Surat ul Ahzaab

Surah: 33

Verse: 8

سورة الأحزاب

لِّیَسۡئَلَ الصّٰدِقِیۡنَ عَنۡ صِدۡقِہِمۡ ۚ وَ اَعَدَّ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابًا اَلِیۡمًا ٪﴿۸﴾  17

That He may question the truthful about their truth. And He has prepared for the disbelievers a painful punishment.

تاکہ اللہ تعالٰی سچوں سے ان کی سچائی کے بارے میں دریافت فرمائے ، اور کافروں کے لئے ہم نے المناک عذاب تیار کر رکھے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لِيَسْأَلَ الصَّادِقِينَ عَن صِدْقِهِمْ ... That He may ask the truthful about their truth. Mujahid said: "This refers to, those who convey the Message from the Messengers." ... وَأَعَدَّ لِلْكَافِرِينَ ... And He has prepared for the disbelievers. i.e., among their nations, ... عَذَابًا أَلِيمًا a painful torment. i.e., agonizing. We bear witness that the Messengers did indeed convey the Message of their Lord and advised their nations, and that they clearly showed them the truth in which there is no confusion, doubt or ambiguity, even though they were rejected by the ignorant, stubborn and rebellious wrongdoers. What the Messengers brought is the truth, and whoever opposes them is misguided. As the people of Paradise will say: لَقَدْ جَأءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ Indeed, the Messengers of our Lord did come with the truth. (7:43)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

81یہ لام کئ ہے یعنی یہ عہد اس لئے لیا تھا تاکہ اللہ سچے نبیوں سے پوچھے کہ انہوں نے اللہ کا پیغام اپنی قوموں تک پہنچایا تھا یا دوسرا مطلب یہ ہے کہ انبیاء سے پوچھے کہ تمہاری قوموں نے تمہاری دعوت کا جواب کس طرح دیا ؟ مثبت انداز میں یا منفی طریقے سے، اس میں داعیان حق کے لئے بھی تنبیہ ہے کہ وہ دعوت حق کا فریضہ پوری تن دہی اور اخلاص سے ادا کریں تاکہ بارگاہ الٰہی میں سرخرو ہو سکیں، اور ان لوگوں کے لئے بھی وعید ہے جن کو حق کی دعوت پہنچائی جائے کہ اگر وہ اسے قبول نہیں کریں گے تو عند اللہ مجرم اور مستوجب سزا ہوں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣] انبیاء کے عہد کی ان سے باز پرس بھی ہوگی :۔ یہ محض عہد لینے تک ہی معاملہ نہیں ہوجاتا بلکہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس عہد سے متعلق پیغمبروں سے بھی سوال کرے گا۔ ان کی بھی بازپرس ہوگی۔ انھیں بھی پوچھا جائے گا کہ آیا تم نے اپنی قوم کو میرا پیغام پہنچا دیا تھا ؟ پھر اس قوم نے تمہیں کیا جواب دیا تھا ؟ یا تمہاری دعوت کا ردعمل کیا ہوا تھا ؟ یہ مطلب تو ربط مضمون کے لحاظ سے ہے۔ تاہم یہاں رسولوں کے بجائے صادقین کا لفظ آیا ہے۔ گویا ہر ایماندار سے اس کے عہد کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ پھر جن لوگوں نے اللہ کے ساتھ کئے ہوئے عہد کو پورا کیا ہوگا وہی لوگ صادق العہد قرار پائیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لِّيَسْـَٔـلَ الصّٰدِقِيْنَ عَنْ صِدْقِهِمْ ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ عہد محض قول و قرار کے لیے نہیں لیا، بلکہ اس لیے لیا ہے کہ وہ قیامت کے دن پیغمبروں سے سوال کرے گا کہ کیا تم نے قوم کو میرا پیغام پہنچایا ؟ پھر قوم نے تمہیں کیا جواب دیا اور دعوت کا نتیجہ کیا ہوا ؟ پیغمبروں سے جو عہد لیا، وہ ان کی امت کے لوگوں کے لیے بھی ہے اور ” صادقین “ کا لفظ بھی عام ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر مومن سے بھی اس عہد کے متعلق سوال ہوگا، پھر جن لوگوں نے اللہ کے ساتھ کیے ہوئے اس عہد کو پورا کیا وہی صادق قرار پائیں گے اور اجر کے مستحق ہوں گے اور جنھوں نے اس کا انکار کیا، ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لِّيَسْـَٔـلَ الصّٰدِقِيْنَ عَنْ صِدْقِہِمْ۝ ٠ ۚ وَاَعَدَّ لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابًا اَلِـــيْمًا۝ ٨ ۧ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔ صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ عد ( اعداد) والإِعْدادُ مِنَ العَدِّ كالإسقاء من السَّقْيِ ، فإذا قيل : أَعْدَدْتُ هذا لك، أي : جعلته بحیث تَعُدُّهُ وتتناوله بحسب حاجتک إليه . قال تعالی: وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال/ 60] ، وقوله : أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء/ 18] ، وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان/ 11] ، وقوله : وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] ، قيل : هو منه، وقوله : فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ البقرة/ 184] ، أي : عدد ما قد فاته، وقوله : وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة/ 185] ، أي : عِدَّةَ الشّهر، وقوله : أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 184] ، فإشارة إلى شهر رمضان . وقوله : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 203] ، فهي ثلاثة أيّام بعد النّحر، والمعلومات عشر ذي الحجّة . وعند بعض الفقهاء : المَعْدُودَاتُ يومُ النّحر ويومان بعده «1» ، فعلی هذا يوم النّحر يكون من المَعْدُودَاتِ والمعلومات، والعِدَادُ : الوقت الذي يُعَدُّ لمعاودة الوجع، وقال عليه الصلاة والسلام :«ما زالت أكلة خيبر تُعَادُّنِي» «2» وعِدَّانُ الشیءِ : عهده وزمانه . ( ع د د ) العدد الاعداد تیار کرنا مہیا کرنا یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقاء اور اعددت ھذا لک کے منعی ہیں کہ یہ چیز میں نے تمہارے لئے تیار کردی ہے کہ تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو اس سے حسب ضرورت لے سکتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال/ 60] اور جہاں تک ہوسکے ( فوج کی جمیعت سے ) ان کے ( مقابلے کے لئے مستعد رہو ۔ اور جو ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں ۔ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء/ 18] ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان/ 11] اور ہم نے جھٹلا نے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اعتدت بھی اسی ( عد ) سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة/ 185] تم روزوں کا شمار پورا کرلو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ماہ رمضان کی گنتی پوری کرلو ۔ أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 184] گنتی کے چند روز میں ماہ رمضان کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 203] اور گنتی کے دنوں میں خدا کو یاد کرو ۔ میں سے عید قربان کے بعد کے تین دن مراد ہیں اور معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ایام معدودۃ سے یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن مراد ہیں اس صورت میں یوم النحر بھی ان تین دنوں میں شامل ہوگا ۔ العداد اس مقرر وقت کو کہتے ہیں جس میں بیماری کا دورہ پڑتا ہو ۔ آنحضرت نے فرمایا مازالت امۃ خیبر تعادنی کہ خیبر کے دن جو مسموم کھانا میں نے کھایا تھا اس کی زہر بار بار عود کرتی رہی ہے عد ان الشئی کے معنی کسی چیز کے موسم یا زمانہ کے ہیں كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ ألم الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء/ 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام/ 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» . ( ا ل م ) الالم کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ { فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ } ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

تاکہ قیامت کے دن مبلغین سے ان کی تبلیغ کی اور اقرار وعدہ کرنے والوں سے ان کے وفائے عہد کی اور اہل ایمان سے ان کے ایمان کی تحقیق کرے۔ اور انبیائے کرام اور اللہ کی کتابوں کا انکار کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے دوزخ کا دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے کہ اس عذاب کی شدت ان کے دلوں تک سرایت کرجائے گی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨ { لِّیَسْئَلَ الصّٰدِقِیْنَ عَنْ صِدْقِہِمْ } ” تاکہ اللہ پوچھ لے سچے لوگوں سے ان کے سچ کے بارے میں۔ “ یہاں اس فقرے کے بعد یہ الفاظ گویا محذوف ہیں : وَالْـکٰذِبِیْنَ عَنْ کِذْبِھِم (اور وہ جھوٹوں سے بھی پوچھ لے ان کے جھوٹ کے بارے میں ! ) تاکہ اللہ تعالیٰ تمام انسانوں سے ان کے عقائد و اعمال کے بارے میں اچھی طرح سے پوچھ گچھ کرلے۔ { وَاَعَدَّ لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا اَلِیْمًا } ” اور اس نے تیار کر رکھا ہے کافروں کے لیے ایک دردناک عذاب۔ “ پہلے رکوع کے اختتام پر اس مضمون کا سلسلہ عارضی طور پر منقطع کیا جا رہا ہے۔ یہاں پر تمہیداً ُ منہ بولے بیٹے کی قانونی حیثیت کو واضح کردیا گیا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت فرمائی گئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کافرین و منافقین کی باتوں کی طرف بالکل دھیان نہ دیں اور ان کی طرف سے منفی پراپیگنڈے کے اندیشوں کو بالکل نظر انداز کر کے اللہ کے حکم پر عمل کریں ۔ - ۔ اس مضمون کی مزید تفصیل چوتھے رکوع میں آئے گی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

16 That is, "Allah has not just taken the covenant but will also question as to how far it has been kept. Then only those who will have kept Allah's Covenant faithfully, will be declared to be the truthful. " 17 To understand the theme of vv. 1-8 well these should be read together with vv. 36-41 of this Surah.

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :16 یعنی اللہ تعالیٰ محض عہد لے کر نہیں رہ گیا ہے بلکہ اس عہد کے بارے میں وہ سوال کرنے والا ہے کہ اس کی کہاں تک پابندی کی گئی ۔ پھر جن لوگوں نی سچائی کے ساتھ اللہ سے کیے ہوئے عہد کو وفا کیا ہو گا وہی صادق العہد قرار پائیں گے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :17 اس رکوع کے مضمون کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو اسی سورہ کی آیات ۳٦ ۔ ٤۱ کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

9: یہ عہد اس واسطے لیا گیا تھا کہ لوگوں تک اللہ تعالیٰ کا پیغام ٹھیک ٹھیک پہنچ جائے، اور ان پر حجت تمام ہوجائے، اور پھر اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان سے پوچھ گچھ کرے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں کس قدر سچائی سے کام لیا، اگر انبیاء کرام اپنے عہد کے مطابق اللہ تعالیٰ کا پیغام ان تک ٹھیک ٹھیک نہ پہنچاتے تو ان پر حجت قائم نہ ہوتی، اور نہ اللہ تعالیٰ ان سے باز پرس فرماتا، کیونکہ حجت تمام کئے بغیر کسی سے باز پرس کرنا اس کے انصاف کے خلاف ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(33:8) لیسئل میں لام کی کا مرادف ہے ۔ اور میثاق لینے کی غایت کو ظاہر کرنے کے لئے ہے یسئل میں ضمیر فاعل اللہ کی طرف اجع ہے۔ تاکہ (آپ کا رب) پوچھے۔ الصدیقین۔ امد فاعل جمع مذکر منصوب بوجہ یسئل کے مفعول ہونے کے۔ الصادقین سے مراد پیغمبر ہیں۔ لفظ الصادقین لاکر یہ خود بتادیا کہ انبیاء نے اپنا عہد پورا کیا اور وہ اپنے اقرار میں سچے تھے۔ صدقہم۔ یعنی تبلیغ رسالت و دعوۃ الی الحق کے بارے میں۔ اعد ماضی واحد مذکر غائب ۔ اعداد (افعال) مصدر جس کے معنی تیار کرنے کے ہیں۔ یہ عد سے مشتق ہے جس کے معنی شمار کرنے کے ہیں اسی اعتبار سے اعداد کے معنی کسی چیز کے اس طرح تیار کرنے کے ہیں کہ وہ شمار کی جاسکے۔ الکافرین۔ اسم فاعل جمع مذکر مجرور۔ انکار کرنے والے ۔ حق کو نہ ماننے والے۔ صاحب وحی کے اتباع کے منکر۔ عذابا الیما۔ موصوف و صفت۔ منصوب بوجہ اعد کے مفعول ہونے کے ۔ جنود۔ جند کی جمع ۔ لشکر ۔ فوجیں۔ مراد الاحزاب (گروہ۔ ٹولیاں۔ پارٹیاں ۔ قریش کی پارٹی ابو سفیان کی قیادت میں، بنو اسد کے لشکری طلیحہ کی کمان میں۔ بنو غطفان عینیہ کے تحت، بنو عامر بن طفیل کے تحت۔ بنو سلیم ، بنو نضیر، بنو قریظہ کی سپاہ اپنے اپنے سالاروں کی کمان میں۔ ریحا ۔ وجنودا دونوں بوجہ ارسلنا کے مفعول ہونے کے منصوب ہیں۔ ریح وہ ہوا متحرک ہے جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہے۔ ریح اصل میں روح تھا۔ ما قبل کے مکسور ہونے کی بناء پر واؤ کو ی سے بدل دیا گیا۔ اصل کے اعتبار سے اس کی جمع ارواح اور کسرہ ماقبل کی بناء پر اس کی جمع ریاح ہے۔ جنودا (ملائکہ کی فوجیں) لم تروھا میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب جنودا کے لئے ہے جن کو تم نہ دیکھ سکے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 کہ اس اقرار کی کہاں تک پابندی کی گئی اور لوگوں نے ان کی باتوں کو سن کر کیا جواب دیا ؟

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ اس عہد اور اس غایت سے دونوں امر کا وجوب ثابت ہوگیا، صاحب وحی پر اتباع وحی کا وجوب اور غیر صاحب وحی پر اتباع صاحب وحی کا وجوب۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(لِّیَسْءَلَ الصّٰدِقِیْنَ عَنْ صِدْقِھِمْ ) (تاکہ اللہ سچوں سے ان کی سچائی کے بارے میں سوال فرمائے) اس میں میثاق لینے کی حکمت بیان فرمائی اور مطلب یہ ہے کہ یہ میثاق اس لیے لیا گیا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نبیوں سے دریافت فرمائے جو عہد کرنے میں سچے تھے کہ تم نے اپنے عہد کے مطابق اپنی امتوں کو تبلیغ کی یا نہیں ؟ صحیح بخاری جلد ٢ ص ٤٦٥ میں ہے کہ قیامت کے دن حضرت نوح (علیہ السلام) کو لایا جائے گا اور ان سے سوال کیا جائے گا کہ کیا تم نے تبلیغ کی ؟ تو وہ عرض کریں گے کہ اے رب میں نے واقعتہً تبلیغ کی، پھر ان کی امت سے سوال ہوگا کہ کیا انہوں نے تمہیں میرے احکام پہنچائے ؟ وہ کہیں گے نہیں ! ہمارے پاس تو کوئی نذیر (ڈرانے والا) نہیں آیا، اس کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) سے پوچھا جائے گا کہ تمہارے دعوے کی تصدیق کے لیے گواہی دینے والے کون ہیں ؟ وہ جواب دیں گے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے امتی ہیں۔ یہاں تک بیان فرمانے کے بعد آنحضرت سید دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت کو خطاب کرکے فرمایا کہ اس کے بعد تم کو لایا جائے گا اور تم گواہی دو گے کہ بیشک حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو تبلیغ کی تھی۔ مسند احمد وغیرہ کی روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے علاوہ دیگر انبیاء کرام (علیہ السلام) کی امتیں بھی انکاری ہوں گی اور کہیں گی کہ ہم کو تبلیغ نہیں کی گئی، ان کے نبیوں سے سوال ہوگا کہ تم نے تبلیغ کی ؟ وہ اثبات میں جواب دیں گے کہ واقعی ہم نے تبلیغ کی تھی، اس پر ان سے گواہ طلب کیے جائیں گے تو وہ بھی حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت کی گواہی پیش کریں گے۔ (درمنثور جلد ١ ص ١٤٤) حضرت انبیاء کرام (علیہ السلام) سے یہ سوال ان کی امتوں کے سامنے ہوگا تاکہ ان پر حجت قائم ہوجائے۔ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) سچے تھے اور ان کے ماننے والے اپنے ایمان میں سچے تھے ان کے بارے میں سورة مائدہ کے آخری رکوع میں فرمایا (قَال اللّٰہُ ھٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُھُمْ ) (یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو ان کی سچائی نفع دے گی) جن لوگوں نے سچ کو جھٹلایا ان کے بارے میں فرمایا (وَ اَعَدَّ لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا اَلِیْمًا) (اور کافروں کے لیے درد ناک عذاب تیار فرمایا) سورة زمر میں فرمایا (فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَذَبَ عَلَی اللّٰہِ وَکَذَّبَ بالصِّدْقِ اِِذْ جَاءَہُ اَلَیْسَ فِیْ جَہَنَّمَ مَثْوًی لِّلْکٰفِرِیْنَ ) (سو اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا اور سچ کو جھٹلایا جب اس کے پاس آیا، کیا جہنم میں کافروں کا ٹھکانہ نہیں ہے۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

8۔ تا کہ اللہ تعالیٰ ان سچوں سے ان کے سچ کو دریا فت کرے اور ان کے سچ کی تحقیقات فرمائے اور اللہ تعالیٰ نے منکروں کے لئے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یوم میثاق میں جس طرح عام انسانوں سے الست بربکم کا عہد لیا۔ اسی طرح عام انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام سے تبلیغ توحید اسلام اور دعوت رسالت کا عہد لیا اور باہمی تناصر اور تعاون کا عہد لیا ، اگرچہ نبی تین میں سب میں سب ہی پیغمبر داخل ہیں لیکن ان میں سے اولوالعزم پیغمبروں کا خصوصیت سے نام لیا اور ان میں نبی آخر الزماں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مقدم فرمایا تا کہ آپ کی اولیت اور آپ کے مراتب علیا کا اظہار ہو کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی خلق کے اعتبار سے اول ہیں اگرچہ آپ کو اس عالم میں جملہ عمل کی تکمیل کے لئے آخر میں بھیجا گیا اور تاکید کے طور پر فرمایا کہ عہد خوب پختہ لیا اور یہ عہد اور اس کی پختگی اس لئے ہوئی تاکہ قیامت میں ان سچوں سے ان کے سچ کی تحقیقات کرے اور عہد کی وفا میں جو سچے ہیں ان کا سچ ظاہر رنے کے لئے ان سچوں سے ان کے سچ کی تحقیقات کرے اور عہد کی وفا میں جو سچے ہیں ان کا سچ ظاہر کرنے کے لئے دریافت کیا جائے اس کو سوال تشریف کہتے ہیں اس سوال سے جس طرح صادقین کی بزرگی اور ادائے تبلیغ کا اظہار ہوگا اسی طرح منکرین و مخالفین کے لئے یہ سوال باعث ندامت ہے جس طرح اس آیت سے صاحب وحی پر اتباع وحی اور اس کی تبلیغ کا وجوب ثابت ہے۔ اسی طرح سننے والوں پر صاحب وحی کی اتباع کرنے کا وجوب ثابت ہے گویا صاحب وحی کو اپنی وحی پر عمل کرنا واجب اور غیر صاحب وحی کو صاحب وحی کی اتباع واجب اس لئے نافرمانی کرنیوالوں کے لئے وعیدکا ذکر کیا گیا کہ جو لوگ صاحب وحی کی اتباع کرنے سے انکار کرتے ہیں اور پیغمبروں کی تبلیغ توحید کی مخالفت کرتے ہیں ان کیلئے درد ناک عذاب تیار کررکھا ہے آگے اللہ تعالیٰ نے اپنے احسانات کا ذکر فرمایا اور خاص طور پر غزوۂ احزاب میں جو غیبی امداد فرمائی اس کو یاد دلایا۔