Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 14

سورة يس

اِذۡ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡہِمُ اثۡنَیۡنِ فَکَذَّبُوۡہُمَا فَعَزَّزۡنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوۡۤا اِنَّاۤ اِلَیۡکُمۡ مُّرۡسَلُوۡنَ ﴿۱۴﴾

When We sent to them two but they denied them, so We strengthened them with a third, and they said, "Indeed, we are messengers to you."

جب ہم نے ان کے پاس دو کو بھیجا سو ان لوگوں نے ( اول ) دونوں کو جھٹلایا پھر ہم نے تیسرے سے تائید کی سو ان تینوں نے کہا کہ ہم تمہارے پاس بھیجے گئے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِذْ أَرْسَلْنَا إِلَيْهِمُ اثْنَيْنِ فَكَذَّبُوهُمَا ... When We sent to them two Messengers, they denied them both; means, they hastened to disbelieve in them. ... فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ ... so We reinforced them with a third, means, `We supported and strengthened them with a third Messenger.' Ibn Jurayj narrated from Wahb bin Sulayman, from Shu`ayb Al-Jaba'i, "The names of the first two Messengers were Sham`un and Yuhanna, and the name of the third was Bulus, and the city was Antioch (Antakiyah). ... فَقَالُوا ... and they said, means, to the people of that city, ... إِنَّا إِلَيْكُم مُّرْسَلُونَ Verily, we have been sent to you as Messengers. meaning, `from your Lord Who created you and Who commands you to worship Him Alone with no partners or associates.' This was the view of Abu Al-Aliyah. Qatadah bin Di`amah claimed that; they were messengers of the Messiah, peace be upon him, sent to the people of Antioch.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 یہ تین رسول کون تھے ؟ مفسرین نے ان کے مختلف نام بیان کئے ہیں، لیکن نام مستند ذریعے سے ثابت نہیں ہیں۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بھیجے ہوئے تھے، جو انہوں نے اللہ کے حکم سے ایک بستی میں تبلیغ و دعوت کے لئے بھیجے تھے۔ بستی کا نام انطاکیہ تھا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ١٦] قریش بھی رسول اللہ کو یہی کچھ کہتے تھے کہ تم بھی ہمارے ہی جیسے بشر ہو آخر تم میں ہم سے بڑھ کر وہ کون سی خوبی ہے جو اللہ نے تمہیں ہی نبوت کے لئے منتخب کیا اور یہ ایسا اعتراض ہے جو ہر نبی کے منکر اپنے اپنے نبی کے متعلق کرتے آئے تھے۔ گویا نبوت کے متعلق جاہلی تصور یہ ہے کہ جو بشر ہو وہ رسول نہیں ہوسکتا اور اس کے عین برعکس دوسرا جاہلی تصور یہ ہے کہ جو رسول ہو وہ بشر نہیں ہوسکتا۔ حالانکہ قرآن سب انبیاء کو بشر بھی ثابت کرتا ہے اور رسول بھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِذْ اَرْسَلْنَآ اِلَيْهِمُ اثْــنَيْنِ فَكَذَّبُوْهُمَا : یعنی ہم نے ان لوگوں کی طرف دو رسول بھیجے تو انھوں نے دونوں کو جھٹلا دیا، تو ہم نے انھیں تیسرے پیغمبر کے ساتھ قوت دی، تو ان سب نے حرف تاکید ”إِنَّ “ کے ساتھ انھیں کہا کہ یقیناً ہم تمہاری طرف بھیجے ہوئے ہیں۔ مفسر عبد الرحمن کیلانی (رض) لکھتے ہیں : ” یہ بستی کون سی تھی ؟ اس کے متعلق قرآن و حدیث میں کوئی صراحت نہیں۔ (بعض) مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد روم میں واقع شہر انطاکیہ ہے۔ پھر اس بات میں بھی اختلاف ہے کہ یہ رسول بلاواسطہ رسول تھے یا بالواسطہ رسول یا مبلغ تھے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ مبلغ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) ہی نے بھیجے تھے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں میں سے تھے۔ قرآن کے بیان سے سرسری طور پر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بلاواسطہ اللہ کے رسول تھے اور اگر یہی بات ہو تو ان کا زمانہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے کا زمانہ ہونا چاہیے، کیونکہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت تک کوئی نبی یا رسول مبعوث نہیں ہوا، اور بستی کے نام کی تعیین یا رسول کے بلاواسطہ یا بالواسطہ ہونے کی تعیین کوئی مقصود بالذات چیز بھی نہیں کہ اس کی تحقیق ضروری ہو، مقصود بالذات چیز تو کفار مکہ کو سمجھانا ہے۔ کیونکہ کفار مکہ اور ان بستی والوں کے حالات میں بہت سی باتوں میں مماثلت پائی جاتی تھی۔ “ یہ رسول عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے بھیجے ہوئے تھے۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ان پر وہی اعتراض کیا گیا جو اللہ کے دوسرے رسولوں پر کیا گیا کہ تم ہمارے جیسے بشر ہو۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں پر اس اعتراض کے بجائے وہ کوئی اور اعتراض کرتے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the next sentence of verse 13: إِذْ أَرْ‌سَلْنَا إِلَيْهِمُ اثْنَيْنِ فَكَذَّبُوهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوا إِنَّا إِلَيْكُم مُّرْ‌سَلُونَ (when the messengers came to it... - 13). The text has briefly mentioned the coming of messengers to the town. The number of the messengers sent has been identified in verse 14:إِذْ جَاءَهَا إِنَّا إِلَيْكُم مُّرْ‌سَلُونَ (when We sent to them two (apostles), and they rejected them both, so We supported them with a third one. So they said, |"We are sent to you|" ) This shows that three messengers were sent to the said town. First came two, the people of the town rejected them and refused to listen to them. Then Allah Ta’ ala strengthened them by sending the third messenger. After that, all three addressed the people of the town, telling them that they had been sent to guide them to the straight path. What does &messenger& mean? Who were these people? In the Qur&an, the word: رسول (rasul: messenger) and: مُرسل (mursal: sent) is generally used for a prophet or apostle of Allah. In this verse, Allah Ta’ ala has attributed their sending to Himself. This too indicates that they are prophets who have been sent to accomplish some mission. This is what Ibn Ishaq reports from Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) Ka&b Ahbar (رض) and Wahb Ibn Munabbih. According to the reports, these three elders mentioned as the ones sent to this town were the prophets of Allah. Their names as given in this narration are Sadiq, Saduq and Shalum, while in another narration, the name of the third appears as Sham` un. (Ibn Kathir) And it has been reported from Sayyidna Qatadah (رض) that the word: مُّرْ‌سَلُونَ (mursalun: sent ones) has not been used here in its technical sense, instead, it appears in the sense of a bearer of message, and the three elders who were sent to this town were no prophets themselves, rather, were from among the disciples of Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) and were sent for the guidance of this town under his order (Ibn Kathir). And since their sender, Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) was a messenger of Allah, therefore, in a way, his sending was indirectly the sending of Allah Ta’ ala. Hence, his sending has been attributed to Allah Ta’ ala. Out of the commentators, Ibn Kathir has opted for the first saying while al-Qurtubi and others have gone by the second. From the apparent sense of the text of the Qur&an too, it is generally gathered that these blessed souls were prophets of Allah. Allah knows best.

(آیت) اذ جاءھا المرسلون۔ اذ ارسلنا الیہم اثنین فکذبوھہما فعززنا بثالث فقالوا انا الیکم مرسلون۔ مذکورہ بستی میں تین رسول بھیجے گئے تھے، پہلے ان کا بیان اجمالی اذجاء انا الیکم مرسلون میں فرمایا۔ اس کے بعد اس کی یہ تفصیل دی گئی کہ پہلے دو رسول بھیجے گئے تھے، بستی والوں نے ان کو جھٹلایا اور ان کی بات نہ مانی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تائید وتقویت کے لئے ایک تیسرا رسول بھیج دیا۔ پھر ان تینوں رسولوں نے بستی والوں کو خطاب کیا انا الیکم مرسلون، یعنی ہم تمہاری ہدایت کے لئے بھیجے گئے ہیں۔ اس بستی میں جو رسول بھیجے گئے ان سے کیا مراد ہے اور وہ کون حضرات تھے : لفظ رسول اور مرسل قرآن کریم میں عام طور پر اللہ کے نبی پیغمبر کے لئے بولا جاتا ہے۔ اس آیت میں ان کے بھیجنے کو حق تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے، یہ بھی علامت اس کی ہے کہ اس سے مراد انبیاء مرسلین ہیں۔ ابن اسحاق نے حضرت ابن عباس کعب احبار اور وہب بن منبہ کی روایت یہی نقل کی ہے کہ یہ تینوں بزرگ جن کا اس قریہ میں بھیجنے کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے ان کے نام اس روایت میں صادق، صدوق اور شلوم مذکور ہیں، اور ایک روایت میں تیسرے کا نام شمعون آیا ہے۔ (ابن کثیر) اور حضرت قتادہ سے یہ منقول ہے کہ یہاں لفظ مرسلون اپنے اصلاحی معنی میں نہیں بلکہ قاصد کے معنی میں ہے اور یہ تین بزرگ جو اس قریہ کی طرف بھیجے گئے خود پیغمبر نہیں تھے، بلکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریین میں سے تھے۔ انہی کے حکم سے یہ اس قریہ کی ہدایت کے لئے بھیجے گئے تھے (ابن کثیر) اور چونکہ ان کے بھیجنے والے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے رسول تھے، ان کا بھیجنا بھی بالواسطہ اللہ تعالیٰ ہی کا بھیجنا تھا اس لئے آیت میں ان کے ارسال کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ مفسرین میں سے ابن کثیر نے پہلے قول کو اور قرطبی وغیرہ نے دوسرے کو اختیار کیا ہے، ظاہر قرآن سے بھی یہی سمجھا جاتا ہے کہ یہ حضرات اللہ کے نبی اور پیغمبر تھے۔ واللہ اعلم۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِذْ اَرْسَلْنَآ اِلَيْہِمُ اثْــنَيْنِ فَكَذَّبُوْہُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُـوْٓا اِنَّآ اِلَيْكُمْ مُّرْسَلُوْنَ۝ ١٤ ثنی( مثني) الثَّنْي والاثنان أصل لمتصرفات هذه الکلمة، ويقال ذلک باعتبار العدد، أو باعتبار التکرير الموجود فيه أو باعتبارهما معا، قال اللہ تعالی: ثانِيَ اثْنَيْنِ [ التوبة/ 40] ، اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة/ 60] ، وقال : مَثْنى وَثُلاثَ وَرُباعَ [ النساء/ 3] فيقال : ثَنَّيْتُهُ تَثْنِيَة : كنت له ثانیا، أو أخذت نصف ماله، أو ضممت إليه ما صار به اثنین . والثِّنَى: ما يعاد مرتین، قال عليه السلام :«لا ثِنى في الصّدقة» أي : لا تؤخذ في السنة مرتین . قال الشاعر : لقد کانت ملامتها ثنی وامرأة ثِنْيٌ: ولدت اثنین، والولد يقال له : ثِنْيٌ ، وحلف يمينا فيها ثُنْيَا وثَنْوَى وثَنِيَّة ومَثْنَوِيَّة ويقال للاوي الشیء : قد ثَناه، نحو قوله تعالی: أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ [هود/ 5] ، وقراءة ابن عباس : (يَثْنَوْنَى صدورهم) من : اثْنَوْنَيْتُ ، وقوله عزّ وجلّ : ثانِيَ عِطْفِهِ [ الحج/ 9] ، وذلک عبارة عن التّنكّر والإعراض، نحو : لوی شدقه، وَنَأى بِجانِبِهِ [ الإسراء/ 83] . ( ث ن ی ) الثنی والاثنان ۔ یہ دونوں ان تمام کلمات کی اصل ہیں جو اس مادہ سے بنتے ہیں یہ کبھی معنی عدد کے اعتبار سے استعمال ہوتے ہیں اور کبھی تکرار معنی کے لحاظ سے جو ان کے اصل مادہ میں پایا جاتا ہے اور کبھی ان میں عدد و تکرار دونوں ملحوظ ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ ثانِيَ اثْنَيْنِ [ التوبة/ 40] دو میں دوسرا ۔ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة/ 60] بارہ چشمے ۔ مَثْنى وَثُلاثَ وَرُباعَ [ النساء/ 3] دو دو یا تین تین یا چار چار ۔ کہا جاتا ہے ثنیتہ تثنیۃ میں دوسرا تھا میں نے اسکا نصف مال لے گیا ایک چیز کے ساتھ دوسری چیز کو ملا کر دو کردینا ۔ الثنی ۔ جس کا دو مرتبہ اعارہ ہو حدیث میں ہے ۔ (56) ۔ لاثنی فی الصدقہ ۔۔ یعنی صدقہ سال میں دو مرتبہ نہ لیا جائے ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (82) لقد کان ملا متھا ثنی ، ، بیشک اس نے بار بار ملامت کی ۔ امرٰۃ ثنی جس عورت نے دو بچے جنے ہوں اس دوسرے بچہ کو ثنی کہا جاتا ہے ۔ حلف یمینا فیھا ثنی و ثنویٰ وثنیۃ ومثنویۃ اس نے استثناء کے ساتھ قسم اٹھائی ۔ ثنا ( ض) ثنیا ۔ الشئی کسی چیز کو موڑنا دوسرا کرنا لپیٹنا قرآن میں ہے :۔ أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ [هود/ 5] دیکھو یہ اپنے سینوں کو دوہرا کرتے ہیں ۔ حضرت ابن عباس کی قرآت یثنونیٰ صدورھم ہے ۔ جو اثنونیت کا مضارع ہے اور آیت کریمہ :۔ ثانی عطفہ ثانِيَ عِطْفِهِ [ الحج/ 9] اور تکبر سے ) گردن موڑ لیتا ہے ۔ میں گردن موڑنے سے مراد اعراض کرنا ہے جیسا کہ لوٰی شدقہ ونای بجانبہ کا محاورہ ہے ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے عز العِزَّةُ : حالةٌ مانعة للإنسان من أن يغلب . من قولهم : أرضٌ عَزَازٌ. أي : صُلْبةٌ. قال تعالی: أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء/ 139] ( ع ز ز ) العزۃ اس حالت کو کہتے ہیں جو انسان کو مغلوب ہونے سے محفوظ رکھے یہ ارض عزاز سے ماخوذ ہے جس کے معنی سخت زمین کے ہیں۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء/ 139] کیا یہ ان کے ہاں عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ عزت تو سب خدا ہی کی ہے ۔ ثلث الثَّلَاثَة والثَّلَاثُون، والثَّلَاث والثَّلَاثُمِائَة، وثَلَاثَة آلاف، والثُّلُثُ والثُّلُثَان . قال عزّ وجلّ : فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ [ النساء/ 11] ، أي : أحد أجزائه الثلاثة، والجمع أَثْلَاث، قال تعالی: وَواعَدْنا مُوسی ثَلاثِينَ لَيْلَةً [ الأعراف/ 142] ، وقال عزّ وجل : ما يَكُونُ مِنْ نَجْوى ثَلاثَةٍ إِلَّا هُوَ رابِعُهُمْ [ المجادلة/ 7] ، وقال تعالی: ثَلاثُ عَوْراتٍ لَكُمْ [ النور/ 58] ، أي : ثلاثة أوقات العورة، وقال عزّ وجلّ : وَلَبِثُوا فِي كَهْفِهِمْ ثَلاثَ مِائَةٍ سِنِينَ [ الكهف/ 25] ، وقال تعالی: بِثَلاثَةِ آلافٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُنْزَلِينَ [ آل عمران/ 124] ث ل ث ) الثلاثۃ ۔ تین ) مؤنث ) ثلاثون تیس ( مذکر ومؤنث) الثلثمائۃ تین سو ( مذکر ومؤنث ) ثلاثۃ الاف تین ہزار ) مذکر و مؤنث ) الثلث تہائی ) تثغیہ ثلثان اور جمع اثلاث قرآن میں ہے ؛۔ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ [ النساء/ 11] توا یک تہائی مال کا حصہ وواعدْنا مُوسی ثَلاثِينَ لَيْلَةً [ الأعراف/ 142] اور ہم نے موسیٰ سے تیس رات کو میعاد مقرر کی ۔ ما يَكُونُ مِنْ نَجْوى ثَلاثَةٍ إِلَّا هُوَ رابِعُهُمْ [ المجادلة/ 7] کسی جگہ ) تین ( شخصوں ) کا مجمع ) سر گوشی نہیں کرتا مگر وہ ان میں چوتھا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثَلاثُ عَوْراتٍ لَكُمْ [ النور/ 58]( یہ ) تین ( وقت ) تمہارے پردے ( کے ) ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ یہ تین اوقات ستر کے ہیں ۔ وَلَبِثُوا فِي كَهْفِهِمْ ثَلاثَ مِائَةٍ سِنِينَ [ الكهف/ 25] اور اصحاب کہف اپنے غار میں ( نواوپر ) تین سو سال رہے ۔ بِثَلاثَةِ آلافٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُنْزَلِينَ [ آل عمران/ 124] تین ہزار فرشتے نازل کرکے تمہیں مدد دے ۔ إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنى مِنْ ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَنِصْفَهُ [ المزمل/ 20] تمہارا پروردگار

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ { اِذْ اَرْسَلْنَآ اِلَیْہِمُ اثْنَیْنِ } ” جب ہم نے بھیجے ان کی طرف دو رسول “ اس بارے میں مفسرین کی عام رائے یہ ہے کہ وہ دو حضرات ” رسول من جانب اللہ “ نہیں تھے بلکہ کسی ” رسول کے رسول “ تھے۔ یعنی ممکن ہے کہ اللہ کی طرف سے وقت کے رسول کسی دوسرے مقام پر موجود ہوں اور انہوں نے اپنے دو شاگردوں کو کسی خاص بستی کی طرف دعوت کے لیے بھیجا ہو۔ اس بارے میں غالب رائے یہ ہے کہ وہ حضرات حضرت مسیح (علیہ السلام) کے حواری تھے جو آپ ( علیہ السلام) کے حکم سے ترکی اور شام کی سرحد پر واقع شہر انطاکیہ میں تبلیغ کے لیے آئے تھے۔ ” رسول کے رسول “ کی اصطلاح ہمیں احادیث میں بھی ملتی ہے۔ مثلاً حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ُ حدیبیہ کے مقام پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بیعت لی تو مدینہ واپسی پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواتین سے بھی بیعت لینے کا ارادہ ظاہر فرمایا اور اس کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر (علیہ السلام) کو خواتین کے پاس بھیجا۔ چناچہ حضرت عمر (علیہ السلام) نے خواتین کے مجمع میں آکر فرمایا : اَنَا رَسُولُ رَسُولِ اللّٰہِ (میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رسول ہوں) ۔ اسی طرح روایات میں آتا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص (علیہ السلام) نے ایرانیوں کے سامنے اپنا تعارف ان الفاظ میں کروایا تھا ” اِنَّا قَدْ اُرْسِلْنَا…“ یعنی ہمیں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا نمائندہ بنا کر تمہارے پاس بھیجا ہے۔ بہر حال یہاں یہ دونوں امکان موجود ہیں۔ یعنی یہ بھی ممکن ہے کہ کسی بستی میں اللہ نے ایک ساتھ دو رسول مبعوث فرمائے ہوں۔ جیسے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اکٹھے مبعوث فرمایا گیا تھا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ دو اصحاب کسی رسول کے نمائندے بن کر متعلقہ بستی میں گئے ہوں۔ { فَکَذَّبُوْہُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ } ” پس انہوں نے ان دونوں کو جھٹلادیا ‘ تو ہم نے (ان کو) تقویت دی ایک تیسرے کے ساتھ “ اس قوم کی طرف سے ان دونوں رسولوں کی تکذیب کے بعد ہم نے ان کی مدد کے لیے ایک تیسرا رسول بھی بھیجا۔ { فَقَالُوْٓا اِنَّآ اِلَیْکُمْ مُّرْسَلُوْنَ } ” تو انہوں نے کہا کہ ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36:14) فکذبوھما۔ فاء تعقیب کا ہے۔ کذبوا ماضی جمع مذکر غائب تکذیب (تفعیل) مصدر ھما ضمیر تثنیہ مذکر غائب، ضمیر کا مرجع اثنین ہے تو انہوں نے ان دونوں کی تکذیب کی ان کو جھٹلایا۔ فعززنا۔ ماضی جمع متکلم تعزیز (تفعیل) مصدر۔ ہم نے قوت دی۔ ہم نے مضبوط کیا۔ عززنا کے بعد مفعول محذوف ہے ای فعززنا ھما۔ ہم نے ان دوں کو تقویت دی۔ (ایک تیسرے رسول کے بھیجنے سے) ۔ فقالوا۔ میں ضمیر فاعل جمع مذکر غائب تینوں رسولوں کی طرف راجع ہے ۔ پس ان تینوں رسولوں نے کہا۔ انا الیکم مرسلون۔ بیشک ہم تمہاری بھیجے گئے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 2 ۔ آیات 14 تا 21: اسرار و معارف : آپ ان لوگوں کو اس شہر کے باسیوں کی مثال دیجیے جن کے پاس اسی طرح انبیاء آئے تھے جیسے آپ ان کے پاس تشریف لائے ہیں بلکہ ہم نے وہاں بیک وقت دو نبی مبعوث فرمائے کہ انہیں بات خوب طرح سے سمجھائیں شاید ایک حکمت یہ بھی ہو دین حق میں جب لوگوں کو اپنے اوہام باطلہ اور خواہشات نفس کی مخالفت نظر آئے تو اکثر غور و فکر کی بجائے مخالفت کرتے ہیں اور داعی یا مبلغ کو پاگل اور دیوانہ قرار دیتے ہیں مگر کوئی دو پاگل بھی ایک بات پہ متحد نہیں ہوسکتے اور نہ یہ ممکن ہے کہ ان کا سارا کردار تو انتہائی پاکیزہ ہو اور عقیدہ کے معاملے میں دونوں پاگل ہوں۔ لوگوں نے ان کی بات ماننے سے انکار کردیا بلکہ انہیں یہ کہہ دیا کہ آپ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں۔ اس پر اللہ کی شان کریمی کہ ایک اور نبی بھیج دیا تاکہ ان دونوں کی بات کی تائید کرے اور لوگوں کو سمجھانے میں معاون ہو چناچہ اس نے بھی جا کر دعوت دی اور کہا کہ ہم سب اللہ کی طرف سے تمہاری طرف مبعوث ہوئے ہیں تو لوگوں نے کہا کہ ہمیں تو تم لوگوں میں کوئی ایسی خاص بات نظر نہیں آتی بلکہ تم لوگ بھی ہماری ہی طرح بشر ہو۔ یہ عجیب بات ہے کہ کسی نے نبی کو بشر مان کر اس کی نبوت کا انکار کردیا تو کسی کو نبوت ماننے کی توفیق ہوئی تو نبی کے بشر ہونے سے انکار کردیا حق یہ ہے کہ انبیاء آدم (علیہ السلام) کی اولاد اور بشر ہی ہوتے ہیں مگر ہماری طرح بشر نہیں بلکہ ان کے قلوب ان کے وجود مھبط وحی ہوتے ہیں غیر نبی کی بشریت نبی کی بشریت کی مثل نہیں ہوسکتی ان کی بشریت بھی غیر نبی کی روحانیت تک سے لطیف تر ہوتی ہے نیز کہنے لگے کہ اللہ کے رحمن ہونے کی بات الگ مگر اس نے کچھ نازل نہیں فرمایا یہ سب آپ لوگوں نے گھڑ لیا ہے تو ان کا اللہ کو رحمن ماننا بھی مذاق تھا جب انبیاء کی نبوت کا انکار کردیا اس طرح تو مجبورا ہر باطل فرقے کو بھی بالآخر ایک سب سے بڑی طاقت ماننا ہی پڑتی ہے انبیاء نے فرمایا کہ دلائل عقلی اور نقلی تمہارے سامنے ہیں اس کے بعد اللہ ہی کی شہادت ہے ہم اس کی قسم بھی دیتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں تمہارے پاس مبعوث فرمایا ہے اور یہ بھی سن لو ہماری ذمہ داری بات کا پہنچانا تھا ماننے یہ نہ ماننے کا اختیار تمہارے پاس ہے اور نتیجہ بھی تم لوگ ہی بھگتو گے۔ لوگ برائی کو فساد نہیں کہتے بلکہ برائی سے روکنے کو فساد کہتے ہیں : تو لوگوں نے کہا کہ تم لوگ نبوت کے دعوے کرتے ہو حالانکہ تم سے پہلے یہاں کا ماحول پر امن تھا تم لوگ آئے نئی باتیں ہوئیں لوگ مختلف آراء ہوگئے اختلافات بڑھ گئے ہم تو سمجھتے ہیں کہ یہ سب تم لوگوں کی نحوست ہے تم لوگ تو بھلے آدمی بھی نہیں ہو اور اگر تم اپنی باتوں سے باز نہ آئے تو ہم تمہیں سنگسار کردیں گے نہ صرف یہ بلکہ پہلے خوب ایذا دیں گے اور سخت سزاؤں کے بعد پھر پتھر مار مار کر قتل کردیں گے۔ انبیاء نے جواب دیا کہ بھلا برائی اور کفر پر کبھی اتحاد ہوا کرتا ہے یہ تو اجتماعی خود کشی کی طرح ہے کہ آخر کار سب کی تباہی کا باعث بنتی ہے اور حق کی طرف بلانا تو اس مصیبت سے بچانے کے لیے ہے۔ ہاں دعوت حق کی مخالفت کرنے والا فسادی ہوتا ہے جو تم کر رہے ہو اور کفر پہ جم رہنا ہی سب سے بڑی منحوس بات ہے جو تم نے اختیار کر رکھی ہے اور اس میں اس قدر ڈوب گئے ہو کہ اتنی سی بات پر بھڑک اٹھے ہو اور اس قدر زیادتی کرنا چاہتے ہو حالانکہ تمہاری ہی بھلائی کے لیے تمہیں نصیحت کی گئی ہے۔ اسی شہر کے دوسرے سرے سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا جو ایمان قبول کرچکا تھا اور قوم کو انبیاء سے جھگڑا کرنے کی خبر پا کر بھاگا آیا اور سب سے کہا اے میری قوم میں تو تمہارے ہی میں سے ایک ہوں مجھ پر اعتماد کرو تمہاری بھلائی اللہ کے رسولوں کی اطاعت میں اور ان کی اطاعت قبول کرلو۔ دیکھو انہیں تم سے لالچ ہے نہ تم سے کوئی مطالبہ اور بات جو کہتے ہیں وہ بھی حق ہے تو بھلا نہ ماننے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔ (پارہ تئیس شروع ہوتا ہے)

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ اذ ارسلنا الخ : پہلے ہم نے ان کے پاس دو پیغمبر بھیجے۔ بستی والوں نے ان کو جھٹلا دیا۔ تو ہم نے ان کی تائید اور تقویت کے لیے مزید ایک پیغمبر بھیجدیا۔ تب تینوں نے ان سے کہا ہم اللہ کے رسول ہیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں تمہارے پاس بھیجا۔ قالو ما انتم الخ، بستی والوں نے جواب میں کہا تم تو ہماری طرح بشر ہو اور بشر پیغمبر نہیں ہوسکتا اس لیے تم نہ پیغمبر ہو نہ اللہ نے تم پر وحی نازل کی ہے اور تم دعوی رسالت میں جھوٹے ہو۔ مشرکین ہمیشہ اس دھوکے میں رہے ہیں کہ پیغمبر فرشتہ ہونا چاہئے نہ کہ بشر وانما الرسول ملک وھذا شبہۃ اکثر الکفرۃ ان الرسول لا بد ان یکون ملکا (جامع ص 378) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(14) جبکہ ہم نے پہلے ان گائوں والوں کی طرف دو پیغمبروں کو بھیجا تو ان گائوں والوں نے ان دونوں پیغمبروں کی تکذیب کی اور ان کو جھٹلا دیا پھر ہم نے تیسرے پیغمبر سے ان دونوں کو تقویت دی اور ان دونوں کی تائید کی پھر ان تینوں پیغمبروں نے ان گائوں والوں سے کہا کہ ہم تمہاری طرف پیغمبر بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک یہ دونوں پیغمبر صادق اور صدوق تھے اور یہ دونوں حضرات عیسیٰ (علیہ السلام) کے وصی تھے جن کو انطاکیہ والوں کے پاس بھیجا تھا چونکہ یہ انطاکیہ والے بت پرست تھے۔ اس لئے ان کی اصلاح کے لئے بھیجا تھا۔ پھر جب ان دونوں صادق و صدوق کی گائوں والوں نے تکذیب کی تو پھر تیسرے صاحب جن کا نام شمعون بتایا جاتا ہے ان کو ان دونوں کی تائید کے لئے روانہ کیا لیکن بعض مفسرین کے نزدیک یہ گائوں انطاکیہ نہیں ہے بلکہ کوئی مبہم قریہ ہے اور یہ بھی صحیح نہیں کہ دونوں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے وصی تھے بلکہ ہوسکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ سے قبل یہ لوگ گئے ہوں اور یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے متبعین انبیاء میں سے ہوں۔ بہرحال یہ لوگ ان گائوں والوں کی اصلاح اور توحید کا پیغام لے کر پہنچے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہ شہر تھا انطاکیہ حضرت عیسیٰ کے دو یار وہاں پہنچے شہر والوں نے ٹال دیئے پھر تیسرے یار بھی پہنچے یہ تیسرے یار بڑے تھے۔