Surat ul Ahzaab

Surah: 33

Verse: 24

سورة الأحزاب

لِّیَجۡزِیَ اللّٰہُ الصّٰدِقِیۡنَ بِصِدۡقِہِمۡ وَ یُعَذِّبَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ اِنۡ شَآءَ اَوۡ یَتُوۡبَ عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿ۚ۲۴﴾

That Allah may reward the truthful for their truth and punish the hypocrites if He wills or accept their repentance. Indeed, Allah is ever Forgiving and Merciful.

تاکہ اللہ تعالٰی سچوں کو ان کی سچائی کا بدلہ دے اور اگر چاہے تو منافقوں کو سزا دے یا ان کی توبہ قبول فرمائے اللہ تعالٰی بڑا ہی بخشنے والا بہت ہی مہربان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لِيَجْزِيَ اللَّهُ الصَّادِقِينَ بِصِدْقِهِمْ وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ إِن شَاء أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ ... That Allah may reward the men of truth for their truth, and punish the hypocrites, if He wills, or accept their repentance by turning to them. Allah tests His servants with fear and shaking so as to tell the evil from the good, as each will be known by his deeds. Although Allah knows what the outcome will be before anything happens, still He does not punish anyone on the basis of His knowledge until they actually do what He knows they will do. As Allah says: وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجَـهِدِينَ مِنكُمْ وَالصَّـبِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَـرَكُمْ And surely, We shall try you till We test those who strive hard and patient, and We shall test your facts. (47:31) This refers to knowing something after it happens, even though Allah knows it before it comes to pass. Allah says: مَّا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُوْمِنِينَ عَلَى مَأ أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ Allah will not leave the believers in the state in which you are now, until He distinguishes the wicked from the good. Nor will Allah disclose to you the secrets of the Unseen. (3:179) Allah says here: لِيَجْزِيَ اللَّهُ الصَّادِقِينَ بِصِدْقِهِمْ ... That Allah may reward the men of truth for their truth, meaning, for their patience in adhering to the covenant they had made with Allah and keeping their promise. وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ (and punish the hypocrites), who are the ones who broke the covenant and went against the commands of Allah, for which they deserve to be punished, but they are subject to His will in this world. If He wills, He will leave them as they are until they meet Him (in the Hereafter), when He will punish them, or if He wills, He will guide them to give up their hypocrisy and to believe and do righteous deeds after they had been wrongdoers and sinners. Since His mercy and kindness towards His creation prevail over His wrath, He says: ... إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا Verily, Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

241یعنی انھیں قبول اسلام کی توفیق دے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لِّيَجْزِيَ اللّٰهُ الصّٰدِقِيْنَ بِصِدْقِهِمْ : جنگ احزاب کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بیان فرمایا، مثلاً مشرکین کے لشکروں کی آمد، مدینہ کا محاصرہ، مسلمانوں پر شدید خوف کا طاری ہونا، منافقوں کے طعنے اور بزدلی کی باتیں، صحابہ کرام (رض) کی ثابت قدمی اور قربانی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بےمثال کردار۔ اب ان سب باتوں کی حکمت بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ چاہتا تو مسلمانوں کو ان پریشانیوں کے بغیر ہی نعمتوں سے نواز دیتا، مگر اس نے یہ سب کچھ اس لیے کیا کہ وہ چاہتا تھا کہ ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کا امتحان لے اور جو لوگ اپنے امتحان میں سچے اور پکے ثابت ہوں انھیں ان کی سچائی کا بدلا دے اور یہی اللہ تعالیٰ کی سنت ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتّٰى نَعْلَمَ الْمُجٰهِدِيْنَ مِنْكُمْ وَالصّٰبِرِيْنَ ۙ وَنَبْلُوَا۟ اَخْبَارَكُمْ ) [ محمد : ٣١ ] ” اور ہم ضرور ہی تمہیں آزمائیں گے، یہاں تک کہ تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اور صبر کرنے والوں کو جان لیں اور تمہارے حالات جانچ لیں۔ “ اور فرمایا : (مَا كَان اللّٰهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلٰي مَآ اَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتّٰى يَمِيْزَ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ ۭ ) [ آل عمران : ١٧٩ ] ” اللہ کبھی ایسا نہیں کہ ایمان والوں کو اس حال پر چھوڑ دے جس پر تم ہو، یہاں تک کہ ناپاک کو پاک سے جدا کر دے۔ “ وَيُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِيْنَ اِنْ شَاۗءَ : اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو منافقین کو عذاب دے، چاہے تو نہ دے، کیونکہ کفر پر مرنے والوں کے لیے عذاب تو وہ خود طے کرچکا ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ چاہے تو عہد توڑنے والے منافقین کو موت سے پہلے توبہ کی توفیق نہ دے اور انھیں ان کے نفاق کی سزا دے اور چاہے تو توبہ کی توفیق دے کر ان کی توبہ قبول فرمائے۔ دلیل اس کی ” اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْهِمْ “ کے الفاظ ہیں۔ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا : یہ اس سوال کا جواب ہے کہ منافق جو آگ کے درک اسفل کے حق دار بن چکے، وہ توبہ کیسے کریں گے ؟ فرمایا، اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے بیحد مغفرت والا، یعنی گناہوں پر پردہ ڈالنے والا اور نہایت رحم والا ہے۔ وہ جس پر چاہے مہربان ہو کر اس کے گناہوں پر پردہ ڈال دے، پھر اپنی مزید رحمت کے ساتھ نواز دے۔ اس میں عہد توڑنے والے منافقین کے لیے توبہ کی ترغیب اور ان کی توبہ کی قبولیت کی بشارت ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لِّيَجْزِيَ اللہُ الصّٰدِقِيْنَ بِصِدْقِہِمْ وَيُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِيْنَ اِنْ شَاۗءَ اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْہِمْ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۝ ٢ ٤ۚ جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا نِّفَاقُ ، وهو الدّخولُ في الشَّرْعِ من بابٍ والخروجُ عنه من بابٍ ، وعلی ذلک نبَّه بقوله : إِنَّ الْمُنافِقِينَ هُمُ الْفاسِقُونَ [ التوبة/ 67] أي : الخارجون من الشَّرْعِ ، وجعل اللَّهُ المنافقین شرّاً من الکافرین . فقال : إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] ونَيْفَقُ السَّرَاوِيلِ معروفٌ نا فقاء الیربوع ہے یعنی جنگلی چوہے کا بل جس کے دود ھا نے ہوں نافق الیر بوع ونفق جنگی چوہیا اپنے مل کے دہانے سے داخل ہو کر دوسرے سے نکل گئی اور اسی سے نفاق ہے جس کے معنی شریعت میں دو رخی اختیار کرنے ( یعنی شریعت میں ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے نکل جانا کے ہیں چناچہ اسی معنی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَالنَّارِ [ النساء/ 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجہ میں ہوں گے ۔ نیفق السراویل پا جامے کا نیفہ شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] . ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔ توب التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار، فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول : فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع : ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة/ 54] ( ت و ب ) التوب ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں ۔ پہلی صورت یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر شرعا توبہ جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور/ 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

یہ واقعہ اس لیے ہوا تاکہ اللہ تعالیٰ عہد پورا کرنے والوں کو ان کے وعدہ پورا کرنے کا صلہ دے اور منافقین اگر حالت نفاق پر مرجائیں تو ان کو سزا دے یا موت سے پہلے انہیں توبہ کی توفیق دے۔ وہ تائب کی مغفرت فرمانے والا اور جو اس حالت میں مرجائے اس پر رحم کرنے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤ { لِّیَجْزِیَ اللّٰہُ الصّٰدِقِیْنَ بِصِدْقِہِمْ } ” تاکہ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کا پورا پورا بدلہ دے “ { وَیُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِیْنَ اِنْ شَآئَ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْہِمْ } ” اور منافقین کو چاہے تو عذاب دے اور چاہے تو ان کی توبہ قبول کرلے ۔ “ یعنی اللہ چاہے تو ان کو توبہ کا موقع دے دے۔ { اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا } ” یقینا اللہ بہت بخشنے والا ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔ “ اس آیت سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اس وقت (٥ ہجری) تک منافقین کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا تھا۔ لیکن جب یہ مہلت ختم ہوگئی تو ان کے متعلق یہ فیصلہ سنا دیا گیا : { اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَہُمْ نَصِیْرًا } ( النساء) ” یقینا منافقین آگ کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے ‘ اور تم نہ پائو گے ان کے لیے کوئی مدد گار۔ “ بلکہ غزوہ تبوک کی مہم کے دوران ان کے کردار اور رویے ّکے سبب سورة التوبہ میں ان کے بارے میں آخری فیصلہ بایں الفاظ فرما دیا گیا : { اِسْتَغْفِرْ لَہُمْ اَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَہُمْ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ } ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ ان کے لیے استغفار کریں یا ان کے لیے استغفار نہ کریں (ان کے حق میں برابر ہے) ‘ اگر آپ ستر ّمرتبہ بھی ان کے لیے استغفار کریں گے تب بھی اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں فرمائے گا۔ یہ اس لیے کہ یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفر کرچکے ہیں ‘ اور اللہ ایسے فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

20: یعنی جو منافق سچی توبہ کرلیں ان کی توبہ قبول کرلے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(33:24) لیجزی۔ لام تعلیل کا ہے یجزی مضارع کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے منصوب بوجہ عمل لام۔ جزاء (باب ضرب) تاکہ وہ جزا دے۔ بدلہ دے۔ اس سے قبل وقع جمیع ماوقع (یہ سب کچھ اس لئے وقوع پذیر ہوا) مقدر ہے۔ الدقین : ای الذین صدقوا ما عاھدوا اللہ علیہ۔ جنہوں نے اللہ کے ساتھ اپنا کیا ہوا وعدہ پورا کردیا۔ بصدقہم۔ باء سببیہ ہے۔ صدقہم مضاف مضاف الیہ۔ ان کا اپنے عہد کو پورا کر دکھانے کا فعل۔ یعذب مضارع واحد مذکر غائب۔ منصوب بوجہ عمل لام تعلیل۔ تاکہ وہ عذاب دیوے۔ او یتوب علیہم۔ یا ان کو معاف کردے۔ تاب یتوب توبا (باب نصر سے مصدر اگر الیٰ کے صلہ کے ساتھ ہو تو معنی ہوں گے کہ بندے کا اپنے گناہوں سے روگردانی کرکے اللہ کی طرف متوجہ ہونا۔ اور اگر علی کے صلہ کے ساتھ ہو تو معنی ہوگا اللہ تعالیٰ کا کسی کے گناہ معاف کرکے اس کو اپنے فضل و کرم سے نوازنا۔ غفورا (بڑا معاف کرنے والا) ۔ رحیما (نہایت رحم والا) منصوب بوجہ خبر کان کے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13 یعنی غزوہ احزاب کے موقع پر کفار کی اتنی بی جمعیت مدینہ پر اس لئے حملہ آور ہوئی کہ اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ مسلمانوں کا امتحان لے اور جو لوگ اپنے امتحان میں پہنچے اور پکے ثابت ہوں انہیں ان کی سچائی کا بدلہ دے اور۔۔۔۔ ( قرطبی وغیرہ) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لیجزی اللہ الصدقین ۔۔۔۔۔۔ کان غفورا رحیما (22) “۔ قرآن کریم میں واقعات و حادثات پر ایسا تبصرہ آتا رہتا ہے۔ مقصد یہ بتانا ہوتا ہے کہ تمام معاملات اللہ کے اختیار میں ہیں۔ ان واقعات کی حکمت بھی بتا دی جاتی ہے کہ کوئی واقعہ عبث یا یونہی پیش نہیں آجاتا۔ ہر واقعہ حکمت الہیہ کا حصہ ہوتا ہے اور مقررہ وقت پر آتا ہے۔ اس کے پیچھے بامقصد تدبیر ہوتی ہے اور اس کے مقررہ نتائج نکلتے ہیں۔ اللہ کے بندوں کے لئے رحمت اور فضل اس میں عیاں ہوتا ہے اور یہ جان لینا چاہئے کہ اللہ کی رحمت اور اس کا فضل ہمیشہ عیاں ہوتا ہے۔ ان اللہ کان غفورا رحیما (33: 24) ” بیشک اللہ غفور و رحیم ہے “۔ اور یہ عظیم واقعہ اس پر ختم ہوتا ہے کہ مومنین کا اپنے رب کے بارے میں جو یقین تھا وہ درست ثابت ہوا اور منافقین اور افواہیں پھیلانے والے غلط خیالات لیے ہوئے تھے۔ غرض ایمانی اقدار آخر کار کامیاب رہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(لِّیَجْزِیَ اللّٰہُ الصّٰدِقِیْنَ بِصِدْقِھِمْ ) (تاکہ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کا بدلہ دے) یعنی غزوہ احزاب کا واقعہ اس لیے ہوا کہ اللہ تعالیٰ سچے اور مخلص مسلمانوں کو ان کے سچ کا بدلہ دے۔ (وَیُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِیْنَ اِنْ شَآءَ ) (اور چاہے تو منافقین کو سزا دے) (اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْھِمْ ) (یا ان کو توبہ کی توفیق دے اور وہ توبہ کرکے مسلمان ہوجائیں اور زمانہ کفر میں جو انہوں نے حرکت کی وہ معاف ہوجائے (اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا) (بلاشبہ اللہ غفور ہے رحیم ہے۔ ) فائدہ : (مَنْ قَضٰی نَحْبَہٗ ) ایک ترجمہ تو وہی ہے جو اوپر ذکر کیا ہے کہ اپنی نذر پوری کردی۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ لفظ بطور استعارہ موت کے معنی میں آتا ہے اور مطلب یہ ہے کہ اپنے وعدہ کے مطابق کام کرکے دنیا سے چلے گئے، یہ دوسرا معنی مراد لینے میں بھی مطلب وہی نکلتا ہے کہ وہ اپنا کام کر گزرے اور دنیا سے چلے گئے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

31:۔ لیجزی الخ، حضرت شیخ نے فرمایا لام عاقبت کا ہے یعنی عاقبت یہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ مخلصین کو ایفائے عہد اور ثابت قدمی کی جزا دے اور اگر انہیں عذاب نہ دینا چاہے تو ان کو توبہ کی توفیق دے اور ان کی توبہ قبول فرما لے کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسا مہربان ہے کہ جو سچی توبہ کرے اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے ای ان ساء ان یعذبھم ای لم یوفقھم للتوبۃ وان لم یشا ان یعبھم تاب علیہم قبل الموت (قرطبی ج 14 ص 160) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

24۔ یہ واقعہ اس لئے ہوتا کہ اللہ سچوں کو ان کے سچ کا صلہ عنایت فرمایئے اور منافقوں کو اگر چاہے تو عذاب کرے یاچا ہے تو ان کو توبہ کی توفیق عنایت فرمائے اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے یعنی کامل مومنوں نے اپنی بات پوری کر دکھائی ۔ جیسے انس بن نضر (رض) اور انکے رفقاء اور جن لوگوں نے عہد نہیں کیا تھا وہ بھی ثابت قدم رہے یہ مطلب نہیں کہ عہد والوں نے تو سچائی دکھائی اور عہد نہ کرنے والوں نے ثابت قدمی نہیں دکھائی اور معاذ اللہ منافوں کی طرح عہد شکنی کے مرتکب ہوئے ، پھر فرمایا ان عہد کرنیوالوں کی دو قسمیں ہیں کچھ تو اپنی منت اور اپنا ذمہ پورا کرچکے ہیں یعنی انہوں نے جنگ بدر اور جنگ احد میں جام شہادت نوش فرمائے اور شہید ہوگئے۔ جیسے حضرت حمزہ اور مصعب اور انس بن نضر (رض) اور انکے رفقاء اور بعض وہ ہیں جو شہادت کی موت کے منتظر ہیں اور اپنی نیت اور اپنے ارادے اور اپنے عہد میں ذرا سی بھی تبدیلی نہ کی اور یہ واقعہ اس لئے ہوا کہ کامل مومنین منافقوں سے ممتیز ہوجائیں اور اللہ تعالیٰ سچوں کو ان کا سچ کا صلہ عطا فرمائے اور منافقوں کو مہلت دے اور ان کا انجام کے موافق ان کو جزا دے اگر کفر و نفاق پر خاتمہ ہو تو ویسی سزادے اور اگر چاہے تو ان پر توجہ فرمائے اور توجہ کی توفیق دے کر ان کا انجام بخیر کر دے۔ بہر حال ! وہ غفور ہے رحیم ہے اور اس سے بہترہی امید کی جاسکتی ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ذمہ پورا کرچکا یعنی جہاد ہی میں جان دے چکا جیسے شہداء بدر اور احد اور راہ دیکھتا یعنی اور اصحاب جو جہاد پر مستعد ہیں موت کی راہ دیکھتے ہیں لیکن رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ طلحہ (رض) ان میں ہے جو شہید ہوچکے ۔ 12 یہ طلحہ کی خصویت ہے چونکہ اپنے ہاتھ کو انہوں نے ڈھال بنایا تھا پیغمبر کیلئے ان کا ہاتھ مثل ہوگیا تھا اس لئے ان کو یہ فضلیت حاصل ہوئی۔