Surat ul Ahzaab

Surah: 33

Verse: 41

سورة الأحزاب

یٰۤاَیُّہَاالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذۡکُرُوا اللّٰہَ ذِکۡرًا کَثِیۡرًا﴿ۙ۴۱﴾

O you who have believed, remember Allah with much remembrance

مسلمانوں!اللہ تعالٰی کا ذکر بہت کرو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Virtue of remembering Allah much Allah commands: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا O you who believe! Remember Allah with much remembrance. Allah commands His believing servants to remember their Lord much, Who has bestowed upon them all kinds of blessings and favors, because this will bring them a great reward and a wonderful destiny. Imam Ahmad recorded that Abdullah bin Busr said: "Two Bedouins came to the Messenger of Allah and one of them said: `O Messenger of Allah, which of the people is best' He said: مَنْ طَالَ عُمْرُهُ وَحَسُنَ عَمَلُه The one whose life is long and whose deeds are good. The other one said: `O Messenger of Allah, the laws of Islam are too much for us. Teach me something that I can adhere to.' He said, لاَايَزَالُ لِسَانُكَ رَطْبًا بِذِكْرِ اللهِ تَعَالَى Keep your tongue moist with the remembrance of Allah, may He be exalted. At-Tirmidhi and Ibn Majah recorded the second part of this report. At-Tirmidhi said, "This Hadith is Hasan Gharib". Imam Ahmad recorded that Abdullah bin `Amr, may Allah be pleased with him, said that the Messenger of Allah said, مَا مِنْ قَوْمٍ جَلَسُوا مَجْلِسًا لَمْ يَذْكُرُوا اللهَ تَعَالَى فِيهِ إِلاَّ رَأَوْهُ حَسْرَةً يَوْمَ الْقِيَامَة No people sit together without mentioning Allah, but they will see that as regret on the Day of Resurrection. Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, commented on the Ayah: اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا (Remember Allah with much remembrance), "Allah did not enjoin any duty upon His servants without setting known limits and accepting the excuses of those who have a valid excuse -- apart from Dhikr, for Allah has not set any limits for it, and no one has any excuse for not remembering Allah unless he is oppressed and forced to neglect it. Allah says: فَاذْكُرُواْ اللَّهَ قِيَـماً وَقُعُوداً وَعَلَى جُنُوبِكُمْ Remember Allah standing, sitting down, and (lying down) on your sides. (4:103) By night and by day, on land and on sea, when traveling and when staying home, in richness and in poverty, in sickness and in health, in secret and openly, in all situations and circumstances. And Allah says: وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلً

بہترین دعا ۔ بہت سی نعمتوں کے انعام کرنے والے اللہ کا حکم ہو رہا ہے کہ ہمیں اس کا بکثرت ذکر کرنا چاہئے اور اس پر بھی ہمیں نعمتوں اور بڑے اجرو ثواب کا وعدہ دیا جاتا ہے ۔ ایک مرتبہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمھارے بہتر عمل اور بہت ہی زیادہ پاکیزہ کام اور سب سے بڑے درجے کی نیکی اور سونے چاندی کو راہ اللہ خرچ کرنے سے بھی زیادہ بہتر اور جہاد سے بھی افضل کام نہ بتاؤں؟ لوگوں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ کیا ہے ؟ فرمایا اللہ عزوجل کا ذکر ( ترمذی ابن ماجہ وغیرہ ) یہ حدیث پہلے والذاکرین کی تفسیر میں بھی گذر چکی ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ۔ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دعا سنی ہے جسے میں کسی وقت ترک نہیں کرتا ۔ دعا یہ ہے ( اللہم اجعلنی اعظم شکرک واتبع نصیحتک واکثر ذکرک واحفظ وصیتک ) یعنی اے اللہ تو مجھے اپنا بہت بڑا شکر گزار ، فرماں بردار ، بکثرت ذکر کرنے والا اور تیرے احکام کی حفاظت کرنے والا بنا دے ۔ ( ترمذی وغیرہ ) دو اعرابی رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ۔ ایک نے پوچھا سب سے اچھا شخص کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جو لمبی عمر پائے ، اور نیک اعمال کرے ۔ دوسرے نے پوچھاحضور صلی اللہ علیہ وسلم احکام اسلام تو بہت سارے ہیں مجھے کوئی چوٹی کا حکم بتا دیجئے کہ اس میں چمٹ جاؤں آپ نے فرمایا ذکر اللہ میں ہر وقت اپنی زبان کو تر رکھ ( ترمذی ) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کا ذکر میں ہر وقت مشغول رہو یہاں تک کہ لوگ تمھیں مجنوں کہنے لگیں ( مسند احمد ) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کا بہ کثرت ذکر کرو یہاں تک کہ منافق تمھیں ریا کار کہنے لگیں ۔ ( طبرانی ) فرماتے ہیں جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں اور وہاں اللہ کا ذکر نہ کریں وہ مجلس قیامت کے دن ان پر حسرت افسوس کا باعث بنے گی ۔ ( مسند ) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں ہر فرض کام کی کوئی حد ہے ۔ پھر عذر کی حالت میں وہ معاف بھی ہے لیکن ذکر اللہ کی کوئی حد نہیں نہ وہ کسی وقت ٹلتا ہے ۔ ہاں کوئی دیوانہ ہو تو اور بات ہے ۔ کھڑے بیٹھے لیٹے رات کو دن کو خشکی میں تری میں سفر میں حضر میں غنا میں فقر میں صحت میں بیماری پوشیدگی میں ظاہر میں غرض ہر حال میں ذکر اللہ کرنا چاہیے ۔ صبح شام اللہ کی تسبیح بیان کرنی چاہیے ۔ تم جب یہ کرو گے تو اللہ تم پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے گا اور فرشتے تمھارے لئے ہر وقت دعاگو رہیں گے ۔ اس بارے میں اور بھی بہت سی احادیث و آثار ہیں ۔ اس آیت میں بھی بکثرت ذکر اللہ کرنے کی ہدایت ہو رہی ہے ۔ بزرگوں نے ذکر اللہ اور وظائف کی بہت سی مستقل کتابیں لکھی ہیں ۔ جیسے امام نسائی امام معمری وغیرہ ۔ ان سب میں بہترین کتاب اس موضوع پر حضرت امام نووی رحمتہ اللہ علیہ کی ہے ، صبح شام اس کی تسبیح بیان کرتے رہو ۔ جیسے فرمایا ( فسبحان اللہ حین ( فَسُـبْحٰنَ اللّٰهِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ 17؀ ) 30- الروم:17 ) اللہ کے لئے پاکی ہے ۔ جب تم شام کرو اور جب تم صبح کرو ، اسی کے لئے حمد ہے آسمانوں میں اور زمین میں اور بعد از زوال اور ظہر کے وقت ، پھر اس کی فضیلت بیان کرنے اور اس کی طرف رغبت دلانے کے لئے فرماتا ہے وہ خود تم پر رحمت بھیج رہا ہے ۔ یعنی جب وہ تمھاری یاد رکھتا ہے تو پھر کیا وجہ کہ تم اس کے ذکر سے غفلت کرو؟ جیسے فرمایا ( كَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ ١٥١؀ړ ) 2- البقرة:151 ) جس طرح ہم نے تم میں خود تمہی میں سے رسول بھیجا جو تم پر ہماری کتاب پڑھتا ہے اور وہ سکھاتا ہے جسے تم جانتے ہی نہ تھے ۔ پس تم میرا ذکر کرو میں تمھاری یاد کروں گا اور تم میرا شکر کرو اور میری ناشکری نہ کرو ۔ حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں ۔ اور جو مجھے کسی جماعت میں یاد کرتا ہے میں بھی اسے جماعت میں یاد کرتا ہوں جو اس کی جماعت سے بہتر ہوتی ہے ۔ صلوۃ جب اللہ کی طرف مضاف ہو تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی بھلائی اپنے فرشتوں کے سامنے بیان کرتا ہے ۔ اور قول میں ہے مراد اس کی رحمت ہے ۔ اور دونوں قولوں کا انجام ایک ہی ہے ۔ فرشتوں کی صلوۃ ان کی دعا اور استغفار ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( اَلَّذِيْنَ يَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهٗ يُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَيَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۚ رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِيْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِيْلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَــحِيْمِ Ċ۝ ) 40-غافر:7 ) ، عرش کے اٹھانے والے اور اس کے آس پاس والے اپنے رب کی حمد و تسبیح بیان کرتے ہیں ، اس پر ایمان لاتے ہیں اور مومن بندوں کے لئے استغفار کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو نے ہر چیز کو رحمت و علم سے گھیر لیا ہے ۔ اے اللہ تو انہیں بخش جو توبہ کرتے ہیں اور تیری راہ پر چلتے ہیں ۔ انہیں عذاب جہنم سے بھی نجات دے ۔ انہیں ان جنتوں میں لے جا جن کا تو ان سے وعدہ کر چکا ہے ۔ اور انہیں بھی ان کے ساتھ پہنچا جو ان کے باپ دادوں بیویوں اور اولادوں میں سے نیک ہیں ، انہیں برائیوں سے بچا لے ۔ وہ اللہ اپنی رحمت کو تم پر نازل فرما کر اپنے فرشتوں کی دعا کو تمھارے حق میں قبول فرما کر تمھیں جہالت و ضلالت کی اندھیریوں سے نکال کر ھدایت و یقین کے نور کی طرف لے جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں مومنوں پر رحیم و کریم ہے ۔ دنیا میں حق کی طرف ان کی راہنمائی کرتا ہے اور روزیاں عطا فرماتا ہے اور آخرت میں گھبراہٹ اور ڈر خوف سے بچا لے گا ۔ فرشتے آکر انہیں بشارت دیں گے کہ تم جہنم سے آزاد ہو اور جنتی ہو ۔ کیونکہ ان فرشتوں کے دل مومنوں کی محبت و الفت سے پُر ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ اپنے اصحاب کے ساتھ راستے سے گزر رہے تھے ۔ ایک چھوٹا بچہ راستے میں تھا اس کی ماں نے ایک جماعت کو آتے ہوئے دیکھا تو میرا بچہ میرا بچہ کہتی ہوئی دوڑی اور بچے کو گود میں لے کر ایک طرف ہٹ گئی ۔ ماں کی اس محبت کو دیکھ کر صحابہ نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیال تو فرمائیے کیا یہ اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مطلب کو سمجھ کر فرمانے لگے قسم اللہ کی ! اللہ تعالیٰ بھی اپنے دوستوں کو آگ میں نہیں ڈالے گا ۔ ( مسند احمد ) صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قیدی عورت کو دیکھا کہ اس نے اپنے بچے کو دیکھتے ہی اٹھا لیا اور اپنے کلیجے سے لگا کر اسے دودھ پلانے لگی آپ نے فرمایا بتاؤ تو اگر اس کے اختیار میں ہو تو کیا یہ اپنی خوشی سے اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی ؟ صحابہ نے کہا ہرگز نہیں آپ نے فرمایا قسم ہے اللہ کی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ مہربان ہے ، اللہ کی طرف سے ان کا ثمرہ جس دن یہ اس سے ملیں گے سلام ہو گا ۔ جیسے فرمایا ( سلام قولا من رب رحیم ) قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرے گا ۔ اس کی تائید بھی آیت ( دَعْوٰىھُمْ فِيْهَا سُبْحٰنَكَ اللّٰهُمَّ وَتَحِيَّتُھُمْ فِيْهَا سَلٰمٌ ۚ وَاٰخِرُ دَعْوٰىھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ١0 ؀ۧ ) 10- یونس:10 ) ، سے ہوتی ہے ۔ اللہ نے ان کے لئے اجر کریم یعنی جنت مع اس کی تمام نعمتوں کے تیار کر رکھی ہے ۔ جن میں سے ہر نعمت کھانا پینا پہننا اوڑھنا عورتیں لذتیں منظر وغیرہ ایسی ہیں کہ آج تو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں آسکتیں ۔ چہ جائیکہ دیکھنے میں یا سننے میں آئیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ۔۔ : ان آیات کی پچھلی آیات کے ساتھ مناسبت بعض اہل علم نے یہ بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ جب تمہیں زینب (رض) کے نکاح جیسے معاملات میں منافقین اور اسلام کے دوسرے دشمنوں کے طعن و تشنیع کا سامنا کرنا پڑے تو ان کے ساتھ الجھنے یا انھیں برا بھلا کہنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی تسبیح کثرت سے کرو، اس سے تمہیں اطمینان عطا ہوگا، اسلام پر استقامت ملے گی اور فتنے کا دروازہ جلدی بند ہوگا۔ خصوصاً ” وسبحوہ “ کے مفہوم میں منافقین کی باتوں سے اپنے بری ہونے کا اظہار بھی شامل ہے، یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا کسی مومن پر کسی طعن یا بہتان کا ذکر ہو تو اس سے اپنی براءت کا اظہار کرو، جیسا کہ عائشہ (رض) پر بہتان کے متعلق فرمایا : (وَلَوْلَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ مَّا يَكُوْنُ لَنَآ اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِھٰذَا ڰ سُبْحٰنَكَ ھٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيْمٌ) [ النور : ١٦ ] ” اور کیوں نہ جب تم نے اسے سنا تو کہا ہمارا حق نہیں ہے کہ ہم اس کے ساتھ کلام کریں، تو پاک ہے، یہ بہت بڑا بہتان ہے۔ “ ذِكْرًا كَثِيْرًا : طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس (رض) سے اس آیت اور اس کے بعد کی دو آیات کی تفسیر ذکر فرمائی ہے، انھوں نے فرمایا : ” لَا یَفْرِضُ اللّٰہُ عَلٰی عِبَادِہِ فَرِیْضَۃً إِلاَّ جَعَلَ لَہَا حَدًّا مَعْلُوْمًا، ثُمَّ عَذَرَ أَہْلَہَا فِيْ حَالِ عُذْرٍ ، غَیْرَ الذِّکْرِ ، فَإِنَّ اللّٰہَ لَمْ یَجْعَلْ لَہُ حَدًّا یَنْتَہِيْ إِلَیْہِ وَ لَمْ یَعْذُرْ أَحَدًا فِيْ تَرْکِہِ إِلَّا مَغْلُوْبًا عَلٰی عَقْلِہِ قَالَ : (فاذکروا اللہ قیاما وقعودا وعلی جنوبکم) بِاللَّیْلِ وَ النَّہَارِ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ، وَ فِي السَّفَرِ وَالْحَضَرِ ، وَالْغِنٰی وَالْفَقْرِ ، وَالسَّقَمِ وَالصِّحَّۃِ ، وَالسِّرِ وَالْعَلاَنِیَۃِ ، وعَلٰی کُلِّ حَالٍ ، وَ قَالَ : (وَّسَبِّحُــوْهُ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا ) فَإِذَا فَعَلْتُمْ ذٰلِکَ صَلّٰی عَلَیْکُمْ ہُوَ وَ مَلاَءِکَتُہُ قَال اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ : (هُوَ الَّذِيْ يُصَلِّيْ عَلَيْكُمْ وَمَلٰۗىِٕكَتُهٗ ) “ [ طبري : ٢٨٧٦٤ ] ” یعنی اللہ نے ہر فرض کی کوئی نہ کوئی حد مقرر فرمائی ہے، پھر عذر کی حالت میں وہ بھی معاف ہے، لیکن نہ اللہ کے ذکر کی کوئی حد ہے، نہ وہ کسی عذر سے معاف ہوتا ہے۔ ہاں ! عقل یا ہوش نہ رہے تو الگ بات ہے، فرمایا : ” اللہ کا ذکر کرو کھڑے، بیٹھے، لیٹے “ رات اور دن میں، خشکی اور تری میں، سفر اور حضر میں، غنا اور فقر میں، صحت اور بیماری میں، پوشیدگی اور ظاہر میں، غرض ہر حال میں اللہ کا ذکر لازم ہے اور فرمایا : ” اور اس کی تسبیح کرو پہلے پہر اور پچھلے پہر “ جب تم یہ کرو گے تو اللہ تم پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے گا اور اس کے فرشتے تمہارے لیے دعائیں کریں گے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” وہی ہے جو تم پر صلاۃ بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے۔ “ اللہ کا ذکر کثرت سے کرنے کے متعلق کئی احادیث اسی سورت کی آیت (٣٥) : (وَالذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّالذّٰكِرٰتِ ) کی تفسیر میں ذکر ہوچکی ہیں۔ اس کے متعلق اہل علم نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ ابن قیم (رض) نے ” الو ابل الصیب “ میں ذکر کے ایک سو فوائد تفصیل سے ذکر فرمائے ہیں۔ وَّسَبِّحُــوْهُ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا : زمخشری نے فرمایا : ” پچھلی آیت میں ذکر کثیر کا حکم تھا، اب تسبیح کا حکم دیا۔ تسبیح بھی ذکر میں شامل ہے، اس کا خاص طور پر ذکر اسی طرح فرمایا جیسے فرشتوں کے ذکر کے بعد جبریل اور میکائیل کا ذکر فرمایا، تاکہ دوسرے اذکار پر اس کی فضیلت بیان کرے، کیونکہ اس کا معنی اللہ تعالیٰ کی ذات کو ان تمام صفات و افعال سے پاک بیان کرنا ہے جو اس کے لیے جائز نہیں۔ دوسرے اذکار پر اس کی فضیلت ایسے ہی ہے جیسے کسی آدمی کے تمام اوصاف مثلاً نماز، روزے وغیرہ کی کثرت وغیرہ پر اس بات کی فضیلت ہے کہ وہ شرک و بدعت کی نجاست اور ہر قسم کے گناہوں کی آلودگی سے پاک ہے۔ پھر پہلے اور پچھلے پہر تسبیح کا خصوصاً ذکر فرمایا، مراد تمام نمازوں کو ان کے اوقات میں ادا کرنا ہے، کیونکہ نماز دوسری چیزوں سے افضل ہے، یا فجر، مغرب اور عشاء کی نماز مراد ہے، کیونکہ ان کی ادائیگی میں زیادہ مشقت ہے۔ “ (کشاف) بعض اہل علم نے اس سے مراد فجر اور عصر لی ہے۔ تسبیح بول کر نماز مراد لینے کے لیے دیکھیے سورة طہ (١٣٠) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Mentioned in the preceding verse was the incident of Sayyidna Zaid (رض) and Sayyidah Zainab (رض) and in relation to it the Holy Prophet&s (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) being the last of the prophets has been stated in the context of directions for the respect and reverence of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and saving oneself from causing any pain to him. Further on also, the perfect attributes of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) are going to be stated; his person and attributes are the greatest blessings for Muslims in this world. The instruction of remembering Allah in abundance is given in the above verse to show gratitude for those blessings. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) has stated that there is no form of worship except ذِکرُ اللہ dhikrullah (remembrance of Allah) for which Allah has not fixed a limit; for example, Salah is prescribed five times a day and the number of rak’ at are determined for each Salah; fasting throughout the month of Ramadan is determined, Hajj can be performed only at a particular place and at a particular time, Zakah is prescribed once a year at a particular rate. But dhikrullah is a form of worship for which there is no limit or defined quantity, no particular time or period, no defined posture or position, nor even the state of purity through ablution is required. Dhikrullah is required all the time, in all circumstances, whether one is traveling or is at home, whether one is healthy or ill, whether one is on land or at sea, whether it is day or night - dhikrullah is required all the time. Therefore no excuse is acceptable for neglecting dhikrullah except that one may have lost his senses and become unconscious. In case of all forms of worship, other than dhikrullah, if one becomes unable due to illness or compelling circumstances, one is allowed reduction, brevity or exemption altogether, but in case of dhikrullah there are no extenuating circumstances. Therefore, no excuse is considered valid for omitting it and the merits, blessings and rewards for doing it are also numerous. Imam Ahmad (رح) has reported from Sayyidna Abu ad-Darda& (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said to the noble companions (رض) &Should I not tell you a thing that is better than all your deeds and is most acceptable to your Lord, and which would raise your grades, and is better than giving silver and gold in charity and alms and is also better than your embarking for Jihad wherein you face and kill the enemy and the enemy kills you? The noble companions (رض) asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) about that thing. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, ذِکرُ اللہِ عَزَّ وَ جَلَّ that is, remembrance of Allah, the Mightiest the Most Glorious|". (Ibn Kathir) Imam Ahmad and Tirmidhi رحمۃ اللہ علیہما also have reported that Sayyidna Abu Hurairah (رض) said that he had heard a prayer from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) which he does never miss. It is the following: اللَّھُمَّ اَجعَلنِی اُعَظِّمُ شُکرِکَ وَ اَتَّبِعُ نَصِیحَتَکَ وَ اُکثِرُ ذِکرِکَ وَ احفَظُ وَصِیَّتِکَ |"0 Allah make me so that I keep thanking You profusely, I keep obeying your instructions, I keep remembering You abundantly and I safeguard (to follow) your advice.|" (Ibn Kathir) Here the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has supplicated to Allah Ta’ ala for ability to engage in dhikrullah abundantly. A Beduin said to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that the number of good deeds, obligations in Islam are many; so please tell me something concise and comprehensive which I could hold on to firmly. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) told him, لَا یَزَالُ لِسَانُکَ رَطباً بِذِکرِ اللہِ تعالیٰ That your tongue remains always wet with the dhikr of Allah. (Musnad Ahmad, Ibn Kathir) Sayyidna Abu Said (رض) has narrated that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said اُذکُرُو اللہَ تَعَالٰی حَتّٰی یقُولُوا مَجنُونُ |"Remember Allah, the Almighty so much so that people start calling you crazy.|" (Ibn Kathir from Musnad Ahmad) And Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Umar (رض) has narrated that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said that a gathering of people wherein Allah is not mentioned would prove to be a matter of remorse on the Doomsday for those sitting therein. (Ahmad, Ibn Kathir)

خلاصہ تفسیر اے ایمان والو تم (احسانات آلہیہ کو عموماً اور ایسے اکمل رسل کی بعثت کے احسان کو خصوصاً یاد کر کے اس کا یہ شکر ادا کرو کہ) اللہ کو خوب کثرت سے یاد کرو (اس میں سب طاعات آگئیں) اور (اس ذکر وطاعت پر دوام رکھو پس) صبح وشام (یعنی علی الدوام) اس کی تسبیح (و تقدیس) کرتے رہو (یعنی دل سے بھی اور اعضاء سے بھی اور زبان سے بھی پس جملہ اولیٰ سے عموم اعمال و طاعات کا اور جملہ ثانیہ میں عموم از منہ و اوقات کا حاصل ہوگیا یعنی نہ تو ایسا کرو کہ کوئی حکم بجا لائے اور کوئی نہ بجا لائے، اور نہ ایسا کرو کہ کسی دن کوئی کام کرلیا کسی دن نہ کیا، اور جیسا اس نے تم پر بہت احسان کئے ہیں اور آئندہ بھی کرتا رہتا ہے پس بالضرورة مستحق ذکر و شکر ہے، چنانچہ) وہ ایسا (رحیم) ہے کہ وہ (خود بھی) اور (اس کے حکم سے) اس کے فرشتے (بھی) تم پر رحمت بھیجتے رہتے ہیں (اس کا رحمت بھیجنا تو رحمت کرنا ہے اور فرشتوں کا رحمت بھیجنا رحمت کی دعاء کرنا ہے کماقال (آیت) الذین یحملون العرش (الیٰ قولہ) وقہم السیات، اور یہ رحمت بھیجنا اس لئے ہے) تاکہ حق تعالیٰ (ببرکت اس رحمت کے) تم کو (جہالت و ضلالت کی) تاریکیوں سے (علم اور ہدایت کے) نور کی طرف لے آئے (یعنی خدائی رحمت اور دعاء ملائکہ کی برکت ہے کہ تم کو علم اور ہدایت کی توفیق اور اس پر ثبات حاصل ہے کہ یہ ہر وقت متجدد ہوتی رہتی ہے) اور (اس سے ثابت ہوا کہ) اللہ تعالیٰ مومنین پر بہت مہربان ہے (اور یہ رحمت تو مومنین کے حال پر دنیا میں ہے اور آخرت میں بھی وہ مورد رحمت ہوں گے، چنانچہ) وہ جس روز اللہ سے ملیں گے تو ان کو جو سلام ہوگا وہ یہ ہوگا کہ (اللہ تعالیٰ خود ان سے ارشاد فرما دے گا) السلام علیکم (کہ اولاً خود سلام ہی علامت اعزاز کی ہے، پھر جب کہ خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام ہو کما قال (آیت) سلام قولاً من رب رحیم اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اہل جنت سے فرمائے گا السلام علیکم، رواہ ابن ماجہ وغیرہ اور یہ سلام تو روحانی انعام ہے جس کا حاصل اکرام ہے) اور (آگے جسمانی انعام کی خبر بعنوان عام ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے ان (مومنین کے لئے) عمدہ صلہ (جنت میں) تیار کر رکھا ہے (کہ ان کے جانے کی دیر ہے، یہ گئے اور وہ ملا، آگے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے کہ) اے نبی (آپ مشتے چند معترضین کے طعن سے مغموم نہ ہوں، اگر یہ سفہاء آپ کو نہ جانیں تو کیا ہوا ہم نے تو ان بڑی بڑی نعمتوں اور رحمتوں کا جو کہ خطاب مومنین میں مذکور ہوئی ہیں، آپ ہی کو واسطہ بنایا ہے اور آپ کے مخالفین کی سزا کے لئے خود آپ کا بیان کافی قرار دیا گیا ہے کہ ان کے مقابلہ میں آپ سے ثبوت نہ لیا جائے گا، پس اس سے ظاہر ہے کہ آپ ہمارے نزدیک کس درجہ محبوب و مقبول ہیں، چنانچہ) ہم نے بیشک آپ کو اس شان کا رسول بنا کر بھیجا ہے کہ آپ (قیامت کے روز امت کے اعتبار سے خود سرکاری) گواہ ہوں گے (کہ آپ کے بیان کے موافق ان کا فیصلہ ہوگا کما قال انا ارسلنا الیکم رسولاً شاہدا علیکم اور ظاہر ہے کہ خود صاحب معاملہ کو دوسرے فریق اہل معاملہ کے مقابلہ میں گواہ قرار دینا اعلیٰ درجہ کا اکرام اور علو شان ہے جس کا قیامت کے روز ظہور ہوگا) اور (دنیا میں جو آپ کی صفات کمال ظاہر ہیں وہ یہ ہیں کہ) آپ (مومنین کے) بشارت دینے والے ہیں اور (کفار کے) ڈرانے والے ہیں اور (عام طور پر سب کو) اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والے ہیں (اور یہ تبشیر وانذار دعوت تبلیغاً ہے) اور (یوں خود اپنی ذات وصفات و کمالات و عبادات و عادات وغیرہا مجموعی حالات کے اعتبار سے) آپ (سرتاپا نمونہ ہدایت ہونے میں بمنزلہ) ایک روشن چراغ (کے) ہیں (کہ آپ کی ہر حالت طالبان انوار کے لئے سرمایہ ہدایت ہے، پس قیامت میں ان مومنین پر جو کچھ رحمت ہوگی وہ آپ ہی کی ان صفات بشیر و نذیر و داعی وسراج منیر کے واسطہ سے ہے۔ پس آپ اس غم و پریشانی کو الگ کیجئے) اور (اپنے منصبی کام میں لگئے یعنی) مومنین کو بشارت دیجئے کہ ان پر اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہونے والا ہے اور (اسی طرح کافروں اور منافقوں کو ڈراتے رہئے جس کو ایک خاص عنوان سے تعبیر کیا ہے وہ یہ کہ) کافروں اور منافقوں کا کہنا نہ کیجئے (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا تو امکان ہی نہ تھا کہ آپ کفار و منافقین کے کہنے میں آ کر تبلیغ و دعوت چھوڑ دیں، لیکن لوگوں کی طعن وتشنیع سے بچنے کے لئے ممکن تھا کہ آپ اس عملی تبلیغ میں جو نکاح زینب کے ذریعہ مقصود تھی کوئی سستی کریں اس کو کفار کا کہنا ماننے سے تعبیر کردیا گیا) اور ان (کافروں اور منافقوں) کی طرف سے جو (کوئی) ایذاء پہنچے (جیسا اس نکاح میں کہ تبلیغ فعل ہے ایذاء قولی پہنچی) اس کا خیال نہ کیجئے اور (فعلی ایذاء کا بھی اندیشہ نہ کیجئے) اور اگر اس کا وسوسہ آئے تو اللہ پر بھروسہ کیجئے اور اللہ کافی کارساز ہے، (وہ آپ کو ہر ضرر سے بچائے گا اور اگر تبلیغ میں کوئی ظاہری ضرر پہنچتا ہے وہ باطناً نفع ہوتا ہے، وہ وعدہ کفایت و وکالت کے منافی نہیں) ۔ معارف ومسائل سابقہ آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم و تکریم اور آپ کی ایذاء رسانی سے بچنے کے لئے ہدایات کے ضمن میں حضرت زید اور زینب کا قصہ اور اس کی مناسبت سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خاتم النبیین ہونا بیان ہوا ہے، آگے بھی آپ کی صفات کمال کا بیان آنے والا ہے۔ اور آپ کی ذات وصفات سب مسلمانوں کے لئے دنیا میں سب سے بڑی نعمت ہیں، ان کا شکر ادا کرنے کے لئے آیت مذکورہ میں ذکر اللہ کی کثرت کا حکم دیا گیا ہے۔ ذکر اللہ ایسی عبادت ہے جس کے لئے کوئی شرط نہیں اور اس کے بکثرت کرنے کا حکم ہے : (آیت) یایہا الذین امنوا ذکر واللہ ذکراً کثیراً ، حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اللہ نے اپنے بندوں پر ذکر اللہ کے سوا کوئی ایسی عبادت عائد نہیں کی جس کی کوئی خاص حد مقرر نہ ہو، نماز پانچ وقت کی اور ہر نماز کی رکعات متعین ہیں، روزے ماہ رمضان کے متعین اور مقرر ہیں، حج بھی خاص مقام پر خاص اعمال مقررہ کرنے کا نام ہے، زکوٰة بھی سال میں ایک ہی مرتبہ فرض ہوتی ہے، مگر ذکر اللہ ایسی عبادت ہے کہ نہ اس کی کوئی حد اور تعداد متعین ہے، نہ کوئی خاص وقت اور زمانہ مقرر ہے، نہ اس کے لئے کوئی خاص ہئیت قیام یا نشست کی مقرر ہے نہ اس کے لئے طاہر اور باوضو ہونا شرط ہے۔ ہر وقت ہر حال میں ذکر اللہ بکثرت کرنے کا حکم ہے، سفر ہو یا حضر، تندرستی ہو یا بیماری، خشکی میں ہو یا دریا میں، رات ہو یا دن ہر حال میں ذکر اللہ کا حکم ہے۔ اسی لئے اس کے ترک میں انسان کا کوئی عذر مسموع نہیں، بجز اس کے عقل و حواس ہی نہ رہیں بےہوش ہوجائے، اس کے علاوہ دوسری عبادات میں بیماری اور مجبوری کے حالات میں انسان کو معذور قرار دے کر عبادت میں اختصار اور کمی یا معافی کی رخصتیں بھی ہیں، مگر ذکر اللہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے کوئی شرط نہیں رکھی۔ اس لئے اس کے ترک میں کسی حال کوئی عذر مسموع بھی نہیں، اور اس کے فضائل و برکات بھی بیشمار ہیں۔ امام احمد نے حضرت ابو الدرداء سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو خطاب کر کے فرمایا کہ کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتلا دوں جو تمہارے سب اعمال سے بہتر اور تمہارے مالک کے نزدیک سب سے زیادہ مقبول ہے، اور تمہارے درجات بلند کرنے والی ہے اور تمہارے لئے سونے چاندی کے صدقہ و خیرات سے بہتر ہے اور اس سے بھی بہتر ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے نکلو اور تمہارا دشمن سے معاملہ ہو تم ان کی گردنیں مار دو وہ تمہاری، صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ کون سی چیز اور کونسا عمل ہے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ذکر اللہ عزوجل، ” یعنی اللہ تعالیٰ کی یاد (ابن کثیر) نیز امام احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے کہ حضرت ابوہریرہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک دعاء سنی ہے جس کو میں کبھی نہیں چھوڑتا، وہ یہ ہے : ” یا اللہ مجھے ایسا بنا دے کہ میں تیرا شکر بہت کروں اور تیری نصیحت کا تابع رہوں اور تیرا ذکر کثرت سے کیا کروں اور تیری وصیت کو محفوظ رکھوں “ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ سے اس کی دعا کی کہ ذکر اللہ کی کثرت کی توفیق عطا ہو۔ ایک اعرابی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ اسلام کے اعمال و فرائض و واجبات تو بہت ہیں، آپ مجھے کوئی ایسی مختصر جامع بات بتلا دیں کہ میں اس کو مضبوطی سے اختیار کرلوں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یعنی تیری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تروتازہ رہنی چاہئے “ اور حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یعنی تم اللہ کا ذکر اتنا کرو کہ دیکھنے والے تمہیں دیوانہ کہنے لگیں “ اور حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں جس میں اللہ کا ذکر نہ آئے تو قیامت کے روز یہ مجلس ان کے لئے حسرت ثابت ہوگی۔ (رواہ احمد، ابن کثیر)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللہَ ذِكْرًا كَثِيْرًا۝ ٤١ۙ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ ذكر الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل : الذّكر ذکران : ذكر بالقلب . وذکر باللّسان . وكلّ واحد منهما ضربان : ذكر عن نسیان . وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ، ( ذک ر ) الذکر ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤١۔ ٤٢) اے ایمان والو تم اللہ تعالیٰ جو دل اور زبان سے طاعت و معصیت کے وقت خوب یاد کرو اور صبح و شام نمازیں پڑھو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤١ { یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا } ” اے اہل ایمان ! اللہ کا ذکر کیا کرو کثرت کے ساتھ۔ “ مراد یہ ہے کہ انسان ہر وقت اور ہر حال میں اللہ کو یاد رکھے اور ایک پنجابی کہاوت ” ہتھ کا رول ‘ دل یا رول “ کے مصداق اپنے روز مرہ معمولاتِ زندگی کے دوران بھی ہر گھڑی ‘ ہر قدم پر اللہ کی یاد اس کے دل میں مستحضر رہے۔ عملی طور پر ” ذکر کثیر “ کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم مسنون دعائوں کو یاد کر کے انہیں اپنے معمولات کا حصہ بنا لیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ہر کیفیت اور ہر موقع محل کے لیے دعائیں تعلیم فرمائی ہیں۔ مثلاً گھر میں داخل ہونے کی دعا ‘ گھر سے باہر نکلنے کی دعا ‘ بازار میں داخل ہونے اور باہر جانے کی دعا ‘ بیت الخلاء میں داخل ہونے اور باہر نکلنے کی دعا۔ اگر ہم ان مسنون دعائوں کو اپنے معمولات میں شامل کرلیں تو کوئی اضافی وقت صرف کیے بغیر اپنے کام کاج کے دوران بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ مسلسل اپنا تعلق قائم رکھ سکتے ہیں۔ نمازِ پنجگانہ بھی اللہ کے ذکر کی بہترین صورت ہے۔ البتہ بندئہ مومن کے لیے اللہ کا سب سے اعلیٰ ذکر قرآن کریم کی تلاوت ہے ‘ جیسا کہ سورة العنکبوت کی اس آیت میں ارشاد فرمایا گیا ہے : { اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَط اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِط وَلَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَرُ ط وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ ۔ } ” تلاوت کرتے رہا کریں اس کی جو وحی کی گئی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کتاب میں سے اور نماز قائم کریں۔ یقینا نماز روکتی ہے بےحیائی سے اور برے کاموں سے۔ اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔ اور اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم لوگ کر رہے ہو۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤١ تا ٤٣۔ اس آیت کے اوپر کے ٹکڑے میں اللہ تعالیٰ کی یاد کثرت سے کرنے کا اور تسبیح و تہلیل کا ذکر تھا اس لیے اس کے ساتھ ہی آیت کے دوسرے ٹکڑے میں یاد الٰہی کے فائدہ کا ذکر فرمایا بڑا فائدہ ذکر الٰہی کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فاذکرونی اذکرکم صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) کی روایت ٢ ؎ سے حدیث قدسی ہے جس میں اس آیت کی تفسیر یوں آئی ہے (٢ ؎ مشکوۃ ١٩٦ باب ذکر اللہ عزوجل والتقرب الیہ۔ ) جو شخص مجھ کو تنہائی میں یاد کرے گا تو میں بھی اس کو تنہائی میں یاد کروں گا اور جو شخص مجھ کو آدمیوں کی جماعت میں یاد کرے گا تو میں اس کو فرشتوں کی جماعت میں یاد کروں گا جو آدمیوں کی جماعت سے بہتر ہے اسی طرح یاد الٰہی کی فضیلت میں اور بہت سی حدیثیں آئی ہیں علما نے اسلا نے یاد الٰہی کی فضیلت کو اور یاد الٰہی کے روایتوں کو ایک جگہ کرنے کی غرض سے اس باب میں خاص کتابیں تصنیف کی ہیں شیخ محی الدین بھی بن شرف نووی کی ایک تاب جس کا نام ” اذکار “ ہے اس باب میں بہت لاجواب اور بےمثل ہے۔ اب آقا کے اپنے غلام کو یاد رکھنا یہی ہے کہ آقا کی نظر عنایب غلام پر رہے اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے آیت کے اس ٹکڑے میں فرمایا ہے کہ جو لوگ اللہ کی یاد میں لگے رہتے ہیں ان پر اللہ کی رحمت اترتی ہے اور قاعدہ کی بات ہے کہ آقا کی نظر عنایت غلام پر رہے اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے آیت کے اس ٹکڑے میں فرمایا ہے کہ جو لوگ اللہ کی یاد میں لگے رہتے ہیں ان پر اللہ کی رحمت اترتی ہے اور قاعدہ کی بات ہے کہ جس غلام پر خود بادشاہ مہربان ہوتا ہے اس پر بادشاہ کے سب دربار کے لوگ بھی مہربان ہوجاتے ہیں اسی واسطے فرمایا ہے کہ یاد الٰہی میں مصروف رہنے والے لوگوں پر اللہ کی مہربانی کی نگاہ دیکھ کر فرشتے بھی ایسے لوگوں کی مغفرت کی دعا مانگتے رہتے ہیں جس طرح فرشتوں کو رات دن سوا ذکر اللہ اور یاد الٰہی کے اور کچھ کام نہیں ہے اسی طرح انسانوں میں سے جو لوگ ہر وقت یاد الٰہی میں مصروف رہتے ہیں ان کو بھی فرشتوں کے ساتھ ایک طرح کی مناسبت پیدا ہوجاتی ہے اس لیے فرشتے ایسے لوگوں کے حق میں دعا خیر کرتے رہتے ہیں جس دعا کا پورا مضمون ؎ حٓمٓ عٓسٓقٓ میں آوے گا مسند امام احمد ترمذی ترمذی اور ابن ماجہ میں ابودردلو سے روایت ١ ؎ ہے (١ ؎ مشکوٰۃ) جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کو یاد الٰہی کا مشغلہ ہے وہ صرقہ دینے والوں اور جہاد کرنے والوں سب سے افضل مشغلہ میں ہے صحیح بخاری میں حضرت عمر (رض) سے روایت ٢ ؎ ہے (٢ ؎ مشکوٰۃ ص ٢٠٧ باب (سعۃ رحمتہ اللہ تعالیٰ ) فصل اول و تفسیر ابن کثیر) جس کا حاصل یہ ہے کہ کسی لڑائی میں کچھ قیدی آئے تھے ان میں ایک عورت بھی تھی اس عورت کا بچہ اس سے بچھڑ گیا تھا کچھ دیر کے بعد اس عورت نے اپنے بچہ کو دیکھ لیا۔ دیکھتے ہی اس بچہ کو اس عورت نے بہت پیار کیا اور دودھ پلایا یہ معاملہ دیکھ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) سے فرمایا کہ کیا یہ عورت اپنے بچہ کو آگ میں ڈالنے پر راضی ہوگی صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ نہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس قدر یہ عورت اپنے بچہ سے مہربانی اور الفت سے پیش آئی ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے زیادہ مہربان ہے اس حدیث کے موافق جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس قدر مہربان ہے تو جن لوگوں سے خاص ور پر اللہ تعالیٰ نے مہربانی اور رحمت کا وعدہ فرمایا ہے اس کو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کس سلوک سے پیش آئے گا حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ اے ایماندار لوگو ! دل سے زبان سے ہاتھ پیروں سے ذکر الٰہی لگے رہو اور نمازوں میں سے صبح اور عصر کی نماز کا بڑا خیال رکھو کہ صبح کی نماز کا وقت غفلت کا یہ ہے اور عصر کی نماز کا وقت کام کاج کا و سجود بکوۃ واصیلا کی تفسیر قتادہ نے یہی کی ہے جو بیان کی گئی کہ آیت کا ٹکڑا صبح اور عصر کی نماز کی تاکید میں ہے ‘ صحیح بخاری و میں ابوموسیٰ اشعری (رض) سے اور فقط مسلم میں عمارہ بن رویبہ سے جو صبح اور عصر کی نماز کی فضیلت کی ٣ ؎ روایتیں ہیں (٣ ؎ مشکوٰۃ ص ٦٢ باب فضائل الصلوٰۃ۔ ) ان سے قتادہ (رض) کی تفسیر کی پوری تائید ہوتی ہے اب آگے فرمایا کہ جو لوگ ذکر الٰہی اور نماز صبح اور عصر کے پابند ہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فرشتوں کی دعاء خیر کی برکت سے وہ گمراہی کے اندھیروں سے راہ راست کے اجالے میں رہیں گے کیوں کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر مہربان ہے وہ ہمیشہ ایسے لوگوں کو دنیا میں راہ راست پر رکھے گا اور عقبے میں اس کے اجر میں ان کو جنت میں داخل کرے گا جہاں یہ لوگ خوشی سے آپس میں سلا علیک کریں گے جس سلام علیک کا مطلب گویا یہ مبارک باد ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دوزخ کے عذاب سے بچا کر امن امان سے جنت میں داخل کیا۔ ابن ماجہ مسند بزار تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں جابر (رض) بن عبداللہ سے روایت ١ ؎ ہے (١ ؎ الترغیب ص ٥٥٣ ج بروایت ابن ماجہ) جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اہل جنت کو اللہ تعالیٰ کا سلام بھی پہنچا کرے گا ‘ اس حدیث کی سند میں ایک راوی فضل بن عیسیٰ رقاشی کو اگرچہ اکثر علماء نے صنعیف قرار دیا ہے لیکن سورة یٰسین میں آوے گا سلام قولا من رب رحیم جس سے اس روایت کی پوری تائید ہوتی ہے علاوہ اس کے صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) کی روایت ٢ ؎ ہے (٢ ؎ مشکوۃ ص ٥٧٣ باب مناقب ازواج النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس میں یہ ہے کہ جبرئیل (علیہ السلام) حضرت خدیجہ (رض) کو اللہ تعالیٰ کا سلام پہنچایا کرتے تھے اس حدیث سے بھی جابر بن عبداللہ (رض) کی روایت کی تائید ہوتی ہے کیونکہ جن لوگوں کا دنیا میں یہ رتبہ ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ کا سلام پہنچتا ہے تو جنت میں ان کا رتبہ وہی رہے گا اسی واسطے امام المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا قول بھی جابر بن عبداللہ (رض) کی روایت کے موافق ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 41 تا 52 اسرارومعارف ذکر اللہ کی تاکید : اے ایمان والو اللہ کا ذکر کثرت سے کرو اور صبح شام علی الدوام کرتے رہا کرو مناسب ہوگا کہ یہاں صاحب معارف القرآن کے مبارک الفاظ نقل کردیے جائیں۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا اللہ نے اپنے بندوں پر ذکر اللہ کے سوا کوئی ایسا فرض عائد نہیں کیا جس کی کوئی خاص حد مقرر نہ ہو نماز پانچ وقت کی اور ہر نماز کی رکعات متعین ہیں حج بھی خاص مقام پر خاصاعمال مقررہ کرنے کا نام ہے زکوۃ بھی سال میں ایک ہی مرتبہ فرض ہوئی مگر ذکر اللہ ایسی عبادت ہے کہ نہ اس کی کوئی حد اور تعداد متعین ہے نہ کوئی خاص وقت اور زمانہ مقرر ہے نہ اس کے لیے کوئی خاص ہیت قیام یا نشست مقرر ہے نہ اس کے لیے طاہر اور باوضو ہونا شرط ہے ہر وقت ہر حال میں ذکر بکثرت کرنے کا حکم ہے اس لیے اس کے ترک میں انسان کا کوئی عذر مسموع نہیں بجز اس کے کہ عقل و ھو اس ہی نہ رہیں بےہوش ہوجائیں اس کے علاوہ دوسری عبادات میں بیماری و مجبوری کے حالات میں انسان کو معذور قرار دے کر عبادت میں اختصار اور کمی یا معافی کی رخصتیں بھی دی ہیں مگر ذکر اللہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے کوئی شرط نہیں رکھی اس لیے اس کے ترک میں کوئی عذر مسموع نہیں۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تم پر مسلسل رحمت فرماتا ہے اور اللہ کے فرشتے تمہارے حق میں مسلسل دعا کرتے ہیں تاکہ تم ظلمت یعنی اللہ کی دوری سے نکل کر نور اور قرب الہی میں آسکو اور اللہ ایمان والوں پہ بہت زیادہ مہربان ہے یعنی اس کی رحمت مسلسل برستی ہے سمیٹنے کے لیے ذرا دوام چاہیے۔ اور جب ایک دوسرے سے ملیں گے یا اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے تو سارا عالم پریشان ہوگا مگر ان لوگوں کو خود رب جلیل بھی السلام علیکم فرمائیں گے اور یہ ایک دوسرے کو بھی سلام کہیں گے اور ان کے لیے اللہ نے بہت خوبصور بدلہ تیار رکھا ہوا ہے یعنی صرف ان کے پہنچنے کی دیر ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف : اے نبی ہم نے آپ کو گواہ بنا کر بھیجا ہے کہ میدان حشر میں صرف وہ عمل مقبول ہوگا جس پر آپ گواہ ہوں گے کہ یہ میں نے کرنے کا حکم دیا تھا اور آپ کو وہ وسعت نظر بخشی ہے کہ نیکی کے انجام کی بشارت اور برائی کے نتیجہ کا بھیانک چہرہ آپ دوسروں پہ بیان کریں اور آپ کی شان ہے کہ اللہ کی طرف دعوت دیں یعنی آپ کی سنت کے خلاف اگر دعوت ہوگی تو حق نہ ہوگی کہ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا منصب ہے اور آپ کو روشن سورج فرمایا جو روشنی بکھیرتا ہے۔ سراج منیر : مفسرین کرام کے مطابق جس طرح دنیا کا سارا نظام سورج کی روشنی اور تپش سے قائم ہے اور ہمیشہ قائم رہے گا مومنین کے قلوب آپ کے قلب اطہر سے قیامت تک روشنی پاتے رہیں گے تمام انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف زندہ ہی نہیں اس وقت بھی اور قیامت تک کے لیے رسول ہیں اور فیض رسالت کا سورج روشن بھی ہے اور روشنی بکھیر بھی رہا ہے جو مومنین کے قلوب حاصل کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے تاقیام قیامت۔ اور جو جتنی محبت قلبی سے سرفراز ہوگا اتنے ہی انوارات پاتا رہے گا۔ آپ مومنین کو جن کے قلوب روشن منور اور ذاکر ہیں یہ خوش خبری دیجیے کہ ان کے لیے اللہ کی طرف سے بہت بڑی اور عظیم و کبیر عزت و عظمت ہے۔ اور کفار کی باتوں کی کچھ پرواہ مت کیجیے۔ جو ایذا وہ پہنچانا چاہتے ہیں گستاخی کرکے پہنچا لینے دیجیے آپ اللہ پر بھروسہ رکھیے اور اللہ بہترین کارساز و وکیل ہے آپ کی طرف سے بھگت لے گا اور جہاں تک نکاح و طلاق کی بات ہے تو یہ زندگی کا حصہ ہے لہذا اگر تم لوگوں کو ایسی حالت میں طلاق دینے کی نوبت آئے کہ عورت سے نکاح کے بعد خلوت نہ ہوئی ہو تو ان پر کوئی عدت نہیں ۔ یعنی وہ تین حیض کا عرصہ جو طلاق کے بعد عورت کو خاوند کے گھر گزارنا اور خاوند کو اخراجات برداشت کرنا ہوتے ہیں کہ نسب کی تحقیق رہے یہاں اس کی ضرورت نہیں بلکہ انہیں کچھ نہ کچھ ضرور دے دو کم از کم وہ لباس جو ضروری استعمال ہوتا ہے کہ احسان رہے۔ متعہ : یہاں خلوت ثابت نہیں مگر کچھ بطور احسان دینے کو متعہ سے تعبیر فرمایا اور روافض نے اسے بدکاری کی اجرت بنا لیا۔ اور اچھے طریقے سے رخصت کردو کہ طلاق اچھی بات نہیں لیکن اگر بڑے فساد کو مٹانے کے لیے ضروری ہو تو پھر انداز ایسا ہو کہ نیا فساد نہ کھڑا کردے۔ اے نبی آپ کے لیے وہ بیویاں حلال ہیں جن کا آپ مہر اد اکر چکے ہیں یعنی جو آپ کے نکاح میں موجود ہیں کہ اس وقت آپ کے نکاح میں چار سے زیادہ خواتین تھیں جبکہ عام مومن چار سے زیادہ نہیں رکھ سکتا۔ دوسری خصوصیت کہ جو آپ کی ملکیت اور لونڈیاں ہیں ان میں خصوصیت یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملکیت پا لونڈی پھر کسی دوسرے پر حلال نہیں۔ یا اللہ نے فرمایا جو فئی ہے (وہ خادمہ یا لونڈی جو آپ کو کسی نے تحفہ ارسال کی ہو) وہ بھی خاص آپ کے لیے ہے آپ کے بعد کسی دوسرے پر ھلال نہ ہوگی۔ اور چچا پھوپھی ماموں یا خالہ زاد وہ خواتین جنہوں نے ہجرت کی ان سے آپ چاہیں تو نکاح فرما سکتے ہیں جو ہجرت نہیں کرسکیں ان سے آپ کو نکاح کرنے کی اجازت نہیں یہ آپ کی خصوصیت ہے اور وہ خاتون امت میں سے جو بغیر مہر کے آپ سے نکاح کرنا چاہے تو درست ہے اور کسی کا نکاح بغیر مہر کے نہ ہوگا بلکہ نکاح کرنے پر شرعی مہر واجب ہوجائے گا اور اللہ کو علم ہے جو اس نے سب پر عورتوں کے معاملہ میں مقرر کردیا اور جو حکم کنیزوں کے حق میں ویا اور آپ پر بھی کہ آپ کے لیے مشکلات اور تنگی کا باعث نہ بن سکے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے نیز یہ بھی آپ کی خصوصیت ہے کہ جس بیوی کو چاہیں قریب کریں یا کسی کو پیچھے رکھیں عام مومنین کے خلاف کہ ان کے لیے تمام بیویوں میں ہر طرح کے سلوک میں برابری شرط ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ آپ جس زوجہ پر کرم فرمائیں اسے دلی مسرت ہو اور وہ اپنا حق نہ سمجھے آپ کا احسان سمجھے اور انہیں کوئی دکھ نہ ہو بلکہ جسے آپ جو عطا کردیں سب کو خوشی ہو کہ اللہ تو دلوں کے بھید جانتا ہے یعنی اگر یہ سب ان کے حقوق ہوں تو بظاہر خاموش بھی رہیں گی تو دل میں بات آجائے گی جو فیض رسالت سے مانع بن جائے گی۔ لہذا اللہ نے آپ پر احسان بتا کر انہیں خوشی کا موقع بھی بخشا اور امتحان سے محفوظ بھی کردیا کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے علم والا ہے۔ اور اپ کی ازواج کو اللہ نے یہ عظمت بخشی ہے کہ آپ ان کو طلاق دے کر کوئی دوسری خاتون لانا چاہیں خواہ اس کا حسن آپ کو پسند بھی ہو تو اس کی اجازت نہیں سوائے آپ کی ملکیت باندیوں کے اور اللہ ہر شے پر محافظ اور نگہبان ہے۔ بارگاہ نبوی اور تعداد ازواج : اس کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں دوسری کتب میں اور مختصرا معارف القرآن میں دیکھی جاسکتی ہے صرف ایک بات عرض کی جاتی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نکاح پچیس برس کی عمر میں حضرت خدیجہ (رض) سے ہوا اور پچاس برس کی عمر تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی دوسرا نکاح نہیں فرمایا۔ ان کی وفات پر حضرت عائشہ (رض) سے ہوا اور اس کے بعد سب خواتین ریاست اسلامی کی فلاح اور قبائل کے ایمان کا باعث بنتی گئیں۔ جہاں تک باندیوں کا معاملہ ہے تو یہ اعزاز صرف اسلام کو حاصل ہے کہ مفتوحہ خواتین کو ایک وقت میں ایک مسلم رکھ سکتا ہے اور اس کی بھی کڑی شرائط اور ان کے حقوق ہیں جبکہ اعتراض کرنے والی اقوام کا کردار اس بارہ میں بہت بھیانک ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 41 تا 44 اذکروا : یاد کرو سبحوا : تسبیح کرو۔ پاکیزگی بیان کرو بکرۃ : صبح اصیل : شام یصلی : وہ رحمتیں بھیجتا ہے تحیت : دعا اجر کریم : بڑا عزت والا اجر تشریح : آیت نمبر 41 تا 44 نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نکاح حضرت زینب (رض) سے ہوتے ہی کفار و مشرکین اور منا فقین نے ہر طرف زبر دست ہنگامہ کھڑا کردیا۔ انہوں نے اپنی تیز زبانوں سے ا اس طرح پر پیگنڈہ کیا تا کہ اہل ایمان کے دلوں میں شک و شبہ پیدا ہوجائے ۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے ایمان والو ! کفار و مشرکین جس طرح اسلام اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کررہے ہیں تم پنے عمل سے اس کا جواب اس طرح پیش کرو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سب سے بڑا احسان اور کرم مان کر ان کا بےانتہا ادب و احترام کرو اور خوب کثرت سے اللہ کا ذکر کر کے اپنی زبانوں کو اللہ کی یاد سے ترو تازہ رکھو تا کہ اللہ کی رحمتیں بھی نازل ہوں اور فرشتے بھی تمہارے لئے دعائیں کرتے رہیں ۔ اس طرح تم نہ صرف دنیا میں کامیاب و بامراد ہو جائو گے بلکہ تمہاری زندگی کے اندھیرے دور ہو کر عشق و محبت کے چراغ روشن ہوتے چلے جائے گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہت مہربان اور کرم کرنے والا ہے ۔ اللہ کے ذکر کی کثرت سے یہ تو دنیا میں فائدہ ہوگا اور آخرت میں ان کو ایسی جنتوں میں داخل کیا جائے گا جہاں ہر طرف سلامتی اور محبت کی صدائیں سنائی دیں گی۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر سلامتی بھیجیں گے۔ فرشتے ان کا استقبال کرتے ہوئے ان کو سلام کریں گے اور مومن جب بھی آپس میں ملیں گے تو وہ ایک دوسرے کو سلام کرتے اور سلامتی بھیجتے رہیں گے اور ان کو جنت میں عزت و احترام کا مقام تیار ملے گا۔ قرآن کریم اور احادیث میں کثرت سے ذکر اللہ کرنے کی بڑی فضیلتیں آئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم پڑھنے ، کلمہ طیبہ کا ورد کرنے اور اس کی حمد ثنا سے زبانوں کو تروتازہ رکھنے کی تاکید فرمائی ہے۔ حدیث میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے تھے۔ چونکہ آپ ہر وقت اللہ کا ذکر فرمایا کرتے تھے اس لئے ” ذکر اللہ “ کے لئے کوئی خاص شرط نہیں ہے۔ آدمی پاک ہو یا نہ ہو ، صحت مند ہو یا بیمار دن ہو یا رات لیٹے، بیٹھے ، چلتے پھرتے ، صبح و شام اللہ کا ذکر کرتا رہے اور اس کی پاکیزگی بیان کرتا رہے ۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوں گی اور فرشتے بھی دعا کریں گے جس کی برکت سے علم و ہدایت کا نور نصب ہوجائے گا اور آخرت میں تو ساری رحمتیں اللہ کے نیک بندوں کے لئے مخصوص کردی جائیں گی۔ ایک دفعہ ایک صحابی (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسلام کے اعمال ، فرائض اور واجبات تو بہت ہیں مجھے آپ کوئی ایسی بات بتا دیجئے جس کو میں آسانی سے اختیار کرسکوں ۔ آپ نے فرمایا کہ تیری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے ترو تازہ رہنی چاہیے۔ (مسند احمد۔ ابن کثیر)

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے امّتِ محمدیہ کو یہ اعزاز بخشا ہے کہ اس کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسا عظیم الشّان، عدیم المرتبت رحمت عالم اور ختم المرسلین نبی عطا فرمایا جس پر امت کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ شکر کا تقاضا ہے ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کیا جائے۔ ذکر ایسی عبادت ہے جس کے بارے میں حکم ہوا ہے کہ اسے کثرت کے ساتھ کیا کرو۔ یہاں ذکر کے دو مخصوص اوقات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ صبح اور شام اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرو۔ کیونکہ صبح و شام سے ہی انسان کی زندگی بنتی ہے۔ ہر انسان ہر صبح اپنی زندگی کا آغاز کرتا ہے اور شام کو اس کی دن بھر کی سرگرمیوں کا اختتام ہوتا ہے اس لحاظ سے دونوں اوقات بڑے اہم ہیں۔ ان اوقات میں ” اللہ “ کے ذکر کی خاص اہمیت اور فضیلت ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح و شام خاص طور پر اذکار کیا کرتے تھے۔ حدیث کی مقدس دستاویزات میں آپ کے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اذکار موجود ہیں جن کو یاد کرنا اور پڑھنا چاہیے یہاں صرف ذکر کی فضیلت کے بارے میں آپ کے تین ارشادات لکھے جاتے ہیں۔ (أَللّٰھُمَّ أَعِنِّيْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الصلاۃ ] ” الٰہی ! اپنے ذکر، شکر اور بہترین طریقے سے عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔ “ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی فضیلت : (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی أَنَا مَعَ عَبْدِيْ حَیْثُمَا ذَکَرَنِيْ وَتَحَرَّکَتْ بِيْ شَفَتَاہُ ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ لاتحرک بہ لسانک الخ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں ‘ وہ جہاں بھی میرا ذکر کرے اور اس کے ہونٹ میرے ذکر میں حرکت کریں۔ “ (عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلُ الَّذِیْ ےَذْکُرُ رَبَّہُ وَالَّذِیْ لَا ےَذْکُرُ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَےِّتِ )[ رواہ البخاری : باب فَضْلِ ذِکْرِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ ] ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بیان کرتے ہیں کہ اپنے پروردگار کا ذکر کرنے والے کی مثال زندہ شخص کی ہے اور نہ ذکر کرنے والے کی مثال مردہ کی ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت کے ساتھ کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ کا ذکربالخصوص صبح و شام کرنا لازم ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یایھا الذین امنوا ۔۔۔۔۔۔ لھم اجرا کریما (41 – 44) اللہ کا ذکر انسان کو اللہ کے ساتھ مربوط رکھتا ہے۔ اور انسان کا دل اللہ کی فکر اور سوچ میں رہتا ہے کہ اللہ کی ذات ہی سب کچھ کرنے والی ہے۔ صرف زبان ہی سے اللہ اللہ کرنا ذکر نہیں ہے۔ نماز قائم کرنا بھی ذکر الٰہی کی ایک شکل ہے بلکہ خصوصی قرآن و سنت میں ذکر کا مطلب قریب قریب نماز ہی ہے۔ امام ابو داؤد اور ابن ماجہ نے اعمش کی روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے اغر ، ابو سعید اور ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب کسی شخص نے اپنی بیوی کو رات کے وقت جگایا اور دونوں نے دو رکعت نماز پڑھی تو دونوں اس پوری رات میں ذاکرین اور ذاکرات میں شمار ہوں گے “۔ اگرچہ ذکر الٰہی نماز سے عام ہے لیکن ہر وہ صورت جس میں بندہ خدا کو یاد کرے ، وہ ذکر الٰہی ہے۔ جس میں بندے کا دل رب سے مربوط ہو ، چاہے زبان سے وہ ادا کرے یا نہ کرے۔ اصل بات یہ ہے کہ قلبی اور روحانی لحاظ سے انسان اللہ سے مربوط ہوجائے۔ جب انسان اللہ سے غافل ہو ، تو اس کا دل خالی ہوتا ہے ، وہ لاپرواہ ہوتا ہے اور وہ حیران و پریشان ہوتا ہے۔ جب وہ اللہ تک پہنچ جاتا ہے اور اللہ کو یاد کرتا ہے تو وہ مانوس اور پرسکون ہوجاتا ہے۔ اب اس کا قلب بھرا ہوا ہوتا ہے۔ وہ سنجیدہ بن جاتا ہے۔ اسے قرار و سکون مل جاتا ہے۔ اسے زندگی کی راہ معلوم ہوجاتی ہے ، وہ اپنے منہاج سے باخبر ہوتا ہے۔ اسے پتہ ہوتا ہے کہ وہ کہاں ہے ، اسے کہاں جانا ہے اور اس کی راہ کون سی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید ذکر الٰہی پر بہت زور دیتا ہے۔ بہت ہی تاکید کی جاتی ہے کہ اللہ کو یاد کرو ، چناچہ قرآن مجید ذکر الٰہی کو انسان کے مصروف ترین اوقات اور حالات سے مربوط کرتا ہے تاکہ کسی بھی مصروفیت میں انسان ذکر الٰہی سے غافل نہ ہوجائے ۔ اس کے وہ اوقات اور حالات بھی وسیلہ یاد الٰہی بن جائیں اور یوں انسان حالات اور اوقات کے حوالے سے بھی اللہ سے مربوط ہوجائے۔ وسبحوہ بکرۃ واصیلا (33: 42) ” صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو “۔ صبح و شام کے اوقات میں ایک خاصیت ہے۔ وہ یہ کہ ان اوقات میں انسانی قلب اللہ کی طرف مائل ہوتا ہے ۔ کیونکہ ان اوقات میں انسان کے حالات اور دن اور رات کے اصول بدلتے ہیں جبکہ اللہ لازوال ہے اور اس کے سوا ہر چیز تغیر پذیر اور زوال پذیر ہے۔ اس کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ جس ذات کو تم یاد کرتے ہو ، اور جس کی تسبیح کرتے ہو ، وہ لازوال ہونے کے ساتھ تم پر بہت ہی رحیم و کریم ہے اور وہی ہے جو تمہاری تخلیق کرتا ہے۔ تمہاری بہتری چاہتا ہے ، حالانکہ وہ غنی بادشاہ ہے اور تم محتاج ہو۔ اس کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ تو محض اس کا فضل و کرم ہے۔ ھو الذی یصلی ۔۔۔۔۔ بالمومنین رحیما (33: 43) ” وہی ہے جو تم پر رحمت فرماتا ہے اور اس کے ملائکہ تمہارے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں تاکہ وہ تمہیں تاریکیوں سے روشنی میں نکال لائے اور وہ مومنین پر بہت مہربان ہے “۔ اللہ بہت بلند ہے ، اس کی رحمتیں بہت زیادہ ہیں۔ اس کا فضل و کرم بہت ہی عظیم ہے۔ اللہ اپنے ان ضعیف اور محتاج بندوں پر رحمت فرماتا ہے جو کمزور اور بےقرار ہوتے ہیں ، ان کو نصیحت کرتا ہے ، ان پر رحم و کرم کرت ا ہے۔ اس کے فرشتے انسانوں کے لیے دعا کرتے ہیں اور ان کو بھلائی سے یاد کرتے ہیں۔ یوں پھر پوری کائنات بھی بندوں کر یاد کرتی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” اللہ فرماتے ہیں جس نے مجھے یاد کیا اپنے دل میں ، میں اسے دل میں یاد کرتا ہوں۔ جس نے مجھے لوگوں میں یاد کیا میں اسے ان سے اچھے لوگوں میں یاد کرتا ہوں “۔ یہ ایک عظیم قسمت ہے جس کا تصور انسان کے لئے ممکن نہیں کہ انسان اور یہ زمین اس کائنات کا ایک حقیر ذرہ ہیں اور یہ افلاک اور یہ پوری کائنات اللہ کی لاتعداد مخلوقات و املاک کا حقیر حصہ ہیں جو کن فیکون سے پیدا ہوئے۔ ھو الذی یصلی ۔۔۔۔۔ الی النور (33: 43) ” وہی ہے جو تم پر رحمت فرماتا ہے اور اس کے ملائکہ تمہارے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں تاکہ وہ تمہیں تاریکیوں سے روشنی کی طرف لے آئیں۔ اللہ کا نور ایک ہے ، وہ ہر کسی کے شامل حال ہے اور عام ہے۔ اللہ کے نور کے سوا جس قدر افکار و خیالات بھی ہیں ، وہ ظلمات ہیں۔ جب بھی لوگ اللہ کے نور سے نکلیں گے وہ تاریکیوں میں ہوں گے۔ جزوی تاریکی ہوگی یا کلی تاریکی ہوگی۔ اور یہ تاریکی صرف ایک ہی ذریعہ سے دور ہو سکتی ہے کہ کسی کے دل میں نور آفتاب طلوع ہوجائے۔ اس کی روح بدل جائے ، وہ فطرت کی طرف لوٹ آئیں۔ یہی کائنات کی فطرت ہے اور یہی رحمت الٰہی ، دعائے ملائکہ اور یہی وہ راہ ہے جس کے ذریعے انسان ظلمات سے نکل آتا ہے لیکن جب اس کا دل کھل جائے۔ وکان بالمومنین رحیما (33: 43) ” اللہ مومنوں پر بہت مہربان ہے “۔ یہ تو ہے دنیا میں اہل ایمان کا معاملہ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ دنیا دار العمل ہے۔ رہی آخرت جو دار الجزاء ہے تو وہاں بھی اللہ کا فضل و کرم ان کے شامل حال رہے گا اور اللہ کی رحمت وہاں بھی ان کو ڈھانپے ہوئے ہوگی۔ وہ ان کے لیے بہت ہی اعزاز ہوگا ، بہت ہی خصوصی کرم ہوگا اور اجر عظیم ان کے لیے وہاں تیار ہے۔ تحیتھم یوم یلقونہ سلم واعدلھم اجرا کریما (33: 44) ” جس روز وہ اس سے ملیں گے ، ان کا استقبال سلام سے ہوگا اور ان کے لیے اللہ نے باعزت اجر تیار کر رکھا ہے “۔ ان کے لئے ہر خوف و خطر سے سلامتی ہوگی۔ ہر تھکاوٹ سے وہ دور ہوں گے۔ ان کے لئے کوئی مشکل نہ ہوگی۔ اللہ کی طرف سے مبارک و سلامت کے پیغامات فرشتوں نے اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ یہ فرشتے ان کے پاس ہر طرف سے آتے ہوں گے اور اللہ کی جانب سے سلام پہنچا رہے ہوں گے۔ یہ سلام ان باعزت اجر و معاوضات کے علاوہ ہوگا جو ابھی سے تیار ہیں۔ یہ ہے وہ رب کریم جو لوگوں کے لیے قانون بناتا ہے جو ان کے لیے راہ پسند کرتا ہے۔ لہٰذا کون بدبخت ہوگا جو ایسے رب کے اختیار کردہ نظام سے منہ موڑے گا۔ رہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو ان لوگوں تک اللہ کے پسند کردہ قوانین اور ضوابط پہنچاتے ہیں اور کود اپنی سنت اور اپنے اسوہ اور نمونہ کے ذریعے وہ راستے متعین فرماتے ہیں تو یہاں ان کے بارے میں بھی بتا دیا جاتا ہے کہ ان کے فرائض کیا ہیں۔ آپ کس مشن پر مامور ہیں اور ان کے ذریعے اس دنیا میں اللہ مومنین پر کس قدر فضل کر رہے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ایمان والوں کو ذکر اللہ کی کثرت کرنے کا حکم اور اس بات کی بشارت کہ اللہ اور اس کے فرشتے مؤمنین پر رحمت بھیجتے ہیں یہ چار آیات کا ترجمہ ہے پہلی اور دوسری آیت میں اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خوب زیادہ ذکر کریں اور صبح و شام اس کی تسبیح بیان کریں۔ مفسرین نے فرمایا کہ صبح و شام تسبیح بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تمام اوقات میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ صبح سے دن کی اور شام سے رات کی ابتداء ہوتی ہے اس لیے خصوصیت کے لیے لیل و نہار کے ابتدائی اوقات میں ذکر کرنے کا خصوصی حکم دیا تاکہ لیل و نہار کے باقی اوقات میں بھی ذکر کے لیے ذہن حاضر رہے اور قلب و لسان ذکر اللہ میں مشغول رہیں۔ ذکر اللہ کے فضائل : درحقیقت ذکر اللہ بہت بڑی عبادت ہے اور ہر وقت اس میں مشغول رہنے کی ضرورت ہے سورة نساء میں فرمایا : (فَاِذَاقَضَیْتُمُ الصَّلٰوۃَ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ قِیٰمًاوَّ قُعُوْدًا) سو جب تم نماز ادا کر چکو تو اللہ کو یاد کرو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر یعنی لیٹے ہوئے، انسان کی یہی تین حالتیں ہیں اور ان تینوں حالتوں میں اللہ کا ذکر کرنے کا حکم دیا ہے۔ درحقیقت ذکر ہی اس عالم کی جان ہے اور اس کے بقاء کا ذریعہ ہے۔ صحیح مسلم جلد نمبر ١: ص ٢٤ میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ قیامت قائم نہ ہوگی جب تک زمین میں اللہ اللہ کیا جاتا رہے گا۔ دوسری عبادتوں کی روح بھی اللہ کا ذکر ہی ہے، سورة طٰہٰ میں فرمایا ہے : (وَاَقِمِ الصَّلوٰۃَ لِذِکْرِیْ ) نماز کو میری یاد کے لیے قائم کرو۔ ذکر زبان سے بھی ہوتا ہے اور قلب سے بھی اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان اور چین و سکون ملتا ہے جیسا کہ سورة رعد میں فرمایا (اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَءِنُّ الْقُلُوْبُ ) خبر دار اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا (مَثَلُ الَّذِیْ یَذْکُرُ رَبَّہٗ وَالَّذِیْ لاَ یَذْکُرُ کَمَثَلِ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ ) مثال اس شخص کی جو اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور جو یاد نہیں کرتا زندہ اور مردہ کی سی مثال ہے۔ (رواہ البخاری) معلوم ہوا کہ کھاتے پیتے رہنا اور دنیاوی مشاغل میں زندگی گزار لینا یہ کوئی زندگی نہیں ہے، زندہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی یاد میں لگے رہتے ہیں جہاں تک ممکن ہولیٹے بیٹھے اور کھڑے ہوئے اللہ کو یاد کرتے رہیں اور زبان کو ذکر اللہ میں لگائے رہیں۔ ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ جنت والوں کو کسی بھی چیز کی حسرت نہ ہوگی سوائے اس ایک گھڑی کے جو دنیا میں اللہ کی یاد کے بغیر گذر گئی تھی۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہ چند لوگ کسی جگہ بیٹھے انہوں نے اپنی مجلس میں اللہ کا ذکر نہ کیا اور اپنے نبی پر درود نہ بھیجا تو یہ مجلس ان کے لیے نقصان کا سبب ہوگی، پھر اگر اللہ چاہے تو ان کو عذاب دے اور اگر چاہے تو ان کی مغفرت فرما دے، اور اگر کوئی شخص کسی جگہ لیٹا اور اس نے لیٹنے میں اللہ کو یاد نہ کیا تو یہ لیٹنا اس کے لیے نقصان کا سبب ہوگا اور جو شخص کسی جگہ چلا اور اس چلنے میں اس نے اللہ کو یاد نہ کیا تو اللہ کی طرف سے اس کا یہ چلنا نقصان کا باعث ہوگا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جو لوگ کسی جگہ بیٹھے جس میں انہوں نے اللہ کو یاد نہ کیا اور اپنے نبی پر درود نہ بھیجا تو قیامت کے دن ان کا یہ بیٹھنا حسرت اور افسوس کا باعث ہوگا اگرچہ ثواب کے لیے جنت میں داخل ہوجائیں۔ (الترغیب و الترہیب جلد ٢ ص : ٤١٠، ٤٠٩) ہوشیار بندے وہی ہیں جو اپنی عمر کی ایک گھڑی بھی ضائع نہیں جانے دیتے، دنیا میں جینے کے لیے جو تھوڑے بہت شغل کی ضرورت ہے، اس میں تھوڑا بہت وقت لگایا اور اس میں بھی اللہ کا ذکر کرتے رہے اس کے بعد سارے وقت کو اللہ ہی کی یاد میں تلاوت میں تسبیح میں تہلیل میں، تحمید میں، تکبیر میں، درود شریف میں لگاتے رہتے ہیں لایعنی باتوں میں مشغول ہو کر اپنا وقت ضائع نہیں کرتے اور اپنے دل کا ناس نہیں کھوتے۔ حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے ذکر کے علاوہ زیادہ نہ بولا کرو کیونکہ اللہ کے ذکر کے علاوہ زیادہ بولنا قساوت قلب یعنی دل کی سختی کا سبب ہے اور بلاشبہ لوگوں میں اللہ سے سب سے زیادہ دور وہی شخص ہے جس کا دل سخت ہو۔ (رواہ الترمذی) ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ آدمی کا ہر بول اس کے لیے وبال ہے سوائے اس بات کے کہ بھلائی کا حکم دے یا کسی برائی سے روکے یا اللہ کا ذکر کرے۔ (رواہ الترمذی) حضرت عبد اللہ بن بسر (رض) سے روایت ہے کہ ایک اعرابی یعنی دیہات کا رہنے والا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے سوال کیا کہ لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کی عمر لمبی ہو اور اعمال اچھے ہوں، اس نے عرض کیا کہ کون سا عمل افضل ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ کہ تو دنیا سے اس حال میں رخصت ہو کہ تیری زبان اللہ کی یاد میں تر ہو۔ (رواہ الترمذی) سورۂ طہٰ میں فرمایا ( اَقِمِ الصَّلوٰۃَ لِذِکْرِیْ ) (نماز قائم کر میرے ذکر کے لیے) نماز سے پہلے اذان بھی ذکر ہے اور اقامت بھی، اذان کا جواب بھی، وضو کی دعا بھی، فرضوں سے پہلے سنتیں بھی، پھر تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک نمازی برابر ذکر میں مشغول رہتا ہے، کبھی اللہ کی حمد وثناء میں مشغول رہتا ہے، کبھی تکبیر کہتا ہے کبھی قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے، کبھی اللہ کی حمد بیان کرتا ہے، کبھی تنزیہ کلمات ادا کرتا ہے اور اپنے رب کو ہر طرح کے عیب و نقص سے پاک بتاتا ہے اور اس کے بارے میں اپنا عقیدہ ظاہر کرتا ہے اور کبھی دعا مانگتا ہے نمازی کی زبان بھی اللہ کی یاد میں لگی ہوئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دل بھی اللہ کے ذکر میں مشغول ہے، قلب حاضر ہے، اعضاء متواضع ہیں۔ کبھی قیام میں قرأت پڑھ رہا ہے، کبھی رکوع میں تسبیح ہے، کبھی قومہ میں تحمید ہے، کبھی سجدہ میں گیا، جبین نیاز زمین پر رکھ دی اور رب تعالیٰ شانہٗ کی تسبیح میں مشغول ہوگیا، بندہ کے پاس اپنا عجز و نیاز اور تذلل اور عبودیت کا عملی اقرار ظاہر کرنے کے لیے اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ اشرف الاعضاء یعنی اپنے سر کو ارذل العناصر یعنی مٹی پر رکھ دیا اور اپنے رب کریم کے حضور اپنی ذات کو بالکل ذلیل کرکے پیش کردیا۔ پھر نماز کے بعد سنن و نوافل بھی ذکر ہیں اور نماز کے بعد تسبیحات بھی، درحقیقت پانچوں نمازیں اللہ تعالیٰ کی یاد کی طرف کھینچتی ہیں، مومن کی زندگی سراپا ذکر ہے۔ نماز جمعہ سے فارغ ہو کر بازار میں جانے کی اجازت دی اور کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کا حکم فرمایا، سورة جمعہ میں ارشاد فرمایا : (فَاِِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ) (پھر جب نماز پوری کرچکو تو زمین پر چلو پھرو، اور اللہ کے فضل سے تلاش کرو اور اللہ کو بکثرت یاد کرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ ) اللہ تعالیٰ ذاکرین کو یاد فرماتا ہے : سورۂ بقرہ میں فرمایا (فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ ) (سو تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا) دیکھو کتنی بڑی سعادت ہے کہ فرش خاکی کا رہنے والا جس کے اندر خون وغیرہ بھرا ہوا ہے اسے صاحب عرش اپنے دربار میں یاد فرمائیں۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں اپنے بندہ کے ساتھ ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے اور میری یاد میں اس کے ہونٹ ہلتے ہیں۔ (رواہ البخاری) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں اپنے بندہ کے گمان کے ساتھ ہوں کہ وہ جب چاہے مجھے یاد کرے سو اگر وہ مجھے تنہائی میں یاد کرتا ہے تو میں اسے تنہا یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے کسی جماعت میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اس جماعت میں یاد کرتا ہوں جو اس جماعت سے بہتر ہوتی ہے۔ ١ ؂ جس میں اس نے مجھے یاد کیا۔ (رواہ البخاری) حافظ ابن کثیر (رض) نے حضرت ابن عباس سے کیسی عمدہ بات نقل فرمائی ہے، انہوں نے فرمایا : (ان اللّٰہ تعالیٰ لم یفرض علیٰ عبادہ فریضۃ الاجعل لھا حدّا معلوما ثم وعذر اھلھا فی حال العذر غیر الذکر فانّ اللّٰہ تعالیٰ لم یجعل لہ حدا ینتھی الیہ ولم یعذر احدا فی ترکہ الا مغلوبا علی ترکہ فقال (فَاذْکُرُوا اللّٰہَ قِیٰمًاوَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِکُمْ ) باللیل والنھار فی البر والبحر و فی السفرو الحضر، والغنی والفقر، والسقم والصحۃ، والسرو العلانیۃ وعلی کل حال) مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر جو عبادات فرض فرمائی ہیں ان کی حد مقرر ہے اور اصحاب عذر کو (معافی یا تخفیف کی صورت میں) معذور قرار دیا ہے مگر ذکر اللہ ایسی عبادت ہے کہ اس کی نہ کوئی حد اور تعداد متعین ہے اور نہ کوئی خاص وقت اور زمانہ مقرر ہے، نہ اس کے لیے کوئی خاص ہیئت قیام یا نشست کی مقرر فرمائی ہے نہ اس کے لیے طاہر اور باوضو ہونا شرط ہے، ہر وقت اور ہر حال میں بکثرت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کا حکم ہے، سفر ہو یا حضر، تندرستی ہو یا بیماری، خشکی میں ہو یا دریا میں، رات ہو یا دن ہر حال میں ذکر اللہ کرتے رہیں، اسی لیے اس کے ترک میں انسان کا کوئی عذر ١ ؂ قال الطیبی، المراد ملأمن الملئکۃ المقربین ارواح المرسلین فلا دلالۃ علی کون الملئکۃ افضل والا حسن ان یقال الخیریۃ من جھت النزاھۃ والتقدس والعلو وھی لا تنافی افضلیلۃ البشر من جھۃ کثرۃ الثواب۔ (کذا فی حاشیۃ المشکوٰۃ عن المعارف) علامہ طیبی (رض) فرماتے ہیں اس سے مراد مقرب فرشتوں اور بھیجی ہوئی روحوں کی جماعت ہے۔ یہ بات فرشتوں کے افضل و احسن ہونے کی لیل نہیں ہے کہ کہا جائے فرشتے اپنی بےخواہشی اور معصومیت و بلندی کی وجہ سے افضل و بہتر ہیں کیونکہ انسان کے کثرت ثواب کی وجہ سے یہ چیزیں بشریت کو کم قیمت کرنے والی نہیں ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

43:۔ یا ایہا الذی اٰمنوا الخ، یہ مومنین سے پانچواں خطاب ہے۔ اے ایمان والو ! پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسم جاہلیت کو توڑنے اور اپنے متبنی کی مطلقہ سے نکاح کرلینے کے بارے میں اگر تمہارے دل میں کوئی شک یا بدگمانی پیدا ہوئی تو اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کرو۔ اور صبح و شام اس کی تسبیح و تقدیس کرو تاکہ تمہارا یہ قصور معاف ہوجائے ذکر کثیر میں زبانی ذکر کے علاوہ ہر نیکی وطاعت بھی داخل ہے اور یہ کہ کسی حال میں اس سے غافل نہ رہو کل طاعۃ و کل خیر من جملۃ الذکر (کشاف) ۔ قال ابن عباس الذکر الکثیر ان لا ینسی رجل شانہ و روی ذلک عن مجاہد ایضا (روح ج 22 ص 42) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

41۔ اے دعوت ایمانی کو قبول کرنے والو اللہ تعالیٰ کو بکثرت یاد کیا کرو۔