Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 2

سورة يس

وَ الۡقُرۡاٰنِ الۡحَکِیۡمِ ۙ﴿۲﴾

By the wise Qur'an.

قسم ہے قرآن با حکمت کی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

By the Qur'an, full of wisdom, means, Al-Muhkam (perfect) which falsehood cannot come to from before it or behind it.

صراط مستقیم کی وضاحت ۔ حروف مقطعات جو سورتوں کے شروع میں ہوتے ہیں جیسے یہاں یاسین ہے ان کا پورا بیان ہم سورہ بقرہ کی تفسیر کے شروع میں کر چکے ہیں لہذا اب یہاں اسے دہرانے کی ضرورت نہیں ۔ بعض لوگوں نے کہا کہ یٰسین سے مراد اے انسان ہے ۔ بعض کہتے ہیں حبشی زبان میں اے انسان کے معنی میں یہ لفظ ہے ۔ کوئی کہتا ہے یہ اللہ کا نام ہے ، پھر فرماتا ہے قسم ہے محکم اور مضبوط قرآن کی جس کے آس پاس بھی باطل پھٹک نہیں سکتا ، کہ بالیقین اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم آپ اللہ کے سچے رسول ہیں ، سچے اچھے مضبوط اور عمدہ سیدھے اور صاف دین پر آپ ہیں ، یہ راہ اللہ رحمٰن و رحیم صراط مستقیم کی ہے ، اسی کا اترا ہوا یہ دین ہے جو عزت والا اور مومنوں پر خاص مہربانی کرنے والا ہے ۔ جیسے فرمان ہے ( وَاِنَّكَ لَـــتَهْدِيْٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ 52؀ۙ ) 42- الشورى:52 ) ، تو یقیناً راہ راست کی رہبری کرتا ہے جو اس اللہ کی سیدھی راہ ہے جو آسمان و زمین کا مالک ہے اور جس کی طرف تمام امور کا انجام ہے ، تاکہ تو عربوں کو ڈرا دے جن کے بزرگ بھی آگاہی سے محروم تھے جو محض غافل ہیں ۔ ان کا تنہا ذکر کرنا اس لئے نہیں کہ دوسرے اس تنبیہہ سے الگ ہیں ۔ جیسے کہ بعض افراد کے ذکر سے عام کی نفی نہیں ہوتی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت عام تھی ساری دنیا کی طرف تھی اس کے دلائل وضاحت و تفصیل سے آیت ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا ١٥٨؁ ) 7- الاعراف:158 ) کی تفسیر میں بیان ہو چکے ہیں ، اکثر لوگوں پر اللہ کے عذابوں کا قول ثابت ہو چکا ہے ۔ انہیں تو ایمان نصیب نہیں ہونے کا وہ تو تجھے جھٹلاتے ہی رہیں گے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 یا قرآن محکم کی، جو نظم و معنی کے لحاظ سے محکم یعنی پختہ ہے۔ واؤ قسم کے لئے ہے۔ آگے جواب قسم ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٣] قرآن کا نزول ہی آپ کی رسالت کی سب سے بڑی دلیل ہے :۔ واؤ قسمیہ ہے اور قسم شہادت کے قائم مقام ہوا کرتی ہے۔ لعان کی صورت میں جو قسمیں اٹھائی جاتی ہیں تو وہ شہادتوں ہی کے قائم مقام ہوتی ہیں۔ ان تین مختصر سی آیات کا مطلب یہ ہے کہ یہ حکمتوں سے لبریز قرآن حکیم اس بات پر قوی شہادت ہے کہ (١) آپ فی الواقع اللہ کے رسول ہیں اور (٢) یہ کہ آپ سیدھی راہ پر گامزن ہیں اور وہ شہادت یہ ہے کہ آپ امی تھے۔ کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہ نہیں کیا تھا۔ لکھ پڑھ بھی نہیں سکتے تھے۔ نبوت سے پہلے آپ نے کبھی کوئی ایسا کلام یا اس سے ملتا جلتا کلام بھی پیش نہیں کیا تھا جس سے یہ شبہ ہوسکے کہ شاید یہ ملکہ اس کی فطرت میں موجود تھا۔ اور وہی ملکہ ترقی کرتا رہا حتیٰ کہ آپ ایسا کلام پیش کرنے پر قادر ہوگئے اور یہ سب باتیں کفار مکہ ذاتی طور پر جانتے تھے پھر چالیس سال کی عمر میں آپ کی زبان سے یک لخت ایسے کام کا جاری ہونا جس نے تمام فصحاء و بلغائے عرب کو اپنے مقابلہ میں گنگ بنادیا تھا اور بار بار کے چیلنج کے باوجود ایسا کلام پیش کرنے سے عاجز آگئے تھے تو اس سے صاف واضح تھا کہ یہ کلام آپ کا کلام نہیں ہوسکتا بلکہ کسی ایسی ہستی کا ہی ہوسکتا ہے جو مافوق الفطرت ہو۔ حکیم ہو اور خبیر ہو۔ گویا ایسے کلام کی تنزیل ہی بیک وقت کئی ایک امور پر قوی شہادت مہیا کرتی تھا۔ مثلاً یہ کہ (١) اللہ تعالیٰ کی ہستی موجود ہے اور یہ کلام اسی کا ہی ہوسکتا ہے۔ (٢) یہ کہ آپ بلاشبہ اس اللہ کے رسول ہیں اور (٣) ان دونوں باتوں سے لازمی نتیجہ یہ بھی نکلتا تھا کہ جو طرز زندگی آپ پیش فرما رہے ہیں۔ وہی انسانیت کے لئے سیدھی راہ ہوسکتی ہے۔ اس میں نہ افراط ہے اور نہ تفریط۔ (٤) یہ کہ قریش مکہ کے ہر قسم کے شکوک و شبہات لغو اور باطل ہیں۔ جیسے کبھی وہ کہتے تھے کہ اس نے یہ خود ہی گھڑ لیا ہے۔ کبھی کہتے تھے کہ اللہ پر جھوٹ باندھ رہا ہے۔ کبھی کہتے تھے کہ اسے کوئی دوسرا آدمی سکھا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالْقُرْاٰنِ الْحَكِيْمِ : قسم سے مقصود اس بات کا یقین دلانا ہوتا ہے جس کے لیے قسم اٹھائی جائے اور قسم اس بات کی دلیل ہوتی ہے جو اس قسم کے بعد اس کے جواب کے طور پر آرہی ہوتی ہے، پھر بعض اوقات جس کی قسم اٹھائی جائے اس کی عظمت ہی کو جواب قسم کی شہادت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، مثلاً اللہ کی قسم، اور بعض اوقات قسم کا مفہوم جواب قسم کی دلیل ہوتا ہے اور اس کے سچے ہونے کی شہادت دے رہا ہوتا ہے۔ ” الْحَكِيْمِ “ کا ایک معنی یہ ہے کہ یہ قرآن دانائی اور حکمت سے بھرپور ہے، اس کی کوئی بات نہ خطا ہے نہ عقل کے خلاف اور نہ کم تر درجہ کی، بلکہ ہر بات ہی کمال عقل و دانش پر مبنی ہے اور ایک معنی یہ ہے کہ یہ قرآن انتہائی محکم اور مضبوط ہے، اس کی آیات میں کوئی باہمی اختلاف نہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن حکیم کی قسم کھا کر تین باتیں فرمائیں، پہلی یہ کہ یقیناً تو رسولوں میں سے ہے، جنھیں ہماری طرف سے بھیجا گیا ہے، دوسری یہ کہ یقیناً تو سیدھے راستے پر ہے اور تیسری یہ کہ یہ عزیز و رحیم کا نازل کردہ ہے۔ قسم اور جواب قسم میں مناسبت بالکل واضح ہے کہ آپ کی رسالت اور دوسری دونوں باتوں کے لیے اور کوئی دلیل نہ بھی ہو تو یہ قرآن ہی ان کی دلیل کے لیے کافی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حکمت سے بھرپور اور ہر لحاظ سے محکم یہ قرآن اس بات کا شاہد ہے کہ یقیناً آپ اللہ کے رسول ہیں، بالکل سیدھے راستے پر ہیں اور یہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا ہوا ہے، جو عزیز بھی ہے اور رحیم بھی۔ کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اُمّی تھے، نہ لکھنا جانتے تھے نہ پڑھنا، نہ آپ نے کسی کی شاگردی اختیار کی تھی، نہ آپ نے نبوت سے پہلے کبھی کوئی ایسا یا اس سے ملتا جلتا کلام پیش کیا، جس سے شبہ ہو کہ کلام کا یہ ملکہ ترقی کرتا کرتا اس درجے تک پہنچ گیا۔ یہ سب باتیں کفار مکہ اچھی طرح جانتے تھے، کیونکہ وہ ذاتی طور پر آپ کو چالیس برس سے جانتے تھے، پھر چالیس برس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان پر یک لخت ایسے کلام کا جاری ہوجانا، جس نے عرب کے تمام فصیح و بلیغ لوگوں کو مقابلے سے عاجز کردیا اور گونگا بنادیا اور بار بار کے چیلنج کے باوجود وہ ایسا کلام پیش کرنے سے عاجز آگئے۔ اس سے یہ تین باتیں ثابت ہو رہی ہیں، ایک یہ کہ یہ عظیم الشّان حکیمانہ کلام آپ کا کلام نہیں بلکہ کسی اور کا کلام ہے جس نے آپ کو بھیجا ہے، دوسری یہ کہ وہ بھیجنے والا کوئی مخلوق نہیں بلکہ خود خالق کائنات ہے، جو عزیز و رحیم ہے، کیونکہ اگر یہ کسی اور کا کلام ہوتا تو وہ اس جیسا مزید بھی بنا کر پیش کردیتا، جب کہ پوری کائنات مل کر بھی اس جیسی ایک سورت پیش کرنے سے عاجز ہے اور تیسری یہ کہ جب آپ اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں تو یقیناً آپ جس راہ پر چل رہے ہیں وہ بالکل سیدھا راستہ ہے۔ اس میں قرآن کی عظمت و رفعت کا اظہار بھی ہے کہ اس کی قسم اٹھائی جا رہی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

ٓیت ١ { وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ } ” قسم ہے قرآن حکیم کی ! “ عربی زبان میں ” قسم “ سے گواہی مراد لی جاتی ہے۔ چناچہ اس آیت کا مفہوم یوں ہوگا کہ یہ حکمت بھرا قرآن گواہ ہے۔ اس قسم کا مقسم علیہ کیا ہے ؟ یعنی یہ قسم کس چیز پر کھائی جا رہی ہے ؟ اور یہ قرآن کس عظیم حقیقت پر گواہ ہے ؟ اس کا ذکر اگلی آیت میں ہے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :1 ابن عباس ، عکرمہ ، ضحاک ، حسن بصری اور سفیان بن عُیَیْنہ کا قول ہے کہ اس کے معنی ہیں اے انسان یا ‘’ اے شخص ۔ اور بعض مفسرین نے اسے یا سید‘ ‘کا مخفف بھی قرار دیا ہے ۔ اس تاویل کی رو سے ان الفاظ کے مخاطب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36:2) والقران الحکیم وائو قسم کے لئے ہے بعض نے یس کو قسم قرار دیا ہے اس صورت میں وائو عاطفہ ہوجائے گی القران الحکیم موصوف و صفت ہے۔ حکیم فعیل کے وزن پر صفت مشبہ کا صیغہ ہے یعنی بڑی حکمت والا۔ پراز حکمت۔ یا اس کا معنی محکم بھی ہوسکتا ہے یعنی ایسی محکم کتاب جو ندرت معانی اور عبارت کی تعجب انگیزی کے لحاظ سے محکم ہے یا ایسی محکم کہ باطل کسی گوشہ سے اس پر حملہ نہیں کرسکتا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی اس قرنٓن کی جو حکمت اور دانئی کی باتوں سے لبریز ہے یا جو اس قدر محکم ( پختہ) ہے کہ اس میں کوئی اختلاف اور تناقض نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بعد میں جو بات بیان کی جا رہی ہے اس کی صحبت پر قرآن حکیم شاہد ہے اور فی الواقع یہ قرآن معجزہ ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا گیا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن سورۃ فاطر کے آخری رکوع میں اہل مکہ کے ایک قول کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے قسمیں اٹھا اٹھا کر کہا کرتے تھے کہ جو نہی نبی آخرالزماں آئے گا تو ہم دوسروں سے بڑھ کر ہدایت پانے والے ہوں گے لیکن جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی نبوت کا اعلان کیا تو یہ لوگ تکبر کی بنا پر کفر و شرک میں اور ہی آگے بڑھ گئے اور پروپگنڈا کرنے لگے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صراط مستقیم سے بھٹک چکا ہے۔ سورة یٰس کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ آپ لوگوں کے سردار ہیں، انبیاء (علیہ السلام) کی جماعت میں شامل ہیں اور صراط مستقیم پر گامزن ہیں۔ اہل علم نے لفظ ” یٰسین “ کے دو معانی ذکر کیے ہیں۔ عربی کی ایک لغت کے مطابق یٰس کا معنٰی اے انسان ! اور دوسری لغت کے مطابق اس کا معنٰی ہے اے سردار۔ دونوں حوالوں اور اس سورت کے سیاق وسباق کے اعتبار سے یہ حقیقت بالکل آشکارا ہے کہ یٰس سے مراد سروردوعالم کی ذات اقدس ہے کیونکہ جنس کے اعتبار سے آپ انسان تھے اور مقام کے لحاظ سے تمام انسانوں بلکہ تمام انبیاء کے سردار ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سردار کے لقب سے پکارنے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ آپ کے مخالفوں کو معلوم ہو کہ جس شخصیت کی شان گھٹانے کے درپے ہو وہ تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس قدر صاحب شان اور علوّمرتبت کی حامل ہے کہ خالق کائنات اسے انسانوں کا سردار کہہ کر پکارتا ہے اس میں ایک طرف سرور دوعالم کے لیے تسلی کا پہلو پایا جاتا ہے اور دوسری طرف مخالفین کو یہ باور کرانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو کس شان سے نوازا ہے۔ آپ کی شان صرف سردار کے لقب کے ساتھ ہی خاص نہیں کیا گیا بلکہ خالق کائنات نے قرآن کریم کی قسم اٹھا کر آپ کو اطمینان بخشا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کا تعلق اور شمار ” اللہ “ کے رسولوں میں ہے۔ کفار آپ کے بارے میں جو چاہیں ہرزہ سرائی کریں لیکن آپ ہر حال میں سردار اور صراط مستقیم پر ہیں۔ قرآن مجید کی قسم اٹھانا : حضرت امام بخاری (رح) نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں ایک باب باندھا ہے (باب الْحَلِفِ بِعِزَّۃِ اللَّہِ وَصِفَاتِہِ وَکَلِمَاتِہٖ ) جس میں انہوں نے دو احادیث ذکر کی ہیں۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی قسم اٹھائی جاسکتی ہے کیونکہ قرآن مجید ” اللہ “ کا کلام اور اس کی صفت ہے اس لیے قرآن مجید کی قسم اٹھانا جائز ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان اور مقام : ” بیشک میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس طرح ہے جس نے ایک گھر بنایا پھر اس کو مزین کیا لیکن صرف ایک اینٹ کی جگہ باقی تھی۔ لوگ اس گھر کو دیکھتے اور اس ایک اینٹ کی جگہ خالی پا کر تعجب کا اظہار کرتے اور کہتے : یہ اینٹ کیوں نہیں لگائی گئی ؟ آپ نے فرمایا : میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں ہی خاتم النبیین ہوں۔ “ [ رواہ البخاری : باب خاتم النبیین ] (أَنَا سَیِّدُ وُلْدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا فَخْرَ وَبِیَدِيْ لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ وَمَا مِنْ نَبِيٍّ یَوْمَءِذٍ آدَمُ فَمَنْ سِوَاہُ إِلَّا تَحْتَ لِوَاءِيْ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْہُ الْأَرْضُ وَلَا فَخْرَ ) [ رواہ الترمذی : کتاب المناقب ] ” میں قیامت کے دن آدم کی ساری اولاد کا سردار ہوں گا مگر اس اعزاز پر فخر نہیں کرتا اور میرے ہاتھ میں حمد کا جھنڈا ہوگا اس پر میں اتراتا نہیں۔ قیامت کے دن آدم (علیہ السلام) سمیت تمام نبی میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے، میں قیامت کے دن سب سے پہلے اپنی قبر سے اٹھوں گا مگر اس پر کوئی فخر نہیں کرتا۔ “ مسائل ١۔ سرورِدوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوری کائنات کے سردار اور امام ہیں۔ ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صراط مستقیم کے داعی ہیں۔ ٣۔ قرآن مجید بڑی ہی پُر حکمت کتاب ہے۔ تفسیر بالقرآن سرورِدوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقام اور آپ کی شان : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پوری دنیا کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا۔ (الاعراف : ١٥٨) ٢۔ آپ کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا گیا۔ (الانبیاء : ١٠٧) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم النبیین ہیں۔ (الاحزاب : ٤٠) ٤۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں کے لیے رؤف، رحیم بنایا گیا ہے۔ (التوبۃ : ١٢٨) ٥۔ آپ کو پوری دنیا کے لیے داعی الی اللہ، بشیر اور نذیر بنا کر مبعوث کیا گیا ہے۔ (الاحزاب : ٤٥۔ ٤٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ والقراٰن۔ تا۔ واجر کریم، یہ تمہید مع ترغیب ہے اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت، قرآن کی عظمت اور مشرکین کے عناد و انکار کا ذکر کیا گیا ہے۔ انک لمن المرسلین، جواب قسم ہے اور علی صراط مستقیم خبر بعد خبر ہے۔ تنزیل العزیز الرحیم، یہ نزل مقدر کا مفعول مطلق ہے (مظہری، قرطبی) اور یہ جملہ القرآن سے حال واقع ہے یہ حکمت و دانش سے لبریز قرآن اس پر شاہد ہے کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں اور سیدھی راہ پر گامزن ہیں یہ قرآن خدائے عزیز و رحیم نے آپ پر نازل فرمایا ہے جو منکرین کو سزا دینے اور ماننے والوں پر رحمت کرنے والا ہے اس لیے ایسی عظیم الشان کتاب پر ضرور ایمان لانا چاہیے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(2) قسم ہے اس قرآن حکمت والے کی۔ بعض نے قرآن باحکمت کیا ہے اور بعض نے پختہ اور مضبوط کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس قرآن کے احکام حکمت سے لبریز ہیں یا یہ کہ اس کے دلائل نہایت محکم اور مضبوط ہیں جواب قسم آگے مذکور ہے۔