Surat Faatir

Surah: 35

Verse: 9

سورة فاطر

وَ اللّٰہُ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ الرِّیٰحَ فَتُثِیۡرُ سَحَابًا فَسُقۡنٰہُ اِلٰی بَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَحۡیَیۡنَا بِہِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا ؕ کَذٰلِکَ النُّشُوۡرُ ﴿۹﴾

And it is Allah who sends the winds, and they stir the clouds, and We drive them to a dead land and give life thereby to the earth after its lifelessness. Thus is the resurrection.

اور اللہ ہی ہوائیں چلاتا ہے جو بادلوں کو اٹھاتی ہیں پھر ہم بادلوں کو خشک زمین کی طرف لے جاتے ہیں اور اس سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کر دیتے ہیں ۔ اسی طرح دوبارہ جی اٹھنا ( بھی ) ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Evidence of Life after Death Allah says, وَاللَّهُ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَسُقْنَاهُ إِلَى بَلَدٍ مَّيِّتٍ فَأَحْيَيْنَا بِهِ الاْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا كَذَلِكَ النُّشُورُ And it is Allah Who sends the winds, so that they raise up the clouds, and We drive them to a dead land, and revive therewith the earth after its death. As such (will be... ) the Resurrection! Often Allah refers to the Resurrection by using the analogy of the earth coming back to life after it has died, as in the beginning of Surah Al-Hajj, where He urges His servants to draw the lesson of the former from the latter. For the earth is dead and lifeless, with nothing growing in it, then He sends to it clouds which bring water, which He sends down upon it, اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنبَتَتْ مِن كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ (it is stirred (to life), and it swells and puts forth every lovely kind (of growth)) (22:5). So too, when Allah wishes to resurrect the bodies, He will send rain from beneath the Throne which will cover the whole earth, and the bodies will grow in their graves like seeds grow in the earth. It says in the Sahih: كُلُّ ابْنِ ادَمَ يَبْلَى إِلاَّ عَجْبُ الذَّنَبِ مِنْهُ خُلِقَ وَمِنْهُ يُرَكَّب Every part of the son of Adam will disintegrate apart from the coccyx, from which he was created and from him he will be made anew. Allah says: كَذَلِكَ النُّشُورُ (As such (will be) the Resurrection!), According to the Hadith of Abu Razin: I said, O Messenger of Allah, how will Allah bring the dead back to life? What is the sign of that in His creation? He said: يَا أَبَا رَزِينٍ أَمَا مَرَرْتَ بِوَادِي قَوْمِكَ مُمْحِلًا ثُمَّ مَرَرْتَ بِهِ يَهْتَزُّ خَضِرًا O Abu Razin, do you not pass through the valley of your people (and see it) arid and barren, then you pass through it (and see it) stirred (to life) and green! I said, `Yes.' He said: فَكَذَلِكَ يُحْيِي اللهُ الْمَوْتَى Thus will Allah bring the dead back to life." Honor, Power and Glory in this World and in the Hereafter come only by obeying Allah Allah says,   Show more

موت کے بعد زندگی ۔ قرآن کریم میں موت کے بعد کی زندگی پر عموماً خشک زمین کے ہرا ہونے سے استدلال کیا گیا ہے ۔ جیسے سورہ حج وغیرہ میں ہے ۔ بندوں کے لئے اس میں پوری عبرت اور مردوں کے زندہ ہونے کی پوری دلیل اس میں موجود ہے کہ زمین بالکل سوکھی پڑی ہے ، کوئی ترو تازگی اس میں نظر نہیں آتی لیکن بادل ا... ٹھتے ہیں ، پانی برستا ہے کہ اس کی خشکی تازگی سے اور اس کی موت زندگی سے بدل جاتی ہے ۔ یا تو ایک تنکا نظر نہ آتا تھا یا کوسوں تک ہریالی ہی ہریالی ہو جاتی ہے ۔ اسی طرح بنو آدم کے اجزاء قبروں میں بکھرے پڑے ہوں گے ایک سے ایک الگ ہو گا ۔ لیکن عرش کے نیچے سے پانی برستے ہی تمام جسم قبروں میں سے اگنے لگیں گے ۔ جیسے زمین سے دانے الگ آتے ہیں ۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے ابن آدم تمام کا تمام گل سڑ جاتا ہے لیکن ریڑھ کی ہڈی نہیں سڑتی اسی سے پیدا کیا گیا ہے اور اس سے ترکیب دیا جائے گا ۔ یہاں بھی نشان بتا کر فرمایا کہ اسی طرح موت کے بعد کی زیست ہے ۔ سورہ حج کی تفسیر میں یہ حدیث گذر چکی ہے کہ ابو رزین رضی اللہ عالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا ؟ اور اس کی مخلوق میں اس بات کی کیا دلیل ہے؟ آپ نے فرمایا اے ابو رزین کیا تم اپنی بستی کے آس پاس کی زمین کے پاس سے اس حالت میں نہیں گذرے کہ وہ خشک بنجر پڑی ہوئی ہوتی ہے ۔ پھر دوبارہ تم گذرتے ہو تو دیکھتے ہو کہ وہ سبزہ زار بنی ہوئی ہے اور تازگی کے ساتھ لہرا رہی ہے ۔ حضرت ابو زرین نے جواب دیا ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو اکثر دیکھنے میں آیا ہے ۔ آپ نے فرمایا بس اسی طرح اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کر دے گا ، جو شخص دنیا اور آخرت میں باعزت رہنا چاہتا ہو اسے اللہ تعالیٰ کی اطاعت گذاری کرنی چاہئے وہی اس مقصد کا پورا کرنے والا ہے ، دنیا اور آخرت کا مالک وہی ہے ۔ ساری عزتیں اسی کی ملکیت میں ہیں ۔ چنانچہ اور آیت میں ہے کہ جو لوگ مومنوں کو چھوڑ کر کفار سے دوستیاں کرتے ہیں کہ ان کے پاس ہماری عزت ہو وہ عزت کے حصول سے مایوس ہو جائیں کیونکہ عزت تو اللہ کے قبضے میں ہیں اور جگہ فرمان عالی شان ہے تجھے ان کی باتیں غم ناک نہ کریں ، تمام تر عزتیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور آیت میں اللہ جل جلالہ کا فرمان ہے یعنی عزتیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اور ایمان والوں کے لئے لیکن منافق بےعلم ہیں ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں بتوں کی پرستش میں عزت نہیں عزت والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ پس بقول قتادہ آیت کا یہ مطلب ہے کہ طالب عزت کو احکام اللہ کی تعمیل میں مشغول رہنا چاہئے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو یہ جاننا چاہتا ہو کہ کس کے لئے عزت ہے وہ جان لے کہ ساری عزتیں اللہ ہی کے لئے ہیں ۔ ذکر تلاوت دعا وغیرہ پاک کلمے اسی کی طرف چڑھتے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جتنی حدیثیں تمہارے سامنے بیان کرتے ہیں ۔ سب کی تصدیق کتاب اللہ سے پیش کر سکتے ہیں ۔ سنو! مسلمان بندہ جب پڑھتا ہے تو ان کلمات کو فرشتہ اپنے پر تلے لے کر آسمان پر چڑھ جاتا ہے ۔ فرشتوں کے جس مجمع کے پاس سے گذرتا ہے وہ مجمع ان کلمات کے کہنے والے کے لئے استغفار کرتا ہے ۔ یہاں تک کہ رب العالمین عزوجل کے سامنے یہ کلمات پیش کئے جاتے ہیں ۔ پھر آپ نے ( اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهٗ 10۝ ) 35- فاطر:10 ) یرفعہ کی تلاوت کی ۔ ( ابن جریر ) حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں سبحان اللہ اور لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر عرش کے اردگرد آہستہ آہستہ آواز نکالتے رہتے ہیں ۔ جیسے شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ ہوتی ہے ۔ اپنے کہنے والے کا ذکر اللہ کے سامنے کرتے رہتے ہیں اور نیک اعمال خزانوں میں محفوظ رہتے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جو لوگ اللہ کا جلال اس کی تسبیح اس کی حمد اس کی بڑائی اس کی وحدانیت کا ذکر کرتے رہتے ہیں ۔ ان کے لئے ان کے یہ کلمات عرش کے آس پاس اللہ کے سامنے ان کا ذکر کرتے رہتے ہیں کیا تم نہیں چاہتے کہ کوئی نہ کوئی تمہارا ذکر تمہارے رب کے سامنے کرتا رہے؟ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ پاک کلموں سے مراد ذکر اللہ ہے اور عمل صالح سے مراد فرائض کی ادائیگی ہے ۔ پس جو شخص ذکر اللہ اور ادائے فریضہ کرے اس کا عمل اس کے ذکر کو اللہ تعالیٰ کی طرف چڑھاتا ہے ۔ اور جو ذکر کرے لیکن فریضہ ادا نہ کرے اس کا کلام اس کے عمل پر لوٹا دیا جاتا ہے ۔ اسی طرح حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ کلمہ طیب کو عمل صالح لے جاتا ہے اور بزرگوں سے بھی یہی منقول ہے بلکہ ایاس بن معاویہ قاضی فرماتے ہیں قول بغیر عمل کے مردود ہے ۔ برائیوں کے گھات میں لگنے والے وہ لوگ ہیں جو مکاری اور ریا کاری کے سے اعمال کرتے ہوں ۔ لوگوں پر گویہ یہ ظاہر ہو کہ وہ اللہ کی فرماں برداری کرتے ہیں لکین دراصل اللہ کے نزدیک وہ سب سے زیادہ برے ہیں جو نیکیاں صرف دکھاوے کی کرتے ہیں ۔ یہ ذکر اللہ بہت ہی کم کرتے ہیں ۔ عبدالرحمٰن فرماتے ہیں اس سے مراد مشرک ہیں ۔ لیکن یہ صحیح ہے کہ یہ آیت عام ہے مشرک اس میں بطریق اولیٰ داخل ہیں ۔ ان کے لئے سخت عذاب ہے اور ان کا مکر فاسد و باطل ہے ۔ ان کا جھوٹ آج نہیں تو کل کھل جائے گا عقل مند ان کے مکر سے واقف ہو جائیں گے ۔ جو شخص جو کچھ کرے اس کا اثر اس کے چہرے پر ہی ظاہر ہو جاتا ہے اس کی زبان اسی رگن سے رنگ دی جاتی ہے ۔ جیسا باطن ہوتا ہے اسی کا عکس ظاہر پر بھی پڑتا ہے ۔ ریا کار کی بے ایمانی لمبی مدت تک پوشیدہ نہیں رہ سکتی ہاں کوئی بےوقوف اس کے دام میں پھنس جائے تو اور بات ہے ۔ مومن پورے عقل مند اور کامل دانا ہوتے ہیں وہ ان دھوکے بازوں سے بخوبی آگاہ ہو جاتے ہیں اور اس عالم الغیب اللہ پر تو کوئی بات بھی چھپ نہیں سکتی ، اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا اور ان کی نسل کو ایک ذلیل پانی سے جاری رکھا ۔ پھر تمہیں جوڑا جوڑا بنایا یعنی مرد و عورت ۔ یہ بھی اس کا لطف و کرم اور انعام واحسان ہے کہ مردوں کے لئے بیویاں بنائیں جو ان کے سکون و راحت کا سبب ہیں ۔ ہر حاملہ کے حمل کی اور ہر بچے کے تولد ہونے کی اسے خبر ہے ۔ بلکہ ہر پتے کے جھڑنے اور اندھیرے میں پڑے ہوئے دانے اور ہر ترو خشک چیز کا اسے علم ہے بلکہ اس کی کتاب میں وہ لکھا ہوا ہے ۔ اسی آیت جیسی ( اَللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى وَمَا تَغِيْضُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ ۭ وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ Ď۝ ) 13- الرعد:8 ) الخ ، ہے اور وہیں اس کی پوری تفسیر بھی گذر چکی ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ عالم الغیب کو یہ بھی علم ہے کہ کس نطفے کو لمبی عمر ملنے والی ہے ۔ یہ بھی اس کی پاس لکھا ہوا ہے ( وَّلَا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهٖٓ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ 11؀ ) 35- فاطر:11 ) میں ہ کی ضمیر کا مرجع جنس ہے ۔ عین ہی نہیں اس لئے کہ طول عمر کتاب میں ہے اور اللہ تعالیٰ کے علم میں اس کی عمر سے کمی نہیں ہوتی ۔ جنس کی طرف بھی ضمیر لوٹتی ہے ۔ جیسے عرب میں کہا جاتا ہے عندی ثوب و نصفہ یعنی میرے پاس ایک کپڑا ہے اور دوسرے کپڑے کا آدھا ہے ۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جس شخص کے لئے میں نے طویل عمر مقدر کی ہے وہ اسے پوری کر کے ہی رہے گا لیکن وہ لمبی عمر میری کتاب میں لکھی ہوئی ہے وہیں تک پہنچے گی اور جس کے لئے میں نے کم عمر مقرر کی ہے اس کی حیات اسی عمر تک پہنچے گی یہ سب کچھ اللہ کی پہلی کتاب میں لکھی ہوئی موجود ہے اور رب پر یہ سب کچھ آسان ہے ۔ عمر کے ناقص ہونے کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو نطفہ تمام ہونے سے پہلے ہی گر جاتا ہے وہ بھی اللہ کے علم میں ہے ۔ بعض انسان سو سو سال کی عمر پاتے ہیں اور بعض پیدا ہوتے ہی مر جاتے ہیں ۔ ساٹھ سال سے کم عمر میں مرنے والا بھی ناقص عمر والا ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ماں کے پیٹ میں عمر کی لمبائی یا کمی لکھ لی جاتی ہے ۔ ساری مخلوق کی یکساں عمر نہیں ہوتی کوئی لمبی عمر والا کوئی کم عمر والا ۔ یہ سب اللہ کے ہاں لکھا ہوا ہے اور اسی کے مطابق ظہور میں آ رہا ہے ۔ بعض کہتے ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ جو اجل لکھی گئی ہے اور اس میں سے جو گذر رہی ہے سب علم اللہ میں ہے اور اس کی کتاب میں لکھی ہوئی ہے ۔ بخاری مسلم وغیرہ میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جو یہ چاہے کہ اس کی روزی اور عمر بڑھے وہ صلہ رحمی کیا کرے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کسی کی اجل آ جانے کے بعد اسے مہلت نہیں ملتی ۔ زیادتی عمر سے مراد نیک اولاد کا ہونا ہے جس کی دعائیں اسے اس کے مرنے کے بعد اس کی قبر میں پہنچتی رہتی ہے یہی زیادتی عمر ہے ۔ یہ اللہ پر آسان ہے اس کا علم اس کے پاس ہے ۔ اس کا علم تمام مخلوق کو گھیرے ہوئے ہے وہ ہر ایک چیز کو جانتا ہے ۔ اس پر کچھ مخفی نہیں ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 یعنی جس طرح بادلوں سے بارش برسا کر خشک زمین کو ہم شاداب کردیتے ہیں اسی طریقے سے قیامت والے دن تمام مردہ انسانوں کو بھی ہم زندہ کردیں گے، حدیث میں آتا ہے کہ انسان کا سارا جسم بوسیدہ ہوجاتا ہے صرف ریڑھ کی ہڈی کا ایک چھوٹا سا حصہ محفوظ رہتا ہے اسی سے اس کی دوبارہ تخلیق و ترکیب ہوگی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ١٣] نباتات کی پیدائش سے معاد پر دلیل :۔ یہ ایک عام انسانی مشاہدہ سے معاد پر دلیل ہے۔ انسانی مشاہدہ یہ ہے کہ بارش ہوتی ہے تو خشک، بنجر اور مردہ زمین یک دم زندہ ہو کر نباتات سے لہلہا اٹھتی ہے پھر اس سے صرف نباتات ہی پیدا نہیں ہوتی ہزاروں جانور، مینڈک، حشرات الارض اور جھینگر وغیرہ بھی پیدا ہو کر اپن... ی اپنی بولیاں بولنے لگتے ہیں۔ یہ آخر کہاں سے پیدا ہوگئے ؟ بالکل یہی کیفیت انسانوں کے زمین سے جی اٹھنے کی بھی ہوگی۔ اور روایات میں آیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا کہ تمام انسان زندہ ہو کر اپنی اپنی قبروں سے اگ آئیں یا اٹھ کھڑے ہوں تو عرش کے نیچے سے ایک خاص قسم کی بارش ہوگی جس سے سب انسان زندہ ہو کر زمین سے اس طرح نکل آئیں گے جس طرح برسات سے کھیتی اور حشرات الارض نکل آتے ہیں۔ ان میں فرق صرف یہ ہے کہ جو چیز انسان کے مشاہدہ میں آچکی ہے۔ اسے من و عن تسلیم تو کرلیتا ہے لیکن اس میں غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا اور جو چیز اس کے مثل ہے مگر ابھی اس کے مشاہدہ میں نہیں آئی اس سے انکار کردیتا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاللّٰهُ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ الرِّيٰحَ فَتُـثِيْرُ سَحَابًا۔ : قرآن کریم میں موت کے بعد زندگی پر عموماً خشک زمین کے ہرا ہونے سے استدلال کیا گیا ہے، جیسا کہ سورة حج میں فرمایا : ( ۭ وَتَرَى الْاَرْضَ هَامِدَةً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاۗءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَاَنْۢبَتَتْ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ... ۢ بَهِيْجٍ ۝ ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ وَاَنَّهٗ يُـحْيِ الْمَوْتٰى وَاَنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ وَّاَنَّ السَّاعَةَ اٰتِيَةٌ لَّا رَيْبَ فِيْهَا ۙ وَاَنَّ اللّٰهَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُوْرِ ) [ الحج : ٥ تا ٧ ] ” اور تو زمین کو مردہ پڑی ہوئی دیکھتا ہے، پھر جب ہم اس پر پانی اتارتے ہیں تو وہ لہلہاتی ہے اور ابھرتی ہے اور ہر خوبصورت قسم میں سے اگاتی ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ اللہ ہی حق ہے اور (اس لیے) کہ وہی مردوں کو زندہ کرے گا اور (اس لیے) کہ وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ اور (اس لیے) کہ قیامت آنے والی ہے، اس میں کوئی شک نہیں اور (اس لیے) کہ اللہ ان لوگوں کو اٹھائے گا جو قبروں میں ہیں۔ “ سب لوگ دیکھتے ہیں کہ بارش ہوتی ہے تو خشک، بنجر اور مردہ زمین یک دم زندہ ہو کر نباتات سے لہلہا اٹھتی ہے، پھر اس سے صرف نباتات ہی پیدا نہیں ہوتے بلکہ ہزاروں جانور یعنی مینڈک، حشرات الارض اور جھینگر وغیرہ بھی پیدا ہو کر اپنی اپنی بولیاں بولنے لگتے ہیں۔ یہ آخر کہاں سے پیدا ہوگئے ؟ بالکل یہی کیفیت انسانوں کے زمین سے جی اٹھنے کی ہوگی، انسان کا حال عجیب ہے کہ جو چیز اس کے مشاہدے میں آتی ہے اسے من و عن تسلیم کرلیتا ہے، مگر بالکل اس جیسی دوسری چیز کا انکار صرف اس لیے کردیتا ہے کہ وہ اس کے مشاہدے میں نہیں آئی، حالانکہ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اور اللہ ایسا (قادر) ہے جو (بارش سے پہلے) ہواؤں کو بھیجتا ہے پھر وہ (ہوائیں) بادلوں کو اٹھاتی ہیں (جس کی کیفیت سورة روم کے رکوع پنجم آیت (آیت) اللہ الذی یرسل الریاح کی تفسیر میں گذری ہے) پھر ہم اس بادل کو خشک قطعہ زمین کی طرف ہانک لے جاتے ہیں (جن سے وہاں بارش ہوتی ہے) پھر ہم اس کے ذریع... ہ سے (یعنی اس بادل کے پانی کے ذریعہ سے) زمین کو (نباتات سے) زندہ کرتے ہیں اس کے خشک ہونے کے بعد (اور جس طرح زمین کے مناسب اس کو حیات عطا فرمائی) اسی طرح (قیامت میں آدمیوں کا) جی اٹھنا ہے (کہ ان کے مناسب حیات ان کو عطا ہوگی وجہ تشبیہ ظاہر ہے کہ دونوں میں ایک زائل شدہ صفت کا احداث و اعادہ ہے۔ گو زمین میں صرف ایک امر عرضی یعنی نشو ونما کا تعلق ہوا ہے اور اعضاء میں ایک امر جوہری یعنی روح کا یہ مضمون حشر و نشر کا دلائل توحید کے ضمن میں تبعاً آ گیا ہے۔ پھر اس نشور کی مناسب سے ایک اور مضمون ہے وہ یہ کہ جب قیامت میں زندہ ہونا ہے تو وہاں کی ذلت و خواری سے بچنے کی فکر کرنا ضروری ہے۔ اس بارے میں مشرکین نے اپنے خود ساختہ معبودوں کو شیطان کے فریب میں آ کر حصول عزت کا ذریعہ قرار دے رکھا تھا، وہ کہتے تھے (آیت) ہوءلآء شفعاؤنا عنداللہ یعنی یہ ہمارے علی الاطلاق شفیع ہیں دنیاوی حوائج میں بھی اور اگر قیامت کوئی چیز ہے تو نجات اخری کے لئے بھی جیسا حق تعالیٰ نے سورة مریم میں ارشاد فرمایا ہے (آیت) واتخذومن دون اللہ آلہتہ لیکونوا لہم عزاً اس کے متعلق ارشاد ہے کہ) جو شخص (آخرت میں) عزت حاصل کرنا چاہے (اور یہ چاہنا اس لئے ضروری بھی ہے کہ آخرت کا واقع ہونا امر یقینی ہے) تو (اس کو چاہئے کہ اللہ سے عزت حاصل کرے کیونکہ) تمام تر عزت (بالذات) خدا ہی کے لئے (حاصل) ہے (اور دوسرے کے لئے جب ہوگی بالعرض ہوگی، اور مابالعرض ہمیشہ مابالذات کا محتاج ہوتا ہے پس اس میں سب خدا ہی کے محتاج ہوئے۔ اور خدا سے اس کے حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ قولاً و عملاً اس کی اطاعت وانقیاد اختیار کرے کہ خدا کے نزدیک یہی چیزیں پسندیدہ ہیں چناچہ اچھا کلام اسی تک پہنچتا ہے، (یعنی وہ اس کو قبول کرتا ہے) اور اچھا کام اس کو پہنچاتا ہے (اچھے کلام میں کلمہ توحید اور تمام اذکار الہیہ اور اچھے کام میں تصدیق قلبی اور جمیع اعمال صالحہ ظاہرہ و باطنہ داخل ہیں تو معنی یہ ہوئے کہ کلمہ توحید اور تمام اذکار کے مقبول بنانے کا ذریعہ عمل صالح ہے اور مقبولیت عام ہے اصل قبولیت اور مکمل قبولیت دونوں کو اور اس اجمال کو دوسرے دلائل نے اس طرح مفصل کردیا کہ تصدیق قلبی تو جمیع کلم طیب کے لئے نفس قبول کی شرط ہے اس کے بغیر کوئی ذکر مقبول نہیں اور دوسرے اعمال صالحہ جمیع کلم طیب کے لئے مکمل قبول کی شرط ہے نہ کہ نفس قبول کی۔ کیونکہ فاسق سے اگر کلمہ طیب کا صدور ہو تو بھی قبول تو ہوجاتا ہے مگر مکمل قبولیت نہیں ہوتی، پس جب یہ چیزیں عند اللہ پسندیدہ ہیں تو جو شخص اس کو اختیار کرے گا وہ معزز ہوگا) اور جو لوگ (اس کے خلاف طریقہ اختیار کر کے آپ کی مخالفت کر رہے ہیں کہ وہ اللہ ہی کی مخالفت ہے اور آپ کے ساتھ) بری بری تدبیریں کر رہے ہیں ان کو سخت عذاب ہوگا، (جو موجب ان کی ذلت کا ہوگا اور ان کی خود ساختہ معبود ان کو خاک عزت نہ دے سکیں گے، بلکہ بالعکس خود وہ ان کے خلاف ہوجائیں گے، کماقال تعالیٰ فی سورة مریم (آیت) سیکفرون بعبادتہم ویکونون علیہم ضداً ، یہ تو ان کا خسران آخرت میں ہوگا) اور (دنیا میں بھی ان کو یہ خسران ہوگا کہ) ان لوگوں کا یہ مکر نیست و نابود ہوجائے گا (یعنی ان تدبیروں میں ان کو کامیابی نہ ہوگی، چناچہ ایسا ہی ہوا کہ وہ اسلام کو مٹانا چاہتے تھے خود ہی مٹ گئے۔ یہ مضمون بطور جملہ معترضہ کے تمام ہو کر آگے پھر عود ہے مضمون توحید کی طرف، یعنی حق تعالیٰ کی قدرت کا مظہر ایک تو وہ تھا جو اوپر اللہ الذی ارسل الخ میں بیان کیا گیا اور (دوسرا مظہر جو توحید پر دلالت کرتا ہے یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے تم کو (ضمنا خلق آدم میں) مٹی سے پیدا کیا، پھر (استقلالاً ) نطفہ سے پیدا کیا، پھر تم کو جوڑے جوڑے بنایا (یعنی کچھ مذکر کچھ مونث بنائے یہ تو اس کی قدرت ہے) اور علم اس کا ایسا ہے کہ) کسی عورت کو نہ حمل رہتا ہے اور نہ وہ جنتی ہے مگر سب اس کی اطلاع سے ہوتا ہے (یعنی اس کو پہلے سے سب کی خبر ہوتی ہے) اور (اسی طرح) نہ کسی کی عمر زیادہ (مقرر) کی جاتی ہے اور نہ کسی کی عمر کم (مقرر) کی جاتی ہے مگر یہ سب لوح محفوظ میں (لکھا ہوا) ہوتا ہے (جسکو حق تعالیٰ نے اپنے علم قدیم کے موافق اس میں ثبت فرما دیا ہے اور گو معلومات بیشمار اور لامتناہی ہیں، مگر یہ تعجب نہ کرو کہ قبل از وقوع سب واقعات کو کیسے مقدور و مقرر فرمایا کیونکہ) یہ سب اللہ کو آسان ہے (کیونکہ اس کا علم ذاتی ہے جس کی نسبت جمیع معلومات کے ساتھ قبل از وقوع و بعد از وقوع یکساں ہے) اور (آگے قدرت کے اور دلائل سنو کہ باوجود یکہ پانی مادہ واحدہ ہے مگر باوجود وحدت قابل کے اس میں اختلاف افعال سے دو مختلف قسمیں پیدا کردیں) دونوں دربار برابر نہیں (بلکہ) ایک تو شیریں پیاس بجھانے والا ہے جس کا پینا بھی (بوجہ قبول طبیعت کے) آسان ہے اور ایک شور تلخ ہے (تو یہ امر بھی عجائب قدرت سے ہے) اور دوسرے دلائل قدرت بھی ہیں جو دلالت علی القدرة کے ساتھ دال علی النعمتہ بھی ہیں بعض تو انہی دریاؤں کے متعلق ہیں مثلاً یہ کہ) تم ہر ایک صدریا) سے (مچھلیاں نکال کر ان کا) تازہ گوشت کھاتے ہو اور (نیز) زیور (یعنی موتی) نکالتے ہو جس کو تم پہنتے ہو اور (اے مخاطب) تو کشتیوں کو اس میں دیکھتا ہے پانی کو پھاڑتی ہوئی چلتی ہیں تاکہ تم (ان کے ذریعہ سے سفر کرکے) اس کی روزی ڈھونڈو اور تاکہ (روزی حاصل کر کے تم (اللہ کا) شکر کرو (اور بعض اور نعمتیں ہیں مثلاً یہ کہ) وہ رات (کے اجزائ) کو دن (کے اجزائ) میں داخل کردیتا ہے، اور ان (کے اجزائ) کو رات (کے اجزائ) میں داخل کردیتا ہے (جس سے دن اور رات گھٹنے بڑھنے کے متعلق منافع حاصل ہوتے ہیں) اور مثلاً یہ کہ) اس نے سورج اور چاند کو کام میں لگا رکھا ہے (ان میں سے) ہر ایک وقت مقرر (یعنی قیوم قیامت) تک (اسی طرح) چلتے رہیں گے، یہی اللہ (جس کی یہ شان ہے) تمہارا پروردگار ہے، اسی کی سلطنت ہے اور اس کے سوا جن کو پکارتے ہو وہ تو کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی اختیار نہیں رکھتے۔ چناچہ جمادات میں تو ظار ہے اور ذوات الارواح میں بایں معنی کہ بالذات اختیار نہیں رکھتے اور ان کی یہ حالت ہے کہ) اگر تم پکارو تو بھی وہ تمہاری پکار (اول تو) سنیں گے نہیں (جمادات تو اس لئے کہ ان میں سننے کی صلاحیت نہیں اور ذوات الارواح بایں معنی کہ مرنے کے بعد ان کا سننا لازمی اور دائمی نہیں، جب اللہ چاہے سنا دے جب نہ چاہے نہ سنا دے) اور اگر (بالفرض) سن بھی لیں تو تمہارا کہنا نہ کریں گے اور قیامت کے روز وہ (خود) تمہارے شرک کرنے کی مخالفت کریں گے (قولہ تعالیٰ ماکانوا ایانا یعبدون و غیر ذلک من آلاویات) اور (ہم نے جو کچھ فرمایا ہے اس کے صدق میں ذرا شک و شبہ نہیں کیونکہ ہم حقائق پوری خبر رکھنے والے ہیں اور اے مخاطب) تجھ کو خبر رکھنے والے کی برابر کوئی نہیں بتلائے گا۔ (پس ہمارا بتلانا اس سے زیادہ صحیح ہے۔ )   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاللہُ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ الرِّيٰحَ فَتُـثِيْرُ سَحَابًا فَسُقْنٰہُ اِلٰى بَلَدٍ مَّيِّتٍ فَاَحْيَيْنَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۝ ٠ ۭ كَذٰلِكَ النُّشُوْرُ۝ ٩ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيّ... ًا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) رسل ( ارسال) والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، وقد يكون ذلک بالتّسخیر، كإرسال الریح، والمطر، نحو : وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] ، وقد يكون ببعث من له اختیار، نحو إِرْسَالِ الرّسل، قال تعالی: وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] ، فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] ، وقد يكون ذلک بالتّخلية، وترک المنع، نحو قوله : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83] ، والْإِرْسَالُ يقابل الإمساک . قال تعالی: ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] ( ر س ل ) الرسل الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ کبھی ( 1) یہ تسخیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے ہوا بارش وغیرہ کا بھیجنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] اور ( اوپر سے ) ان پر موسلادھار مینہ برسایا ۔ اور کبھی ( 2) کسی بااختیار وار وہ شخص کے بھیجنے پر بولا جاتا ہے جیسے پیغمبر بھیجنا چناچہ قرآن میں ہے : وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] اور تم لوگوں پر نگہبان ( فرشتے ) تعنیات رکھتا ہے ۔ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] اس پر فرعون نے ( لوگوں کی بھیڑ ) جمع کرنے کے لئے شہروں میں ہر کارے دوڑائے ۔ اور کبھی ( 3) یہ لفظ کسی کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑے دینے اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے پر بولاجاتا ہے ہے جیسے فرمایا : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83]( اے پیغمبر ) کیا تم نے ( اس باٹ پر ) غور نہیں کیا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں انگینت کر کے اکساتے رہتے ہیں ۔ اور کبھی ( 4) یہ لفظ امساک ( روکنا ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] تو اللہ جو اپنی رحمت دے لنگر لوگوں کے لئے ) کھول دے تو کوئی اس کا بند کرنے والا نہیں اور بندے کرے تو اس کے ( بند کئے ) پیچھے کوئی اس کا جاری کرنے والا نہیں ۔ الرِّيحُ معروف، وهي فيما قيل الهواء المتحرّك . وعامّة المواضع الّتي ذکر اللہ تعالیٰ فيها إرسال الرّيح بلفظ الواحد فعبارة عن العذاب، وكلّ موضع ذکر فيه بلفظ الجمع فعبارة عن الرّحمة، فمن الرِّيحِ : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر/ 19] ، فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب/ 9] ، مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران/ 117] ، اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم/ 18] . وقال في الجمع : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر/ 22] ، أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم/ 46] ، يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف/ 57] . وأمّا قوله : يرسل الرّيح فتثیر سحابا «3» فالأظهر فيه الرّحمة، وقرئ بلفظ الجمع «4» ، وهو أصحّ. وقد يستعار الرّيح للغلبة في قوله : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال/ 46] ، وقیل : أَرْوَحَ الماءُ : تغيّرت ريحه، واختصّ ذلک بالنّتن . ورِيحَ الغدیرُ يَرَاحُ : أصابته الرِّيحُ ، وأَرَاحُوا : دخلوا في الرَّوَاحِ ، ودهن مُرَوَّحٌ: مطيّب الرّيح . وروي :«لم يَرَحْ رَائِحَةَ الجنّة» «5» أي : لم يجد ريحها، والمَرْوَحَةُ : مهبّ الرّيح، والمِرْوَحَةُ : الآلة التي بها تستجلب الرّيح، والرَّائِحَةُ : تَرَوُّحُ هواء . ورَاحَ فلان إلى أهله إمّا أنه أتاهم في السّرعة کالرّيح، أو أنّه استفاد برجوعه إليهم روحا من المسرّة . والرَّاحةُ من الرَّوْح، ويقال : افعل ذلک في سراح ورَوَاحٍ ، أي : سهولة . والمُرَاوَحَةُ في العمل : أن يعمل هذا مرّة، وذلک مرّة، واستعیر الرَّوَاحُ للوقت الذي يراح الإنسان فيه من نصف النّهار، ومنه قيل : أَرَحْنَا إبلَنا، وأَرَحْتُ إليه حقّه مستعار من : أرحت الإبل، والْمُرَاحُ : حيث تُرَاحُ الإبل، وتَرَوَّحَ الشجر ورَاحَ يَراحُ : تفطّر . وتصوّر من الرّوح السّعة، فقیل : قصعة رَوْحَاءُ ، وقوله : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف/ 87] ، أي : من فرجه ورحمته، وذلک بعض الرّوح . الریح کے معنی معروف ہیں ۔ یعنی ہوا متحرک کو کہتے ہیں عام طور پر جن مواضع میں ( رسال الریح صیغہ مفرد کے ساتھ مذکور ہے وہاں عذاب مراد ہے اور جہاں کہیں لفظ جمع کے ساتھ مذکور ہے وہاں رحمت مراد ہے ۔ چناچہ ریح کے متعلق فرمایا : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر/ 19] ہم نے ان پر ایک زنانے کی اندھی چلائی ۔ فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب/ 9] تو ہم نے ان پر آندھی چلائی ۔ مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران/ 117] مثال اس ہوا کی ہے ۔ جس میں بڑی ٹھر بھی ہوا۔ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم/ 18] اس کو سخت ہوا لے اڑی ۔ اور ریاح ( جمع کا لفظ ) کے متعلق فرمایا : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر/ 22] اور ہم ہی ہوا کو چلاتے ہیں جو بادلوں کو پانی بار وار کرتی ہے ۔ أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم/ 46] کہ وہ ہواؤں کو اس غرض سے بھیجتا ہے کہ لوگوں کو بارش کی خوشخبری پہنچائیں ۔ يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف/ 57] باران رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو بھیجتا ہے تاکہ لوگوں کو مینہ کی آمد کی خوشخبری پہنچادیں ۔ اور آیت ير سل الرّيح فتثیر سحابا «3»اور وہ قادرمطلق ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ ہوائیں بادلوں کو ان کی جگہ سے ابھارتی ہے ۔ میں بھی چونکہ معنی رحمت اغلب ہے اس لئے یہاں لفظ جمع کی قرات زیادہ صحیح ہے ۔ کبھی مجازا ریح بمعنی غلبہ بھی آجاتا ہے چناچہ فرمایا : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال/ 46] اور تمہاری وہوا اکھڑ جائے گی ۔ محاورہ : اروح الماء پانی متغیر ہوگیا خاص کر بدبو دار ہونے کے وقت بولتے ہیں ۔ ریح الغد یرییراح جوہڑ پر ہوا کا چلنا ۔ اور اراحوا کے معنی رواح یعنی شام کے وقت میں داخل ہونے کے ہیں اور خشبودار تیل کو دھن مروح کہا جاتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ( 163) لم یرح راحئتہ الجنتہ کہ وہ جنت کی کو شبوتک نہیں پائے گا ۔ المروحبتہ ہوا چلنے کی سمت المروحتہ ( آلہ ) پنکھا ۔ الرئحتہ مہکنے والی خوشبو ۔ محاورہ ہے ۔ راح فلان الیٰ اھلہ ( 1) فلاں اپنئ اہل کیطرف ہوا کی طرح تیزی کے ساتھ گیا ۔ ۔ ( 2) اس نے اپنے اہل و عیال میں پہنچ کر راحت حاصل کی ۔ الرحتہ آرام ۔ یہ بھی روح سے موخوذ ہے ۔ مشہور محاورہ ہے ۔ افعل ذالک فی مراح وراح کہ آرام سے یہ کام کرو ۔ المراوحتہ کے معنی ہیں دو کاموں کو باری باری کرنا ۔ اور استعارہ کے طور پر رواح سے دوپہر کو آرام کا وقت مراد لیا جاتا ہے اور اسی سے کہا جاتا ہے ۔ ارحنا ابلنا کہ ہم نے اونٹوں کو آرام دیا ( یعنی بازہ میں لے آئے ) اور پھر ارحت الابل سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ کہ میں نے اس کا حق واپس لوٹا دیا اور مراح باڑے کو کہا جاتا ہے اور تروح الشجرہ وراح یراح کے معنی درخت کے شکوفہ دار ہونے اور نئے پتے نکالنے کے ہیں اور کبھی روح سے وسعت اور فراخی کے معنی بھی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ کہا جاتا ہے ۔ قصعتہ روحاء فراخ پیالہ اور آیت کریمہ : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف/ 87] اور خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ ۔ میں بھی وسعت رحمت مراد ہے جو لفظ روح سے مفہوم ہوتی ہے ۔ ثور ثَارَ الغبار والسحاب ونحوهما، يَثُور ثَوْراً وثَوَرَانا : انتشر ساطعا، وقد أَثَرْتُهُ ، قال تعالی: فَتُثِيرُ سَحاباً [ الروم/ 48] ، يقال : أَثَرْتُ الأرض، کقوله تعالی: وَأَثارُوا الْأَرْضَ وَعَمَرُوها [ الروم/ 9] ، وثَارَتِ الحصبة ثَوْراً تشبيها بانتشار الغبار، وثَوَّرَ شرّا كذلك، وثَارَ ثَائِرُهُ كناية عن انتشار غضبه، وثَاوَرَهُ : واثبه، والثَّوْرُ : البقر الذي يثار به الأرض، فكأنه في الأصل مصدر جعل في موضع الفاعل «1» ، نحو : ضيف وطیف في معنی: ضائف وطائف، وقولهم : سقط ثور الشفق «2» أي : الثائر المنتثر، والثأر هو طلب الدم، وأصله الهمز، ولیس من هذا الباب . ( ث و ر ) ثار ( ن ) ثورا و ثورانا ۔ الغبار انہ السحات کے معنی غبار یا بادل کے اوپر اٹھنے اور پھیلنے کے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَتُثِيرُ سَحاباً [ الروم/ 48] تو وہ بادل کو اوپر اٹھاتی ہیں ۔ وَأَثارُوا الْأَرْضَ وَعَمَرُوها [ الروم/ 9] انہوں نے زمین کو جوتا اور ا اس کو ۔۔ آباد کیا ۔ اور غبار کے منتشر ہونے کے ساتھ تشبیہ دیکر ثارت الحصبۃ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کنکر کے پھیل جانے کے ہیں اور اسی طرح ( یعنی مجازا ) ثور شرا ( شر کی آگ بھڑکانا ) کہا جاتا ہے ۔ ثارثائرہ ( کنایہ ) یعنی وہ غضب ناک ہوگیا ۔ ث اورہ اس پر حملہ کردیا ۔ الثور بیل کیونکہ اس سے زمین جوتی جاتی ہے ۔ یہ اصل میں مصدر بمعنی فاعل ہے جیسا کہ ضیف وطیف بمعنی ضائف وطائف استعمال ہوتا ہے محاورہ ہے ۔ سقط ثور الشفق ۔ یعنی شفق کی سرخی غروب ہوگئی ۔ الثار کے معنی خون کا بدلہ ، ، کے ہیں یہ اصل میں مہموز العین ہے اور اس مادہ سے نہیں ہے ۔ سقی السَّقْيُ والسُّقْيَا : أن يعطيه ما يشرب، والْإِسْقَاءُ : أن يجعل له ذلک حتی يتناوله كيف شاء، فالإسقاء أبلغ من السّقي، لأن الإسقاء هو أن تجعل له ما يسقی منه ويشرب، تقول : أَسْقَيْتُهُ نهرا، قال تعالی: وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] ، وقال : وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] ( س ق ی ) السقی والسقیا کے معنی پینے کی چیز دینے کے ہیں اور اسقاء کے معنی پینے کی چیز پیش کردینے کے ہیں تاکہ حسب منشا لے کر پی لے لہذا اسقاء ینسبت سقی کے زیادہ طبغ ہے کیونکہ اسقاء میں مایسقی منھ کے پیش کردینے کا مفہوم پایا جاتا ہے کہ پینے والا جس قد ر چاہے اس سے نوش فرمانے مثلا اسقیتہ نھرا کے معنی یہ ہوں ۔ گے کر میں نے اسے پانی کی نہر پر لے جاکر کھڑا کردیا چناچہ قرآن میں سقی کے متعلق فرمایا : ۔ وسقاھم وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] اور ان کا پروردگار ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا ۔ وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائیگا ۔ بلد البَلَد : المکان المحیط المحدود المتأثر باجتماع قطّانه وإقامتهم فيه، وجمعه : بِلَاد وبُلْدَان، قال عزّ وجلّ : لا أُقْسِمُ بِهذَا الْبَلَدِ [ البلد/ 1] ، قيل : يعني به مكة «1» . قال تعالی: بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ [ سبأ/ 15] ، فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] ، وقال عزّ وجلّ : فَسُقْناهُ إِلى بَلَدٍ مَيِّتٍ [ الأعراف/ 57] ، رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة/ 126] ، يعني : مكة و تخصیص ذلک في أحد الموضعین وتنکيره في الموضع الآخر له موضع غير هذا الکتاب «2» . وسمیت المفازة بلدا لکونها موطن الوحشیات، والمقبرة بلدا لکونها موطنا للأموات، والبَلْدَة منزل من منازل القمر، والبُلْدَة : البلجة ما بين الحاجبین تشبيها بالبلد لتمدّدها، وسمیت الکركرة بلدة لذلک، وربما استعیر ذلک لصدر الإنسان «1» ، ولاعتبار الأثر قيل : بجلده بَلَدٌ ، أي : أثر، وجمعه : أَبْلَاد، قال الشاعر : وفي النّحور کلوم ذات أبلاد وأَبْلَدَ الرجل : صار ذا بلد، نحو : أنجد وأتهم «3» . وبَلِدَ : لزم البلد . ولمّا کان اللازم لموطنه كثيرا ما يتحيّر إذا حصل في غير موطنه قيل للمتحيّر : بَلُدَ في أمره وأَبْلَدَ وتَبَلَّدَ ، قال الشاعر : لا بدّ للمحزون أن يتبلّدا ولکثرة وجود البلادة فيمن کان جلف البدن قيل : رجل أبلد، عبارة عن عظیم الخلق، وقوله تعالی: وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف/ 58] ، کنایتان عن النفوس الطاهرة والنجسة فيما قيل «5» . ( ب ل د ) البلد شہر ) وہ مقام جس کی حد بندی کی گئی ہو اور وہاں لوگ آباد ۔ اس کی جمع بلاد اور بلدان آتی ہے اور آیت : ۔ لا أُقْسِمُ بِهذَا الْبَلَدِ [ البلد/ 1] سے مکہ مکرمہ مراد ہے دوسری جگہ فرمایا رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة/ 126] کہ میرے پروردگار اس شہر کو ( لوگوں کے لئے ) امن کی جگہ بنادے ۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ [ سبأ/ 15] پاکیزہ شہر ہے ۔ فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] پھر ہم نے اس سے شہر مردہ کو زندہ کردیا ۔ فَسُقْناهُ إِلى بَلَدٍ مَيِّتٍ [ الأعراف/ 57] پھر ہم ان کو ایک بےجان شہر کی طرف چلاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة/ 126] پروردگار اس جگہ کو امن کا شہر بنا میں بھی مکہ مکرمہ مراد ہے لیکن ایک مقام پر اسے معرفہ اور دوسرے مقام پر نکرہ لانے میں جو لطافت اور نکتہ ملحوظ ہے اسے ہم دوسری کتاب میں بیان کرینگے اور بلد کے معنی بیابان اور قبرستان بھی آتے ہیں کیونکہ پہلاوحشی جانوروں دوسرا مردوں کا مسکن ہوتا ہی ۔ البلدۃ منازل قمر سے ایک منزل کا نام ہے اور تشبیہ کے طور پر ابرو کے درمیان کی جگہ اور اونٹ کے کے سینہ کو بھی بلدۃ کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ یہ بھی شہر کی طرح محدود ہوتے ہیں اور بطور استعارہ انسان کے سینہ پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے اور اثر یعنی نشان کے معنی کے اعتبار سے بجلدہ بلد کا محاورہ استعمال ہوتا ہے یعنی اس کی کھال پر نشان ہے اس کی جمع ابلاد آتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے اور ان کے سینوں پر زخموں کے نشانات ہیں ۔ ابلد الرجل شہر میں چلاجانا جیسا کہ انجد اتھم کے معنی نجد اور تہمامہ میں چلے جانے کے ہیں ۔ بلد الرجل کے معنی شہر میں مقیم ہونے کے ہیں اور کسی مقام پر ہمیشہ رہنے والا اکثر اوقات دوسری جگہ میں جاکر متحیر ہوجاتا ہے اس لئے متجیر آدمی کے متعلق وغیرہ ہا کے محاورات استعمال ہوتے ہیں شاعر نے کہا ہے ( ع ) کہ اند وہ گیں لازما متحیر رہے گا ) ۔ اجد لوگ دام طور پر بلید یعنی کند ذہن ہوتے ہیں اس لئے ہر لئے جیم آدمی کو ابلد کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف/ 58]( جو زمین پاکیزہ دے ) اس میں سے سبزہ بھی پروردگار کے حکم سے ( نفیس ہی ) نکلتا ہے اور جو خراب ہے ۔ اس میں سے جو کچھ نکلتا ہے ناقص ہوتا ہے ) میں بلد کے طیب اور خبیث ہونے سے کنایہ نفوس کا طیب اور خبیث ہونا مراد ہے ۔ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے نشر النَّشْرُ ، نَشَرَ الثوبَ ، والصَّحِيفَةَ ، والسَّحَابَ ، والنِّعْمَةَ ، والحَدِيثَ : بَسَطَهَا . قال تعالی: وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ [ التکوير/ 10] ، وقال : وهو الّذي يرسل الرّياح نُشْراً بين يدي رحمته [ الأعراف/ 57] «2» ، وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهُ [ الشوری/ 28] ، وقوله : وَالنَّاشِراتِ نَشْراً [ المرسلات/ 3] أي : الملائكة التي تَنْشُرُ الریاح، أو الریاح التي تنشر السَّحابَ ، ويقال في جمع النَّاشِرِ : نُشُرٌ ، وقرئ : نَشْراً فيكون کقوله :«والناشرات» ومنه : سمعت نَشْراً حَسَناً. أي : حَدِيثاً يُنْشَرُ مِنْ مَدْحٍ وغیره، ونَشِرَ المَيِّتُ نُشُوراً. قال تعالی: وَإِلَيْهِ النُّشُورُ [ الملک/ 15] ، بَلْ كانُوا لا يَرْجُونَ نُشُوراً [ الفرقان/ 40] ، وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلانُشُوراً [ الفرقان/ 3] ، وأَنْشَرَ اللَّهُ المَيِّتَ فَنُشِرَ. قال تعالی: ثُمَّ إِذا شاءَ أَنْشَرَهُ [ عبس/ 22] ، فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] وقیل : نَشَرَ اللَّهُ المَيِّتَ وأَنْشَرَهُ بمعنًى، والحقیقة أنّ نَشَرَ اللَّهُ الميِّت مستعارٌ من نَشْرِ الثَّوْبِ. كما قال الشاعر : 440- طَوَتْكَ خُطُوبُ دَهْرِكَ بَعْدَ نَشْرٍ ... كَذَاكَ خُطُوبُهُ طَيّاً وَنَشْراً «4» وقوله تعالی: وَجَعَلَ النَّهارَ نُشُوراً [ الفرقان/ 47] ، أي : جعل فيه الانتشارَ وابتغاء الرزقِ كما قال : وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ الآية [ القصص/ 73] ، وانْتِشَارُ الناس : تصرُّفهم في الحاجاتِ. قال تعالی: ثُمَّ إِذا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ [ الروم/ 20] ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب/ 53] ، فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ [ الجمعة/ 10] وقیل : نَشَرُوا في معنی انْتَشَرُوا، وقرئ : ( وإذا قيل انْشُرُوا فَانْشُرُوا) [ المجادلة/ 11] «1» أي : تفرّقوا . والانْتِشَارُ : انتفاخُ عَصَبِ الدَّابَّةِ ، والنَّوَاشِرُ : عُرُوقُ باطِنِ الذِّرَاعِ ، وذلک لانتشارها، والنَّشَرُ : الغَنَم المُنْتَشِر، وهو للمَنْشُورِ کالنِّقْضِ للمَنْقوض، ومنه قيل : اکتسی البازي ريشا نَشْراً. أي : مُنْتَشِراً واسعاً طویلًا، والنَّشْرُ : الكَلَأ الیابسُ ، إذا أصابه مطرٌ فَيُنْشَرُ. أي : يَحْيَا، فيخرج منه شيء كهيئة الحَلَمَةِ ، وذلک داءٌ للغَنَم، يقال منه : نَشَرَتِ الأرضُ فهي نَاشِرَةٌ. ونَشَرْتُ الخَشَبَ بالمِنْشَارِ نَشْراً اعتبارا بما يُنْشَرُ منه عند النَّحْتِ ، والنُّشْرَةُ : رُقْيَةٌ يُعَالَجُ المریضُ بها . ( ن ش ر ) النشر کے معنی کسی چیز کو پھیلانے کے ہیں یہ کپڑے اور صحیفے کے پھیلانے ۔ بارش اور نعمت کے عام کرنے اور کسی بات کے مشہور کردیتے پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ [ التکوير/ 10] اور جب دفتر کھولے جائیں گے ۔ وهو الّذي يرسل الرّياح نُشْراً بين يدي رحمته [ الأعراف/ 57] اور وہی تو ہے جو لوگوں کے ناامیدہو جانیکے بعد مینہ برساتا اور اپنی رحمت ( یعنی بارش کے برکت ) کو پھیلا دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَالنَّاشِراتِ نَشْراً [ المرسلات/ 3] اور بادلوں کو ( بھاڑ ) ( پہلا دیتی ہے ۔ میں ناشرات سے مراد وہ فرشتے ہن جو ہواؤں کے پھیلاتے ہیں یا اس سے وہ ہوائیں مراد ہیں جو بادلون کو بکھیرتی ہیں ۔ چناچہ ایک قرات میں نشرابین یدی رحمتہ بھی ہے جو کہ وہ الناشرات کے ہم معنی ہے اور اسی سے سمعت نشرا حسنا کا محاورہ ہے جس کے معنی میں نے اچھی شہرت سنی ۔ نشرالمیت نشودا کے معنی ہیت کے ( ازسرنو زندہ ہونے کے ہیں ) چناچہ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ النُّشُورُ [ الملک/ 15] اسی کے پاس قبروں سے نکل کر جانا ہے بَلْ كانُوا لا يَرْجُونَ نُشُوراً [ الفرقان/ 40] بلکہ ان کو مرنے کے بعد جی اٹھنے کی امیدہی نہیں تھی ۔ وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان/ 3] اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے ۔ اور نہ جینا اور نہ مرکراٹھ کھڑے ہونا ۔ انشر اللہ المیت ک معنی میت کو زندہ کرنے کے ہیں۔ اور نشر اس کا مطاوع آتا ہے ۔ جس کہ معنی زندہ ہوجانے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ إِذا شاءَ أَنْشَرَهُ [ عبس/ 22] پھر جب چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا ۔ فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] پھر ہم نے اس سے شہر مردہ کو زندہ کردیا ۔ بعض نے کہا ہے ک نشر اللہ المیت وانشرہ کے ایک ہی معنی میں ۔ لیکن درحقیقت نشر اللہ المیت نشرالثوب کے محاورہ سے ماخوذ ہے شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (425) طوتک خطوب دھرک بعد نشر کذاک خطوبہ طیا ونشرا تجھے پھیلانے کے بعد حوادث زمانہ نے لپیٹ لیا اس طرح حوادث زمانہ لپیٹنے اور نشر کرتے رہتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] اور دن کو اٹھ کھڑا ہونے کا وقت ٹھہرایا ۔ میں دن کے نشوربنانے سے مراد یہ ہے کہ اس کا روبار کے پھیلانے اور روزی کمانے کے لئے بنایا ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ الآية [ القصص/ 73] اور اس نے رحمت سے تمہارے لئے رات کو اور دن کو بنایا ۔ تاکہ تم اس میں آرام کرو اور اس میں اس کا فضل تلاش کرو ۔ اور انتشارالناس کے معنی لوگوں کے اپنے کاروبار میں لگ جانے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ثُمَّ إِذا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ [ الروم/ 20] پھر اب تم انسان ہوکر جابجا پھیل رہے ہو ۔ فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب/ 53] تو جب کھانا کھا چکو تو چل دو ۔ فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ [ الجمعة/ 10] پھر جب نماز ہوچکے تو اپنی اپنی راہ لو ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ نشروا بمعنی انتشروا کے آتا ہے۔ چناچہ آیت کریمہ : وإذا قيل انْشُرُوا فَانْشُرُوا) [ المجادلة/ 11] اور جب کہاجائے کہ اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑا ہوا کرو ۔ میں ایک قراءت فاذا قیل انشروافانشروا بھی ہے ۔ یعنی جب کہاجائے کہ منتشر ہوجاؤ تو منتشر ہوجایا کرو ۔ الانتشار کے معنی چوپایہ کی رگوں کا پھول جانا ۔۔ بھی آتے ہیں ۔ اور نواشر باطن ذراع کی رگوں کو کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ وہ بدن میں منتشر ہیں ۔ النشر ( ایضا) پھیلنے والے بادل کو کہتے ہیں ۔ اور یہ بمعنی منشور بھی آتا ہے جیسا کہ نقض بمعنی منقوض آجاتا ہے اسی سے محاورہ ہے ؛اکتسی البازی ریشا نشرا ۔ یعنی باز نے لمبے چوڑے پھیلنے والے پروں کا لباس پہن لیا ۔ النشر ( ایضا) خشک گھاس کو کہتے ہیں ۔ جو بارش کے بعد سرسبز ہوکر پھیل جائے اور اس سے سر پستان کی سی کونپلیں پھوٹ نکلیں یہ گھاس بکریوں کے لئے سخت مضر ہوتی ہے ۔ اسی سے نشرت الارض فھی ناشرۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی زمین میں نشر گھاس پھوٹنے کے ہیں ۔ شرت الخشب بالمنشار کے معنی آرے سے لکڑی چیرنے کے ہیں ۔ اور لکڑی چیر نے کو نشر اس لئے کہتے ہیں کہ اسے چیرتے وقت نشارہ یعنی پر ادہ پھیلتا ہے ۔ اور نشرہ کے معنی افسوں کے ہیں جس سے مریض کا علاج کیا جاتا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اللہ تعالیٰ ایسا قادر ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے پھر وہ ہوائیں بادلوں کو اٹھاتی ہیں پھر ہم بارش سے زمین کو سیراب کرتے ہیں پھر ہم اس کے ذریعے سے بنجر زمین کو آباد کرتے ہیں اسی طرح تم زندہ کیے جاؤ گے اور قبروں سے نکالے جاؤ گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩ { وَاللّٰہُ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ } ” اور اللہ ہی ہے جو ہوائوں کو بھیجتا ہے “ { فَتُثِیْرُ سَحَابًا فَسُقْنٰہُ اِلٰی بَلَدٍ مَّیِّتٍ } ” پھر وہ اٹھا لیتی ہیں بادلوں کو ‘ پھر ہم ہانک دیتے ہیں اس (بادل) کو ایک ُ مردہ زمین کی طرف “ { فَاَحْیَیْنَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا } ” پھر...  ہم اس سے اس زمین کو زندہ کردیتے ہیں اس کے مردہ ہوجانے کے بعد۔ “ { کَذٰلِکَ النُّشُوْرُ } ” اسی طرح سے ہوگا (تمہارا) اٹھایا جانا بھی ! “ جس طرح بےآب وگیاہ بنجر زمین پر بارش کے برستے ہی زندگی کے آثار نمایاں ہوجاتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے طرح طرح کا سبزہ اس میں سے نمودار ہونے لگتا ہے ‘ اسی طرح وقت آنے پر تم بھی اللہ کے حکم سے زمین سے نکل کھڑے ہو گے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

19 That is, "These ignorant people think that the Hereafter is impossible. That is why they are living under the delusion that they may do whatever they like in the world, the time will never come when they will have to. appear before their God and render an account of their deeds. But this is no more than a delusion. On the Day of Resurrection, the dead men of All ages will suddenly rise back to ... life at one call of Allah just as the dead earth comes back to life at one shower of the rain and the roots, lying dead for ages, become green and start sprouting up from the layers of the earth."  Show more

سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :19 یعنی یہ نادان لوگ آخرت کو بعید از امکان سمجھتے ہیں اور اسی لیے اپنی جگہ اس خیال میں مگن ہیں کہ دنیا میں یہ خواہ کچھ کرتے رہیں بہرحال وہ وقت کبھی آنا نہیں ہے جب انہیں جواب دہی کے لیے خدا کے حضور حاضر ہونا پڑے گا ۔ لیکن یہ محض ایک خیال خام ہے جس میں یہ مبتلا ہیں ۔ قیامت ... کے روز تمام اگلے پچھلے مرے ہوئے انسان اللہ تعالیٰ کے ایک اشارے پر بالکل اسی طرح یکایک جی اٹھیں گے جس طرح ایک بارش ہوتے ہی سونی پڑی ہوئی زمین یکایک لہلہا اٹھتی ہے اور مدتوں کی مری ہوئی جڑیں سرسبز و شاداب ہو کر زمین کی تہوں میں سے سر نکالنا شروع کر دیتی ہیں ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩۔ مشرکین مکہ کو حشر کا انکار تھا جس کے سبب سے عقبیٰ کی بہبودی کی باتیں ان لوگوں کے دل میں نہیں جمتی تھیں اور اسی سے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رنج ہوتا تھا اس لیے اکثر جگہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے کھیتی کی مثال دے کر حشرکا حال ان لوگوں کو سمجھایا ہے کہ جس طرح زمین مردہ پڑی ہوتی ہ... ے اس میں گھانس تک نہیں ہوتی پھر جس وقت اللہ تعالیٰ نے مینہ کی ہوا چلائی اور پانی کے بھرے ہوئے بادے بھیجے اور مینہ برسایا تو اس وقت زمین حرکت کر کے ابھرتی ہے اور اس میں ہر طرح کی چیز پیدا ہوجاتی ہے یہ ہی حال جسموں کا ہے جب اللہ ان کو دوبارہ اٹھانا چاہے گا تو عرش کے نیچے سے ایک ایسی بارش بھیجے گا کہ وہ تمام زمین کو پہنچے گی قبروں کے اندر تمام جسم اس طرح بن کر تیار ہوجائیں گے جس طرح اب زمین کی پیداوار کا حال ہے اس بارش کے باب میں صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایت ایک جگہ گزر چکی ١ ؎ ہے (١ ؎ بحوالہ مشکوٰۃ باب النفخ فی الصور) پھر فرمایا کہ جو شخص دنیا اور آخری میں عزت حاصل کرنی چاہے تو اس کو چاہئے کہ اللہ کی بندگی کرے بیشک اس کا مقصد حاصل ہوجائے گا کس واسطے کہ دنیا میں آخرت میں عزت حاصل کرنی چاہے تو اس کو چاہئے کہ اللہ کی بندگی کرے بیشک اس کا مقصد حاصل ہوجائے گا کس واسطے کہ دنیا اور آخرت کا مالک خدا تعالیٰ ہے اور تمام عزت اسی کے اختیار میں ہے یہ لوگ اب تو کہتے ہیں اگر ہم مر کر دوبارہ زندہ ہوئے تو وہ فرشتے اور نیک لوگ جن کی مورتوں کی ہم پوجا کرتے ہیں اللہ کی بارگاہ میں ہماری سفارش کر کے دوزخ کے عذاب کی ذلت سے ہم کو بچالیویں گے جس سے ہماری عزت میں کچھ فرق نہ آوے گا لیکن قیامت کے دن بجائے سفارش کے اللہ کے فرشتے اور نیک لوگ ان مشرکوں کی صورت سے بیزار ہوجاویں گے اور دوزخ کے عاب کی جو ذلت ان کے بھگتنی پڑے گی وہ اس دن اس طرح ان کی آنکھوں کے سامنے آجاوے گی جس طرح مکہ کے قحط کے وقت ان لوگوں نے اپنے بتوں کی بےاختیاری کے سبب سے مردار چیزوں کے کھانے کی ذلت اٹھائی ‘ نیک لوگوں کی بیزاری کا حال سورة یونس میں اور فرشتوں کی بیزاری کا حال سورة سبا میں گزر چکا ہے مکہ کے قحط کی عب اللہ بن مسعود کی یہ روایت بھی صحیح بخاری (رح) کے حوالہ سے اوپر گزر چکی ہے کہ جب مشرکین مکہ نے بہت سرکشی پر کمر باندھی تو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بددعاء سے مکہ میں سخت قحط پڑا جس میں مشرکین مکہ کو یہ ذلت اٹھانی پڑی کہ مصیبت کے وقت ان کے بت کچھ کام نہ آئے آخر اللہ کے رسول کی دعا سے مینہ برسا اسی واسطے فرمایا کہ عزت کا دینا اور ذلت سے بچانا اللہ کے ہاتھ ہے ان تبوں کے اختیار میں نہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(35:9) فتثیر۔ ف تعقیب کا ہے۔ تثیر مضارع واحد مؤنث غائب، حکایت حال ماضی کے لئے استعمال ہوا ہے (حکایۃ الحال الماضیۃ کسی گذشتہ فعل کو واضح طور پر بیان کرنے کے لئے فعل ماضی کی بجائے فعل مضارع استعمال کرنا) ۔ یہ مادہ ثور سے مشتق ہے۔ اثارۃ مصدر جس کے معنی ابھارنے ۔ برانگیختہ کرنے کے ہیں۔ چونکہ زمین کو ... جوتنے اور ہوائوں کے بادلوں کے اوپر اٹھانے میں اور لانے اور لے جانے میں یہ معنی موجود ہیں اس لئے تثیر کے معنی وہ بادلوں کو اوپر اٹھاتی ہے (یہاں الریاح کے لئے یہ صیغہ واحد مؤنث غائب استعمال ہوا ہے۔ یعنی یہ ہوائیں بادلوں کو اوپر اٹھاتی ہیں) ۔ زمین کے جوتنے کے معنی میں اور جگہ قرآن مجید میں ہے انھا بقرۃ لا ذلول تثیر الارض ولا تسقی الحرث (2:71) وہ گائے جو محنت کرنے والی نہ ہو جو نہ زمین کو جوتتی ہو اور نہ کھیتی کو پانی دیتی ہو۔ بادلوں کو اوپر اٹھانے کے ہم معنی غبار کو اوپر اٹھانے کے لئے اس کا استعمال قرآن مجید میں ہے فالمغیرات سبحا فاثرن بہ نقعا (100:4) پھر صبح کو چھاپہ مارتے ہیں پھر اس میں غبار اڑاتے ہیں۔ علامہ ثنا اللہ پانی پتی (رح) لکھتے ہیں۔ فتثیر سحابا۔ یہ گذشتہ حال کی حکایت ہے تاکہ وہ ندرت آگئیں صورت جو اللہ تعالیٰ کی حکمت پر دلالت کرتی ہے دماغوں میں مستحضر وجائے۔ سحابا۔ اسم جنس ہے اس کا واحد سحابۃ آیا ہے ویسے سحاب جمع مذکر وجمع مؤنث اور واحد سب کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ فسقنہ میں ف تعقیب کے لئے ہے سقنا ماضی جمع متکلم سوق مصدر (باب نصر ) ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب کا مرجع سحاب ہے۔ ہم اس کو ہانک لے گئے۔ پھر ہم ان بادلوں کو ہانک لے گئے۔ اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے ونسوق المجرمین الی جہنم وردا (19:86) اور مجرموں کو پیاسا ہم دوزخ کی طرف ہانکیں گے۔ بلد میت۔ موصوف وصفت۔ بلد بمعنی شہر۔ یہاں کوئی بھی قطعہ زمین مراد ہے میت مردہ ، مراد بغیر کسی نباتات، بےآب وگیاہ احیینا بہ الارض۔ احیینا ماضی جمع متکلم احیاء (افعال) مصدر۔ ہم نے زندہ کیا۔ بہ میں ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع سحاب ہے ہم اس سے زمین کو زندہ کردیتے ہیں۔ یعنی بادلوں میں سے جو بارش کی صورت میں پانی زمین پر آتا ہے اس کے ذریعہ خشک و بےآب وگیاہ زمین کو دوبارہ سرسبز کردیتے ہیں۔ النشور۔ مصدر مرفوع ۔ معرفہ۔ باب نصر۔ جی اٹھنا۔ یعنی جزاوسزا کے لئے دوبارہ زندہ ہو کر اٹھ کھڑا ہونا۔ مراد یہاں قبروں سے قیامت کے روز اٹھایا جاتا ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 یعنی ایسے شہر کی طرف جس کی زمین مردہ پڑی ہے اور وہاں کوئی سزہ اور پیداوار نہیں ہوتی۔12 اس میں طرح طرح کی سبزیاں، غلے اور پھل پیدا ہوتے ہیں گویا اس میں جان پڑجاتی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ وجہ تشبیہ ظاہر ہے کہ دونوں میں ایک صفت زائلہ کا احداث ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : برے اعمال پر خوش ہونے والے لوگ در حقیقت آخرت کو بھول جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ان کے مرنے کے بعد جی اٹھنے کا ثبوت بارش کے حوالے سے دیا اور سمجھایا گیا ہے۔ دنیا میں بیشمار ایسے لوگ ہیں جو اعتقاداً یا عملاً آخرت کے منکر ہوتے ہیں۔ اعتقادی طور پر آخرت کا انکار کرنے والے یہ سمجھتے ہی... ں کہ جب انسان مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائے گا تو پھر اسے کس طرح زندہ کیا جائے گا۔ ایسے لوگوں کو سمجھایا جارہا ہے کہ سوچو اور دیکھو ! کہ جب بارش کا نام و نشان نہیں ہوتا اور لوگ بارش کی ایک ایک بوند کو ترس رہے ہوتے ہیں فصلیں ویران اور جڑی بوٹیاں گل سڑ جاتی ہیں۔ جس سے نہ صرف صحراء اور بیاباں بھیانک منظر پیش کرتے ہیں بلکہ شہروں میں بسنے والے ہزاروں لوگ کئی قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ شہروں کی چہل پہل پر مردگی چھا جاتی ہے۔ ایسی صورت حال میں اللہ تعالیٰ ہوائیں چلاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے سینکڑوں میلوں سے بادلوں کو اٹھا کر ایسے مقامات پر بارش برساتی ہیں جہاں کی زمین مردہ ہوچکی ہوتی ہیں یعنی وہ چیز اگاتی۔ بارش کے بعد وہی مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے جہاں صحراء نظر آتا تھا وہاں ہریالی اور سبزہ دکھائی دیتا ہے۔ جو اللہ مردہ زمین سے نباتات پیدا کرتا ہے وہی قیامت کے دن اس زمین سے مردوں کو زندہ کرے گا۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا بَیْنَ النَّفْخَتَیْنِ اَرْبَعُوْنَ قَالُوْ یَا اَبَا ھُرَیْرۃَ اَرْبَعُوْنَ یَوْمًا قَالَ اَبَیْتُ قَالُوْا اَرْبَعُوْنَ شَھْرًا قَالَ اَبَیْتُ قَالُوْا اَرْبَعُوْنَ سَنَۃً قَالَ اَبَیْتُ ثُمَّ یُنْزِلُ اللّٰہُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَیُنْبَتُوْنَ کَمَآ یَنْبُتُ الْبَقْلُ قَالَ وَلَیْسَ مِنَ الْاِنْسَانِ شَیْءٌ لَا یَبْلٰی اِلَّاعَظْمًا وَاحِدًا وَّھُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ وَمِنْہُ یُرَکَّبُ الْخَلْقُ یَوْمَ الْقِیَا مَۃِ )[ متفق علیہ ] وَفِیْ رِوَایَۃٍ لِمُسْلِمِ قَالَ کُلُّ اِبْنِ اٰدَمَ یَاکُلُہٗ التُّرَاب الاَّ عَجْبَ الذَّنَبِ مِنْہُ خُلِقَ وَفِیْہِ یُرَکَّبُ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو صور پھونکنے کا عرصہ چالیس ہوگا۔ ابوہریرہ (رض) سے ان کے شاگردوں نے کہا چالیس دن ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں یہ نہیں کہتا انہوں نے استفسار کیا چالیس ماہ ہیں ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جواباً فرمایا میں یہ نہیں کہتا انہوں نے پھر پوچھا چالیس سال ہیں ؟ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں میں یہ بھی نہیں کہتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا۔ لوگ یوں اگیں گے جس طرح انگوری اگتی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، انسان کی دمچی کے علاوہ ہر چیز بو سیدہ ہوجائے گی۔ قیامت کے دن اسی سے تمام اعضاء کو جوڑا جائے گا۔ (بخاری و مسلم) مسلم کی ایک روایت میں ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انسان کے تمام اعضاء کو مٹی کھاجائے گی۔ لیکن دمچی کو نہیں کھائے گی انسان اس سے پیدا کیا جائے گا اور اسی سے جوڑا جائے گا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی ہواؤں کے ذریعے بادلوں کو چلاتا اور بارش برساتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ مردہ زمین کو بارش کے بعد زندہ کرتا ہے۔ ٣۔ قیامت کے دن اسی طرح ہی مردوں کو زندہ کیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کو دوبارہ پیدا کرے گا : ١۔ آپ فرما دیں کہ تم ضرور اٹھائے جاؤ گے۔ (التغابن : ٧) ٢۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اٹھائے گا تاکہ ان کے درمیان فیصلہ صادر فرمائے۔ (الانعام : ٦٠) ٣۔ تمام مردوں کو اللہ تعالیٰ اٹھائے گا پھر اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ (الانعام : ٣٦) ٤۔ قیامت کے دن ” اللہ “ ہی سب کو اٹھائے گا پھر ان کے اعمال کی انھیں خبر دے گا۔ (المجادلۃ : ٦ تا ١٨) ٥۔ یقیناً قیامت کے دن اللہ تمہیں جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں۔ (الانعام : ١٢) ٦۔ آپ فرما دیں تمہارے پہلے اور آخر والے سب کو ضرور اکٹھا کیا جائے گا۔ (الواقعۃ : ٤٧ تا ٥٠) ٧۔ پھر ہم تمہیں تمہاری موت کے بعد اٹھائیں گے۔ (البقرۃ : ٥٦) ٨۔ آپ فرما دیں اللہ ہی نے تخلیق کی ابتداء کی پھر دوبارہ پیدا کرے گا پھر تم کہاں بہک گئے ہو ؟ (یونس : ٣٤) ٩۔ ” اللہ “ ہی نے مخلوق کو پیدا کیا، پھر وہ اسے دوبارہ پیدا کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (الروم : ١١)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر 201 ایک نظر میں یہ تیسرا سبق دراصل پے در پے اسفار پر مشتمل ہے۔ یہ سفر انسانی خیال کو ، اس کائنات وسعتوں میں کرائے گئے ہیں اور قرآن نے ان اسفار میں انسان کو دلائل ایمان سے آگاہ کیا ہے۔ ان اسفار کے درمیان انسان کو جو مظاہر دکھائے گئے ہیں ، ان سے قرآن دعوت اسلامی پر دلائل وبراہین فراہم کرتا ... ہے۔ یہ اسفار اس مضمون کے بعد آئے ہیں کہ ہدایت و ضلالت کا اختیار صرف اللہ کو ہے اور جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت دی گئی تھی کہ آپ منہ موڑنے والوں کے رویہ کی کوئی پرواہ نہ کریں اور ان کا معاملہ اس اللہ کے سپرد کردیں جو ان کی تمام کارستانیوں سے باخبر ہے۔ اس سبق کا مضمون یہ ہے کہ اگر کوئی ایمان لانا چاہتا ہے تو یہ دیکھو دلائل ایمان اس کائنات میں جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔ جس کے اندر کوئی پیچیدگی نہیں ہے لیکن بہرحال اگر کوئی گمراہ ہونا ہی چاہے تو وہ اس حال میں گمراہ ہوگا کہ دلائل ایمان ہر طرف سے اس کا گھیرا ڈالے ہوئے ہوں گے۔ صرف ایک منظر پر غور کرو ، یہ زمین بالکل مردہ ہونے کے بعد سرسبز ہوجاتی اور زندہ و تابندہ ہوجاتی ہے۔ کیا اس میں اس بات کے لیے دلیل نہیں ہے کہ موت کے بعد اسی طرح لوگوں کو اٹھایا جائے گا۔ پھر انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا اور اسے اس کی موجودہ شکل میں ایک نہایت ہی برتر مخلوق بنایا گیا۔ یہ بھی ایک برہان ہے۔ پھر انسانی تخلیق کے مراحل میں سے ہر مرحلہ ایک حجت بے اور انسان اپنے تخلیقی مراحل میں نہایت ہی طے شدہ نقشے کے مطابق آہستہ آہستہ آگے بڑھتا ہے اور یہ نقشہ بھی کتاب مبین میں درج ہے اور ایک برہان ہے۔ پھر دو قسم کے پانی ایک ہی سمندر میں علیحدہ علیحدہ رہتے ہیں ۔ ایک میٹھا ہے دوسرا کھارا ہے۔ یہ بھی ایک حجت ہے۔ اور سمندروں کے اندر مزید اللہ کی نعمتیں ہیں اور ہر ایک چیز میں اللہ کی کبریائی ہے۔ پھر رات اور دن کا منظر جو ایک دوسرے کے اندر داخل ہوتے ہیں ، بڑھتے گھٹتے ہیں۔ یہ بھی ایک حجت ہے اور اس نظام کو جاری کرنے میں بھی ایک حجت ہے۔ شمس وقمر کو ایک نظام کے اندر مسخر کردیا جانا بھی ایک حجت اور دلیل ہے۔ یہ سب دلائل وبراہین اس کائنات کے اندر بکھرے ہوئے ہیں اور یہ اللہ ہے جو خالق ومالک ہے اور جو لوگ اللہ کے سوا دوسرے معبود سمجھے جاتے ہیں۔ وہ تو ایک گٹھلی کے برابر بھی تخلیق نہیں کرسکتے۔ جو نہ سنتے ہیں اور نہ جواب دیتے ہیں۔ وہ قیامت کے دن ان کی عبادت سے براءت کا اظہار کریں گے اور یہ فیصلہ دیں گے کہ یہ لوگ گمراہ تھے اور سچائی کے علاوہ جو کچھ بھی ہے ، گمراہی ہے۔ درس نمبر 201 تشریح آیات 9 ۔۔۔ تا۔۔۔ 14 واللہ الذی ارسل ۔۔۔۔۔۔ کذلک النشور (9) ” یہ منظر قرآن میں دلائل تکوینی کے بیان کے دوران بار بار آتا ہے۔ ہواؤں کا منظر ، بادلوں کا منظر ، سمندروں کا منظر۔ بادلوں کو ہواؤں کا چلانا ، سمندروں سے بخارات کا اٹھنا۔ گرم ہوائیں بخارات اٹھاتی ہیں۔ سرد ہوائیں ان کو کثیف کرکے بادل کی شکل دیتی ہیں۔ سمندروں سے یہ بخارات اور بادل پھر ہوا کی موجوں کی سمت میں شمال و جنوب اور مشرق و مغرب کی طرف چلتے ہیں جس طرف بھی اللہ کو ان کا چلانا منظور ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ منزل مقصود پر پہنچ کر برستے ہیں اور جہاں مردہ زمینوں پر بارش ہوتی ہے۔ وہاں زمین زندہ ہوجاتی ہے۔ فاحیینا بہ الارض بعد موتھا (35: 9) ” اور اس کے ذریعے سے اس زمین کو جلا اٹھاتے ہیں جو مری پڑی تھی “ یوں یہ معجزہ برپا ہوتا ہے لیکن تعجب کی بات ہے کہ لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور ہر لحظہ اس قسم کے معجزات دیکھتے ہوئے بھی انہیں قیامت میں لوگوں کا اٹھایا جانا مستبد نظر آتا ہے حالانکہ حشر و نشر تو ان کے ہاتھوں میں اس دنیا میں موجود ہے۔ کذلک النشور (35: 9) ” مرے ہوئے انسانوں کا جی اٹھنا بھی اسی طرح ہوگا “۔ یہی سادہ طریق استدلال ہے قرآن کا۔ اسی طرح آسانی سے یہ عمل ہوگا ، اللہ کے لیے اس میں کوئی دقت نہیں ہے۔ یہ منظر قرآن میں کائناتی دلائل کے بیان کے دوران بار بار دہرایا جاتا ہے۔ اس لیے کہ یہ منظر ایسا ہے جسے ہر شخص دیکھتا ہے اور اس کے انکار کا کوئی جواز انسان کے سامنے نہیں ہے۔ پھر یہ منظر انسان کو بےحد جھنجھوڑتا ہے بشرطیکہ انسان اسے دیکھیں ۔ اسے سمجھیں اس حال میں کہ ان کے دل زندہ ہوں اور جب بھی انسان اس منظر پر غور کرے تو یہ انسانی شعور پر چھا جاتا ہے۔ پھر یہ منظر ایک خوبصورت اور پسندیدہ منظر ہے۔ خصوصا صحرائی علاقوں میں جہاں انسان ریگستانوں میں جلتا رہتا ہے۔ اچانک جب سرسبز اور شاداب علاقہ آجاتا ہے تو انسان کی نگاہ گرویدہ ہوجاتی ہے ۔ حالانکہ کل جب بارش نہ ہوئی تھی تو یہی علاقہ چٹیل میدان اور خشک صحرا تھا۔ قرآن کریم کا یہ انداز ہے کہ وہ اپنے دلائل ایسے مناظر سے اخذ کرتا ہے جو انسان نے دیکھے ہوئے ہوں۔ جبکہ ان مناظر سے انسان روز گزرتے ہیں لیکن نہایت غفلت سے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ان مناظر پر انسان غور کرتا ہے تو اسے یہ منظر معجزات نظر آتے ہیں۔ اب روئے سخن مردہ زمین کے احیا کے موضوع سے ہٹ کر نفسیاتی شعور کے میدان میں آتا ہے۔ موضوع کی یہ تبدیلی بظاہر عجیب لگتی ہے یہ کہ عزت ، سربلندی ، قوت اور شوکت کا سرچشمہ کیا ہے ؟ اور عزت اور سربلندی کو مربوط کیا جاتا ہے۔ قول طیب اور قول صالح کے ساتھ ، کیونکہ قول صالح بھی اللہ کی طرف اٹھتا ہے اور عمل صالح بھی عزت اور رفعت پاتا ہے اور اس کے مقابلے میں قول خبیث اور عمل خبیث سرنگوں ہوکر ہلاکت اور تباہی کی طرف آتے ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ کی شان رزاقیت بیان فرمائی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہواؤں کو بھیجتا ہے یہ ہوائیں بادلوں کو ان کی جگہوں سے ہٹاتی ہیں، پھر ان بادلوں کو اللہ تعالیٰ مردہ یعنی خشک زمین کی طرف بھیج دیتا ہے وہ وہاں جاکر پانی برساتے ہیں جس سے خشک زمین زندہ ہوجاتی ہے، گھاس پھونس پیدا ہوتا ہے جو مو... یشیوں کے کام آتا ہے، انسان اپنی ضرورت کی پیداوار کے لیے زمین میں بیج ڈالے ہوئے ہوتے ہیں بارش ہونے سے کھیتیاں نکلتی ہیں اور بقدر ضرورت بلند ہوتی ہیں، چھوٹی بڑی بالیاں نکلتی ہیں جن میں دانے ہوتے ہیں، یہ دانے پکتے ہیں پھر کھیتی کاٹی جاتی ہے، بھوسہ اور دانہ الگ الگ کیا جاتا ہے، پھر دانوں کو پیس کر پکاتے ہیں اور کھاتے ہیں۔ آیت کے ختم پر جو (کَذٰلِکَ النُّشُوْرُ ) ہے اس میں ایک مزید فائدہ کی طرف اشارہ فرما دیا اور وہ یہ کہ جس طرح اللہ تعالیٰ مردہ زمین کو زندہ فرماتا ہے اسی طرح تم لوگ دوبارہ زندہ ہو کر قبروں میں سے نکلو گے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13:۔ واللہ الذی الخ : یہ چوتھی عقلی دلیل ہے ہواؤں کے دوش پر بادلوں کو اڑا کر ادہر سے ادہر لے جانا اور پھر ان سے مینہ برسا کر خشک اور ناکارہ زمین کو زرخیز بنانا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے اس لیے کارساز بھی وہی ہے۔ کذلک النشور : یہ جملہ معترضہ ہے برائے اثبات حشر و نشر۔ اللہ تعالیٰ جس طرح مردہ زمین کو با... ران رحمت سے زندہ کرلیتا ہے۔ اسی طرح وہ قیامت کے دن مردہ انسانوں کو بھی دوبارہ زندہ کرلے گا۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(9) اور اللہ تعالیٰ وہ قادر مطلق ہے جو ہوائوں کو بھیجتا ہے پھر وہ ہوائیں بادل کو اٹھاتی اور ابھارتی ہیں پھر ہم اس بادل کو کسی خشک اور مرے ہوئے قطعہ زمین کی طرف ہانک لے جاتے ہیں پھر ہم اس بادل یعنی اس کے پانی سے زمین کو اس کے مرے پیچھے زندہ کرتے ہیں۔ یعنی نباتات اگاتے ہیں اسی طرح لوگوں کا قیامت میں ج... ی اٹھنا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی مثل زندہ کرنے زمین خشک کے اٹھنا اموات کا ہوگا۔ قبروں سے کہا گیا ہے کہ زندہ کرے گا اللہ خلق کو ساتھ ایک پانی کے کہ بھیجے گا اس کو عرش کے نیچے سے کہ اس میں تاثیر منی کی ہوگی اگا دیگا اس سے اجساد خلق کے۔  Show more