Surat ul Ahzaab

Surah: 33

Verse: 59

سورة الأحزاب

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَنۡ یُّعۡرَفۡنَ فَلَا یُؤۡذَیۡنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۵۹﴾

O Prophet, tell your wives and your daughters and the women of the believers to bring down over themselves [part] of their outer garments. That is more suitable that they will be known and not be abused. And ever is Allah Forgiving and Merciful.

اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں ۔ اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی اور اللہ تعالٰی بخشنے والا مہربان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Command of Hijab Allah says: يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لاَِّزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاء الْمُوْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَبِيبِهِنَّ ... O Prophet! Tell your wives and your daughters and the women of the believers to draw their Jalabib over their bodies. Here Allah tells His Messenger to command the believing women -- especially his wives and daughters, because of their position of honor -- to draw their Jilbabs over their bodies, so that they will be distinct in their appearance from the women of the Jahiliyyah and from slave women. The Jilbab is a Rida', worn over the Khimar. This was the view of Ibn Mas`ud, Ubaydah, Qatadah, Al-Hasan Al-Basri, Sa`id bin Jubayr, Ibrahim An-Nakha`i, Ata' Al-Khurasani and others. It is like the Izar used today. Al-Jawhari said: "The Jilbab is the outer wrapper." Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas said that; Allah commanded the believing women, when they went out of their houses for some need, to cover their faces from above their heads with the Jilbab, leaving only one eye showing. Muhammad bin Sirin said, "I asked Ubaydah As-Salmani about the Ayah: يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَبِيبِهِنَّ (to draw their Jalabib over their bodies). He covered his face and head, with just his left eye showing." ... ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَ يُوْذَيْنَ ... That will be better that they should be known so as not to be annoyed. means, if they do that, it will be known that they are free, and that they are not servants or whores. ... وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا And Allah is Ever Oft-Forgiving, Most Merciful. means, with regard to what happened previously during the days of Jahiliyyah, when they did not have any knowledge about this. A Stern Warning to the Evil Hypocrites Allah says:

تمام دنیا کی عورتوں سے بہتر و افضل کون؟ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تسلیما کو فرماتا ہے کہ آپ مومن عورتوں سے فرما دیں بالخصوص اپنی بیویوں اور صاحبزادیوں سے کیونکہ وہ تمام دنیا کی عورتوں سے بہتر و افضل ہیں کہ وہ اپنی چادریں قدریں لٹکالیا کریں تاکہ جاہلیت کی عورتوں سے ممتاز ہو جائیں اسی طرح لونڈیوں سے بھی آزاد عورتوں کی پہچان ہو جائے ۔ جلباب اس چادر کو کہتے ہیں جو عورتیں اپنی دوپٹیاکے اوپر ڈالتی ہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ مسلمان عورتوں کو حکم دیتا ہے کہ جب وہ اپنے کسی کام کاج کیلئے باہر نکلیں تو جو چادر وہ اوڑھتی ہیں اسے سر پر سے جھکا کر منہ ڈھک لیا کریں ، صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں ۔ امام محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ کے سوال پر حضرت عبیدہ سلمانی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنا چہرہ اور سر ڈھانک کر اور بائیں آنکھ کھلی رکھ کر بتا دیا کہ یہ مطلب اس آیت کا ہے ۔ حضرت عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اپنی چادر سے اپنا گلا تک ڈھانپ لے ۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اس آیت کے اترنے کے بعد انصار کی عورتیں جب نکلتی تھیں تو اس طرح لکی چھپی چلتی تھیں گویا ان کے سروں پر پرند ہیں سیاہ چادریں اپنے اوپر ڈال لیا کرتی تھیں ۔ حضرت زہری سے سوال ہوا کہ کیا لونڈیاں بھی چادر اوڑھیں؟ خواہ خاوندوں والیاں ہوں یا بےخاوند کی ہوں؟ فرمایا دوپٹیا تو ضرور اوڑھیں اگر وہ خاوندوں والیاں ہوں اور چادر نہ اوڑھیں تاکہ ان میں اور آزاد عورتوں میں فرق رہے حضرت سفیان ثوری سے منقول ہے کہ ذمی کافروں کی عورتوں کی زینت کا دیکھنا صرف خوف زنا کی وجہ سے ممنوع ہے نہ کہ ان کی حرمت و عزت کی وجہ سے کیونکہ آیت میں مومنوں کی عورتوں کا ذکر ہے ۔ چادر کا لٹکانا چونکہ علامت ہے آزاد پاک دامن عورتوں کی اس لئے یہ چادر کے لٹکانے سے پہچان لی جائیں گی کہ یہ نہ واہی عورتیں ہیں نہ لونڈیاں ہیں ۔ سدی کا قول ہے کہ فاسق لوگ اندھیری راتوں میں راستے سے گزرنے والی عورتوں پر آوازے کستے تھے اس لئے یہ نشان ہوگیا کہ گھر گر ہست عورتوں اور لونڈیوں بانڈیوں وغیرہ میں تمیز ہو جائے اور ان پاک دامن عورتوں پر کوئی لب نہ ہلاسکے ۔ پھر فرمایا کہ جاہلیت کے زمانے میں جو بےپردگی کی رسم تھی جب تم اللہ کے اس حکم کے عامل بن جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تمام اگلی خطاؤں سے درگزر فرمالے گا اور تم پر مہر و کرم کرے گا ، پھر فرماتا ہے کہ اگر منافق لوگ اور بدکار اور جھوٹی افواہیں دشمنوں کی چڑھائی وغیرہ کی اڑانے والے اب بھی باز نہ آئے اور حق کے طرفدار نہ ہوئے تو ہم اے نبی تجھے ان پر غالب اور مسلط کردیں گے ۔ پھر تو وہ مدینے میں ٹھہر ہی نہیں سکیں گے ۔ بہت جلد تباہ کردیے جائیں گے اور جو کچھ دن ان کے مدینے کی اقامت سے گزریں گے وہ بھی لعنت و پھٹکار میں ذلت اور مار میں گزریں گے ۔ ہر طرف سے دھتکارے جائیں گے ، راندہ درگاہ ہو جائیں گے ، جہاں جائیں گے گرفتار کئے جائیں گے اور بری طرح قتل کئے جائیں گے ۔ ایسے کفار و منافقین پر جبکہ وہ اپنی سرکشی سے باز نہ آئیں مسلمانوں کو غلبہ دینا ہماری قدیمی سنت ہے جس میں نہ کبھی تغیر و تبدل ہوا نہ اب ہو ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

59۔ 1 جلابیب، جلباب کی جمع ہے جو ایسی بڑی چادر کو کہتے ہیں جس سے پورا بدن ڈھک جائے اپنے اوپر چادر لٹکانے سے مراد اپنے چہرے پر اس طرح گھونگٹ نکالنا ہے کہ جس سے چہرے کا بیشتر حصہ بھی چھپ جائے اور نظریں جھکا کر چلنے سے اسے راستہ بھی نظر آتا جائے پاک وہند یا دیگر اسلامی ممالک میں برقعے کی جو مختلف صورتیں ہیں عہد رسالت میں یہ برقعے عام نہیں تھے پھر بعد میں معاشرت میں وہ سادگی نہیں رہی جو عہد رسالت اور صحابہ وتابعین کے دور میں تھی عورتیں نہایت سادہ لباس پہنتی تھیں بناؤ سنگھار اور زیب وزینت کے اظہار کا کوئی جذبہ ان کے اندر نہیں ہوتا تھا اس لیے ایک بڑی چادر سے بھی پردے کے تقاضے پورے ہوجاتے تھے لیکن بعد میں یہ سادگی نہیں رہی اس کی جگہ تجمل اور زینت نے لے لی اور عورتوں کے اندر زرق برق لباس اور زیورات کی نمائش عام ہوگئی جس کی وجہ سے چادر سے پردہ کرنا مشکل ہوگیا اور اس کی جگہ مختلف انداز کے برقعے عام ہوگئے گو اس سے بعض دفعہ عورت کو بالخصوص سخت گرمی میں کچھ دقت بھی محسوس ہوتی ہے لیکن یہ ذرا سی تکلیف شریعت کے تقاضوں کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی تاہم جو عورت برقعے کے بجائے پردے کے لیے بڑی چادر استعمال کرتی ہے اور پورے بدن کو ڈھانکتی اور چہرے پر صحیح معنوں میں گھونگٹ نکالتی ہے وہ یقینا پردے کے حکم کو بجالاتی ہے کیونکہ برقعہ ایسی لازمی شئی نہیں ہے جسے شریعت نے پردے کے لیے لازمی قرار دیا ہو لیکن آج کل عورتوں نے چادر کو بےپردگی اختیار کرنے کا ذریعہ بنالیا ہے پہلے وہ برقعے کی جگہ چادر اوڑھنا شروع کرتی ہیں پھر چادر بھی غائب ہوجاتی ہے صرف دوپٹہ رہ جاتا ہے اور بعض عورتوں کے لیے اس کا لینا بھی گراں ہوتا ہے۔ صورت حال کو دیکھتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ اب برقع کا استعمال ہی صحیح ہے کیونکہ جب سے برقعے کی جگہ چادر نے لے لی ہے بےپردگی عام ہوگئ ہے بلکہ عورتیں نیم برہنگی پر بھی فخر کرنے لگی ہیں انا للہ وانا الیہ راجعون بہرحال اس آیت میں نبی کی بیویوں، بیٹیوں اور عام مومن عورتوں کو گھر سے باہر نکلتے وقت پردے کا حکم دیا گیا جس سے واضح ہے کہ پردے کا حکم علماء کا ایجاد کردہ نہیں ہے جیسا کہ آج کل بعض لوگ باور کراتے ہیں یا اس کو قرار واقعی اہمیت نہیں دیتے بلکہ یہ اللہ کا حکم ہے جو قرآن کریم کی نص سے ثابت ہے۔ اس سے اعراض، انکار اور بےپردگی پر اصرار کفر تک پہنچا سکتا ہے دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوئی کہ نبی کی ایک بیٹی نہیں تھی جیسا کہ رافضیوں کا عقیدہ ہے بلکہ آپ کی ایک سے زائد بیٹیاں تھیں جیسا کہ نص قرآنی سے واضح ہے اور یہ چار تھیں جیسا کہ تاریخ و سیرت اور احادیث کی کتابوں سے ثابت ہے۔ 59۔ 2 یہ پردے کی حکمت اور اس کے فائدے کا بیان ہے کہ اس سے ایک شریف زادی اور باحیا عورت اور بےشرم اور بدکار عورت کے درمیان پہچان ہوگی۔ پردے سے معلوم ہوگا کہ یہ خاندانی عورت ہے جس سے چھیڑ خانی کی جرات کسی کو نہیں ہوگی۔ اس کے برعکس بےپردہ عورت اوباشوں کی نگاہوں کا مرکز اور ان کی ابو الہوسی کا نشانہ بنے گی

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٩] اس حکم کے ذریعہ اوباش منافقوں کی چھیڑ چھاڑ کا سدباب کردیا گیا۔ نبی کی بیویوں، بیٹیوں اور سب مسلمان عورتوں کو حکم دیا گیا کہ بڑی چادریں اپنے سر کے اوپر سے نیچے لٹکا لیا کریں۔ اس سے بآسانی معلوم ہوسکے گا کہ یہ لونڈیاں نہیں بلکہ شریف زادیاں ہیں۔ لہذا منافق انھیں چھیڑ چھاڑ کی جرأت نہ کرسکیں گے۔ خ بنات النبی :۔ ضمناً اس سے اس بات کا پتہ لگتا ہے کہ رسول اللہ کی بیٹیاں تین یا تین سے زیادہ تھیں اور حقیقتاً یہ چار تھیں۔ سیدہ زینب، سیدہ رقیہ، سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ (رض) جبکہ شیعہ حضرات آپ کی صرف ایک بیٹی (سیدہ فاطمہ) تو تسلیم کرتے ہیں۔ باقی کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ خ بڑی چادر اوڑھ کر عورتیں باہر نکلیں :۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ بعض حضرات چہرہ کو پردہ کے حکم سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ (يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۭ وَكَان اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا 59؀) 33 ۔ الأحزاب :59) کا مطلب چادر لٹکا کر گھونگھٹ نکالنا نہیں بلکہ اس سے مراد چادر کو اپنے جسم کے ارد گرد اچھی طرح لپیٹ لینا ہے جسے پنجابی میں && بکل مارنا && کہتے ہیں۔ اس توجیہ کی تہ میں جو کچھ ہے وہ سب کو معلوم ہے ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ یہ توجیہ لغت، عقل اور نقل تینوں لحاظ سے غلط ہے۔ وہ یوں کہ : ١۔ لغوی لحاظ سے دنٰی یدنی کا مطلب قریب ہونا، جھکنا اور لٹکنا سب کچھ آتا ہے۔ قرآن میں ہے (وَجَنَا الْجَنَّـتَيْنِ دَانٍ 54۝ۚ ) 55 ۔ الرحمن :54) یعنی ان دونوں باغوں کے پھل جھک رہے ہیں یا لٹک رہے ہیں اور اَدْنٰی یَدْنِی یعنی قریب کرنا، جھکانا اور لٹکانا اور ادنی الستر بمعنی پردہ لٹکانا ہے (منجد) اب اگر ادنٰی الیھن من جلابیبھن کے الفاظ ہوتے تو پھر ان معانی کی بھی گنجائش نکل سکتی تھی جو یہ حضرات چاہتے ہیں لیکن قرآن میں ادنیٰ کا صلہ علیٰ سے ہے جو اس کے معنی کو اِرْخَاء یعنی اوپر سے لٹکانے کے معنوں سے مختص کردیتا ہے۔ اور جب لٹکانا معنی ہو تو اس کا مطلب سر سے نیچے کو لٹکانا ہوگا جس میں چہرہ کا پردہ خود بخود آجاتا ہے۔ خ ہاتھوں اور چہرے کا پردہ :۔ ٢۔ اور عقلی لحاظ سے یہ توجیہ اس لئے غلط ہے کہ عورت کا چہرہ ہی وہ چیز ہے جو مرد کے لئے عورت کے تمام بدن سے زیادہ پرکشش ہوتا ہے۔ اگر اسے ہی حجاب سے مستثنیٰ قرار دیا جائے تو حجاب کے باقی احکام بےسود ہیں۔ فرض کیجئے آپ اپنی شادی سے پہلے اپنی ہونے والی بیوی کی شکل و صورت دیکھنا چاہتے ہیں۔ اب اگر آپ کو اس لڑکی کا چہرہ نہ دکھایا جائے باقی تمام بدن ہاتھ، پاؤں وغیرہ دکھا دیئے جائیں تو کیا آپ مطمئن ہوجائیں گے ؟ اس سوال کا جواب یقیناً نفی میں ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ آپ کو اس لڑکی کا صرف چہرہ دکھادیا جائے اور باقی بدن نہ دکھایا جائے اس صورت میں آپ پھر بھی بہت حد تک مطمئن نظر آئیں گے۔ پھر جب یہ سب چیزیں روزمرہ کے تجربہ اور مشاہدہ میں آرہی ہیں تو پھر آخر چہرہ کو احکام حجاب سے کیونکر خارج کیا جاسکتا ہے ؟ چناچہ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ کے پاس تھا۔ ایک شخص آیا اور آپ کو خبر دی کہ اس نے ایک انصاری عورت سے عقد کیا ہے۔ آپ نے اس سے پوچھا : کیا تم نے اسے دیکھا بھی ہے ؟ && وہ کہنے لگا && نہیں && آپ نے فرمایا : جا اس کو دیکھ لے اس لئے کہ انصار کی آنکھوں میں کچھ عیب ہوتا ہے && (مسلم۔ کتاب النکاح۔ باب ندب من اراد نکاح امرأۃ الیٰ ان ینظر الیٰ وجھھا وکفیھا قبل خطب تھا) اس حدیث میں بھی آپ نے چہرہ دیکھنے کی ہی ہدایت فرمائی۔ آیت کے غلط معنی اور اس کا جواب :۔ ٣۔ نقلی لحاظ سے بھی یہ توجیہ غلط ہے۔ یہ سورة احزاب ذیقعد ٥ ھ میں نازل ہوئی اور واقعہ افک شوال ٦ ھ میں پیش آیا۔ اور واقعہ افک بیان کرتے ہوئے خود سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ && میں اسی جگہ بیٹھی رہی۔ اتنے میں میری آنکھ لگ گئی۔ ایک شخص صفوان بن معطل سلمی اس مقام پر آئے اور دیکھا کوئی سو رہا ہے۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا کیونکہ حجاب کا حکم اترنے سے پہلے اس نے مجھے دیکھا تھا۔ اس نے مجھے دیکھ کر (إنَّا لِلّٰہِ وَإنَّا إلَیْہِ رَاجِِعُوْنَ ) پڑھا تو میری آنکھ کھل گئی تو میں نے اپنا چہرہ اپنی چادر سے ڈھانپ لیا && (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب حدیث الافک۔۔ ) اب سوال یہ ہے کہ اگر (يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ 59؀) 33 ۔ الأحزاب :59) کا معنی وہ ہو جو یہ حضرات ہمیں سمجھانا چاہتے ہیں تو کیا (معاذ اللہ) سیدہ عائشہ (رض) اور دوسرے صحابہ (رض) نے اس کا معنی غلط سمجھا تھا ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ ۔۔ : مسلمانوں کو ایذا دینے والوں کے لیے وعید کے بیان کے بعد مسلم عورتوں کو ایذا سے بچنے کے لیے پردے کی تاکید فرمائی۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹیاں ایک سے زیادہ تھیں۔ بعض لوگ فاطمہ (رض) کے علاوہ دوسری بیٹیوں کو آپ کی بیٹیاں تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے کہنے کے مطابق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹیوں سے مراد امت کی عورتیں ہیں، مگر یہ بات درست نہیں، کیونکہ آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں اور آپ کی بیٹیوں کے بعد مومنوں کی عورتوں کا الگ ذکر فرمایا ہے۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چار بیٹیاں مذکور ہیں، زینب، ام کلثوم، رقیہ اور فاطمہ۔ ” وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ “ میں مومنوں کی بیویوں کے علاوہ ان سے تعلق رکھنے والی تمام عورتیں، مثلاً ان کی مائیں، بہنیں، بیٹیاں، بھتیجیاں اور بھانجیاں وغیرہ سب شامل ہیں۔ ” جَلَابِیْبُ “ ” جِلْبَابٌ“ کی جمع ہے، بڑی چادر جو جسم کو ڈھانپ لے۔ ” من “ کا لفظ تبعیض کے لیے ہے، یعنی اپنی چادروں کا کچھ حصہ۔ ” يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ “ ، ” أَدْنٰی یُدْنِيْ “ کا معنی قریب کرنا ہے، ” علیھن “ کے لفظ سے اس میں لٹکانے کا مفہوم پیدا ہوگیا۔ عرب کی عورتیں تمام جاہل معاشروں کی طرح سب لوگوں کے سامنے کھلے منہ پھرتی تھیں، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” اے نبی ! اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور ایمان والوں کی عورتوں سے کہہ دے کہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے آپ پر لٹکا لیا کریں۔ “ اس لٹکانے سے مراد کیا ہے ؟ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ترجمان القرآن عبداللہ بن عباس (رض) سے نقل فرمایا : ” أَمَرَ اللّٰہُ نِسَاءَ الْمُؤْمِنِیْنَ إِذَا خَرَجْنَ مِنْ بُیُوْتِہِنَّ فِیْ حَاجَۃٍ أَنْ یُغَطِّیْنَ وُجُوْہَہُنَّ مِنْ فَوْقِ رُؤُوْسِہِنَّ بالْجَلاَبِیْبِ ، وَ یُبْدِیْنَ عَیْنًا وَاحِدَۃً “ [ طبري : ٢٨٨٨٠ ] ” اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی عورتوں کو حکم دیا کہ جب وہ کسی ضرورت کے لیے گھر سے نکلیں تو اپنے چہرے کو اپنے سروں کے اوپر سے پڑی چادروں کے ساتھ ڈھانپ لیں اور ایک آنکھ کھلی رکھیں۔ “ ام سلمہ (رض) نے فرمایا : ( لَمَّا نَزَلَتْ : (يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ ) خَرَجَ نِسَاءُ الْأَنْصَارِ کَأَنَّ عَلٰی رُءُ وْسِہِنَّ الْغِرْبَانَ مِنَ الْأَکْسِیَۃِ ) [ أبو داوٗد، اللباس، باب في قول اللّٰہ تعالیٰ : ( یدنین علیھن من جلا بیبھن ) : ٤١٠١، قال الألباني صحیح ] ” جب آیت ” يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ“ نازل ہوئی تو انصار کی عورتیں اس طرح نکلیں جیسے ان کے سروں پر (سیاہ) چادروں کی وجہ سے کوے ہوں۔ “ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ : یہاں ایک سوال ہے کہ اگر اپنے آپ پر چادروں کا کچھ حصہ اس طرح لٹکایا جائے کہ صرف ایک آنکھ کھلی رہے، چہرہ نظر ہی نہ آئے تو اس طرح تو عورت کی پہچان ہو ہی نہیں سکتی، پھر یہ فرمانے کا کیا مطلب ہے کہ ” یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انھیں تکلیف نہ پہنچائی جائے۔ “ جواب اس کا یہ ہے کہ پہچانی جائیں سے یہ مراد نہیں کہ یہ فلاں عورت ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ پردہ کرنے کی وجہ سے ان کی پہچان ہوجائے کہ یہ شریف اور باحیا عورتیں ہیں، پھر کوئی انھیں چھیڑنے کی جرأت نہیں کرے گا، نہ کسی کے دل میں انھیں اپنی طرف مائل کرنے کا لالچ پیدا ہو سکے گا۔ اس کے برعکس بےپردہ عورت کی کیا پہچان ہوسکتی ہے کہ وہ شریف ہے یا بازار میں پیش ہونے والا سامان، جسے کوئی بھی حاصل کرسکتا ہے۔ پردہ اتارنے کے بعد اسے ایذا سے محفوظ رہنے کے بجائے فاسق و فاجر لوگوں کی چھیڑ چھاڑ، زبردستی اور بعض اوقات اغوا کا منتظر رہنا چاہیے۔ 3 بعض لوگ کہتے ہیں کہ چہرے کا پردہ نہیں، مگر یہ آیت ان کا رد کرتی ہے، اس کے علاوہ سورة نور کی آیت (٣١ اور ٦٠) سے اور سورة احزاب کی آیت (٥٣ اور ٥٥) سے بھی واضح طور پر پردے کا حکم ثابت ہو رہا ہے۔ زیر تفسیر آیت کے ساتھ ایک مرتبہ ان آیات کا ترجمہ و تفسیر بھی دیکھ لیں۔ واقعۂ افک میں عائشہ (رض) کا کہنا کہ صفوان نے مجھے پردے کی آیات اترنے سے پہلے دیکھا تھا، بھی چہرے کے پردے کی واضح دلیل ہے۔ وَكَان اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا : ”ۭغَفُوْرًا “ پردہ ڈالنے والا، ” رَّحِيْمًا “ بیحد مہربان۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے مومن عورتوں کے لیے پردے کا جو حکم دیا ہے اس کی وجہ اس کی صفت مغفرت و رحمت ہے۔ وہ تم پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے اور تم پر رحم کرنا چاہتا ہے اور اس کے حکم کی تعمیل ہی سے تم اس کی پردہ پوشی اور رحمت کے حق دار بنو گے، اگر تم نے اس کی اطاعت نہ کی تو اپنی کوتاہیوں پر اس کی پردہ پوشی کی اور رحمت کی امید نہ رکھو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The previous verses have maintained that causing pain to any Muslim, man or woman, is forbidden and is a major sin, and in particular, inflicting pain on the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is an act of infidelity, liable to Allah&s curse. Now, there were two kinds of pain caused by the hypocrites to all Muslims and to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Preventive measures against these have been provided in the verses cited above. As a corollary, stated there are a few additional injunctions in a certain congruity to be unfolded later on. One of these two kinds of pain caused was at the hands of vagabonds from among the general run of hypocrites who used to molest bondwomen from Muslim homes when they came out to take care of family chores. Then on occasions, they would mistreat free women under the impression that they were bondwomen because of which pain was caused to Muslims at large and to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . On the other hand, the Shari’ ah of Islam has maintained a difference between free women and bondwomen in the matter of Hijab. The limits of Hijab prescribed for bondwomen are the limits observed by the free women before their mahrams (marriage with whom is forbidden), for example, as leaving the face open before their mahrams is permissible for free women, the same was permissible for bondwomen even when they went out of their homes, because their very job was to serve their masters, an occupation that took them out of the home repeatedly which made it difficult for them to keep their face and hands hidden. This is contrary to the case of free women who, even if they have to go out for some need, would be doing so rarely, an eventuality in which the observance of full Hijab should not be difficult. Therefore, the command given to free women was that the long sheet with which they cover themselves when going out should be pulled from over their head downwards before their face, so that it does not get exposed before male strangers. Two things were accomplished thereby. It made their own Hijab come out perfect while covering their faces served another purpose of distinguishing them from bondwomen, because of which they automatically became safe from being teased by wicked people. As for the arrangements made to keep bondwomen protected, the hypocrites were served with a warning to the effect that, should they fail to abstain from their low behavior, (the torment of the Hereafter aside) Allah Ta’ ala would have them punished at the hands of His Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and Muslims in this world as well. The words used in the command about the Hijab of free women in the verse under study (59) appear as follows: يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ in which the word: يُدْنِينَ (yudnina) has been derived from: اِذنَا (idna) which literally means to draw, pull or make come closer. The second word: عَلَيْهِنَّ (` alaihinn) means &on& or &over themselves& (hanging as a screen for the face). The third word: جَلَابِيبِ (jalabib) in: جِلبَاب (jalabibihinn) is the plural form of: جِلبَاب (jilbab) which is the name of a particular long sheet. Sayyidna Ibn Masud identified the form of this sheet as the one that is worn over the scarf (Ibn Kathir) and Sayyidna Ibn ` Abbas ` (رض) described its form in the words given below: اَمَرَ اللہُ نِسَاَء المُؤمِنِینَ اِذَا خَرَجنِ مَن بُیُتِھِنَّ فِی حَاجَۃِ اَن یُّغَطِّینِ وُجُوھَھُنَّ مِن فَوقِ رُؤسِھِنَّ بالجَلَابِیبِ وَیُبدِینَ عَیناً وَاحِدَۃَ (ابن کثیر) |"Allah Ta’ ala commanded women of the believers that, when they go out of their homes to take care of some need, they hide their faces with the long sheet (hanging down) from over their heads leaving only one eye open (to see the way).|" - (Ibn Kathir) And Imam Muhammad Ibn Sirin says: &When I asked ` Ubaidah Salmani (رض) about the meaning of this verse and the nature of Hijab, he demonstrated it by hiding his face with the long sheet pulled from the top of his head and left to hang in front of it - and thus, by keeping only his left eye open to see, he explained the words: idna&: (bring close) and: jilbab (long sheet or shawl) practically .& &To have the long sheet come from over the head and hand on, or in front of, the face& which appears in the statement of Sayyidna Ibn ` Abbas and ` Ubaidah Salmani is the explanation (Tafsir) of the Qur&anic word: عَلَيْهِنَّ (alaihinn: over them), that is, the sense of bringing the sheet close over them is to let the sheet come from over the head and hang on, or in front of, the face. This verse commands the hiding of the face with ample clarity which comprehensively supports what has been stated under the commentary on the first verse of Hijab appearing earlier. There it was said that, though the face and the palms of the hands are not included under satr as such but, under the apprehension of fitnah, hiding these too is necessary. Only situations of compulsion stand exempted. A necessary point of clarification This verse instructs free women to observe Hijab in a particular manner, that is, they should hide their face by bringing the sheet from over the head to hang on, or in front of, the face so that they could be recognized as distinct from bondwomen in general, and thus could stay protected from the fitnah of wicked people. The statement referred to immediately earlier has already made it very clear that it never means that Islam has allowed some difference to exist between free women and bondwomen in the matter of providing protection to the chastity and honor, and has protected free women and left bondwomen (to fend for themselves). Instead, the truth of the matter is that this difference was made by these wicked and low people themselves, as they simply did not dare act high-handedly against free women, but chose to tease bondwomen. The Shari’ ah of Islam took a functional advantage from this difference put into practice by them by ordering the free women to distinguish themselves, so that the majority of women becomes automatically protected through their own standing conduct in this matter. As far as the matter of bondwomen is concerned, the protection of their chastity and honor is as much necessary in Islam as that of free women. But, it could not be carried out except by using the legal authority. So, the next verse spells out that those who violate the law will not be forgiven - in fact, as and where they are found, they will be caught and killed. This is what provided a security shield for the chastity and honor of bondwomen as well. This submission makes it clear that the interpretation offered in this verse by ` Allamah Ibn Hazm and others - as different from the majority of scholars and in an effort to escape the doubt mentioned above - is something just no necessary. A doubt could have come up only when no arrangement was made for the protection of bondwomen.

خلاصہ تفسیر اے پیغمبر پانی بیبیوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور دوسرے مسلمانوں کی عورتوں سے بھی کہہ دیجئے کہ (سر سے) نیچی کرلیا کریں اپنے (چہرے کے) اوپر تھوڑی سی اپنی چادریں اس سے جلدی پہچان ہوجایا کرے گی تو آزار نہ دی جایا کریں گی (یعنی کسی ضرورت سے باہر نکلنا پڑے تو چادر سے سر اور چہرہ بھی چھپا لیا جائے جیسا کہ سورة نور کے ختم کے قریب غیر متبرجت بزینة میں اس کی تفسیر روایت سے گزر چکی ہے، چونکہ کنیزوں کے لئے سر فی نفسہ داخل ستر نہیں، اور چہرہ کھولنے میں ان کو آزاد عورتوں سے زیادہ رخصت ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے آقا کی خدمت میں لگی رہتی ہیں، اس لئے کام کاج کے لئے ان کو باہر نکلنے اور چہرہ وغیرہ کھولنے کی ضرورت زیادہ پڑتی ہے، بخلاف آزاد عورتوں کے کہ وہ اتنی مجبور نہیں، اور چونکہ اوباش لوگ آزاد عورتوں کو چھیڑنے کی ہمت ان کی خاندانی وجاہت و حمایت کی وجہ سے نہ کرتے تھے، کنیزوں کو چھیڑتے تھے، بعض اوقات کنیزوں کے دھوکے میں آزاد عورتوں کو بھی چھیڑنے لگتے تھے، اسی لئے اس آیت نے آزاد عورتوں کو کنیزوں سے ممتاز کرنے کے لئے بھی اور اس لئے بھی کہ سر اور گردن وغیرہ ان کا ستر میں داخل ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج و بنات اور عام مسلمانوں کی بیبیوں کو یہ حکم دیا کہ لمبی چادر میں مستور ہو کر نکلیں جس کو سر سے کچھ نیچے چہرے پر لٹکا لیا کریں جس کو اردو میں گھونگھٹ کرنا کہتے ہیں۔ اس حکم سے پردہ شرعی کے حکم کی تعمیل بھی ہوجائے گی اور بہت سہولت کے ساتھ اوباش اور شریر لوگوں سے حفاظت بھی۔ رہ گئی غیر حرائر یعنی کنیزیں سو ان کی حفاظت کا انتظام اگلی آیت میں آئے گا) اور (اس چہرہ کے اور سر کے ڈھانکنے میں اگر کوئی کمی یا بےاحتیاطی بلاقصد ہوجائے تو) اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے (اس کو معاف کر دے گا آگے ان لوگوں کی تنبیہ کی گئی جو کنیزوں کو چھیڑا کرتے تھے اور ان لوگوں کو بھی جو ایک دوسری شرارت کے مرتکب تھے کہ مسلمانوں کے خلاف غلط افواہیں پھیلا کر ان کو پریشان کرنا چاہتے تھے فرمایا) یہ (خاص اصل) منافقین اور (عام منافقین میں سے) وہ لوگ جن کے دلوں میں (شہوت پرستی کی) خرابی ہے (جس کی وجہ سے کنیزوں کو چھیڑتے اور پریشان کرتے ہیں) اور (انہی منافقین میں) وہ لوگ جو مدینہ میں (جھوٹی اور پریشان کرنے والی) افواہیں اڑایا کرتے ہیں (یہ لوگ) اگر (اپنی ان حرکتوں سے) باز نہ آئے تو ضرور (ایک نہ ایک دن) ہم آپ کو ان پر مسلط کردیں گے (یعنی ان کے مدینہ سے اخراج کا حکم دیں گے) پھر (اس حکم کے بعد) یہ لوگ آپ کے پاس مدینہ میں بہت ہی کم رہنے پائیں گے وہ بھی (ہر طرف سے) پھٹکارے ہوئے (یعنی مدینہ سے نکل جانے کا سامان کرنے کے لئے جو کچھ قلیل مدت معین کی جائے گی اس مدت میں تو یہ یہاں رہ لیں گے اور اس مدت میں بھی ہر طرف سے ذلیل و خوار ہوں گے، پھر نکال دیئے جائیں گے اور نکالنے کے بعد بھی کہیں امن نہ ہوگا بلکہ) جہاں ملیں گے پکڑ دھکڑ اور مار دھاڑ کی جائے گی (وجہ یہ کہ ان منافقین کے کفر کا مقتضا تو یہی تھا، لیکن نفاق کی آڑ میں ان کو پناہ ملی ہے جب علی الاعلان ایسی مخالفتیں کرنے لگیں گے، تو وہ مانع اٹھ گیا اس لئے ان کے ساتھ بھی کفر کے اصلی اقتضاء کے موافق معاملہ ہوگا کہ ان کا اخراج اور قید اور قتل سب جائز ہے، اور اگر خروج کے لئے کچھ عدت معین ہوجائے تو اس مدت کے اندر بوجہ معاہدہ کے مامون ہوں گے، اس کے بعد جہاں ملیں گے عہد ختم ہوجانے کی بنا پر ان کے قتل وقید کی اجازت ہوگی۔ منافقین کو جو یہ دھمکی دی گئی اس میں کنیزوں کو چھیڑنے کا بھی انتظام کیا اور دوسری شرارت افواہیں پھیلانے کا بھی انسداد ہوگیا۔ مطلب آیت کا یہ ہوگیا کہ اگر یہ لوگ علی الاعلان مخالفت احکام اور مسلمانوں کے خلاف حرکتوں سے باز آگئے گو اپنی درپردہ منافقانہ چالوں میں لگے رہیں تو یہ سزا جاری نہ ہوگی، ورنہ پھر عام کفار کے حکم میں داخل ہو کر سزاوار ہوجائیں گے، اور فساد و شورش پر سزا جاری کرنا کچھ انہی کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ) اللہ تعالیٰ نے ان (مفسد) لوگوں میں بھی اپنا یہی دستور (جاری) رکھا ہے جو (ان سے) پہلے ہو گزرے ہیں (کہ ان کو آسمانی سزائیں دیں یا انبیاء کے ہاتھ سے جہاد کے ذریعہ سزائیں دلوائی ہیں، پس اگر پہلے ایسا نہ ہو چکتا تو ایسی سزا میں کچھ استبعاد ہوسکتا تھا، اور اب تو اس کی کوئی گنجائش ہی نہیں) اور آپ اللہ تعالیٰ کے دستور میں (کسی شخص کی طرف سے) ردو بدل نہ پائیں گے (کہ خدا تو کوئی حکم جاری کرنا چاہئے اور کوئی اس کو روک سکے، لفظ سنتہ اللہ میں تو اس کا اظہار کردیا کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادہ سے پہلے کوئی کام نہیں کرسکتا، (آیت) ولن تجد لسنتہ اللہ تبدیلاً ، میں یہ بتلا دیا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کا ارادہ فرما لیں تو کوئی اس کو روک نہیں سکتا) معارف ومسائل سابقہ آیات میں عام مسلمانوں مردوں اور عورتوں کو ایذاء پہنچانے کا حرام اور گناہ کبیرہ ہونا اور خصوصاً سیدالمومنین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایذا کا کفر موجب لعنت ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔ منافقین کی طرف سے دو طرح کی ایذائیں سب مسلمانوں کو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچتی تھیں۔ آیات مذکورہ میں ان ایذاؤں کے انسداد کا انتظام ہے اور اس کے ضمن میں عورتوں کے پردے کے کچھ مزید احکام کا بیان ایک مناسبت سے آیا ہے جو آگے معلوم ہوجائے گی۔ ان دونوں ایذاؤں میں ایک یہ تھی کہ منافقین کے عوام اور آوارہ قسم کے لوگ مسلمانوں کی باندیوں کنیزوں کو جب وہ کام کاج کے لئے باہر نکلتیں چھیڑا کرتے تھے، اور کبھی کنیزوں کے شبہ میں حرائر کو ستاتے تھے، جس کی وجہ سے عام مسلمانوں کو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا پہنچتی تھی۔ دوسری ایذاء یہ تھی کہ یہ لوگ ہمیشہ ایسی جھوٹی خبریں اڑاتے تھے کہ اب فلاں غنیم مدینہ پر چڑھائی کرنے والا ہے۔ وہ سب کو ختم کر دے گا۔ آیات مذکورہ میں پہلی ایذاء سے حرائر (آزاد بیبیوں) کو بچانے کا فوری اور سہل انتظام یہ ہوسکتا تھا کہ ان کو یہ لوگ ان کے خاندان کی وجاہت اور حمایت کی وجہ سے باقصد چھیڑنے کی جرأت نہ کرتے تھے، کبھی کنیزوں کے شبہ میں یہ بھی ان کی چھیڑ چھاڑ کی زد میں آجاتی تھیں، اگر ان کی پہچان ہوجاتی تو یہ نوبت نہ آتی، اس لئے ضرورت پیش آئی کہ حرائر کا کوئی خاص امتیاز ہوجائے، تاکہ آسانی کے ساتھ خود بخود ہی کم از کم حرائر تو ان شریروں کے فساد سے فوری طور پر محفوظ ہوجائیں اور کنیزوں کا دوسرا انتظام کیا جائے۔ دوسری طرف شریعت اسلام نے حرائر اور کنیزوں کے پردہ شرعی میں بضرورت ایک فرق بھی رکھا ہے کہ کنیزوں کا شرعی پردہ وہ ہے جو حرائر کا اپنے محرموں کے سامنے ہوتا ہے کہ مثلاً چہرہ وغیرہ کھولنا جو حرائر کے لئے اپنے محرموں کے سامنے جائز ہے، کنیزوں کے لئے باہر بھی اس کی اجازت اس لئے دی گئی ہے کہ ان کا کام ہی اپنے آقا اور اس کے گھر کی خدمت ہے جس میں ان کو باہر بھی بار بار نکلنا پڑتا ہے، اور چہرہ اور ہاتھ مستور رکھنا مشکل ہوتا ہے، بخلاف حرائر کے کہ ان کو کسی ضرورت سے باہر نکلنا بھی پڑے تو کبھی کبھی ہوگا جس میں پورے پردے کی رعایت مشکل نہیں، اس لئے حرائر کو یہ حکم دے دیا گیا کہ وہ لمبی چادر جس میں مستور ہو کر نکلتی ہیں اس کو اپنے سر پر سے چہرے کے سامنے لٹکا لیا کریں تاکہ چہرہ اجنبی مردوں کے سامنے نہ آئے اس سے ان کا پردہ بھی مکمل ہوگیا، اور باندیوں کنیزوں سے امتیاز خاص بھی ہوگیا، جس کے سبب وہ شریر لوگوں کی چھیڑ چھاڑ سے خود بخود مامون ہوگئیں۔ اور کنیزوں کی حفاظت کا انتظام ان منافقین کو سزا کی وعید سنا کر کیا گیا کہ اس سے باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ ان کو دنیا میں بھی اپنے نبی اور مسلمانوں کے ہاتھوں سزا دلوائیں گے۔ آیت مذکورہ میں حرہ (آزاد) عورتوں کے پردہ کے لئے یہ حکم ہوا ہے کہ (آیت) یدنین علیہن من جلابیبہن، اس میں یدنین، اوناً سے مشتق ہے، جس کے لفظی معنی قریب کرنے کے ہیں اور لفظ علیہن کے معنی اپنے اوپر اور جلابیب جمع جلباب کی ہے جو ایک خاص لمبی چادر کو کہا جاتا ہے، اس چادر کی ہئیت کے متعلق حضرت ابن مسعود نے فرمایا کہ وہ چادر ہے جو دوپٹہ کے اوپر اوڑھی جاتی ہے (ابن کثیر) اور حضرت ابن عباس نے اس کی ہئیت یہ بیان فرمائی ہے : ” اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی عورتوں کو حکم دیا کہ جب وہ کسی ضرورت سے اپنے گھروں سے نکلیں تو اپنے سروں کے اوپر سے یہ چادر لٹکا کر چہروں کو چھپا لیں اور صرف ایک آنکھ (راستہ دیکھنے کے لئے) کھلی رکھیں “ اور امام محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبیدہ سلمانی سے اس آیت کا مطلب اور جلباب کی کیفیت دریافت کی تو انہوں نے سر کے اوپر سے چادر چہرہ پر لٹکا کر چہرہ چھپا لیا، اور صرف بائیں آنکھ کھلی رکھ کر ادنا وجلباب کی تفسیر عملاً بیان فرمائی۔ سر کے اوپر سے چہرہ پر چادر لٹکانا جو حضرت ابن عباس اور عبیدہ سلمانی کے بیان میں آیا ہے یہ لفظ علیہن کی تفسیر ہے کہ اپنے اوپر چادر کو قریب کرنے کا مطلب چادر کو سر کے اوپر سے چہرہ پر لٹکانا ہے۔ اس آیت نے بصراحت چہرہ کے چھپانے کا حکم دیا ہے جس سے اس مضمون کی مکمل تائید ہوگئی جو اوپر حجاب کی پہلی آیت کے ذیل میں مفصل بیان ہوچکا ہے، کہ چہرہ اور ہتھیلیاں اگرچہ فی نفسہ ستر میں داخل نہیں مگر بوجہ خوف فتنہ کے ان کا چھپانا بھی ضروری ہے، صرف مجبوری کی صورتیں مستثنیٰ ہیں۔ تنبیہ ضروری : اس آیت میں حرہ عورتوں کو ایک خاص طرح کے پردہ کی ہدایت فرمائی کہ چادر کو سر کے اوپر سے لٹکا کر چہرے کو چھپا لیں، تاکہ عام کنیزوں سے ان کا امتیاز ہوجائے اور یہ شریر لوگوں کے فتنہ سے محفوظ ہوجائیں۔ مذکورہ الصدر بیان میں یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسلام نے عصمت وعفت کی حفاظت میں حرائر اور کنیزوں کے درمیان کوئی فرق کردیا کہ حرائر کی حفاظت کرائی، کنیزوں کو چھوڑ دیا، بلکہ درحقیقت یہ فرق اوباش شریر لوگوں نے خود کر رکھا تھا، کہ حرائر پر دست اندازی کی تو جرأت وہمت نہیں کرتے تھے، مگر اماء یعنی کنیزوں کو چھیڑتے تھے، شریعت اسلام نے ان کے اختیار کردہ اس فرق سے یہ فائدہ اٹھایا کہ عورتوں کی اکثریت تو خود انہی کے مسلمہ عمل کے ذریعہ خود بخود محفوظ ہوجائے گی، باقی رہا کنیزوں کا معاملہ سو ان کی عصمت کی حفاظت بھی اسلام میں ایسی ہی فرض و ضروری ہے جیسی حرائر کی۔ اس کے لئے قانونی تشدد اعتبار کئے بغیر چارہ نہیں، تو اگلی آیت میں اس کا قانون بتلا دیا کہ جو لوگ اپنی اس حرکت سے باز نہ آئیں گے ان کو کسی طرح معاف نہ کیا جائے گا، بلکہ جہاں ملیں گے پکڑے جائیں گے، اور قتل کردیئے جائیں گے، اس نے کنیزوں کی عصمت کو بھی حرائر کی طرح محفوظ کردیا۔ اس سے واضح ہوگیا کہ علامہ ابن حزم وغیرہ نے جو مذکورہ شبہ سے بچنے کیلئے آیت کی تفسیر جمہور علماء سے مختلف کرنے کی تاویل کی ہے۔ اس کی کوئی ضرورت نہیں، شبہ تو جب ہوتا جبکہ کنیزوں کی حفاظت کا انتظام نہ کیا گیا ہوتا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْہِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِہِنَّ۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ۝ ٠ ۭ وَكَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۝ ٥٩ نبی النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة «2» ، وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» «3» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک . ( ن ب و ) النبی بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔ زوج يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] ، وقال : وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة/ 35] ، وزَوْجَةٌ لغة رديئة، وجمعها زَوْجَاتٌ ، قال الشاعر : فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتي وجمع الزّوج أَزْوَاجٌ. وقوله : هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس/ 56] ، احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] ، أي : أقرانهم المقتدین بهم في أفعالهم، وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر/ 88] ، أي : أشباها وأقرانا . وقوله : سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس/ 36] ، وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، فتنبيه أنّ الأشياء کلّها مركّبة من جو هر وعرض، ومادّة وصورة، وأن لا شيء يتعرّى من تركيب يقتضي كونه مصنوعا، وأنه لا بدّ له من صانع تنبيها أنه تعالیٰ هو الفرد، وقوله : خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، فبيّن أنّ كلّ ما في العالم زوج من حيث إنّ له ضدّا، أو مثلا ما، أو تركيبا مّا، بل لا ينفكّ بوجه من تركيب، وإنما ذکر هاهنا زوجین تنبيها أنّ الشیء۔ وإن لم يكن له ضدّ ، ولا مثل۔ فإنه لا ينفكّ من تركيب جو هر وعرض، وذلک زوجان، وقوله : أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه/ 53] ، أي : أنواعا متشابهة، وکذلک قوله : مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام/ 143] ، أي : أصناف . وقوله : وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة/ 7] ، أي : قرناء ثلاثا، وهم الذین فسّرهم بما بعد وقوله : وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير/ 7] ، فقد قيل : معناه : قرن کلّ شيعة بمن شایعهم في الجنّة والنار، نحو : احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] ، وقیل : قرنت الأرواح بأجسادها حسبما نبّه عليه قوله في أحد التّفسیرین : يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر/ 27- 28] ، أي : صاحبک . وقیل : قرنت النّفوس بأعمالها حسبما نبّه قوله : يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران/ 30] ، وقوله : وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان/ 54] ، أي : قرنّاهم بهنّ ، ولم يجئ في القرآن زوّجناهم حورا، كما يقال زوّجته امرأة، تنبيها أن ذلک لا يكون علی حسب المتعارف فيما بيننا من المناکحة . ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نر اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مماثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى [ القیامة/ 39] اور ( آخر کار ) اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی ) مرد اور عورت ۔ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة/ 35] اور تیری بی بی جنت میں رہو ۔ اور بیوی کو زوجۃ ( تا کے ساتھ ) کہنا عامی لغت ہے اس کی جمع زوجات آتی ہے شاعر نے کہا ہے فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتیتو میری بیوی اور بیٹیاں غم سے رونے لگیں ۔ اور زوج کی جمع ازواج آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس/ 56] وہ اور ان کے جوڑے اور آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] جو لوگ ( دنیا میں ) نا فرمانیاں کرتے رہے ہیں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ( ایک جگہ ) اکٹھا کرو ۔ میں ازواج سے ان کے وہ ساتھی مراد ہیں جو فعل میں ان کی اقتدا کیا کرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر/ 88] اس کی طرف جو مختلف قسم کے لوگوں کو ہم نے ( دنیاوی سامان ) دے رکھے ہیں ۔ اشباہ و اقران یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ مراد ہیں اور آیت : ۔ سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس/ 36] پاک ہے وہ ذات جس نے ( ہر قسم کی ) چیزیں پیدا کیں ۔ نیز : ۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] اور تمام چیزیں ہم نے دو قسم کی بنائیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ تمام چیزیں جوہر ہوں یا عرض مادہ و صورت سے مرکب ہیں اور ہر چیز اپنی ہیئت ترکیبی کے لحا ظ سے بتا رہی ہے کہ اسے کسی نے بنایا ہے اور اس کے لئے صائع ( بنانے والا ) کا ہونا ضروری ہے نیز تنبیہ کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ ہی فرد مطلق ہے اور اس ( خلقنا زوجین ) لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ روئے عالم کی تمام چیزیں زوج ہیں اس حیثیت سے کہ ان میں سے ہر ایک چیز کی ہم مثل یا مقابل پائی جاتی ہے یا یہ کہ اس میں ترکیب پائی جاتی ہے بلکہ نفس ترکیب سے تو کوئی چیز بھی منفک نہیں ہے ۔ پھر ہر چیز کو زوجین کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ اگر کسی چیز کی ضد یا مثل نہیں ہے تو وہ کم از کم جوہر اور عرض سے ضرور مرکب ہے لہذا ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر زوجین ہے ۔ اور آیت أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه/ 53] طرح طرح کی مختلف روئیدگیاں ۔ میں ازواج سے مختلف انواع مراد ہیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہوں اور یہی معنی آیت : ۔ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ہر قسم کی عمدہ چیزیں ( اگائیں ) اور آیت کریمہ : ۔ ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام/ 143]( نر اور مادہ ) آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں ۔ میں مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة/ 7] میں ازواج کے معنی ہیں قرناء یعنی امثال ونظائر یعنی تم تین گروہ ہو جو ایک دوسرے کے قرین ہو چناچہ اس کے بعد اصحاب المیمنۃ سے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير/ 7] اور جب لوگ باہم ملا دیئے جائیں گے ۔ میں بعض نے زوجت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہر پیروکار کو اس پیشوا کے ساتھ جنت یا دوزخ میں اکٹھا کردیا جائیگا ۔ جیسا کہ آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] میں مذکور ہوچکا ہے اور بعض نے آیت کے معنی یہ کئے ہیں کہ اس روز روحوں کو ان کے جسموں کے ساتھ ملا دیا جائیگا جیسا کہ آیت يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر/ 27- 28] اے اطمینان پانے والی جان اپنے رب کی طرف لوٹ آ ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ۔ میں بعض نے ربک کے معنی صاحبک یعنی بدن ہی کئے ہیں اور بعض کے نزدیک زوجت سے مراد یہ ہے کہ نفوس کو ان کے اعمال کے ساتھ جمع کردیا جائیگا جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران/ 30] جب کہ ہر شخص اپنے اچھے اور برے عملوں کو اپنے سامنے حاضر اور موجود پائیگا ۔ میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان/ 54] اور ہم انہیں حورعین کا ساتھی بنا دیں گے ۔ میں زوجنا کے معنی باہم ساتھی اور رفیق اور رفیق بنا دینا ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جہاں بھی حور کے ساتھ اس فعل ( زوجنا ) کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے بعد باء لائی گئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حوروں کے ساتھ محض رفاقت ہوگی جنسی میل جول اور ازواجی تعلقات نہیں ہوں گے کیونکہ اگر یہ مفہوم مراد ہوتا تو قرآن بحور کی بجائے زوجناھم حورا کہتا جیسا کہ زوجتہ امرءۃ کا محاورہ ہے یعنی میں نے اس عورت سے اس کا نکاح کردیا ۔ نِّسَاءُ والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات/ 11] ما بالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف/ 50] النساء والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات/ 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف/ 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔ دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] ، دنا اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ جلب أصل الجَلْب : سوق الشیء . يقال : جَلَبْتُ جَلْباً ، قال الشاعر وقد يجلب الشیء البعید الجوالب وأَجْلَبْتُ عليه : صحت عليه بقهر . قال اللہ عزّ وجل : وَأَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ [ الإسراء/ 64] ، والجَلَب المنهي عنه في قوله عليه السلام : «لا جَلَب» قيل : هو أن يجلب المصّدّق أغنام القوم عن مرعاها فيعدها، وقیل : هو أن يأتي أحد المتسابقین بمن يجلب علی فرسه، وهو أن يزجره ويصيح به ليكون هو السابق . والجُلْبَة : قشرة تعلو الجرح، وأجلب فيه، والجِلْبُ : سحابة رقیقة تشبه الجلبة . والجَلابیب : القمص والخمر، الواحد : جِلْبَاب . ( ج ل ب ) جلب ( ن ض ) اس کے اصل معنی کسی چیز کو ہنکاتے اور چلاتے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ کبھی جواب دور کی چیز کو کھینچ کرلے آتا ہے ۔ اجنب ( افعال ) علیہ کسی پر چلا کر زبر دستی ( سے آگے بڑھانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ [ الإسراء/ 64] اور ان پر اپنے سواروں اور پیادوں کو چڑھا کر لاتا رہ ۔ اور حدیث لاجنب ( یعنی جلب جائز نہیں ہے ) کے دو معنی بیان کئے جاتے ہیں ، ایک یہ کہ مصدق یعنی زکوۃ جمع کرنے والا چراگاہ سے کہیں دور بیٹھ جائے اور وہاں جانوروں کو حاضر کرنے کا حکم دے اور گھڑ دوڑ میں اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک شخص دوڑ میں اپنے گھوڑے پر پہنچنے کے لئے ایک آدمی کو مقرر کرے تاکہ وہ آگے بڑھ جائے ۔ الجلبۃ ۔ پوست جراحی کہ خشک شدہ باشد ۔ الجلب ۔ پتلا سا بادل جو زخم کے پردہ کیطرح ہوتا ہے الجلا لیب اس کا واحد جلباب ہے جس کے معنی چادر یا قمیص کے ہیں ۔ عرف المَعْرِفَةُ والعِرْفَانُ : إدراک الشیء بتفکّر وتدبّر لأثره، وهو أخصّ من العلم، ويضادّه الإنكار، قال تعالی: فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة/ 89] ، فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] ( ع رف ) المعرفۃ والعرفان کے معنی ہیں کسی چیز کی علامات وآثار پر غوروفکر کرکے اس کا ادراک کرلینا یہ علم سے اخص یعنی کم درجہ رکھتا ہے اور یہ الانکار کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛ فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة/ 89] پھر جس کو وہ خوب پہنچانتے تھے جب ان کے پاس آپہنچی تو اس کافر ہوگئے ۔ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ ان کو نہ پہچان سکے ۔ أذي الأذى: ما يصل إلى الحیوان من الضرر إمّا في نفسه أو جسمه أو تبعاته دنیویاً کان أو أخرویاً ، قال تعالی: لا تُبْطِلُوا صَدَقاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذى [ البقرة/ 264] ، قوله تعالی: فَآذُوهُما [ النساء/ 16] إشارة إلى الضرب، ونحو ذلک في سورة التوبة : وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ : هُوَ أُذُنٌ [ التوبة/ 61] ، وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة/ 61] ، ولا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسی [ الأحزاب/ 69] ، وَأُوذُوا حَتَّى أَتاهُمْ نَصْرُنا [ الأنعام/ 34] ، وقال : لِمَ تُؤْذُونَنِي [ الصف/ 5] ، وقوله : يَسْئَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ : هُوَ أَذىً [ البقرة/ 222] ( ا ذ ی ) الاذیٰ ۔ ہرا س ضرر کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کو پہنچتا ہے وہ ضرر جسمانی ہو یا نفسانی یا اس کے متعلقات سے ہو اور پھر وہ ضرر دینوی ہو یا اخروی چناچہ قرآن میں ہے : ۔ { لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى } ( سورة البقرة 264) اپنے صدقات ( و خیرات ) کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر برباد نہ کرو ۔ اور آیت کریمہ ۔ { فَآذُوهُمَا } ( سورة النساء 16) میں مار پٹائی ( سزا ) کی طرف اشارہ ہے اسی طرح سورة تو بہ میں فرمایا ۔ { وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ } ( سورة التوبة 61) اور ان میں بعض ایسے ہیں جو خدا کے پیغمبر کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص نرا کان ہے ۔ { وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة التوبة 61) اور جو لوگ رسول خدا کو رنج پہنچاتے ہیں ان کے لئے عذاب الیم ( تیار ) ہے ۔ { لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى } ( سورة الأحزاب 69) تم ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو تکلیف دی ( عیب لگا کر ) رنج پہنچایا ۔ { وَأُوذُوا حَتَّى أَتَاهُمْ نَصْرُنَا } ( سورة الأَنعام 34) اور ایذا ( پر صبر کرتے رہے ) یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد پہنچتی رہی ۔ { لِمَ تُؤْذُونَنِي } ( سورة الصف 5) تم مجھے کیوں ایذا دیتے ہو۔ اور آیت کریمہ : ۔ { وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ } ( سورة البقرة 222) میں حیض ( کے دنوں میں عورت سے جماع کرنے ) کو اذی کہنا یا تو از روئے شریعت ہے یا پھر بلحاظ علم طب کے جیسا کہ اس فن کے ماہرین بیان کرتے ہیں ۔ اذیتہ ( افعال ) ایذاء و اذیۃ و اذی کسی کو تکلیف دینا ۔ الاذی ۔ موج بحر جو بحری مسافروں کیلئے تکلیف دہ ہو ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (یایھا النبی قل لازواجک وبناتک نسآء المومنین یدنین علیھن من جلا بیھن۔ اے نبی ! آپ اپنی بیویوں، بیٹیوں اور ایمان والوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی چادریں اپنے اوپر تھوڑی سی نیچی کرلیا کریں) حضرت عبداللہ (رض) سے مروی ہے کہ جلیاب چادر کو کہتے ہیں۔ ابن ابی نجیح نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ چادریں اوڑھ لیا کریں تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ یہ حرائر یعنی آزاد خواتین ہیں لونڈیاں نہیں ہیں۔ اور اس طرح کوئی آوارہ منش انسان ان سے کوئی تعرض نہ کرسکے۔ محمد بن سیرین نے عبیدہ سے روایت کی ہے کہ چادر لپیٹ لیں اور ایک آنکھ کھلی رکھیں۔ ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی ہے۔ انہیں حسن بن ابی ربیع نے انہیں عبدالرزاق نے، انہیں معمر نے حسن سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ مدینہ میں فلاں فلاں نام کی چنڈ لونڈیاں تھیں جب وہ باہر نکلتیں تو نادان لوگ انہیں چھیڑتے اور ایذا پہنچاتے۔ اگر کوئی آزاد یعنی شریف اور خاندانی عورت باہر نکلتی تو اسے لونڈی خیال کرکے اسے بھی چھیڑتے اور تکلیف پہنچاتے۔ اللہ تعالیٰ نے مومن عورتوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے اوپر پڑی ہوئی چادریں ذرا نیچی رکھیں۔ اس سے وہ جلد پہچان لی جاتیں کہ یہ لونڈیاں نہیں ہیں بلکہ آزاد خواتین ہیں اور پھر انہیں ستانے کی کوئی ہمت نہ کرتا۔ حضرت ابن عباس (رض) اور مجاہد کا قول ہے کہ حوہ یعنی آزاد عورت جب باہر نکلے تو وہ اپنی پیشانی اور سر ڈھانپ کر رکھے ۔ یہ ہیئت لونڈیوں کی ہیئت کے خلاف تھی جو اپنی پیشانی اور سر کھلا رکھتی تھیں۔ ہمیں عبدالہل بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں حسن نے، انہیں عبدالرزاق نے، انہیں معمر نے ابو خیثم سے، انہوں نے صفیہ بنت شیبہ سے اور انہوں نے حضرت ام سلمہ (رض) سے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو انصار کے کچھ خواتین باہر نکلیں۔ انہوں نے اپنے سروں پر سیاہ کپڑے باندھ رکھے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ ان کے سروں پر کوئے بیٹھے ہیں۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس آیت میں اس امر پر دلالت موجود ہے کہ جوان عورت کو اجنبی مردوں سے اپنا چہرہ چھپائے رکھنے کا حکم ہے۔ نیز باہر نکلنے کی صورت میں پردہ کرنے پر پاکبازی ظاہر کرنے کا حکم ہے تاکہ مشکوک لوگوں کے دلوں میں ان کے متعلق کوئی غلط آرزو پیدا نہ ہوسکے۔ اس میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ لونڈی کو اپنا چہرہ اور اپنے بال چھپانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ قول باری (و نسآء المومنین) سے ظاہراً آزاد خواتین مراد ہیں۔ اس آیت کی تفسیر میں اسی طرح کی روایت ہے تاکہ اس کی ہیئت لونڈیوں کی ہیئت سے مختلف ہوجائے جنہیں اپنا سرا ور چہرہ چھپانے کا حکم نہیں ہے۔ اس طرح پردے کو آزاد وخاتون اور لونڈی کے درمیان فرق اور شناخت کا ذریعہ بنادیا گیا۔ حضرت عمر (رض) کے متعلق مروی ہے کہ آپ لونڈیوں کو ڈانٹ کر کہتے کہ اپنا سر کھلا رکھو اور آزاد وخواتین کی مشابہت اختیار نہ کرو۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے نبی کریم اپنی ازواج مطہرات اور اپنی صاحبزادیوں اور دوسرے مسلمانوں کی عورتوں سے بھی فرما دیجیے کہ اپنے چہرے اور سینوں پر سر سے چادریں نیچی کرلیا کریں اس پردہ کے حکم پر عمل کرنے آزاد عورتوں کو ممتاز طریقہ پر جلدی پہچان ہوجایا کرے گی تو ان کو تکلیف نہیں دی جایا کرے گی اور اللہ تعالیٰ پچھلی باتوں کا بخشنے والا اور موجودہ حالت پر مہربان ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

اگلی آیات میں پردے سے متعلق مزید احکام دیے جا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ آیات میں اس حوالے سے ہم دو احکام پڑھ چکے ہیں۔ ان میں پہلا حکم یہ تھا کہ عورتوں کا اصل مقام ان کا گھر ہے ‘ وہ گھروں میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں نبھائیں اور بلا ضرورت گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ جبکہ دوسرا حکم مردوں اور عورتوں کے باہمی میل جول پر پابندی سے متعلق تھا کہ غیر محرم مردوں کو دوسروں کے گھروں میں داخلے کی اجازت نہیں۔ اگر ضرورت کے تحت کسی مرد کو کسی غیر محرم خاتون سے کوئی بات کرنی ہو تو رُو در رُو نہیں ‘ بلکہ پردے کے پیچھے رہ کر بات کرے۔ اب اگلی آیت میں اس سلسلے کا تیسرا حکم دیا جا رہا ہے کہ مسلمان خواتین اگر کسی ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکلیں تو کس انداز سے نکلیں۔ آیت ٥٩ { یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لّاَِِزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَآئِ الْمُؤْمِنِیْنَ } ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اپنی بیویوں ‘ اپنی بیٹیوں اور اہل ایمان خواتین سے کہہ دیں کہ “ گویا اب اصلاحات کا دائرہ وسیع ہورہا ہے۔ چناچہ اس حکم میں کاشانہ نبوت کی خواتین کے علاوہ عام مسلمان خواتین کو بھی شامل کرلیا گیا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے انہیں حکم دیا گیا : { یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ } ” وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصہ لٹکا لیا کریں۔ “ اس حکم کے متوازی سورة النور کی آیت ٣١ کے یہ الفاظ بھی ذہن میں تازہ کرلیں : { وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ } ” اور وہ ڈالے رکھیں اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر۔ “ سورة النور کے مطالعے کے دوران اس آیت کے حوالے سے یہ وضاحت گزر چکی ہے کہ اسلام سے قبل بھی عرب خواتین کے ہاں اوڑھنی اور چادر کے استعمال کا رواج تھا۔ اس حوالے سے ان کے ہاں ” اوڑھنی “ تو گویا لباس کا مستقل جزو تھا جسے خواتین گھر کے اندر بھی اوڑھے رکھتی تھیں (جیسے کہ ہمارے ہاں بھی اکثر عورتیں دوپٹہ یا اوڑھنی ہر وقت اوڑھے رکھتی ہیں) جبکہ خاندانی شریف خواتین گھر سے باہر جاتے ہوئے ایک بڑی سی چادر لپیٹ کر نکلتی تھیں۔ جتنے اونچے خاندان سے کسی خاتون کا تعلق ہوتا اسی قدر زیادہ احتیاط سے وہ چادر کا اہتمام کرتی تھی۔ البتہ عرب خواتین کے ہاں قبل از اسلام چہرہ ڈھانپنے کا کوئی رواج نہیں تھا۔ چناچہ اس حکم کے تحت خواتین کے چادر اوڑھنے کے مروّجہ طریقہ پر یہ اضافہ کیا گیا کہ خواتین گھر سے باہر نکلتے ہوئے اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے چہرے پر بھی ڈال لیا کریں ‘ یعنی گھونگھٹ لٹکا لیا کریں۔ اسی حکم کی بنا پر خواتین کے نقاب کرنے کا تصور پیدا ہوا ہے۔ جیسا کہ آج بھی ہمارے دیہات میں خواتین گھر سے باہر چادر سے اپنا چہرہ چھپائے ہوئے نظر آتی ہیں۔ خاص طور پر پختون کلچر میں زیادہ تر خواتین نقاب کا اہتمام کرتی ہیں یا بڑی سی چادر اس طرح لپیٹ لیتی ہیں کہ بس ایک آنکھ کھلی رہتی ہے۔ ایران کے دیہاتی ماحول میں بھی اس کا رواج دیکھا گیا ہے ‘ البتہ ایرانی شہروں میں صورت حال بالکل مختلف ہے۔ بلکہ وہاں اصولی طور پر گویا طے کرلیا گیا ہے کہ پردے کے حکم میں چہرہ شامل نہیں ہے ‘ حالانکہ یہ بات قرآن کی رو سے غلط ہے۔ چہرے کے پردے کے حوالے سے آیت ٥٣ میں { فَسْئَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍط } کے الفاظ خصوصی طور پر توجہ طلب ہیں کہ پردے کے پیچھے سے بات کرنے کی پابندی کا آخر مقصد کیا ہے۔ کیا خدانخواستہ ازواجِ مطہرات (رض) گھر کے اندر اوڑھنی کے بغیر ہوا کرتی تھیں ؟ اور اگر ایسا نہیں تھا تو پھر غیر محرم مردوں کو اس قدر اہتمام کے ساتھ پردے کے پیچھے سے بات کرنے کا حکم آخرکیوں دیا گیا ہے ؟ بہر حال بلا تعصب غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اس حکم کے ذریعے دراصل چہرے کے پردے کا اہتمام کیا گیا ہے تاکہ کسی غیر محرم مرد کی نظر ان کے چہرے پر نہ پڑے۔ چناچہ اسی اصول کے تحت آیت زیر مطالعہ میں فرمایا گیا کہ مسلمان خواتین گھروں سے باہر نکلیں تو اپنی چادریں اچھی طرح اوڑھ لپیٹ کر ان کا ایک حصہ یا ان کا پلو ّاپنے چہروں پر ڈال لیا کریں ‘ جسے عرف عام میں گھونگھٹ لٹکانا کہتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہاں ” جَلابیب “ کا لفظ آیا ہے جو ” جِلباب “ کی جمع ہے اور جِلباب کے معنی بڑی چادر کے ہیں۔ اس کے مقابل سورة النور کی آیت ٣١ میں لفظ خُمُر استعمال ہوا ہے ‘ جس کا واحد خمار ہے اور اس سے چھوٹی اوڑھنی مراد ہے ‘ جسے گھر کے اندر ہر وقت اوڑھا جاتا ہے۔ ” جِلباب “ کی تشریح اہل لغت نے یوں کی ہے : ” ھو الرداء فوق الخمار “ یعنی جلباب اس بڑی چادر کو کہتے ہیں جو اوڑھنی کے اوپر لی جاتی ہے۔ { ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ } ” یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں تو انہیں کوئی ایذا نہ پہنچائی جائے۔ “ تاکہ دیکھنے والے خود بخود پہچان لیں کہ کوئی خاندانی شریف خاتون جا رہی ہے۔ عرب کے اس ماحول میں لونڈیاں بغیر چادر کے کھلے عام پھرتی تھیں۔ اہل ایمان عورتوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے لباس میں لونڈیوں سے مشابہ بن کر گھروں سے نہ نکلیں کہ ان کے چہرے اور سر کے بال کھلے ہوں ‘ بلکہ اپنے چہروں پر اپنی چادروں کا ایک حصہ لٹکا لیا کریں تاکہ کوئی فاسق یا منافق ان کو چھیڑنے کی جرات نہ کرے۔ { وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا } ” اور اللہ بہت بخشنے والا ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

110 Jilbab is a large sheet and idna' is to draw close and wrap up, but when this word is used with the associating particle ala, it gives the meaning of letting something down from above. Some modern translators, under the influence of the West, have translated this word "to wrap up" so as to avoid somehow the Command about covering of the face. But if Allah had meant what these gentlemen want to consture, He would have said: yudnina ilai-hinna and not yudnina alai-hinna. Anyone who knows Arabic knows that yudnina 'alai-hinna cannot merely mean "wrapping up. " Moreover, the words min jalabib-i hinna also do not permit of this meaning. It is obvious that the preposition min here signifies a part of the sheet, and also that wrapping up is done by means of a whole sheet and not merely by a part of it. The verse, therefore, clearly means : The women should wrap themselves up well in their sheets, and should draw and let down a part of the sheet in front of the face. This same meaning was understood by the major commentators who lived close to the time of the Holy Prophet. Ibn Jarir and Ibn al-Mundhir have related that Muhammad bin Sirin asked Hadrat `Ubaidah as-Salmani the meaning of this verse. (This Hadrat `Ubaidah had become a Muslim in the time of the Holy Prophet but had not been able to visit him. He came to Madinah in the time of Hadrat 'Umar and settled down there. He was recognized as equal in rank with Qadi Shuraih in jurisprudence and judicial matters). Instead of giving a verbal reply Hadrat 'Ubaidah put on his sheet and gave a practical demonstration by covering his head and forehead and face and an eye, leaving only the other eye uncovered. Ibn 'Abbas also has made almost the same commentary. In his statements which have been reported by Ibn Abi Hatim and Ibn Marduyah, he says: "Allah has commanded the women that when they move .out of their houses for an outdoor duty, they should conceal their faces by drawing and letting down aver themselves a part of their sheets, keeping only the eyes uncovered. " The same explanation of this verse has been given by Qatadah and Suddi. All the great commentators who have passed after the period of the Companions and their immediate followers have given the same meaning of this verse. Imam Ibn Jarir Tabari, in his commentary of this verse, says: "The respectable women should not look like the slave-girls from their dress when they move out of their houses, with uncovered faces and loose hair; they should rather draw and Iet down over them a part of their sheets or outer-garments so that no evil person may dare molest them." (Jami'al Bayan, vol. XXII, p. 33). 'Allama Abu Bakr al-Jassas says: "This verse points out that the young woman has been commanded to conceal her face from the other men; when moving out of the house she should cover herself up well to express chastity and purity of character so that people of doubtful character do not cherish any false hope when they see her. " (Ahkam al-Qur'an, vol. III, p. 458). 'Allama Zamakhshari says: "It means that they should Iet down a part of their sheet over themselves, and should cover their faces and wrap up their sides well." (AI-Kashshaf, vol. II, p. 221). 'Allama Nizamuddin Nishapuri says: "That is, they should Iet down a part of the sheet over them: in this verse, the women have been commanded to cover the head and face. " (Ghara'ib al-Qur an, vol. XXII, p. 32). Imam Razi says: "What is mean is that the people may know that they are not promiscuous women. For the woman who covers her face, though the face is not included in the satar, cannot be expected to uncover her satar, which is obligatory to cover before the other man. Thus, everyone will know that they are modest and virtuous women who cannot be expected to do anything indecent." (Tafsir Kabir. vol. VI, p 591) Incidentally, another thing that is proved by this verse is that the Holy Prophet had several daughters, for Allah Himself says: "O Prophet, enjoin your wives and daughters." These words absolutely refute the assertion of those people who without any fear of God make the claim that the Holy Prophet had only one daughter, Hadrat Fatimah, and the other daughters were not froth his own loins but by the former husbands. These people are so blinded by prejudice that they do not even bother to consider what crime they arc committing by denying the parentage of the children of the Holy Prophet, and what severe punishment will await them in the Hereafter. AII authentic traditions concur that from Hadrat Khadijah the Holy Prophet had not one daughter, Hadrat Fatimah, but three other daughters as well. The Holy Prophet's earliest biographer, Muhammad bin Ishaq, after mentioning his marriage with Hadrat Khadijah, says; "She was the mother of aII the Holy Prophet's children except Ibrahim, namely Qasim and Tahir and Tayyib and Zainab and Ruqayyah and Umm Kulthum and Fatimah." (Ibn Hisham, vol. I, p. 202). The famous genealogist, Hashim bin Muhammad bin as-Sa'ib al-Kalbi, states: 'The first born child to the, Messenger. of Allah before his call to Prophethood was Qasim; then Zainab was born to him, then Ruqayyah, then Umm Kulthum." (Tabaqat Ibn Sa'd, vol. I, p. 133). Ibn Hazam writes in Jawami' asSirah that from Hadrat Khadijah the Holy Prophet had four daughters, the eldest being Zainab, then Ruqayyah, then Fatimah and then Umm Kulthum (pp. 38-39). Tabari, Ibn Sa'd, Abu Ja'far Muhammad bin Habib (author of Kitab al-Muhabbar) and Ibn 'Abd al-Bart (author of Kitab al-lsti'ab) state on the strength of authentic sources that before her marriage with the Holy Prophet Hadrat Khadijah had two husbands, Abu Halah Tamimi by whom she had a son named Hind bin Abu Halah, and 'Atiq bin 'A'idh Makhzumi, by whom she had a daughter named Hind. Then she was married to the Holy Prophet and aII the genealogists agree that from his loins she had the four daughters as stated above. (See Tabari, vol. ll, p. 411: tabaqat Ibn Sa'd, vol. VIII, pp. 14-16; Kitab al-Muhabbar, pp. 78, 79, 452; .9l-Isti'ab, vol. II, p. 718). AII these statements are authenticated by the Qur'anic declaration that the Holy Prophet had not one but several daughters. 111 "... will thus be recognized": will be recognized to be noble and chaste women from their simple and modest dress, and not w omen of iII repute from whom some wicked person could cherish evil hopes. ''.. are not molested": will not be teased but Iet alone. Let us pause here for a while and try to understand what spirit of the social law of Islam is being expressed by this Qur'anic Command and what is its object which Allah Himself has stated. Before this in Surah An-Nur: 31, the women have been forbidden to display their adornments before others except such and such men and women, and "also that they should not stamp their feet on the ground lest their hidden decoration (ornaments) should be known." If that Command is read with this verse of AI-Ahzab it becomes obvious that the intention of the Command for the woman to cover herself well with the sheet here is to conceal her adornments from others. And, evidently, this purpose can be fulfilled only if the sheet or the outer-garment itself is simple; otherwise wrapping up oneself with a decorated and attractive sheet will defeat the purpose itself. Besides, Allah does not onlv command the woman to conceal her adornment by covering herself with the sheet, but also enjoins that she should Iet down a pan of the sheet over herself. No sensible person can take any other meaning of this Command than that it requires to conceal the face along with the concealment of the adonunents of the body and dress. Then, Allah Himself states the reason for enjoining the Command, saying: "This is an appropriate way by adopting which the Muslim women will be recognized and will remain safe from trouble." Evidently, this instruction is being given to those women who regard flirtation and stares and evil advances by men as annoying and troublesome and not as enjoyable, who do not want to be counted among ill-reputed, immodest societygirls, but wish to be known as chaste and modest domestic women. To such noble and pious women Allah says: 'If you really wish to be known as good women, and the men's lustful attention is not pleasurable but embarrassing for you, then you should not come out of your houses in full make-up like the newly-wed brides so as to display your beauty and physical charms before the greedy eyes of the people, but the best way for this would be that you should come out in a simple sheet fully concealing your adormments and covering your face and walking in a manner that even the jingle of your ornaments does not attract attention. The woman who applies herself to make-up and does not step out of the house until she has fully embellished and decorated herself with every adornment cannot have any other intention that to become the center of attention of aII the men, whom she herself allures. After this if she complains that the greedy looks of the people cause embarrassment to her, and she dces not wish to be known as a "society woman" and a "popular lady", but wants to live as a chaste house-wife, it will be nothing but a fraud. It is not the word of the mouth of a person that determines his intention, but his real intention is manifested in his act and mode of behavior. Therefore, the act of the woman who appears before the other then attractively itself shows what motivates her behaviour. That is why the mischievous people cherish the same hopes from her as can be cherished from such a woman. The Qur'an tells the women: "You cannot be chaste women and society women at one and the same time. If you want to live as modest, chaste women, you will have to give up the ways that are conducive to becoming society women only, and adopt the way of life that can be helpful in becoming chaste women. " Whether a man's personal opinion is according to the Qur'an or opposed to it, and whether he wants to accept the Qur'anic guidance as a practical guide for himself or not, in any case if he does not wish to be intellectually dishonest in interpreting the Qur'an, he cannot fail to understand its real intention. If he is not a hypocrite he will frankly admit that the Qur'an's intention is what has been stated above. After this if he violates any Command, he will do so with the realization that he is violating the Qur'anic Command, or regards the Qur'anic guidance as wrong. 112 That is, "Allah will forgive the errors and mistakes that were committed in the pre-Islamic days of ignorance, provided that you reform yourselves now when you have received clear guidance, and do not violate it intentionally. "

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :110 اصل الفاظ ہیں یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَا بِیْبِھِنَّ ۔ جلباب عربی زبان میں بڑی چادر کو کہتے ہیں ۔ اور اِدْنَاء کے اصل معنی قریب کرنے اور لپیٹ لینے کے ہیں ، مگر جب اس کے ساتھ عَلیٰ کا صلہ آئے تو اس میں اِرْخَاء ، یعنی اوپر سے لٹکا لینے کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے ۔ موجودہ زمانے کے بعض مترجمین و مفسرین مغربی مذاق سے مغلوب ہو کر اس لفظ کا ترجمہ صرف لپیٹ لینا کرتے ہیں تاکہ کسی طرح چہرہ چھپانے کے حکم سے بچ نکلا جائے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا مقصود اگر وہی ہوتا جو یہ حضرات بیان کرنا چاہتے ہیں تو وہ یُدْنِیْنَ اِلَیْھِنَّ فرماتا ۔ جو شخص بھی عربی زبان جانتا ہو کبھی یہ نہیں مان سکتا کہ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ کے معنی محض لپیٹ لینے کے ہو سکتے ہیں ۔ مزید براں مِنْ جَلَا بِیْبِھِنّ کے الفاظ یہ معنی لینے میں اور زیادہ مانع ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہاں مِن تبعیض کے لیے ہے ، یعنی چادر کا ایک حصہ ۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ لپیٹی جائے گی تو پوری چادر لپیٹی جائے گی نہ کہ اس کا محض ایک حصہّ ۔ اس لیے آیت کا صاف مفہوم یہ ہے کہ عورتیں اپنی چادریں اچھی طرح اوڑھ لپیٹ کر ان کا ایک حصہ ، یا ان کا پلو اپنے اوپر سے لٹکا لیا کریں ، جسے عرف عام میں گھونگھٹ ڈالنا کہتے ہیں ۔ یہی معنی عہد رسالت سے قریب ترین زمانے کے اکابر مفسرین بیان کرتے ہیں ۔ ابن جریر اور ابن المنذر کی روایت ہے کہ محمد بن سَیرین رحمہ اللہ نے حضرت عُبَیدۃ السّلمانی سے اس آیت کا مطلب پوچھا ۔ ( یہ حضرت عُبیدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسلمان ہو چکے تھے مگر حاضر خدمت نہ ہو سکے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مدینہ آئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے ۔ انہیں فقہ اور قضا میں قاضی شُریح کا ہم پلہ مانا جاتا تھا ) ۔ انہوں نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اپنی چادر اٹھائی اور اسے اس طرح اوڑھا کہ پورا سر اور پیشانی اور پورا منہ ڈھانک کر صرف ایک آنکھ کھلی رکھی ۔ ابن عباس بھی قریب قریب یہی تفسیر کرتے ہیں ۔ ان کے جو اقوال ابن جریر ۔ ابن ابی حاتم اور ابن مَرْدُوْیہَ نے نقل کیے ہیں ان میں وہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی کام کے لیے گھروں سے نکلیں تو اپنی چادروں کے پلو اوپر سے ڈال کر اپنا منہ چھپا لیں اور صرف آنکھیں کھلی رکھیں ۔ یہی تفسیر قَتادہ اور سُدِّی نے بھی اس آیت کی بیان کی ہے ۔ عہد صحابہ و تابعین کے بعد جتنے بڑے بڑے مفسرین تاریخ اسلام میں گزرے ہیں انہوں نے بالا تفاق اس آیت کا یہی مطلب بیان کیا ہے ۔ امام ابنِ جریر طَبَرِی کہتے ہیں : یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَا بِیْبِھِنَّ ، یعنی شریف عورتیں اپنے لباس میں لونڈیوں سے مشابہ بن کر گھروں سے نہ نکلیں کہ ان کے چہرے اور سر کے بال کھلے ہوئے ہوں ، بلکہ انہیں چاہیے کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصہ لٹکا لیا کریں تاکہ کوئی فاسق ان کو چھیڑنے کی جرأت نہ کرے ۔ ( جامع البیان جلد ۲۲ ۔ ص ۳۳ ) علامہ ابو بکر جصاص کہتے ہیں : یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جوان عورت کو اجنبیوں سے اپنا چہرہ چھپانے کا حکم ہے اور اسے گھر سے نکلتے وقت ستر اور عفت مآبی کا اظہار کرنا چاہئے تاکہ مشتبہ سیرت و کردار کے لوگ اسے دیکھ کر کسی طمع میں مبتلا نہ ہوں ۔ ( احکام القرآن ، جلد ۳ ، صفحہ ٤۵۸ ) علامہ زَمَخْشَری کہتے ہیں : یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَا بِیْبِھِنَّ ، یعنی وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصہ لٹکا لیا کریں اور اس سے اپنے چہرے اور اپنے اطراف کو اچھی طرح ڈھانک لیں ۔ ( الکشاف ۔ جلد ۲ ، ص ۲۲۱ ) علامہ نظام الدین نیشاپوری کہتے ہیں : یدنین علیھن من جلا بیبھنّ ، یعنی اپنے اوپر چادر کا ایک حصہ لٹکا لیں ۔ اس طرح عورتوں کو سر اور چہرہ ڈھانکنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ ( غرائب القرآن جلد ۲۲ ، ص۳۲ ) امام رازی کہتے ہیں : اس سے مقصود یہ ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ یہ بدکار عورتیں نہیں ہیں ۔ کیونکہ جو عورت اپنا چہرہ چھپائے گی ، حالانکہ چہرہ ستر میں داخل نہیں ہے ، اس سے کوئی شخص یہ توقع نہیں کر سکتا کہ وہ اپنا ستر غیر کے سامنے کھولنے پر راضی ہو گی ۔ اس طرح ہر شخص جان لے گا کہ یہ باپردہ عورتیں ہیں ، اس سے زنا کی امید نہیں کی جا سکتی ۔ ( تفسیر کبیر ، جلد ٦ ، ص ۵۹۱ ) ضمناً ایک اور مضمون جو اس آیت سے نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی بیٹیاں ثابت ہوتی ہیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے اے نبی ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں سے کہو ۔ یہ الفاظ ان لوگوں کے قول کی قطعی تردید کر دیتے ہیں جو خدا سے بے خوف ہو کر بے تکلف یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں اور باقی صاحبزادیاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی صُلبی بیٹیاں نہ تھیں بلکہ گیَلڑ تھیں ۔ یہ لوگ تعصب میں اندھے ہو کر یہ بھی نہیں سوچتے کہ اولاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب سے انکار کر کے وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں اور اس کی کیسی سخت جواب دہی انہیں آخرت میں کرنی ہو گی ۔ تمام معتبر روایات اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت خَدیِجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک بیٹی حضرت فاطمہ ہی نہ تھیں بلکہ تین اور بیٹیاں بھی تھیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدیم ترین سیرت نگار محمد بن اسحاق حضرت خدیجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں : ابراہیم علیہ السلام کے سوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد انہی کے بطن سے پیدا ہوئی اور ان کے نام یہ ہیں ۔ قاسم ، اور طاہر و طیب ، اور زینب ، اور رُقیَّہ ، اور امّ کلثوم اور فاطمہ ( سیرت ابن ہشام ، جلد اول ۔ ص ۳۰۲ ) مشہور ماہر علم انساب ہشام بن محمد بن السائب کلبی کا بیان ہے کہ : مکہ میں نبوت سے قبل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں سب سے پہلے قاسم پیدا ہوئے ، پھر زینب ، پھر رقیہ ، پھر اُمِ کلثوم ( طبقات ابن سعد ، جلد اول ، ص ۱۳۳ ) ۔ ابنِ حزْم نے جوامع السیرۃ میں لکھا ہے کہ حضرت خدیجہ کے بطن سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چار لڑکیاں تھیں ، سب سے بڑی حضرت زینب ان سے چھوٹی رقیّہ ، ان سے چھوٹی فاطمہ ، اور ان سے چھوٹی ام کلثوم ( ص۳۸ ۔ ۳۹ ) ۔ طَبَری ، ابن سعد ، ابو جعفر محمد بن حبیب صاحب کتاب المجرَّ اور ابن عبد البَر صاحب کتاب الاستیعاب ، مستند حوالوں سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے حضرت خدیجہ کے دو شوہر گزر چکے تھے ۔ ایک ابو ھالہ تمیمی جس سے ان کے ہاں ہند بن ابو ہالہ پیدا ہوئے ۔ دوسرے عتیق بن عائذ مخزومی جس سے ان کے ہاں ایک لڑکی ہند نامی پیدا ہوئی ۔ اس کے بعد ان کا نکاح حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا اور تمام علمائے انساب متفق ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صلب سے ان کے ہاں وہ چاروں صاحبزادیاں پیدا ہوئیں جن کے نام اوپر مذکور ہوئے ہیں ( ملاحظہ ہو طبری ، جلد ۲ ، ص٤۱۱ ۔ طبقات ابنِ سعد ، جلد ۸ ، ص ٤۱ تا ۱٦ ۔ کتاب المجرَّ ص ۷۸ ، ۷۹ ، ٤۵۲ ۔ الاستیعاب جلد ۲ ، ص۷۱۸ ) ان تمام بیانات کو قرآن مجید کی یہ تصریح قطعی الثبوت بند کر دیتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ہی صاحبزادی نہ تھیں بلکہ کئی صاحبزادیاں تھیں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :111 پہچان لی جائیں سے مراد یہ ہے کہ ان کو اس سادہ اور حیا دار لباس میں دیکھ کر ہر دیکھنے والا جان لے کہ وہ شریف اور با عصمت عورتیں ہیں ، آوارہ اور کھلاڑی نہیں ہیں کہ کوئی بد کردار انسان ان سے اپنے دل کی تمنا پوری کرنے کی امید کر سکے ۔ نہ ستائی جائیں سے مراد یہ ہے کہ ان کو نہ چھیڑا جائے ، ان سے تعرض نہ کیا جائے ۔ اس مقام پر ذرا ٹھہر کر یہ سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ قرآن کا یہ حکم ، اور وہ مقصد حکم جو اللہ تعالیٰ نے خود بیان کر دیا ہے ، اسلامی قانون معاشرت کی کیا روح ظاہر کر رہا ہے ۔ اس سے پہلے سورۂ نور ، آیت ۳۱ میں یہ ہدایت گزر چکی ہے کہ عورتیں اپنی آرائش و زیبائش کو فلاں فلاں قسم کے مردوں اور عورتوں کے سوا کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں ۔ اور زمین پر پاؤں مارتے ہوئے بھی نہ چلیں کہ لوگوں کو اس زینت کا علم ہو جو انہوں نے چھپا رکھی ہے ۔ اس حکم کے ساتھ اگر سورۂ احزاب کی اس آیت کو ملا کر پڑھا جائے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں چادر اوڑھنے کا جو حکم ارشاد ہوا ہے اس کا منشا اجنبیوں سے زینت چھپانا ہی ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ منشا اسی صورت میں پورا ہو سکتا ہے جبکہ چادر بجائے خود سادہ ہو ، ورنہ ایک مزین اور جاذب نظر کپڑا لپیٹ لینے سے تو یہ منشا الٹا اور فوت ہو جائیگا ۔ اس پر مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ صرف چادر لپیٹ کر زینت چھپانے ہی کا حکم نہیں دے رہا ہے بلکہ یہ بھی فرما رہا ہے کہ عورتیں چادر کا ایک حصہ اپنے اوپر سے لٹکا لیا کریں ۔ کوئی معقول آدمی اس ارشاد کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں لے سکتا کہ اس سے مقصود گھونگھٹ ڈالنا ہے تاکہ جسم و لباس کی زینت چھپنے کے ساتھ ساتھ چہرہ بھی چھپ جائے ۔ پھر اس حکم کی علت اللہ تعالیٰ خود یہ بیان فرماتا ہے کہ یہ وہ مناسب ترین طریقہ ہے جس سے یہ مسلمان خواتین پہچان لی جائیں اور اذیت سے محفوظ رہیں گی ۔ اس سے خود بخود یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ یہ ہدایت ان عورتوں کو دی جا رہی ہے جو مردوں کی نظر بازی اور ان کے شہوانی التفات سے لذت اندوز ہونے کے بجائے اس کو اپنے لیے تکلیف دہ اور اذیت ناک محسوس کرتی ہیں ، جو معاشرے میں اپنے آپ کو آبرو باختہ شمع انجمن قسم کی عورتوں میں شمار نہیں کرانا چاہتیں ، بلکہ عفت مآب چراغ خانہ ہونے کی حیثیت سے معروف ہونا چاہتے ہیں ۔ ایسی شریف اور نیک خواتین سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم فی الواقع اس حیثیت سے معروف ہونا چاہ رہی ہو اور مردوں کی ہوسناک توجہات حقیقت میں تمہارے لیے موجب لذت نہیں بلکہ موجب اذیت ہیں تو پھر اس کے لیے مناسب طریقہ یہ نہیں ہے کہ تم خوب بناؤ سنگھار کر کے پہلی رات کی دلہن بن کر گھروں سے نکلو اور دیکھنے والوں کی حریص نگاہوں کے سامنے اپنا حسن اچھی طرح نکھار نکھار کر پیش کرو ، بلکہ اس غرض کے لیے تو مناسب ترین طریقہ یہی ہو سکتا ہے کہ تم ایک سادہ چادر میں اپنے ساری آرائش و زیبائش کو چھپا کر نکلو ، اپنے چہرے پر گھونگھٹ ڈالو اور اس طرح چلو کہ زیور کی جھنکار بھی لوگوں کو تمہاری طرف متوجہ نہ کرے ۔ جو عورت باہر نکلنے سے پہلے بن ٹھن کر تیار ہوتی ہے اور اس وقت تک گھر سے قدم نہیں نکالتی جب تک سات سنگھار نہ کر لے ، اس کی غرض اس کے سوا آخر اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ دنیا بھر کے مردوں کے لیے اپنے آپ کو جنت نگاہ بنانا چاہتی ہے اور انہیں خود دعوت التفات دیتی ہے ۔ اس کے بعد اگر وہ یہ کہتی ہے کہ دیکھنے والوں کی بھوکی نگاہیں اسے تکلیف دیتی ہیں ، اس کے بعد اگر اس کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ معاشرے کی بیگم اور مقبول عام خاتون ہونے کی حیثیت سے معروف نہیں ہونا چاہتی بلکہ عفت مآب گھر گرہستن بن کر رہنا چاہتی ہے تو یہ ایک فریب کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ انسان کا قول اس کی نیت متعین نہیں کرتا بلکہ اس کی اصل نیت وہ ہوتی ہے جو اس کے عمل کی شکل اختیار کرتی ہے ۔ لہٰذا جو عورت جاذب نظر بن کر غیر مردوں کے سامنے جاتی ہے اس کا یہ عمل خود ظاہر کر دیتا ہے کہ اس کے پیچھے کیا محرکات کام کر رہے ہیں ۔ اسی لیے فتنے کے طالب لوگ اس سے وہی توقعات وابستہ کرتے ہیں جو ایسی عورت سے وابستہ کی جا سکتی ہیں ۔ قرآن عورتوں سے کہتا ہے کہ تم بیک وقت چراغ خانہ اور شمع انجمن نہیں بن سکتی ہو ۔ چراغ خانہ بننا ہے تو ان طور طریقوں کو چھوڑ دو جو شمع انجمن بننے کے لیے موزوں ہیں ۔ اور وہ طرز زندگی اختیار کرو جو چراغ خانہ بننے میں مددگار ہو سکتا ہے ۔ کسی شخص کی ذاتی رائے خواہ قرآن کے موافق ہو یا اس کے خلاف ، اور وہ قرآن کی ہدایت کو اپنے لیے ضابطۂ عمل کی حیثیت سے قبول کرنا چاہے یا نہ چاہے ، بہرحال اگر وہ تعبیر کی بددیانتی کا ارتکاب نہ کرنا چاہتا ہو تو وہ قرآن کا منشا سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا ۔ وہ اگر منافق نہیں ہے تو صاف صاف یہ مانے گا کہ قرآن کا منشا وہی ہے ، جو اوپر بیان کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد جو خلاف ورزی بھی وہ کرے گا یہ تسلیم کر کے کرے گا کہ وہ قرآن کے خلاف عمل کر رہا ہے یا قرآن کی ہدایت کو غلط سمجھتا ہے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :112 یعنی پہلے جاہلیت کی حالت میں جو غلطیاں کی جاتی رہی ہیں اللہ اپنی مہربانی سے ان کو معاف کر دے گا ، بشرطیکہ اب صاف صاف ہدایت مل جانے کے بعد تم اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لو اور جان بوجھ کر اس کی خلاف ورزی نہ کرو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

47: اس آیت نے واضح فرما دیا ہے کہ پردے کا حکم صرف ازواج مطہرات کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، بلکہ تمام مسلمان عورتوں کے لیے ہے۔ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت کے لیے گھر سے باہر نکلیں تو اپنی چادروں کو اپنے چہروں ر جھکا کر انہیں چھپا لیا کریں۔ مقصد یہ ہے کہ راستہ دیکھنے کے لیے آنکھوں کو چھوڑ کر چہرے کا باقی حصہ چھپا لیا جائے۔ اس کی صورت یہ بھی ممکن ہے کہ جس چادر سے پورا جسم ڈھکا ہوا ہے، اس کو چہرے پر اس طرح لپیٹ لیا جائے کہ آنکھوں کے سوا باقی چہرہ نظر نہ آئے، اور یہ صورت بھی ممکن ہے کہ چہرے پر الگ سے نقاب ڈال لیا جائے۔ 48: بعض منافقین عورتوں کو راستے میں چھیڑا کرتے تھے، اس آیت میں پردے کے ساتھ نکلنے کی یہ حکمت بیان فرمائی گئی ہے کہ جب عورتیں پردے کے ساتھ باہر نکلیں گی تو ہر دیکھنے والا یہ سمجھ جائے گا کہ یہ شریف اور پاک دامن عورتیں ہیں، اس لئے منافقین کو انہیں چھیڑنے اور ستانے کی جرأت نہیں ہوگی، اس کے برخلاف بے پردہ بن ٹھن کر باہر نکلنے والی خواتین ان کی چھیڑ چھاڑ کا زیادہ نشانہ بن سکتی ہیں، علامہ ابوحیان نے اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے۔ (البحر المحیط)۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٩ تا ٦٢۔ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ (رض) کی روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ پردہ کی آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت سوردہ (رض) ایک رات چادر اوڑھ کر نکلیں اور حضرت عمر (رض) نے ان کو دھمکایا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ مشورہ دیا کہ جس طرح پردہ کا حکم اترا ہے اسی طرح یہ حکم بھی دیا جائے کہ چادر اوڑھ کر بھی مستو راتیں گھر کے باہر نہ نکلا کریں طبقات ابن سعد میں محمد بن کعب حسن بصری اور ابو مالک کی روایتوں ١ ؎ سے حضرت عمر (رض) کے اس مشورہ کے دینے کا سبب یہ بتلایا ہے (١ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٢٢١ ج ٥۔ ) کہ مسلمان عورتیں جب چادر اوڑھ کر باہر نکلا کرتی تھیں تو مدینہ میں بعضے منافق لوگ ایسے ناہموار تھے کہ عورتوں کو راست میں چھیڑا کرتے تھے اور جب ان ناہمواروں کو دھمکایا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ شریف مسلمان عورتوں کو تم کیوں چھیڑا کرتے ہو تو کہتے تھے کہ ہم نے ان کو شریف جان کر نہیں چھیڑا بلکہ لونڈڑی جان کر چھیڑا تھا اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرما کر دونوں باتوں کا حکم فرما دیا حضرت عمر (رض) کے مشورے کے باب میں تو یہ حکم ہوا کہ عورتوں کے لیے یپردہ جو حکم نازل ہوچکا ہے وہی کافی ہے جماعت کی نماز کے لیے یا اور کسی ضرورت سے چادر یا برقعوں میں منہ چھپا کر عورتوں کے باہر نلکنے میں کوئی حرج نہیں ہے دوسری بات کا یہ حکم ہو کہ بی بی اور باندی کی پواک میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرق کردیا ہے کہ شریف عورتیں باہر نکلتے وقت گھونگٹ کے طور پر چادر اوڑھا کریں ‘ پھر فرمایا اگر وہ ناہموار لوگ اس فرق کے بعد بھی باز نہ آویں گے تو جس طرح اللہ تعالیٰ نے مشرکوں سے لڑنے کا حکم اپنے رسول کو دے دیا ہے اسی طرح ان منافقوں کے قتل کا حکم دے د دیا جاوے گا قتادہ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ حکم شرط لگا کردیا تھا کہ اگر آئندہ منافق لوگ اپنی ناہمواری سے بازنہ آدیں گے تو ان کے قتل کا حکم دیا جاوے گا اس شرط کو سن کر اس آیت کے نازل ہونے کے بعد پھر ان منافقوں نے وہ اپنی ہمواری چھوڑ دی اس لیے قرآن شریف میں ان کے قتل کا حکم نازل نہیں ہوا اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے آگے فرمایا ہے کہ عادت الٰہی میں یہ بات دخل ہے کہ جو برا کام کرتا ہے وہی پکڑا جاتا ہے کسی برے کام کے کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کسی کو نہیں پکڑتا یہ ابومالک تابعین میں مشہور عالم ہیں شبعی کے بعد کوفہ کے قاضی بھی تھے نسائی وغیرہ نے ان کو ثقہ کہا ہے اور محمد بن کعب بھی ثقہ ہیں محمد بن سعد (رح) اور ان کی کتاب طبقات محمد بن سعد امام احمد (رح) کے ہم عصر بصرہ کے مشہور اور معتبر علماء میں ہیں صحابہ (رض) اور تابعین (رح) کے احوال میں ان طبقات کبیر طبقات صغیر اور تاریخ یہ کتابیں مشہور ہیں تقریب میں ان کو معتبر لکھا ہے صحابہ (رض) کے طبقوں میں پہلے خلفائے اربعہ ہیں پھر درجہ بدرجہ اور صحابہ (رض) ہیں اسی طرح سب بارہ طبقے ہیں آخر طبقہ ان لوگوں کا ہے جنہوں نے نو عمری میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا ہے یہی حال تابعین اور تبع تابعین کے طبقوں کا ہے حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ جب ناہموار لوگ شریف عورتوں کو راستہ میں چھیڑتے ہیں اور دھمکانے کے وقت یہ کہتے ہیں کہ شریف عورتوں کے اور لونڈیوں کے لباس میں کچھ فرق نہیں تھا اس لیے لونڈیوں کے شبہ میں ہم نے ان شریف عورتوں کو چھیڑا تو ان ناہمواروں کو قائل کرنے کے لیے اے نبی تم اپنی بیویوں بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ باہر نکلنے کے وقت وہ معمولی دوپٹہ کے اوپر ایک چادر اوڑہ کر گونگھٹ نکاح لیا کریں تاکہ ان ناہمواروں کی پہلا عذر باقی نہ رہے پھر اس پر ھبی یہ نا ہموار اپنی ناہمواری سے باز نہ آویں گے تو ہمیشہ سے یہ عادت الٰہی جاری ہے کہ مہلت کے زمانہ میں جو نافرمان لوگ اپنی نافرمانی سے باز نہیں آتے تو پھر اپنے جرم کی سزا میں پکڑے جاتے ہیں ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نافرمان لوگوں کو پہلے مہلت دیتا ہے جب مہلت کے زمانہ میں وہ لوگ اپنی نافرمانی سے باز نہیں آتے تو ان کو ایسے سخت عذاب میں پکڑ لیتا ہے جس سے وہ ہلاک ہوجاتے ہیں ‘ یہ حدیث آخری آیت کی گویا تفسیر ہے ارجاف کے معنے جھوٹی خبریں اڑایا کرتے تھے ان ہی کو والمرجفون فی المدینہ فرمایا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(33:59) یذنین۔ مضارع جمع مؤنث غائب ادناء (افعال) مصدر دنو مادہ وہ نیچے کرلیا کریں۔ دنی یدلوا (باب نصر) فعل لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ قریب ہونا یا قریب کرنا۔ نیچا ہونا یا نیچا کرنا۔ ادنی قریب تر۔ کم تر۔ اور اس سے مؤنث دینا۔ جلا بیبھن۔ مضاف مضاف الیہ جلا بیب جلباب کی جمع ہے بڑی چادریں جو قمیض یا کرتے کے اوپر اوڑھی جاتی ہیں۔ ہن ضمیر جمع ازواجک و بنتک ونساء المومنین ہے۔ ادنی۔ نزدیک تر، قریب تر ۔ (اوپر ملاحظہ ہو) ۔ ان یعرفن۔ میں ان مصدریہ ہے یعرفن مضارع مجہول جمع مؤنث غائب۔ عرفان (باب ضرب) سے مصدر کہ وہ پہچانی جائیں۔ پہچانی جاسکیں۔ کہ ان کی شناخت ہوجائے۔ لا یؤذین۔ مضارع منفی مجہول جمع مؤنث غائب۔ ایذاء (افعال) مصدر ان کو ایذا نہ دی جائے۔ غفورا (مبالغہ کا صیغہ) بڑا معاف کرنے والا۔ رحیما (بروزن فعیل) مبالغہ کا صیغہ ہے رحمۃ مصدر۔ بڑا مہربان نہایت رحم والا۔ منصوب بوجہ خبر کان کے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی راستہ والے سمجھ لیں کہ یہ شریف زادیاں ہیں۔ یہ جان کر کوئی انہیں چھیڑنے کی جرأت نہ کریگا۔ روایات میں ہے کہ مسلمان عورتیں رات کو ضروریات کے لئے کہیں باہر نکلتیں تو منافقین انہیں چھیڑنے کی جرأت کرتے۔ پھر جب ان سے پوچھا جاتات و کہتے ” ہم سمجھے تھے کہ لونڈیاں ہیں “ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ( شوکانی) چاروں کے گھونگھٹ اوپر سے ڈال لیا کریں یعنی سارا چہرہ چھپالیا کریں صرف ایک آنکھ رہنے دیں۔ ( ابن جریر، واحمدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 59 تا 68 اسرار ومعارف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹیاں چار تھیں صرف ایک نہ تھی یہاں جمع کا صیغہ لایا گیا : اے نبی اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور مسلمانوں کی خواتین سے فرما دیجیے کہ وہ جب باہر نکلا کریں تو چادر لے کر اس کا ایک حصہ سر سے چہرے پر سرکا لیا کریں یہاں قرآن حکیم نے بھی بنات یعنی بیٹیاں جمع کہ کر حکم دیا ہے روافض کا کہنا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صرف ایک بیٹی تھی باطل ہے۔ اور پردہ شرعی کی وضاحت فرمادی کہ مقصد نمائش اور وجود کو ڈھکنا اور لوگوں کی نگاہوں سے بچانا ہے لہذا خواتین چادر لے کر نکلیں اور اسے سر سے تھورا سا منہ پہ کھینچ لیا کریں۔ یہ اس لیے بھی کہ مومن خاتون کی پہچان رہے اور وہ غلام عورتوں یا غیر مسلم خواتین میں ممتاز رہے اور کوئی اوباش آدمی چھیڑ کر کے اسے ایذا نہ پہنچائے جو اس حکم کے نزول سے قبل ہوچکا اللہ معاف فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ منافق اور ایسے بدنصیب جن کے دل بیمار ہیں اور صرف زبان اسلام کا دعوی کرتی ہے اگر اپنے کرتوتوں سے باز نہ آئے کہ کبھی بہتان تراشی کرتے ہیں کبھی کسی دشمن کے حملہ کی افواہ اڑا دیتے ہیں اور یوں پورے شہر کو پریشان کرتے ہیں تو آپ کو اور آپ کے خدام کو ان پر مسلط کردیا جائے گا اور پھر وہ اس شہر میں نہ رہنے پائیں گے بلکہ ان کی پکڑ دھکڑ ہوگی اور جہاں ہاتھ آئے قتل کیے جائیں گے۔ مرتد کی سزا قتل ہے : اسلامی ریاست میں کافر ذمی بن کر رہ سکتا ہے مگر منافق جب تک نفاق چھپا رہے مسلمان مانا جاتا ہے جب شعائر اسلام کی کھلم کھلا مخالفت کرنے لگے یا ایذا رسول کا سبب بننے لگے تو پھر اس کا کفر ظاہر ہوگیا اسے مرتد شمار کیا جائے گا اور مرتد کی سزا قتل ہے اور ان پر بھی ایسے ہی گرفت آئے گی جیسے ان سے پہلوں پہ آئی تھی کہ اللہ کی سنت یہی ہے اور اللہ کی سنت یعنی فطرت کے طریقے بدلا نہیں کرتے۔ یہ آپ سے قیام قیامت کا وقت پاچھتے ہیں کہ دیجیے یہ کام اللہ کا ہے اور وہی خوب جانتا ہے مجھے حساب نہیں لینا بلکہ مجھے تو قیامت کی خبر اور اللہ کا حکم پہنچانا ہے آپ کو کیا خبر کہ قیامت کہیں قریب ہی ہو فورا واقع ہوجائے مگر قیامت میں کافر کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں اللہ کافروں پر لعنت کرتا ہے اور ان کے لیے آگ کا عذاب بھڑکا رکھا ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور انہیں کوئی دوست معاون یا مددگار نصیب نہ ہوگا۔ جب یہ ان متکبرانہ چہروں کے بل دوزخ میں گھسیٹے جائیں گے تو چیخ چیخ کر کہیں گے اے کاش ہم نے اللہ کی اطاعت کی ہوتی اور اللہ کے رسول کی غلامی اختیار کی ہوتی۔ اور کہیں گے اے اللہ ہم نے اپنے بڑوں اور لیڈروں کی پیروی کی تو انہوں نے تیرے راستے بھٹکا دیا۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 59 تا 62 یدنین : لٹکا لیں ۔ قریب کرلیں جلابیب (جلباب) چادریں ۔ لباس پر اوڑھی جانے والی چادر المرجفون : افواہیں پھیلانے والے نغرین : ہم چھوڑ دیں گے۔ ہم مسلط کردیں گے لا یج اور : ساتھ نہ رہیں گے ثقفوا : پائے گئے اخذوا : پکڑے گئے لن تجد : تو ہرگز نہ پائے گا تشریح : آیت نمبر 59 تا 62 دین اسلام کے تقریباً تمام احکامات میں ایک خاص تدریج ہے جو آہستہ آہستہ تکمیل تک پہنچتے ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے وقت عرب کا پورا معاشرہ جہالتوں ، تاریکیوں ، زندگی کی بےاعتدالیوں اور کفر و شرک میں ڈوبا ہوا تھا۔ ان کو اصول زندگی سکھانے کے لئے تھوڑا تھوڑا کرکے قرآن کریم نازل کیا گیا جس کی وضاحت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی عمل سے فرمائی تاکہ مسلمان دین اسلام کی سچائیوں کے خوگر بن جائیں مثلاً عرب معاشرہ میں عام طور پر عورتوں مردوں کا باہمی میل جول ، ایک دوسرے کے گھروں میں بےتکلف آنے جانے ، کھانے پینے اور ہر طرح کی محلفوں میں شرکت کو برا نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ اس طرح کی بری عادتوں سے معاشرہ میں زندگی اور بےشرمی عام تھی۔ اللہ تعا لیٰ نے اس برائی کو ختم کرنے کے لئے سب پہلے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات کو حکم دیا کہ وہ اپنے گھروں میں رہیں اور اگر کسی اجنبی غیر کو محرم کو ازواج مطہرات سے کچھ پوچھنا ہو یا مانگنا ہو تو پر دے کے پیچھے سے مانگا کریں۔ اس حکم آجانے کے بعد تمام ازواج مطہرات نے اپنے گھروں کے دروازوں پر پردے لٹا لئے۔ چونکہ تمام مسلم خواتین جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہونے والے ہر حکم کی تعمیل پر دل و جان سے عمل کرنے کے لئے بےچین رہتی تھیں جب ان کو یہ معلوم ہوا کہ ازواج مطہرات نے اپنے گھروں پر پردے لٹا لئے ہیں تو انہوں نے بھی اپنے گھروں کے دروازوں پر پردے لٹکا لئے اور سوائے محرم مردوں تمام لوگوں کے آنے جانے اور تلنے جلنے پر پابندی لگادی اور اس طرح مسلم خواتین نے اپنے گھروں میں رہنا شروع کر یا۔ پھر آہستہ آہستہ پردے کا تمام احکامات آتے چلے گئے ۔ قرآن کریم کی سات آیات اور ستر سے زیادہ صحیح ترین احادیث میں تمام خواتین کو پردے کا حکم دے کر عادی بنا یا گیا ۔ زیر مطالعہ آیات میں دو باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں ۔ (1) پہلی بات تو یہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اپنی تمام ازواج مطہرات، اپنی تمام بیٹیوں اور مومن خواتین سے کہ دیجئے کہ وہ جب باہر نکلیں تو اپنی چادروں کو اچھی طرح اورھ لپیٹ کر باہر نکلیں اور اپنی چادر کے ایک پلو کو اپنے چہروں پر لٹا لیا کریں تاکہ وہ پنچانی جائیں اور ان کو ستا یا نہ جائے اور اگر ان سے اس سلسلہ میں کبھی کوئی کوتاہی ہوجائے توا للہ تعالیٰ معاف کرنے والا مہربان ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اول تو خواتین کو اپنے گھروں میں رہنا چاہیے لیکن اگر کسی ضرورت کے تحت اپنے گھروں سے باہر نکلیں تو وہ اپنی چادروں سے اپنے جسم اور چہرے کو اس طرح چھپا کر نکلیں کہ کوئی بد نظر اور ذہنی مریض ان کو ستانہ سکے۔ اسے اچھی طرح معلوم ہوجائے کہ یہ ایک شریف زادی ہے جو اپنے کپڑوں ، زیورات اور جاہلیت کی سج دھج کے لئے نہیں بلکہ اپنی کسی ضرورت کے تحت باہر نکلی ہے اس طرح اوباش قسم کے لوگوں کو چھیڑ چھاڑ کی ہمت نہ ہوگی کیونکہ اس زمانہ میں کچھ یہودی اپنے مزاج کی گندگی کا اظہار کرتے تھے اور ہر آنے جانے والی بندیوں اور گھروں میں کام کرنے والیوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے تھے جس سے روکا گیا ہے ۔ (2) ان آیات میں دوسری بات یہ فرمائی گئی ہے کہ جو لوگ فساد کرنے اور غلط سلط افواہیں پھیلا کر اہل ایمان میں افرا تفری پیدا کرنا چاہتے ہیں ان کو اپنی روش زندگی کو بدلنا ہوگا ورنہ اللہ کا یہ اٹل قانون اور دستور ہے کہ جو لوگ اپنی گندی ذہنیت اور شرارتوں سے باز نہیں آتے اللہ ان کے لئے سخت سزائیں مقرر کررکھی ہیں۔ اگر انہوں نے اپنی حرکتوں کو نہ چھوڑا تو ان کے لئے سخت سزا مقرر کردی گئی ہے جس سے بچنا ممکن نہ ہوگا۔ فرمایا کہ ایسے شرپسندوں اور فسادیوں کو اپنے سے پہلے گذری ہوئی قوموں کے بدترین انجام سے عبرت و نصیحت حاصل کرنا چاہیے ۔ جس طرح ان لوگوں کو اللہ نے سخت سزائیں دے کر نشان عبرت بنادیا ہے اسی طرح وہ بھی اپنے برے انجام سے نہ بچ سکیں گے کیونکہ اللہ کا دیہ دستور ہے کہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اس میں کبھی بھی تبدیلی نہ آئی ہے اور نہ آئے گی۔ یہ لعنتی پھٹکار ہوئے لوگ پھر جہاں پائے جائیں گے ان کو سخت سے سخت سزا دی جائے گی اور وہ بہت عرصہ تک اپنے گھروں میں نہ رہ سکیں گے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی کسی ضرورت سے باہر نکلنا پڑے تو چادر سے سر اور چہرہ بھی چھپا لیا جاوے۔ 6۔ یعنی اس سر اور چہرہ کے ڈھانکنے میں جو بلا قصد کمی یا بےاحتیاطی ہوجاوے تو اس کو معاف کردے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مومن عورتوں کو اوباش لوگوں کی اذّیت سے بچانے کے لیے پردے کا حکم اور اس کا طریقہ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مکہ کے مشرکین اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انتہا درجہ کے مخالف تھے۔ اور انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی لیکن اس کے باوجود وہ خاندانی روایات کا خیال رکھتے ہوئے کسی حد تک اخلاقی اقدار کا احترام کرتے تھے۔ یہ اخلاقی پاسداری کا نتیجہ تھا کہ ہجرت کے موقع پر انہوں نے رات بھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر کا محاصرہ کیے رکھا لیکن دیواریں پھلانگ کر آپ کے گھر داخل نہ ہوئے کہ اس طرح خواتین خانہ کی بےحرمتی ہوگی اور عرب میں ہماری بدنامی ہوگی۔ ان کے مقابلے میں مدینہ کے یہود اور منافقین کی اخلاقی گراوٹ کا یہ حال تھا کہ انہیں جونہی موقعہ ملتاوہ مسلمان عورتوں کو پریشان کرنے کی کوشش کرتے۔ اس صورت حال کے پیش نظر اور مسلمان خواتین کی ناموس کو بچانے کے لیے ہمیشہ کے لیے یہ قانون جاری ہوا کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مومن خواتین کو حکم دیں کہ جب وہ گھروں سے باہر نکلیں تو اپنے چہروں پر چادریں لٹکا کر گھونگھٹ نکال لیا کریں۔ اس طرح وہ عام عورتوں سے ممتاز ہوں گی اور اوباش آدمی ان پر دست درازی کرنے سے گھبرائے گا۔ اس سے پہلے پردہ کے بارے میں جو کوتاہی سرزد ہوگئی اللہ تعالیٰ اسے معاف کرے گا کیونکہ وہ انتہائی شفقت فرمانیوالا ہے۔ اس کے باوجود منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں شرارت اور بےحیائی کا روگ ہے اگر وہ تہمت طرازی اور بےحیائی پھیلاتے ہیں تو ہم مسلمانوں کو ان پر مسلط کردیں گے پھر وہ تھوڑی مدت ہی مدینہ میں ٹھہر سکیں گے۔ وہ جہاں بھی ہوں گے ان پر پھٹکار ہوگی اور جہاں پائے جائیں گے قتل کردیئے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ان سے پہلے مجرموں کے ساتھ یہی سلوک اور قانون تھا۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ” اللہ “ کے قانون میں کبھی تبدیلی نہیں پائیں گے۔ پردے کے بارے میں اس سورة کی آیت ٥٣ میں اور سورة نور کی کی آیت ٣١ میں تفصیلی احکام گزر چکے ہیں۔ یہاں صرف یہ بات عرض کی جائے گی کہ قرآن مجید نے پردہ کے لیے جلابیب کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنٰی اہل علم نے گھونگھٹ کیا ہے۔ جو لوگ چہرے کے پردے کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ کیونکہ انسان کا چہرہ ہی اس کی پہچان، اس کے حسن و جمال اور جذبات کا ترجمان ہوتا ہے۔ اگر کسی عورت کا چہرہ ناپسند ہو تو کوئی آدمی اس عورت کی طرف راغب نہیں ہوتا۔ اس لیے عورت کے لیے چہرے کا پردہ کرنا فرض ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دستور تھا کہ سفر کے دوران جب کوچ کرتے تو ایک آدمی کو پیچھے چھوڑتے تاکہ قافلے کی گری پڑی چیز کو اٹھائے اور اس کے مالک تک پہنچائے۔ اس آیت کا یہی مفہوم امہات المومنین سمجھتی تھیں۔ حضرت عائشہ (رض) اپنا واقعہ بیان فرماتی ہیں کہ غزوہ تبوک سے واپسی پر ” صفوان بن معطل (رض) لشکر کے پیچھے تھے۔ صبح کے وقت وہ میری ٹھکانہ پر پہنچ گئے انہوں نے مجھے سوئے ہوئے دیکھا تو پہچان لیا کیونکہ انہوں نے پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے مجھے دیکھا ہوا تھا۔ صفوان (رض) نے مجھے دیکھ کر افسوس کا اظہار کیا۔ میں نے اٹھ کر فوراً اپنا چہرہ چادر کے ساتھ ڈھانپ لیا۔ اللہ کی قسم ! میں نے افسوس کے کلمات کے علاوہ ان سے کوئی بات نہیں سنی۔ “ [ رواہ البخاری : باب حدیث الافک ] حضرت عائشہ (رض) کے عمل سے ثابت ہوا کہ چہرے کا پردہ لازم ہے۔ اگر عورت نے پوری سنجیدگی کے ساتھ شرعی پردہ کیا ہو اور اس کی چال ڈھال میں شرافت اور متانت ہو تو اوباش آدمی اس کی طرف بڑھنے سے گھبراتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پردہ میں عورت کے لیے ایک رعب اور وقار رکھا ہے۔ جو لوگ باحیا اور پردہ نشین عورتوں کے بارے میں تہمت درازی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر پھٹکار کرتا ہے یاد رہے کہ مسلمان معاشرے میں اخلاقی قدریں اتنی بلند ہونی چاہیے کہ اوباش آدمی جہاں جائے اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ اوباش لوگوں کو گرفتار کرے اور انہیں قرار واقعی سزا دے ہجرت کے بعد اور مدینہ کے ابتدائی دور میں کچھ اوباش بازار میں چلتے وقت مسلمان عورتوں کو تنگ کرتے اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودیوں اور عیسائیوں کے بارے میں ارشاد فرمایا : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لاَ تَبْدَءُ وا الْیَہُودَ وَلا النَّصَارَی بالسَّلاَمِ فَإِذَا لَقِیتُمْ أَحَدَہُمْ فِی طَرِیقٍ فَاضْطَرُّوہُ إِلَی أَضْیَقِہِ ) [ رواہ الترمذی : باب النَّہْیِ عَنِ ابْتِدَاء۔۔] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہودیوں اور عسائیوں کو سلام میں پہل نہ کرو ! جب ان میں سے کوئی راستے میں ملے تو اس کو تنگ راستے کی طرف مجبور کردو ! “ مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں اور بیٹیوں کے ساتھ مسلمان عورتوں کو بھی پردے کا حکم دیا گیا ہے۔ ٢۔ پردہ مومن عورتوں کی پہچان اور شان ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقران اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور معاف کرنے والا ہے : ١۔ میرے بندوں کو میری طرف سے خبر کردو کہ میں بخشنے والا، رحم کرنے والا ہوں۔ (الحجر : ٤٩) ٢۔ تیرا پروردگار بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ (الکہف : ٥٨) ٣۔ یہی لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوار ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بخشنے والا مہربان ہے۔ (البقرۃ : ٢١٨) ٤۔ اے رب ہمیں معاف کردے اور ہم پر رحم فرما تو سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (المومنون : ١٠٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یایھا النبی قل ۔۔۔۔۔۔ غفورا رحیما (59) ” “۔ سدی کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایسے فساق موجود تھے جو اس دور میں رات کو نکلتے تھے ، اس وقت جب اندھیرا گہرا ہوجاتا تھا اور مدینہ کی تنگ گلیوں میں عورتوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے تھے۔ کیونکہ لوگوں کے گھر تنگ تھے اور قضائے حاجت کے لیے عورتوں کو باہر نکلنا پڑتا تھا۔ یہ فساق ان عورتوں کے پیچھے پڑتے تھے۔ جب وہ دیکھتے کہ کسی عورت نے حجاب کیا ہوا ہے تو وہ یہ کہتے کہ یہ آزاد عورت ہے اس لیے۔ اس سے رک جاتے۔ اور جب وہ دیکھتے کہ پردہ نہیں ہے تو یہ اس پر ٹوٹ پڑتے۔ مجاہد کہتے ہیں کہ معنی یہ ہے کہ اپنے اوپر جلباب ڈال لیں تاکہ معلوم ہو کہ یہ آزاد عورتیں ہیں تاکہ کوئی فاسق ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کرے یا شک نہ کرے اور یہ کہ۔ کان اللہ غفورا رحیما (33: 59) ” اور اللہ غفور ورحیم ہے “۔ یعنی بام جاہلیت میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ اس سے درگزر فرمائے گا کیونکہ اس وقت ان کو یہ حکم تھا اور نہ علم تھا۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ عرب کے گندے معاشرے کو اسلام آہستہ آہستہ پاک کر رہا تھا اور فتنہ و فساد اور جنسی بےراہ روی کی ایک ایک راہ کو بند کرتا چلا جاتا اور بدی کا دائرہ تنگ کیا جا رہا تھا تاکہ اسلام کی پاک رسم و راہ آہستہ آہستہ اسلامی معاشرے میں جڑ پکڑتی چلی جائے۔ آخر میں مدینہ کے ان ناپسندیدہ عناصر کو تحت دھمکی دی جاتی ہے کہ منافقین ، بیمار اخلاق کے لوگ اور ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے اگر باز نہ آئے اور جن کاروائیوں میں وہ مصروف ہیں ان کو ترک نہ کیا تو ان کے خلاف رسول اللہ کو سخت کاروائی کرنے کا حکم دے دیا جائے گا۔ نبی اور مومنین اور مومنات ان پر مسلط کر دئیے جائیں گے جس طرح یہودیوں پر نبی اور مسلمانوں نے مکمل اقتدار حاصل کرلیا ہے۔ پھر ان کے لیے مدینہ میں رہنا مشکل ہوجائے گا اور ان کو بھی ملک بدر کردیا جائے گا۔ ان کے خلاف کاروائی یہ ہوگی کہ مومنین و مومنات و اذیت دینے والے مباح الدم ہیں جہاں ملیں ان کا سر قلم کردیا جائے جس طرح یہودیوں کا حشر انہوں نے دیکھ دیا ہے اور جس طرح ازمنہ ماضیہ میں غیر یہودی فساق و فجار کا یہی حشر انبیائ کے ہاتھوں ہوتا رہا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ازواج مطہرات اور بنات طاہرات اور عام مؤمنات کو پردہ کا اہتمام کرنے کا حکم، اور منافقین کے لیے وعید مفسرین نے لکھا ہے کہ رات کے قت (جب گھروں میں بیت الخلاء نہیں بنائے گئے تھے) عورتیں قضائے حاجت کے لیے کھجور کے باغوں میں نشیبی علاقوں میں جایا کرتی تھیں ان میں حرائر (آزاد) عورتیں اور اماء (باندیاں) دونوں ہوتی تھیں۔ منافقین اور بد نفس لوگ راستوں میں کھڑے ہوجاتے تھے اور عورتوں کو چھیڑتے تھے یعنی اشارے بازی کرتے تھے، ان کا دھیان باندیوں کی طرف ہوتا تھا اگر کبھی کسی آزاد عورت کو چھیڑتے اور اس پر گرفت کی جاتی تو کہہ دیتے تھے کہ ہم نے یہ خیال کیا تھا کہ شاید وہ باندی ہے۔ نیز دشمنان اسلام (جن میں مدینے کے رہنے والے یہودی بھی تھے اور منافق بھی) یہ حرکت بھی کرتے تھے کہ مسلمانوں کے لشکر میں جب کہیں جاتے تو لوگوں میں رعب پیدا کرنے والی باتیں پھیلاتے اور شکست کی خبریں اڑا دیتے اور خواہ مخواہ بیٹھے بٹھائے یوں کہتے تھے کہ دشمن آگیا دشمن آگیا۔ آیات بالا میں اول تو یہ حکم دیا کہ اپنی عورتوں کو پردہ کرنے کا حکم دیں، ارشاد فرمایا (یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلِّ اَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ ) (اے نبی ! اپنی بیویوں سے اور اپنی بیٹیوں سے اور مومنین کی عورتوں سے فرما دیجیے کہ اپنی بڑی بڑی چادریں جو اتنی چوڑی چکلی ہوں جس میں عورت سر سے پاؤں تک اپنے آپ کو لپیٹ سکے، اپنی ان چادروں کا ایک حصہ اپنے اوپر ڈال لیا کریں) یعنی سر بھی ڈھکے رہیں اور چہرے بھی اور سینے بھی، جب پردہ کا یہ اہتمام ہوگیا تو آزاد عورتیں اور باندیاں الگ الگ پہچانی جاسکیں گی کیونکہ کام کاج کے لیے نکلنے کی وجہ سے باندیوں کو چہرہ ڈھانکنے کا حکم نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے (یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ ) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنے سروں کو اور چہروں کو بڑی بڑی چادروں سے ڈھانکے رہا کریں صرف ایک آنکھ کھلی رہے جس سے چلنے پھرنے اور دیکھنے بھالنے کی ضرورت پوری ہوجائے اور پورا پردہ کرنے کی وجہ سے آزاد عورتوں اور باندیوں میں امتیاز ہوجائے تاکہ بد نفس چھیڑ چھاڑ نہ کرسکیں، گو باندیوں کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ کرنا ممنوع تھا لیکن آزاد عورتوں کو پورے پردہ کا حکم دینے سے ان بد نفسوں کا یہ بہانا ختم ہوگیا کہ ہم نے باندی سمجھ کر آوازہ کسا تھا۔ (روح المعانی ج ٢٢: ص ٨٩) یاد رہے کہ آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا ہے کہ اے نبی ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں کو حکم دے دو کہ اپنے اوپر چوڑی چکلی چادریں ڈالے رہا کریں۔ اس سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک سے زیادہ بیٹیاں تھیں، جس سے واضح طور پر روافض کی بات کی تردید ہوگئی جو یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صرف ایک بیٹی حضرت سیدہ فاطمہ تھیں۔ (احقر نے بنات طاہرات کے احوال میں ایک مستقل رسالہ لکھا ہے اسے ملاحظہ کرلیا جائے) اور دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جیسے سیدنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات (رض) اور بنات طاہرات (رض) کو پردہ کرنے کا حکم تھا اسی طرح دیگر مومنین کی بیبیوں کو بھی پردہ کرنے کا حکم ہے۔ بعض فیشن ایبل جاہل جو عورتوں کو بےپردہ بازاروں اور پارکوں میں گھمانے کو قابل فخر سمجھتے ہیں اور یوں کہتے ہیں کہ پردہ کا حکم صرف ازواج مطہرات (رض) کے لیے تھا عام عورتوں کے لیے نہیں ہے آیت کریمہ سے ان لوگوں کی ان جاہلانہ باتوں کی تردید ہو رہی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

62:۔ یا ایہالنبی الخ۔ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ساتواں خطاب ہے۔ نزول حجاب سے قبل جب مسلمان عورتیں رات کو قضائے حاجت کے لیے باہر جاتیں تو منافقین انہیں تنگ کرتے اور آوازیں دیتے جب ان سے کہا جاتا تم ایسا کیوں کرتے ہو تو کہتے ہم نے سمجھا فلاں عورت ہے۔ آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک یہ شکایت پہنچی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی کہ مسلمان عورتیں جب باہر نکلیں تو چادریں اوڑھ لیا کریں۔ تاکہ معلوم ہوجائے کہ یہ آزاد اور شریف عورت ہے۔ کان للمراۃ من نساء المومنین قبل نزول ھذہ الایۃ تتبرز للحاجۃ فیتعرض لھا بعض الفجار یظن انھا امۃ فتصیح بہ فیذھب فشکوا ذلک الی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و نزلت الایۃ بسسب ذلک (قرطبی ج 4 ص 243) اے پیغمبر اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور تمام مسلمان عورتوں کو یہ حکم دے دو کہ وہ چادریں اوڑھ کر گھروں سے نکلا کریں۔ اس طرح ان میں اور باندیوں میں امتیاز ہوجائے گا اور منافقین و فجار ان کی ایذاء کے درپے نہ ہوں گے۔ کیونکہ وہ عام طور پر لونڈیوں سے تعرض کرتے تھے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بناتک فرمایا ہے لفظ بنات جو بنت کی جمع ہے اس کو ضمیر خطاب کی طرف مضاف کیا ہے جس سے آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مخاطب ہیں اس طرح قرآن کی نص صریح سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صاحبزادیوں کا تعدد ثابت ہوگیا اور معلوم ہوگیا کہ آپ کی صرف ایک صاحبزادی نہ تھی۔ بلکہ ایک سے زیادہ تھیں۔ اور جمع کا صیغہ کم از کم تین کے لیے ہوتا ہے اس لیے قرآن سےحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صاحبزادیوں کی تعداد کم از کم تین ثابت ہوتی ہے اس سے کم نہیں اور تاریخ و مستند روایتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی صاحبزادیاں چار تھیں۔ سنی اور شیعہ مورخین و محدثین کا اس پر اتفاق ہے خود شیعہ مصنفین نے تسلیم کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صاحبزادیوں کی تعداد چار تھی۔ اور چاروں ہی حضرت خدیجہ (رض) کے بطن سے تھیں۔ چناچہ علامہ یعقوب کلینی شیعہ محدث نے لکھا ہے تو زوج خدیجۃ وھو ابن بضع و عشرین سنۃ فولد لہ منہا قبل مبعثہ (علیہ السلام) القاسم ورقیۃ وزینبت وام کلثوم وولد لہ بعد المبعث الطیب والطاھر وفاطمۃ علیہا السالم۔ کافی کلینی اصول ج 1 ص 439 طبع طہران) (ترجمہ)حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ اوپر بیس سال کی عمر میں حضرت خدیجہ سے نکاح کیا تو ان کے بطن سے قبل از نبوت قاسم، رقیہ، زینب اور ام کلثوم پیدا ہوئی اور ابعد از نبوت طیب، طاہر اور فاطمہ پیدا ہوئی۔ اور ملا باقر مجلسی شیعہ لکھتے ہیں در قرب الاسناد بسند معتبر از حضرت صادق روایت کردہ است کہ از برائے رسول خدا از خدیجہ متولد شدند طاہر و قاسم و فاطمہ و ام کلثوم و رقیہ و زینب (حیات القلوب ج 2 ص 588 مطبوعہ طہران) ۔ بعض روافض کہتے ہیں بنات سے یہاں امت کی عورتیں مراد ہیں کیونکہ وہحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روحانی بیٹیاں ہیں۔ اس کا پہلا جواب یہ ہے کہ امت کی عورتوں کا بعد میں بصراحت ذکر موجود ہے۔ ونساء المومنین اس لیے لفظ بنات کو اس پر محمول کرنا غلط ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ بنات سے ات کی عورتیں مراد لینا مجازی معنی ہے۔ اور حقیقی معنی صلبی بیٹیاں ہیں۔ اور یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ مجازی معنی اس وقت مراد لیا جاتا ہے جب حقیقی معنی مراد لینا متعذر ہو۔ لیکن یہاں حقیقی معنی متعذر نہیں کیونکہ جب یہ آیت نازل ہوئی اس وقت آپ کی تین صاحبزادیاں بقید حیات موجود تھیں۔ حضرت زینب (رض) جو سہ 8 ہجری میں اللہ کو پیاری ہوئیں حضرت ام کلثوم (رض) جن کا سن 9 ھجری میں انتقال ہوا۔ اور حضرت فاطمہ (رض) جن کیحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد وفات ہوئی۔ یہ آیت سن 8 ہجری سے بہت پہلے نازل ہوئی۔ اس لیے بنات سے یہاںحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صلبی بیٹیاں ہی مراد ہیں نہ کہ روحانی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

59۔ اے نبی آپ اپنی بیویوں اور بیٹیوں سے اور دوسرے مسلمانوں کی بیویوں سے فرما دیجئے کہ وہ اپنی چادریں اوپر سے اوڑھ کر تھوڑی سی منہ کے آگے لٹکا لیا کریں یعنی سر اور چہرہ چھپالیا کریں یہ طریقہ کار اختیار کرنے سے اور اس علامت سے ان کا متمیز ہوجانا اور ان کا پہچانا کانا قریب تر ہوجائے گا اور وہ ستائی نہ جائیں گی اور ان کی اخلاقی تکلیف نہ پہنچائی جاسکے گی اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ مدینہ کے اوباپ لوگ جب عورتیں باہر نکلتی تھیں تو ان کو چھیڑتے تھے اور ان کا مذاق بناتے تھے لونڈیوں کو تو بےباک ہو کر چھیڑتے مگر آزادعورتوں کو چھیڑتے ہوئے ذرا ڈرتے تھے کہ اس کو اگر چھیڑیں گے تو اس کے خاندان کے لوگ جھگڑا کریں گے لونڈیوں کے مقابلے میں آزاد عورتوں کا احترام زیادہ ہوتا تھا۔ اس آیت کریمہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا کہ آزاد عورتوں کے لئے پردے کے احکام بیان کر دیجئے تا کہ آزاد عورتوں کو پردے کے احکام معلوم ہوجائیں کہ ان کو غیر محرموں سے بدن کا کون کونسا حصہ چھپانا چاہئے اور دوسرا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ اوباش قسم کے لوگ ان کو چھیڑتے ہوئے ڈریں گے اور وہ انکی چادرجو اوڑھنی کے اوپر سے انہوں نے اوڑھی ہوگی اس کو دیکھ کر اور ان کے گھونگٹ کو دیکھ کر سمجھ لیں گے کہ یہ آزاد اور حرہ عورت ہے اس لئے اس کے چھیڑنے میں جھگڑا بڑھ جائے گا تو وہ بازار رہیں گے اور بد معاشی سے رک جائیں گے۔ البتہ لونڈیاں جن کو پردے میں شریعت نے رخصت دی ہے اور وہ کام کاج کی وجہ سے انکو سر اور منہ کھولنے کی اجازت ہے ان کو یہ بد معاش لوگ چھیڑتے رہیں گے تو ان کے لئے آگے کی آیت میں وعید فرمائی اور ان کو ڈرایا کہ اگر یہ لوگ اپنی شرارت سے باز نہ آئیں گے تو ان کو مدینہ سے نکال دیا جائے گا اور یہ سخت سزائوں کے مرتکب ہوں گے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں پہچانی پڑیں کہ لونڈی نہیں بی بی ہے صاحب ناموس یا بد ذات نہیں نیک بخت ہے تو بدنیت لوگ اس سے نہ الجھیں گے گھونگٹ اس کا نشان رکھا یہ حکم بہتری کا ہے۔ 12 حرائر کو اما اور باندیوں سے اس حکم نے متمیز کردیا ، آج تک شرفا کے گھر انوں میں یہ دستور ہے کہ ان کی عورتیں بغیر چادر اور گھونگٹ کے نہیں نکلتیں چادر کے نیچے اوڑھنی ہوتی ہے جو معمولی طور پر گھر میں استعمال کرتی ہیں لیکن جب گھر سے نکلتی ہیں تو چادر اوڑھ کر نکلتی ہیں ۔ حرائر اور اماء کی مفصل بحث سورة نور میں گزر چکی ہے یہ جو آخر میں غفور اور رحیم فرمایا یہ شاید اس لئے ہو کہ حکم کی تعمیل میں کچھ کوتاہی ہوجائے تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربانی کرنیوالا ہے۔