاء مت کرو) یہ فیصلہ ہو کر رہے گا اور اس وقت تمہارا ایمان تمہیں کچھ فائدہ نہ دے گا۔ (ایمان نافع وہی ہے جو اس دنیا میں لایا جائے ورنہ روز قیامت حقائق کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر تو پکے سے پکے کافر کا پتہ بھی پانی ہوجائے گا۔ اور وہ ایمان پر مجبور ہوجائے گا) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی جب وہ دن آئے گا اس وقت اگر تم اسے آنکھوں دیکھی حقیقت پاکر ایمان لے آئو تو تمہارا ایمان معتبر نہ ہوگا اور نہ تمہیں ایمان لانے کے لیے کوئی مہلت دی جائے گی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فاعرض ھم وانتظر انھم منتظرون (32: 30) ” “۔ اس فقرے کی تہ میں دراصل بالواسطہ ایک دھمکی چھپی ہوئی ہے۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دامن جھاڑ لیں اور انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیں تو انجام معلوم ہے۔ اس آخری ضرب پر یہ سورة ختم ہوتی ہے ۔ اس میں طویل مطالعاتی سفر ہے ، اشارات و ہدایات ہیں اور قسم قسم کے مشاہدات اور دلائل دئیے گئے ہیں اور قلب انسانی کو ہر پہلو سے متاثر کرنے کی سعی کی گئی ہے اور ہر راستے سے اس کو کھینچ کر ہدایت کی طرف لانے کے لیے حملہ کیا گیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

27:۔ قل یوم الخ یہ جواب شکوی اور تخویف ہے ان استہزاء کرنے والوں سے کہہد یجئے کہ عجلت سے کام نہ لو۔ بلکہ صبر کرو جب قیامت کا دن آجائے گا اس دن تم دنیا میں ایمان نہ لانے اور اعمال صالحہ بجا نہ لانے پر حسرت و ندامت کا اظہار کروگے اور اب جن حقائق کا انکار کر رہے ہو قیامت کے دن ان کی سچائی کا تمہیں خود بخود یقین ہوجائے گا۔ مگر اس ایمان اور یقین سے کچھ فائدہ نہ ہوگا اور انہیں جہنم میں داخل کردیا جائیگا۔ اور ذرا مہلت نہ دی جائیگی (لاینظرون) لا یمہلون لیتوبوا و یعتذروا (معالم و خازن جلد 5 ص 189) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

29۔ آپ فرما دیجئے کہ اس آخری فیصلے کے دن منکروں کو ان کا ایمان لانا نفع نہ دے گا اور نہ وہ مہلت ہی دیئے جائیں گے یعنی اس دن کے آنے کی جلدی نہ کروجب وہ دن آ جئے گا تو اس دن کسی منکر ایمان کو اس کا ایمان لانا نفع نہ دے گا اور نہ ان کو مہلت ہی دی جائیگی چونکہ وہ لوگ عذاب میں تعجیل کرتے تھے اور عذاب کا مذاق اڑاتے تھے اس لئے اس قسم کے سوال کی جو غرض تھی اس کے مطابق جواب دیا گیا چونکہ مفسرین کے تین قول تھے ہم نے ہر ایک کی رعایت سے ترجمہ کیا ہے اور تیسیر میں رعایت رکھی ہے۔ قیامت کا دن ، فتح مکہ کا دن ، بدر کی لڑائی کا دن ، عذاب کو دیکھ کر اور قتل کے وقت ایمان لانا معتبر نہیں ۔ کمانی المدارک ، مطلب یہ ہے کہ تکذیب اور استہزا چھوڑ دو جو گھڑی آنے والی ہے وہ آ کر رہے گی اور اس وقت نہ تو ایمان لانا ہی نافع ہوگا، نہ مہلت ہی دی جائے گی جو کچھ کرنا ہے اس دن کے آنے سے پہلے پہلے کرلو۔