Surat Saba

Surah: 34

Verse: 45

سورة سبأ

وَ کَذَّبَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۙ وَ مَا بَلَغُوۡا مِعۡشَارَ مَاۤ اٰتَیۡنٰہُمۡ فَکَذَّبُوۡا رُسُلِیۡ ۟ فَکَیۡفَ کَانَ نَکِیۡرِ ﴿٪۴۵﴾  11

And those before them denied, and the people of Makkah have not attained a tenth of what We had given them. But the former peoples denied My messengers, so how [terrible] was My reproach.

اور ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی ہماری باتوں کو جھٹلایا تھا اور انہیں ہم نے جو دے رکھا تھا یہ تو اس کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچے ، پس انہوں نے میرے رسولوں کو جھٹلایا ، ( پھر دیکھ کہ ) میرا عذاب کیسا ( سخت ) تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَكَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ... And those before them denied; meaning, other nations. ... وَمَا بَلَغُوا مِعْشَارَ مَا اتَيْنَاهُمْ ... these have not received even a tenth of what We had granted to those (of old); Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, said, "Of the power of this world." This was also the view of Qatadah, As-Suddi and Ibn Zayd. This is like the Ayat: وَلَقَدْ مَكَّنَـهُمْ فِيمَأ إِن مَّكَّنَّـكُمْ فِيهِ وَجَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعاً وَأَبْصَـراً وَأَفْيِدَةً فَمَأ أَغْنَى عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَلاَ أَبْصَـرُهُمْ وَلاَ أَفْيِدَتُهُمْ مِّن شَىْءٍ إِذْ كَانُواْ يَجْحَدُونَ بِـَايَـتِ اللَّهِ وَحَاقَ بِهم مَّا كَانُواْ بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ And indeed We had firmly established them with that wherewith We have not established you! And We had assigned them the hearing, seeing, and hearts; but their hearing, seeing, and their hearts availed them nothing since they used to deny the Ayat of Allah, and they were completely encircled by that which they used to mock at! (46:26) أَفَلَمْ يَسِيرُواْ فِى الاٌّرْضِ فَيَنظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَـقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ كَانُواْ أَكْـثَرَ مِنْهُمْ وَأَشَدَّ قُوَّةً Have they not traveled through the earth and seen what was the end of those before them They were more in number than them and mightier in strength. (40:82) but that did not protect them from the punishment of Allah, and Allah destroyed them because they denied His Messengers. Allah says: ... فَكَذَّبُوا رُسُلِي فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ yet they denied My Messengers. Then how (terrible) was My denial! meaning, `how severe was My wrath and how great was My avenging of My Messengers.'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

45۔ 1 یہ کفار مکہ کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ تم نے جھٹلایا اور انکار کا راستہ اختیار کیا ہے، وہ نہایت خطرناک ہے تم سے پچھلی امتیں بھی اسی راستے پر چل کر تباہ ہوچکی ہیں۔ یہ امتیں مال ودولت، قوت وطاقت اور عمروں کے لحاظ سے تم سے بڑھ کر تھیں، تم ان کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچتے لیکن اس کے باوجود وہ اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکیں، اسی مضمون کو سورة احقاف کی (وَلَقَدْ مَكَّنّٰهُمْ فِيْمَآ اِنْ مَّكَّنّٰكُمْ فِيْهِ وَجَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعًا وَّاَبْصَارًا وَّاَفْـــِٕدَةً ڮ فَمَآ اَغْنٰى عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَلَآ اَبْصَارُهُمْ وَلَآ اَفْــِٕدَتُهُمْ مِّنْ شَيْءٍ اِذْ كَانُوْا يَجْـحَدُوْنَ ۙبِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَحَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ ) 46 ۔ الاحقاف :26) میں بیان فرمایا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٦٩] یعنی اقوام سابقہ جو تباہ کی جاچکیں وہ ان قریش مکہ سے قدو قامت، ڈیل ڈول، قوت، مال و دولت اور عیش و فراوانی غرض ہر لحاظ سے بہت زیادہ تھیں۔ یہ قریش مکہ تو ان کے مقابلہ میں دسواں حصہ بھی نہیں۔ پھر جب ان اقوام نے ہمارے رسولوں کی تکذیب کی تو انہیں اس قوت اور سطوت کے باوجود تباہ و برباد کرکے رکھ دیا گیا۔ تو آخر یہ لوگ کس کھیت کی مولی ہیں جو ہماری گرفت سے بچ سکیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَكَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۔۔ : ” مِعْشَارَ “ اور ” عُشْرٌ“ دونوں کا معنی دسواں حصہ ہے۔ یعنی پہلی اقوام جو تباہ کی گئیں، انھیں جو قد و قامت، قوت و دولت اور شان و شوکت عطا کی گئی تھی، ان عرب کے کافروں کے پاس تو اس کا دسواں حصہ بھی نہیں۔ دیکھیے سورة روم (٩) ، مومن (٢١) اور سورة احقاف (٢٦) ۔ فَكَذَّبُوْا رُسُلِيْ ۣ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيْرِ :” نَكِيْرِ “ اصل میں ” نَکِیْرِيْ “ ہے، آیات کے فواصل (آخری حروف) کی موافقت کے لیے یاء حذف کردی اور کسرہ یہ بتانے کے لیے باقی رکھا کہ یہاں یاء محذوف ہے، یعنی میرا انکار، میرا عذاب۔ انھوں نے میرے رسولوں کو جھٹلایا تو دیکھ لو اس پر میں نے انھیں کیسی سخت سزا دی اور کس طرح برباد کیا کہ ان کا نشان تک نہیں ملتا، تو ان بےچاروں کی کیا حیثیت ہے کہ یہ ہماری گرفت سے بچ سکیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The word: مِعْشَارَ‌ (mi&shar) in verse 45: وَمَا بَلَغُوا مِعْشَارَ‌ مَا آتَيْنَاهُمْ (while these (infidels of Makkah) have not reached even one tenth of what We gave to those (before them) has been taken to mean: عُشُر (&ushr: a tenth) by some early commentators. Some scholars have interpreted it as: عُشرُ العُشر (ushr-ul-` ushr: a hundredth) while others call it: عُشرُ العَشِیر (` ushr-ul ` ashir: a thousandth). Obviously, the later has a higher degree of exaggeration as compared to &ushr or ten. The sense of the verse is that not even a tenth, rather a thousandth, of the worldly wealth, power, blessings of age and health given to earlier communities was received by the people of Makkah. Therefore, they should take lesson from what happened to past communities and the evil end they faced. These were people who invited upon themselves the wrath of Allah when they rejected prophets and messengers and, consequently, when came the actual punishment, their power, bravery, wealth and fortified fortresses could do nothing for them.

معارف ومسائل (آیت) ومابلغوا معشار ما اتینہم، لفظ معشار بعض نے بمعنی عشر کہا ہے۔ یعنی دسواں حصہ اور بعض علماء نے عشرالعشر یعنی سوواں حصہ اور بعض نے عشرالعشیر یعنی ہزارویں حصہ کو معشار کہا ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ اس لفظ میں بہ نسبت عشر کے مبالغہ ہے، معنی آیت کے یہ ہیں کہ دنیا کی ثروت و دولت و حکومت اور عمر طویل اور صحت قوت وغیرہ، جو پچھلی امتوں کو دی گئی تھی اہل مکہ کو اس کا دسواں بلکہ ہزارواں حصہ بھی حاصل نہیں، اسی لئے ان کو چاہئے کہ ان پچھلی اقوام کے حالات اور انجام بد سے عبرت حاصل کریں کہ وہ لوگ رسولوں کی تکذیب کر کے خدا تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا ہوئے اور وہ عذاب آ گیا تو ان کی قوت و شجاعت اور مال و دولت اور محفوظ قلعے کچھ کام نہ آسکے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَكَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝ ٠ ۙ وَمَا بَلَغُوْا مِعْشَارَ مَآ اٰتَيْنٰہُمْ فَكَذَّبُوْا رُسُلِيْ ۝ ٠ ۣ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيْرِ۝ ٤٥ۧ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے بلغ البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] ( ب ل غ ) البلوغ والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ عشر العَشْرَةُ والعُشْرُ والعِشْرُونَ والعِشْرُ معروفةٌ. قال تعالی: تِلْكَ عَشَرَةٌ كامِلَةٌ [ البقرة/ 196] ، عِشْرُونَ صابِرُونَ [ الأنفال/ 65] ، تِسْعَةَ عَشَرَ [ المدثر/ 30] ، وعَشَرْتُهُمْ أَعْشِرُهُمْ : صِرْتُ عَاشِرَهُمْ ، وعَشَرَهُمْ : أَخَذَ عُشْرَ مالِهِمْ ، وعَشَرْتُهُمْ : صيّرتُ مالهم عَشَرَةً ، وذلک أن تجعل التِّسْعَ عَشَرَةً ، ومِعْشَارُ الشّيءِ : عُشْرُهُ ، قال تعالی: وَما بَلَغُوا مِعْشارَ ما آتَيْناهُمْ [ سبأ/ 45] ، وناقة عُشَرَاءُ : مرّت من حملها عَشَرَةُ أشهرٍ ، وجمعها عِشَارٌ. قال تعالی: وَإِذَا الْعِشارُ عُطِّلَتْ [ التکوير/ 4] ، وجاء وا عُشَارَى: عَشَرَةً عَشَرَةً ، والعُشَارِيُّ : ما طوله عَشَرَةُ أذرع، والعِشْرُ في الإظماء، وإبل عَوَاشِرُ ، وقَدَحٌ أَعْشَارٌ: منکسرٌ ، وأصله أن يكون علی عَشَرَةِ أقطاعٍ ، وعنه استعیر قول الشاعر : بسهميك في أَعْشَارِ قلب مقتّل والعُشُورُ في المصاحف : علامةُ العَشْرِ الآیاتِ ، والتَّعْشِيرُ : نُهَاقُ الحمیرِ لکونه عَشَرَةَ أصواتٍ ، ( ع ش ر ) العشرۃ دس العشرۃ دسواں حصہ العشرون بیسواں العشر ( مویشیوں کا دسویں دن پانی پر وار ہونا ) قرآن میں ہے : تِلْكَ عَشَرَةٌ كامِلَةٌ [ البقرة/ 196] یہ پوری دس ہوئے عِشْرُونَ صابِرُونَ [ الأنفال/ 65] بیس آدمی ثابت قدم ۔ تِسْعَةَ عَشَرَ [ المدثر/ 30] انیس ( درواغے ) میں ان میں دسواں بن گیا عشرھم ان سے عشر یعنی مال کا دسواں حصہ وصول کیا ۔ عشرتھم میں نے ان کے مویشی دس بنادیئے یعنیپہلے نو تھے ان میں ایک اور شامل کر کے دس بنادیا معشار الشئی دسواں حصہ ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما بَلَغُوا مِعْشارَ ما آتَيْناهُمْ [ سبأ/ 45] اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا تھا یہ اس کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچے ۔ ناقۃ عشرء دس ماہ کی حاملہ اونٹنی اس کی جمع عشار آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَإِذَا الْعِشارُ عُطِّلَتْ [ التکوير/ 4] ، اور جب دس ماہ کی گابھن ( حاملہ ) اور نٹینیاں بیکار ہوجائیں گی ۔ جاؤ عشاری وہ دس دس افراد پر مشتعمل ٹولیاں بن کر آئے ۔ العشاری ہر وہ چیز دس ہاتھ لمبی ہو ۔ العشاری ہر وہ چیز جو دس ہاتھ لمبی ہو ۔ العشر اونٹوں کو پانی نہ پلانے کی مدت ( نودن ) ابل عواشر نودن کے پیا سے اونٹ قدح اعشار ٹوٹا ہوا پیالہ دراصل اعشار لا لفظ اس چیز پر بولا جاتا ہے جو ٹوٹ کر دس ٹکڑے ہوگیا ہو اسی سے شاعر نے بطور استعارہ کہا ہے ( 311 ) بسھمیک فی اعشار قلب مقتل تم اپنی ( نگاہوں ) کے دونوں تیرے میرے شکستہ دل کے ٹکڑوں پر ( مارنا چاہتی ہو العشور کے معنی گدھے کی آواز کے ہیں کیونکہ گدھا جب آواز کرتا ہے تو دس مرتبہ آواز کرتا ہے آتینا وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء/ 54] . [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . { وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا } [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ { فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا } [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ { مُلْكًا عَظِيمًا } [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ { آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ } [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ نكر الإِنْكَارُ : ضِدُّ العِرْفَانِ. يقال : أَنْكَرْتُ كذا، ونَكَرْتُ ، وأصلُه أن يَرِدَ علی القَلْبِ ما لا يتصوَّره، وذلک ضَرْبٌ من الجَهْلِ. قال تعالی: فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود/ 70] ، فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] وقد يُستعمَلُ ذلک فيما يُنْكَرُ باللّسانِ ، وسَبَبُ الإِنْكَارِ باللّسانِ هو الإِنْكَارُ بالقلبِ لکن ربّما يُنْكِرُ اللّسانُ الشیءَ وصورتُه في القلب حاصلةٌ ، ويكون في ذلک کاذباً. وعلی ذلک قوله تعالی: يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل/ 83] ، فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ ( ن ک ر ) الانکار ضد عرفان اور انکرت کذا کے معنی کسی چیز کی عدم معرفت کے ہیں اس کے اصل معنی انسان کے دل پر کسی ایسی چیز کے وارد ہونے کے ہیں جسے وہ تصور میں نہ لاسکتا ہو لہذا یہ ایک درجہ جہالت ہی ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود/ 70] جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہین جاتے ( یعنی وہ کھانا نہین کھاتے ۔ تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا ۔ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] تو یوسف (علیہ السلام) کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ اس کو نہ پہچان سکے ۔ اور کبھی یہ دل سے انکار کرنے پر بولا جاتا ہے اور انکار لسانی کا اصل سبب گو انکار قلب ہی ہوتا ہے ۔ لیکن بعض اوقات انسان ایسی چیز کا بھی انکار کردیتا ہے جسے دل میں ٹھیک سمجھتا ہے ۔ ایسے انکار کو کذب کہتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ۔ يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل/ 83] یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں مگر واقف ہوکر ان سے انکار کرتے ہیں ۔ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [ المؤمنون/ 69] اس وجہ سے ان کو نہیں مانتے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور آپ کی قوم سے پہلے کافروں نے انبیاء کرام کی تکذیب کی تھی تو یہ قریش اس سامان کے جو کہ ہم نے ان سے پہلے کافروں کو دے رکھا تھا دسویں حصہ کو بھی نہیں پہنچے یا یہ کہ ان کے اموال و اولاد اور ان کی عمارتیں اور طاقتیں ان کافروں کے جو کہ ان سے پہلے گزرے ہیں دسویں حصہ کے برابر بھی نہیں۔ غرض کہ جب وہ ایمان نہیں لائے تو میں نے عذاب کے ذریعے کیسا ان کا خاتمہ کیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٥ { وَکَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ } ” اور ان لوگوں نے بھی جھٹلایا تھا جو ان سے پہلے تھے “ { وَمَا بَلَغُوْا مِعْشَارَ مَـآ اٰتَـیْنٰہُمْ } ” اور یہ تو اس کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچے جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا تھا “ مثلاً قوم عاد کو جو شان و شوکت عطا ہوئی تھی اور اپنے علاقے میں جیسا ان کا رعب ودبدبہ تھا قریش مکہ کو تو اس کا ُ عشر عشیر بھی حاصل نہیں ہے۔ { فَکَذَّبُوْا رُسُلِیْقف فَکَیْفَ کَانَ نَـکِیْرِ } ” تو انہوں نے میرے رسولوں (علیہ السلام) کو جھٹلایا ‘ پس کیسی رہی (ان کے لیے ) میری پکڑ ! “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

65 That is, "The people of Makkah have not attained even one-tenth of the power and grandeur and prosperity that was possessed by those people. But just see how they went to their doom ultimately and their power and wealth could not avail them anything, when they refused to believe in the realities presented before them by the Prophets, and founded their system of life on falsehood."

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :65 یعنی مکے کے لوگ تو اس قوت و شوکت اور اس خوشحالی کے عشر عشیر کو بھی نہیں پہنچے ہیں جو ان قوموں کو حاصل تھی ۔ مگر دیکھ لو کہ جب انہوں نے ان حقائق کو ماننے سے انکار کیا جو انبیاء علیہم السلام نے ان کے سامنے پیش کیے تھے ، اور باطل پر اپنے نظام زندگی کی بنیاد رکھی تو آخر کار وہ کس طرح تباہ ہوئیں اور ان کی قوت و دولت ان کے کسی کام نہ آسکی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(34:45) من قبلہم ۔ میں ضمیر ھم کا مرجع وہی لوگ ہیں جن کے لئے ہم، ہم کا آیۃ ما قبل میں استعمال ہے یعنی بنی اسمعیل یا قوم عرب۔ ما اتینہم میں ضمیر ہم کا مرجع الذین من قبلہم ہے۔ ما بلغوا۔ میں ما نافیہ ہے بلغوا ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب۔ (ضمیر فاعل کا مرجع وہی قوم عرب ہے) بلوغ مصدر وہ نہیں پہنچے۔ معشار۔ اسم دسواں حصہ۔ عشر وعشرۃ بمعنی دس۔ جاء وا عشاری۔ وہ دس دس کی ٹولیاں بنا کر آئے۔ عشیرۃ دس کا جتھہ چونکہ دس کی تعداد کو کامل مانا جاتا ہے لہٰذا عشیرۃ بمعنی کامل خاندان۔ خاندانوں کا آپس میں برتائو۔ معشر بڑا گروہ۔ مطلب یہ ہے کہ ان اہل عرب یا کفار مکہ سے پہلے گذرے ہوئے لوگوں نے بھی (انبیا کو) جھٹلایا۔ اور یہ وہ لو گت تھے۔ جن کو ہم نے وہ کچھ دیا ہوا تھا۔ (از قسم جاہ و جلال، مال واولاد) کہ یہ کفار مکہ یا قوم عرب تو اس دئیے ہوئے کے دسویں حصہ کو بھی نہیں پہنچے پس انہوں نے (جب ) میرے پیغمبروں کی تکذیب کی تو کتنا ہولناک تھا میرا عذاب (جو ان پر آیا) مطلب یہ کہ ان کفار مکہ کی ان کے سامنے تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ نکیر۔ اصل میں نکیری تھا۔ میرا عذاب۔ الانکار سے جو عرفان کی ضد ہے اس کے اصل معنی انسان کے دل پر کسی ایسی چیز کے وارد ہونے کے ہیں جسے وہ تصور میں نہ لاسکتا ہو۔ لہٰذا یہ ایک درجہ کی جہالت ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں ہے یعرفون نعمۃ اللہ ثم ینکرونھا (16:83) یہ لوگ اللہ کی نعمتوں کو پہچانتے ہیں اور پھر ان سے انجان ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح نکرہ ضد میں معرفہ، اور تنکیر کی ضد میں تعریف ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ پہچاننا یا تجاہل برتنا کسی کو سخت، دشوار، ہیبت ناک، مصیبت میں ڈال دینا ہے لہٰذا نکیر بمعنی ہلاکت، عذاب ۔ تدمیر ہے۔ پس فکیف کان نکیر کا معنی ہوگا۔ پس کیسا رہا میرا عذاب۔ انہی معنوں میں اور جگہ ارشاد ہے۔ وکذب موسیٰ فاملیت للکفرین ثم اخذتہم فکیف کان نکیر (22:44) اور (حضرت) موسیٰ بھی جھٹلائے گئے سو (پہلے تو) میں نے کافروں کو مہلت دی پھر میں نے انہیں پکڑ لیا سو (دیکھو) میرا عذاب کیسا ہوا۔ المنکر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقول سلیمہ قبیح خیال کریں یا عقل کو تو اس کے حسن وقبح پر توقف ہو مگر شریعت نے اس کے قبیح ہونے کا حکم دیا ہو۔ الامرون بالمعروف والناھون عن المنکر (9:112) نیک کاموں کا امر کرنے والے اور بری باتوں سے منع کر والے۔ باب تفعیل سے بےپہچان کردینے کے معنی میں بھی آیا ہے ۔ مثلاً نکروا لھا عرشھا (27:41) اس کے تخت کی صورت بدل دو

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی پچھے کافروں کو ہم نے جو دولت اور شان و شوکت دی تھی ان عرب کے کافروں کے پاس تو اس کا دسواں حصہ بھی نہیں ہے۔4 یعنی پیغمبروں کی تکذیب پر انہیں کیسی سخت سزا دی ایسا تباہ و برباد کیا کہ نام و نشان تک مٹ گیا تو پھر یہ عرب کے کافر کس بل بوتے پر اکڑتے ہیں اور کس زعم میں بغاوت کی روش اختیار کئے ہوئے ہیں ؟

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی ان کی سی قوت ان کی سی عمریں، ان کی سی ثروت ان کو نہیں ملی جو کہ مایہ اعتزاز اور مابہ الافتخار ہوتا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد مشرکین مکہ کے لیے وعید ذکر فرمائی : (وَکَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَمَا بَلَغُوْا مِعْشَارَ مَآ اٰتَیْنٰھُمْ ) (اور ان لوگوں نے جھٹلایا جو ان سے پہلے تھے اور حال یہ ہے کہ ان لوگوں کو جو کچھ ہم نے دیا تھا یہ لوگ اس کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچے) (فَکَذَّبُوْا رُسُلِیْ فَکَیْفَ کَانَ نَکِیْرِ ) (سو ان لوگوں نے میرے رسولوں کو جھٹلایا سو کیسا تھا میرا عذاب) مطلب یہ ہے کہ سابقہ امتیں تکذیب کی وجہ سے ہلاک ہوئی ہیں ان کے پاس تو حکومتیں بھی تھیں، اموال بھی تھے، طرح طرح کے سامان بھی ان کے پاس تھے، قلعے تھے، بڑے بڑے مکانات تھے اور ان کی عمریں بھی بڑی تھیں انہیں ان پر گھمنڈ بھی تھا یہ لوگ جو تکذیب پر اڑے ہوئے ہیں اور عناد پر جمے ہوئے ہیں ان کے پاس تو ان نعمتوں کا دسواں حصہ بھی نہیں ہے جو ہم نے گزشتہ امتوں کو دی تھیں، ان لوگوں کے احوال انہیں معلوم ہیں، اسفار میں جاتے ہیں تو ان کے نشانات دیکھتے ہیں، تکذیب رسل کی وجہ سے وہ ہلاک کردئیے گئے انہیں بھی اپنا انجام سوچ لینا چاہیے جبکہ ان کے سامنے ان کی اہمیت کچھ بھی نہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

46:۔ و کذب الخ : یہ تخویف دنیوی ہے بلغوا کی ضمیر فاعل سے مشرکین عرب مراد ہیں اور اتینہم کی ضمیر مفعول الذین من قبلہم سے کنایہ ہے۔ قالہ الشیخ قدس سرہ۔ یعنی مشرکین مکہ سے پہلے جو قومیں گذر چکی ہیں انہیں ہم نے اس قدر دولت، قوت، شان و شوکت اور دنیوی ساز و سامان کی فراوانی عطا فرمائی تھی کہ مشرکین مکہ کے تمام وسائل و اسباب ان کے وسائل کا عشر عشیر بھی نہیں۔ جب ان قوموں نے ہمارے پیغمبروں کو جھٹلایا تو ہم نے ان کو بری طرح پکڑا اور ذلیل و رسوا کر کے انہیں تہس نہس کردیا اور ان کی ساری دولت و شوکت اور شیخی دھری کی دھری رہ گئی۔ یہ مشرکین مکہ تو ان کے مقابلے میں کسی شمار میں بھی نہیں ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(45) اور جو لوگ ان سے پہلے تھے انہوں نے بھی تکذیب کا شیوہ اختیار کیا تھا اور ان کی حالت یہ تھی کہ جو سازوسامان ہم نے ان کو دیا تھا اس کے دسویں حصہ کو بھی یہ کفار مکہ نہیں پہنچے غرض ان لوگوں نے میرے رسولوں کی تکذیب کی اور جھٹلایا پھر دیکھ لو میرے انکار کا انجام ان کے حق میں کیسا ہوا۔ مطلب یہ ہے کہ تم سے پہلی قومیں ہر اعتیار میں تم سے کہیں زیادہ تھیں۔ قوت، شوکت، سامان عیش و ترفہ حاشیہ نشینوں کی کثرت وغیرہ ان کے مقابلہ میں تمہارے پاس تو دسواں حصہ بھی نہیں ہے مال و متاع کی کمی حمایتیوں کی قوت کم عمریں پہلوں سے کم۔ جب ہم نے ان سابقہ قوموں کو پیغمبروں کی تکذیب کے باعث نہیں چھوڑا اور تباہی کے گھاٹ اتار دیا تو تم کس گنتی اور شمار میں ہو۔ ومابلغوا معشارما اتینھم میں مفسرین کے چار قول ہیں مگر ہم نے مشہور قول اختیار کرلیا ہے اگر تطویل کا اندیشہ نہ ہوتا تو ہم چاروں اقوال پر بحث کرتے۔ ایک قول ان اقوال میں سے یہ ہے کہ جو حجت اور دلیل اور علم بیان اس امت کو دیا گیا ہے اس کا دسواں حصہ بھی ان کو نہیں دیا گیا۔ پھر جب رسول کی مخالفت سے ان کو برباد کیا گیا تو تم تو ان سے زیادہ ذمہ دار ہو اپنی قابلیت کی بناء پر تم سوچو کہ تمہارا انجام کیا ہوگا۔ (واللہ اعلم)