Surat Faatir

Surah: 35

Verse: 24

سورة فاطر

اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ بِالۡحَقِّ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا ؕ وَ اِنۡ مِّنۡ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ ﴿۲۴﴾

Indeed, We have sent you with the truth as a bringer of good tidings and a warner. And there was no nation but that there had passed within it a warner.

ہم نے ہی آپ کو حق دے کر خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے اور کوئی امت ایسی نہیں ہوئی جس میں کوئی ڈر سنانے والا نہ گزرا ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ... Verily, We have sent you with the truth, a bearer of glad tidings and a warner. means, a bearer of glad tidings to the believers and a warner to the disbelievers. ... وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلاَّ خلَإ فِيهَا نَذِيرٌ And there never was a nation but a warner had passed among them. means, there was never any nation among the sons of Adam but Allah sent warners to them, and left them with no excuse. This is like the Ayat: إِنَّمَأ أَنتَ مُنذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ You are only a warner, and to every people there is a guide. (13:7) وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِى كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللَّهَ وَاجْتَنِبُواْ الْطَّـغُوتَ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَـلَةُ And verily, We have sent among every Ummah a Messenger (proclaiming): "Worship Allah, and avoid all false deities." Then of them were some whom Allah guided and of them were some upon whom the straying was justified. (16:36) And there are many similar Ayat.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٣٠] اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر امت اور بستی میں اللہ نے کوئی نہ کوئی نبی یا رسول ضرور بھیجا ہے۔ بلکہ اس سے مراد صرف وہ امت یا وہ لوگ ہیں جن تک کسی نبی کی تعلیم نہ پہنچ سکی ہو۔ خواہ اس کی وجہ فاصلہ کی دوری ہو یا مدت کی دوری ہو۔ بالفاظ دیگر تمام انسانوں تک اللہ کی دعوت کی آواز یقینی طور پر پہنچ چکی ہے خواہ ان کے پاس کوئی رسول آیا ہو یا نہ آیا ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ بالْحَقِّ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا : حق سے مراد اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت ہے۔ یعنی اے رسول ! ہم نے تجھے حق دے کر بھیجا ہے، تاکہ جو تجھ پر ایمان لائیں انھیں جنت کی بشارت دے اور جو تجھے جھٹلائیں انھیں اللہ کے عذاب سے ڈرائے۔ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بشارت اور تسلی ہے۔ وَاِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ : اس میں اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر اپنی رحمت کا اور اپنے فضل کا بیان فرمایا ہے کہ اس نے لوگوں کو اندھیروں میں بھٹکتا ہوا نہیں چھوڑا کہ ان کے لیے سیدھے اور غلط راستے کی نشان دہی نہ کرے، بلکہ اس سے پہلے جو قوم بھی گزری اس نے اس کی طرف کوئی نہ کوئی ڈرانے والا ضرور بھیجا، خواہ وہ نبی یا رسول ہو، خواہ اس کا نائب دین کا کوئی عالم اور مبلغ ہو جس کے ذریعے سے رسول کی لائی ہوئی شریعت لوگوں تک پہنچ جائے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا۝ ٠ۭ وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِيْہَا نَذِيْرٌ۝ ٢٤ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ بشیر ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] والبشیر : المُبَشِّر، قال تعالی: فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ أَلْقاهُ عَلى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيراً [يوسف/ 96] ( ب ش ر ) البشر اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔ البشیر خوشخبری دینے والا ۔ قرآن میں ہے : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ أَلْقاهُ عَلى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيراً [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا پہنچا تو کرتہ یعقوب کے منہ پر ڈال دیا اور وہ بینا ہوگئے ۔ النذیر والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذیر النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ الأُمّة : كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام/ 38] الامۃ ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ { وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ } ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں خلا الخلاء : المکان الذي لا ساتر فيه من بناء ومساکن وغیرهما، والخلوّ يستعمل في الزمان والمکان، لکن لما تصوّر في الزمان المضيّ فسّر أهل اللغة : خلا الزمان، بقولهم : مضی الزمان وذهب، قال تعالی: وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران/ 144] ( خ ل و ) الخلاء ۔ خالی جگہ جہاں عمارت و مکان وغیرہ نہ ہو اور الخلو کا لفظ زمان و مکان دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چونکہ زمانہ میں مضی ( گذرنا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے اہل لغت خلاالزفان کے معنی زمانہ گزر گیا کرلیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) تو صرف ( خدا کے ) پیغمبر ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہوگزرے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤ { اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا } ” یقینا ہم نے بھیجا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق کے ساتھ بشیر اور نذیر بنا کر ۔ “ { وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ} ” اور کوئی امت ایسی نہیں جس میں کوئی خبردار کرنے والا نہ گزرا ہو۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

45 That there has been no community in the world for whose guidance Allah did not appoint the Prophets, has been stated at several places in the Qur'an. In Surah Ar-Ra'd: 7, it was said: "Every people has its guide ;" in Surah Al-Hijr: 10: "O Prophet, We have already sent Messengers before you among many of the ancient peoples;" in Surah An-Nahl: 36: "We sent to every community a Messenger;" and in Surah Ash-Shu'ara: 208: "We have never destroyed a habitation unless it had its warners to administer admonition. " But, in this connection, one should note two things so that there remains no misunderstanding. First, one and the same Prophet is enough for the lands to which his message may reach. It is not necessary that Prophets be sent to every separate habitation and to every separate community. Second, no new Prophet needs to be sent as long as the message and teaching and guidance given by a previous Prophet remains safe and intact. It is not necessary that a separate Prophet be sent for every race and every generation.

سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :45 یہ بات قرآن مجید میں متعدد مقامات پر فرمائی گئی ہے کہ دنیا میں کوئی امت ایسی نہیں گزری ہے جس کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبی مبعوث نہ فرمائے ہوں ۔ سورہ رعد میں فرمایا وَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ ( آیت7 ) ۔ سورہ حجر میں فرمایا وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ فِیْ شِیَعِ الْاَوَّلِیْنَ ( آیت 10 ) ۔ سورہ نحل میں فرمایا وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلاً ( آیت 36 ) ۔ سورہ شعراء میں فرمایا وَمَا اَھْلَکْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ اِلَّا لَھَا مُنْذِرُوْنَ ( آیت 208 ) ۔ مگر اس سلسلے میں دو باتیں سمجھ لینی چاہییں تاکہ کوئی غلط فہمی نہ ہو ۔ اول یہ کہ ایک نبی کی تبلیغ جہاں جہاں تک پہنچ سکتی ہو وہاں کے لیے وہی نبی کافی ہے ۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر ہر بستی اور ہر ہر قوم میں الگ الگ ہی انبیا بھیجے جائیں ۔ دوم یہ کہ ایک نبی کی دعوت و ہدایت کے آثار اور اس کی رہنمائی کے نقوش قدم جب تک محفوظ نہیں اس وقت تک کسی نئے نبی کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ لازم نہیں کہ ہر نسل اور ہر پشت کے لیے الگ نبی بھیجا جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٤ تا ٢٦۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذکر کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا اور اور انبیاء کے ذکر میں فقط ڈرانیوالا اس واسطے فرمایا کہ صاحب شریعت انبیاء کی ابتدا حضرت نوح (علیہ السلام) سے شروع ہو کر حضرت شعیب بلکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ تک ڈرانے کے طور پر جو کچھ انبیاء نے اپنی امتوں سے کہا تھا اسی کا ظہور زیادہ ہوتا رہا یہ سب عام امتیں عذاب الٰہی سے ہلاک ہوتی رہیں اور بہت تھوڑے لوگ ان میں سے راہ راست پر آئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت میں سے اکثر لوگ مسلمان ہوئے اور تھوڑے نافرمانی سے غارت ہوئے اس لیے آپ کے ذکر میں آپ کو دونوں صفتوں کا ذکر فرما کر اللہ تعالیٰ نے آپ کی تسکین فرمادی ہے کہ آپ کی امت کا انجام اور امتوں کی بہ نسبت اچھا ہے چناچہ حضرت ابوہریرہ (رض) کی صحیحین کی حدیث ٢ ؎ میں آپ نے خود فرمایا ہے (٢ ؎ مشکوۃ ص ٥١٢ باب فضائل سید المرسلین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ ) کہ مجھ کو اللہ کی ذات سے توقع ہے کہ بہ نسبت اور انبیاء کی امتوں کے میری امت کے فرما نبردار لوگوں کی تعداد قیامت کے دن زیادہ ہوگی اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ ہر ایک زمانہ کی امت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نصیحت کرنے والا اور ڈرانیوالا نبی گزرا ہے اس میں بعضے مفسروں نے یہ شبہ پیدا کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مابین یک زمانہ ایسا گزرا ہے جس میں کوئی نبی نہیں گزرا اس کا جواب اور مفسروں نے یہ دیا ہے کہ کچھ زمانہ تک تو حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بعد حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی نصیحت کا اثر دنیا میں باقی رہا پھر جب لوگوں نے اس نصیحت میں فتور ڈالنا شروع کیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا تعالیٰ کی طرف سے نبی ہوگئے اور آپ کی نبوت کا زمانہ قیامت تک رہے گا غرض حضرت نوح ( علیہ السلام) کے زمانہ سے لے کر قیامت تک کوئی زمانہ نبوت کے اثر سے خالی نہیں ہے اس جو اب پر پھر بعضے مفسروں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اس صورت میں حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مابین کے زمانہ کے لوگ قابل عذاب ٹھہرتے ہیں حالانکہ آیت وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا کی رو سے ایسے لوگ عذاب کے قابل نہیں ٹھہرتے اس کا جواب یہ ہے کہ مشرکین کی نابالغ اولاد اور مجنوں اور بہرہ شخص اور ایسے شخص کے باب میں جس کو رسول وقت کی نصیحت نہیں پہنچی بہت قدیم زمانہ سے علماء کا اختلاف ہے کہ اس طرح کے لوگوں کو نافرمائی شریعت کا عذاب ہوگا یا یہ لوگ عذاب سے بالکل برے ہیں صحیح مذہب اس اختلاف میں وہی ہے جس کو بیہقی نے کتاب الاعتقاد میں امتحان کا ہذہب ٹھہرا کر صحیح قرار دیا ہے ١ ؎ مسند امام احمد مسند بزار طبرانی ٢ ؎ وغیرہ میں اس امتحان کی تفصیل چند روایتوں ٣ ؎ میں جو آئی ہے (١ ؎ فتح الباری ج ٢ باب ماقیل فی اولاد المشرکین ‘) (٢ ؎ ایضا ‘) (٣ ؎ مجمع الزوائد ص ٢١٤ ج ٧ کتاب القدر ‘) اس کا حاصل یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ امتحان کے طور پر ایک آگ میں کود پڑنے کا حکم دیوے گا جو لوگ اس آگ میں گر پڑیں گے وہ جنتی قرار پاویں گے اور اس آگ میں گرنے سے انکار کریں گے ان کو اللہ تعالیٰ فرمائیگا کہ اگر اللہ کے رسولوں کی نصیحت سنے گا موقع ان لوگوں کو ملتا بھی تو علم الٰہی ازلی کے موافق یہ لوگ ضرور نافرماتی کرتے یہ فرما کر ان لوگوں کو دوزخ میں ڈالنے کا حکم دے گا ان روایتوں میں اکثر روایتیں صحیح ہیں لیکن بعضے علمائے نے ان روایتوں پر یہ اعتراض کیا ہے کہ عقبے میں امتحان نہیں ہے اس سے پہلے حساب و کتاب پل صراط موحدوں اور منافقوں کو سجدہ کرنے کا حکم ہونا اور منافقوں کا سجدہ نہ کرسکنا یہ سب کچھ امتحان نہیں تو کیا ہے ‘ اب آگے اپنے رسول کی تسکین کے لیے فرمایا اے رسول اللہ کے اگر مشرکین مکہ میں کے کچھ لوگ تمہارے جھٹلانے سے باز نہ آویں تو یہ بات کچھ نہیں ہے ان سے پہلی امتیں بھی اپنے رسولوں کو جھٹلا کر طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک ہوچکی ہیں اگر یہ لوگ ان کے قدم بقدم چلیں گے تو بھی انجام ان کا وہی ہوگا اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے مشرکین مکہ کے بڑے بڑے جھٹلانے والوں کا جو انجام بدر کی لڑائی کے وقت ہوا صحیح بخاری ومسلم کی انس بن مالک (رض) کی روایت ٥ ؎ کے حوالہ سے اس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے (٥ ؎ مشکوۃ ص ٣٤٥ باب حکم الاسرائ۔ ) کہ دنیا میں بڑی ذلت سے یہ لوگ مارے گئے اور مرتے ہی آخرت کے عذاب میں گرفتار ہوگئے جس عذاب کے جتانے کے لیے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی لاشوں پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ اب تو اللہ تعالیٰ کے وعدہ کو تم لوگوں نے سچا پالیا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 یعنی اطاعت گزاروں کو جنت کی خوشخبری دینے والا اور نافرمانوں کو خدا کے عذاب سے ڈرانے والا۔12 درانے والا، خواہ نبی ہو، خواہ جو نبی کے راہ پر ہو۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر قوم اور ہر ایک میں ڈر سنانیوالے ہر گزرے ہیں۔ ( دیکھئے سورة رعد آیت 7 سورة نحل : 36)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وان من امۃ الا خلا فیھا نذیر (35: 24) ” اور کوئی امت نہیں گزری جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا ہو “ اگر آپ کی قوم تکذیب کر رہی ہے تو بیشمار رسولوں کی اقوام نے اسی طرح تکذیب کی ہے اور اس تکذیب کی وجہ رسولوں کی تبلیغ کا قصور نہ تھا۔ اور نہ دلائل کی کمی تھی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(24) بلاشبہ اے پیغمبر ہم نے آپ کو دین حق کے ساتھ خوشخبری اور بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور کوئی جماعت اور قوم ایسی نہیں ہوئی جس میں کوئی ڈرانے والا نہ گزرا ہو۔ یعنی ایمان لانے والوں اور مسلمانوں کو خوشخبری دینے والوں اور دین حق کو قبول کرنے سے انکار کرنے والوں کو ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ہر امت میں کوئی نہ کوئی ڈرانے والا ضرور آیا ہے خواہ کوئی رسول ہو یا رسول کا رسول ہو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ڈرانے والا خواہ نبی ہو یا نبی کی راہ پر ہو۔ یعنی کسی نبی پر ایمان رکھنے والا پہنچا۔ بہرحال ! کوئی امت ایسی نہیں جس کو حق نہ پہنچا ہو۔