Surat ul Ahzaab

Surah: 33

Verse: 4

سورة الأحزاب

مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّنۡ قَلۡبَیۡنِ فِیۡ جَوۡفِہٖ ۚ وَ مَا جَعَلَ اَزۡوَاجَکُمُ الّٰٓـِٔىۡ تُظٰہِرُوۡنَ مِنۡہُنَّ اُمَّہٰتِکُمۡ ۚ وَ مَا جَعَلَ اَدۡعِیَآءَکُمۡ اَبۡنَآءَکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ قَوۡلُکُمۡ بِاَفۡوَاہِکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَقُوۡلُ الۡحَقَّ وَ ہُوَ یَہۡدِی السَّبِیۡلَ ﴿۴﴾

Allah has not made for a man two hearts in his interior. And He has not made your wives whom you declare unlawful your mothers. And he has not made your adopted sons your [true] sons. That is [merely] your saying by your mouths, but Allah says the truth, and He guides to the [right] way.

کسی آدمی کے سینے میں اللہ تعالٰی نے دو دل نہیں رکھے اور اپنی جن بیویوں کو تم ماں کہہ بیٹھتے ہو انہیں اللہ نے تمہاری ( سچ مچ کی ) مائیں نہیں بنایا ، اور نہ تمہارے لے پالک لڑکوں کو ( واقعی ) تمہارے بیٹے بنایا ہے یہ تو تمہارے اپنے منہ کی باتیں ہیں اللہ تعالٰی حق بات فرماتا ہے اور وہ ( سیدھی ) راہ سجھاتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Abolition of Adoption Before Allah discusses ideas and theoretical matters, He gives tangible examples: one man cannot have two hearts in his body, and a man's wife does not become his mother if he says the words of Zihar to her: "You are to me like the back of my mother." By the same token, an adopted child does not become the son of the man who adopts him and calls him his son. Allah says: مَّا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّايِي تُظَاهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَاتِكُمْ ... Allah has not made for any man two hearts inside his body. Neither has He made your wives whom you declare to be like your mothers' backs, your real mothers... This is like the Ayah: مَّا هُنَّ أُمَّهَـتِهِمْ إِنْ أُمَّهَـتُهُمْ إِلاَّ اللَّيِى وَلَدْنَهُمْ They cannot be their mothers. None can be their mothers except those who gave them birth. (58:2) ... وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءكُمْ أَبْنَاءكُمْ ... nor has He made your adopted sons your real sons. This was revealed concerning Zayd bin Harithah, may Allah be pleased with him, the freed servant of the Prophet. The Prophet had adopted him before Prophethood, and he was known as Zayd bin Muhammad. Allah wanted to put an end to this naming and attribution, as He said: وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءكُمْ أَبْنَاءكُمْ nor has He made your adopted sons your real sons. This is similar to the Ayah later in this Surah: مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَأ أَحَدٍ مّن رِّجَالِكُمْ وَلَـكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيماً Muhammad is not the father of any of your men, but he is the Messenger of Allah and the last (end) of the Prophets. And Allah is Ever All-Aware of everything. (33:40) And Allah says here: ... ذَلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَاهِكُمْ ... That is but your saying with your mouths. meaning, `your adoption of him is just words, and it does not mean that he is really your son,' for he was created from the loins of another man, and a child cannot have two fathers just as a man cannot have two hearts in one body. ... وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ But Allah says the truth, and He guides to the way. Sa`id bin Jubayr said: يَقُولُ الْحَقَّ (But Allah says the truth) means, justice. Qatadah said: وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ (and He guides to the way) means, the straight path. Imam Ahmad said that Hasan told them that Zuhayr told them from Qabus, meaning Ibn Abi Zibyan, that his father told him: "I said to Ibn Abbas, `Do you know the Ayah, مَّا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ (Allah has not made for any man two hearts inside his body). What does this mean?' He said that the Messenger of Allah stood up one day to pray, and he trembled. The hypocrites who were praying with him said, `Do you not see that he has two hearts, one heart with you and another with them.' Then Allah revealed the words: مَّا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ (Allah has not made for any man two hearts inside his body)." This was also narrated by At-Tirmidhi, who said, "It is a Hasan Hadith". It was also narrated by Ibn Jarir and Ibn Abi Hatim from the Hadith of Zuhayr. An Adopted Child should be named after His Real Father Allah commands;

سچ بدل نہیں سکتا لے پالک بیٹا نہیں بن سکتا مقصود کو بیان کرنے سے پہلے بطور مقدمے اور ثبوت کے مثلا ایک وہ بات بیان فرمائی جسے سب محسوس کرتے ہیں اور پھر اس کی طرف سے ذہن ہٹاکر اپنے مقصود کی طرف لے گئے ۔ بیان فرمایا کہ یہ تو ظاہر ہے کہ کسی انسان کے دل دو نہیں ہوتے ۔ اسی طرح تم سمجھ لو کہ اپنی جس بیوی کو تم ماں کہہ دو تو وہ واقعی ماں نہیں ہوجاتی ۔ ٹھیک اسی طرح دوسرے کی اولاد کو اپنا بیٹا بنالینے سے وہ سچ مچ بیٹا ہی نہیں ہوجاتا ۔ اپنی بیوی سے اگر کسی نے بحالت غضب وغصہ کہد دیا کہ تو مجھ پر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ تو اس کہنے سے وہ سچ مچ ماں نہیں بن جاتیں مائیں تو وہ ہیں جن کے بطن سے یہ پیدا ہوئے ہیں ۔ ان دونوں باتوں کے بیان کے بعد اصل مقصود کو بیان فرمایا کہ تمہارے لے پالک لڑکے بھی درحقیقت تمہارے لڑکے نہیں ۔ یہ آیت حضرت زید بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں اتری ہے جو حضور کے آزاد کردہ تھے انہیں حضور نے نبوت سے پہلے اپنا متبنی بنارکھا تھا ۔ انہیں زید بن محمد کہا جاتا تھا ۔ اس آیت سے اس نسبت اور اس الحاق کا توڑ دینا منظور ہے ۔ جیسے کہ اسی سورت کے اثنا میں ہے آیت ( مَا كَانَ مُحَـمَّـدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا 40؀ۧ ) 33- الأحزاب:40 ) تم میں سے کسی مرد کے باپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے بلکہ وہ اللہ کے رسول اور نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا علم ہے ۔ یہاں فرمایا یہ تو صرف تمہاری ایک زبانی بات ہے جو تم کسی کے لڑکے کو کسی کا لڑکا کہو اس سے حقیقت بدل نہیں سکتی ۔ واقعی میں اس کا باپ وہ ہے جس کی پیٹھ سے یہ نکلا ۔ یہ ناممکن ہے کہ ایک لڑکے کے دو باپ ہوں جیسے یہ ناممکن ہے کہ ایک سینے میں دو دل ہوں ۔ اللہ تعالیٰ حق فرمانے والا اور سیدھی راہ دکھانے والا ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیت ایک قریشی کے بارے میں اتری ہے جس نے مشہور کررکھا تھا کہ اس کے دو دل ہیں اور دونوں عقل وفہم سے پر ہیں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی تردید کردی ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تھے آپ کو کچھ خطرہ گذرا اس پر جو منافق نماز میں شامل تھے وہ کہنے لگے دیکھو اس کے دو دل ہیں ایک تمہارے ساتھ ایک ان کے ساتھ ۔ اس پر یہ آیت اتری کہ اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے ۔ زہری فرماتے ہیں یہ تو صرف بطور مثال کے فرمایا گیا ہے یعنی جس طرح کسی شخص کے دو دل نہیں ہوتے اسی طرح کسی بیٹے کے دو باپ نہیں ہوسکتے ۔ اسی کے مطابق ہم نے بھی اس آیت کی تفسیر کی ہے ۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم ۔ پہلے تو رخصت تھی کہ لے پالک لڑکے کو پالنے والے کی طرف نسبت کرکے اس کا بیٹا کہہ کر پکارا جائے لیکن اب اسلام نے اس کو منسوخ کردیا ہے اور فرمادیا ہے کہ ان کے جو اپنے حقیقی باپ ہیں ان ہی کی طرف منسوب کرکے پکارو ۔ عدل نیکی انصاف اور سچائی یہی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس آیت کے اترنے سے پہلے ہم حضرت زید کو زید بن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہاکرتے تھے لیکن اس کے نازل ہونے کے بعد ہم نے یہ کہنا چھوڑ دیا ۔ بلکہ پہلے تو ایسے لے پالک کے وہ تمام حقوق ہوتے تھے جو سگی اور صلبی اولاد کے ہوتے ہیں ۔ چنانچہ اس آیت کے اترنے کے بعد حضرت سہلہ بنت سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہا حاضر خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہو کر عرض کرتی ہیں کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے سالم کو منہ بولا بیٹا بنا رکھا تھا اب قرآن نے ان کے بارے میں فیصلہ کردیا ۔ میں اس سے اب تک پردہ نہیں کرتی وہ آجاتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ میرے خاوند حضرت حذیفہ ان کے اس طرح آنے سے کچھ بیزار ہیں ۔ آپ نے فرمایا پھر کیا ہے جاؤ سالم کو اپنا دودھ پلا اس پر حرام ہوجاؤگی ۔ الغرض یہ حکم منسوخ ہوگیا ہے اب صاف لفظوں میں ایسے لڑکوں کی بیویوں کی بھی مداخلت انہیں لڑکا بنانے والے کے لئے بیان فرمادی ۔ اور جب حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بیوی صاحبہ حضرت زینب بنت جحش کو طلاق دے دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنا نکاح ان سے کرلیا اور مسلمان اس ایک مشکل سے بھی چھوٹ گئے فالحمد للہ اسی کا لحاظ رکھتے ہوئے ۔ جہاں حرام عورتوں کو ذکر کیا وہاں فرمایا آیت ( وَحَلَاۗىِٕلُ اَبْنَاۗىِٕكُمُ الَّذِيْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ 23؀ۙ ) 4- النسآء:23 ) یعنی تمہاری اپنی صلب سے جو لڑکے ہوں ان کی بیویاں تم پر حرام ہیں ۔ ہاں رضاعی لڑکا نسبی اور صلبی لڑکے کے حکم میں ہے ۔ جیسے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ رضاعت سے وہ تمام رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوجاتے ہیں ۔ یہ بھی خیال رہے کہ پیار سے کسی کو بیٹا کہدینا یہ اور چیز ہے یہ ممنوع نہیں مسند احمد وغیرہ میں ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ فرماتے ہیں ہم سب خاندان عبدالمطلب کے چھوٹے بچوں کو مزدلفہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو ہی جمرات کی طرف رخصت کردیا اور ہماری رانیں تھپکتے ہوئے حضور نے فرمایا بیٹو سورج نکلنے سے پہلے جمرات پر کنکریاں نہ مارنا ۔ یہ واقعہ سنہ ١٠ ہجری ماہ ذی الحجہ کاہے اور اس کی دلالت ظاہر ہے ۔ حضرت زید بن حارثہ جن کے بارے میں یہ حکم اترا یہ سنہ ٨ ہجری میں جنگ موتہ میں شہید ہوئے ۔ صحیح مسلم شریف میں مروی ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بیٹا کہہ کر بلایا ۔ اسے بیان فرما کر کہ لے پالک لڑکوں کو ان کے باپ کی طرف منسوب کرکے پکارا کرو پالنے والوں کی طرف نہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر تمہیں انکے باپوں کا علم نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور اسلامی دوست ہیں ۔ حضور جب عمرۃ القضا والے سال مکہ شریف سے واپس لوٹے تو حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی چچاچچا کہتی ہوئی آپ کے پیچھے دوڑیں ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں لے کر حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دے دیا اور فرمایا یہ تمہاری چچازاد بہن ہیں انہیں اچھی طرح رکھو ۔ حضرت زید اور حضرت جعفر فرمانے لگے اس بچی کے حقدار ہم ہیں ہم انہیں پالیں گے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں نہیں یہ میرے ہاں رہیں گی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو یہ دلیل دی کہ میرے چچا کی لڑکی ہیں ۔ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرے بھائی کی لڑکی ہے ۔ جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے میرے چچا کی لڑکی ہیں ۔ اور ان کی چچی میرے گھر میں ہیں یعنی حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔ آخر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ کیا کہ صاحبزادی تو اپنی خالہ کے پاس رہیں کیونکہ خالہ ماں کے قائم مقام ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ سے فرمایا تو میرا ہے اور میں تیرا ہوں ۔ حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تو صورت سیرت میں میرے مشابہ ہے حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تو میرا بھائی ہے اور ہمارا مولیٰ ہے اس حدیث میں بہت سے احکام ہیں ۔ سب سے بہتر تو یہ ہے کہ حضور نے حکم حق سنا کر اور دعویداروں کو بھی ناراض نہیں ہونے دیا ۔ اور آپ نے اسی آیت پر عمل کرتے ہوئے حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تم ہمارے بھائی اور ہمارے دوست ہو ۔ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اسی آیت کے ماتحت میں تمہارا بھائی ہوں ۔ ابی فرماتے ہیں واللہ اگر یہ بھی معلوم ہوتا کہ ان کے والد کوئی ایسے ویسے ہی تھے تو بھی یہ ان کی طرف منسوب ہوتے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر اپنی نسبت اپنے باپ کی طرف سے دوسرے کی طرف کرے اس نے کفر کیا ۔ اس سے سخت وعید پائی جاتی ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ صحیح نسب سے اپنے آپ کو ہٹانا بہت بڑا کبیرہ گناہ ہے ۔ پھر فرماتا ہے جب تم نے اپنے طور پر جتنی طاقت تم میں ہے تحقیق کرکے کسی کو کسی کی طرف نسبت کیا اور فی الحقیقت وہ نسبت غلط ہے تو اس خطا پر تمہاری پکڑ نہیں ۔ چنانچہ خود پروردگار نے ہمیں ایسی دعا تعلیم دی کہ ہم اس کی جناب میں ہیں آیت ( رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا ٢٨٦؀ۧ ) 2- البقرة:286 ) اے اللہ ہماری بھول چوک اور غلطی پر ہمیں نہ پکڑ ۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ جب مسلمانوں نے یہ دعا پڑھی جناب باری عز اسمہ نے فرمایا میں نے یہ دعاقبول فرمائی ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے جب حاکم اپنی کوشش میں کامیاب ہوجائے اپنے اجتہاد میں صحت کو پہنچ جائے تو اسے دوہرا اجر ملتا ہے اور اگر خطا ہوجائے تو اسے ایک اجر ملتا ہے ۔ اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کو ان کی خطائیں بھول چوک اور جو کام ان سے زبردستی کرائے جائیں ان سے درگذر فرمالیا ہے ۔ یہاں بھی یہ فرما کر ارشاد فرمایا کہ ہاں جو کام تم قصد قلب سے عمدا کرو وہ بیشک قابل گرفت ہیں ۔ قسموں کے بارے میں بھی یہی حکم ہے اوپر جو حدیث بیان ہوئی کہ نسب بدلنے والا کفر کا مرتکب ہے وہاں بھی یہ لفظ ہیں کہ باوجود جاننے کے ۔ آیت قرآن جو اب تلاوتا منسوخ ہے اس میں تھا آیت ( فان کفرابکم ان ترغبوا عن ابائکم ) یعنی تمہارا اپنے باپ کی طرف نسبت ہٹانا کفر ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا آپ کے ساتھ کتاب نازل فرمائی اس میں رجم کی بھی آیت تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی رجم کیا ( یعنی شادی شدہ زانیوں کو سنگسار کیا ) اور ہم نے بھی آپ کے بعد رجم کیا ۔ ہم نے قرآن میں یہ آیت بھی پڑھی ہے کہ اپنے باپوں سے اپنا سلسلہ نسب نہ ہٹاؤ یہ کفر ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے مجھے تم میری تعریفوں میں اس طرح بڑھا چڑھا نہ دینا جیسے عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے ساتھ ہوا ۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں تو تم مجھے اللہ کا بندہ اور رسول اللہ کہنا ۔ ایک روایت میں صرف ابن مریم ہے ۔ اور حدیث میں ہے تین خصلتیں لوگوں میں ہیں جو کفر ہیں ۔ نسب میں طعنہ زنی ، میت پر نوحہ ، ستاروں سے باراں طلبی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک منافق یہ دعوی کرتا تھا کہ اس کے دو دل ہیں۔ ایک دل مسلمانوں کے ساتھ ہے اور دوسرا دل کفر اور کافروں کے ساتھ ہے۔ یہ آیت اس کی تردید میں نازل ہوئی۔ مطلب یہ ہے کہ مشرکین مکہ میں سے ایک شخص جمیل بن معمر فہر تھا، جو بڑا ہوشیار مکار اور نہایت تیز طرار تھا، اس کا دعوی تھا کہ میرے تو دو دل ہیں جن سے میں سوچتا سمجھتا ہوں۔ جب کہ محمد کا ایک ہی دل ہے۔ یہ آیت اس کے رد میں نازل ہوئی۔ (ایسر التفاسیر) بعض مفسرین کہتے ہیں کہ آگے جو دو مسئلے بیان کیے جا رہے ہیں، یہ ان کی تمہید ہے یعنی جس طرح ایک شخص کے دو دل نہیں ہوسکتے اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے ظہار کرلے یعنی یہ کہہ دے کہ تیری پشت میرے لیے ایسے ہی ہے جیسے میری ماں کی پشت تو اس طرح کہنے سے اس کی بیوی، اس کی ماں نہیں بن جائے گی۔ یوں اس کی دو مائیں نہیں ہوسکتیں۔ اسی طرح کوئی شخص کسی کو اپنا بیٹا لے پالک بیٹا بنا لے تو وہ اس کا حقیقی بیٹا نہیں بن جائے گا بلکہ وہ بیٹا اپنے باپ کا ہی رہے گا اس کے دو باپ نہیں ہوسکتے۔ 42یہ مسئلہ ظہار کہلاتا ہے ِ اس کی تفصیل سورة مجادلۃ میں آئے گی۔ 43اس کی تفصیل اسی سورت میں آگے آئے گی۔ 44یعنی کسی کو ماں کہہ دینے سے وہ ماں نہیں بن جائے گی، نہ بیٹا کہنے سے بیٹا بن جائے گا، یعنی ان پر بنوت کے شرعی احکام جاری نہیں ہونگے۔ 45اس لئے اس کا اتباع کرو اور ظہار والی عورت کو ماں اور لے پالک کو بیٹا مت کہو، خیال رہے کہ کسی کو پیار اور محبت میں بیٹا کہنا اور بات ہے اور لے پالک کو حقیقی بیٹا تصور کر کے بیٹا کہنا اور بات ہے۔ پہلی بات جائز ہے، یہاں مقصود دوسری بات کی ممانعت ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢] اللہ کا دو دل نہ بنانے کا مفہوم :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین حقائق بیان فرمائے ہیں۔ ایک یہ کہ سب انسانوں کا اللہ نے ایک ہی دل بنایا ہے دو نہیں بنائے۔ لہذا ایک دل ایک وقت میں ایک ہی حقیقت کو تسلیم کرسکتا ہے۔ دو متضاد حقیقتوں کو تسلیم نہیں کرسکتا۔ یہ ناممکن ہے کہ ایک ہی شخص بیک وقت مومن بھی ہو اور منافق بھی۔ یا وہ کافر بھی ہو اور مسلم بھی۔ ان میں سے ایک وقت میں ایک ہی حقیقت کی تسلیم کیا جاسکتا ہے کیونکہ دو متضاد باتوں میں سے حقیقت ایک ہی ہوسکتی ہے۔ اور اگر کوئی منافق دل میں نفاق چھپا کر ایمان کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ حقیقت بیان نہیں کرتا۔ بلکہ جھوٹ بولتا اور دھوکا دیتا ہے اور اس نکاح کے ردعمل سے مسلمانوں کو یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ ان میں مخلص مسلمان کتنے اور کون کون ہیں اور منافق کون ہیں جو اللہ کے حکم کے علی الرغم دوسرے دشمنوں کی دیکھا دیکھی زبان دراز کرتے ہیں۔ خ ظہار کا دستور بھی لغو ہے اور متبّنیٰ بنانے کا بھی کیونکہ ماں اور باپ ایک ہی ہوسکتے ہیں :۔ عرب میں طلاق کے علاوہ یہ بھی دستور تھا کہ جس عورت پر غصہ آتا اور اس سے ان بن ہوجاتی تو کہہ دیتے تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے۔ اس کام کو وہ ظہار کہتے تھے۔ یہ کہنے پر وہ عورت خاوند پر حرام ہوجاتی تھی۔ یہ دستور بھی اصلاح طلب تھا۔ اس کی اصلاح کا طریقہ اور کفارہ تو سورة مجادلہ میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ یہاں صرف یہ بتایا جارہا ہے کہ تمہارے کہنے سے بیوی ماں نہیں بن جاتی۔ ماں تو وہ ہوتی ہے جس نے جنا ہو۔ تو جس طرح کسی آدمی کے اندر دو دل نہیں ہوسکتے اسی طرح کسی کی دو مائیں بھی نہیں ہوسکتیں۔ اب اگر تم بیوی کو ماں کہہ کر اسے فی الواقع ماں سمجھ بیٹھو تو یہ تو تمہارے منہ کی بات ہے جس کا حقیقت سے کچھ تعلق نہیں۔ خ متبنّیٰ اور وراثت کے دستور کی اصلاح :۔ اور تیسری حقیقت یہ ہے کہ متبنّیٰ حقیقی بیٹے کا مقام نہیں لے سکتا۔ یہ بھی ناممکن ہے کہ کسی کے دو باپ ہوں۔ باپ وہی ہے جس کے نطفہ سے وہ پیدا ہوا ہے۔ دوسرا کوئی شخص نہ اس کا حقیقی باپ ہوسکتا ہے اور نہ وہ اس کا حقیقی بیٹا ہوسکتا ہے۔ متبّنی اپنے نقلی باپ کا وارث نہیں بن سکتا۔ نہ باپ متبنّیٰ کا وارث ہوسکتا ہے۔ ہر شخص اپنے متبنیٰ کی مطلقہ بیوہ سے نکاح کرسکتا ہے۔ اسی طرح متبنّیٰ بھی اپنے نقلی باپ کی مطلقہ یا بیوہ سے نکاح کرسکتا ہے۔ اور یہی غلط دستور معاشرہ میں رائج تھا۔ جس کی اصلاح اللہ تعالیٰ نبی کے سیدہ زینب کے ساتھ نکاح سے فرمانا چاہتا تھا۔ [٣] اس آیت میں اسی اصلاحی اقدام کی چند جزئیات بیان فرمائی جارہی ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کے حقیقی باپ کی نسبت سے پکارا جائے۔ چناچہ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ نے سیدنا زید کو اپنا متبنّیٰ بنا لیاتو ہم لوگ انھیں زید بن محمد کہہ کر پکارتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو پھر زید بن حارثہ کہنا شروع کردیا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اور رسول اللہ خود بھی انھیں زید بن حارثہ ہی کہنے لگے۔ ضمناً اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عیسیٰ کا باپ نہیں تھا۔ ورنہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم کبھی نہ فرماتے۔ سیدنا عیسیٰ ابن مریم کی معجزانہ پیدائش کے منکرین کے لئے یہ لمحہ فکریہ اس لحاظ سے ہے کہ قرآن نے اور کسی مرد یا عورت کا نام ابنیت سمیت ذکر نہیں کیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مَا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَيْنِ فِيْ جَوْفِهٖ ۔۔ : ” أَدْعِیَاءُ “ ” دَعِیٌّ“ (فَعِیْلٌبمعنی مفعول) کی جمع ہے۔ اصل مقصود کو بیان کرنے سے پہلے تمہید کے طور پر یہ بات بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے کسی آدمی کے سینے میں دو دل نہیں رکھے کہ ایک میں ایمان ہو اور ایک میں کفر۔ سینے میں دل ایک ہی ہے، وہ یا مومن ہوگا یا منافق یا کافر۔ اسی طرح ہر شخص کی ماں ایک ہی ہے، جس کے پیٹ میں سے وہ پیدا ہوا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کے بعد کسی کو ماں کہہ دینے سے وہ اس کی ماں بن جائے، نہ تمہارے اپنی بیویوں کو ماں کی طرح حرام کہنے سے وہ ماں بن جاتی ہیں، اور ہر شخص کا باپ بھی ایک ہی ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ پہلے تو اس کا باپ ایک تھا، پھر کسی نے اس کو بیٹا کہہ دیا تو وہ اس کا باپ بن گیا۔ یہ صرف تمہارے منہ کی باتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان میں سے کسی بات کو نہیں مانتا، وہ تو وہی بات کہتا ہے جو حقیقت اور سچ ہے اور وہ اصل سیدھے راستے ہی کی طرف راہ نمائی کرتا ہے۔ ظہار کا لفظ ” ظَہْرٌ“ سے مشتق ہے، جس کا معنی پیٹھ ہے، یعنی اپنی بیوی کو یہ کہہ دینا کہ تم مجھ پر ماں کی پیٹھ کی طرح حرام ہو۔ اس کے تفصیلی احکام سورة مجادلہ میں آئیں گے۔ منہ بولے بیٹے کے متعلق تفصیل یہاں بیان ہو رہی ہے، اس کی مطلقہ سے نکاح کی تفصیل چند آیات کے بعد آئے گی۔ 3 ان آیات میں کسی کو منہ بولا بیٹا بنانے سے منع کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں اسے حقیقی بیٹے کی طرح سمجھا جاتا تھا، وہ بیٹا بنانے والے کی ولدیت کے ساتھ مشہور ہوتا اور اس کا وارث قرار پاتا تھا، البتہ محبت اور شفقت کے اظہار کے لیے کسی کو بیٹا کہہ کر پکارا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انس (رض) کو ” یَا بُنَيَّ “ کہہ کر پکارا۔ [ دیکھیے مسلم، الآداب، باب جواز قولہ لغیر ابنہ یا بنيّ ۔۔ : ٢١٥١ ] اور ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مزدلفہ کی رات ہم بنی عبد المطلب کے چھوٹے لڑکوں کو گدھیوں پر سوار کرکے آگے بھیج دیا تھا، تو اس موقع پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری رانوں پر تھپکیاں دے کر فرمانے لگے : ( أُبَیْنِيَّ ! لاَ تَرْمُوا الْجَمْرَۃَ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ ) [ أبوداوٗد، المناسک، باب التعجیل من جمع : ١٩٤٠ ] ” میرے پیارے بیٹو ! جب تک سورج طلوع نہ ہو جمرات کو کنکر نہ مارو۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Previous verses carried instructions to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) asking him not to act upon their advice and not to be cajoled into what they wanted to achieve. In the cited verses, there is a refutation of three customs prevailing among disbelievers as well as of their false notions. (1) During jahiliyyah, Arabs used to say about a person who was smarter than others that he had two hearts in his chest cage. (2) Then they had a custom about their wives following which a person would declare his wife to be like the back of his mother, or some other part of the body, and go on to say, &you are, for me, like the back of my mother.& This, in their usage, was called |"Zihar.|" It is a derivation from: Zahr, which means &back&. They thought that if a person who had done |"Zihr|" with his wife, she becomes haram (unlawful) to him forever. (3) And then they had another custom under which one person would make the son of another his so-called or adopted son and who so would take a son in that manner, the boy would become known as &his& son and would be addressed as such. According to their practice, this so-called or adopted son used to be recognized in all rules and regulations as a &real& son. For instance, he would be regarded as a sharer even in inheritance, like a real offspring along with the children from his loins. Then, they would also regard the marriage relations of the so-called or adopted son as falling under the standard rule whereby the marriage with a category of certain women is unlawful. For example, as marriage with the wife of one&s real son remains unlawful even after he has divorced her, they also took the divorced wife of the so-called or adopted son to be unlawful for that person. Since the first of the three notions of the period of Jahiliyyah were not tied up with religious belief or conduct, therefore, the Shari&ah of Islam had no need to refute it. To determine whether there is just the one heart inside the chest or, may be, there are two as well was simply a case of anatomical inquiry. That it was obviously false was known to everyone. Therefore, most likely, the matter of its refutation was also introduced as a prologue to the other two issues and it was said: The way false is the saying of the people of Jahiliyyah - that &someone could have two hearts in his chest&, the falsity of which is known to everyone - similarly, false are their notions in the matters of Zihar (falsely declaring one&s wife unlawful to him like his mother) and adoption of sons. As for the injunctions governing the two issues of Zihar and adopted son, these are among the social and familial issues that have a great importance in Islam - to the extent that even their subsidiary details have been given in the Qur&an by Allah Ta’ ala Himself. unlike other matters, this has not been left at the declaration of principles only with its detailed enunciation entrusted with the Holy Prophet t. Regarding both these issues, the people of Jahiliyyah, following their baseless whims, had a bunch of self-made laws relating to the lawful and the unlawful, the permissible and the impermissible. It was the duty of the True Religion that it should refute these false notions and make the truth manifest. Therefore, it was said:i It means: &You are wrong in thinking that, should someone call his wife the equal or like of his mother, the wife does not go on to become unlawful for him forever like his real mother. Just because you say so, a wife does not become a mother, in reality. Your mother is but she who gave birth to you.& Now, at least, the notion of the people of Jahiliyyah that Zihar makes one&s wife unlawful for ever is refuted by this verse. What happens next? Does saying so bring about any legal effect? The standing injunction in this connection appears in Surah al-Mujadalah [ 58:2-4] where saying so has been called a sin and abstention from it obligatory. And it is provided there that he who has made such a declaration should offer a kaffarah (expiation) of having done zihar after which having intercourse with his wife becomes lawful for him. The details of this issue will appear in the Commentary on Surah al-Mujadalah (Ma` ariful-Qur&an, Volume VIII). The second issue was that of the mutabanna, i.e adopted son. About that, it was said: وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ (nor did he make your adopted sons your (real) sons - 4). The word: اَدعِیَاء (ad&iya& ) is the plural of: دَعِیُّ (da&iyy) which means a so-called son. The sense is that the way no man has two hearts inside him and the way by likening one&s wife to one&s mother, the wife does not become the mother - similarly, the so-called son does not become your real son. In other words, neither will he be entitled to a share in inheritance with other sons, nor the precepts of the unlawfulness of marriage will apply to him. For example, the way the divorced wife of a real son is unlawful for his father forever, the divorced wife of an adopted son is not unlawful for his so-called father. Since this last matter affects many other matters, therefore, it was complimented by another injunction, that is, even an adopted son should be attributed to his real father, and not to the person who has adopted him - because, this spells out the danger of misgiving and confusion creeping in many matters. There is a hadith from Sayyidna Ibn ` Umar (رض) appearing in al-Bukhari, Muslim and others in which it has been said: &Before the revelation of this verse, we used to call Zayd Ibn Harithah by the name of Zayd Ibn Muhammad (because the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had taken him in as his mutabanna, adopted son). After the revelation of this verse, we abandoned this practice.& Ruling This tells us about many people who call the children of others as &son& which, if because of simple affection, not because of declaring him an adopted son or a mutabanna , then, this would though be permissible, still, it is not the better choice, because it looks like violating the prohibition, at least in appearance. (As in Ruh a1-Ma` ni from al-Khafaji Ala al-Baidawi) And this is the same matter which, by throwing the Quraish of Arabia into deception, led them to commit a sin of terribly serious proportions to the extent that they started blaming the Holy Prophet t by saying that he had married the divorced wife of his &son&, while in fact, he was not his son, but only a mutabanna (adopted son) - something that will be mentioned in this very Surah a little later.

خلاصہ تفسیر اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے اور (اسی طرح) تمہاری ان بیبیوں کو جن سے تم ظہار کرلیتے ہو تمہاری ماں نہیں بنایا اور (اسی طرح سمجھ لو) کہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا (سچ مچ کا) بیٹا (بھی) نہیں بنادیا یہ صرف تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے (جو غلط ہے واقعہ کے مطابق نہیں) اور اللہ تعالیٰ حق بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتلاتا ہے (اور جب منہ بولے بیٹے واقعہ میں تمہارے بیٹے نہیں تو) تم ان کو (متنبیٰ بنانے والوں کا بیٹا مت کہو، بلکہ) ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف منسوب کیا کرو، یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے اور گر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو (ان کو اپنا بھائی یا اپنا دوست کہہ کر پکارو کیونکہ آخر) وہ تمہارے دین کے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجائے تو اس سے تم پر کوئی گناہ نہیں ہوگا لیکن ہاں جو دل سے ارادہ کر کے کہو (تو اس سے گناہ ہوگا) اور ( اس سے بھی معافی مانگ لو تو معاف ہوجائے گا کیونکہ) اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ معارف ومسائل سابقہ آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار و منافقین کے مشوروں پر عمل نہ کرنے اور ان کی بات نہ ماننے کی ہدایت ہے۔ آیات مذکورہ میں کفار میں چلی ہوئی تین رسموں اور باطل خیالات کی تردید ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ جاہلیت کے زمانے میں عرب لوگ ایسے شخص کو جو زیادہ ذہین ہو یہ کہا کرتے تھے کہ اس کے سینے میں دو دل ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان میں اپنی ازواج کے متعلق ایک یہ رسم تھی کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو اپنی ماں کی پیٹھ یا اور کسی عضو سے تشبیہ دی اور کہہ دیا تو میرے لئے ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ، اس کو ان کے محاورہ میں ظہار کہا جاتا تھا، جو ظہر سے مشتق ہے، ظہر کے معنے ہیں پیٹھ۔ اور ان کا خیال یہ تھا کہ جس شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کرلیا وہ ہمیشہ کے لئے اس پر حرام ہوگئی۔ تیسرے یہ کہ ان میں ایک رسم یہ تھی کہ ایک آدمی کسی دوسرے کے بیٹے کو اپنا متبنی (منہ بولا بیٹا) بنا لیتا تھا اور جو اس طرح بیٹا بناتا یہ لڑکا اسی کا بیٹا مشہور ہوجاتا، اور اسی کا بیٹا کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ اور ان کے نزدیک یہ منہ بولا بیٹا تمام احکام میں اصلی بیٹے کی طرح مانا جاتا تھا۔ مثلاً میراث میں بھی اس کی اولاد کے مثل حقیقی اولاد کے شریک ہوتا تھا اور نسبی رشتہ سے جن عورتوں کے ساتھ نکاح حرام ہوتا ہے، یہ منہ بولے بیٹے کے رشتہ کو بھی ایسا ہی قرار دیتے۔ مثلاً جیسے اپنے حقیقی بیٹے کی بیوی سے اس کے طلاق دینے کے بعد بھی نکاح حرام رہتا ہے یہ منہ بولے بیٹے کی بیوی کو بھی طلاق کے بعد اس شخص کے لئے حرام سمجھتے تھے۔ زمانہ جاہلیت کے یہ تین باطل خیالات و رسوم تھے۔ جن سے پہلی بات اگرچہ مذہبی عقیدے یا عمل سے متعلق نہیں تھی۔ اس لئے شریعت اسلام کو اس کی تردید کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ محض فن تشریح و طب کا معاملہ تھا کہ انسان کے سینے میں ایک ہی دل ہوتا ہے یا دو بھی ہوتے ہیں، اس کا ظاہر البطلان ہونا سبھی کو معلوم تھا۔ اس لئے شاید اس کے بطلان کے ذکر کو بھی باقی دو مسئلوں کی تائید و تمہید کے طور پر بیان کردیا گیا کہ جس طرح اہل جاہلیت کا یہ کہنا باطل ہے کہ کسی ایک انسان کے سینہ میں دو دل ہو سکتے ہیں اور اس کے بطلان کو عام و خاص سبھی جانتے ہیں اسی طرح ظہار اور متبنیٰ کے مسائل میں بھی اس کے خیالات باطل ہیں۔ باقی دو مسئلے ایک ظہار دوسرے متبنیٰ بیٹے کے احکام یہ ان معاشرتی اور عائلی مسائل میں سے ہیں جن کی اسلام میں خاص اہمیت ہے۔ یہاں تک کہ ان کی جزئیات اور تفصیلات بھی حق تعالیٰ نے قرآن میں خود ہی بیان فرمائی ہیں۔ دوسرے معاملات کی طرح صرف اصول بیان کر کے تفصیلی بیان کو پیغمبر کے حوالہ نہیں فرمایا۔ ان دونوں مسئلوں میں اہل جاہلیت نے اپنی بےبنیاد خواہشات سے حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے خود ساختہ قوانین بنا رکھے تھے۔ دین حق کا فرض تھا کہ وہ ان باطل رسوم و خیالات کا ابطال کر کے حق بات واضح کرے۔ اس لئے بیان فرمایا (آیت) وما جعل ازواجکم الی تظہرون منھن امہاتکم، یعنی تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ اگر کسی نے بیوی کو ماں کی برابر یا مثل کہہ دیا تو وہ حقیقی ماں کی طرح ہمیشہ کے لئے اس پر حرام ہوگئی، تمہارے کہنے سے بیوی حقیقتاً ماں نہیں ہوجاتی، تمہاری ماں تو وہی ہے جس سے تم پیدا ہوئے ہو۔ اس آیت نے اہل جاہلیت کے اس خیال کو تو باطل کردیا کہ ظہار کرنے سے حرمت موبدہ نہیں ہوتی۔ آگے یہ بات کہ ایسا کہنے پر کوئی شرعی اثر مرتب ہوتا ہے یا نہیں ؟ اس کا حکم مستقلاً سورة مجادلہ میں بتایا گیا ہے کہ ایسا کہنا گناہ ہے، اس سے پرہیز واجب ہے، اور ایسا کہنے والا اگر کفارہ ظہار ادا کر دے تو بیوی اس کے لئے حلال ہوجاتی ہے۔ کفارہ ظہار کی تفصیل سورة مجادلہ میں آئے گی۔ دوسرا مسئلہ متبنیٰ بیٹے کا تھا۔ اس کے متعلق فرمایا (آیت) وماجعل ادعیاء کم ابناء کم، ادعیاء دعیً کی جمع ہے۔ دعی وہ لڑکا ہے جس کو منہ بولا بیٹا کہا جاتا ہے مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایک انسان کے پہلو میں دو دل نہیں ہوتے، اور جس طرح بیوی کو ماں کے مثل کہنے سے بیوی ماں نہیں بن جاتی، اسی طرح منہ بولا بیٹا تمہارا بیٹا نہیں بن جاتا۔ یعنی دوسرے بیٹوں کے ساتھ نہ وہ میراث میں شریک ہوگا اور نہ حرمت نکاح کے مسائل اس پر عائد ہوں گے کہ بیٹے کی مطلقہ بیوی باپ پر ہمیشہ کے لئے حرام ہے تو متبنیٰ کی بیوی بھی حرام ہو۔ اور چونکہ اس آخری معاملے کا اثر بہت سے معاملات پر پڑتا ہے۔ اس لئے یہ حکم نافذ کردیا گیا کہ متبنیٰ بیٹے کو جب پکارو اس کا ذکر کرو تو اس کے اصلی باپ کی طرف منسوب کر کے ذکر کرو۔ جس نے بیٹا بنا لیا ہے اس کا بیٹا کہہ کر خطاب نہ کرو۔ کیونکہ اس سے بہت سے معاملات میں اشتباہ اور التباس پیدا ہوجانے کا خطرہ ہے۔ صحیح بخاری ومسلم وغیرہ میں حضرت ابن عمر کی حدیث ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے ہم زید بن حارثہ کو زید بن محمد کہا کرتے تھے (کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو متبنیٰ بنا لیا تھا، اس آیت کے نزول کے بعد ہم نے یہ عادت چھوڑ دی۔ مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ اکثر آدمی جو دوسروں کے بچوں کو بیٹا کہہ کر پکارتے ہیں جب کہ محض شفقت کی وجہ سے ہو متبنیٰ قرار دینے کی وجہ سے نہ ہو تو یہ اگرچہ جائز ہے مگر پھر بھی بہتر نہیں کہ صورتاً ممانعت میں داخل ہے (کذافی الروح عن الخفاجی علی البیضادی) اور یہی وہ معاملہ ہے جس نے قریش عرب کو مغالطہ میں ڈال کر ایک بہت بڑے گناہ عظیم کا مرتکب بنادیا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ الزام لگانے لگے کہ آپ نے اپنے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے نکاح کرلیا۔ حالانکہ وہ آپ کے بیٹے نہ تھے بلکہ متبنیٰ تھے، جس کا ذکر اسی سورة میں آگے آنے والا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَا جَعَلَ اللہُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَيْنِ فِيْ جَوْفِہٖ۝ ٠ ۚ وَمَا جَعَلَ اَزْوَاجَكُمُ اڿ تُظٰہِرُوْنَ مِنْہُنَّ اُمَّہٰتِكُمْ۝ ٠ ۚ وَمَا جَعَلَ اَدْعِيَاۗءَكُمْ اَبْنَاۗءَكُمْ۝ ٠ ۭ ذٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِاَفْوَاہِكُمْ۝ ٠ ۭ وَاللہُ يَـقُوْلُ الْحَـقَّ وَہُوَيَہْدِي السَّبِيْلَ۝ ٤ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ رجل الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا [ الأنعام/ 9] ( ر ج ل ) الرجل کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام/ 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ زوج يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نرا اور پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نرا اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علا وہ دوسری اشیائیں سے جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مما ثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] اور خر کار اس کی دو قسمیں کیں یعنی مرد اور عورت ۔ ظِّهَارُ : أن يقول الرّجل لامرأته : أنت عليّ كَظَهْرِ أمّي، يقال : ظَاهَرَ من امرأته . قال تعالی: وَالَّذِينَ يُظاهِرُونَ مِنْ نِسائِهِمْ [ المجادلة/ 3] ، وقرئ : يظاهرون «2» أي : يَتَظَاهَرُونَ ، فأدغم، الظھار کے معنی ہیں خاوند کا بیوی سے یہ کہنا کہ تو میرے لئے ایسی ہے جیسے میری ماں کی پشت کہا جاتا ہے ظاھر من امرء تہ اس نے اپنی بیوی سے ظہار کرلیا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ يُظاهِرُونَ مِنْ نِسائِهِمْ [ المجادلة/ 3] اور جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرلیں ۔ ایک قرات میں یظاھرون ہے جو اصل میں یتظاھرون ہے اور تاء ظاء میں مدغم ہے اور ایک قرات یظھرون ہے أمّ الأُمُّ بإزاء الأب، وهي الوالدة القریبة التي ولدته، والبعیدة التي ولدت من ولدته . ولهذا قيل لحوّاء : هي أمنا، وإن کان بيننا وبینها وسائط . ويقال لکل ما کان أصلا لوجود شيء أو تربیته أو إصلاحه أو مبدئه أمّ ، قال الخلیل : كلّ شيء ضمّ إليه سائر ما يليه يسمّى أمّا «1» ، قال تعالی: وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتابِ [ الزخرف/ 4] «2» أي : اللوح المحفوظ وذلک لکون العلوم کلها منسوبة إليه ومتولّدة منه . وقیل لمكة أم القری، وذلک لما روي : (أنّ الدنیا دحیت من تحتها) «3» ، وقال تعالی: لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرى وَمَنْ حَوْلَها [ الأنعام/ 92] ، وأمّ النجوم : المجرّة «4» . قال : 23 ۔ بحیث اهتدت أمّ النجوم الشوابک «5» وقیل : أم الأضياف وأم المساکين «6» ، کقولهم : أبو الأضياف «7» ، ويقال للرئيس : أمّ الجیش کقول الشاعر : وأمّ عيال قد شهدت نفوسهم «8» وقیل لفاتحة الکتاب : أمّ الکتاب لکونها مبدأ الکتاب، وقوله تعالی: فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] أي : مثواه النار فجعلها أمّا له، قال : وهو نحو مَأْواكُمُ النَّارُ [ الحدید/ 15] ، وسمّى اللہ تعالیٰ أزواج النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمهات المؤمنین فقال : وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب/ 6] لما تقدّم في الأب، وقال : ابْنَ أُمَ [ طه/ 94] ولم يقل : ابن أب، ولا أمّ له يقال علی سبیل الذم، وعلی سبیل المدح، وکذا قوله : ويل أمّه «1» ، وکذا : هوت أمّه «2» والأمّ قيل : أصله : أمّهة، لقولهم جمعا : أمهات، وفي التصغیر : أميهة «3» . وقیل : أصله من المضاعف لقولهم : أمّات وأميمة . قال بعضهم : أكثر ما يقال أمّات في البهائم ونحوها، وأمهات في الإنسان . ( ا م م ) الام یہ اب کا بالمقابل ہے اور ماں قریبی حقیقی ماں اور بعیدہ یعنی نانی پر نانی وغیرہ سب کو ام کہاجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت حواء کو امنا کہا گیا ہے اگرچہ ہمارا ان سے بہت دور کا تعلق ہے ۔ پھر ہر اس چیز کو ام کہا جاتا ہے ۔ جو کسی دوسری چیز کے وجود میں آنے یا اس کی اصلاح وتربیت کا سبب ہو یا اس کے آغاز کا مبداء بنے ۔ خلیل قول ہے کہ ہر وہ چیز جس کے اندر اس کے جملہ متعلقات منضم ہوجائیں یا سما جائیں ۔۔ وہ ان کی ام کہلاتی ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ } ( سورة الزخرف 4) اور یہ اصل نوشتہ ( یعنی لوح محفوظ ) میں ہے ۔ میں ام الکتاب سے مراد لوح محفوظ ہے کیونکہ وہ وہ تمام علوم کا منبع ہے اور اسی کی طرف تمام علوم منسوب ہوتے ہیں اور مکہ مکرمہ کو ام القریٰ کہا گیا ہے ( کیونکہ وہ خطبہ عرب کا مرکز تھا ) اور بموجب روایت تمام روئے زمین اس کے نیچے سے بچھائی گئی ہے ( اور یہ ساری دنیا کا دینی مرکز ہے ) قرآن میں ہے :۔ { لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا } ( سورة الشوری 7) تاکہ تو مکہ کے رہنے والوں کے انجام سے ڈرائے ۔ ام النجوم ۔ کہکشاں ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (23) بحیث اھتدت ام النجوم الشو ایک یعنی جہان کہ کہکشاں راہ پاتی ہے ام الاضیاف ۔ مہمان نواز ۔ ام المساکین ۔ مسکین نواز ۔ مسکینوں کا سہارا ۔ ایسے ہی جیسے بہت زیادہ مہمان نواز کو ، ، ابوالاضیاف کہا جاتا ہے اور رئیس جیش کو ام الجیش ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (24) وام عیال قدشھدت تقوتھم ، ، اور وہ اپنی قوم کے لئے بمنزلہ ام عیال ہے جو ان کو رزق دیتا ہے ۔ ام الکتاب ۔ سورة فاتحہ کا نام ہے ۔ کیونکہ وہ قرآن کے لئے بمنزلہ اور مقدمہ ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ { فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ } ( سورة القارعة 9) مثویٰ یعنی رہنے کی جگہ کے ہیں ۔ جیسے دوسری جگہ دوزخ کے متعلق { وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ } ( سورة العنْکبوت 25) فرمایا ہے ( اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امہ ھاویۃ ایک محاورہ ہو ) جس طرح کہ ویل امہ وھوت امہ ہے یعنی اس کیلئے ہلاکت ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ :۔ { وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ } ( سورة الأحزاب 6) میں ازواج مطہرات کو امہات المومنین قرار دیا ہے ۔ جس کی وجہ بحث اب میں گزرچکی ہے ۔ نیز فرمایا ۔ { يَا ابْنَ أُمَّ } ( سورة طه 94) کہ بھائی ۔ ام ۔ ( کی اصل میں اختلاف پایا جاتا ہے ) بعض نے کہا ہے کہ ام اصل میں امھۃ ہے کیونکہ اس کی جمع امھات اور تصغیر امیھۃ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اصل میں مضاعف ہی ہے کیونکہ اس کی جمع امات اور تصغیر امیمۃ آتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ عام طور پر حیونات وغیرہ کے لئے امات اور انسان کے لئے امھات کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ ( ابْنُ ) أصله : بنو، لقولهم في الجمع : أَبْنَاء، وفي التصغیر : بُنَيّ ، قال تعالی: يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف/ 5] ، يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات/ 102] ، يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان/ 13] ، يا بنيّ لا تعبد الشیطان، وسماه بذلک لکونه بناء للأب، فإنّ الأب هو الذي بناه وجعله اللہ بناء في إيجاده، ويقال لكلّ ما يحصل من جهة شيء أو من تربیته، أو بتفقده أو كثرة خدمته له أو قيامه بأمره : هو ابنه، نحو : فلان ابن الحرب، وابن السبیل للمسافر، وابن اللیل، وابن العلم، قال الشاعر أولاک بنو خير وشرّ كليهما وفلان ابن بطنه وابن فرجه : إذا کان همّه مصروفا إليهما، وابن يومه : إذا لم يتفكّر في غده . قال تعالی: وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة/ 30] وقال تعالی: إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود/ 45] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف/ 81] ، وجمع ابْن : أَبْنَاء وبَنُون، قال عزّ وجل : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] ، وقال عزّ وجلّ : يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف/ 67] ، يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف/ 31] ، يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، ويقال في مؤنث ابن : ابْنَة وبِنْت، وقوله تعالی: هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود/ 78] ، وقوله : لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود/ 79] ، فقد قيل : خاطب بذلک أکابر القوم وعرض عليهم بناته «1» لا أهل قریته كلهم، فإنه محال أن يعرض بنات له قلیلة علی الجمّ الغفیر، وقیل : بل أشار بالبنات إلى نساء أمته، وسماهنّ بنات له لکون کلّ نبيّ بمنزلة الأب لأمته، بل لکونه أكبر وأجل الأبوین لهم كما تقدّم في ذکر الأب، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل/ 57] ، هو قولهم عن اللہ : إنّ الملائكة بنات اللہ . الابن ۔ یہ اصل میں بنو ہے کیونکہ اس کی جمع ابناء اور تصغیر بنی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف/ 5] کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات/ 102] کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ( گویا ) تم کو ذبح کررہاہوں ۔ يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان/ 13] کہ بیٹا خدا کے ساتھ شریک نہ کرنا ۔ يا بنيّ لا تعبد الشیطانبیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا ۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے اس لئے اسے ابن کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ باپ کو اللہ تعالٰٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تکلیف میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسرے کے سبب اس کی تربیت دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے ۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہوا است بھی اس کا بن کہا جاتا جسے : فلان ابن حرب ۔ فلان جنگ جو ہے ۔ ابن السبیل مسافر ابن اللیل چور ۔ ابن العلم پروردگار وہ علم ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) یہ لوگ خیر وزر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ فلان ابن بطنہ پیٹ پرست فلان ابن فرجہ شہوت پرست ۔ ابن یومہ جو کل کی فکر نہ کرے ۔ قرآن میں ہے : وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة/ 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے میں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں ۔ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود/ 45] میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ۔ إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف/ 81] کہ اب آپکے صاحبزادے نے ( وہاں جاکر ) چوری کی ۔ ابن کی جمع ابناء اور بنون آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف/ 67] کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا ۔ يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف/ 31] ( 3 ) اے نبی آدم ہر نماز کے وقت اپنے تیئں مزین کیا کرو ۔ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے نبی آدم ( دیکھنا کہیں ) شیطان تمہیں بہکانہ دے ۔ اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع بنات آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود/ 78] ( جو ) میری ) قوم کی ) لڑکیاں ہیں تمہارے لئے جائز اور ) پاک ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود/ 79] تمہاری ۃ قوم کی ) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اکابر قوم خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں ۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے کہ بنات سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بناتی اس لئے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اب کی تشریح میں گزر چکا ہے اور آیت کریمہ : وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل/ 57] اور یہ لوگ خدا کے لئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ کے مونی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتی ہیں ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ فوه أَفْوَاهُ جمع فَمٍ ، وأصل فَمٍ فَوَهٌ ، وكلّ موضع علّق اللہ تعالیٰ حکم القول بِالْفَمِ فإشارة إلى الکذب، وتنبيه أنّ الاعتقاد لا يطابقه . نحو : ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب/ 4] ، وقوله : كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف/ 5]. ( ف و ہ ) افواہ فم کی جمع ہے اور فم اصل میں فوہ ہے اور قرآن پاک میں جہاں کہیں بھی قول کی نسبت فم یعنی منہ کی طرف کی گئی ہے وہاں در وغ گوئی کی طرف اشارہ ہے اور اس پر تنبیہ ہے کہ وہ صرف زبان سے ایسا کہتے ہیں ان کے اندرون اس کے خلاف ہیں جیسے فرمایا ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب/ 4] یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں ۔ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف/ 5] بات جوان کے منہ سے نکلتی ہے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

سورة الاحزاب کسی مرد کے سینے میں دو دل نہیں، کا کیا مطلب ہے قول باری ہے (ماجعل اللہ لرجل من قلبین فی جوفہ۔ اللہ نے کسی مرد کے سینہ میں دو دل نہیں بنائے ہیں) حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت ہے کہ قبیلہ قریش میں ایک شخص تھا جو اپنے مکروفریب اور چستی وچالا کی کی بنا پر ” دودلوں والا “ کہلاتا تھا۔ مجاہد اور قتادہ سے بھی اسی قسم کی روایت ہے ۔ حضرت ابن عباس (رض) سے ایک اور روایت کے مطابق منافقین کہا کرتے تھے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو دلوں والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے اس قول کی تکذیب کردی۔ حسن کہتے ہیں کہ ایک شخص تھا جو یہ کہا کرتا تھا کہ ” میری ایک جان تو مجھے حکم دیتی ہے اور دوسری جان روکتی ہے۔ “ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی ۔ مجاہد سے مروی ہے کہ بنو فہر کا ایک شخص کہا کرتا تھا کہ میرے سینے میں دو دل ہیں۔ میں ان میں سے ہر ایک کے ذریعے محمد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ عقل اور سمجھ کا مالک ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی تکذیب فرمادی۔ ابو جعفر طحاوی نے ذکر کیا کہ زیر بحث آیت کی تفسیر میں درج بالا اقوال کے سوا اور کوئی بات منقول نہیں ہے۔ ابوجعفر نے مزید کہا ہے کہ امام شافعی نے بعض اہل تفسیر سے جس کا انہوں نے نام نہیں لیا یہ نقل کیا ہے کہ آیت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام میں ایک شخص کے دو باپ نہیں بتائے۔ امام شافعی نے دو آدمیوں کے نطفے سے ایک بچے کی پیدائش کی نفی کے سلسلے میں اس آیت سے استدلال کیا ہے، ان کا یہ استدلال امام محمد کے قول کے خلاف ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ لفظ کے اندر اس مفہوم کا احتمال نہیں ہے جو امام شافعی نے اس سے اخذ کیا ہے۔ اس لئے کہ قلب کے لفظ کے ساتھ باپ سے تعبیر نہیں ہوتی نہ تو حقیقتہً اور نہ ہی مجازاً نہ ہی شریعت میں بات کے لئے قلب کو اسم کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اس لئے آیت کے یہ معنی لینا کئی وجوہ سے غلط ہے۔ حضرت ابوسعید خدری نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ کو ایک حاملہ لونڈی نظر آئی جس کے منہ سے تھوک نکل رہی تھی۔ آپ نے دریافت کیا کہ یہ لونڈی کس کی ہے ، عرض کیا گیا کہ فلاں شخص کی ہے، آپ نے پھر پوچھا۔ آیا یہ شخص اس کے ساتھ ہم بستری بھی کرتا ہے۔ لوگوں نے اثبات میں جواب دیا۔ اس پر آپ نے فرمایا۔ میرا دل چاہتا ہے کہ اس پر ایسی لعنت بھیجوں جو قبر تک اس کے ساتھ جائے، یہ شخص پیدا ہونے والے بچے کو کس طرح اپنا وارث قرار دے گا حالانکہ وہ بچہ اس کے لئے حلال نہیں ہوگا یا اسے کسی طرح اپنا غلم بنائے گا جبکہ اس نے اسے آنکھوں دیکھے اور کانوں سے غذا بہم پہنچائی ہے۔ “ آپ کا ارشاد ” اسے آنکھوں دیکھے اور کانوں سے غذا بہم پہنچائی ہے “ اس پر دلالت کرتا ہے کہ پیدا ہونے والا بچہ دو مردوں کے نطفوں سے بنا تھا۔ حضرت عمر (رض) اور حضرت علی (رض) سے بھی مروی ہے کہ ان دونوں حضرات نے دو مردوں سے بچے کا نسب کردیا تھا۔ ان دونوں کے سوا کسی صحابی سے اس کے قول کے خلاف کوئی روایت منقول نہیں ہے۔ (یہاں اس مسئلے کا ذکر بےجانہ ہوگا کہ اگر کوئی شخص حاملہ لونڈی خریدے تو جب تک وضع حمل نہ ہوجائے اس وقت تک وہ اس کے ساتھ ہم بستری نہیں کرسکتا۔ درج بالا صورت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ناراضی کا اس بنا پر اظہار کیا کہ اس شخص نے وضع حمل سے پہلے ہی اس لونڈی کے ساتھ ہمبستری شروع کردی تھی۔ مترجم) بیوی ماں کی طرح حرام نہیں ہوسکتی قول باری ہے : (وما جعل ازواجکم اللائی تظاھرون منھن امھاتکم اور تمہاری بیویوں کو جن سے تم ظہار کرتے ہو تمہاری مائیں نہیں بنادیا ہے) ۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ لوگ اپنی بیویوں سے ان الفاظ میں ظہار کرلیتے تھے کہ ” تو میرے لئے میری ماں کی پشت کی طرح ہے۔ “ اللہ تعالیٰ نے بتادیا کہ اس قول سے بیوی تحریم کے لحاظ سے ماں جیسی نہیں ہوسکتی نیز اس قول کو جھوٹ اور قابل نفرت قول قرار دیا۔ چنانچہ ارشاد ہوا (وانھم لیقولون منکرا من القول وزورا۔ یہ لوگ یقینا ایک نامعقول بات اور ھوٹ کہہ رہے ہیں) اس قول کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ایسی تحریم لازم کردی جو کفارہ ظہار کے ذریعے رفع ہوتی ہے اور ظہار کرنے والے کے اس قول کو باطل قرار دیا جس میں وہ اپنی بیوی کو اپنی ماں جیسی قرار دیتا ہے کیونکہ ماں کی تحریم تو ہمیشہ کے لئے تحریم کی صورت ہے۔ اسلام میں منہ بولا بیٹا بنانا ناجائز نہیں قول باری ہے (وما جعل ادعیاء کم ابناء کم ۔ اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا بیٹا بنادیا) ایک قول کے مطابق یہ آیت حضرت زید بن حارثہ (رض) کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں اپنا متبنیٰ بنا لیا تھا چناچہ انہیں زید بن محمد کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ مجاہد ، قتادہ اور دوسرے حضرات سے اسی طرح کی روایت ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ چیز قرآن کے ذریعے سنت کے نسخ کی موجب ہے کیونکہ پہلا قرآن کی بجائے سنت سے ثابت تھا جسے قرآن نے منسوخ کردیا۔ قول باری ہے (ذلکم قولکم باھواھکم۔ یہ صرف تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے) یعنی اس بات کی کوئی حیثیت نہیں ہے یہ ایک بےمعنی اور غیر حقیقت پسندانہ بات ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے یہ آیت ابو معمر جمیل بن اسد کے بارے میں نازل ہوئی کیونکہ قوی حافظے کی وجہ سے اس کو دو دلوں والا کہا جاتا تھا۔ اور اسی طرح تمہاری ان بیویوں کو جن سے تم اظہار کرلیتے ہو حرمت ابدی میں تمہاری ماں نہیں بنا دیا یہ آیت اوس بن صامت اور ان کی بیوی خولہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اور اسی طرح تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا نہیں بنا دیا۔ یہ تو صرف تمہارے کہنے کی باتیں ہیں اور اللہ تعالیٰ حق بات بتانا ہے اور وہی سیدھا رستہ دکھاتا ہے۔ شان نزول : مَا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَيْنِ (الخ) امام ترمذی نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ ایک دن رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ کو کچھ وسوسہ آیا اس پر جو منافقین آپ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہنے لگے کہ دیکھتے نہیں ان کے دو دل ہیں ایک دل تمہارے ساتھ ہے اور ایک دل ان کے ساتھ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے۔ اور ابن ابی حاتم نے حضیف کے طریق سے سعید بن جبیر مجاہد اور عکرمہ سے روایت کیا ہے کہ ایک کو دو دلوں والا کہا جاتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اور ابن جریر نے بواسطہ قتادہ حسن سے اسی طرح روایت نقل کی ہے باقی اس میں اتنا اضافہ ہے کہ وہ شخص کہتا تھا کہ میرا ایک دل تو مجھے حکم کرتا ہے اور دوسرا دل منع کرتا ہے۔ اور نیز ابن ابی نجیح کے طریق سے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت بنی فہم کے ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے وہ بدتمیز کہتا تھا کہ میرے پیٹ میں دو دل ہیں میں ہر ایک دل سے محمد کی عقل سے زیادہ سمجھتا ہوں۔ استغفر اللہ۔ اور ابن ابی حاتم نے سدی سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت جمیل بن معمد قریشی کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو بنی جمع سے تعلق رکھتا تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤ { مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِہٖ } ” اللہ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں رکھے۔ “ جوف کے معنی خالی جگہ کے ہیں اور یہاں اس سے سینے کا اندرونی حصہ (chest cavity) مراد ہے جس کے بائیں جانب دل ہوتا ہے۔ یعنی ہر انسان کے سینے میں اللہ نے ایک ہی دل رکھا ہے۔ اور اگر محاورۃً یوں کہا جائے کہ فلاں اور فلاں کے دل یکجا ہوگئے ہیں یا فلاں کا دل فلاں کے دل سے مل گیا ہے تو محض اس طرح کہہ دینے سے کسی کے سینے کے اندر حقیقت میں دو دل نہیں ہوجاتے۔ چناچہ جس طرح یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کے سینے میں دو دل نہیں بنائے ‘ اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی شخص کی دو مائیں نہیں ہوتیں۔ کسی شخص کی ماں صرف وہی ہے جس نے اسے جنم دیا اور کسی انسان کا باپ صرف وہی ہے جس کے صلب سے وہ پیدا ہوا ۔ { وَمَا جَعَلَ اَزْوَاجَکُمُ الّٰیِْٔ تُظٰہِرُوْنَ مِنْہُنَّ اُمَّہٰتِکُمْ } ” اور نہ اس نے تمہاری ان بیویوں کو تمہاری مائیں بنایا ہے جن سے تم ظہار کر بیٹھتے ہو۔ “ ” ظِھار “ عرب کے دور جاہلیت کی ایک اصطلاح ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے ناراض ہو کر کبھی یوں کہہ دیتا کہ اَنْتِ عَلَیَّ کَظَھْرِ اُمِّیْ (اب تو میرے اوپر اپنی ماں کی پیٹھ کی طرح حرام ہے) تو اب اسے طلاق مغلظ ّدر مغلظ شمار کیا جاتا اور اس کی بیوی اس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی۔ یہاں اس خودساختہ تصور کی نفی کردی گئی کہ تم میں سے کسی کے اپنی بیوی کو ماں کہہ دینے یا ماں کے ساتھ تشبیہہ دے دینے سے وہ اس کی ماں نہیں بن جاتی۔ ” ظہار “ کے بارے میں واضح احکام سورة المجادلہ (پارہ ٢٨) کی ابتدائی آیات میں دیے گئے ہیں۔ { وَمَا جَعَلَ اَدْعِیَآئَ کُمْ اَبْنَآئَ کُمْ } ” اور نہ ہی اس نے تمہارے ُ منہ بولے بیٹوں کو تمہارے بیٹے بنایا ہے۔ “ { ذٰلِکُمْ قَوْلُکُمْ بِاَفْوَاہِکُمْ } ” یہ سب تمہارے اپنے ُ منہ کی باتیں ہیں۔ “ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمہاری ان خود ساختہ باتوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ کسی کی ماں صرف وہی ہے جس نے اسے جنم دیا ہے اور کسی شخص کا بیٹا بھی صرف وہی ہے جو اس کے ُ صلب سے پیدا ہوا۔ فقط کسی کے کہہ دینے سے کوئی عورت کسی کی ماں نہیں بن جاتی اور کسی کے زبانی دعویٰ سے کوئی کسی کا بیٹا نہیں بن جاتا۔ { وَاللّٰہُ یَقُوْلُ الْحَقَّ وَہُوَ یَہْدِی السَّبِیْلَ } ” اور اللہ حق کہتا ہے اور وہی سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

5 That is, "One and the same person cannot be a believer and a hypocrite, truthful and false, wicked and righteous, at one and the same time. He dces not have two hearts in this chest that one should have sincerity in it and the other fearlessness of God. Therefore, a man can have only one kind of character. at a time: either he will be a believer or a hypocrite, a disbeliever or a Muslim. Now if you call a believer a hypocrite, or a hypocrite a believer, it will not change the reality. The true character of the person will inevitably remain the same." 6 Zihar is a term in Arabic. In old days when an Arab; in the heat of a domestic quarrel, would say to his wife: "Your back for me is as the back of my mother," it was thought that the woman was no longer lawful for him because he had compared her to his mother. About this Allah says: "A woman does not become a man's mother just because he has called her his mother or compared her to his mother. His mother is the woman who bore him. Only his Balling his wife his mother cannot change the reality." (For the Islamic Law concerning Zihar, see Surah Mujadalah: 2-a). 7 This is what is intended to be said. The two preceding sentences are meant to support and emphasize this same point.

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :5 یعنی ایک آدمی بیک وقت مومن اور منافق ، سچا اور جھوٹا ، بدکار اور نیکو کار نہیں ہو سکتا ۔ اس کے سینے میں دو دل نہیں ہیں کہ ایک دل میں اخلاص ہو اور دوسرے میں خدا سے بے خوفی ۔ لہٰذا ایک وقت میں آدمی کی ایک ہی حیثیت ہو سکتی ہے ۔ یا تو وہ مومن ہو گا یا منافق ۔ یا تو وہ کافر ہو گا یا مسلم ۔ اب اگر تم کسی مومن کو منافق کہہ دو یا منافق تو اس سے حقیقت نفس الامری نہ بدل جائے گی ۔ اس شخص کی اصل حیثیت لازماً ایک ہی رہے گی ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :6 ظِہار عرب کی ایک خاص اصطلاح ہے ۔ قدیم زمانے میں عرب کے لوگ بیوی سے لڑتے ہوئے کبھی یہ کہہ بیٹھتے تھے کہ تیری پیٹھ میری لئے میری ماں کی پیٹھ جیسی ہے ۔ اور یہ بات جب کسی کے منہ سے نکل جاتی تھی تو یہ سمجھتا جاتا تھا کہ اب یہ عورت اس پر حرام ہو گئی ہے کیونکہ وہ اسے ماں سے تشبیہ دے چکا ہے ۔ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بیوی کو ماں کہنے یا ماں کے ساتھ تشبیہ دے دینے سے وہ ماں نہیں بن جاتی ۔ ماں تو وہی ہے جس نے آدمی کو جنا ہے ۔ محض زبان سے ماں کہہ دینا حقیقت کو نہیں بدل دیتا کہ جو بیوی تھی وہ تمہارے کہنے سے ماں بن جائے ۔ ( یہاں ظہار کے متعلق شریعت کا قانون بیان کرنا مقصود نہیں ہے ۔ اس کا قانون سورہ مجادلہ ۔ آیات ۲ ۔ ٤ میں بیان کیا گیا ہے ) ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :7 یہ اصل مقصود کلام ہے ۔ اوپر کے دونوں فقرے اسی تیسری بات کو ذہن نشین کرنے کے لئے بطور دلیل ارشاد ہوئے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: اس معجزانہ جملے کا تعلق پچھلی آیت سے بھی ہے، اور اگلی آیت سے بھی۔ پچھلی آیت سے اس کا تعلق یہ ہے کہ کافر اور منافق لوگ آپ کو یہ تجویز پیش کر رہے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کو بھی خوش رکھئے، اور ان کے مطالبات مان کر ان کو بھی خوش کردیجئے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے سینے میں ایک ہی دل پیدا فرمایا ہے، اور جب وہ اللہ تعالیٰ کا ہو رہے تو پھر اس کی مرضی کے خلاف کسی اور کو خوش رکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، یہ ممکن نہیں ہے کہ انسان ایک دل اللہ تعالیٰ کو دیدے، اور دوسرا دل کسی اور کو۔ اور اگلی آیت سے اس کا تعلق یہ ہے کہ اہل عرب میں یہ رسم تھی کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو یہ کہہ دیتا تھا کہ : تم میرے لیے ایسی ہو جیسے میری ماں کی پشت اور یہ کہنے کے بعد وہ بیوی کو ماں کی طرح حرام سمجھتا تھا، اسی طرح جب کوئی کسی کو منہ بولا بیٹا بنا لیتا تو اسے اپنا سگا بیٹا ہی سمجھ لیتا تھا، اور اس پر میراث وغیرہ میں بھی ویسے ہی احکام جاری کرتا تھا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جس طرح ایک انسان کے سینے میں دو دل نہیں ہوسکتے، اسی طرح انسان کی دو مائیں نہیں ہوسکتیں۔ اور نہ دو قسم کے بیٹے ہوسکتے ہیں کہ ایک انسان کی اپنی صلب سے پیدا ہو، اور دوسرا زبانی اعلان سے بیٹا بن جائے۔ 3: اس کو اصطلاح میں ’’ ظہار‘‘ کہتے ہیں، اور آگے سورۂ مجادلہ میں اس کی تفصیل آنے والی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤‘ ٥۔ یہ آیتیں زید بن حارثہ (رض) کے باب میں اتری ہیں وہ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے پالک تھے حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو متبنیّٰ کرلیا تھا نبوت سے پہلے کے رواج کے موافق لوگ ان کو زید بن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام سے پکارتے تھے اللہ تعالیٰ کو یہ بات ناپسند معلوم ہوئی اس واسطے اس مصنوعی طریقہ کے توڑنے کا ارادہ فرما کر فرمایا کہ خدا نے تمہارے منہ بولوں کو تمہارا حقیقی بیٹا نہیں بنایا مسند امام احمد اور ترمذی میں حضرت عبدللہ بن عباس (رض) سے معتبر روایت ٢ ؎ ہے (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٦٦ ج ٣۔ ) جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک روز پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور نماز میں آپ کو کوئی وسوسہ پیدا ہوا تو جو منافق آپ کے ساتھ نماز پڑ رہے تھے کہنے لگے ان کے دو دل ہیں ایک منافقوں کے ساتھ اور ایک ایمان والوں کے ساتھ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائی اور فرمایا کہ کسی آدمی کے جسم میں اللہ تعالیٰ نے دو دل نہیں بنائے پھر فرمایا پکارو ان لے پالوں کو ان کے باپ کے نام سے کہ یہ انصاف کی بات ہے اللہ کے نزدیک پھر اگر تم نہ جانتے ہو ان کے باپوں کو تو وہ تمہارے بھائی ہیں دین میں امام بخاری اور مسلم رحمتہ اللہ علاہمد نے عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کیا ہے کہ زیدبن حارثہ کو ہم زید بن محمد… پکارتے تھے یہاں تک کہ قرآن شریف میں یہ آیت اتری اور اس حدیث کو ترمذی نسائی نے بھی کئی طریقہ ٢ ؎ سے روایت کر کے کہا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ منہ بولے بیٹوں سے حقیقی بیٹوں کا سا برتاؤ کرتے تھے صحیح بخاری میں حضرت عائشہ (رض) سے بھی ایک روایت ٣ ؎ ہے (٣ ؎ الدرالمنثور ص ١٨١ ج ٥) جس سے معلوم ہوتا ہے کہ لے پالک کا طریقہ زمانہ شرک کا ایک طریقہ ہے پہلے کی کسی شریعت میں اس کا کوئی حکم نہیں ہے پھر فرمایا اگر تم کسی کی نسبت میں چوک جاؤ اور انجانی سے ایک کے بیٹے کو دوسرے کا بیٹا کہہ دو تو تم پر اس میں کچھ گناہ نہیں ہے گناہ تو اسی پر ہے جو جان بوجھ کر گناہ کا کام کرے رہی بھول چوک وہ معاف ہے ‘ مشرکین مکہ میں جس طرح لے پالک کہے پالنے گناہ تو اسی پر ہے جو جان بوجھ کر گناہ کا کام کرے رہی بھول چوک وہ معاف ہے ‘ مشرکین مکہ میں جس طرح لے پالک کہے پالنے کی رسم تھی جس رسم کے موافق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زیدبن حارثہ کو اپنالے پالک بیٹا بنایا تھا اسی طرح شرک کے زمانہ میں یہ بھی ایک رسم تھی کہ مشرک لوگ اپنی بی بی کو اپنی ماں کو پشت کے ساتھ تشبیہ دے کر انت علی کظھرامی کہا کرتے تھے اور اس عورت کو ہمیشہ کے لیے اپنے اوپر حرام ٹھہرالیا کرتے تھے قد سمع اللہ میں اس رسم کے موقوف ہوجانے کا ذکر تفصیل سے آوے گا یہاں مختصر طور پر اتنا ہی ذکر ہے کہ جس طرح آدمی کے جسم میں دو دل نہیں ہوتے اسی طرح نہ ماں کے کہنے سے بی بی ماں ہوسکتی ہے نہ لے پالک اجنبی باپ کا بیٹا ہوسکتا ہے۔ صحیح بخاری ومسلم میں سعد بن ابی وقاص سے روایت ١ ؎ ہے (١ ؎ مشکوٰۃ باب اللعان۔ ) جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اجنبی شخص کو جان بوجھ کر باپ ٹھہرانا اتنا بڑا گناہ ہے جس سبب سے جنت سے آدمی محروم ہوجاتا ہے۔ لے پالک کی رسم کی ممانعت کے بعد شریعت کے بعد شریف میں اس ممانعت کی جس قدر تاکید ہے اس کی تاکید کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 کہ ” ایک دل میں ایمان و اخلاص ہو اور دوسرے میں کفر و نقاق “ کفر و اسلام اور ایمان و نفاق بیک وقت ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے۔ صاحب ” و جیز “ لکھتے ہیں ” جب اللہ تعالیٰ نے حضرت کو توجہ الی اللہ اور توکل کا حکم دیا اور کافروں اور منافقوں کی اطاعت سے منع کیا تو آگاہ فرمایا کہ آدمی کے دو دل نہیں جو ایک اللہ کی طرف متوجہ کرے اور ایک غیر کی طرف، بلکہ دل ایک ہے سو اللہ تعالیٰ کی طرف لگانا چاہیے۔ ( حاشیہ جامع البیان) ۔4 یعنی جس طرح ایک سینہ میں دو دل نہیں ہوسکتے اور نہ بیوی ” ظہار “ کرنے یعنی ” انت علی کظھر امی “ کہہ دینے سے اس کی حقیقی ماں بن جاتی ہے، اسی طرح کسی کو منہ بولا بیٹا بنانے سے وہ حقیقی بیٹا نہیں بن جاتا کیونکہ کسی آدمی کے دو باپ نہیں ہوسکتے (ظہار کے لیے دیکھئے سورة مجادلہ آیت 2) زمانہ جاہلیت میں اگر ایک شخص کسی دوسرے کے لڑکے کو منہ بولا بیٹا بنا لیا تو وراثت و حرمت وغیرہ احکام میں وہ حقیقی بیٹا ہوتا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی قبل از نبوت عام عادت کے مطابق اپنے آزاد کردہ غلام زید (رض) بن حارثہ کو اپنا بیٹا بنایا تھا اور لوگ اسے زید (رض) بن محمد (ﷺ) کہہ کر پکارتے تھے۔ آگے آرہا ہے کہ جب انہوں نے اپنی بیوی حضرت زینب کو طلاق دی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے نکاح کرلیا تو منافقوں نے بڑا شورمچایا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بہو سے نکاح کرلیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور متبنی بنانے کی رسم کو لغو قرار دے دیا۔ (ابن کثیر)5 یعنی ایسی کہنے کی باتیں بہتیری ہیں ان پر عمل نہیں ہوسکتا، مطلب یہ ہے کہ ان باتوں کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر ( 4 تا 5) ۔ ماجعل (اس نے نہیں بنایا) ۔ رجل (مرد) ۔ جوف (سینہ) ۔ الی (وہ عورتیں) ۔ تظہرون (تم ظہار کرتے ہو (بیوی کو ماں کہہ دیتے ہو) ۔ ادعیاء (پکارنا) ۔ افواہ (فوہ) (منہ ۔ چہرے) ۔ ادعوا (تم پکارو) ۔ اقسط (بہترین انصاف۔ پورا انصاف) ۔ موالی (مولی) (تونے ارادے سے کیا) ۔ نشریح : آیت نمبر 4 تا 5) ۔ ” ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ معاشرہ میں بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو زبان سے کہی جاتی ہیں لیکن آنے والے گوگ زبان سے کہی گئی باتوں کو حقیقت کا روب دیدیتے ہیں حالانکہ ان باتوں کی حیثیت کوئی نہیں ہوتی جیسے عربوں میں مشہور تھا کہ جا آدمی عقل مند اور سمجھ دار ہوتا ہے اس کے سینے میں دودل ہوتے ہیں یا جس نے اپنی بیوی سے یہ کہہ دیا کہ تیری پیٹھ میرے لئے میری ماں کی پیٹھ جیسی ہے تو وہ ماں سے تشبیہ دینے کی وجہ سے یہ سمجھتے تھے کہ اب اس کی بیوی اس پر حرام ہوگئی ہے یا بعض لوگ کسی کو اپنا بیٹا بنا لیا کرتے تھے اور اس کے وہی حقوق ہوجاتے تھے جو سگی اور حقیقی اولاد کے حقوق ہیں فرمایا کہ یہ زبانی کلامی باتیں ہیں اس سے زیادہ ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ فرمایا کہ جس طرح کسی انسان کے سینے میں دو دل نہیں ہوتے، بیوی کو ماں کہنے سے وہ ماں نہیں بن جاتی کیونکہ ماں تو اسی کو کہتے ہیں جس سے وہ پیدا ہوا ہے۔ اسی طرح اگر کسی نے کسی دوسرے کے بیٹے کو یا بیٹی کو اپنا بیٹا یا بیٹی بنالیا ہے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ محبت اور پیار کے رشتے ہو سکتے ہیں لیکن کبھی حقیقی رشتے نہیں بن سکتے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زید (رض) ابن حارثہ کو اپنا بیٹا بنا رکھا تھا۔ آپ کو ان سے ایسی محبت تھی کہ لوگ ان کو زید ابن محمد کہا کرتے تھے جب یہ آیت نازل ہوئی اس کے بعد سے لوگاں نے ان کو زید (رض) ابن حارثہ ہی کہنا شروع کردیا تھا۔ ان آیات کے سلسلہ میں دو باتیں عرض ہیں تاکہ بات واضح ہوجائے۔ (1) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ایک آزاد کردہ غلام حضرت زید ابن حارثہ کو اپنا بیٹا بنا رکھا تھا۔ جب وہ جو اس ہوگئے تو آپ نے دنیا سے آقا اور غلام کے فرق کو مٹانے اور قریش کی شدید مخالفت کے باوجود اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب (رض) سے ان کا نکاح کردیا۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس سے پورے عرب معاشرہ میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیا کیونکہ عربوں میں ایسی کوئی روایت موجود نہیں تھی کہ غلاموں یا آزاد کئے ہوئے غلاموں سے شریف اور باعزت کہے جانے والے خاندانوں کے لڑکے یا کڑکیوں کا نکاح کردیا جائے۔ مگر آپ نے اس کی پرواہ نہیں کی۔ اور اس انسانی فرق کو مٹانے کے لئے آپ نے اپنے گھر سے ابتداء کی۔ یہ اور بات ہے کہ حضرت زینب (رض) اور حضرت زید (رض) میں ذہنی ہم آہنگی نہ ہوسکی اور حضرت زید (رض) نے حضرت زینب (رض) کو طلاق دے دی۔ طلاق کا واقعہ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک تھا۔ ان حالات میں جب کہ پورا خاندان ایک شرمندگی محسوس کر رہا تھا آپ نے اللہ کے حکم سے حضرت زینب (رض) سے نکاح فرمالیا۔ جیسے ہی آپ نے نکاح فرمایا تو عرب معاشرہ میں چاروں طرف ایک شور مچ گیا اور مشرکین اور منافقین کو زبردست پروپیگنڈے کا موقع مل گیا۔ کہنے لگے کہ یہ کیسے پیغمبر ہیں جنہوں نے اپنے بیٹے کی طلاق شدہ بیوی سے نکاح کرلیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کسی کو بیٹا کہہ دینے یا بنا لینے سے وہ حقیقی بیٹا نہیں بن جاتا۔ لہذا اگر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو قریش کو شدید صدمے سے نکالنے کے لئے حضرت زینب سے نکاح کرلیا ہے تو اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔ (2) فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ کسی کو پیار سے بیٹا یا بیٹی کہنے میں حرج نہیں ہے۔ لیکن جب کہ یہ بات اسی حد تک رہے تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ کوئی اگر کسی کو بیٹا یا بیٹی بنالے تو اس سے وہ حقیقی اولاد کی طرح نہیں بن جاتے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو اس سے بھی سخت منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص اپنے باپ کے ہوتے ہوئے کیس دوسرے کو اپنا باپ کہے۔ چناچہ حضرت سعد (رض) ابن ابی وقاص سے روایت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے کہ ” جس نے اپنے آپ کو اپنے باپ کے سوا کسی اور کا بیٹا کہا جب کہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے۔ (بخاری۔ مسلم۔ ابودائود) ۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ جاہلیت میں یہ تینوں غلط باتیں مشہور تھیں کہ ذہین و عقیل آدمی کے دو دل سمجھا کرتے، اور ظاہر موبدہ کا حکم کرتے اور متنبی کو تمام احکام میں مثل حقیق بیٹے کے قرار دیتے، یہاں سیاق کلام سے زیادہ مقصود تیسری غلطی کا رفع کرنا ہے، مگر تقویت کے لئے دو غلطیاں اور بھی رفع کردیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” اللہ “ پر توکل کرنے کی تلقین کرنے کے بعد مسلم معاشرے سے رسومات کو ختم کرنے کا اعلان۔ اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے والے ہی لوگوں کی مخالفت کی پر وہ کیے بغیر رسومات کا خاتمہ کیا کرتے ہیں۔ عرب معاشرہ میں متبنّٰی بیٹے کو حقیقی بیٹے کا درجہ دینا اور جذبات میں آکر اپنی بیوی کو ماں کہہ بیٹھنا حرف آخر سمجھا جاتا تھا۔ ان الفاظ اور رسومات کے خلاف کرنا اس طرح تھا جیسے کوئی شخص خودکشی کرنے کا اعلان کردے۔ لوگوں کے دلوں سے ان رسومات کو کھرچ ڈالنے کے لیے ارشاد ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے کہ ایک دل میں اپنے رب کا خوف رکھے اور دوسرے دل میں لوگوں کا خوف سمایا رہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کے سینے میں ایک ہی دل رکھا ہے تو اس کے دل میں ایک ہی ذات کا خوف اور اس کے حکم کا احترام ہونا چاہیے۔ لہٰذا حکم دیا جاتا ہے کہ تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں کو ماں کہہ بیٹھتے ہیں انہیں سن لینا چاہیے کہ اس طرح ان کی بیویاں ان کی مائیں نہیں بن جاتیں اور جن لے پالکوں کو تم اپنا بیٹا قرار دیتے ہو وہ تمہارے حقیقی بیٹوں کا درجہ نہیں حاصل کرسکتے۔ یہ تمہارے منہ کی باتیں ہیں یعنی تمہارے اپنے الفاظ اور محبت کے جذبات ہیں جن کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ جو فرماتا ہے وہی سچ ہے اور وہ ہر معاملے میں سیدھے راستے کی رہنمائی کرنے والا ہے۔ اس کا حکم ہے کہ تم اپنے لے پالک بچوں کو ان کے حقیقی باپوں کے نام سے پکارا کرو۔ ” اللہ “ کے نزدیک یہی انصاف کی بات ہے اگر تمہیں ان کے باپوں کا نام معلوم نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں۔ اس معاملے میں جو تم سے پہلے غلطی ہوگئی اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا مہربان ہے۔ اگر تم دانستہ طور پر غلطی کروگے تو اس پر مواخذہ کیا جائے گا۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) ذکر کرتے ہیں یہ فرمان نازل ہونے سے پہلے لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متبنّٰی زید کو زید بن محمد کہتے تھے (رواہ البخاری : کتاب السیف) جونہی یہ حکم نازل ہوا تو ہم اسے زید (رض) بن حارثہ کے نام سے پکارنے لگے۔ حضرت سلمان فارسی (رض) فارس کے رہنے والے اور حضرت صہیب (رض) روم کے رہنے والے تھے جس وجہ سے رومی کہلائے چھوٹی عمر میں وہ دشمن کے ہاتھ چڑھ گئے انہیں خود بھی معلوم نہ تھا کہ ان کے باپوں کے نام کیا ہیں۔ ( بخاری : کتاب المناقب) لوگوں کو اس بات پر الجھن ہوتی تھی کہ ضرورت کے وقت انہیں کس کا بیٹا کہہ کر پکارا جائے اس پر یہ حکم نازل ہوا کہ جن کے باپ تمہیں معلوم نہیں وہ دینی اعتبار سے تمہارے بھائی اور دوست ہیں۔ آپ انہیں بھائی اور دوست کہہ کر پکار سکتے ہیں۔ اسی طرح کسی کو پیار سے بھائی اور بیٹا بھی کہا جاسکتا ہے لیکن وہ حقیقی بھائیوں اور بیٹوں کا درجہ نہیں پاسکتے۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ مَنِ ادَّعٰی إِلٰی غَیْرِ أَبِیْہِ أَوِ انْتَميٰ إِلٰی غَیْرِ مَوَالِیْہِ فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ الْمُتَتَابِعَۃُ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ) [ رواہ أبوداوٗد : باب فی الرجل ینتمی الخ ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ فرماتے تھے جس نے اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کے باپ کو اپنا باپ بنانے کا دعویٰ کیا یا کسی نے اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کے آقا کی طرف اپنے آپ کو منسوب کیا۔ اس پر قیامت کے دن تک ” اللہ “ کی لعنت برستی رہے گی۔ “ (عَنْ سَعْدٍ (رض) قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ مَنِ ادَّعٰی إِلٰی غَیْرِ أَبِیہِ ، وَہْوَ یَعْلَمُ أَنَّہُ غَیْرُ أَبِیْہِ ، فَالْجَنَّۃُ عَلَیْہِ حَرَامٌ)[ رواہ البخاری : باب مَنِ ادَّعٰی إِلٰی غَیْرِ أَبِیْہِ ] ” حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص نے اپنے باپ کا علم ہونے کے باوجود کسی دوسرے شخص کی طرف اپنی نسبت کی اس پر جنت حرام ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے۔ ٢۔ بیوی کو ماں کہنے سے وہ اپنے خاوند کی ماں نہیں بن جاتی۔ ٣۔ متبنّٰی تمہارے حقیقی بیٹے نہیں بن سکتے۔ ٤۔ اللہ کا ہر فرمان سچ ہے اور وہ سیدھے راستے کی رہنمائی کرتا ہے۔ ٥۔ اپنے لے پالکوں کو ان کے باپوں کے نام سے پکارا کرو۔ ٦۔ جن کے باپ کا نام تم نہیں جانتے وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا نہایت ہی مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ راہنمائی فرمانے والا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کے بغیر کوئی ہدایت نہیں پاسکتا۔ (الاعراف : ٤٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ (الانعام : ١٦١) ٣۔ اللہ تعالیٰ صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرنے والا ہے۔ ( الحج : ٥٤) ٤۔ ہم نے قوم ثمود کی راہنمائی کی مگر انہوں نے ہدایت کے بدلے جہالت پسند کی۔ (حٰم السجدۃ : ١٧) ٥۔ ہدایت وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ ہدایت قرار دے۔ (البقرۃ : ١٢٠) ٦۔ ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے۔ (القصص : ٥٦) ٧۔ وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ : ٢١٣) ٨۔ ہدایت پانا اللہ تعالیٰ کا احسان ہے۔ (الحجرات : ١٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ما جعل اللہ لرجل من قلبین فی جو فہ ” اللہ نے کسی شخص کے دھڑ میں دو دل نہیں رکھے “۔ ہر انسان کے اندر ایک ہی دل اور ایک ہی دماغ ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کا تصور بھی ایک ہوگا اور اس کا نظام بھی ایک ہوگا۔ وہ ایک ہی صراط مستقیم پر چل سکتا ہے۔ اس کے سامنے ایک ہی پیمانہ ہوگا جس سے وہ حسن وقبح کو ناپے گا۔ اور ایک ہی پیمانے سے وہ واقعات اور اقدار کو ناپے گا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو اس کی زندگی ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گی۔ وہ منافق ہوگا۔ اس کی زندگی میں نشیب و فراز ہوں گے اور وہ صراط مستقیم پر نہ ہوگا۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک انسان اپنے اخلاق و آداب ایک سرچشمے سے لے اور اپنا دستور و قانون کسی دوسرے سرچشمے سے لے اور اپنا اجتماعی اور معاشی نظام کسی تیسرے سر چشمے سے لے اور اپنے فنون اور فلسفے کسی چوتھے سرچشمے سے لے۔ اس قسم کے مخلوط خیالات کسی ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے۔ ایسا شخص اور اس کی شخصیت ٹکڑے ٹکڑے ہوگی اور اس کا وجود قائم نہ رہ سکے گا۔ ایک نظریاتی شخص ، جس کا فی الواقعہ کوئی نظریہ اور عقیدہ ہو ، یہ نہیں کرسکتا کہ وہ زندگی کے چھوٹے یا بڑے معاملے میں کوئی نظریاتی موقف نہ رکھتا ہو۔ وہ ہر وقت اپنے نظریات کے تقاضوں کے مطابق قدریں اپناتا ہے اور یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ کوئی بات کرے یا کوئی حرکت کرے ، یا کوئی نیت و ارادہ کرے یا کوئی سوچ کرے اور وہ اس کے نظریات سے متاثر نہ ہو یا اس کے عقیدے سے مبرا ہو۔ کیونکہ اللہ نے کسی انسان کے سینے میں دو دل نہیں رکھے۔ ایک دل ہوتا ہے ، ایک عقیدہ ہوتا ہے ، ایک عمل ہوتا ہے ، ایک سمت ہوتی ہے اور ایک ہی پیمانہ اور قدر ہوتی ہے۔ کوئی نظریاتی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کام میں نے اپنی ذاتی حیثیت میں کیا ہے اور یہ میں نے ایک مسلمان کی حیثیت میں کیا ہے۔ جیسا کہ آج کل کے سیاست دان ایسا کرتے ہیں ، یا جیسا کہ اجتماعی جمعیتیں کرتی ہیں یا علمی سوسائٹیاں کرتی ہیں۔ غرض انسان ایک ہوتا ہے ، اس کا دل ایک ہوتا ہے ، نظریہ ایک ہوتا ہے ، قبلہ ایک ہوتا ہے ، اس کا تصور ایک ہوتا ہے ، اقدار اور حسن و قبح کے پیمانے ایک ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ اس کے عقائد میں ہوتا ہے۔ غرض اسی ایک دل کے ساتھ انسان تنہا بھی زندہ رہتا ہے ، خاندان میں بھی رہتا ہے ، جماعت میں بھی رہتا ہے ، حکومت میں بھی رہتا ہے ، دنیا میں بھی رہتا ہے ، چھپے بھی رہتا ہے اور برملا بھی رہتا ہے۔ مزدور و آقا بھی رہتا ہے ، حاکم و محکوم بھی رہتا ہے۔ مشکلات اور سہولیات میں بھی رہتا ہے۔ غرض یہ اس کا رنگ ہوتا ہے۔ یہ تبدیل نہیں ہوتا۔ نہ اس کا معیار بدلتا ہے اور نہ قیمت بدلتی ہے۔ نہ اس کی سوچ بدلتی ہے۔ ما جعل اللہ لرجل من قلبین فی جو فہ (33: 4) لہٰذا کسی بھی نظریاتی اسلام کا منہاج ایک ہوتا ہے ، راستہ ایک ہوتا ہے ، رخ ایک ہوتا ہے۔ صرف اللہ کے حکم کے سامنے جھکتا ہے۔ دل ایک ہے تو الٰہ بھی ایک ہے ، آقا بھی ایک ہے ، منہاج حیات بھی ایک ہے اور اگر کوئی ایسا نہ ہوگا تو اس کی زندگی منتشر ہوگی اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر رہ جائے گا۔ اس فیصلہ کن تبصرے کے بعد اور منہاج حیات کے تعین کے بعد اب سیاق کلام قانونی اصلاحات شروع کرتا ہے۔ پہلے ظہار اور متنبی کا قانون منسوخ کیا جاتا ہے تاکہ خاندان کو بیرونی عناصر سے پاک کرکے خالص رشتہ داری اور قدرتی بنیادوں پر تعمیر کیا جائے۔ وما جعل ازواجکم الئ۔۔۔۔۔۔ وکان اللہ غفورا رحیما (4 – 5) ” ۔ “۔ جاہلیت میں رواج یہ تھا کہ ایک شخص اپنی بیوی سے کہتا تھا تم مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہو۔ یعنی تم مجھ پر اس طرح حرام ہو جس طرح ماں حرام ہے۔ اسی وقت سے اس پر اس کے ساتھ مجامعت حرام ہوجاتی۔ اب یہ معلقہ ہوجاتی نہ یہ مطلقہ ہوتی کہ دوسرا کوئی اس سے نکاح کرتا ، نہ اس کی بیوی بن سکتی۔ اور یہ عورتوں پر ہونے والے مظالم میں سے سب سے بڑا ظلم تھا۔ اور جاہلیت کے دور کی بدسلوکیوں میں سے ایک بدسلوکی تھی۔ اسلام نے اصلاحات کا کام سب سے پہلے خاندانی نظام سے شروع کیا۔ خاندان کے اندر ہونے والے اس ظلم کو ختم کیا ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ خاندان انسانی اجتماعیت کا پہلا دائرہ ہے۔ اس لیے اسلام نے خاندانی نظام کی طرف بہت توجہ دی تاکہ جس تربیت گاہ میں بچے پرورش پاتے ہیں ، اس کی فضا خوشگوار ہو ، اور پر امن ہو ، چناچہ عورت کو اس عظیم بوجھ سے نکالا گیا اور اسے اس حالت قید سے رہائی دلا دی گئی۔ اور میاں بیوی کے تعلقات کو ازسرنو عدل و انصاف پر استوار کیا۔ چناچہ یہ قانون وضع کیا گیا۔ وما جعل ازواجکم ۔۔۔۔۔ امھتکم (33: 4) ” اس نے تم لوگوں کی ان بیویوں کو جن سے تم ظہار کرتے ہو ، تمہاری ماں نہیں بنا دیا ہے “۔ کیونکہ صرف زبان سے ماں کہنے سے بیوی ماں نہیں بن جاتی۔ حقیقت واقعہ کے مطابق ماں ، ماں ہے اور بیوی ، بیوی ہے۔ محض ایک لفظ کہنے سے تعلقات و روابط کی نوعیت نہیں بدل جاتی ۔ یہی وجہ ہے کہ ظہار کی وجہ سے ابدی حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ جس طرح ماں حرام ہوتی ہے جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ سورة مجادلہ میں ظہار کے ظالمانہ قانون کو باطل کیا گیا اور واقعہ یوں ہوں کہ اوس ابن الصامت نے اپنی بیوی خولہ بنت ثعلبہ کے ساتھ ظہار کرلیا۔ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور اس نے یہ دعویٰ کیا رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ میرا مال کھا گیا ، اس نے میری جوانی کو ختم کردیا ، اور میرا پیٹ پھول گیا۔ اور میری عمر بڑھ گئی اور میری اولاد ختم ہوگئی تو اسنے میرے ساتھ ظہار کرلیا۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ تم اس پر حرام ہوگئی ہو “۔ اس نے شکایت بار بار پیش کی۔ اس پر سورة مجادلہ کی یہ آیات نازل ہوئیں : قد سمع اللہ قول التی ۔۔۔۔۔۔۔ وللکفرین عذاب الیم (58: 1 – 4) ” اللہ نے سن لی اس عورت کی بات جو اپنے شوہر کے معاملے میں تم سے تکرار کر رہی ہے اور اللہ سے فریاد کیے جاتی ہے ۔ اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے ، وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔ تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں ان کی بیویاں ان کی مائیں نہیں ہیں ، ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کا جنا ہے۔ یہ لوگ ایک سخت ناپسندیدہ اور جھوٹی بات کہتے ہیں اور حقیقت یہ کہ اللہ بڑا معاف کرنے والا ہے اور درگزر فرمانے والا ہے۔ جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں پھر اپنی اس بات سے رجوع کریں جو انہوں نے کہی تھی تو قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں ایک غلام آزاد کرنا ہوگا ، اس سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو ، اللہ اس سے باخبر ہے اور جو شخص غلام نہ پائے وہ دو مہینے کے پے در پے روزے رکھے ، قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں اور جو اس پر بھی قادر نہ ہو وہ 60 مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ یہ حکم اس لیے دیا جا رہا ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاؤ۔ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں اور کافروں کے لیے دردناک سزا ہے “۔ اس قانون کی رو سے ظہار کی وجہ سے میاں بیوی کو وقتی طور پر ایک دوسرے سے علیحدہ کردیا گیا اور سابق قانون میں جو ابدی حرمت تھی ، اسے ختم کردیا گیا۔ اور اگر میاں بیوی باہم دوبارہ ازدواجی زندگی اختیار کرنا چاہیں تو اسے سے قبل وہ ایک غلام آزاد کریں یا مسلسل دو ماہ روزے رکھیں یا 60 مسکینوں کو کھانا کھلائیں۔ یوں دوبارہ بیوی خاوند کے لیے حلال ہوجائے گی اور دونوں کی ازدواجی زندگی حسب سابق شروع ہوجائے گی۔ اور یہ نیا قانون واقعیت پسندانہ ہے اور واقعی صورت حالات پر مبنی ہے۔ وما جعل ازواجکم الئی تظھرون منھن امھتکم (33: 4) ” اللہ نے تمہاری ان بیویوں کو جن سے تم ظہار کرتے ہو ، تمہاری مائیں نہیں بنایا “۔ اس جاہلی عادت کی وجہ سے خاندان ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتا تھا اور دوسری جانب عورت پر ایک دائمی ظلم تھا اور وہ زندہ درگور ہوجاتی تھی۔ یوں خاندانی روابط کے اندر اضطراب ، طوائف الملوکی اور پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی تھیں اور یہ سب کچھ مرد کی ذاتی خواہشات اور جاہلی سوسائٹی میں ان کی برتری اور تشدد کی وجہ سے تھا۔ یہ تو تھا مسئلہ ظہار رہا قانون متنبی اور لوگوں کو اپنے باپوں کے سوا دوسروں کے نام سے پکارنا “ یہ بھی خاندانی نظام کے لیے باعث پریشانی تھا اور اسکی وجہ سے ایک خاندان کی ہم آہنگی میں خلل پڑتا تھا۔ اس کے باوجود کہ عربی معاشرے میں عفت اور نسب کا بہت بڑا خیال رکھا جاتا تھا اور نسب پر فخر کیا جاتا تھا لیکن اس فخر و مباہات کے ساتھ ساتھ بعض کمزور پہلو بھی عرب معاشرے میں پائے جاتے تھے۔ معدودے چند خاندانوں کے سوا یہ کمزوریاں عموماً تھیں۔ بعض لوگوں کے ہاں ایسے بیٹے بھی تھے جن کے سرے سے باپ معلوم ہی نہ تھے۔ بعض لوگوں کو اس قسم کے نوجوان پسند آئے تو وہ انہیں اپنا بیٹا بنا لیتے ہیں اس کو اپنے نسب میں شمار کرلیتے اور دونوں ایک دوسرے کی میراث کے حقدار ہوجاتے۔ بعض بیٹے ایسے تھے کہ ان کے باپ معلوم تھے لیکن بعض اوقات ایک شخص کو کوئی ایسا لڑکا پسند آجاتا ، وہ اسے اپنا بیٹا بنا لیتا۔ اور اسے اپنے نسب میں شریک کرلیتا ۔ لوگوں کے اندر وہ ابن فلاں مشہور ہوتا۔ وہ اس کے خاندان کا فرد بن جاتا۔ یہ معاملہ خصوصاً جنگی قیدیوں اور اغوا شدہ لوگوں کے ساتھ ہوتا۔ جنگ اور ڈاکوں میں بچے اور نوجوان لڑکے قید ہوجاتے۔ بعض لوگ ایسے لوگوں کو اپنا بیٹا بنا لیتے۔ اسے اپنا نام دے دیتے اور وہ اس کے ساتھ مشہور ہوجاتا اور وہ بیٹے کے حقوق و فرائض ادا کرتا۔ انہی میں سے زیاد ابن حارثہ کلبی بھی تھا۔ یہ ایک عربی قبیلہ ہے ، ایام جاہلیت کے دور میں ڈکیتیوں میں سے کسی ڈکیتی میں یہ قید ہوکر آگیا۔ اسے حکم ابن حزام نے اپنی پھوپھی خدیجہ کے لیے خرید لیا۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خدیجہ کو اپنے نکاح میں لے لیا تو اس نے یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بخش دیا۔ اس کے بعد اس کے باپ اور بیٹے نے اسے آزاد کرنے کا مطالبہ کیا تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اختیار دے دیا تو زید نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اختیار کرلیا۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے آزاد کرکے معبنی بنا دیا اور لوگ اسے زید ابن محمد کہنے لگے۔ غلاموں میں سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وہ سب سے پہلے ایمان لائے۔ جب اسلام نے خاندانی تعلقات کو اپنی طبیعی اور فطری بنیادوں پر استوار کرنا شروع کیا ، خاندانی روابط کو مستحکم بنانے کی سعی کی اور خاندان کو خالص خاندانی حد تک محدود کیا تو جاہلی قانون متنبی کو ختم کردیا اور خاندانی روابط کو نسب کی بنیاد پر قائم کردیا۔ یعنی خونی رشتے باپ بیٹے کی اساس پر ۔ اور یہ حکم دیا۔ وما جعل ادعیاء کم ابناء کم (33: 4) ” اللہ نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا نہیں بنایا “۔ ذلکم قولکم بافواھکم (33: 4) ” یہ وہ باتیں ہیں جو تم لوگ اپنے منہ سے نکالتے ہو “۔ صرف باتوں سے واقعات اور حقائق نہیں بدلتے۔ اور صرف باتوں سے خونی رشتے بھی قائم نہیں ہوتے اور وراثت کے حقوق بھی پیدا نہیں ہوجاتے۔ اور محض زبان سے یہ رشتے ایسے نہیں ہوتے جو اس وقت ہوتے ہیں جب ایک زندہ بچہ زندہ ماں سے پیدا ہوتا ہے یا حقیقی باپ سے پیدا ہوجاتا ہے۔ واللہ یقول الحق وھو یھدی ۔۔۔۔ (33: 4) ” مگر اللہ جو بات کہتا ہے وہی حقیقت ہے اور وہی صحیح طریقے کی طرف رہنمائی کرتا ہے “۔ وہ مطلق حق کہتا ہے جس کے اندر کوئی باطل نہیں ہوتا اور ان سچائیوں میں سے ایک سچائی یہ ہے کہ خاندانی قوانین اور رشتے حقیقت پر مبنی ہوں۔ یعنی خون اور نسب کے روابط ہوں۔ نہ محض زبانی باتوں پر۔ وہ قانون سازی میں سیدھا راستی اختیار کرتا ہے اور اسی کی طرف ہدایت کرتا ہے۔ یہ فطری قانون ہوتا ہے اور انسان کے بنائے ہوئے قوانین ان فطری قوانین کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ خصوصاً جبکہ وہ حقائق نہ ہوں۔ محض خالی خولی باتیں ہوں۔ ایسے الفاظ ہوں جن کا کوئی مفہوم نہ ہو ، لہٰذا ایسے قوانین و روابط پر حقیقی قوانین و روابط غالب ہوجاتے ہیں جو سیدھے راستے پر مبنی ہوں۔ ادعوھم لابآئھم اقسط عند اللہ (33: 5) ” منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو۔ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے “۔ منصفانہ بات یہ ہے کہ بیٹے کو باپ کے نام سے پکارا جائے۔ یہی اس والد کے ساتھ انصاف ہے جس کے جسم سے یہ ٹکڑا علیحدہ ہو کر شخص بنا۔ بیٹے کے ساتھ بھی انصاف ہے اور انہی دونوں کے درمیان وراثت بھی انصاف ہے۔ باپ اور بیٹے ہی ایک دوسرے کے حقیقی معاون ہو سکتے ہیں۔ بیٹا باپ کی خفیہ خصوصیات کا بھی امین ہو سکتا ہے اور آباؤاجداد کے خصائص کا بھی امین ہے۔ یہ اسطرح بھی عدل ہے کہ ہر حق کو اس کی جگہ رکھ دیا گیا اور روابط کو فطری اصولوں پر قائم کردیا گیا۔ نہ والد کی حق تلفی ہو اور نہ بیٹے کی حق تلفی ہو۔ غیر حقیقی والد کو معبنیٰ ہونے کے ذمہ داریاں نہ اٹھانی پڑیں گی اور نہ اسے وہ مفادات ملیں گے جن کا وہ مستحق نہ تھا۔ نہ معبنی غیر ضروری ذمہ داریاں اٹھائے گا اور نہ وہ مفادات لے سکے گا جس کا وہ مستحق نہ تھا۔ یہ وہ عائلی نظام ہے جس کی وجہ سے خاندان کی ذمہ داریوں میں توازن پیدا ہوتا ہے اور خاندان نہایت ہی مستحکم اور گہری اور واقعیت پسندانہ بنیادوں پر قائم ہوتا ہے ۔ اس کی اساس میں سچائی ، حق پسندی اور فطرت سے ہم آہنگی ہے۔ ہر وہ نظام جو خاندانی نظام کو نظر انداز کرتا ہے وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ وہ ضعیف کمزور اور جعلی بنیادوں پر اٹھا ہوا ہوتا ہے اور کوئی ایسا نظام زندہ ہی نہیں رہ سکتا۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ دور جاہلیت میں خاندان کے روابط میں بہت انتشار تھا۔ اسی طرح جنسی تعلقات میں بھی انتشار تھا ، اس کے نتیجے میں انساب کے اندر بہت ہی اختلاط پیدا ہوگیا تھا اور بعض اوقات لوگوں کے باپوں کا بھی پتہ نہ لگتا تھا۔ اسلام نے اس معاملے کے اندر سہولت پیدا کردی کیونکہ اسلام کا منشا یہ تھا کہ خاندانی نظام کو ازسرنو منظم کیا جائے۔ اور اسلام خاندان کی اساس پر اجتماعی نظام کی تشکیل کے درپے تھا۔ اس لیے جن لوگوں کے آباء و اجداد کا پتہ نہ تھا ، ان کو اسلامی جماعت میں ایک مقام دے دیا۔ یہ اخوت اسلامی کا مقام تھا۔ فان لم تعلموا ابآءھم فاخوانکم فی الدین (33: 5) ” اگر تمہیں معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور رفیق ہیں “۔ اخوت فی الدین کا تعلق ایک اخلاقی اور روحانی تعلق ہے اور اس پر کوئی قانونی حقوق و فرائض مرتب نہیں کیے گئے ۔ مثلاً وراثت کی کفالت اور ادائیگی دے کر ، جبکہ معبنی بنانے پر یہ قانونی حقوق و فرائض مرتب ہوتے تھے۔ یہ اس لیے کہ ان لوگوں کا بھی اسلامی جماعت میں کوئی نہ کوئی مقام اور رابطہ ہونا چاہئے۔ فان لم تعلموا ابآءھم (33: 5) ” اگر تمہیں ان کے آباؤ و اجداد معلوم نہ ہوں “۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دور جاہلیت کے معاشرے میں نسب کے اعتبار سے بہت بڑا انتشار تھا۔ اس کے نتیجے میں جنسی تعلقات کے معاملے میں بھی انتشار تھا۔ اس انتشار سے بچنے کے لیے اسلام نے خاندانی نظام کو ازسر نو مرتب کیا۔ یوں خاندانی نظام مستحکم بنیادوں پر استوار ہوگیا۔ انساب کو اپنی حقیقت کی طرف واپس کردینے کے بعد اب یہ کہا جاتا ہے کہ اگر کسی کو اپنا نسب صحیح معلوم نہ ہو اور وہ نسب کے سلسلے میں کوئی غلب بات کہہ دے تو اس کا کوئی قصور نہ ہوگا۔ ولیس علیکم جناح فیما اخطاتم بہ ولکن ما تعمدت قلوبکم (33: 5) ” نادانستہ جو بات تم کہو اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں لیکن اس بات پر ضرور گرفت ہے کہ تم دل سے ارادہ کرو۔ یہ اللہ کی بہت بڑی مہربانی ہے کہ اللہ کسی پر کوئی ایسا حکم عائد نہیں کرتا جس کے بجا لانے کی ان میں طاقت نہ ہو۔ وکان اللہ غفورا رحیما (33: 5) ” اور اللہ درگزر کرنے والا اور رحیم ہے “۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نسب کے سلسلے میں بہت ہی تاکید اور تشدید فرمائی ہے کیونکہ اسلام کا مقصد یہ تھا کہ جدید معاشرے کو ایسے خطوط پر منظم کیا جائے جس میں کوئی انتشار نہ ہو جس طرح جاہلی معاشروں میں کسی کے بارے میں کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ کون کس کی اولاد سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ اپنا نسب چھپاتے ہیں ان کو سخت وعید کی گئی اور ان پر کفر کا اطلاق کیا گیا۔ ابن جریر نے ، یعقوب ابن ابراہیم سے ، ابن علیہ سے ، عینیہ ابن عبد الرحمن نے ان کے باپ سے ، ابوبکر (رض) سے فرماتے ہیں ، اللہ نے فرمایا۔ ادعوھم لابآءھم ۔۔۔۔۔ الدین وموالیکم (33: 5) ” منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو ، یہ اللہ کے نزدیک بہت ہی منصفانہ بات ہے۔ اگر تمہیں معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور رفیق ہیں “۔ میرے باپ نے کہا ” عینیہ ابن عبد الرحمن کہتے ہیں “۔ خدا کی قسم میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ اگر کسی کو یقین ہوتا کہ میرا باپ گدھا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس کی طرف منسوب کرتا “۔ اور حدیث میں آیا ہے۔ من اوعی الی غیر ابیہ وھو یعلم الا کفر ” جس نے اپنے آپ کو اپنے باپ کے سوا اور کسی طرف منسوب کیا اور وہ جانتا ہے کہ ایسا نہیں ہے تو اس نے کفر کا ارتکاب کیا “۔ یہ تہدید اس پالیسی کے مطابق ہے جس کے ذریعے اسلام خاندان اور خاندانی روابط کو ہر شک و شبہ سے پاک رکھنا چاہتا ہے اور اسلام سلسلہ نسب کو صحیح ، سلامت ، مسلم الثبوت رکھنا چاہتا ہے تاکہ اس پر اسلامی معاشرے کی تعمیر کی جائے اور یہ معاشرہ صحیح اور پاک معاشرہ ہو۔ اس کے بعد ایک دوسرے عبوری قانون کے اندر ترمیم کردی جاتی ہے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب وارد مدینہ ہوئے تو وہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار اور مہاجرین کے درمیان مواخات قائم کی۔ اسلام سے قبل جاہلیت میں اس قسم کا کوئی نظام نہ تھا۔ یہ نظام ہجرت کے بعد اسلام نے ایجاد کیا تھا کیونکہ مہاجرین اپنی دولت مکہ میں چھوڑ آئے تھے۔ یہاں تہی دست وارد ہوئے۔ اسی طرح مدینہ میں بھی ایسے لوگ تھے جن کو ان کے خاندان والوں نے گھروں سے نکال دیا تھا کیونکہ وہ مسلمان ہوگئے تھے۔ مواخات کو ختم کرکے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دلایت عامہ دے دی گئی اور یہ ولایت تمام دوسری ولایتوں پر مقدم قرار دے دی گئی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ولی عام بننے کے ساتھ ساتھ آپ کی ازدواج کو بھی روحانی مائیں قرار دے دیا گیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منہ بولے بیٹے تمہارے حقیقی بیٹے نہیں ہیں ان کی نسبت ان کے باپوں کی طرف کرو تفسیر قرطبی جلد نمبر ١٤ ص ١١٦ میں لکھا ہے کہ جمیل بن معمر فہری ایک آدمی تھا اس کی ذکاوت اور قوت حافظہ مشہور تھی، قریش اس کے بڑے معتقد تھے اور کہتے تھے کہ اس کے سینہ میں دو دل ہیں اور وہ خود بھی یوں کہتا تھا کہ میرے دو دل ہیں ان دونوں کے ذریعہ جو کچھ سمجھتا ہوں وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عقل سے زیادہ ہے، اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی باتوں کی تردید فرمائی اور فرمایا، (مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِہٖ ) (کہ اللہ نے کسی بندہ کے سینہ میں دو دل نہیں بنائے) جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے اسے اپنے دعوے کی سزا ضرور ملتی ہے اور اس کے دعوے کے خلاف ظاہر ہوجاتا ہے چناچہ اس شخص کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا جو یہ کہتا تھا کہ میرے اندر دو دل ہیں۔ قصہ یہ ہوا کہ یہ شخص بھی جنگ بدر میں شریک تھا جب مشرکین کو شکست ہوگئی تو ابو سفیان نے اسے پوچھا کہ لوگوں کا کیا حال ہے ؟ اس نے کہا وہ تو شکست کھاگئے، ابو سفیان نے کہا کہ یہ کیا بات ہے کہ تیری ایک چپل تیرے ایک ہاتھ میں ہے اور دوسری تیرے پاؤں میں ہے، کہنے لگا اچھا یہ بات ہے ! میں تو یہی سمجھ رہا ہوں کہ وہ دونوں میرے پاؤں میں ہیں، اس وقت لوگوں پر ظاہر ہوگیا کہ اگر اس کے دو دل ہوتے تو اپنی چپل کو ہاتھ میں لٹکائے ہوئے یہ نہ سمجھتا کہ وہ میرے پاؤں میں ہے۔ ظہار کیا ہے اہل عرب میں ظہار کا طریقہ جاری تھا یعنی مرد اپنی بیوی سے یوں کہہ دیتا تھا کہ : (اَنْتِ کَظَھْرِ اُمِّیْ ) (تو میرے لیے ایسی ہے جیسے میری ماں کی کمر ہے) ایسا کہہ دینے سے اس عورت کو اپنے اوپر ہمیشہ کے لیے حرام سمجھ لیتے تھے۔ اسلام میں اگر کوئی شخص ایسا کہہ دے تو اس کے لیے کفارہ مقرر کردیا گیا ہے جو سورة المجادلہ کے پہلے رکوع میں مذکور ہے، اہل عرب جو اپنے اوپر عورت کو ہمیشہ کے لیے حرام سمجھ لیتے تھے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا : (وَ مَا جَعَلَ اَزْوَاجَکُمُ الِّآئْ تُظٰھِرُوْنَ مِنْھُنَّ اُمَّھٰتِکُمْ ) (اور اللہ تعالیٰ نے تمہاری بیویوں کو جن سے تم ظہار کرلیتے ہو تمہاری حقیقی اور واقعی ماں نہیں بنا دیا) لہٰذا اگر کوئی شخص ظہار کرلے تو اس کی بیوی اس پر ہمیشہ کے لیے حرام نہ ہوجائے گی مقررہ کفارہ دے دے تو پھر میاں بیوی کی طرح رہیں۔ بیٹا بنا لینا اہل عرب کا یہ بھی طریقہ تھا کہ جب کسی لڑکے کو منہ بولا بیٹا بنا لیتے تھے (جو اپنا بیٹا نہیں دوسرے شخص کا بیٹا ہوتا تھا جسے ہمارے محاورہ میں لے پالک کہتے ہیں) تو اس لڑکے کو بیٹا بنانے والا شخص اپنی ہی طرف منسوب کرتا تھا یعنی حقیقی بیٹے کی طرح سے اسے مانتا اور سمجھتا تھا اور اس سے بیٹے جیسا معاملہ کرتا تھا اس کو میراث بھی دیتا تھا اور اس کی موت یا طلاق کے بعد اس کی بیوی سے نکاح کرنے کو بھی حرام سمجھتا تھا اور عام طور سے دوسرے لوگ بھی اس لڑکے کو اسی شخص کی طرف منسوب کرتے تھے جس نے بیٹا بنایا ہے اور ابن فلاں کہہ کر پکارتے تھے، ان کی تردید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : (وَمَا جَعَلَ اَدْعِیَآءَ کُمْ اَبْنَآءَ کُمْ ) (کہ اللہ نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا اصلی اور واقعی بیٹا قرار نہیں دیا) تم جو انہیں بیٹا بنانے والے کا بیٹا سمجھتے ہو اور اس پر حقیقی بیٹے کا قانون جاری کرتے ہو یہ غلط ہے۔ (ذٰلِکُمْ قَوْلُکُمْ بِاَفْوَاھِکُمْ ) (یہ تمہاری اپنی منہ بولی باتیں ہیں، اللہ کی شریعت کے خلاف ہیں) (وَاللّٰہُ یَقُوْلُ الْحَقَّ وَھُوَ یَھْدِی السَّبِیْلَ ) (اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور حق راہ بتاتا ہے) اسی میں سے یہ بھی ہے کہ منہ بولے بیٹوں کو حقیقی بیٹا نہ سمجھا جائے۔ (اُدْعُوْھُمْ لِاٰبَآءِھِمْ ھُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ ) (تم انہیں ان کے باپوں کی طرف نسبت کرکے پکارا کرو یہ اللہ کے نزدیک انصاف کی چیز ہے) (فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْٓا اٰبَآءَ ھُمْ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ وَمَوَالِیْکُمْ ) (سو اگر تمہیں ان کے باپوں کا علم نہ ہو مثلاً کسی لڑکے کو پال لیا جس کا باپ معلوم نہ تھا مثلاً کسی لقیط (پڑا ہوا بچہ) کو اٹھالیا۔ اس کے باپ کا علم نہیں بیٹا بنانے والے کو ہے نہ بستی والوں کو تو اسے یا اخی (میرا بھائی) کہہ کر بلاؤ کیونکہ وہ تمہارا دینی بھائی ہے، یا دوست کہہ کر بلاؤ مَوَالِیْ مَوْلٰیکی جمع ہے جس کے متعدد معانی ہیں، ان میں سے ایک ابن العم یعنی چچا کے بیٹے کے معنی میں بھی آتا ہے، اس لیے صاحب جلالین نے موالیْکُمْ کا ترجمہ بنو عمّکم کیا ہے یعنی چچازاد کہہ کر پکار لو۔ (وَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَآ اَخْطَاْتُمْ بِہٖ ) (اور جو کچھ تم سے خطا ہوجائے اس کے بارے میں تم پر کوئی گناہ نہیں) تم سے بھول چوک ہوجائے اور منہ سے بیٹا بنانے والے کی طرف نسبت کر بیٹھو تو اس پر گناہ نہیں ہے۔ (وَلٰکِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُکُمْ ) (لیکن اس حکم کی خلاف ورزی قلبی ارادہ کے ساتھ قصداً ہوجائے تو یہ مواخذہ کی بات ہے) (وَکَان اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا) (اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے) گناہ ہوجائے تو مغفرت طلب کرو اور توبہ کرو۔ ضروری مسائل مسئلہ : اگر کسی لڑکے یا لڑکی کو کوئی شخص لے کر پال لے اور بیٹا بیٹی کی طرح اس کی پرورش کرے جیسا کہ بعض بےاولاد ایسا کرلیتے ہیں تو ایسا کرنا جائز ہے لیکن حقیقی ماں باپ، بہن اور دیگر رشتہ داروں سے اس کا تعلق حسب سابق باقی رہنے دیں، شرعی اصول کے مطابق آنا جانا ملنا جلنا جاری رہے قطع رحمی نہ کی جائے۔ مسئلہ : قرآن مجید میں بتادیا کہ مُتَبَنّٰی یعنی منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہوجاتا لہٰذا اس کو پالنے والے مرد یا عورت کی میراث نہیں ملے گی، بعض مرتبہ کسی کو بیٹا بیٹی بنا لینے کے بعد اپنی اولاد پیدا ہوجاتی ہے اور اولاد کے علاوہ دیگر شرعی ورثاء بھی ہوتے ہیں پس سمجھ لیا جائے کہ میراث اسی اصل ذاتی اولاد اور دیگر شرعی ورثاء کو ملے گی منہ بولے بیٹے بیٹی کا اس میں کوئی حصہ نہیں، البتہ منہ بولے بیٹے کے لیے وصیت کی جاسکتی ہے جو تہائی مال سے زیادہ نہ ہو اور اس وصیت کرنے میں اصل وارثوں کو محروم کرنے یا ان کا حصہ کم کرنے کی نیت نہ ہو۔ مسئلہ : منہ بولا بیٹا بیٹی چونکہ اپنے حقیقی بیٹا بیٹی نہیں بن جاتے اس لیے اگر وہ محرم نہیں ہیں تو ان سے وہی غیر محرم والا معاملہ کیا جائے گا اور سمجھدار ہوجانے پر پردہ کرنے کے احکام نافذ ہوں گے، ہاں اگر کسی مرد نے بھائی کی لڑکی لے کر پال لی تو اس سے پردہ نہ ہوگا یا اگر کسی عورت نے بہن کا لڑکا لے کر پال لیا تو اس سے بھی پردہ نہ ہوگا کیونکہ دونوں صورتوں میں محرم ہونے کا رشتہ سامنے آگیا، ہاں جس کا رشتہ محرمیت نہ ہوگا اس سے پردہ ہوگا، مثلاً کسی عورت نے اپنے بھائی یا بہن کی لڑکی لے کر پال لی جس کا عورت کے شوہر سے کوئی رشتہ محرمیت نہیں ہے تو اس مرد کے حق میں وہ غیر ہوگی اس سے پردہ ہوگا۔ مسئلہ : کسی نے کسی کو منہ بولا بیٹا بنایا اور اس بیٹا بنانے والے کی لڑکی بھی ہے تو اس لڑکے اور لڑکی کا آپس میں نکاح ہوسکتا ہے بشرطیکہ حرمت نکاح کا کوئی دوسرا سبب نہ ہو۔ مسئلہ : اگر کسی نے کسی نامحرم کو اپنا بیٹا بنایا اور اس لڑکے کی کسی لڑکی سے شادی کردی پھر یہ لڑکا مرگیا یا طلاق دے دی تو اس بیٹا بنانے والے شخص سے مرنے والے کی بیوی کا نکاح ہوسکتا ہے بشرطیکہ کوئی دوسری وجہ حرمت نہ ہو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زید بن حارثہ (رض) کو اپنا بیٹا بنالیا تھا پھر بڑا ہوجانے پر اپنی پھوپھی کی لڑکی حضرت زینب بنت جحش (رض) سے ان کا نکاح کردیا تھا، جب انہوں نے طلاق دے دی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زینب (رض) سے نکاح کرلیا، اس پر عرب کے جاہلوں نے اعتراض کیا کہ دیکھو بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا، (جس کا تذکرہ اس سورت کے پانچویں رکوع میں آ رہا ہے، انشاء اللہ) ان لوگوں کی تردید میں اللہ تعالیٰ نے (وَ مَا جَعَلَ اَدْعِیَآءَ کُمْ اَبْنَآءَ کُمْ ) فرما دیا (کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا نہیں بنا دیا تھا۔ ) حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ ہم زید بن حارثہ کو زید بن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہا کرتے تھے۔ جب آیت (وَ مَا جَعَلَ اَدْعِیَآءَ کُمْ اَبْنَآءَ کُمْ ) نازل ہوئی تو ہم نے ایسا کہنا چھوڑ دیا۔ مسئلہ : دوسروں کے بچوں کو شفقت اور پیار میں جو بیٹا کہہ کر بلا لیتے ہیں جبکہ ان کا باپ معروف و مشہور ہو تو یہ جائز تو ہے لیکن بہتر نہیں ہے۔ مسئلہ : جس طرح کسی کے منہ بولے بیٹے کو اپنا بیٹا بنانے والے کی طرف منسوب کرنا جائز نہیں ہے اسی طرح اس کی بھی اجازت نہیں ہے کہ کوئی شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی کو اپنا باپ بنائے یا بتائے یا کاغذات میں لکھوائے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص نے اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف نسبت کی حالانکہ وہ جانتا ہے کہ یہ میرا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے۔ (رواہ البخاری عن سعد بن ابی وقاص) آج کل جو لوگوں میں اپنا نسب بدلنے، جھوٹا سید بننے یا اپنی قوم و قبیلہ کے علاوہ کسی دوسرے قبیلہ کی طرف منسوب ہونے کا رواج ہوگیا ہے یہ حرام ہے ایسا کرنے والے حدیث مذکور کی وعید کے مستحق ہیں۔ مسئلہ : اگر کسی عورت نے زنا کیا اور اس سے حمل رہ گیا پھر جلدی سے کسی سے نکاح کرلیا اور اس طرح سے اس شوہر کا بچہ ظاہر کردیا جس سے نکاح کیا ہے تو یہ بھی حرام ہے، اور اگر کسی شخص کا واقعی بچہ ہے اور وہ اس کا انکار کرے تو یہ بھی حرام ہے۔ حضرت ابو ہریرۃ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو بھی کوئی عورت کسی قوم میں کسی ایسے بچے کو شامل کردے جو ان میں سے نہیں ہے تو اللہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اور اللہ اسے ہرگز اپنی جنت میں داخل نہ فرمائے گا، اور جس کسی مرد نے اپنے بچے کا انکار کردیا حالانکہ وہ اس کی طرف دیکھ رہا ہے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو اپنی رحمت سے دور فرما دے گا اور اسے (قیامت کے دن) اولین و آخرین کے سامنے رسوا کرے گا۔ (رواہ ابو داؤد)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

6:۔ ما جعل اللہ الخ یہ ماقبل کی دلیل ہے بطور تمثیل فرمایا جس طرح ایک جوف میں دو دل جمع نہیں ہوسکتے اسی طرح ایک دل میں دو اعتقاد جمع نہیں ہوسکتے اس لیے یہ ناممکن ہے کہ آپ اللہ کو بھی نافع و ضار سمجھیں اور مشرکین کے باطل معبودوں کو بھی۔ لا یجتمع الکفر والایمان با اللہ تعالیٰ فی قلب کما لایجتمع قلبان فی جوف فالمعنی لا یجتمع اعتقادان متغایران فی قلب الخ۔ (قرطبی ج 4 ص 117) ۔ یا دو دل ہونے سے دو رخ ہونا مراد ہے کہ خدا کو بھی نافع سمجھے اور غیر اللہ کو بھی خدا سے بھی ڈرے اور غیر خدا سے بھی، دو دل بودن بجز بےحاصلی نیست۔ یکے بینوی کے دانوی کے گو یکے خواہ و یکے خوانوی کے جو 7:۔ و ما جعل ازواجکم الخ۔ یہ ماقبل کے لیے پہلی نظیر ہے۔ زمانہ جاہلیت میں رواج تھا جب کوئی شخص اپنی بیوی سے ظہار کرلیتا یعنی اپنی بیوی سے کہہ دیتا کہ تو میرے لیے میری ماں کی مانند ہے تو وہ اسے طلاق کا درجہ دیتا اور کسی صورت میں بیوی کے طور پر اپنے پاس نہ رکھتا اور اسے ہمیشہ اپنی ماں کے مانند سمجھتا۔ اسلام نے اس رسم جاہلیت کو اٹھایا اور کفارہ ظہار ادا کرنے کے بعد تعلقات زوجیت بحال رکنے کا حکم دیا اس آیت میں ارشاد فرمایا تم اپنی بیوی کو ظہار کے بعد اپنی مائیں سمجھ بیٹھتے ہو تمہارے اس زعم سے تمہاری مائیں نہیں بن جاتیں۔ تمہاری مائیں وہی ہیں جنہوں نے تمہیں جنم دیا ہے۔ بعینہ اسی طرح کسی کے کہنے اور سمجھنے سے معبودان باطل خدا کے یہاں شفیع غالب اور نافع و ضار نہیں بن جاتے، نافع و ضار وہی ذات پاک ہے جس کے قبضہ و اختیار میں سارا نظام کائنات ہے۔ 8:۔ وما جعل ادعیاء کم الخ، یہ دعوی سورت کی دوسری نظیر ہے اور ایک قدیم رواج یہ بھی تھا کہ کسی کو اپنا بیٹا بنا لیا یہاں تک کہ آدمی اور اس کے متبنی کے درمیان وراثت بھی جاری ہوتی اور متبنی کی بیوی کو حقیق بہو سمجھا جاتا یہاں تک کہ متبنی کی بیوہ یا مطلقہ سے نکاح کرنا حرام سمجھا جاتا تھا۔ چناچہ اس رواج کے مطابقحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعثت سے پہلے زید بن حارثہ کو اپنا متبنی بنا لیا تھا اسلام نے اس رسم کو بھی اٹھا دیا ابطال لما کان فی جاھلیۃ وصدر من الاسلام من انہ اذا تبنی الرج ولد غیرہ اجرت احکام النبوۃ علیہ و قد تبنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبل البعثۃ زید بن حارثۃ (روح ج 21 ص 164) جس طرح کسی کے بیٹے کو بیٹا بنا لینے سے وہ بیٹا نہیں بن جاتا اسی طرح زبانی دعوی سے معبودانِ باطل شفیع اور نافع و ضار نہیں بن جاتے۔ 9:۔ ذالکم قولکم الخ، یہ تمہارے منہ کی باتیں ہیں حقیقت اور نفس الامر سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسی بےسروپا باتوں کی اجازت نہیں دیتا وہ تو حق بیان کرتا اور سیدھی راہ دکھاتا ہے اس لیے ظہار اور متبنی کے بارے میں اللہ نے حق بات ظاہر فرما دی اور اس بارے میں جو سیدھی راہ اور منصفانہ روش تھی، واضح کردی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

4۔ اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے اور اس نے تمہاری ان بیویوں کو جن سے تم ظہار کرلیتے ہو سچ مچ تمہاری مائیں نہیں بنادیا ہے اور اس نے تمہارے لے پالک اور منہ بولے بیٹوں کو تمہارے حقیقی بیٹے نہیں کردیا ہے یہ صرف تمہارے اپنے منہ کی کہی بات ہے اور اللہ تعالیٰ حق اور سچ بات کہتا ہے اور وہی سیدھا راستہ اور سیدھی راہ دکھاتا اور بتایا ہے۔ یہاں سے زمانہ جاہلیت کے چند اقوال باطلہ کا رد فرمایا اور کافرانہ روش اور کافرانہ رسوم کا رد کیا مثلاً کوئی آدمی ذہین اور طباع اور سمجھ دار ہوتا تو زمانہ جاہلیت میں لوگ کہا کرتے تھے اس مرد کے اندر دو دل ہیں اور یہ دو دل والا آدمی ہے ۔ اسی طرح ایک رسم ظہار کی تھی وہ یہ کہ کسی شخص نے اپنی منکوحہ بیوی کو ماں کہہ دیا یا اس کے پیٹ یا پیٹھ کو اپنی ماں کے پیٹ یا پیٹھ سے تشبیہ دیدی تو زمانہ جاہلیت میں اس بیوی کو واقعی ماں کی طرح حرام سمجھتے تھے اور اس کو بجائے خادم کے مخدوم سمجھنے لگے تھے اسی طرح متنبی اور لے پالک کو حقیقی بیٹا سمجھتے تھے کسی نے کسی ک بیٹا بنا لیا تو اب وہ حقیقی بیٹا ہوگیا اور وہ ورثہ کا بھی حق دارہو گیا اس کی منکوحہ اس فرضی باپ پر حرام سمجھتے تھے۔ اسی بنا پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حضرت زینب (رض) کے نکاح کا اعتراض کرتے تھے حالانکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زید بن حارثہ کو اپنا متنبی فرمایا تھا۔ زید بن حارثہ قبیلہ کلب کے رہنے والے تھے بچپنے میں قید کر لئے گئے تھے حکیم بن خرام نے انکو اپنی پھوپھی خدیجہ کیلئے خرید لیا تھا جب حضرت خدیجہ (رض) نکاح میں آئیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تو انہوں نے زید کو حضور کے لئے ہبر کردیا۔ ایک دفعہ کسی سفر میں زید بن حارثہ کو ان کے ورثاء نے پہچان لیا اور ان کی واپسی کا مطالبہ کیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زید (رض) کو اختیار دیدیا کہ اگر وہ جاناچا ہیں تو چلے جائیں مگر انہوں نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی غلامی اور شرف صحبت کو ترک کرنا گوارہ نہ کیا آپ نے ان کو بیٹا اور متنبی کرلیا اور ان کو آزاد کردیا اور وہ زید بن محمد کہے جانے لگے۔ چونکہ قریش اپنی لڑکی کی شادی ایسے شخص کے ساتھ کرنے میں عیب سمجھتے تھے جس کا باپ دلوا یا وہ خود غلام رہا ہو ، چناچہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زینب (رض) کا نکاح زید بن محمد سے کر کے کفر کی اس پرانی رسم کو توڑا جس کی وجہ سے قریش میں شادی کرنا کسی آزاد شادہ غلام سے ممنوع تھی اور جب زید بن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک عرصہ کے بعد ان کو طلاق دیدی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زینب (رض) کی تالیف قلوب کے لئے خود ان سے شادی کرلی اس پر بھی کفار نے اعتراض کیا اس کی تفصیل تین رکوع کے بعد آئے گی ۔ بہر حال زمانہ جاہلیت کی مختلف رسوم کا رد فرما دیا ، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ منکر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہا کرتے تھے کہ اس شخص کی دو دل ہیں ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کفر کے وقت کوئی جو رو کو ماں کہتا تو ساری عمر وہ اس سے جدا ہوتی اور کسی کو بیٹا کر بولتا تو سچا بیٹا ہوجاتا اللہ تعالیٰ نے دونوں حکم بدل دیئے جو رو کو ماں کہنا سورة قد سمع اللہ میں آوے گا اور لے پالک کا حکم آگے بیان ہے۔ ان دو کے ساتھ تیسری بات بھی سنادی کہ ایسی باتیں کہنے کی بہتری ہیں ان پر عمل نہیں ہوسکتا جیسے مستقل مرد کو کہتے ہیں اس کے دو دل ہیں چھاتی چیر کر دیکھو تو کسی کے دو دل نہیں ۔ 12 غرض ! یہ تمہاری اپنے منہ کی بنائی باتیں ہیں ان کی حقیقت کچھ نہیں نہ کسی مرد کے سینے میں دو دل ہوتے ہیں اور نہ بیوی کو ماں کے ساتھ تشبیہ دینے سے بیوی ماں ہوجاتی ہے اور نہ کسی کو متنبی کرنے سے وہ حقیقی بیٹا بن جاتا ہے ، آگے حکم بیان کرتے ہیں کے لے پالکوں کو ان کے حقیقی باپوں کی طرف منسوب کیا کرو۔