Surat Faatir

Surah: 35

Verse: 6

سورة فاطر

اِنَّ الشَّیۡطٰنَ لَکُمۡ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوۡہُ عَدُوًّا ؕ اِنَّمَا یَدۡعُوۡا حِزۡبَہٗ لِیَکُوۡنُوۡا مِنۡ اَصۡحٰبِ السَّعِیۡرِ ؕ﴿۶﴾

Indeed, Satan is an enemy to you; so take him as an enemy. He only invites his party to be among the companions of the Blaze.

یاد رکھو!شیطان تمھا را دشمن ہے تم اسے دشمن جانو وہ تو اپنے گروہ کو صرف اس لئے ہی بلاتا ہے کہ وہ سب جہنم واصل ہو جائیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ... Surely, Shaytan is an enemy to you, so take (treat) him as an enemy. meaning, `he has declared his enmity towards you, so be even more hostile towards him, oppose him and do not believe the things with which he tries to tempt you.' ... إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ He onl... y invites his followers that they may become the dwellers of the blazing Fire. means, `he only wants to misguide you so that you will enter the blazing Fire with him.' This is a manifest enemy, and we ask Allah, the All-Powerful and Almighty to make us enemies of Shaytan and to make us followers of the Book of Allah and of the way of His Messengers. For He is able to do whatever He wills and He will respond to all supplication. This is like the Ayah: وَإِذَا قُلْنَا لِلْمَلَـيِكَةِ اسْجُدُواْ لاِدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَأءَ مِن دُونِى وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ بِيْسَ لِلظَّـلِمِينَ بَدَلاً And (remember) when We said to the angels: "Prostrate yourselves unto Adam." So they prostrated themselves except Iblis. He was one of the Jinn; he disobeyed the command of his Lord. Will you then take him (Iblis) and his offspring as protectors and helpers rather than Me while they are enemies to you? What an evil is the exchange for the wrongdoers. (18:50)   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 یعنی اس سے سخت عداوت رکھو، اس کے فریب اور ہتھکنڈوں سے بچو، جس طرح دشمن کے بچاؤ کے لئے انسان کرتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ١٠] لہذا اے لوگو ! تم شیطان کے فریب میں نہ آجانا۔ اس کی ایک بھی بات نہ ماننا۔ وہ پہلے دن سے تمہارا دشمن ہے۔ لہذا تم اسے دشمن ہی سمجھو گے تو اسی میں تمہاری عافیت ہے وہ کبھی تمہارا دوست نہیں بن سکتا۔ وہ شرکیہ عقائد و بدعات خواہ کس خوبصورت انداز میں پیش کرے اور تم اسے کار ثواب اور اس میں فلاح دارین ... ہی سمجھنے لگو حقیقت میں وہ تمہارے ساتھ دشمنی کر رہا ہوتا ہے۔ اس کا تو اولین مقصد ہی یہ ہے کہ وہ اکیلا دوزخ میں نہ جائے بلکہ جنوں اور انسانوں کی ایک کثیر تعداد کو اپنا ساتھی بناکر اپنے ہمراہ دوزخ میں لے جائے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الشَّيْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ : شیطان تمہارا دشمن ہے، تمہارے ساتھ اس کی عداوت قدیم اور قیامت تک کے لیے دائمی ہے، جس کی بنیاد حسد پر ہے اور حاسد کی عداوت کبھی ختم نہیں ہوتی۔ سورة کہف میں اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا : (وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِ... بْلِيْسَ ۭ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّهٖ ۭ اَفَتَتَّخِذُوْنَهٗ وَذُرِّيَّتَهٗٓ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِيْ وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۭ بِئْسَ للظّٰلِمِيْنَ بَدَلًا) [ الکہف : ٥٠ ] ” اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو تو انھوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس، وہ جنوں میں سے تھا، سو اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی، تو کیا تم اسے اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر دوست بناتے ہو، حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں، وہ (شیطان) ظالموں کے لیے بطور بدل برا ہے۔ “ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّا ۭ : جب وہ تمہارا دشمن ہے تو تم بھی ہمیشہ اسے دشمن ہی سمجھو، وہ کبھی تمہارا خیر خواہ یا دوست نہیں ہوسکتا، اپنے عقائد و اعمال اور اپنے اقوال و افعال اور احوال، غرض ہر چیز میں اس کی مخالفت کرو اور مرتے دم تک یہ عداوت قائم رکھو۔ اِنَّمَا يَدْعُوْ احِزْبَهٗ لِيَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ : اپنے گروہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس کا کہا مانتے ہیں اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہیں۔ یعنی شیطان بظاہر جتنی بھی خیر خواہی کرے مقصد اس کا یہی ہے کہ وہ اکیلا جہنم میں جانے کے بجائے اپنے دوستوں کو بھی اپنے ساتھ لے کر جائے۔ اس لیے اس کی خیر خواہی پر کبھی بھی اعتماد نہ کرو۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الشَّيْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا۝ ٠ ۭ اِنَّمَا يَدْعُوْا حِزْبَہٗ لِيَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ۝ ٦ۭ شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِ... يطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو عدو العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ «3» ، أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال : رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] ( ع د و ) العدو کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ حزب الحزب : جماعة فيها غلظ، قال عزّ وجلّ : أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] ( ح ز ب ) الحزب وہ جماعت جس میں سختی اور شدت پائی جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] دونوں جماعتوں میں سے اس کی مقدار کسی کو خوب یاد ہے صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ سعر السِّعْرُ : التهاب النار، وقد سَعَرْتُهَا، وسَعَّرْتُهَا، وأَسْعَرْتُهَا، والْمِسْعَرُ : الخشب الذي يُسْعَرُ به، واسْتَعَرَ الحرب، واللّصوص، نحو : اشتعل، وناقة مَسْعُورَةٌ ، نحو : موقدة، ومهيّجة . السُّعَارُ : حرّ النار، وسَعُرَ الرّجل : أصابه حرّ ، قال تعالی: وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيراً [ النساء/ 10] ، وقال تعالی: وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ [ التکوير/ 12] ، وقرئ بالتخفیف «2» ، وقوله : عَذابَ السَّعِيرِ [ الملک/ 5] ، أي : حمیم، فهو فعیل في معنی مفعول، وقال تعالی: إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلالٍ وَسُعُرٍ [ القمر/ 47] ، والسِّعْرُ في السّوق، تشبيها بِاسْتِعَارِ النار . ( س ع ر ) السعر کے معنی آگ بھڑکنے کے ہیں ۔ اور سعرت النار وسعر تھا کے معنی آگ بھڑکانے کے ۔ مجازا لڑائی وغیرہ بھڑکانے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے : ۔ استعر الحرب لڑائی بھڑک اٹھی ۔ استعر اللصوص ڈاکو بھڑک اٹھے ۔ یہ اشتعل کے ہم معنی ہے اور ناقۃ مسعورۃ کے معنی دیوانی اونٹنی کے ہیں جیسے : ۔ موقدۃ ومھیجۃ کا لفظ اس معنی میں بولا جاتا ہے ۔ المسعر ۔ آگ بھڑکانے کی لکڑی ( کہرنی ) لڑائی بھڑکانے والا ۔ السعار آگ کی تپش کو کہتے ہیں اور سعر الرجل کے معنی آگ یا گرم ہوا سے جھلس جانے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيراً [ النساء/ 10] اور دوزخ میں ڈالے جائیں گے ۔ وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ [ التکوير/ 12] اور جب دوزخ ( کی آگ ) بھڑکائی جائے گی ۔ عَذابَ السَّعِيرِ [ الملک/ 5] دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ تو یہاں سعیر بمعنی مسعور ہے ۔ نیز قران میں ہے : ۔ إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلالٍ وَسُعُرٍ [ القمر/ 47] بیشک گنہگار لوگ گمراہی اور دیوانگی میں ( مبتلا ہیں ) السعر کے معنی مروجہ نرخ کے ہیں اور یہ استعار ہ النار ( آگ کا بھڑکنا ) کے ساتھ تشبیہ کے طور پر بولا گیا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے دین الہی اور اطاعت خداوندی میں ہرگز اس کی اطاعت مت کرو وہ تو اپنے گروہ اور اپنے ماننے والوں کو اس لیے بلاتا ہے تاکہ وہ بھی دوزخیوں کے ساتھ جہنم میں جمع ہوجائیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦ { اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَـکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا } ” یقینا شیطان تمہارا دشمن ہے ‘ چناچہ تم بھی اس کو دشمن ہی سمجھو ! “ { اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَہٗ لِیَکُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ } ” یہ تو بلاتا ہے اپنے ہی گروہ کے لوگوں کو تاکہ وہ جہنم والوں میں سے ہوجائیں۔ “ اس کا مطلب...  یہ ہے کہ ہر ایسا انسان جس کی نیت درست نہیں اور اس کے اندر شیطانی رجحانات بالقوہ (potentially) موجود ہیں وہ شیطان کا آسان شکار ہے۔ چناچہ شیطان ہر ایسے انسان کی طرف خصوصی طور پر دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے اور اس کا ہاتھ پکڑنے کے بعد اسے راستے میں نہیں چھوڑتا ‘ بلکہ اس کی منزل (جہنم) تک پہنچا کر دم لیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ ” برے “ کو اس کے گھر تک پہنچا کر چھوڑتا ہے۔ اس حوالے سے سورة الاعراف کے ٢٢ ویں رکوع میں بلعم بن باعوراء کا واقعہ بڑا عبرت انگیز ہے۔ وہ اللہ کے نیک بندوں میں سے تھا۔ صرف عابد و زاہد نہیں ‘ عالم بھی تھا۔ لیکن جب وہ غلطی کا ارتکاب کر کے اللہ کی اطاعت سے نکل بھاگا تو شیطان نے اس کا پیچھا کیا اور اسے دھکے دیتا ہوا گمراہی اور بےحیائی میں آگے سے آگے بڑھاتا چلا گیا : { فَاَتْبَعَہُ الشَّیْطٰنُ فَکَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ ۔ (الاعراف) ” پھر شیطان اس کے پیچھے لگ گیا تو وہ ہوگیا گمراہوں میں سے “۔ گویا جن لوگوں کے دلوں میں کھوٹ اور ارادوں میں فتور ہو ‘ شیطان انہیں چن ُ چن کر ڈھونڈتا ہے ‘ انہیں اپنی طرف بلاتا ہے اور اپنے گروہ (حزب الشیطان) میں شامل کرتا چلا جاتا ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ اولیاء الرحمن اور عباد الرحمن کے زمرے میں آتے ہیں ان پر شیطان کا بس نہیں چلتا۔ اس حوالے سے یہ بات بھی نوٹ کرلیجئے کہ جس طرح بعض لوگوں میں حزب الشیطان سے موافقت کا رجحان (potential) پہلے سے موجود ہوتا ہے اسی طرح کچھ لوگ بالقوہ (potentially) حزب اللہ والے بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً حضرت عمر اور حضرت حمزہ میں شروع ہی سے حزب اللہ میں شامل ہونے کی صلاحیت موجود تھی۔ چناچہ اگرچہ ان کے فیصلے میں کچھ تاخیر ہوئی ‘ قبولِ اسلام میں چھ سال لگ گئے ‘ لیکن بالآخر وہ صلاحیت ظاہر ہوگئی ۔ - ۔ ” حزب اللہ “ اور ” حزب الشیطان “ قرآنی اصطلاحات ہیں ‘ ان کی وضاحت سورة المجادلہ کی آخری آیات میں آئی ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(35:6) یدعوا۔ مضارع واحد مذکر غائب (تحقیق) وہ بلاتا ہے، دعوت دیتا ہے۔ دعوۃ مصدر سے۔ باب نصر۔ حزبہ۔ مضاف مضاف الیہ۔ اس کا گروہ ، اس کی جماعت، (اپنے گروہ کو) ۔ لیکونوا۔ لام تعلیل کا ہے۔ یکونوا اصل میں یکونون تھا۔ لام کے عمل سے نون اعرابی گرگیا۔ مضارع کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ تاکہ وہ ہوجائیں ۔ اصحب...  السعیر۔ مضاف مضاف الیہ دوزخ والے۔ جہنم والے۔ جہنمی۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی تمہاری دنیا و آخرت دونوں تباہ کرنا چاہتا ہے۔ تم اس کی چال میں نہ آئو، اس کی کوئی بات نہ مانو اور جو بات تمہارے دل میں ڈالے اسکی مخالفت کرو۔ ( ابن کثیر وغیرہ) 5 یعنی ان لوگوں کو جو اس کا کہا مانتے اور اس کے بتائے ہوئے رشتہ پر چلتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فاتخذوہ عدوا (35: 6) ” لہٰذا تم بھی اسے اپنا دشمن ہی سمجھو “۔ اس کی طرف نہ جھکو ، اسے اپنا ناصح نہ سمجھو ۔ اس کے نقش قدم پر نہ چلو کیونکہ دشمن ، دشمن کے قدم پر نہیں چلا کرتا۔ اگر وہ عقلمند ہے کیونکہ دشمن انسان کو کبھی بھی بھلائی کی طرف نہیں بلاتا اور نہ دشمن دشمن کی فلاح ونجات چاہتا ہے ۔ انما یدع... وا جزبہ لیکوامن اصحب السعیر (35: 6) ” وہ تو اپنے پیردوں کو اپنی راہ پر اس لیے چلا رہا ہوتا ہے کہ وہ دو زخیوں میں شامل ہوجائیں “۔ کیا کوئی عاقل یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ وہ جہنمیوں میں سے ہوجائے ۔ یہ ایک وجدانی احساس ہے ۔ جب انسان اس بات کو ذہن میں رکھ لے کہ اس کے اور شیطان کے درمیان معرکہ جاری ہے تو وہ اپنی پوری قوت مجتمع کرلیتا ہے ۔ وہ ہر وقت بیدار رہتا ہے اور اپنی ذات اور اپنے خیالات کا دفاع کرتا ہے ۔ وہ دشمن کے دھوکے اور گمراہ کن اقدامات سے اپنے آپ کو بچاتا ہے اور وہ ہر وسوسہ اندازی سے بیدار رہتا ہے ۔ ہر نئی بات کو اللہ اور رسول کے پیمانوں سے پیمائش کرتا ہے تاکہ وہ معلوم کرسکے کہ یہ حقیقت ہے یا دھوکہ ہے۔ یہ ایک وجدانی حالت ہے جسے قرآن ہر ضمیر میں پیدا کرنا چاہتا ہے یعنی ہر وقت شیطانی وساوس سے بچاؤ کے لیے تیار رہتا اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ۔ جیسا کہ کوئی شخص یا ملک اپنے دشمن سے ہر وقت چوکنارہتا ہے ۔ اور اس کے شروفسار کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے ۔ دشمن کے ذہنی اور جسمانی شر سے بچاؤ کے لیے ۔ اور ہر وقت کسی بھی معر کے میں کو دنے کے لیے تیاری کی حالت کا برقرار رکھنا ، اسی احتیاط ، مدافیچا تیاری اور احتیاطی تدابیر کو مزید متحکمر کرنے کے لیے بتایا جاتا ہے کہ کا فرین کا انجام کیا ہوگا اور اہل اسلام کا کیا ہوگا ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(6) یقین مانو کہ شیطان تمہارا دشمن ہے پس تم بھی اس کو اپنا دشمن ہی سمجھو وہ تو اپنی جماعت اور اپنے گروہ کو صرف اس لئے بلاتا ہے کہ وہ لوگ دوزخ والوں میں شامل ہوجائیں۔ یعنی شیطان کی عداوت تو ظاہر اور کھلی ہوئی ہے تمہارے باپ کے وقت سے یہ دشمنی چلی آتی ہے۔ لہٰذا تم بھی اس کو دشمن ہی سمجھو اور اس کا کام ... ذہن میں رکھو وہ تو اپنے قریب کے لوگوں کو اس لئے بلاتا اور پکارتا اور دعوت دیتا رہتا ہے کہ انسانوں کو فریب دے کر جہنم والوں میں شامل کر دے اور اہل جہنم کی تعداد میں اضافہ کر دے اور اس دغاباز کا کام ہی کیا ہے۔  Show more