Commentary Mentioned in the preceding verse was the incident of Sayyidna Zaid (رض) and Sayyidah Zainab (رض) and in relation to it the Holy Prophet&s (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) being the last of the prophets has been stated in the context of directions for the respect and reverence of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and saving oneself from causing any pain to him. Further on also, the perfect attributes of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) are going to be stated; his person and attributes are the greatest blessings for Muslims in this world. The instruction of remembering Allah in abundance is given in the above verse to show gratitude for those blessings. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) has stated that there is no form of worship except ذِکرُ اللہ dhikrullah (remembrance of Allah) for which Allah has not fixed a limit; for example, Salah is prescribed five times a day and the number of rak’ at are determined for each Salah; fasting throughout the month of Ramadan is determined, Hajj can be performed only at a particular place and at a particular time, Zakah is prescribed once a year at a particular rate. But dhikrullah is a form of worship for which there is no limit or defined quantity, no particular time or period, no defined posture or position, nor even the state of purity through ablution is required. Dhikrullah is required all the time, in all circumstances, whether one is traveling or is at home, whether one is healthy or ill, whether one is on land or at sea, whether it is day or night - dhikrullah is required all the time. Therefore no excuse is acceptable for neglecting dhikrullah except that one may have lost his senses and become unconscious. In case of all forms of worship, other than dhikrullah, if one becomes unable due to illness or compelling circumstances, one is allowed reduction, brevity or exemption altogether, but in case of dhikrullah there are no extenuating circumstances. Therefore, no excuse is considered valid for omitting it and the merits, blessings and rewards for doing it are also numerous. Imam Ahmad (رح) has reported from Sayyidna Abu ad-Darda& (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said to the noble companions (رض) &Should I not tell you a thing that is better than all your deeds and is most acceptable to your Lord, and which would raise your grades, and is better than giving silver and gold in charity and alms and is also better than your embarking for Jihad wherein you face and kill the enemy and the enemy kills you? The noble companions (رض) asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) about that thing. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, ذِکرُ اللہِ عَزَّ وَ جَلَّ that is, remembrance of Allah, the Mightiest the Most Glorious|". (Ibn Kathir) Imam Ahmad and Tirmidhi رحمۃ اللہ علیہما also have reported that Sayyidna Abu Hurairah (رض) said that he had heard a prayer from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) which he does never miss. It is the following: اللَّھُمَّ اَجعَلنِی اُعَظِّمُ شُکرِکَ وَ اَتَّبِعُ نَصِیحَتَکَ وَ اُکثِرُ ذِکرِکَ وَ احفَظُ وَصِیَّتِکَ |"0 Allah make me so that I keep thanking You profusely, I keep obeying your instructions, I keep remembering You abundantly and I safeguard (to follow) your advice.|" (Ibn Kathir) Here the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has supplicated to Allah Ta’ ala for ability to engage in dhikrullah abundantly. A Beduin said to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that the number of good deeds, obligations in Islam are many; so please tell me something concise and comprehensive which I could hold on to firmly. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) told him, لَا یَزَالُ لِسَانُکَ رَطباً بِذِکرِ اللہِ تعالیٰ That your tongue remains always wet with the dhikr of Allah. (Musnad Ahmad, Ibn Kathir) Sayyidna Abu Said (رض) has narrated that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said اُذکُرُو اللہَ تَعَالٰی حَتّٰی یقُولُوا مَجنُونُ |"Remember Allah, the Almighty so much so that people start calling you crazy.|" (Ibn Kathir from Musnad Ahmad) And Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Umar (رض) has narrated that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said that a gathering of people wherein Allah is not mentioned would prove to be a matter of remorse on the Doomsday for those sitting therein. (Ahmad, Ibn Kathir)
خلاصہ تفسیر اے ایمان والو تم (احسانات آلہیہ کو عموماً اور ایسے اکمل رسل کی بعثت کے احسان کو خصوصاً یاد کر کے اس کا یہ شکر ادا کرو کہ) اللہ کو خوب کثرت سے یاد کرو (اس میں سب طاعات آگئیں) اور (اس ذکر وطاعت پر دوام رکھو پس) صبح وشام (یعنی علی الدوام) اس کی تسبیح (و تقدیس) کرتے رہو (یعنی دل سے بھی اور اعضاء سے بھی اور زبان سے بھی پس جملہ اولیٰ سے عموم اعمال و طاعات کا اور جملہ ثانیہ میں عموم از منہ و اوقات کا حاصل ہوگیا یعنی نہ تو ایسا کرو کہ کوئی حکم بجا لائے اور کوئی نہ بجا لائے، اور نہ ایسا کرو کہ کسی دن کوئی کام کرلیا کسی دن نہ کیا، اور جیسا اس نے تم پر بہت احسان کئے ہیں اور آئندہ بھی کرتا رہتا ہے پس بالضرورة مستحق ذکر و شکر ہے، چنانچہ) وہ ایسا (رحیم) ہے کہ وہ (خود بھی) اور (اس کے حکم سے) اس کے فرشتے (بھی) تم پر رحمت بھیجتے رہتے ہیں (اس کا رحمت بھیجنا تو رحمت کرنا ہے اور فرشتوں کا رحمت بھیجنا رحمت کی دعاء کرنا ہے کماقال (آیت) الذین یحملون العرش (الیٰ قولہ) وقہم السیات، اور یہ رحمت بھیجنا اس لئے ہے) تاکہ حق تعالیٰ (ببرکت اس رحمت کے) تم کو (جہالت و ضلالت کی) تاریکیوں سے (علم اور ہدایت کے) نور کی طرف لے آئے (یعنی خدائی رحمت اور دعاء ملائکہ کی برکت ہے کہ تم کو علم اور ہدایت کی توفیق اور اس پر ثبات حاصل ہے کہ یہ ہر وقت متجدد ہوتی رہتی ہے) اور (اس سے ثابت ہوا کہ) اللہ تعالیٰ مومنین پر بہت مہربان ہے (اور یہ رحمت تو مومنین کے حال پر دنیا میں ہے اور آخرت میں بھی وہ مورد رحمت ہوں گے، چنانچہ) وہ جس روز اللہ سے ملیں گے تو ان کو جو سلام ہوگا وہ یہ ہوگا کہ (اللہ تعالیٰ خود ان سے ارشاد فرما دے گا) السلام علیکم (کہ اولاً خود سلام ہی علامت اعزاز کی ہے، پھر جب کہ خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام ہو کما قال (آیت) سلام قولاً من رب رحیم اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اہل جنت سے فرمائے گا السلام علیکم، رواہ ابن ماجہ وغیرہ اور یہ سلام تو روحانی انعام ہے جس کا حاصل اکرام ہے) اور (آگے جسمانی انعام کی خبر بعنوان عام ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے ان (مومنین کے لئے) عمدہ صلہ (جنت میں) تیار کر رکھا ہے (کہ ان کے جانے کی دیر ہے، یہ گئے اور وہ ملا، آگے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے کہ) اے نبی (آپ مشتے چند معترضین کے طعن سے مغموم نہ ہوں، اگر یہ سفہاء آپ کو نہ جانیں تو کیا ہوا ہم نے تو ان بڑی بڑی نعمتوں اور رحمتوں کا جو کہ خطاب مومنین میں مذکور ہوئی ہیں، آپ ہی کو واسطہ بنایا ہے اور آپ کے مخالفین کی سزا کے لئے خود آپ کا بیان کافی قرار دیا گیا ہے کہ ان کے مقابلہ میں آپ سے ثبوت نہ لیا جائے گا، پس اس سے ظاہر ہے کہ آپ ہمارے نزدیک کس درجہ محبوب و مقبول ہیں، چنانچہ) ہم نے بیشک آپ کو اس شان کا رسول بنا کر بھیجا ہے کہ آپ (قیامت کے روز امت کے اعتبار سے خود سرکاری) گواہ ہوں گے (کہ آپ کے بیان کے موافق ان کا فیصلہ ہوگا کما قال انا ارسلنا الیکم رسولاً شاہدا علیکم اور ظاہر ہے کہ خود صاحب معاملہ کو دوسرے فریق اہل معاملہ کے مقابلہ میں گواہ قرار دینا اعلیٰ درجہ کا اکرام اور علو شان ہے جس کا قیامت کے روز ظہور ہوگا) اور (دنیا میں جو آپ کی صفات کمال ظاہر ہیں وہ یہ ہیں کہ) آپ (مومنین کے) بشارت دینے والے ہیں اور (کفار کے) ڈرانے والے ہیں اور (عام طور پر سب کو) اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والے ہیں (اور یہ تبشیر وانذار دعوت تبلیغاً ہے) اور (یوں خود اپنی ذات وصفات و کمالات و عبادات و عادات وغیرہا مجموعی حالات کے اعتبار سے) آپ (سرتاپا نمونہ ہدایت ہونے میں بمنزلہ) ایک روشن چراغ (کے) ہیں (کہ آپ کی ہر حالت طالبان انوار کے لئے سرمایہ ہدایت ہے، پس قیامت میں ان مومنین پر جو کچھ رحمت ہوگی وہ آپ ہی کی ان صفات بشیر و نذیر و داعی وسراج منیر کے واسطہ سے ہے۔ پس آپ اس غم و پریشانی کو الگ کیجئے) اور (اپنے منصبی کام میں لگئے یعنی) مومنین کو بشارت دیجئے کہ ان پر اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہونے والا ہے اور (اسی طرح کافروں اور منافقوں کو ڈراتے رہئے جس کو ایک خاص عنوان سے تعبیر کیا ہے وہ یہ کہ) کافروں اور منافقوں کا کہنا نہ کیجئے (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا تو امکان ہی نہ تھا کہ آپ کفار و منافقین کے کہنے میں آ کر تبلیغ و دعوت چھوڑ دیں، لیکن لوگوں کی طعن وتشنیع سے بچنے کے لئے ممکن تھا کہ آپ اس عملی تبلیغ میں جو نکاح زینب کے ذریعہ مقصود تھی کوئی سستی کریں اس کو کفار کا کہنا ماننے سے تعبیر کردیا گیا) اور ان (کافروں اور منافقوں) کی طرف سے جو (کوئی) ایذاء پہنچے (جیسا اس نکاح میں کہ تبلیغ فعل ہے ایذاء قولی پہنچی) اس کا خیال نہ کیجئے اور (فعلی ایذاء کا بھی اندیشہ نہ کیجئے) اور اگر اس کا وسوسہ آئے تو اللہ پر بھروسہ کیجئے اور اللہ کافی کارساز ہے، (وہ آپ کو ہر ضرر سے بچائے گا اور اگر تبلیغ میں کوئی ظاہری ضرر پہنچتا ہے وہ باطناً نفع ہوتا ہے، وہ وعدہ کفایت و وکالت کے منافی نہیں) ۔ معارف ومسائل سابقہ آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم و تکریم اور آپ کی ایذاء رسانی سے بچنے کے لئے ہدایات کے ضمن میں حضرت زید اور زینب کا قصہ اور اس کی مناسبت سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خاتم النبیین ہونا بیان ہوا ہے، آگے بھی آپ کی صفات کمال کا بیان آنے والا ہے۔ اور آپ کی ذات وصفات سب مسلمانوں کے لئے دنیا میں سب سے بڑی نعمت ہیں، ان کا شکر ادا کرنے کے لئے آیت مذکورہ میں ذکر اللہ کی کثرت کا حکم دیا گیا ہے۔ ذکر اللہ ایسی عبادت ہے جس کے لئے کوئی شرط نہیں اور اس کے بکثرت کرنے کا حکم ہے : (آیت) یایہا الذین امنوا ذکر واللہ ذکراً کثیراً ، حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اللہ نے اپنے بندوں پر ذکر اللہ کے سوا کوئی ایسی عبادت عائد نہیں کی جس کی کوئی خاص حد مقرر نہ ہو، نماز پانچ وقت کی اور ہر نماز کی رکعات متعین ہیں، روزے ماہ رمضان کے متعین اور مقرر ہیں، حج بھی خاص مقام پر خاص اعمال مقررہ کرنے کا نام ہے، زکوٰة بھی سال میں ایک ہی مرتبہ فرض ہوتی ہے، مگر ذکر اللہ ایسی عبادت ہے کہ نہ اس کی کوئی حد اور تعداد متعین ہے، نہ کوئی خاص وقت اور زمانہ مقرر ہے، نہ اس کے لئے کوئی خاص ہئیت قیام یا نشست کی مقرر ہے نہ اس کے لئے طاہر اور باوضو ہونا شرط ہے۔ ہر وقت ہر حال میں ذکر اللہ بکثرت کرنے کا حکم ہے، سفر ہو یا حضر، تندرستی ہو یا بیماری، خشکی میں ہو یا دریا میں، رات ہو یا دن ہر حال میں ذکر اللہ کا حکم ہے۔ اسی لئے اس کے ترک میں انسان کا کوئی عذر مسموع نہیں، بجز اس کے عقل و حواس ہی نہ رہیں بےہوش ہوجائے، اس کے علاوہ دوسری عبادات میں بیماری اور مجبوری کے حالات میں انسان کو معذور قرار دے کر عبادت میں اختصار اور کمی یا معافی کی رخصتیں بھی ہیں، مگر ذکر اللہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے کوئی شرط نہیں رکھی۔ اس لئے اس کے ترک میں کسی حال کوئی عذر مسموع بھی نہیں، اور اس کے فضائل و برکات بھی بیشمار ہیں۔ امام احمد نے حضرت ابو الدرداء سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو خطاب کر کے فرمایا کہ کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتلا دوں جو تمہارے سب اعمال سے بہتر اور تمہارے مالک کے نزدیک سب سے زیادہ مقبول ہے، اور تمہارے درجات بلند کرنے والی ہے اور تمہارے لئے سونے چاندی کے صدقہ و خیرات سے بہتر ہے اور اس سے بھی بہتر ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے نکلو اور تمہارا دشمن سے معاملہ ہو تم ان کی گردنیں مار دو وہ تمہاری، صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ کون سی چیز اور کونسا عمل ہے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ذکر اللہ عزوجل، ” یعنی اللہ تعالیٰ کی یاد (ابن کثیر) نیز امام احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے کہ حضرت ابوہریرہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک دعاء سنی ہے جس کو میں کبھی نہیں چھوڑتا، وہ یہ ہے : ” یا اللہ مجھے ایسا بنا دے کہ میں تیرا شکر بہت کروں اور تیری نصیحت کا تابع رہوں اور تیرا ذکر کثرت سے کیا کروں اور تیری وصیت کو محفوظ رکھوں “ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ سے اس کی دعا کی کہ ذکر اللہ کی کثرت کی توفیق عطا ہو۔ ایک اعرابی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ اسلام کے اعمال و فرائض و واجبات تو بہت ہیں، آپ مجھے کوئی ایسی مختصر جامع بات بتلا دیں کہ میں اس کو مضبوطی سے اختیار کرلوں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یعنی تیری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تروتازہ رہنی چاہئے “ اور حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یعنی تم اللہ کا ذکر اتنا کرو کہ دیکھنے والے تمہیں دیوانہ کہنے لگیں “ اور حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں جس میں اللہ کا ذکر نہ آئے تو قیامت کے روز یہ مجلس ان کے لئے حسرت ثابت ہوگی۔ (رواہ احمد، ابن کثیر)