Surat Saba

Surah: 34

Verse: 20

سورة سبأ

وَ لَقَدۡ صَدَّقَ عَلَیۡہِمۡ اِبۡلِیۡسُ ظَنَّہٗ فَاتَّبَعُوۡہُ اِلَّا فَرِیۡقًا مِّنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۲۰﴾

And Iblees had already confirmed through them his assumption, so they followed him, except for a party of believers.

اور شیطان نے ان کے بارے میں اپنا گمان سچا کر دکھایا یہ لوگ سب کے سب اس کے تابعدار بن گئے سوائے مومنوں کی ایک جماعت کے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

How Iblis' thought about the Disbeliever proved True Having mentioned Saba' and how they followed their desires, and the Shaytan, Allah tells us about their counterparts among those who follow Iblis and their own desires, and who go against wisdom and true guidance. Allah says: وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ إِبْلِيسُ ظَنَّهُ ... And indeed Iblis did prove true his thought about them, Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, and others said that this Ayah is like the Ayah where Allah tells us about how Iblis refused to prostrate to Adam, peace be upon him, then said: أَرَءَيْتَكَ هَـذَا الَّذِى كَرَّمْتَ عَلَىَّ لَيِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَـمَةِ لاَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إَلاَّ قَلِيلً See this one whom You have honored above me, if You give me respite to the Day of Resurrection, I will surely seize and mislead his offspring all but a few! (17:62) ثُمَّ لاتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَـنِهِمْ وَعَن شَمَأيِلِهِمْ وَلاَ تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَـكِرِينَ Then I will come to them from before them and behind them, from their right and from their left, and You will not find most of them as thankful ones. (7:17) And there are many Ayat which refer to this matter. ... فَاتَّبَعُوهُ إِلاَّ فَرِيقًا مِّنَ الْمُوْمِنِينَ and they followed him, all except a group of true believers.

ابلیس اور اس کا عزم ۔ سبا کے قصے کے بیان کے بعد شیطان کے اور مریدوں کا عام طور پر ذکر فرماتا ہے کہ وہ ہدایت کے بدلے ضلالت بھلائی کے بدلے برائی لے لیتے ہیں ۔ ابلیس نے راندہ درگاہ ہو کر جو کہا تھا کہ میں ان کی اولاد کو ہر طرح برباد کرنے کی کوشش کروں گا اور تھوڑی سی جماعت کے سوا باقی سب لوگوں کو تیری سیدھی راہ سے بھٹکا دوں گا ۔ اس نے یہ کر دکھایا اور اولاد آدم کو اپنے پنجے میں پھانس لیا ۔ جب حضرت آدم و حوا اپنی خطا کی وجہ سے جنت سے اتار دیئے گئے اور ابلیس لعین بھی ان کے ساتھ اترا اس وقت وہ بہت خوش تھا اور جی میں اترا رہا تھا کہ جب انہیں میں نے بہکا لیا تو ان کی اولاد کو تباہ کر دینا تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ اس خبیث کا قول تھا کہ میں ابن آدم کو سبز باغ دکھاتا رہوں گا غفلت میں رکھوں گا ۔ طرح طرح سے دھوکے دوں گا اور اپنے جال میں پھنسائے رکھوں گا ۔ جس کے جواب میں جناب باری جل جلالہ نے فرمایا تھا مجھے بھی اپنی عزت کی قسم موت کے غرغرے سے پہلے جب کبھی وہ توبہ کرے گا میں فوراً قبول کرلوں گا ۔ وہ مجھے جب پکارے گا میں اس کی طرف متوجہ ہو جاؤں گا ۔ مجھ سے جب کبھی جو کچھ مانگے گا میں اسے دوں گا ۔ مجھ سے جب وہ بخشش طلب کرے گا میں اسے بخش دوں گا ۔ ( ابن ابی حاتم ) ، اس کا کوئی غلبہ ، حجت ، زبردستی ، مارپیٹ انسان پر نہ تھی ۔ صرف دھوکہ ، فریب اور مکر بازی تھی جس میں یہ سب پھنس گئے ۔ اس میں حکمت الٰہی یہ تھی کہ مومن و کافر ظاہر ہو جائیں ۔ حجت اللہ ختم ہو جائے آخرت کو ماننے والے شیطان کی نہیں مانیں گے ۔ اس کے منکر رحمان کی اتباع نہیں کریں گے ۔ اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے ۔ مومنوں کی جماعت اس کی حفاظت کا سہارا لیتی ہے اس لئے ابلیس ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا اور کافروں کی جماعت خود اللہ کو چھوڑ دیتی ہے اس لئے ان پر سے اللہ کی نگہبانی ہٹ جاتی ہے اور وہ شیطان کے ہر فریب کا شکار بن جاتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٣٣] جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کرکے فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا تو ابلیس نے سجدہ سے انکار کردیا تھا اور جب آدم و ابلیس کی آپس میں ٹھن گئی تو ابلیس آدم کو چکمہ دینے پر اور اللہ کی نافرمانی پر اکسانے میں کامیابی ہوگیا تو اس وقت ہی اس نے یہ خیال ظاہر کردیا تھا اور اللہ تعالیٰ کو برملا کہہ دیا تھا کہ میں اولاد آدم کے اکثر حصہ کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہوجاؤں گا۔ تھوڑے ہی تیرے ایسے بندے ہوں گے جو تیرے شکرگزار بن کر رہیں گے۔ قوم سبا کے حالات سے بھی یہی نتیجہ سامنے آتا ہے اور دوسرا اقوام کے حالات سے بھی کہ ابلیس فی الواقعہ ایسا گمان کرنے میں سچا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ اِبْلِيْسُ ظَنَّهٗ ۔۔ : یعنی ابلیس نے آدم (علیہ السلام) کو سجدے سے انکار کے بعد جس گمان کا اظہار کیا تھا کہ تو ان کے اکثر کو شکر کرنے والے نہیں پائے گا۔ (دیکھیے اعراف : ١٧) اس ظالم نے قوم سبا کو گمراہ کر کے ان کے بارے میں اپنے اس گمان کو سچا کر دکھایا، چناچہ وہ سب اس کے پیچھے لگ گئے، صرف مومنوں کا ایک گروہ اس سے محفوظ رہا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ سبا میں بھی ہمیشہ کچھ لوگ ایسے موجود رہے جو اللہ واحد کی عبادت پر قائم رہے اور شیطان ان پر اپنا تسلّط قائم نہ کرسکا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اور واقعی ابلیس نے اپنا گمان ان لوگوں کے بارے میں (یعنی بنی آدم کے بارے میں) صحیح پایا (یعنی اس کو جو یہ گمان تھا کہ میں آدم کی اکثر ذریت کو گمراہ کر دوں گا، کیونکہ یہ مٹی سے اور میں آگ سے پیدا ہوا ہوں (درمنثور) اس کا یہ گمان صحیح نکلا) کہ یہ سب اسی راہ پر ہو لئے مگر ایمان والوں کا گروہ (کہ ان میں ایمان کامل والے تو بالکل محفوظ رہے، اور ضعیف الایمان گو گناہوں میں مبتلا ہوگئے، مگر شرک و کفر سے وہ بھی محفوظ رہے) اور ابلیس کا ان لوگوں پر (جو) تسلط (بطور اغوا کے ہے وہ) بجز اس کے اور کسی وجہ سے نہیں کہ ہم کو (ظاہری طور پر) ان لوگوں کو جو آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ان لوگوں سے (الگ کر کے) معلوم کرنا ہے جو اس کی طرف سے شک میں ہیں (یعنی مقصود امتحان ہے کہ مومن و کافر میں امتیاز ہوجائے، تاکہ بمقتضائے عدل و حکمت ثواب و عذاب کے احکام جاری ہوں) اور (چونکہ) آپ کا رب ہر چیز کا نگراں ہے (جس میں لوگوں کا ایمان و کفر بھی داخل ہے) اس لئے ہر ایک کو مناسب جزاء و سزا ملے گی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْہِمْ اِبْلِيْسُ ظَنَّہٗ فَاتَّبَعُوْہُ اِلَّا فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝ ٢٠ صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ بلس الإِبْلَاس : الحزن المعترض من شدة البأس، يقال : أَبْلَسَ ، ومنه اشتق إبلیس فيما قيل . قال عزّ وجلّ : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم/ 12] ، وقال تعالی: أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام/ 44] ، وقال تعالی: وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم/ 49] . ولمّا کان المبلس کثيرا ما يلزم السکوت وينسی ما يعنيه قيل : أَبْلَسَ فلان : إذا سکت وإذا انقطعت حجّته، وأَبْلَسَتِ الناقة فهي مِبْلَاس : إذا لم ترع من شدة الضبعة . وأمّا البَلَاس : للمسح، ففارسيّ معرّب «1» . ( ب ل س ) الا بلاس ( افعال ) کے معنی سخت نا امیدی کے باعث غمگین ہونے کے ہیں ۔ ابلیس وہ مایوس ہونے کی وجہ سے مغمون ہوا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسی سے ابلیس مشتق ہے ۔ قرآن میں ہے : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم/ 12] اور جس دن قیامت بر پا ہوگی گنہگار مایوس مغموم ہوجائیں گے ۔ أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام/ 44] توہم نے ان کو نا گہاں پکڑلیا اور وہ اس میں وقت مایوس ہوکر رہ گئے ۔ وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم/ 49] اور بیشتر تو وہ مینہ کے اترنے سے پہلے ناامید ہو رہے تھے ۔ اور عام طور پر غم اور مایوسی کی وجہ سے انسان خاموش رہتا ہے اور اسے کچھ سوجھائی نہیں دیتا اس لئے ابلس فلان کے معنی خاموشی اور دلیل سے عاجز ہونے ب کے ہیں ۔ ظن والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم/ 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن/ 7] ، ( ظ ن ن ) الظن اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔ فریق والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آخرین، قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] ( ف ر ق ) الفریق اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور واقعتا ابلیس نے ان لوگوں کے بارے میں اپنا گمان بالکل صحیح پایا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ سب کفر اختیار کر کے اسی کے راستہ پر چلے سواوئے ایمان والوں کی جماعت کے یا یہ کہ سب نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں شیطان کی راہ اختیار کی مگر مسلمانو کی ایک جماعت نے جن کی تعداد ستر ہزار ہے جو کہ جنت میں بغیر حساب و عذاب کے داخل ہوں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ { وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَیْہِمْ اِبْلِیْسُ ظَنَّہٗ } ” اور یقینا ابلیس نے ان کے بارے میں اپنا گمان سچ کر دکھایا “ { فَاتَّبَعُوْہُ اِلَّا فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ } ” سو ان سب نے اس (ابلیس) کی پیروی کی ‘ سوائے مومنین کی ایک جماعت کے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

35 History shows that in ancient times there lived among the Sabaeans a small group of the people, who believed in one God, apart from all other gods. The inscriptions that have been discovered in the ruins of Yaman as a result of modern archaeological research point to the existence of this small element. Some inscriptions of the period about 650 B.C. indicate that at several places in the kingdom of Saba there existed such houses of worship as were exclusively meant for the worship of dhu-samavi or dhu-samavi (i.e. Rabb as-Sama': Lord of the heavens). In some places this Deity has been mentioned as Makkan dhu-samavi (the King who is the Owner of the heavens). This remnant of the Sabaeans continued to live in Yaman for centuries afterwards. Thus, in an inscription of 378 A.D. also there is found the mention of a house of worship built in the name of Ilah dhu-semevi'. Then, in an inscription dated 465 A.D. the words are; Bi-nasr wa rida ilah-in ba'l samin wa ardin (i.e. with the help and support of that God Who is the Owner of the heavens and the earth). In another inscription of the period dated 458 A.D., the word Rahman has been used for the same God, the actual words being bi-rida Rahmanan (i. e. with the help of Rehman).

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :35 تاریخ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قدیم زمانے سے قوم سبا میں ایک عنصر موجود تھا جو دوسرے معبودوں کو ماننے کے بجائے خدائے واحد کو مانتا تھا ۔ موجودہ زمانے کی اثری تحقیقات کے سلسلے میں یمن کے کھنڈروں سے جو کتبات ملے ہیں ان میں سے بعض اس قلیل عنصر کی نشان دہی کرتے ہیں ۔ 650 قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے کے بعض کتبات بتاتے ہیں کہ مملکت سبا کے متعدد مقامات پر ایسی عبادت گاہیں بنی ہوئی تھیں جو ذسموی یا ذو سماوی ( یعنی رب السماء ) کی عبادت کے لیے مخصوص تھیں ۔ بعض مقامات پر اس معبود کا نام ملکن ذُسموی ( وہ بادشاہ جو آسمانوں کا مالک ہے ) لکھا گیا ہے ۔ یہ عنصر مسلسل صدیوں تک یمن میں موجود رہا ۔ چنانچہ 378 کے ایک کتبے میں بھی الٰہ ذو سموی کے نام سے ایک عبادت گاہ کی تعمیر کا ذکر ملتا ہے ۔ پھر 465 کے ایک کتبے میں یہ الفاظ پائے جاتے ہیں: بنصر وردا الٰھن بعل سمین وارضین ( یعنی اس خدا کی مدد اور تائید سے جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے ) ۔ اسی زمانہ کے ایک اور کتبے میں جس کی تاریخ 458 قبل مسیح ہے اسی خدا کے لیے رحمان کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے ۔ اصل الفاظ ہیں بردا رحمنن ( یعنی رحمان کی مدد سے ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

14: یعنی ابلیس نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت جو خیال ظاہر کیا تھا کہ میں آدم (علیہ السلام) کی اولاد کو بہکاؤں گا، ان سرکش لوگوں کے حق میں وہ واقعی درست نکلا کہ انہوں نے اس کی بات مان لی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(34:20) صدق علیہم ظنہ۔ اس نے ان کے خلاف اپنا گمان سچ کر دکھایا۔ شیطان کے ظن سے مراد اس کی وہ لاف زنی ہے جو اس نے اللہ رب العزت کے حضور اولاد آدم کے خلاف کی تھی۔ مثلاً اس نے کہا تھا فبعزتک لاغوینہم اجمعین (38:82) تیری عزت کی قسم میں ضرور ان سب کو گمراہ کروں گا۔ اور ولا تجد اکثرہم شکرین (7:17) اور آپ ان میں سے اکثر کو اپنا شکر گذار نہ پائیں گے۔ فاتبعوہ الا فریقا من المؤمنین۔ فاتبعوا میں ضمیر فاعل جمع مذکر غائب بنی آدم کی طرف راجع ہے اور من المؤمنین میں من بیانیہ ہے گویا لفظ فریق من المؤمنین کی تشریح و توضیح کر رہا ہے ای الا فریقا ہم المؤمنون لم یتبعوہ۔ ترجمہ ہوگا۔ ابلیس نے نبی نوع انسان کے خلاف اپنا گمان سچ کر دکھایا۔ بنی آدم نے اس کا اتباع کیا ماسوائے مومنوں کے گروہ کے جنہوں نے اس کی پیروی نہ کی۔ اتبعوا میں ضمیر فاعل اہل سبا کے لئے اور من تبعیضیہ بھی بیان کیا گیا ہے !

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی ابلیس نے آدم ( علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت یہ جو گمان کیا تھا کہ ان کی اولاد میں سے اکثر لوگ نا شکرے ہونگے۔ سبا والوں کے معاملے میں اس کا گمان سچ ثابت ہوا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی بنی آدم کے بارہ میں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جو مصیبت پر صبر نہیں کرتا اور اپنے رب کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ شیطان کی بات کو سچ کر دکھاتا ہے۔ ہمیشہ ان لوگوں کی اکثریت رہی ہے۔ ابلیس غیب کا علم نہیں جانتا تھا لیکن وہ سمجھتا تھا کہ جن عناصر پر حضرت آدم (علیہ السلام) کو تخلیق کیا گیا ہے وہ باہم متصادم ہیں جس بنا پر آدم (علیہ السلام) اور اس کی اولاد کو گمراہ کرنا آسان ہوگا۔ اس کے علاوہ ابلیس جِنّات کو بھی دیکھ چکا تھا کہ ان کی اکثریت گمراہ ہوچکی ہے۔ ابلیس کے اسی گمان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ابلیس نے اپنے گمان کو سچ کر دکھایا کہ مومنوں کی جماعت کے علاوہ باقی سب لوگ اس کی پیروی کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے ایسا اختیار نہیں دیا جس سے وہ اپنی طاقت کے زور پر لوگوں کو گمراہ کرسکے۔ شیطان کو صرف یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے جھوٹے وعدوں، مکر و فریب اور برے اعمال کو فیشن کے طور پر پیش کرکے لوگوں کو گمراہ کرسکے۔ اسی بنیاد پر شیطان سچے اور پکے ایمان داروں کے سوا دوسرے لوگوں کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ اختیار اس لیے دیا ہے کہ شیطان کے ذریعے امتیاز ہوسکے کہ کون شخص آخرت پر سچا اور پکا ایمان رکھتا ہے اور کون آخرت کے بارے میں شک کا شکار ہوتا ہے۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کا رب ہر چیز پر نگران ہے۔ آخرت پر ایمان کا اس لیے حوالہ دیا ہے کہ آخرت پر یقین رکھنے والا شخص بالآخر سیدھے راستے پر آجاتا ہے۔ کیونکہ اسے احساس ہوتا ہے کہ میں نے اپنے اعمال کا اپنے رب کے حضور جواب دینا ہے۔ نگران کی صفت بیان فرما کر یہ واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا محافظ اور نگہبان ہے یعنی اس سے کوئی بات اور چیز پوشیدہ نہیں۔ لیکن اس کے باوجود لوگوں کی آزمائش کرنے اور مومنوں سے گمراہوں کو جدا کرنے کے لیے اس نے شیطان کو ایک حد تک اختیار دے رکھا ہے جس بنا پر وہ ایسے لوگوں کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے جن کا آخرت پر سچا اور پکا ایمان نہیں ہوتا۔ جس آدمی کا جس قدر آخرت کی جوابدہی کے بارے میں سچا اور پکا ایمان ہوگا وہ اسی قدر ہی شیطان کے پھندوں سے محفوظ رہے گا۔ کیونکہ شیطان کو اس طرح کا اختیار اور غلبہ نہیں دیا گیا جس بنا پر وہ لوگوں کو گمراہ کرسکے اس لیے قیامت کے دن جہنمیوں کے سامنے شیطان اپنے بارے میں اس بات کا اظہار کرے گا۔ کہ جو وعدہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ کیا تھا وہ سچا تھا اور جو وعدہ میں تمہارے ساتھ کیا کرتا تھا وہ جھوٹا تھا۔ میرا تم پر کوئی زور نہ تھا۔ بس میں نے تمہیں گمراہی کی دعوت دی جسے تم نے قبول کرلیا۔ اب مجھے ملامت کرنے کی بجائے اپنے آپ کو ملامت کرو۔ نہ میں تمہاری مدد کرسکتا ہوں اور نہ ہی تم میری مدد کرسکتے ہو۔ دنیا میں جو تم مجھے اللہ کا شریک بناتے رہے ہو میں اس کا انکار کرتا ہوں۔ یقیناً ظالموں کے لے اذّیت ناک عذاب ہے (ابراہیم : ٣٢) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کا ہر وعدہ سچا ہے اور شیطان کے تمام وعدے جھوٹے ہیں۔ ٢۔ شیطان قیامت کے دن ہر قسم کے شرک سے انکار کردے گا۔ ٣۔ انسان کو گمراہ کرنے کے لے اللہ تعالیٰ نے شیطان کو کوئی تسلّط نہیں دیا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے ظالموں کے لیے اذّیت ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا ہر وعدہ سچا ہے اور شیطان کے تمام وعدے جھوٹے ہیں : ١۔ اللہ تعالیٰ کی بات سے کسی کی بات سچی نہیں ہوسکتی۔ (النساء : ٨٧) ٢۔ اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ (آل عمران : ٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ حق ہے تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے۔ (لقمان : ٣٣) ٤۔ جو اللہ کا وعدہ پورا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔ (البقرۃ : ٤٠) ٥۔ شیطان کا وعدہ فریب ہے۔ (بنی اسرائیل : ٦٤) ٦۔ شیطان مفلسی سے ڈراتا اور بےحیائی کا حکم دیتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٦٨) ٧۔ شیطان برے اعمال فیشن بنا دیتا ہے۔ (النحل : ٦٣) ٨۔ لوگو ! شیطان تمہارا دشمن ہے اسے اپنا دشمن سمجھو۔ ( فاطر : ٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولقد صدق علیھم۔۔۔۔۔۔۔ کل شئ حفیظ (20 – 21) یہ قوم ، اس راستے پر چل کر اس کا یہ انجام کیوں ہوا ؟ اس لیے کہ ابلیس نے اپنی منصوبہ بندی کو درست پایا اور وہ ان کو گمراہ کرنے میں کامیاب رہا۔ ہاں اہل ایمان کو وہ گمراہ نہ کرسکا ، مومنین کے گروہ کو وہ گمراہ نہ کرسکا “۔ کیونکہ ہر گمراہ سوسائٹی میں لوگوں کی ایک قلیل تعداد ایسی رہ جاتی ہے جو گمراہ ہونے سے انکار کردیتی ہے اور یہ قلیل گروہ مومنین اس بات کا گواہ ہوتا ہے کہ سچائی اپنی جگی قائم ہوتی ہے۔ صرف اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی سچائی کا طالب ہو۔ اگر کوئی طالب ہو تو سچائی مل جاتی ہے۔ بدترین حالات میں بھی سچائی قائم رہتی ہے۔ جہاں تک ابلیس کا تعلق ہے لوگوں کے اوپر اس کو کوئی جابرانہ اقتدار حاصل نہیں ہے کہ وہ ان کو مجبور کرکے گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔ شیطان ہر حال میں لوگوں پر مسلط ہوتا ہے۔ اب لوگوں میں سے بعض حق پر ثابت قدم ہوجاتے ہیں اور بعض لوگ حق کے طالب ہی نہیں ہوتے۔ وہ گمراہ ہوجاتے ہیں۔ پھر عالم واقعہ میں یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ مومن کون ہے اور مومن کو اس کا ایمان برے راستے سے بچاتا ہے۔ ممن ھو منھا فی شک (34: 21) ” اس سے جو آخرت سے شک میں ہوتا ہے “۔ جو شخص آخرت پر یقین رکھتا ہے وہ بچ جاتا ہے اور جو آخرت کے بارے میں شک کرتا ہے وہ شیطان کی گمراہی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اللہ کو تو پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ کون سیدھی راہ لے گا اور کون غلط لے گا لیکن اللہ اللہ تعالیٰ فیصلوں کو تب صادر کرتا ہے جب وہ عملاً صادر ہوجاتے ہیں۔ اس وسیع میدان میں یعنی اللہ کی تدبیر اور تقدیر کے وسیع میدان میں شیطان کو یہ آزادی دی گئی ہے کہ وہ کسی کو مجبور کیے بغیر لوگوں مسلط ہوجائے اور ان نتائج کو ظاہر کر دے جو پہلے سے اللہ کے علم میں تھے۔ اس میدان میں قصہ سبا دراصل تمام اقوام عالم کا قصہ ہے۔ اقوام کے عروج وزوال کی داستان وہی ہے جو سبا کی ہے۔ اس لیے اس آیت کے دائرہ اطلاق کو وسیع کردیا جاتا ہے۔ یہ اصول قوم سبا تک محدود نہیں رہتا۔ تمام انسانوں کے اچھے اور برے حالات اسی اصول کے تحت آتے جاتے ہیں۔ لوگوں کا ہدایت پانا اور گمراہ ہونا اسباب ہدایت اور اسباب ضلالت اختیار کرنے کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ وربک علیٰ کل شئ حفیظ (34: 21) ” اور تیرا رب ہر چیز پر نگران ہے “۔ اس سے کوئی چیز غائب نہیں ہوتی ، کوئی چیز نظام تخلیق میں مہمل نہیں ہوتی اور نہ بےکار ہوتی ہے “۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَیْھِمْ اِبْلِیْسُ ظَنَّہٗ ) (الآیتین) (اور یہ بات واقعی ہے ان کے بارے میں ابلیس نے اپنا گمان صحیح پالیا، سو اسی کے اتباع میں لگ گئے سوائے اہل ایمان کی تھوڑی سی جماعت کے، اور ابلیس کا ان لوگوں پر جو کچھ زور تھا صرف اس لیے تھا کہ ہم یہ جان لیں کہ آخرت پر ایمان لانے والا کون ہے جو ان لوگوں سے علیحدہ ہے جو اس کی طرف سے شک میں ہے اور آپ کا رب ہر چیز پر نگران ہے) ابلیس نے ملعون قرار دئیے جانے کے بعد جو اللہ تعالیٰ کے دربار میں یوں عرض کیا تھا کہ میں بنی آدم کو بہکاؤں گا، ورغلاؤں گا اور ان میں سے اکثر کو گمراہ کرکے چھوڑوں گا۔ (لَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ ) اور ان میں سے اکثر ناشکرے ہوں گے (وَلَا تَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شٰکِرِیْنَ ) اس نے اپنے اس گمان کو سچ کر دکھایا یعنی اس نے جو کچھ کہا تھا صحیح پایا اکثر بنی آدم اس کے اتباع میں لگ گئے مگر تھوڑے سے افراد جو مومن بندے ہیں انہوں نے اس کا اتباع نہیں کیا۔ شیطان نے جو ان لوگوں پر غلبہ پایا اس کا سبب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو وسوسہ ڈالنے کی قوت دی اور انسان کو امتحان میں ڈالا، اس میں خیر اور شر کو قبول کرنے کی استعداد رکھی تاکہ ثواب یا عتاب کا مستحق ہوسکے، موت اور حیات امتحان کے لیے رکھی ہے، انسان پر جبر اور اکراہ نہیں رکھا تاکہ وہ کچھ کرے اپنے اختیار سے کرے اور ابلیس کا تسلط بھی اسی سلسلہ امتحان کی ایک کڑی ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) جنت میں ایک ممنوع درخت کے کھانے پر نکالے گئے تھے تو اللہ تعالیٰ نے فرما دیا تھا : (فَاِمَّا یَاْتِیْنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لاَ ھُمْ یَحْزَنُوْن وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ) (پس اگر تمہارے پاس میری ہدایت آئے تو جو لوگ اس کا اتباع کریں گے ان پر کوئی خوف نہیں اور وہ رنجیدہ نہ ہوں گے، اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا تو وہ آگ میں جانے والے ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ ) جب بنی آدم دنیا میں آئے تو اختیار بھی ساتھ لائے، ہوش گوش بھی ملا اور امتحان کے لیے شیطان کو بھی وسوسے ڈالنے کا موقع دے دیا گیا اور ساتھ ہی حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی دعوت بھی سامنے آتی رہی اور لوگ ان کے معجزات بھی دیکھتے رہے، لہٰذا انسانوں کے لیے اپنے خالق اور مالک کی الوہیت اور اس کے رسولوں کی دعوت کی حقانیت میں کسی طرح کا کوئی شک کرنے کا موقع نہ تھا لیکن بہت سے لوگوں نے شک کیا، حق میں شک کرنا کفر ہے جس کی وجہ سے مستحق عقاب و عذاب ہوئے۔ اس آیت میں بتادیا کہ شیطان کو جو تسلط دیا گیا کہ وہ وسوسہ ڈال سکے اس کی حکمت یہ تھی کہ ہمیں علم ظہوری کے طور پر یہ معلوم ہوجائے کہ کون لوگ آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں اور کون لوگ شک میں پڑنے والے ہیں، لیکن یہ تسلط ایسا نہیں ہے کہ جبر اور اکراہ کے درجہ میں ہو جس سے انسان مجبور محض بن جائے اور ہوش و گوش اور اختیار باقی نہ رہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

21:۔ ولقد صدق الخ : ابلیس کا گمان ان کے بارے میں صحیح نکلا۔ ابلیس نے کہا تھا۔ ولا تجد اکثرہم شاکرین (اعراف رکوع 2) ۔ اے اللہ ! تو اولاد آدم میں سے بہتوں کو شکر گذار نہیں پائے گا۔ میں ان کو سبز باغ دکھا کر اپنے پیچھے لگا لوں گا۔ چناچہ اہل سبا ابلیس کے ورغلانے میں آگئے اور اس کے پیچھے لگ گئے۔ البتہ مومنوں کی ایک جماعت نے ابلیس کی پیروی نہ کی اور حق پر ثابت قدم رہے۔ من المومنین میں من بیانیہ ہے ای الا فریقا منہم المومنون لم یتبعوہ علی ان من بیانیۃ (روح ج 22 ص 134) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(20) اور بلاشبہ شیطان نے بنی آدم کے بارے میں جو رائے اور جو گمان قائم کیا تھا صحیح اور سچا پایا کہ ایمان والوں کی ایک تھوڑی سی جماعت اور فریق کے سوا سب شیطان کے پیچھے ہو لئے اور اس کی پیروی کرنے لگے۔ یعنی شیطان نے جس گمان کا اظہار کیا تھا کہ ولا تجداکثرھم شکرین کہ آپ ان انسانوں میں سے اکثر کو شکرگزار نہ پائیں گے تو اس لعین نے جیسا خیال قائم کیا تھا اور جس گمان کا اظہار کیا تھا وہی ہوا کہ سوائے اہل ایمان کی ایک تھوڑی سی جماعت کے سب ہی اس کی اتباع کرنے لگے اور ظاہر ہے کہ اہل ایمان کی تعداد خواہ کتنی ہو دین حق کے منکروں کے مقابلے میں کم ہی ہیں۔ کامل اہل ایمان تو شیطان سے بالکل محفوظ رہے اور فاسق مسلمان بھی عصیان اور نافرمانی میں شیطان کے کہنے پر چلنے لگے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں پہلے دن ابلیس نے کہا لا حتنکن ذریۃ الاقلیلا ویسے ہی نکلے۔ خلاصہ : یہ کہ یہ بھی شیطان کا قول تھا کہ میں اس آدم کی تمام اولاد کو بس میں کرلوں گا۔ مگر تھوڑے میرے بس میں نہ آئیں گے۔ سو ویسا ہی ہوا کہ اس خبیث نے جو اندازہ لگایا تھا وہ صحیح نکلا آگے شیطان کے بہکانے اور اس کے ظاہری تسلط کی حقیقت بیان فرمائی۔