Surat Faatir

Surah: 35

Verse: 0

سورة فاطر

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.

شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة فَاطِر نام : پہلی ہی آیت کا لفظ فاطر اس سورہ کا عنوان قرار دیا گیا ہے جس کے معنی صرف یہ ہیں کہ یہ وہ سورۃ ہے جس میں فاطر کا لفظ آیا ہے ۔ دوسرا نام المَلَا ئکہ بھی ہے اور یہ لفظ بھی پہلی آیت میں وارد ہوا ہے ۔ زمانۂ نزول : انداز کلام کی اندرونی شہادت سے مترشح ہوتا ہے کہ اس سورت کے نزول کا زمانہ غالباً مکہ معظمہ کا دور متوسط ہے ، اور اس کا بھی وہ حصہ جس میں مخالفت اچھی خاصی شدت اختیار کر چکی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے ہر طرح کی بری سے بری چالیں چلی جا رہی تھیں ۔ موضوع و مضمون : کلام کا مدعا یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت توحید کے مقابلہ میں جو رویہ اس وقت اہل مکہ اور ان کے سرداروں نے اختیار کر رکھا تھا اس پر ناصحانہ انداز میں ان کو تنبیہ و ملامت بھی کی جائے اور معلمانہ انداز میں فہمائش بھی ۔ مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ نادانو ، یہ نبی جس راہ کی طرف تم کو بلا رہا ہے اس میں تمہارا اپنا بھلا ہے ۔ اس پر تمہارا غصہ ، اور تمہاری مکاریاں اور چال بازیاں ، اور اس کو ناکام کرنے کے لیے تمہاری تدبیریں دراصل اس کے خلاف نہیں بلکہ تمہارے اپنے خلاف پڑ رہی ہیں ۔ اس کی بات نہ مانو گے تو اپنا ہی کچھ بگاڑو گے ، اس کا کچھ نہ بگاڑو گے ۔ وہ جو کچھ تم سے کہہ رہا ہے اس پر غور تو کرو ، آخر اس میں غلط کیا بات ہے ۔ وہ شرک کی تردید کرتا ہے ۔ تم خود آنکھیں کھول کر دیکھو ، کیا شرک کے لیے دنیا میں کوئی معقول بنیاد موجود ہے؟ وہ توحید کی دعوت دیتا ہے ۔ تم خود عقل سے کام لے کر غور کرو ، کیا للہ فاطر السمٰوات و الارض کے سوا کہیں کوئی ایسی ہستی پائی جاتی ہے جو خدائی صفات اور اختیارات رکھتی ہو؟ وہ تم سے کہتا ہے کہ تم اس دنیا میں غیر ذمہ دار نہیں ہو بلکہ تمہیں اپنے خدا کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے اور اس دنیوی زندگی کے بعد ایک اور زندگی ہے جس میں ہر ایک کو اپنے کیے کا نتیجہ دیکھنا ہو گا ۔ تم خود سوچو کہ اس پر تمہارے شبہات اور اچنبھے کس قدر بے اصل ہیں ۔ کیا تمہاری آنکھیں رات دن اعادہ خلق کا مشاہدہ نہیں کر رہی ہیں؟پھر تمہارا ہی اعادہ اس خدا کے لیے کیوں ناممکن ہو جس نے تم کو ایک ذرا سے نطفے سے پیدا کر دیا ۔ کیا تمہاری عقل یہ گواہی نہیں دیتی کہ بھلے اور برے کو یکساں نہ ہونا چاہیے؟ پھر تم ہی بتاؤ کہ معقول بات کیا ہے؟ یہ کہ بھلے اور برے کا انجام یکساں ہو ، یعنی مٹی میں ملنا اور فنا ہو جانا ؟ یا یہ کہ بھلے کو بھلا اور برے کو برا بدلہ ملے؟ اب اگر ان سراسر معقول اور مبنی بر حقیقت باتوں کو تم نہیں مانتے اور جھوٹے خداؤں کی بندگی نہیں چھوڑتے اور اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھتے ہوئے شتر بے مہار ہی کی طرح دنیا میں جینا چاہتے ہو تو اس میں نبی کا کیا نقصان ہے ۔ شامت تو تمہاری اپنی ہی آئے گی ۔ نبی پر صرف سمجھانے کی ذمہ داری تھی ، اور وہ اس نے ادا کر دی ۔ سلسلہ کلام میں بار بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ جب نصیحت کا حق پوری طرح ادا کر رہے ہیں تو گمراہی پر اصرار کرنے والوں کے راہ راست قبول نہ کرنے کی کوئی ذمہ داری آپ کے اوپر عائد نہیں ہوتی ۔ اس کے ساتھ آپ کو یہ بھی سمجھایا گیا ہے کہ جو لوگ نہیں ماننا چاہتے ان کے رویے پر نہ آپ غمگین ہوں اور نہ انہیں راہ راست پر لانے کی فکر میں اپنی جان گھلائیں ۔ اس کے بجائے آپ اپنی توجہات ان لوگوں پر صرف کریں جو بات سننے کے لیے تیار ہیں ۔ ایمان قبول کرنے والوں کو بھی اسی سلسلے میں بڑی بشارتیں دی گئی ہیں تا کہ ان کے دل مضبوط ہوں اور وہ اللہ کے وعدوں پر اعتماد کر کے راہ حق میں ثابت قدم رہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

تعارف سورۃ فاطر اس سورت میں بنیادی طور پر مشرکین کو توحید اور آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے، اور فرمایا گیا ہے کہ اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کی جو نشانیاں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں، اُن پر سنجیدگی سے غور کرنے سے اول تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جس قادر مطلق نے یہ کائنات پیدا فرمائی ہے اسے اپنی خدائی کا نظام چلانے میں کسی شریک یا مددگار کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اور دوسرے یہ کہ وہ یہ کائنات کسی مقصد کے بغیر فضول پیدا نہیں کرسکتا، یقیناً اس کا کوئی مقصد ہے، اور وہ یہ کہ جو لوگ یہاں اس کے احکام کے مطابق نیک زندگی گزاریں، انہیں انعامات سے نوازا جائے، اور جو نافرمانی کریں ان کو سزا دی جائے، جس کے لئے آخرت کی زندگی ضروری ہے، تیسرے یہ کہ جو ذات کائنات کے اس عظیم الشان کارخانے کو عدم سے وجود میں لے کر آئی ہے، اس کے لئے اس کو ختم کرکے نئے سرے سے آخرت کا عالم پیدا کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے، جسے ناممکن سمجھ کر اس کا انکار کیا جائے، اور جب یہ حقیقتیں مان لی جائیں تو اس سے خود بخود یہ بات ثابت ہوسکتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہے کہ اس دنیا میں انسان اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارے، تو ظاہر ہے کہ اپنی مرضی لوگوں کو بتانے کے لئے اس نے رہنمائی کا کوئی سلسلہ ضرور جاری فرمایا ہوگا، ای سلسلے کا نام رسالت نبوت یا پیغمبری ہے، اور حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی سلسلے کے آخری نمائندے ہیں، اس سورت میں آپ کو یہ تسلی بھی دی گئی ہے کہ اگر کافر لوگ آپ کی بات نہیں مان رہے ہیں تو اس میں آپ پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ؛ بلکہ آپ کا فریضہ صرف اتنا ہے کہ لوگوں تک حق کا پیغام واضح طریقے سے پہنچادیں، آگے ماننا نہ ماننا ان کا کام ہے اور وہی اس کے لئے جواب دہ ہیں۔ سورت کا نام فاطر بالکل پہلی آیت سے لیا گیا ہے، جس کے معنی ہیں پیدا کرنے والا۔ اسی سورت کا دوسرا نام سورۂ ملائکہ بھی ہے، کیونکہ اس کی پہلی آیت میں فرشتوں کا بھی ذکر ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi