Surat ul Ahzaab

Surah: 33

Verse: 48

سورة الأحزاب

وَ لَا تُطِعِ الۡکٰفِرِیۡنَ وَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ دَعۡ اَذٰىہُمۡ وَ تَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیۡلًا ﴿۴۸﴾

And do not obey the disbelievers and the hypocrites but do not harm them, and rely upon Allah . And sufficient is Allah as Disposer of affairs.

اور کافروں اور منافقوں کا کہنا نہ ما نیے!اور جو ایذاء ( ان کی طرف سے پہنچے ) اس کا خیال بھی نہ کیجئے اللہ پر بھروسہ کیئے رہیں کافی ہے اللہ تعالٰی کام بنانے والا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلاَ تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ وَدَعْ أَذَاهُمْ ... And obey not the disbelievers and the hypocrites, and harm them not. means, `do not obey them and do not pay attention to what they say.' وَدَعْ أَذَاهُمْ (and harm them not), means, `overlook and ignore them, for their matter rests entirely with Allah and He is sufficient for them (to deal with them).' Allah says: ... وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيلً And put your trust in Allah, and sufficient is Allah as a Trustee.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٧٦] یعنی جن لوگوں نے طعن وتشنیع سے یہ طوفان بدتمیزی اٹھا رکھا ہے ان کی نہ پروا کیجئے اور نہ ان سے بدلہ لینے کی فکر کیجئے۔ ورنہ یہ لوگ آپ کی منزل کھوٹی کردیں گے۔ آپ پوری توجہ سے اپنا کام کرتے جائیے اور انھیں خائب و خاسر بنانے کے لئے آپ کی طرف سے اللہ ہی کافی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَا تُطِعِ الْكٰفِرِيْنَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ : یعنی کفار و منافقین جو آپ کو مداہنت کے لیے کہتے ہیں، لوگوں کے کفر و شرک پر خاموش رہنے کے لیے اصرار کرتے ہیں اور جاہلیت کی رسوم توڑنے سے روکتے ہیں، ان کا کہنا مت مان، بلکہ دعوت حق پر استقامت اختیار کر۔ اس سورت کے شروع میں یہی حکم دیا تھا، یعنی : (يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَلَا تُطِـعِ الْكٰفِرِيْنَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ ) اب تاکید کے لیے اسے دوبارہ ذکر فرمایا ہے۔ مزید دیکھیے سورة قلم (٨ تا ١٥) اور شوریٰ (١٥) ۔ وَدَعْ اَذٰىهُمْ : یعنی دعوت دین کی وجہ سے وہ آپ کو جو تکلیف پہنچاتے ہیں اس کی پروا مت کریں، جیسا کہ فرمایا : (لَتُبْلَوُنَّ فِيْٓ اَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ ۣوَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْٓا اَذًى كَثِيْرًا ۭ وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ ) [ آل عمران : ١٨٦ ] ” یقیناً تم اپنے مالوں اور اپنی جانوں میں ضرور آزمائے جاؤ گے اور یقیناً تم ان لوگوں سے جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور ان لوگوں سے جنھوں نے شرک کیا، ضرور بہت سی ایذا سنو گے اور اگر تم صبر کرو اور متقی بنو تو بلاشبہ یہ ہمت کے کاموں سے ہے۔ “ وَتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ ۔۔ : یعنی آپ اپنے سب کام اللہ کے سپرد کردیں، کیونکہ جو کام اللہ کے سپرد کردیا جائے، وہ اس کے لیے کافی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا تُطِعِ الْكٰفِرِيْنَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ وَدَعْ اَذٰىہُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۝ ٠ ۭ وَكَفٰى بِاللہِ وَكِيْلًا۝ ٤٨ طوع الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» . قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً ) ( ط و ع ) الطوع کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ نِّفَاقُ ، وهو الدّخولُ في الشَّرْعِ من بابٍ والخروجُ عنه من بابٍ ، وعلی ذلک نبَّه بقوله : إِنَّ الْمُنافِقِينَ هُمُ الْفاسِقُونَ [ التوبة/ 67] أي : الخارجون من الشَّرْعِ ، وجعل اللَّهُ المنافقین شرّاً من الکافرین . فقال : إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] ونَيْفَقُ السَّرَاوِيلِ معروفٌ نا فقاء الیربوع ہے یعنی جنگلی چوہے کا بل جس کے دود ھا نے ہوں نافق الیر بوع ونفق جنگی چوہیا اپنے مل کے دہانے سے داخل ہو کر دوسرے سے نکل گئی اور اسی سے نفاق ہے جس کے معنی شریعت میں دو رخی اختیار کرنے ( یعنی شریعت میں ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے نکل جانا کے ہیں چناچہ اسی معنی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَالنَّارِ [ النساء/ 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجہ میں ہوں گے ۔ نیفق السراویل پا جامے کا نیفہ أذي الأذى: ما يصل إلى الحیوان من الضرر إمّا في نفسه أو جسمه أو تبعاته دنیویاً کان أو أخرویاً ، قال تعالی: لا تُبْطِلُوا صَدَقاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذى [ البقرة/ 264] ، قوله تعالی: فَآذُوهُما [ النساء/ 16] إشارة إلى الضرب، ونحو ذلک في سورة التوبة : وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ : هُوَ أُذُنٌ [ التوبة/ 61] ، وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة/ 61] ، ولا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسی [ الأحزاب/ 69] ، وَأُوذُوا حَتَّى أَتاهُمْ نَصْرُنا [ الأنعام/ 34] ، وقال : لِمَ تُؤْذُونَنِي [ الصف/ 5] ، وقوله : يَسْئَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ : هُوَ أَذىً [ البقرة/ 222] ( ا ذ ی ) الاذیٰ ۔ ہرا س ضرر کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کو پہنچتا ہے وہ ضرر جسمانی ہو یا نفسانی یا اس کے متعلقات سے ہو اور پھر وہ ضرر دینوی ہو یا اخروی چناچہ قرآن میں ہے : ۔ { لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى } ( سورة البقرة 264) اپنے صدقات ( و خیرات ) کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر برباد نہ کرو ۔ اور آیت کریمہ ۔ { فَآذُوهُمَا } ( سورة النساء 16) میں مار پٹائی ( سزا ) کی طرف اشارہ ہے اسی طرح سورة تو بہ میں فرمایا ۔ { وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ } ( سورة التوبة 61) اور ان میں بعض ایسے ہیں جو خدا کے پیغمبر کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص نرا کان ہے ۔ { وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة التوبة 61) اور جو لوگ رسول خدا کو رنج پہنچاتے ہیں ان کے لئے عذاب الیم ( تیار ) ہے ۔ { لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى } ( سورة الأحزاب 69) تم ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو تکلیف دی ( عیب لگا کر ) رنج پہنچایا ۔ { وَأُوذُوا حَتَّى أَتَاهُمْ نَصْرُنَا } ( سورة الأَنعام 34) اور ایذا ( پر صبر کرتے رہے ) یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد پہنچتی رہی ۔ { لِمَ تُؤْذُونَنِي } ( سورة الصف 5) تم مجھے کیوں ایذا دیتے ہو۔ اور آیت کریمہ : ۔ { وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ } ( سورة البقرة 222) میں حیض ( کے دنوں میں عورت سے جماع کرنے ) کو اذی کہنا یا تو از روئے شریعت ہے یا پھر بلحاظ علم طب کے جیسا کہ اس فن کے ماہرین بیان کرتے ہیں ۔ اذیتہ ( افعال ) ایذاء و اذیۃ و اذی کسی کو تکلیف دینا ۔ الاذی ۔ موج بحر جو بحری مسافروں کیلئے تکلیف دہ ہو ۔ وكل والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال : تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] ( و ک ل) التوکل ( تفعل ) اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔ كفى الكِفَايَةُ : ما فيه سدّ الخلّة وبلوغ المراد في الأمر . قال تعالی: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] ، إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] . وقوله : وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] قيل : معناه : كفى اللہ شهيدا، والباء زائدة . وقیل : معناه : اكْتَفِ بالله شهيدا «1» ، والکُفْيَةُ من القوت : ما فيه كِفَايَةٌ ، والجمع : كُفًى، ويقال : كَافِيكَ فلان من رجل، کقولک : حسبک من رجل . ( ک ف ی ) الکفایۃ وہ چیز جس سے ضرورت پوری اور مراد حاصل ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] اور خدا مومنوں کے لئے جنگ کی ضرور یات کے سلسلہ میں کافی ہوا ۔ إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچا نے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے میں بعض نے کہا ہے کہ باز زائد ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی گواہ ہونے کے لئے کافی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ با اصلی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ گواہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ہی اکتفاء کرو الکفیۃ من القرت غذا جو گذارہ کے لئے کافی ہو ۔ ج کفی محاورہ ہے ۔ کافیک فلان من رجل یعنی فلاں شخص تمہارے لئے کافی ہے اور یہ حسبک من رجل کے محاورہ کے ہم معنی ہے ۔ وكيل التَّوْكِيلُ : أن تعتمد علی غيرک وتجعله نائبا عنك، والوَكِيلُ فعیلٌ بمعنی المفعول . قال تعالی: وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء/ 81] أي : اکتف به أن يتولّى أمرك، ( و ک ل) التوکیل کے معنی کسی پر اعتماد کر کے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں اور وکیل فعیل بمعنی مفعول کے وزن پر ہے ۔ قرآن میں : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء/ 81] اور خدا ہی کافی کار ساز ہے ۔ یعنی اپنے تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اب اللہ تعالیٰ پھر سورت کے ابتدائی مضمون کو دہراتا ہے کہ مکہ کے کافروں اور مدینہ منورہ کے منافقین کا کہنا نہ مانیے اور ان کو قتل نہ کیجیے اور اللہ پر بھروسا رکھیے۔ اس نے جو آپ کی مدد فرمانے یا یہ کہ حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے وہ اس میں کافی کارساز ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٨ { وَلَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَدَعْ اَذٰٹہُمْ وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ } ” اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کافروں اور منافقوں کی باتوں کا دھیان نہ کریں اور ان کی ایذا رسانی کو نظر انداز کردیں اور اللہ پر توکل ّکریں ۔ “ { وَکَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلًا } ” اور اللہ کافی ہے (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے) مددگار کے طور پر۔ “ یہ لوگ جو چاہیں منصوبے بنا لیں اور جس قدر چاہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف کوششیں کرلیں ‘ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کچھ نہیں بگاڑسکیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(33:48) لا تطع فعل نہی۔ واحد مذکر حاضر۔ تو اطاعت نہ کر، تو کہنا نہ مان۔ اطاعۃ مصدر ۔ دع۔ فعل امر واحد حاضر۔ تو چھوڑ دے۔ ودع مصدر۔ (مثال واوی) ۔ اذلہم۔ مضاف مضاف الیہ۔ ان کا ستانا۔ ان کی ضرر رسانی۔ اذی ہر ضرر یا ایذا جو کسی جاندار کی روح یا جسم کو پہنچے خواہ وہ ضرر دنیوی ہو یا اخروی۔ قرآن مجید میں ہے لا تبطلوا صدقتکم بالمن والاذی (2:264) اپنے صدقوں کو احسان (جتا کر) اور اذیت (پہنچا کر) باطل نہ کرو۔ کفی۔ ماضی واحد مذکر غائب (باب ضرب) کفایۃ مصدر۔ وہ کافی ہے۔ نیز ملاحظہ ہو (33:39) مذکورہ بالا۔ وکیلا۔ وکل سے صفت مشبہ ہے منصوب بوجہ تمیز کے ہے۔ وکفی باللہ وکیلا اور اللہ کافی ہے اذروئے کارساز ہونے کے۔ بطور کا رساز اللہ ہی کافی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی اس کی کوئی پرواہ نہ کرو اور اس سے در گزر فرما۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی ان کا طعن و اعتراض موجب ترک تبلیغ الہیم نہ ہوجاوے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَلَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ ) (اور آپ کافروں اور منافقوں کا کہا نہ مانئے) انہیں گوارا نہیں ہے کہ آپ دعوت الی اللہ کا کام کریں اور جو کام آپ کے سپرد کیا گیا ہے یعنی تبشیر اور انذار، آپ اسے چھوڑ دیں، اس سلسلے میں آپ ان کی کوئی بات نہ مانیں اور کسی طرح کی مسامحت اور مدارات اختیار نہ فرمائیں۔ (قال صاحب الروح : نھی عن مداراتھم فی امر الدعوۃ ولین الجانب فی التبلیغ والمسامحۃ فی الانذار) (صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ دعوت و تبلیغ کے معاملہ میں کافروں کی مدارات، اور ان کی رعایت اور چشم پوشی سے منع کیا گیا ہے۔ ) (وَدَعْ اَذٰیھُمْ ) (اور ان کی ایذا کو چھوڑئیے) یعنی ان کی طرف سے جو تکلیفیں پہنچی ہیں ان کی پرواہ نہ کیجیے اور ان پر صبر کیجیے۔ (وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ) (اور اللہ پر بھروسہ کیجیے) وہی مدد فرمائے گا۔ (وَکَفٰی باللّٰہِ وَکِیْلًا) (اور اللہ کافی کارساز ہے) سب کچھ اسی کے سپرد کیجیے، وہی نفع کا مالک ہے، دشمنوں کی ایذاؤں سے بھی بچائے گا اور آپ کو خیریت اور عافیت سے بھی رکھے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

48۔ اور اے پیغمبر آپ کافروں اور منافقوں کا کہنا نہ مانئے اور ان کی ایذا رسانی کو چھوڑ دیجئے اور نظر انداز کر دیجئے اور ان کی ایذا رسانی کا خیال نہ کیجئے اور آپ اللہ تعالیٰ ہی پر توکل اور بھروسہ رکھیے اور اللہ تعالیٰ بااعتبار وکالت اور کار ساز ہونے کے کافی اور بس ہے۔ یعنی تبلیغ رسالت کے سلسلے میں جو تکالیف اور جو اذیتیں آپ کو یہ کافر اور منافق پہنچاتے ہیں ان کو نظر انداز کر دیجئے اور ان تکالیف کا خیال نہ فرمایئے خواہ وہ تکالیف قولی ہوں یا فعلی ہوں کیونکہ یہ تو ہر ایک حق کی تبلیغ کرنیوالوں کو پہنچتی ہیں آپ ان کی ایذا رسانی کی پروا نہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیئے وہی اپنے بندوں کا کار ساز اور وکیل ہے اور کار ساز بھی ایسا جو پوری طری کفایت کرنیوالا اور کار ساز ہونے کیلئے بالکل کافی اور بس ہے اور اس کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے کام بنانے والے کی ضرورت نہیں ۔