Surat Saba

Surah: 34

Verse: 49

سورة سبأ

قُلۡ جَآءَ الۡحَقُّ وَ مَا یُبۡدِئُ الۡبَاطِلُ وَ مَا یُعِیۡدُ ﴿۴۹﴾

Say, "The truth has come, and falsehood can neither begin [anything] nor repeat [it]."

کہہ دیجئے! کہ حق آچکا باطل نہ تو پہلے کچھ کر سکا ہے اور نہ کرسکے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Say: "The truth has come, and the falsehood can neither create anything nor resurrect." means, truth and the great Law have come from Allah, and falsehood has gone and has perished and vanished. This is like the Ayah: بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَـطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ Nay, We fling the truth against the falsehood, so it destroys it, and behold, it is vanished. (21:18) When the Messenger of Allah entered Al-Masjid Al-Haram on the day of the conquest of Makkah, and found those idols standing around the Ka`bah, he started to hit the idols with his bow, reciting, وَقُلْ جَأءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَـطِلُ إِنَّ الْبَـطِلَ كَانَ زَهُوقًا And say: "The truth has come and the falsehood has vanished. Surely, the falsehood is ever bound to vanish." (17:81) and: قُلْ جَأءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِىءُ الْبَـطِلُ وَمَا يُعِيدُ Say: "The truth has come, and the falsehood can neither create anything nor resurrect." This was recorded by Al-Bukhari, Muslim, At-Tirmidhi and An-Nasa'i.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

49۔ 1 حق سے مراد قرآن اور باطل سے مراد کفر و شرک ہے۔ مطلب ہے اللہ کی طرف سے اللہ کا دین اور اس کا قرآن آگیا ہے۔ جس سے باطل ختم ہوگیا ہے، اب وہ سر اٹھانے کے قابل نہیں رہا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٧٤] یہاں باطل سے بعض لوگوں نے مراد معبودان باطل لیا ہے۔ یعنی ان باطل معبودوں نے کائنات میں پہلے بھلا کون سی چیز پیدا کی تھی کہ اب وہ دوبارہ وہ کچھ کرسکیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ معبود قطعی بےاختیار اور مجبور محض ہیں۔ تم لوگ ان سے خواہ مخواہ ہی کئی طرح کی توقعات وابستہ کئے بیٹھے ہو۔ اور اگر باطل کو اپنے ہی معنوں میں لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا۔ کہ باطل کو کبھی استقلال نصیب نہیں ہوتا۔ جسے ہم اپنی زبان میں کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ کسی بھی بات کی تحقیق شروع کرو۔ باطل کو فوراً وہاں سے رخصت ہونا پڑے گا۔ باطل کی ضد حق ہے۔ یعنی جوں جوں حق آجاتا ہے، باطل از خود رخصت ہوتا چلا جاتا ہے۔ فتح مکہ کے دن جب آپ اپنی چھڑی سے بتوں کو گرا رہے تو اس وقت ساتھ ساتھ یہ آیت بھی پڑھتے جاتے تھے۔ ( وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا 81؀) 17 ۔ الإسراء :81)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ جَاۗءَ الْحَـقُّ : یہ چوتھی تلقین ہے کہ انھیں واضح کردیں کہ ان کا باطل بہت جلد ختم ہوجائے گا اور اس کا نام و نشان تک نہیں رہے گا۔ دوسری جگہ فرمایا : (وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا) [ بني إسرائیل : ٨١ ] ” اور کہہ دے حق آگیا اور باطل مٹ گیا، بیشک باطل ہمیشہ سے مٹنے والا تھا۔ “ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيْدُ : ” أَبْدَأَ یُبْدِئُ إِبْدَاءً “ (افعال) کوئی کام شروع میں کرنا اور اعادہ کا معنی ہے اسے دوبارہ کرنا۔ ہر زندہ شخص ان دونوں سے خالی نہیں ہوتا، یا وہ کوئی کام ابتداءً کرتا ہے یا دوبارہ، البتہ مردہ ان میں سے کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ یہ ایک مقولہ ہے جو عرب کسی شخص یا قوم کے نیست و نابود ہونے پر استعمال کرتے ہیں : ”إِنَّہُ مَا یُبْدِئُ وَمَا یُعِیْدُ “ یعنی وہ بالکل مٹ گیا، اس کا نشان بھی باقی نہ رہا۔ 3 اس آیت کے نزول کے تھوڑا عرصہ بعد ہی یہ پیش گوئی سچی ہوگئی۔ عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں داخل ہوئے اور بیت اللہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت نصب تھے، تو آپ ہر بت کو ایک لکڑی کے ساتھ، جو آپ کے ہاتھ میں تھی، ٹھوکر مارتے جاتے اور کہتے تھے : (وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا) اور (وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيْدُ ) [ بخاري، التفسیر، باب : ( و قل جاء الحق و زھق الباطل ) : ٤٧٢٠ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ جَاۗءَ الْحَـقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيْدُ۝ ٤٩ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ بدأ يقال : بَدَأْتُ بکذا وأَبْدَأْتُ وابْتَدَأْتُ ، أي : قدّمت، والبَدْءُ والابتداء : تقدیم الشیء علی غيره ضربا من التقدیم . قال تعالی: وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسانِ مِنْ طِينٍ [ السجدة/ 7] ( ب د ء ) بدء ات بکذا وابتدءات میں نے اسے مقدم کیا ۔ اس کے ساتھ ابتدا کی ۔ البداء والابتداء ۔ ایک چیز کو دوسری پر کسی طور مقدم کرنا قرآن میں ہے { وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ } ( سورة السجدة 7) اور انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا ۔ بطل البَاطِل : نقیض الحق، وهو ما لا ثبات له عند الفحص عنه، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] ( ب ط ل ) الباطل یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔ عود الْعَوْدُ : الرّجوع إلى الشیء بعد الانصراف عنه إمّا انصرافا بالذات، أو بالقول والعزیمة . قال تعالی: رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون/ 107] ( ع و د ) العود ( ن) کسی کام کو ابتداء کرنے کے بعد دوبارہ اس کی طرف پلٹنے کو عود کہاجاتا ہی خواہ وہ پلٹا ھذایۃ ہو ۔ یا قول وعزم سے ہو ۔ قرآن میں ہے : رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون/ 107] اے پروردگار ہم کو اس میں سے نکال دے اگر ہم پھر ( ایسے کام ) کریں تو ظالم ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

آپ ان سے فرما دیجیے کہ اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ ہوگیا اور ان کی تعداد بڑھ رہی ہے اور شیاطین اور یہ بت کسی کام کے نہ رہے اور وہی مرنے کے بعد دوبارہ سب کو زندہ کرے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٩ { قُلْ جَآئَ الْحَقُّ } ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجیے کہ حق آگیا ہے “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اعلان کردیجیے کہ حق کا بول بالا ہونے کا وقت آگیا ہے۔ اب چند ہی برسوں بعد پورے جزیرہ نمائے عرب میں اللہ کے دین کا غلبہ ہوجائے گا۔ { وَمَا یُبْدِیُٔ الْبَاطِلُ وَمَا یُعِیْدُ } ” اور باطل نہ تو (کسی چیز کی) ابتدا کرسکتا ہے اور نہ ہی اعادہ۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(34:49) ما یبدی الباطل وما یعید۔ اس کے لفظی معنی ہیں :۔ ” باطل نہ تو کوئی نیا کام شروع کرسکتا ہے اور نہ کسی کام کا اعادہ کرسکتا ہے “۔ عربی محاورہ میں جب کسی چیز کی ہلاکت یا بربادی کا ذکر کرنا ہو تو انہی الفاظ سے کرتے ہیں فصار قولہم ما یبدی ولا یعید مثلاً فی الھلاک یعنی ان کا یہ قول ما یبدی وما یعید ہلاکت کی مثال بن گیا۔ اسی طرح جب کوئی شخص بےبس اور کمزور ہوجائے تو اس وقت بھی کہتے ہیں فلان ما یبدی وما یعید۔ لہٰذا ما یبدی الباطل وما یعید : کا مطلب ہوا کہ باطل اب بےبس اور کمزور ہوچکا ہے اب یہ نہ تو اسلام کو کوئی گزند پہنچا سکتا ہے اور نہ مسلمانوں کا کوئی نقصان کرسکتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی اب باطل کوئی چال چل لے وہ ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ( ابن کثیرعن ابن مسعود) روایات میں ہے کہ جب فتح مکہ کے دن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد حرام میں داخل ہوئے تو کعبہ کے گرد جو بت نصیب تھے ان کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی کمان کے چلہ سے مارتے اور یہ آیت پڑھتے۔ ( ابن کثیر بحوالہ بخاری)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ اصل مقصود مخاطبین کو سنانا ہے کہ باوجود وضوح حق کے اگر تم نے حق کا اتباع نہ کیا تو تم بھگتو گے، میرا کیا بگڑے گا، اور اگر راہ پر آگئے تو یہ راہ پر آنا ہی دین حق ثابت بالوحی کے اتباع کی بدولت ہوگا، پس تم کو چاہئے کہ راہ راست پر آنے کے لئے اس دین کو اختیار کرو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب آخری ضرب : قل جاء ۔۔۔۔۔ وما یعید (49) ” “۔ سچائی آگئی ہے ، رسول آگیا ، قرآن آگیا ، اسلامی نظام زندگی سیدھا سیدھا آگیا ۔ اعلان کردو ، اور کھلا اعلان کردو کہ اب حق آگیا ہے ۔ یہ گولہ قوت کے ساتھ پھینکا گیا ہے ۔ قوت اور سربلندی کے ساتھ آگیا ہے ۔ وما یبدی الباطل وما یعید (34: 49) ” باطل کے لیے نہ آغاز ہے اور نہ انجام “۔ اس کا معاملہ اب ختم ہے ۔ اس کی زندگی ختم ہے ۔ اب اس کے لیے کوئی میدان عمل نہیں ہے ۔ اس کا جانا ٹھہر گیا ہے ۔ یہ ایک نہایت ہی ہلا مارنے والی ضرب ہے ۔ جو کوئی بھی اس اعلان کو سنتا ہے ، وہ یقین کرلیتا ہے کہ اب کوئی گنجائش نہیں ہے ، باطل کے قائم رہنے کی ۔ لہٰذا حق کے سوا اب کسی اور کی حکمرانی نہ ہوگی ۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ جب سے قرآن آیا ہے ، سچائی کا منہاج دنیا میں قائم ہوگیا ہے اور باطل ان اس سچائی کے سامنے دفاعی پر زیشن میں ہے ، کیونکہ سچ نے غالب ہونے کا عزم بالجزم کیا ہوا ہے ۔ اگر چہ بعض اوقات باطل کو مادی قوت حاصل ہوتی ہے لیکن وہ کبھی حق پر نظریاتی برتری حاصل نہیں کرسکا۔ یہ اور بات ہے کہ بعض اوقات اہل باطل اہل حق پر غالب آجاتے ہیں لیکن یہ اہل حق کی غلطی کی وجہ سے وقتی تزلزل ہوتا ہے ۔ جہاں تک حق کا تعلق ہے ، وہ اپنی جگہ جماہواہوتا ہے۔ واضح ہوتا ہے ، صریح ہوتا ہے ۔ اور آخری ضرب۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

51:۔ قل جاء الخ : یہ ساتواں طریق تبلیغ ہے۔ آپ فرما دیجئے اب حق کا مقابلہ کرنا موت کو دعوت دینا ہے۔ کیونکہ اب حق غالب آچکا ہے اور باطل بےجان ہوچکا ہے۔ باطل میں اب حق کا مقابلہ کرنے کی سکت باقی نہیں رہی ای ذھب واضمحل بحیث لم یبق لہ اثر (روح ج 22 ص 156) ۔ یا باطل سے معبودان باطلہ مراد ہیں یعنی معبود باطل نہ ابتداء کسی کو پیدا کرسکتا ہے نہ کسی مرے ہوئے کو زندہ کرسکتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(49) اے پیغمبر آپ فرما دیجئے دین حق آپہنچا اور باطل نہ کسی کو ابتدائً پیدا کرے اور نہ دوبارہ پیدا کرے۔ باطل سے مراد یا تو صنم ہے یا شیطان ہے یعنی ابتدائً کسی چیز کو پیدا کرنا اور مرنے کے بعد اس کو قیامت میں دوبارہ پیدا کرنا یہ اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے۔ غیر اللہ میں سے کسی کا کام نہیں خواہ وہ شیطان ہو یا بت ہو۔ صاحب مدراک نے ایک اور معنی کی طرف بھی اشارہ کیا ہے یعنی حق آگیا اور باطل گیا گزرا ہوگیا۔ جیسا کہ فرمایا جاء الحق وزھق الباطل مطلب یہ ہے کہ باطل کا بطلان خوب کھل گیا اور ظاہر ہوگیا یہ مطلب نہیں کہ باطل کو کبھی عارضی غلبہ بھی نہ ہوگا بلکہ مطلب یہ ہے کہ حق کے آنے سے پہلے کبھی کبھی باطل کے صحیح ہونے کا شبہ ہوجاتا تھا اب وہ بات آئی گئی ہوئی اور باطل کی کمر ہی ٹوٹ گئی۔ واللہ اعلم حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اوپر سے اتارتا ہے۔