Surat ul Ahzaab

Surah: 33

Verse: 62

سورة الأحزاب

سُنَّۃَ اللّٰہِ فِی الَّذِیۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلُ ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا ﴿۶۲﴾ الرّبع

[This is] the established way of Allah with those who passed on before; and you will not find in the way of Allah any change.

ان سے اگلوں میں بھی اللہ کا یہی دستور جاری رہا ۔ اور تو اللہ کے دستور میں ہرگز رد و بدل نہ پائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ ... That was the way of Allah in the case of those who passed away of old, meaning, this is how Allah dealt with the hypocrites when they persisted in hypocrisy and disbelief and did not give it up; He incited the believers against them and caused them to prevail over them. ... وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلً and you will not find any change in the way of Allah. means, the way in which Allah deals with this does not alter or change.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٣] یعنی اللہ کی سنت جاریہ یہی ہے کہ جن لوگوں نے اللہ کے رسولوں کے خلاف شرارتیں کیں اور فتنے فساد پھیلائے انھیں اسی طرح ذلیل و خوار اور ہلاک کردیا گیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

سُـنَّةَ اللّٰهِ فِي الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ ۔۔ : یعنی معاشرے کو پاک رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ سے یہی دستور رہا ہے کہ عورتوں کو چھیڑنے والے اور خوف و ہراس پھیلانے والوں کو گرفتار کیا جاتا تھا اور انھیں ٹکڑے ٹکڑے کردیا جاتا تھا۔ یہ سزا کوئی نئی نہیں، بلکہ پہلی تمام آسمانی شریعتوں میں ہمیشہ یہی سزا دی جاتی رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی اور نہ آئندہ اس میں تبدیلی ہوگی۔ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں : ” تورات میں بھی یہ نقل ہے کہ مفسدوں کو اپنے بیچ سے باہر کر دو ۔ “ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

سُـنَّۃَ اللہِ فِي الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ۝ ٠ ۚ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللہِ تَبْدِيْلًا۝ ٦٢ سنن وتنحّ عن سَنَنِ الطّريق، وسُنَنِهِ وسِنَنِهِ ، فالسُّنَنُ : جمع سُنَّةٍ ، وسُنَّةُ الوجه : طریقته، وسُنَّةُ النّبيّ : طریقته التي کان يتحرّاها، وسُنَّةُ اللہ تعالی: قد تقال لطریقة حکمته، وطریقة طاعته، نحو : سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا [ الفتح/ 23] ، وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا [ فاطر/ 43] ، فتنبيه أنّ فروع الشّرائع۔ وإن اختلفت صورها۔ فالغرض المقصود منها لا يختلف ولا يتبدّل، وهو تطهير النّفس، وترشیحها للوصول إلى ثواب اللہ تعالیٰ وجواره، وقوله : مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر/ 26] ، قيل : متغيّر، وقوله : لَمْ يَتَسَنَّهْ [ البقرة/ 259] ، معناه : لم يتغيّر، والهاء للاستراحة «1» . سنن تنح عن سنن الطریق ( بسین مثلثہ ) راستہ کے کھلے حصہ سے مٹ ج اور ۔ پس سنن کا لفظ سنۃ کی جمع ہے اور سنۃ الوجہ کے معنی دائرہ رد کے ہیں اور سنۃ النبی سے مراد آنحضرت کا وہ طریقہ ہے جسے آپ اختیار فرماتے تھے ۔ اور سنۃ اللہ سے مراد حق تعالیٰ کی حکمت اور اطاعت کا طریقہ مراد ہوتا ہے جیسے فرمایا : سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا [ الفتح/ 23]( یہی) خدا کی عادت ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے اور تم خدا کی عادت کبھی بدلتی نہ دیکھو گے ۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا [ فاطر/ 43] اور خدا کے طریقے میں کبھی تغیر نہ دیکھو گے ۔ تو آیت میں اس بات پر تنبیہ پائی جاتی ہے ۔ کہ شرائع کے فروغی احکام کی گو مختلف صورتیں چلی آئی ہیں ۔ لیکن ان سب سے مقصد ایک ہی ہے ۔ یعنی نفس کو پاکر کرنا اور اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں ثواب اور اس کا جوار حاصل کرنے کے لئے تیار کرنا اور یہ مقصد ایسا ہے کہ اس میں اختلاف یا تبدیلی نہیں ہوسکتی ۔ اور آیت : مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر/ 26] سڑے ہوئے گارے سے ۔ خلا الخلاء : المکان الذي لا ساتر فيه من بناء ومساکن وغیرهما، والخلوّ يستعمل في الزمان والمکان، لکن لما تصوّر في الزمان المضيّ فسّر أهل اللغة : خلا الزمان، بقولهم : مضی الزمان وذهب، قال تعالی: وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران/ 144] ( خ ل و ) الخلاء ۔ خالی جگہ جہاں عمارت و مکان وغیرہ نہ ہو اور الخلو کا لفظ زمان و مکان دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چونکہ زمانہ میں مضی ( گذرنا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے اہل لغت خلاالزفان کے معنی زمانہ گزر گیا کرلیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) تو صرف ( خدا کے ) پیغمبر ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہوگزرے ہیں ۔ وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ بدل الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة/ 59] ، وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور/ 55] وقال تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] قيل : أن يعملوا أعمالا صالحة تبطل ما قدّموه من الإساءة، وقیل : هو أن يعفو تعالیٰ عن سيئاتهم ويحتسب بحسناتهم «5» . وقال تعالی: فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة/ 181] ، وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل/ 101] ، وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ/ 16] ، ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف/ 95] ، يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم/ 48] أي : تغيّر عن حالها، أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر/ 26] ، وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة/ 108] ، وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد/ 38] ، وقوله : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق/ 29] أي : لا يغيّر ما سبق في اللوح المحفوظ، تنبيها علی أنّ ما علمه أن سيكون يكون علی ما قد علمه لا يتغيّرعن حاله . وقیل : لا يقع في قوله خلف . وعلی الوجهين قوله تعالی: تَبْدِيلَ لِكَلِماتِ اللَّهِ [يونس/ 64] ، لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ [ الروم/ 30] قيل : معناه أمر وهو نهي عن الخصاء . والأَبْدَال : قوم صالحون يجعلهم اللہ مکان آخرین مثلهم ماضین «1» . وحقیقته : هم الذین بدلوا أحوالهم الذمیمة بأحوالهم الحمیدة، وهم المشار إليهم بقوله تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] والبَأْدَلَة : ما بين العنق إلى الترقوة، والجمع : البَئَادِل «2» ، قال الشاعر : 41- ولا رهل لبّاته وبآدله ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة/ 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور/ 55] اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا ۔ اور آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] کے معنی بعض نے یہ کئے ہیں کہ وہ ایسے نیک کام کریں جو ان کی سابقہ برائیوں کو مٹادیں اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمادیگا اور ان کے نیک عملوں کا انہیں ثواب عطا کریئگا فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة/ 181] تو جو شخص وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے ۔ وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل/ 101] جب ہم گوئی آیت کسی آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں ۔ وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ/ 16] ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف/ 95] پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی سے بدل دیا ۔ اور آیت کریمہ : يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم/ 48] کے معنی یہ ہیں کہ زمین کی موجودہ حالت تبدیل کردی جائے گی ۔ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر/ 26] کہ وہ ( کہیں گی ) تہمارے دین کو ( نہ ) بدل دے ۔ وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة/ 108] اور جس شخص نے ایمان ( چھوڑ کر اس کے بدلے کفر اختیار کیا وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد/ 38] 47 ۔ 38 ) اور اگر تم منہ پھروگے تو وہ تہماری جگہ اور لوگوں کو لے آئیگا ۔ اور آیت کریمہ : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق/ 29] ہمارے ہاں بات بدلا نہیں کرتی ۔ کا مفہوم یہ ہے کہ لوح محفوظ میں جو کچھ لکھا جا چکا ہے وہ تبدیل نہیں ہوتا پس اس میں تنبیہ ہے کہ جس چیز کے متعلق اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ وقوع پذیر ہوگی وہ اس کے علم کے مطابق ہی وقوع پذیر ہوگی اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اس کے وعدہ میں خلف نہیں ہوتا ۔ اور فرمان بار ی تعالیٰ : { وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ } ( سورة الأَنعام 34) قوانین خدا وندی کو تبدیل کرنے والا نہیں ۔{ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ } ( سورة الروم 30) نیز : لا تبدیل لخلق اللہ فطرت الہیٰ میں تبدیل نہیں ہوسکتی ( 30 ۔ 30 ) بھی ہر دو معافی پر محمول ہوسکتے ہیں مگر بعض نے کہاں ہے کہ اس آخری آیت میں خبر بمعنی امر ہے اس میں اختصاء کی ممانعت ہے الا ابدال وہ پاکیزہ لوگ کہ جب کوئی شخص ان میں سے مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوسرے کو اس کا قائم مقام فرمادیتے ہیں ؟ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں ۔ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں جہنوں نے صفات ذمیمہ کی بجائے صفات حسنہ کو اختیار کرلیا ہو ۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جنکی طرف آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] میں ارشاد فرمایا ہے ۔ البادلۃ گردن اور ہنسلی کے درمیان کا حصہ اس کی جمع بادل ہے ع ( طویل ) ولارھل لباتہ وبآدلہ اس کے سینہ اور بغلوں کا گوشت ڈھیلا نہیں تھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٢ { سُنَّۃَ اللّٰہِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ } ” اللہ کی یہی ُ سنت ّرہی ہے ان لوگوں کے بارے میں بھی جو پہلے گزر چکے ہیں۔ “ { وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا } ” اور تم ہرگز نہیں پائو گے اللہ کے طریقے میں کوئی تبدیلی۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

115 That is, "This is a permanent law of Allah's Shari'ah that in an Islamic society and state such mischief-mongers are never given an opportunity to flourish and prosper. Whenever the system of society and state is established on Divine Law, such people will be warned to mend their ways and if they still persisted in their evil ways they would be severely dealt with and exterminated."

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :115 یعنی یہ اللہ کی شریعت کا ایک مستقل ضابطہ ہے کہ ایک اسلامی معاشرے اور ریاست میں اس طرح کے مفسدین کو کبھی پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیا جاتا ۔ جب بھی کسی معاشرے اور ریاست کا نظام خدائی شریعت پر قائم ہو گا اس میں ایسے لوگوں کو پہلے متنبہ کر دیا جائے گا تاکہ وہ اپنی روش بدل دیں ، اور پھر جب وہ باز نہ آئیں گے تو سختی کے ساتھ ان کا استیصال کر ڈالا جائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

50: اﷲ تعالیٰ کے معمول سے یہاں مراد یہ ہے کہ جو لوگ زمین میں فساد مچاتے ہیں اُن کو پہلے خبردار کیا جاتا ہے، پھر بھی اگر وہ باز نہیں آتے تو اُنہیں سزا دی جاتی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(33:62) سنۃ اللہ مصدر موکدہ۔ ای سن اللہ فی الذین ینافقون الانبیاء ان یقتلوا حیثما ثقفوا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ دستور یا طریقہ جاریہ ہے ان کے لئے جنہوں نے منافقت کی انبیاء سے کہ جہاں بھی وہ پائے جائیں قتل کر دئیے جائیں۔ خلوا۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ خلو (باب نصر) سے مصدر، وہ پہلے ہوچکے۔ پہلے ہو گذرے ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ اسلامی معاشرہ میں اوباش اور بد معاش قسم کے لوگوں کو پنپنے کا موقع نہیں دیا جاتا، بلکہ پہلے تو انہیں سنبھلنے اور اپنی روش بدلنے کے لئے تنبیہ کی جاتی ہے اور اگر وہ باز نہیں آتے تو ان کا طاقت کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے۔ (ابن کثیر) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” اور توراۃ میں بھی یہ تقید ہے کہ مفسدوں کو اپنے بیچ سے باہر کردو “۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ کہ خدا تو کوئی بات جاری کرنا چاہے اور کوئی اس کو روک سکے، پس سنة اللہ میں احتمال فعل الوقوع کا دفعیہ فرمایا دیا اور لن تجد میں احتمال بعد الوقوع کا دفعیہ فرمایا کہ جب وہ واقع کرنے لگے تو کوئی ہٹا نہیں سکتا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(سُنَّۃَ اللّٰہِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ ) اللہ نے ان لوگوں میں طریقہ مقرر فرما دیا ہے جو پہلے گزر چکے ہیں کہ فسادیوں کو قتل کیا جاتا رہے گا اور وہ جلا وطن کیے جاتے رہیں گے اور جہاں کہیں بھی ہوں گے ملعون و ماخوذ اور مقتول ہوتے رہیں گے۔ (وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا) اور آپ اللہ کے طریقہ یعنی عادت مستمرہ میں تبدیلی نہ پائیں گے۔ چونکہ مذکورہ بالا طریقہ کے مطابق تکوینی فیصلے ہونا امور فرغیہ میں سے نہیں ہیں اس لیے اس میں نسل کا احتمال نہیں۔ ١ ؂ وھم قوم کان فیھم ضعف ایمانھم وقلۃ ثبات علیہ عماھم علیہ من التزلزل وما یستتبعہ ما لا خیر فیہ۔ (روح المعانی) اور وہ ایسی قوم ہے کہ جس میں ایمان کی کمزوری ہے اور نہ ہی ایمان پر استقامت ہے اس لیے کہ وہ متزلزل ہیں اور ان کے علاوہ ان میں بھی غیر ایمانی رویے ہیں۔ صاحب روح المعانی نے جو اقوال لکھے ہیں ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ منافقین ایذا کے کاموں سے رک گئے تھے اور جو وعید نازل ہوئی تھی اس کے ڈر سے اپنے کاموں سے باز آگئے تھے لہٰذا اغراء اور اخراج اور قتل کا وقوع نہیں ہوا، اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ جن لوگوں کو تنبیہ کی گئی تھی وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے اور مسجد سے نکال کر انہیں ذلیل کیا گیا اور ان پر نماز جنازہ پڑھنے سے بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منع فرما دیا اور اس طرح وہ سب کی نظروں میں ملعون ہوگئے۔ یہ تو منافقین کے ساتھ ہوا البتہ یہودیوں کو مدینہ منورہ سے جلا وطن کیا گیا یہ قبیلہ بنی نضیر تھا، اور یہود کے قبیلہ بنی قریظہ کے بالغ مردوں کو قتل کردیا گیا۔ (خوف و ہراس کی خبریں اڑانے میں یہود کا زیادہ حصہ تھا۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

64:۔ سنۃ اللہ الخ، شر پسند اور فساد انگیز عناصر اور باغیوں کے بارے میں گذشتہ شریعتوں میں بھی اللہ کا یہی دستور تھا اور اب بھی یہی دستور ہے۔ اب کوئی نیاز طریق کار نافذ نہیں کیا جائے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

62۔ اللہ تعالیٰ کا یہی دستور ان لوگوں میں بھی جاری رہا ہے جو ان سے پہلے ہو گزرے ہیں اور آپ اللہ تعالیٰ کے دستور میں کسی کی طرف سے کوئی رد و بدل نہ پائیں گے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی روش یہی ہے وہ وہ ابنیاء (علیہم السلام) کی مدد کرتا ہے اور جن کا ظلم و طغیان حد سے تجاوز ہوجاتا ہے ان کو دنیا ہی میں سزا دینے کا حکم دیتا ہے اور یہ واقعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی روش اور اس کے طریقہ کو کوئی بدلنے والا نہیں مل سکتا جب وہ کسی دستور کو جاری کرنا چاہے تب بھی کوئی اس کی مشیت کو تبدیل نہیں کرسکتا اور نہ حکم جاری کردینے کے بعد کوئی اس کو روک سکتا ہے۔ بہر حال ! اس وعید سے باندیوں کی عصمت کا تحفظ بھی ہوگیا اور حرائر کو تشبیہ بالا ماء کی بھی ممانعت ہوگئی۔