Surat ul Ahzaab

Surah: 33

Verse: 29

سورة الأحزاب

وَ اِنۡ کُنۡـتُنَّ تُرِدۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ فَاِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلۡمُحۡسِنٰتِ مِنۡکُنَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿۲۹﴾

But if you should desire Allah and His Messenger and the home of the Hereafter - then indeed, Allah has prepared for the doers of good among you a great reward."

اور اگر تمہاری مراد اللہ اور اس کا رسول اور آخرت کا گھر ہے تو ( یقین مانو کہ ) تم میں سے نیک کام کرنے والیوں کے لئے اللہ تعالٰی نے بہت زبردست اجر رکھ چھوڑے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

O Prophet! Say to your wives: "If you desire the life of this world, and its glitter, then come! I will make a provision for you and set you free in a handsome manner.' "But if you desire Allah and His Messenger, and the Home of the Hereafter, then verily, Allah has prepared for the doers of good among you an enormous reward." I said to him, "Concerning what do I need to consult my parents I choose Allah and His Messenger and the Home of the Hereafter." He also narrated it without a chain of narrators, and added, "She said, then all the wives of the Prophet did the same as I." Imam Ahmad recorded that A'ishah, may Allah be pleased with her, said: "The Messenger of Allah gave us the choice, and we chose him, so giving us that choice was not regarded as divorce." It was recorded by (Al-Bukhari and Muslim) from the Hadith of Al-A`mash. Imam Ahmad recorded that Jabir, may Allah be pleased with him, said: "Abu Bakr, may Allah be pleased with him, came to ask permission to see the Messenger of Allah and the people were sitting at his door, and the Prophet was sitting, but he did not give him permission. Then Umar, may Allah be pleased with him, came and asked permission to see him, but he did not give him permission. Then he gave Abu Bakr and Umar, may Allah be pleased with them both, permission, and they entered. The Prophet was sitting with his wives around him, and he was silent. Umar, may Allah be pleased with him, said, `I will tell the Prophet something to make him smile.' Umar, may Allah be pleased with him, said, `O Messenger of Allah, if only you had seen the daughter of Zayd -- the wife of Umar -- asking me to spend on her just now; I broke her neck!' The Messenger of Allah smiled so broadly that his molars could be seen, and he said, هُنَّ حَوْلِي يَسْأَلْنَنِي النَّفَقَة (They are around me asking me to spend on them). Abu Bakr, may Allah be pleased with him, got up to deal with A'ishah; and Umar, may Allah be pleased with him, got up to deal with Hafsah, and both of them were saying, `You are asking the Prophet for that which he does not have!' But the Messenger of Allah stopped them, and they (his wives) said, `By Allah, after this we will not ask the Messenger of Allah for anything that he does not have.' Then Allah revealed the Ayah telling him to give them the choice, and he started with A'ishah, may Allah be pleased with her. He said, إِنِّي أَذْكُرُ لَكِ أَمْرًا مَا أُحِبُّ أَنْ تَعْجَلِي فِيهِ حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْك I am going to tell you something, and I would like you not to hasten to respond until you consult your parents. She said, `What is it.' He recited to her: يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لاَِّزْوَاجِكَ (O Prophet! Say to your wives)... A'ishah, may Allah be pleased with her, said, `Do I need to consult my parents concerning you I choose Allah and His Messenger, but I ask you not to tell of my choice to your other wives.' He said: إِنَّ اللهَ تَعَالَى لَمْ يَبْعَثْنِي مُعَنِّفًا وَلَكِنْ بَعَثَنِي مُعَلِّمًا مُيَسِّرًا لاَ تَسْأَلُنِي امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ عَمَّا اخْتَرْتِ إِلاَّ أَخْبَرْتُهَا Allah did not send me to be harsh, but He sent me to teach in a gentle and easy manner. If any of them asks me what your decision was, I will tell her." This was also recorded by Muslim, but not Al-Bukhari; An-Nasa'i also recorded it. Ikrimah said: "At that time he was married to nine women, five of them were from Quraysh -- A'ishah, Hafsah. Umm Habibah, Sawdah and Umm Salamah, (may Allah be pleased with them). And he was also married to Safiyyah bint Huyay An-Nadariyyah, Maymunah bint Al-Harith Al-Hilaliyyah, Zaynab bint Jahsh Al-Asadiyyah and Juwayriyyah bint Al-Harith Al-Mustalaqiyyah, (may Allah be pleased with all of them).

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

291فتوحات کے نتیجے میں جب مسلمانوں کی حالت پہلے کی نسبت کچھ بہتر ہوگئی تو انصار اور مہاجرین کی عورتوں کو دیکھ کر ازواج مطہرات نے بھی نان نَفَقَہ میں اضافے کا مطالبہ کردیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ نہایت سادگی پسند تھے، اس لئے ازواج مطہرات کے اس مطالبے پر سخت کبیدہ خاطر ہوئے اور بیویوں سے علیحدگی اختیار کرلی جو ایک مہینہ جاری رہی بالآخر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی۔ اس کے بعد سب سے پہلے آپ نے حضرت عائشہ کو یہ آیت سنا کر انھیں اختیار دیا تاہم انھیں کہا کہ اپنے طور پر فیصلہ کرنے کی بجائے اپنے والدین سے مشورے کے بعد کوئی اقدام کرنا۔ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں آپ کے بارے میں مشورہ کروں ؟ بلکہ میں اللہ اور رسول کو پسند کرتی ہوں یہی بات دیگر ازواج مطہرات (رض) نے بھی کہی اور کسی نے بھی آپ کو چھوڑ کر دنیا کے عیش وآرام کو ترجیح نہیں دی۔ اس وقت رسول اللہ کے حبالہ عقد میں9بیویاں تھیں، پانچ قریش میں سے تھیں۔ حضرت عائشہ، حفصہ، ام حبیبہ، سودہ اور ام سلمہ (رض) اور چار ان کے علاوہ، یعنی حضرت صفیہ، زینب اور جویریہ تھیں۔ بعض لوگ مرد کی طرف سے اختیار علیحدگی کو طلاق قرار دیتے ہیں، لیکن یہ بات صحیح نہیں، صحیح بات یہ ہے کہ اختیار علیحدگی کے بعد اگر عورت علیحدگی کو پسند کرلے، پھر تو یقینا طلاق ہوجائے گی (اور یہ طلاق بھی رجعی ہوگی نہ کہ بائنہ، جیسا کہ بعض علماء کا مسلک ہے) تاہم اگر عورت علیحدگی نہیں کرتی تو پھر طلاق نہیں ہوگی، جیسے ازواج مطہرات (رض) نے علیحدگی کی بجائے حرم رسول میں ہی رہنا پسند کیا تو اس اختیار کو طلاق شمار نہیں کیا گیا (صحیح بخاری)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٤١] آیت تخییر :۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مکمل اختیار دیا تھا کہ آپ چاہیں تو ایسی اجتماعی طور پر خرچ کے اضافہ کا مطالبہ کرنے اور اس طرح دباؤ ڈالنے والی بیویوں کو طلاق دے کر فارغ کردیں اور چاہیں تو اپنے پاس رکھیں۔ بشرطیکہ آئندہ وہ آپ کو اس سلسلہ میں پریشان نہ کریں۔ آپ نے ایک ماہ کے ایلاء (بیویوں سے الگ رہنے) کا فیصلہ کیا تھا۔ انتیس دن گزرنے کے بعد آپ مسجد کے بالا خانہ سے واپس اپنے گھر تشریف لائے سب سے پہلے سیدہ عائشہ (رض) ہی کے گھر آئے۔ پھر جس طرح آپ نے اس اختیار کو استعمال کیا وہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے : خ بیویوں کا جواب :۔ ١۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ : جب آپ کو حکم ہوا کہ وہ اپنی بیویوں کو اختیار دیجئے (خواہ وہ آپ کے ساتھ رہنا چاہیں یا طلاق لے لیں) تو آپ نے سب سے پہلے مجھ سے پوچھا اور فرمایا : عائشہ (رض) ! میں تمہیں ایک بات کہتا ہوں مگر تم اس میں جلدی نہ کرنا بلکہ اپنے والدین سے مشورہ کرکے جواب دینا۔ اور آپ یہ بات خوب جانتے تھے کہ میرے والدین آپ سے جدا ہونے کا کبھی مشورہ نہ دیں گے۔ چناچہ آپ نے فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : (يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا 28؀) 33 ۔ الأحزاب :28) (تک آپ نے پڑھا) میں نے کہا : && میں اس معاملہ میں اپنے والدین سے کیا مشورہ کروں گی میں تو خود (بہرحال) اللہ، اس کے رسول اور آخرت کی بھلائی چاہتی ہوں && پھر آپ نے یہی بات دوسری بیویوں سے پوچھی تو سب نے وہی جواب دیا جو میں نے دیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ : میں نے آپ سے کہا کہ آپ نے تو ایک ماہ کا کہا تھا اور آج انتیس دن ہوئے ہیں۔ آپ نے اپنی انگلیوں کے اشارے سے بتایا کہ مہینہ تیس دن کا بھی ہوتا ہے اور انتیس دن کا بھی۔ (گویا وہ مہینہ انتیس دن کا تھا) (بخاری۔ کتاب الصوم۔ باب قول النبی اذا رأیتم الہلال فصوموا، مسلم کتاب الصیام۔ باب وجوب صوم رمضان لرؤیۃ الھلال۔۔ )

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۔۔ : اور دوسری یہ کہ اگر تم اللہ کی رضا اور اس کے رسول کی رضا اور آخرت کے گھر کی طلب گار ہو اور اس کے لیے تنگی ترشی کی زندگی پر صبر کرسکتی ہو تو تم میں سے نیکی کرنے والیوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ : شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں : ” یہ جو فرمایا ” لِلْمُحْسِنٰتِ “ (جو نیکی پر رہیں) تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج سب نیک ہی رہیں، مگر حق تعالیٰ صاف خوش خبری کسی کو نہیں دیتا، تاکہ نڈر نہ ہوجائے، خاتمہ کا ڈر لگا رہے۔ “ اَجْرًا عَظِيْمًا : مفسر آلوسی نے فرمایا : ” جب ازواج مطہرات کو اختیار دیا گیا اور انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کو اور دار آخرت کو پسند کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے اس پر ان کی تعریف فرمائی اور فرمایا : (لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاۗءُ مِنْۢ بَعْدُ وَلَآ اَنْ تَــبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّلَوْ اَعْجَـبَكَ حُسْنُهُنَّ ) [ الأحزاب : ٥٢ ] ” تیرے لیے اس کے بعد عورتیں حلال نہیں اور نہ یہ کہ تو ان کے بدلے کوئی اور بیویاں کرلے، اگرچہ ان کا حسن تجھے اچھا لگے۔ “ (روح المعانی) ان بیویوں سے مراد وہ نو بیویاں ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا۔ اس سے بڑا اجر کیا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری اور عمل صالح کی صورت میں دوہرے اجر کی بشارت دی، پھر اس کے صلے میں انھیں زندگی بھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجیت کا شرف حاصل رہا اور جنت میں بھی وہ آپ کے ساتھ ہوں گی۔ [ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْھُنَّ وَ أَرْضَاھُنَّ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَۃَ فَاِنَّ اللہَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ اَجْرًا عَظِيْمًا۝ ٢٩ رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ دار الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ، أي : الجنة، ( د و ر ) الدار ۔ منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ آخرت آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود/ 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام/ 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا «1» [يوسف/ 109] . وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . و «أُخَر» معدول عن تقدیر ما فيه الألف واللام، ولیس له نظیر في کلامهم، فإنّ أفعل من کذا، - إمّا أن يذكر معه «من» لفظا أو تقدیرا، فلا يثنّى ولا يجمع ولا يؤنّث . - وإمّا أن يحذف منه «من» فيدخل عليه الألف واللام فيثنّى ويجمع . وهذه اللفظة من بين أخواتها جوّز فيها ذلک من غير الألف واللام . اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا { وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ } ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ { أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ } ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ { وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ } ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ } ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ یہ اصل میں ولاجر دار الحیاۃ الاخرۃ ہے ( اور دار کا لفظ الحیاۃ الاخرۃ کی طرف مضاف ہے ) اور اخر ( جمع الاخریٰ ) کا لفظ الاخر ( معرف بلام ) سے معدول ہے اور کلام عرب میں اس کی دوسری نظیر نہیں ہے کیونکہ افعل من کذا ( یعنی صیغہ تفصیل ) کے ساتھ اگر لفظ من لفظا یا تقدیرا مذکورہ ہو تو نہ اس کا تثنیہ ہوتا اور نہ جمع اور نہ ہی تانیث آتی ہے اور اس کا تثنیہ جمع دونوں آسکتے ہیں لیکن لفظ آخر میں اس کے نظائر کے برعکس الف لام کے بغیر اس کے استعمال کو جائز سمجھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ الاخر سے معدول ہے ۔ عد ( اعداد) والإِعْدادُ مِنَ العَدِّ كالإسقاء من السَّقْيِ ، فإذا قيل : أَعْدَدْتُ هذا لك، أي : جعلته بحیث تَعُدُّهُ وتتناوله بحسب حاجتک إليه . قال تعالی: وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال/ 60] ، وقوله : أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء/ 18] ، وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان/ 11] ، وقوله : وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] ، قيل : هو منه، وقوله : فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ البقرة/ 184] ، أي : عدد ما قد فاته، وقوله : وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة/ 185] ، أي : عِدَّةَ الشّهر، وقوله : أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 184] ، فإشارة إلى شهر رمضان . وقوله : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 203] ، فهي ثلاثة أيّام بعد النّحر، والمعلومات عشر ذي الحجّة . وعند بعض الفقهاء : المَعْدُودَاتُ يومُ النّحر ويومان بعده «1» ، فعلی هذا يوم النّحر يكون من المَعْدُودَاتِ والمعلومات، والعِدَادُ : الوقت الذي يُعَدُّ لمعاودة الوجع، وقال عليه الصلاة والسلام :«ما زالت أكلة خيبر تُعَادُّنِي» «2» وعِدَّانُ الشیءِ : عهده وزمانه . ( ع د د ) العدد الاعداد تیار کرنا مہیا کرنا یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقاء اور اعددت ھذا لک کے منعی ہیں کہ یہ چیز میں نے تمہارے لئے تیار کردی ہے کہ تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو اس سے حسب ضرورت لے سکتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال/ 60] اور جہاں تک ہوسکے ( فوج کی جمیعت سے ) ان کے ( مقابلے کے لئے مستعد رہو ۔ اور جو ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں ۔ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء/ 18] ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان/ 11] اور ہم نے جھٹلا نے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اعتدت بھی اسی ( عد ) سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة/ 185] تم روزوں کا شمار پورا کرلو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ماہ رمضان کی گنتی پوری کرلو ۔ أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 184] گنتی کے چند روز میں ماہ رمضان کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 203] اور گنتی کے دنوں میں خدا کو یاد کرو ۔ میں سے عید قربان کے بعد کے تین دن مراد ہیں اور معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ایام معدودۃ سے یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن مراد ہیں اس صورت میں یوم النحر بھی ان تین دنوں میں شامل ہوگا ۔ العداد اس مقرر وقت کو کہتے ہیں جس میں بیماری کا دورہ پڑتا ہو ۔ آنحضرت نے فرمایا مازالت امۃ خیبر تعادنی کہ خیبر کے دن جو مسموم کھانا میں نے کھایا تھا اس کی زہر بار بار عود کرتی رہی ہے عد ان الشئی کے معنی کسی چیز کے موسم یا زمانہ کے ہیں احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔ أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ( ا ج ر ) الاجروالاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دینوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا جر تو خدا کے ذمے ہے ۔ عظیم وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] ، ( ع ظ م ) العظم عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو پسند کرتی اور جنت کو چاہتی ہو تو اللہ تعالیٰ نے نیک کرداروں کے لیے جنت میں اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٩ { وَاِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَۃَ فَاِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْکُنَّ اَجْرًا عَظِیْمًا } ” اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کی طالب ہو تو (اطمینان رکھو کہ) اللہ نے تم جیسی نیک خواتین کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔ “ اب آپ لوگوں کی مرضی ہے کہ دنیا اور اس کی آسائشیں حاصل کرنے کا راستہ اختیار کر لویا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہتے ہوئے فقر و فاقہ کی زندگی قبول کرلو۔ اس آیت کے نزول کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکاح میں چار بیویاں تھیں۔ حضرت سودہ ‘ حضرت عائشہ ‘ حضرت حفصہ اور حضرت اُمّ سلمہ (رض) ۔ ابھی حضرت زینب (رض) سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نکاح نہیں ہوا تھا۔ روایات کے مطابق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب سے پہلے یہ بات حضرت عائشہ (رض) کے سامنے رکھی اور ان سے فرمایا کہ اس معاملے میں اپنے والدین کی رائے لے لو ‘ پھر فیصلہ کرو۔ انہوں نے بلاتوقف عرض کیا : ” کیا یہ معاملہ میں اپنے والدین سے پوچھوں ؟ میں تو اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کی طالب ہوں۔ “ اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باقی ازواجِ مطہرات (رض) میں سے ایک ایک کے پاس جا کر یہی بات فرمائی اور ہر ایک نے وہی جواب دیا جو حضرت عائشہ (رض) نے دیا تھا۔ اور یوں سب ازواجِ مطہرات (رض) اپنے مطالبات سے دستبردار ہوگئیں۔ اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمام ازواج مطہرات (رض) نے اپنی زندگیاں اس طرح گزار دیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کسی ایک گھر میں بھی متواتر دو وقت کا چولہا کبھی گرم نہ ہوا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

42 At the time when this verse was sent down, the Holy Prophct had four wives with him: Hadrat Saudah, Hadrat 'A'ishah, Hadrat Hafsah and Hadrat Umm Salamah. He had not yet married Hadrat Zainab. (Ibn `Arabia Ahkam ai-Qur an. Egyptian Edition, 1958, vol. III, pp. 512-13). When this verse was revealed, he first spoke to Hadrat 'A'ishah, and said: "I ask you a thing; do not be hasty in answering; consult your parents, then decide." Then he told her of Allah's Command and recited this verse. She replied: "Should I consult my parents about this?-I seek Allah and His Messenger and the Hereafter. After this he went to each of his wives and asked the same thing and each one gave the same reply as had been given by Hadrat `A'ishah. (Musnad Ahmad, Muslim, Nasa'i). This is termed takhyir, i. e. to give the wife the option to decide for herself whether she would stay in wedlock or would separate from the husband. This was obligatory for the Holy Prophet because he had been commanded by Allah to offer such an option to his wives. If a lady from among the holy wives had opted to separate she would not have separated automatically but would have been separated by the Holy Prophet, as is clear from the words: " . . . I shall give you of these and send you off gracefully." But the Holy Prophet would certainly have separt red her because as a Prophct it would not behove him not to honour the word. After divorce apparently the lady would have stood excluded from the category of the holy wives, and she would not be forbidden to any other Muslim; for she would have chosen divorce from the Holy Prophet only for the sake of the world and its adornments of which she had been given the choice, and obviously the option could not be exercised in case she was forbidden to re-marry. On the other hand, the intention of the verse also seems that the Holy Prophet was not left with any authority to divorce the wives who chose Allah and His Messenger and the Hereafter in preference to the world. For takhyir had only two sides: if a wife opted for the world, she would be divorced; if she opted for Allah and His Messenger and the Hereafter, she would not be divorced. Obviously, if a lady chose one alternative, the other would become forbidden in her case by itself. In Islamic Law takhyir. in fact, amounts to delegation of the right to obtain divorce. The husband himself gives the wife the choice to stay in wedlock with him or be separated. Here are briefly the injunctions which the jurists have derived from the Qur'an and Sunnah in this regard: (1) Once a husband has given this choice to a wife, he can neither withdraw it nor stop her from exercising it. However, it is not necessary that the woman must exercise it. She may choose to remain in wedlock with the husband, or may prefer to separate, or may opt nothing and let the right of divorce be annulled. (2) There are two conditions of this choice being transferred to the woman: (a) The husband should have given her the right of divorce in clear words, or if there was no clear mention of the divorce, he should have had the intention of giving this right; e.g. if he says, "You have the choice" or "your business is in your own hand," such indirect words will not transfer the right of divorce to the woman without the intention of the husband. If the woman claims it and the husband states on oath that he had no intention of giving the right of divorce, his statement will be admitted, unless the woman produces evidence to the effect that those words were said during a dispute, or in connection with divorce, because in that context delegation of the right would mean that the husband had the intention of giving the right of divorce. (b) The woman knows that she has been given the right of divorce. If she was absent, she should receive information of this, and if she is present, she should hear the words. Unless she hears the words, or receives the news, the right will not be transferred to her. (3) As to the time limit within which the wife has to exercise her right if the husband gives it her absolutely without specifying any limit, there is a difference of opinion among the jurists. Some jurists have expressed the opinion that the woman can exercise the right at the same sitting at which the husband gave it her; if she leaves the place without making a response, or turns her attention to something else which indicates that she does not want to make a response, she forfeits the right invested in her and her choice no longer remains. This is the opinion of Hadrat `Umar, Hadrat `Uthman, Hadrat Ibn. Mas`ud, Hadrat Jabir bin `Abdullah, `Atta, Jabir bin Zaid, Mujahid, Sha'bi, Nakha`i, Imam Malik, Imam Abu Hanifah, Imam Shafe`i, Imam Auza`i, Sufyan Thauri `and Abu Thaur. The other opinion is that her exercise of the choice is not confined to that sitting but she can exercise it even afterwards. This opinion is held by Hadrat Hasan Basri, Qatadah and Zuhri. (4) If the husband specifies a time limit and says, for instance, "You have the option for a month or a year, or your business is in your own hand for so long," the wife would enjoy the option only for that long. However, if he says, "You can exercise this option as and when you like," her option would be unlimited. (5) If the woman intends to obtain separation, she should express her intention clearly and definitely. Vague words which do not express the intention clearly will have no effect. (6) Legally, the husband can give the option to the waft in three forms: (a) He may say, "Your business is in your own hand;" or (b) he may say: "You have the option; " or (c) "You are divorced if you so please. " The legal consequences of each arc separate as explained below: (a) If the husband has said: "Your business is in your own hand," and the woman responds clearly to the effect that she would opt for separation, it would amount to an irreversible divorce according to the Hanafites. That is, after this the husband will forfeit his right to have her back as his wife. However, they can remarry if they so like after the expiry of the waiting period. And if the husband said, "Your affair is in your own hand to the extent of one divorce," this will be regarded as the first reversible divorce. That is, the husband can take her back as his wife within the waiting-period. But if the husband had the intention of all the three divorces at the time of delegating to the woman the right of divorce, or mentioned this specifically, the woman's exercise of the option in such a case would amount to divorce no matter whether she pronounces divorce thrice on herself or says only once that she has chosen separation or divorced herself. (b) If the husband gives the woman the option to separate with the words: "You have the option," and the woman opts for separation in clear words, it will amount to one reversible divorce according to the Hanafites even if the husband had the intention of giving option for three divorces. However, if the husband has clearly given option for three divorces, the three divorces will take place only on the woman's exercise of the option for divorce. According to Imam Shafe'i, if at the time of giving the option, the husband had the intention of divorce, and the woman opts for separation, it will amount to one reversible divorce. According to Imam Malik, it will amount to three divorces in case the wife had been enjoyed; in case she had not been enjoyed, the husband's claim to have intended only one divorce will be admitted. (c) In case the words "You are divorced if you so please" have been used and the woman has opted for divorce, it will be a reversible divorce and not an irreversible one. (7) If after the husband has given the option for separation, the woman chooses to remain in wedlock, no divorce will take place at all. This is the opinion of Hadrat 'Umar, Hadrat 'Abdullah bin Mas'ud, Hadrat 'A'ishah, Hadrat Abu ad-Darda, Ibn `Abbas and Ibn `Umar, and the same has been adopted by majority of the jurists. When Masruq asked Hadrat `A'ishah about this, she replied: "The Holy Prophet had given his wives the option and they chose to continue to live as his wives. Then, was it deemed to be a divorce?" The opinion of Hadrat `Ali and Zaid bin Thabit that has been reported in this regard is that one reversible divorce will take place. But according to another tradition these two great Companions also held the opinion that no divorce will take place at all.

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :42 اس آیت کے نزول کے وقت حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نکاح میں چار بیویاں تھیں ، حضرت سَودہ رضی اللہ عنہا ، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا ، اور حضرت ام سَلمہ رضی اللہ عنہا ۔ ابھی حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا نکاح نہیں ہوا تھا ۔ ( احکام لابن العربی طبع مصر ۱۹۵۸ عیسوی ، جلد ۳ ، ص ۱۳ ۔ ۱۵۱۲ ) ۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے سب سے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے گفتگو کی اور فرمایا میں تم سے ایک بات کہتا ہوں ، جواب دینے میں جلدی نہ کرنا ، اپنے والدین کی رائے لے لو ، پھر فیصلہ کرو پھر حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ان کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم آیا ہے اور یہ آیت ان کو سنا دی ۔ انھوں نے عرض کیا ، کیا اس معاملہ کو میں اپنے والدین سے پوچھوں ؟میں تو اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کو چاہتی ہوں ۔ اس کے بعد حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم ) باقی ازواج مطہرات میں سے ایک ایک کے ہاں گئے اور ہر ایک سے یہی بات فرمائی ، اور ہر ایک نے وہی جواب دیا جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دیا تھا ۔ مسند احمد ، مسلم ، نَسائی ) اصطلاح میں اس کو تخییر کہتے ہیں ، یعنی بیوی کو اس امر کا اختیار دینا کہ وہ شوہر کے ساتھ رہنے یا اس سے جدا ہو جانے کے درمیان کسی ایک چیز کا خود فیصلہ کر لے ۔ یہ تخییر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر واجب تھی ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو حکم دیا تھا ۔ اگر ازواج مطہرات میں سے کوئی خاتون علیٰحدگی کا پہلو اختیار کرتیں تو آپ سے آپ جدا نہ ہو جاتیں بلکہ حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے جدا کرنے سے ہوتیں ، جیسا کہ آیت کے الفاظ آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کر دوں سے ظاہر ہوتا ہے ۔ لیکن حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر یہ واجب تھا کہ اس صورت میں ان کو جدا کر دیتے ، کیونکہ نبی کی حیثیت سے آپ کا یہ منصب نہ تھا کہ اپنا وعدہ پورا نہ فرماتے ۔ جدا ہو جانے کے بعد بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اُمّہات المومنین کے زمرے سے خارج ہو جاتیں اور ان سے کسی دوسرے مسلمان کا نکاح حرام نہ ہوتا ، کیونکہ وہ دنیا اور اس کی زینت ہی کے لیے تو رسُولِ پاک ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے علیٰحدگی اختیار کرتیں جس کا حق انہیں دیا گیا تھا ، اور ظاہر ہے کہ ان کا یہ مقصد نکاح سے محروم ہو جانے کی صورت میں پورا نہ ہو سکتا تھا ۔ دوسری طرف آیت کا منشا یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن ازواج نے اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کو پسند کر لیا انہیں طلاق دینے کا اختیار حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے باقی نہ رہا ، کیونکہ تخییر کے دو ہی پہلو تھے ۔ ایک یہ کہ دنیا کو اختیار کرتی ہو تو تمہیں جدا کر دیا جائے ۔ دوسرے یہ کہ اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کو اختیار کرتی ہو تو تمہیں جدا نہ کیا جائے ۔ اب ظاہر ہے کہ ان میں سے جو پہلو بھی کوئی خاتون اختیار کرتیں ان کے حق میں دوسرا پہلو آپ سے آپ ممنوع ہو جاتا تھا ۔ اسلامی فقہ میں تخییر دراصل تفویض طلاق کی حیثیت رکھتی ہے ۔ یعنی شوہر اس ذریعہ سے بیوی کو اختیار دے دیتا ہے کہ چاہے تو اس کے نکاح میں رہے ورنہ الگ ہو جائے ۔ اس مسئلہ میں قرآن و سنت سے استنباط کر کے فقہاء نے جو احکام بیان کیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے : ۱ ۔ یہ اختیار ایک دفعہ عورت کو دے دینے کے بعد شوہر نہ تو اسے واپس لے سکتا ہے اور نہ عورت کو اس کے استعمال سے روک سکتا ہے ۔ البتہ عورت کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ وہ اس اختیار کو استعمال ہی کرے ۔ وہ چاہے تو شوہر کے ساتھ رہنے پر رضا مندی ظاہر کر دے ، چاہے علیٰحدگی کا اعلان کر دے ، اور چاہے تو کسی چیز کا اظہار نہ کرے اور اس اختیار کو یونہی ضائع ہو جانے دے ۔ ۲ ۔ اس اختیار کے عورت کی طرف منتقل ہونے کے لیے دو شرطیں ہیں ۔ اول یہ کہ شوہر نے یا تو اسے صریح الفاظ میں طلاق کا اختیار دیا ہو ، یا اگر طلاق کی تصریح نہ کی ہو تو پھر اس کی نیت یہ اختیار دینے کی ہو ۔ مثلاً اگر وہ کہے تجھے اختیار ہے یا تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے ۔ تو اس طرح کے کنایات میں شوہر کی نیت کے بغیر طلاق کا اختیار عورت کی طرف منتقل نہ ہو گا ۔ اگر عورت اس کا دعویٰ کرے اور شوہر بحلف یہ بیان دے کہ اس کی نیت طلاق کا اختیار دینے کی نہ تھی تو شوہر کا بیان قبول کیا جائے گا ۔ اِلّا یہ کہ عورت اس امر کی شہادت پیش کر دے کہ یہ الفاظ ناچاقی اور جھگڑے کی حالت میں ، یا طلاق کی باتیں کرتے ہوئے کہے گئے تھے ، کیونکہ اس سیاق و سباق میں اختیار دینے کے معنی یہی سمجھے جائیں گے کہ شوہر کی نیت طلاق کا اختیار دینے کی تھی ۔ ۔ دوم یہ کہ عورت کو معلوم ہو کہ یہ اختیار اسے دیا گیا ہے ۔ اگر وہ غائب ہو تو اسے اس کی اطلاع ملنی چاہیے ، اور اگر موجود ہو تو اسے یہ الفاظ سننے چاہییں ۔ جب تک وہ سنے نہیں ، یا اسے اس کی خبر نہ پہنچے اختیار اس کی طرف منتقل نہ ہو گا ۔ ۳ ۔ اگر شوہر کسی وقت کی تعیین کے بغیر مطلقاً اس کو اختیار دے تو عورت اس اختیار کو کب تک استعمال کر سکتی ہے ؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ جس نشست میں شوہر اس سے یہ بات کہے اسی نشست میں عورت اپنا اختیار استعمال کر سکتی ہے ۔ اگر وہ کوئی جواب دیے بغیر وہاں سے اٹھ جائے ، یا کسی ایسے کام میں مشغول ہو جائے جو اس بات پر دلالت کرتا ہو کہ وہ جواب نہیں دینا چاہتی ، تو اس کا اختیار باطل ہو جائے گا ۔ یہ رائے حضرت عمر ، حضرت عثمان ، حضرت ابن مسعود ، حضرت جابر بن عبد اللہ ، جابر بن زید ، عطاء ، مجاہر ، شَعبِی ، نَخَعِی ، امام مالک ، امام مالک ، امام ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام اَوزاعی ، سفیان ثَوری اور ابو ثَور رضی اللہ عنہم کی ہے ۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اس کا اختیار اس نشست تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ اس کے بعد بھی اسے استعمال کر سکتی ہے ۔ یہ رائے حضرت حَسَن بصری ، قتَادہ اور زُہْری کی ہے ۔ ٤ ۔ اگر شوہر وقت کی تعیین کر دے ، مثلاً کہے کہ ایک مہینے یا ایک سال تک تجھے اختیار ہے ، یا اتنی مدت تک تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے تو یہ اختیار اسی مدت تک اس کو حاصل رہے گا ۔ البتہ اگر وہ کہے کہ تو جب چاہے اس اختیار کو استعمال کر سکتی ہے تو اس صورت میں اس کا اختیار غیر محدود ہو گا ۔ ۵ ۔ عورت اگر علیٰحدگی اختیار کرنا چاہے تو اسے واضح اور قطعی الفاظ میں اس کا اظہار کرنا چاہیے ۔ مبہم الفاظ جن سے مدعا واضح نہ ہوتا ہو ، مؤثر نہیں ہو سکتے ۔ ٦ ۔ قانوناً شوہر کی طرف سے عورت کو اختیار دینے کے تین صیغے ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ کہے تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے ۔ دوسرے یہ کہ وہ کہے تجھے اختیار ہے تیسرے یہ کہ وہ کہے تجھے طلاق ہے اگر تو چاہے ۔ ان میں سے ہر ایک کے قانونی نتائج الگ الگ ہیں : الف ۔ تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے کے الفاظ اگر شوہر نے کہے ہوں اور عورت اس کے جواب میں کوئی صریح بات ایسی کہے جس سے ظاہر ہو کہ وہ علیٰحدگی اختیار کرتی ہے تو حنفیہ کے نزدیک ایک طلاق بائن پڑ جائے گی ( یعنی اس کے بعد شوہر کو رجوع کا حق نہ ہو گا ، لیکن عدت گزر جانے پر یہ دونوں پھر چاہیں تو باہم نکاح کر سکتے ہیں ) ۔ اور اگر شوہر نے کہا ہو کہ ایک طلاق کی حد تک تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے تو اس صورت میں ایک طلاق رجعی پڑے گی ( یعنی عدت کے اندر شوہر رجوع کر سکتا ہے ) لیکن اگر شوہر نے معاملہ عورت کے ہاتھ میں دیتے ہوئے تین طلاق کی نیت کی ہو ، یا اس کی تصریح کی ہو تو اس صورت میں عورت کا اختیار طلاق ہی کا ہم معنی ہو گا خواہ وہ بصراحت اپنے اوپر تین طلاق وارد کرے یا صرف ایک بار کہے کہ میں نے علیٰحدگی اختیار کی یا اپنے آپ کو طلاق دی ۔ ب ۔ تجھے اختیار ہے کے الفاظ کے ساتھ اگر شوہر نے عورت کو علیٰحدگی کا اختیار دیا ہو اور عورت علیٰحدگی اختیار کرنے کی تصریح کر دے تو حنفیہ کے نزدیک ایک ہی طلاق بائن پڑے گی خواہ شوہر کی نیت تین طلاق کا اختیار دینے کی ہو ، البتہ اگر شوہر کی طرف سے تین طلاق کا اختیار دینے کی تصریح ہو تب عورت کے اختیار طلاق سے تین طلاقیں واقع ہوں گی ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک اگر شوہر نے اختیار دیتے ہوئے طلاق کی نیت کی ہو اور عورت علیٰحدگی اختیار کرے تو ایک طلاق رجعی واقع ہو گی ۔ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک مدخولہ بیوی پر تین طلاقیں پڑ جائیں گی لیکن اگر غیر مدخولہ کے معاملہ میں شوہر ایک طلاق کی نیت کا دعویٰ کرے تو اسے قبول کر لیا جائے گا ۔ ج ۔ تجھے طلاق ہے اگر تو چاہے کہنے کی صورت میں اگر عورت طلاق کا اختیار استعمال کرے تو طلاق رجعی ہو گی نہ کہ بائن ۔ ۷ ۔ اگر مرد کی طرف سے علیٰحدگی کا اختیار دیے جانے کے بعد عورت اسی کی بیوی بن کر رہنے پر اپنی رضا مندی ظاہر کر دے تو کوئی طلاق واقع نہ ہو گی ۔ یہی رائے حضرت عمر ، حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت عائشہ ، حضرت ابو الدرداء ، ابن عباس ، اور ابن عمر رضی اللہ عنہم ، کی ہے اور اسی رائے کو جمہور فقہاء نے اختیار کیا ہے ۔ حضرت عائشہ سے مسروق نے یہ مسئلہ دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا : خیّر رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نساءہ فاخترنہ اکان ذٰلک طلاقاً؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو اختیار دیا تھا اور انہوں نے حضور ہی کے ساتھ رہنا پسند کر لیا تھا ، پھر کیا اسے طلاق شمار کیا گیا ؟ اس معاملہ میں صرف حضرت علی اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کی یہ رائے منقول ہوئی ہے کہ ایک طلاق رجعی واقع ہو گی ۔ لیکن دوسری روایت ان دونوں بزرگوں سے بھی یہی ہے کہ کوئی طلاق واقع نہ ہو گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

23: ان آیت کا پس منظر یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات یوں تو ہر قسم کے سرد و گرم حالات میں بڑی استقامت سے آپ کا ساتھ دیتی آئی تھیں، لیکن جنگ احزاب اور جنگ بنو قریظہ میں فتوحات کے بعد مسلمانوں کو کچھ مالی خوش حالی حاصل ہوئی تو ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ جس تنگی ترشی میں وہ اب تک گذارہ کرتی رہی ہیں، اب اس میں کچھ تبدیلی آنی چاہئے، چنانچہ ایک مرتبہ انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس خیال کا ذکر بھی کردیا، اور یہ مثال بھی دی کہ قیصر و کسری کی بیگمات بڑی سج دھج کے ساتھ رہتی ہیں، ان کی خدمت کے لیے کنیزیں موجود ہیں، اب جبکہ مسلمانوں میں خوشحالی آ چکی ہے، ہمارے نفقے میں بھی اضافہ ہونا چاہئے۔ اگرچہ ازواج مطہرات کے دل میں مالی وسعت کی خواہش پیدا ہونا کوئی گناہ کی بات تھی، لیکن اول تو پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج ہونے کی حیثیت سے یہ مطالبہ ان کے شایان شان نہیں سمجھا گیا۔ دوسرے شاید بادشاہوں کی بیگمات کی مثال دینے سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف پہنچی کہ وہ اپنے آپ کو ان بیگمات پر قیاس کر رہی ہیں۔ اس لے قرآن کریم کی ان آیات نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت دی کہ آپ ازواج مطہرات سے یہ بات اچھی طرح صاف کرلیں کہ اگر پیغمبر کے ساتھ رہنا ہے تو اپنے سوچنے کا یہ انداز بدلنا ہوگا، دوسری عورتوں کی طرح ان کا مطمح نظر دنیا کی سج دھج نہیں ہونی چاہئے، بلکہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اور اس کے نتیجے میں آخرت کی بھلائی ہونی چاہئے۔ اور ساتھی ہی ان پر یہ بات بھی واضح کردی گئی کہ اگر وہ دنیا کی زیب و زینت کو پسند کریں گی تو پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ان کو کھلا اختیار ہے کہ وہ آپ سے علیحدگی اختیار کرلیں۔ اس صورت میں بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں کسی تلخی کے ساتھ نہیں، بلکہ سنت کے مطابق جوڑوں وغیرہ کے تحفے دے کر خوش اسلوبی سے رخصت فرمائیں گے۔ چنانچہ ان آیات کے احکام کے مطابق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ازواج مطہرات کو یہ پیشکش فرمائی اور تمام ازواج نے اس کے جواب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہنے ہی کو پسند کیا، خواہ اس کے لیے کیسی تنگی ترشی برداشت کرنی پڑے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(33:29) اعد۔ ماضی واحد مذکر غائب اعداد (افعال) سے اس نے تیار کیا ہوا ہے۔ اس نے تیار کر رکھا ہے۔ اس نے تیار کیا۔ اعداد ، عد سے مشتق ہے جس کے معنی شمار کرنے کے ہیں۔ اعداد کا مطلب ہوا کہ کسی چیز کو اس طرح تیار کرنا کہ وہ شمار کی جاسکے۔ محسنت۔ محسنۃ کی جمع ہے جو محسن سے مؤنث ہے۔ اسم فاعل جمع مؤنث ہے۔ نیکو کار عورتیں۔ منکن۔ میں من تبعیض کے لئے ہے۔ تم میں سے وہ جو نیکوکار ہیں۔ اجرا عظیما۔ موصوف و صفت نصب بوجہ اعد کے مفعول ہونے کے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جب آیت تخبیر ( یعنی یہ آیت) نازل ہوئی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب سے پہلے مجھ سے گفتگو کی اور مجھے یہ دونوں آیتیں پڑھ کر سنائیں۔ میں نے جواب دیا کہ میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پسند کرتی ہوں اسی طرح سب بیویوں نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پسند کیا اور یہ جو فرمایا کہ جو نیک ہیں ان کو بڑا نیگ ( اجر) ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج (رض) سب نیک ہی رہیں۔” الطیبات للطیبین “ مگر اللہ تعالیٰ صاف خوشخبری کسی کو نہیں دیتا مانڈر نہ ہوجاوے، خاتمے کا ڈر لگا ہے۔ ( موضح) کوئی شخص اپنی بیوی کو ” خیار “ دے دے اور عورت خاوند کو پسند کرلے تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ ہاں اگر عورت علیحدگی پسند کرلے تو ایک رجعی طلاق واقع ہوجائے گی جب کہ خاوند نے مطلق طلاق کی نیت کی ہو۔ ( مختصر من الشوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

29۔ اور اگر تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور دار آخرت اور پچھلے گھر کا ارادہ رکھتی ہو اور چاہتی ہو تویقینا اللہ تعالیٰ نے تم میں سے نیک کردار اور نیکوکاروں کے لئے بہت بڑا ثواب مہیا کر رکھا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حضرت کی ازواج نے دیکھا کہ لوگ آسودہ ہوئے چاہا ہم بھی آسودہ ہوں بعضوں نے بول چال کی حضرت نے قسم کھائی کہ ایک مہینے گھر میں نہ جاویں پھر مہینے کے بعد یہ آیت اتری حضرت گھر میں آئے اول حضرت عائشہ (رض) سے کہا انہوں نے اللہ اور رسول کی مرضی اختیار کی پھر اسی طرح سب ! حضرت کے ہاں ہمیشہ فقر و فاقہ تھا اپنے اختیار سے جو آتا تھا شتاب اٹھا ڈالتے تھے ، پھر قرض لینا پڑتا تھا یہ جو فرمایا کہ جو نیکی پر ہیں ان کو بڑا نیگ ہے ۔ حضرت کی ازواج سب نیک ہی رہیں الطیبات للطیبین مگر حق تعالیٰ صاف خوش خبری کسی کو نہیں دیتا تا کہ نڈر نہ ہوجاویں خاتمہ کا ڈر لگا رہے۔ 12 خلاصہ ! یہ کہ جب یہ آیتیں نازل ہوئیں تو آپ نے حصرت عائشہ (رض) کو بلا کر سنائیں اور ان سے فرمایا کہ تم اپنے والدین سے مشورہ کر کے جواب دو ۔ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا اس میں مشورے کی کیا ضرورت ہے میں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو اختیار کرتی ہوں ۔ حضرت عائشہ (رض) چونکہ سب ازواج تفقہ اور سمجھ میں اپنے سے فائق خالق کرتی تھیں ۔ اور اسی دینی تفقہ کی وجہ سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان سے محبت اور طبعی میلان زیادہ تھا ، تمام باقی بویوں نے بھی وہی کہا جو حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا تھا اگرچہ حضرت عائشہ (رض) نے اپنے فیصلے کو مخفی رکھنے کی کوشش کی، بہ حال یہ قفیہ ختم ہوا آگے کی آیتوں میں ازواج مطہرات کو مزید ہدایت فرمائی۔