Surat Assajdah

Surah: 32

Verse: 6

سورة السجدة

ذٰلِکَ عٰلِمُ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ الۡعَزِیۡزُ الرَّحِیۡمُ ۙ﴿۶﴾

That is the Knower of the unseen and the witnessed, the Exalted in Might, the Merciful,

یہی ہے چھپے کھلے کا جاننے والا ، زبردست غالب بہت ہی مہربان ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ذَلِكَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ... in one Day, the measurement of which is a thousand years of your reckoning. That is He, the All-Knower of the unseen and the seen, meaning, He is controlling all these affairs. He sees all that His servants do, and all their deeds, major and minor, significant and insignificant, ascend to Him. He is the Almighty Who has subjugated all things to His control, and to Whom everybody submits, and He is Most Merciful to His believing servants. He is Almighty in His mercy and Most Merciful in His might. This is perfection: might combined with mercy and mercy combined with might, for He is Merciful without any hint of weakness. ... الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ the All-Mighty, the Most Merciful.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٧] یعنی وہ ہستی جو اتنے بڑے بڑے کارنامے سرانجام دے سکے ضروری ہے کہ اس کا علم لامحدود ہو۔ ہر چیز کی ماہیت اور کیفیت اس کے علم میں ہو اور کوئی بھی چیز اس سے چھپی ہوئی نہ ہو نہ چھپ سکتی ہو۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ اس میں اتنی قدرت ہو کہ وہ ہر چیز کو اپنی مرضی کے مطابق کام میں لاسکتا ہو۔ نیز اتنی زبردست اور قاہرانہ قدرت رکھنے کے باوجود وہ اپنی مخلوق پر رحیم اور شفیق بھی ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ذٰلِكَ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۔۔ : یعنی وہ پروردگار جو خلق و تدبیر کا یہ سارا سلسلہ چلا رہا ہے، اس کا علم اتنا وسیع ہے کہ جو کچھ تم سے غائب ہے یا حاضر، ماضی ہے یا حال یا مستقبل، سب کچھ اس کے علم میں ہے، قدرت اس کی اتنی بےپایاں ہے کہ وہ ہر ایک پر غالب ہے اور رحمت اتنی کہ ہر چیز کو اپنے دامن میں سمائے ہوئے ہے۔ اس کے سوا نہ کسی کے پاس یہ علم ہے، نہ قدرت اور نہ رحمت، خواہ وہ انسان ہو یا جن یا فرشتہ یا کوئی اور مخلوق، تو پھر کسی اور کی عبادت کیوں کی جائے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The length of the day of Qiyamah The text in verse 5 cited above says: فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ (in a day the measure of which is a thousand years according to the way you count - 5). And it appears in a verse of Surah Al-Ma` arij:... (in a day the extent of which is fifty thousand years - 70:4). A simple explanation of this is what appears in Bayan-ul-Qur&an - since this day will be horrendous, people would find it very long. Then, this length will be felt in terms of one&s measure of faith and deeds. Big criminals will find the day longer while the small ones will find it comparatively shorter, so much so that the day some would feel to be of a thousand years, to others, it would appear as of fifty thousand years. Tafsir Ruh-ul-Ma’ ani reports several other explanations from the ` Ulama& and Sufiya&. But, all these are nothing but conjectures. Something which can be traced back to a proved meaning of the Qur&an or something which can be believed in is just not there. Therefore, the most sound approach in this matter is the same as was taken by the early elders of Islam, the Sahabah and the Tabi` in: They had left the knowledge of this difference of one and fifty to Allah without explaining it on the basis of human whims and, on their part, they had found it sufficient to say, ` we do not know.& About it, Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Abbas (رض) said: ھُمَا یَومَانِ ذَکَرَھُما اللہُ تَعَالٰی فِی کِتَابِہٖ اللہُ تَعَالٰی اَعلَمُ بِھِمَا وَاَکرَہُ اَن اَقُولَ فِی کِتَابِ اللہِ مَالَا اَعلَمُ They are two days mentioned by Allah Ta’ ala in His Book. Allah Ta’ ala knows best about them and I dislike to say in the matter of the Book of Allah that which I do not know.

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّہَادَۃِ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ۝ ٦ۙ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا غيب الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] ( غ ی ب ) الغیب ( ض ) غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے شهد وشَهِدْتُ يقال علی ضربین : أحدهما جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول : أشهد . والثاني يجري مجری القسم، فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، ويجري علمت مجراه في القسم، فيجاب بجواب القسم ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے بعض نے کہاز ہے کہ اگر اشھد کے ساتھ باللہ نہ بھی ہو تب بھی یہ قسم کے معنی میں ہوگا اور کبھی علمیت بھی اس کے قائم مقام ہوکر قسم کے معنی دیتا ہے اور اس کا جواب بھی جواب قسم کی طرح ہوتا ہے ۔ شاھد اور شھید کے ایک ہی معنی ہیں شھید کی جمع شھداء آتی ہے قرآن میں ہے۔ عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزۃ العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور وہ مدبر اور تمام باتوں کا جاننے والا ہے جو بندوں پر پوشیدہ ہیں اور ظاہر ہیں۔ کفار کو سزا دینے میں زبردست اور مسلمانوں پر رحمت فرمانے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

10 That is, "For others one thing may be open and known but countless other things hidden. Whether angels or jinns, prophets or saints, or other pious people, none of them has the knowledge of everything. It is Allah alone Who knows everything. He knows all that has passed, all that is present, and all that will happen in the future. " 11 11. "The All-Mighty": The One Who is dominant over everything: no power in the universe can hinder Him in His Design and Will and obstruct His Command from being enforced. Everything is subdued. to Him and nothing can resist Him. 12 That is, He is not tyrannous to His creatures but is Gracious and Merciful in spite of being overwhelmingly dominant and possessor of all power and authority.

سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :10 یعنی دوسرے جو بھی ہیں ان کے لیے ایک چیز ظاہر ہے تو بے شمار چیزیں ان سے پوشیدہ ہیں ۔ فرشتے ہوں یا جن ، یا نبی اور ولی اور برگزیدہ انسان ، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو سب کچھ جاننے والا ہو ۔ یہ صفت صرف اللہ تعا لیٰ کی ہے کہ اس پر ہر چیز عیاں ہے ۔ جو کچھ گزر چکا ہے ، جو کچھ موجود ہے ، اور جو کچھ آنے والا ہے ، سب اس پر روشن ہے ۔ سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :11 یعنی ہر چیز پر غالب ۔ کائنات میں کوئی طاقت ایسی نہیں جو اس کے ارادے میں مزاحم ہوسکے اور اس کے حکم کو نافذ ہونے سے روک سکے ۔ ہر شے اس سے مغلوب ہے اور کسی میں اس کے مقابلے کا بل بوتا نہیں ہے ۔ سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :12 یعنی اس غلبے اور قوت قاہرہ کے باوجود وہ ظالم نہیں ہے بلکہ اپنی مخلوق پر رحیم و شفیق ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦ تا ١١۔ دنیا کے بادشاہوں کے انتظام میں اس واسطے خامی رہ جاتی ہے کہ ان کو آئندہ کا غیب کا حال معلوم نہیں ہوتا برخلاف اس کے دنیا کے پیدا کرنے اور دنیا کی تدبیر کا انتظام الٰہی اس لیے پختہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جاننے والا ہے غیب اور ظاہر کا اور ایسا زبردست ہے کہ اس نے تمام چیزوں کو زیر کر رکھا ہے اور وہ انے ایمان والے بندوں پر مہربان ہے پھر فرمایا اللہ وہ ہے جس نے ہر چیز کی پیدائش کو اچھا بنایا اور پیدائش آسمان اور زمین کے بعد آدمی کی پیدائش کا اللہ نے ذکر اس طرح فرمایا کہ انسان کی پیدائش مٹی سے ہے مراد انسان سے حضرت آدم ( علیہ السلام) ہیں جو سب آدمیوں کے باپ ہیں ان کو اول اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا پھر اس کی نسل کو نچوڑے ہوئے ناچیز پانی سے پیدا کیا جو پانی مرد کی پشت اور عورت کے سینہ سے نکلتا ہے پھر اس کو برابر سیدھے قد والا بنایا اور اس میں روح پھونکی اور کان اور آنکھیں اور دل سب کچھ دیا لیکن تم لوگ اللہ تعالیٰ کا تھوڑا شکر کرتے ہو مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کے بدلہ میں تم تھوڑا شکر ادا کرتے ہو اب اللہ تعالیٰ اہل شرک کے آخرت کے جھٹلانے کے باب میں ارشاد فرماتا ہے کہ یہ مشرک لوگ کہتے ہیں کہ جب ہم خاک میں مل جاویں گے تو کیا ہم نئی پیدائش سے پھر جلائے جائیں گے یہ بات عقل سے بعید ہے یہ لوگ اتنا نہیں سمجھتے کہ یہ بات ان کی کم زور طاقت کی نسبت تو بعید ہے لیکن خدا کی قدرت سے یہ بات ہرگز بعید نہیں کیوں کہ جب اس صاحب اور ان میں روح پھونک دنیا کیا مشکل ہے اس کی قدرت تو ایسی ہے کہ وہ جس چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو اس کہ یہ حکم کرتا ہے کہ ہوجا پھر وہ چیز ہوجاتی ہے پھر فرمایا یہ مشرک اپنے پروردگار کے روبرو کھڑے ہونے سے جب منکر ہوں تو ان سے کہہ دیا جائے کہ ملک املوت تمہاری جان کو قبض کرے گا جو کہ تمہارے اوپر تعینات کیا گیا ہے پھر فرمایا تم دوبارہ جلائے جاؤگے اور اپنے پروردگار کے روبرو بعد نئی پیدایش کے اپنے عملوں کی جزاو سزا کے لیے حاضر کئے جاؤگے۔ ترمذی ابوداؤد اور صحیح ابن حبان کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری (رض) کی روایت کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدم (علیہ السلام) کے پتلے کی مٹی اللہ تعالیٰ نے تمام زمین سے لئے ہے اسی اثر سے اولاد آدم میں کوئی گوارا ہے کوئی کالا کوئی نیک مراج ہے کوئی بدمزاج۔ یہ حدیث وبداخلق الا نسان من طین کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ منکرین حشر تو بغیر ملونی کے خالص مصی کے پتلوں کے بن جانے اور ان میں روح کے پھونکے جانے کے اللہ تعالیٰ کی قدرت سے باہر گنتے ہیں لیکن اللہ کی قدرت تو وہ ہے کہ اس نے ایک ہی پتلا ایسا بنا دیا جو قیامت تک کے پتلوں کا نمونہ تھا صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ نطفہ چالیس روز تک عورت کے رحم میں ٹھہر کر جما ہوا خون بن جاتا ہے پھر اس خون کو گوشت بن جاتا ہے اور ہڈیاں اس گوشت سے بن کر ان ہڈیوں پر گوشت کا غلاف چڑہا دیا جاتا ہے غرض چار ساڑھے چار مہینے میں یہ سب کچھ ہو کر پتلا تیار ہوجاتا ہے اور پھر اس میں اللہ کے حکم سے جان پڑجاتی ہے۔ ان آیتوں میں اولادآدم کی پیدائش کا جو ذکر ہے۔ یہ حدیث گویا اس کے تفسیر ہے جس سے منکرین حشر سمجھ سکتے ہیں کہ جس صاحب قدرت کی قدرت کہ آگے انسان کی یہ مشکل پیدایش کچھ چیز نہ تھی اس کے قدرت کے آگے حشر کے دن مٹی کے پیتے بنا کر ان میں روح کا پھونک دنیا کیا مشکل ہے۔ مسند امام احمد کے حوالہ سے حضرت عائشہ (رض) کی معتبر روایت ایک جگہ گذر چکی ١ ؎ ہے (١ ؎ بحوالہ مشکوۃ کتاب الجنائز) کہ منکر نکیر کے سوال جواب کے بعد نیک آدمی کو اس کا جنت میں ٹھکانہ دکھا کر اللہ کے فرشتے یہ کہہ دیتے ہیں کہ اس ٹھکانے میں رہنے کے لیے تجھ کو قیامت کے دن دوبارہ زندہ کیا جائے گا اسی طرح بد آدمی کو دوزخ کا ٹھکانہ دکھا کر یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ قیامت کے دن تجھ کو اس ٹھکانہ میں جانا پڑھ گے اور پھر ایسے شخص پر عذاب قبر شروع ہوجاتا ہے۔ اس حدیث سے تم الی ربکم ترجعون کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ منکریں حشر کو اللہ تعالیٰ کے روبرو تو قیامت کے دن کھڑا ہونا پڑے گا چناچہ ابوہریرہ (رض) کی معتبر روایت ترمذی کے حوالہ سے اور معاذبن جبل (رض) کی معتبر روایت مسند بزار اور طبرانی کے حوالہ سے اس باب میں ایک جگہ از چکی ہے لیکن حشر کے پہلے بھی ان لوگوں کو مرنے کے ساتھ ہی حشر کا نتیجہ معلوم ہوجاتا ہے :

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(32:6) ذلک۔ یہ۔ یہی۔ ذلک علم الغیب والشھادۃ العزیز الرحیم۔ یہ ہے (یعنی ان خوبیوں کا مالک (جو اوپر بیان ہوئیں) وہ عالم الغیب الشہادۃ العزیز الرحیم ۔ جو غیب اور ظاہر کا جاننے والا۔ سب پر غالب اور بڑا رحم کرنے والا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

6:۔ ذالک عالم الغیب الخ۔ اللہ تعالیٰ جس طرح خالق کائنات اور مدبر عالم ہے اسی طرح عالم الغیب بھی وہی ہے الذی احسن الخ اس نے ہر چیز کو حکمت و اتقان کے ساتھ بنایا اور کوئی چیز بھی حکمت و مصلحت سے خالی نہیں اور اس کی مخلوقات میں سے کوئی چیز بھی خوبی سے خالی نہیں و معنی احسن حسن لانہ ما من شیء خلقہ الا وھو مرتب علی ما تقتضیہ الحکمۃ فالمکلوقات کلہا حسنۃ الخ (بحر ج 7 ص 199) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

6۔ وہ اللہ تعالیٰ آسمان سے لیکر زمین تک جتنے امور ہیں ہر کام اور ہر امر کی تدبیر کرتا ہے پھر ہر امر اور ہر ایک کام ایک ایسے دن میں اسی کی حضور اور اسی کی بارگاہ میں پہنچ جاتا ہے جس دن کی مقدار تمہارے شمار سے ہزار سال ہوتی ہے۔ یعنی ہر ایک اہم کام اور اس کے انتظامات کے متعلق اوپر سے حکم اترتا ہے اور جملہ اسباب خواہ وہ حسی ہوں یا معنوی ظاہری ہوں یا باطنی اس کے انصرام اور اتمام میں لگ جاتے ہیں آخر وہ کام اور وہ انتظام ایک مدت تک جاری رہتا ہے پھر زمانہ دراز کے بعد وہ انتظام اٹھ جاتا ہے اور دوسرا رنگ اترتا ہے اور اس کا سلسلہ جاری ہوجاتا ہے۔ بعض مفسرین نے یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ ایک دن یعنی ہزار سال کے کام فرشتوں کو القاء کردیتا ہے اور جب وہ تمام امور سر انجام ہوجاتے ہیں تو آئندہ دن یعنی ہزار سال کے کام الہام فرما دیتا ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آسمان سے زمین پر آتا ہے اور یہاں اس حکم کے متعلق جو کام ہوتے ہیں اس کا اندراج دفتر اعمال میں درج ہونے کی غرض سے فرشتے لے جاتے ہیں چونکہ دین سے آسمان اول پر پہنچنے کی مسافت عام رفتار سے ایک ہزار برس ہے۔ اس لئے فرمایا ثم یعرج الیہ فی یوم کان مقدارہ الف سنۃ بعض حضرات نے اس دن کو قیامت کا دن فرمایا ہے اور مشہور قول یہی ہے اور جو لوگ اس دن کو قیامت کا دن فرماتے ہیں انہوں نے سورة معارج کی آیت خمسین الف سنۃ کا جواب یہ دیا ہے کہ وہ دن لوگوں پر مختلف حالات کے ماتحت گزرے گا ، جیسا کہ احادیث میں آتا ہے کہ بعض مؤمنین و مخلصین پر قیامت ایسی گزرے گی جیسے عصر اور مغرب کے مابین کا وقت اور بعض نافرمانوں کو ہزاروں برس کا دن معلومہو گا اس لئے ایک ہزار اور پچاس ہزار میں کوئی منافات نہیں ۔ ( واللہ اعلم) بہر حال ! فی یوم کو کسی صاحب نے یعرج کے متعلق کیا ہے اور کسی مفسر نے یدبر کے متعلق کیا ہے اسی بناء پر کئی معنی ہوگئے ہیں ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں بڑے بڑے کام کا حکم عرش سے مقرر ہو کر نیچے اترتا ہے سب اسباب اس کے آسمان و زمین سے جمع ہورکر بن جاتا ہے پھر ایک مدت جاری رہتا ہے پھر اٹھ جاتا ہے اللہ کی طرف دوسرا رنگ اترتا ہے جیسے بڑے بڑے پیغمبر جن کا اثر قرنوں تک رہا یا بڑی قوم میں سرداری جو عمروں چلی وہ ہزار برس اللہ کے ہاں ایک دن ہے۔ 12 شاہ صاحب (رح) نے غالبا ً حضرت مجاہد (رض) کا قول اختیار کیا ہے۔