Surat ul Ahzaab

Surah: 33

Verse: 54

سورة الأحزاب

اِنۡ تُبۡدُوۡا شَیۡئًا اَوۡ تُخۡفُوۡہُ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا ﴿۵۴﴾

Whether you reveal a thing or conceal it, indeed Allah is ever, of all things, Knowing.

تم کسی چیز کو ظاہر کر و یامخفی رکھو اللہ تو ہرہرچیز کا بخوبی علم رکھنے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Whether you reveal anything or conceal it, verily, Allah is Ever All-Knower of everything. meaning, `whatever you conceal in your innermost thoughts, it is not hidden from Him at all.' يَعْلَمُ خَأيِنَةَ الاٌّعْيُنِ وَمَا تُخْفِى الصُّدُورُ Allah knows the fraud of the eyes, and all that the breasts conceal. (40:19)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٣] یعنی زبان سے تو کجا، کسی مومن کے دل میں ایسا خیال تک بھی نہ آنا چاہئے۔ کیونکہ اللہ کے سامنے تو ظاہر و باطن اور دل کے خیالات سب کچھ یکساں ہے۔ کوئی بات اس سے چھپی نہیں رہ سکتی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنْ تُبْدُوْا شَـيْـــــًٔا اَوْ تُخْفُوْهُ ۔۔ : یعنی زبان سے تو کجا، کسی مومن کے دل میں ایسا خیال بھی نہیں آنا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سامنے تو ظاہر و باطن اور دل کے خیالات یکساں روشن ہیں، کوئی بات اس سے چھپی نہیں رہ سکتی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

إِن تُبْدُوا شَيْئًا أَوْ تُخْفُوهُ فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا (If you disclose any thing, or conceal it, Allah is All-Knowing about everything - 33:54). It has been repeated again in this verse that Allah Ta’ ala knows even the intents and thoughts hidden in the hearts. So whether you disclose or conceal, Allah Ta’ ala knows it all. What is being emphasized here is that one should not let any doubt or suspicion enter one&s mind or heart about the above-stated rules, and must avoid any violation of these rules. The issue of Hijab for women, out of the three injunctions in the above mentioned verse, needs some further elaboration which is being given below.

(آیت) ان تبدواشیئاً او تخفوہ فان اللہ کان بکل شئی علیماً ، آخر آیت میں پھر اس مضمون کو دہرایا گیا، کہ اللہ تعالیٰ دلوں کے ارادوں اور خیالات سے بھی واقف ہے، تم کسی چیز کو چھپاؤ یا ظاہر کرو اللہ تعالیٰ کے سامنے سب ظاہر ہی ہے۔ اس میں تاکید ہے کہ مذکور الصدر احکام میں کسی قسم کا شک و شبہ یا وسوسہ دل میں پیدا نہ ہونے دیں، اور احکام مذکورہ کی مخالفت سے بچنے کا پورا اہتمام کریں۔ آیت مذکورہ میں تین احکام بیان کئے گئے ہیں، ان میں عورتوں کے پردہ کا مسئلہ کئی وجہ سے تفصیل طلب ہے، اس لئے بقدر ضرورت لکھا جاتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنْ تُبْدُوْا شَـيْـــــًٔا اَوْ تُخْفُوْہُ فَاِنَّ اللہَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا۝ ٥٤ بدا بَدَا الشیء بُدُوّاً وبَدَاءً أي : ظهر ظهورا بيّنا، قال اللہ تعالی: وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر/ 47] ( ب د و ) بدا ( ن ) الشئ یدوا وبداء کے معنی نمایاں طور پر ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر/ 47] اور ان کیطرف سے وہ امر ظاہر ہوجائے گا جس کا ان کو خیال بھی نہ تھا ۔ شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، خفی خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف/ 55] ، ( خ ف ی ) خفی ( س ) خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف/ 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اگر تم اس کے متعلق کوئی چیز زبان سے ظاہر کرو گے یا اس کے ارادہ کو دل ہی میں رکھو گے تو اللہ تعالیٰ کو ان دونوں باتوں کی خبر ہوگی اور وہ اس پر تمہاری گرفت فرمائے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٤ { اِنْ تُبْدُوْا شَیْئًا اَوْ تُخْفُوْہُ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا } ” خواہ تم کسی چیز کو ظاہر کرو خواہ چھپائو ‘ اللہ یقینا ہرچیز کا علم رکھنے والا ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

101 That is, "If a person entertains an evil thought in his heart against the Holy Prophet, or harbours an evil intention about his wives, it will not remain hidden from Allah, and he will be punished for it. "

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :101 یعنی اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف دل میں بھی کوئی برا خیال کوئی شخص رکھے گا ، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے متعلق کسی کی نیت میں بھی کوئی برائی چھپی ہو گی تو اللہ تعالیٰ سے وہ چھپی نہ رہے گی اور وہ اس پر سزا پائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٤۔ حضرت عمر (رض) کی یہ حدیث جو اوپر گزری کی مقام ابراہیم کے مصلیٰ ٹھہرانے کی آیت اور یہ پردہ کی آیت اور چند آیتیں حضرت عمر (رض) کی رائے کے موافق نازل ہوئی ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عمر (رض) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہلے پردہ کی صلاح دی تھی پھر حضرت زنیب (رض) کے ولیمہ والے دن یہ آیت نازل ہوئی اور صحیح بخاری وغیرہ کی حضرت عائشہ (رض) کی یہ حدیث جو مشہور ہے کہ حضرت سودہ (رض) ایک رات چادر اوڑھ کر حاجت بشری کے لیے گھر سے باہر نکلیں اور حضرت عمر (رض) نے ان کو دھمکایا یہ قصہ پردہ کی آیت کے بعد کا ہے ٢ ؎ (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٠٥ ج ٣۔ ) اور حضرت عمر (رض) کی اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں ہوئی چناچہ اس کی صراحب صحیح بخاری کی حضرت عائشہ (رض) کی حدیث میں ہے یہ جو ایک شبہ مشہور ہے کہ بعض رویتواں میں یہ ہے کہ حضرت زنیب کا ولیمہ روٹی سالن کا ہوا اور بعض روایتوں میں مالیدہ کا ذکر ہے حافظ ابن حجر (رح) نے اس شبہ کو فتح الباری میں رفع کردیا ہے کہ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روٹی سالن اس ولمیہ میں پکوایا تھا اور حضرت ام سلیم (رض) نے مالیدہ بنا کر اس ولیمہ کے لیے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھیجا تھا اس لیے بعض روایتوں میں ایک چیز کا ذکر ہے اور بعض روایتوں میں دوسری چیز کا۔ ام سلیم (رض) انس بن مالک (رض) کی ماں کی کنیت ہے ان کا نام سہلہ ہے یہ مشہور صحابیات میں سے تھیں حضرت عثمان (رض) کی خلافت میں ان کا انتقال ہوا۔ معتبر سند سے مسند امام احمد ابوداؤد ترمذی نسائی اور صحیح ابن حبان میں ام سلمہ (رض) سے روایت ١ ؎ ہے (١ ؎ مشکوۃ ص ٤٦٩ باب النظر الی المخطوبۃ وبیان العورات) جس کا حاصل یہ ہے کہ اس پردہ کی آیت کے نازل ہونے کے بعد ایک دن عبداللہ بن ام مکتوم حضرت کی بیوی ام سلمہ (رض) کے گھر میں آئی اس وقت حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی وہاں موجود تھے آپ نے ام سلمہ (رض) کو عبداللہ (رض) سے پردہ کرنے کا حکم دیا اس ام سلمہ (رض) نے کہا کہ حضرت عبداللہ تو نابینا ہیں یہ سن آپ نے فرمایا کہ وہ نابینا ہیں تو آخر تمہاری تو آنکھیں ہیں مسند امام احمد ابوداؤد ونسائی اور مختصر طور پر صحیح مسلم میں فاطمہ بنت قیس (رض) کی بڑی روایت ٢ ؎ ہے (٢ ؎ مشکوۃ ٢٨٨ باب العدۃ) جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فاطمہ (رض) نبت قیس کو انہیں عبداللہ بن ام مکتوم کے گھر میں عدت کے دن گزرا نے کا حکم دیا ہے ‘ ابو داؤد منذری (رح) ‘ حافظ ابن حجر (رح) اور اور علمانے اس قسم کی مختلف حدیثوں کی مطابقت میں وہی بات بان کی ہے جو بات شاہ صاحب نے اپنے فائدہ میں لکھی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں پر یہپردہ کا حکم واجب تھا اور مسلمانوں کی عورتوں پر مستحب ہے مستحب شریعت میں وہ چیز ہے جس کا کرنا بہتر ہو اور نہ کرنے میں کچھ گناہ نہ ہو جیسے مثلا جمعہ کے دن اچھے کپڑوں کا پہننا مستحب کے عمل سے ممانعت کے کام میں پڑجانے کا خوف ہو تو خدا سے ڈرنے والے مر عورت کو ایسے مستحب پر عمل کرنا جائز نہیں ہے چناچہ معتبر سند سے ترمذی میں عطیہ (رض) سعدی سے روایت ٣ ؎ ہے (٣ ؎ مشکوٰۃ ص ٢٤٢ باب الکسب وطلب الحلال) جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کوئی شخص متقی نہیں ہوسکتا جب تک وہ جائز چیز کو ناجائز نتیجہ کا خوف نہیں تھا تو صحابہ (رض) کا اس مسئلہ پر اتفاق تھا جب یہ بات باقی نہیں ریہ تو صحابہ (رح) میں اختلاف پیدا ہوگیا چناچہ صحیح بخاری ومسلم ٤ ؎ میں حضرت عائشہ (رض) کا قول ہے (٤ ؎ صحیح بخاری باب خروج النساء الی المساجد وباللیل) کہ جس طرح اب عورتیں اچھے کپڑے پہن کر اور عطرمل کر مسجد میں نماز کو جاتی ہیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں یہ اس طرح جاتیں تو ان کو مسجد میں جانے کی کبھی اجازت نہ ہوتی۔ حضرت عائشہ (رض) کے اس قومل کا مطلب یہ ہے کہ جن رواتیوں میں عورتوں کے مسجد میں جانے کی اجازت ہے ان میں سے بعض روایتوں ٥ ؎ میں یہ بھی ہے (٥ ؎ دیکھئے مشکوۃ باب الجماعۃ وفصل فصل اول وثانی۔ ) کہ خوشبولگا کر کوئی عورت مسجد میں نہ آوے اب عورتوں نے اس اجازت کو تو پکڑلیا ہے اور اس کی شرطوں کو چھوڑ دیا ہے جس سے ناجائز نتیجوں کا اندیشہ ہے اس لیے اگر یہ حالت اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں عورتوں کی ہوجاتی تو یہ اجازت ہرگز قائم نہ رہتی اب بھی مانہ کا ڈھنک دیکھ کر جو نیک لوگ عورتوں کے پردہ کے باب میں سخت رائے رکھتے ہیں وہ بالکل حضرت عائشہ (رض) کے ہم قول ہیں اور عطیہ سعد کی روایت ان کی تائید کے لیے کافی ہے ‘ سمند بزار اور طبرانی میں حضرت علی (رض) سے صحیح روایت ١ ؎ کہ (١ ؎ نیل الاوطار ص ٢٤١ ج ٢ نیز دیکھئے مشکوٰۃ باب النظرالی المخطوبو الخ بروایت حضرت عمر (رض) دار المنثورص ٢١٤ ج ٥‘) اجنبی مرد اور عورت جہاں ایک جاہ ہوں تو ان کے بہکانے کے لیے وہاں ان دونوں میں تیسرا شیطان آن موجود ہوتا ہے۔ یہ حدیث ذلکم اطھر تعلوبکم وقلوبھن کی گویا تفسیر ہے سنن بہقی تیر سدی تفسیر ابن اب حاتم وغیرہ میں آیت کے آگے کے ٹکڑے کی شان نزول حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی روایت ٢ ؎ سے جو بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جب پردہ کا حکم نازل ہوا اور اس عمل جا کی ہوگیا تو صحابیوں میں سے ایک شخص طلحہ بن عبید اللہ (رض) کو یہ ایک نئی بات معلوم ہوئی اس واسطے طلحہ (رض) نے یہ کہا کہ اب تو یہ حکم ہے لیکن اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات میرے سامنے ہوئی تو عائشہ یا ام سلمہ (رض) سے میں ضرور نکاح کروں گا اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت کا یہ ٹکڑا نازل فرما کر ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں کو امت کے لوگوں کو ماں ٹھہرادیا تو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کسی بیوی سے مت میں کا کوئی شخص کبھی نکاح نہیں کرسکتا پھر یہ لوگ ایسی باتیں منہ سے کیوں نکالتے ہیں جن کے سننے سے اللہ کے رسول کو رنج ہوتا ہے اور اس رنج سے ایذا پہنچتی ہے تمہارے نزدیک اس طرح کی بات ایک معلولی بات ہے لیکن اللہ کے نزدیک اللہ کے رسول کو ایذا پہنچانے کی بات بڑے وبال کی چیز ہے پھر فرمایا ایسی باتیں تم لوگ زبان پر لاؤیادل میں رکھو یہ سب اللہ کو خوب معلوم ہیں کیونکہ اس کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں ہے اس لیے ایسی باتوں کے دل میں خیال رکھنے اور زبان پر لانے سے بچنا چاہئے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(33: 54) تبدوا۔ مضارع مجزوم (بوجہ عمل ان شرطیہ) جمع مذکر حاضر۔ ابداء (افعال) مصدر۔ (اگر ) تم (کسی شی کو) ظاہر کرو۔ تخفوہ۔ مضارع مجزوم بوجہ عمل ان جمع مذکر حاضر ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب جس کا مرجع شی ہے۔ (خواہ) تم اس کو چھپائو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 اس آیت میں ان لوگوں کے لئے وعید ہے جن کی طرف آیت ” ذلکم اطھر لقلوبکم “ اور ” ماکان لکم ان تو ذوارسول اللہ “ میں ارشاد فرمایا ہے۔ یعنی اگر تم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا آپ کی ازواج (رض) مطہرات کے متعلق دل میں کوئی بڑا خیال رکھو گے تو اللہ تعالیٰ سے چھپا نہ رہے گا اور تمہیں اس کی ضرور سزا ملے گی۔ ( فھذہ الایۃ منحطفۃ علی ما قبلھا) (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان تبدوا شیئا ۔۔۔۔۔۔ شئ علیما (33: 54) ” “۔ لہٰذا یہ سب معاملہ اللہ کے اختیار میں ہے۔ وہ ہر ظاہر اور چھپے کا جاننے والا ہے۔ ہر تدبیر اور ہر سوچ کو جانتا ہے اور یہ معاملہ اس کے ہاں ہے بھی گناہ کبیر۔ اگر کوئی پھر بھی اس کے ساتھ الجھتا ہے تو وہ اللہ کے ساتھ جنگ کرتا ہے اور جس نے اللہ سے جنگ کی وہ مٹ گیا۔ اس عام حجاب کے بعد ازواج مطہرات کے لیے بعض محرمات سے پر وہ نہ کرنے کی اجازت دی گئی ہے کہ وہ ان کے سامنے آسکتی ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

ٖ 57:۔ ان تبدوا الخ، بعض منافقین نے مذکورہ بالا حکم نازل ہونے سے پہلے دل میں تہیہ کر رکھا تھا کہحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد وہ آپ کی زوجہ مطہرہ سے نکاح کرے گا۔ اور بعض خبیث منافقین نے برملا اس کا اظہار کیا تھا تو اللہ نے فرمایا۔ میں تو تمہاری ہر ظاہر و باطن کی حرکت کو جانتا ہوں۔ اگر تم شرارتوں سے باز نہیں آؤ گے تو سخت سزا دوں گا۔ فیجازیکم بما صدر منکم من المعاصی البادیۃ والخافیۃ لا محالۃ (روح جلد 22 ص 74) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

54۔ تم اگر کسی چیز کو ظاہر کرو گے یعنی زبان سے کہو گے یا اس کو چھپائو گے اور دل میں پوشیدہ رکھو گے تو اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔ یعنی ازواج مطہرات کے ساتھ نکاح کرنے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایذا دہی کی بات کو خواہ وہ زبان سے ظاہر کرو، جیسا کہ ایک شخص کا قول مشہور ہے کہ اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو میں حضرت عائشہ (رض) سے نکاح کروں گا ۔ غرض ! ایسی بات کا زبان سے نکالنا یا دل میں ایسا ارادہ دونوں کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے اور وہ ایسا کرنے والوں کو سزا دے گا ازواج مطہرات کے پردے کے بارے میں جو عام حکم تھا اس سے بعض افراد و اشخاص کو آگے مستثنیٰ فرمایا چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔