Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 3

سورة يس

اِنَّکَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ۙ﴿۳﴾

Indeed you, [O Muhammad], are from among the messengers,

کہ بیشک آپ پیغمبروں میں سے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّكَ ... Truly, you (means, O Muhammad), ... لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 مشرکین نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت میں شک کرتے تھے، اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا انکار کرتے اور کہتے تھے (وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَسْتَ مُرْسَلًا ۭ قُلْ كَفٰى باللّٰهِ شَهِيْدًۢا بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ ۙ وَمَنْ عِنْدَهٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ 43؀ ) 13 ۔ الرعد :43) ' تو تو پیغمبر ہی نہیں ' اللہ نے ان کے جواب میں قرآن حکیم کی قسم کھا کر کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پیغمبروں میں سے ہیں۔ اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شرف و فضل و اظہار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی رسول کی رسالت کے لئے قسم نہیں کھائی یہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امتیازات اور خصائص میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کے اثبات کے لئے قسم کھائی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ : اس کا یہ مطلب نہیں کہ معاذ اللہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے رسول ہونے میں کوئی شک تھا، بلکہ در اصل یہ ان کفار کی تردید ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صاف کہتے تھے کہ آپ اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے نہیں ہیں، بلکہ اپنی طرف سے گھڑ کر یہ کلام پیش کر رہے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَسْتَ مُرْسَلًا ۭ قُلْ كَفٰى باللّٰهِ شَهِيْدًۢا بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ ۙ وَمَنْ عِنْدَهٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ ) [ الرعد : ٤٣ ] ” اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، کہتے ہیں تو کسی طرح رسول نہیں ہے۔ کہہ دے میرے درمیان اور تمہارے درمیان اللہ کا فیگواہ ہے اور وہ شخص بھی جس کے پاس کتاب کا علم ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ۝ ٣ ۙ إِنَّ وأَنَ إِنَّ أَنَّ ينصبان الاسم ويرفعان الخبر، والفرق بينهما أنّ «إِنَّ» يكون ما بعده جملة مستقلة، و «أَنَّ» يكون ما بعده في حکم مفرد يقع موقع مرفوع ومنصوب ومجرور، نحو : أعجبني أَنَّك تخرج، وعلمت أَنَّكَ تخرج، وتعجّبت من أَنَّك تخرج . وإذا أدخل عليه «ما» يبطل عمله، ويقتضي إثبات الحکم للمذکور وصرفه عمّا عداه، نحو : إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ [ التوبة/ 28] تنبيها علی أنّ النجاسة التامة هي حاصلة للمختص بالشرک، وقوله عزّ وجل : إِنَّما حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ [ البقرة/ 173] أي : ما حرّم ذلك إلا تنبيها علی أنّ أعظم المحرمات من المطعومات في أصل الشرع هو هذه المذکورات . وأَنْ علی أربعة أوجه : الداخلة علی المعدومین من الفعل الماضي أو المستقبل، ويكون ما بعده في تقدیر مصدر، وينصب المستقبل نحو : أعجبني أن تخرج وأن خرجت . والمخفّفة من الثقیلة نحو : أعجبني أن زيدا منطلق . والمؤكّدة ل «لمّا» نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] . والمفسّرة لما يكون بمعنی القول، نحو : وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا [ ص/ 6] أي : قالوا : امشوا . وكذلك «إِنْ» علی أربعة أوجه : للشرط نحو : إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبادُكَ [ المائدة/ 118] ، والمخفّفة من الثقیلة ويلزمها اللام نحو : إِنْ كادَ لَيُضِلُّنا [ الفرقان/ 42] ، والنافية، وأكثر ما يجيء يتعقّبه «إلا» ، نحو : إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا [ الجاثية/ 32] ، إِنْ هذا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ [ المدثر/ 25] ، إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَراكَ بَعْضُ آلِهَتِنا بِسُوءٍ [هود/ 54] . والمؤكّدة ل «ما» النافية، نحو : ما إن يخرج زيد ( ان حرف ) ان وان ( حرف ) یہ دونوں اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں اور دونوں میں فرق یہ ہے کہ ان جملہ مستقل پر آتا ہے اور ان کا مابعد ایسے مفرد کے حکم میں ہوتا ہے جو اسم مرفوع ، منصوب اور مجرور کی جگہ پر واقع ہوتا ہے جیسے اعجبنی انک تخرج وعجبت انک تخرج اور تعجب من انک تخرج جب ان کے بعد ما ( کافہ ) آجائے تو یہ عمل نہیں کرتا اور کلمہ حصر کے معنی دیتا ہے ۔ فرمایا :۔ { إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ } ( سورة التوبة 28) ۔ مشرک تو پلید ہیں (9 ۔ 28) یعنی نجاست تامہ تو مشرکین کے ساتھ مختص ہے ۔ نیز فرمایا :۔ { إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ } ( سورة البقرة 173) اس نے تم امر ہوا جانور اور لہو حرام کردیا ہے (2 ۔ 173) یعنی مذکورہ اشیاء کے سوا اور کسی چیز کو حرام قرار نہیں دیا اس میں تنبیہ ہے کہ معلومات میں سے جو چیزیں اصول شریعت میں حرام ہیں ان میں سے یہ چیزیں سب سے بڑھ کر ہیں ۔ ( ان ) یہ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے (1) ان مصدریہ ۔ یہ ماضی اور مضارع دونوں پر داخل ہوتا ہے اور اس کا مابعد تاویل مصدر میں ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں یہ مضارع کو نصب دیتا ہے جیسے :۔ اعجبنی ان تخرج وان خرجت ۔ ان المخففہ من المثقلۃ یعنی وہ ان جو ثقیلہ سے خفیفہ کرلیا گیا ہو ( یہ کسی شے کی تحقیق اور ثبوت کے معنی دیتا ہے جیسے ۔ اعجبنی ان زید منطلق ان ( زائدہ ) جو لما کی توکید کے لئے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا { فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِيرُ } ( سورة يوسف 96) جب خوشخبری دینے والا آپہنچا (12 ۔ 92) ان مفسرہ ۔ یہ ہمیشہ اس فعل کے بعد آتا ہے جو قول کے معنیٰ پر مشتمل ہو ( خواہ وہ لفظا ہو یا معنی جیسے فرمایا :۔ { وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ } ( سورة ص 6) ان امشوا اور ان میں جو معزز تھے وہ چل کھڑے ہوئے ( اور بولے ) کہ چلو (38 ۔ 6) یہاں ان امشوا ، قالوا کے معنی کو متضمن ہے ان ان کی طرح یہ بھی چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ان شرطیہ جیسے فرمایا :۔ { إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ } ( سورة المائدة 118) اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں (5 ۔ 118) ان مخففہ جو ان ثقیلہ سے مخفف ہوتا ہے ( یہ تا کید کے معنی دیتا ہے اور ) اس کے بعد لام ( مفتوح ) کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا :۔ { إِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا } ( سورة الفرقان 42) ( تو ) یہ ضرور ہم کو بہکا دیتا ہے (25 ۔ 42) ان نافیہ اس کے بعداکثر الا آتا ہے جیسے فرمایا :۔ { إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا } ( سورة الجاثية 32) ۔۔ ،۔ ہم اس کو محض ظنی خیال کرتے ہیں (45 ۔ 32) { إِنْ هَذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ } ( سورة المدثر 25) (ٌپھر بولا) یہ ( خدا کا کلام ) نہیں بلکہ ) بشر کا کلام سے (74 ۔ 25) { إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ } ( سورة هود 54) ۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں آسیب پہنچا ( کر دیوانہ کر ) دیا ہے (11 ۔ 54) ان ( زائدہ ) جو ( ما) نافیہ کی تاکید کے لئے آتا ہے جیسے : مان یخرج زید ۔ زید باہر نہیں نکلے گا ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣ { اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ } ” کہ ( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) یقینا آپ رسولوں میں سے ہیں۔ “ گویا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا سب سے بڑا ” مُصدِّق “ (تصدیق کرنے والا) اور سب سے بڑا ثبوت قرآن حکیم ہے۔ اور قرآن حکیم ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سب سے بڑا معجزہ بھی ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم نکتہ یہ بھی نوٹ کرلیجیے کہ قرآن کی قسم اور بھی کئی سورتوں کے آغاز میں کھائی گئی ہے مگر وہاں قسم کے بعد مقسم علیہ کا ذکر نہیں ہے۔ مثلاً سورة صٓ کی پہلی آیت میں یوں فرمایا گیا : { صٓ وَالْقُرْاٰنِ ذِی الذِّکْرِ ۔ ‘ سورة الزخرف کے شروع میں یوں فرمایا گیا : { حٰمٓ۔ وَالْـکِتٰبِ الْمُبِیْنِ ۔ ‘ سورة ق کا آغاز یوں ہوتا ہے : { قٓقف وَالْقُرْاٰنِ الْمَجِیْدِ ۔۔ اب چونکہ سورة یٰـسٓ کی ان آیات میں قرآن کی قسم کے مقسم علیہ کا ذکر بھی ہے اس لیے قرآن کی جن قسموں کا مقسم علیہ مذکور نہیں ان کا مقسم علیہ بھی وہی قرار پائے گا جس کا یہاں ذکر ہوا ہے۔ چناچہ قرآن کے ان تمام مقامات پر جہاں قرآن کی قسم تو کھائی گئی ہے لیکن قسم کے بعد مقسم علیہ کا ذکر نہیں ہے ‘ وہاں ان تمام قسموں کے بعد اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ کا جملہ بطور مقسم علیہ محذوف (understood) مانا جائے گا۔ اس اعتبار سے سورة یٰـسٓ ایسی تمام سورتوں کے لیے ذروہ سنام (climax) کا درجہ رکھتی ہے جن کے آغاز میں قرآن کی قسم کا ذکر ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

2 To begin a discoursc like this does not mean that the Holy Prophet, God forbid, had some doubt about his Prophethood, and Allah had to say this in order to reassure him of it. But the reason is that the disbelieving Quraish at that time were most vehemently refusing to believe in his Prophethood; therefore. Allah at the very beginning of the discoursc has said: "You are indeed one of the Messengers," which implies that the people who deny your Prophethood, are misled and mistaken. To further confirm the same, an oath has been taken by the Qur'an, and the word "wise" has been used as an epithet of the Qur'an, which means this: "An obvious proof of your being a Prophet is this Qur'an, which is fill of wisdom, This itself testifies that the person who is presenting such wise revelations is most surely a Messenger of God. No man has the power to compose such revelations. The people who know Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) can never be involved in the misunderstanding that he is himself forging these discourses, or reciting them after having Iearnt them from another man." (For further explanation, see Yunus: 16-17, 37-39; Bani Isra'il: 88; AnNaml: 75; AI-Qasas: 44-46, 85-87; AI-'Ankabut: 49-51; Ar-Rum: 1-5 and the relevant E.N.'s).

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :2 اس طرح کلام کا آغاز کرنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ معاذ اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی نبوت میں کوئی شک تھا اور آپ کو یقین دلانے کے لیے اللہ تعالیٰ کو یہ بات فرمانے کی ضرورت پیش آئی ۔ بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت کفار قریش پوری شدت کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کر رہے تھے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے کسی تمہید کے بغیر تقریر کا آغاز ہی اس فقرے سے فرمایا کہ تم یقیناً رسولوں میں سے ہو یعنی وہ لوگ سخت غلط کار ہیں جو تمہاری نبوت کا انکار کرتے ہیں ۔ پھر اس بات پر قرآن کی قسم کھائی گئی ہے ، اور قرآن کی صفت میں لفظ حکیم استعمال کیا گیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے نبی ہونے کا کھلا ہوا ثبوت یہ قرآن ہے جو سراسر حکمت سے لبریز ہے ۔ یہ چیز خود شہادت دے رہی ہے کہ جو شخص ایسا حکیمانہ کلام پیش کر رہا ہے وہ یقیناً خدا کا رسول ہے ۔ کوئی انسان ایسا کلام تصنیف کر لینے پر قادر نہیں ہے ۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جو جانتے ہیں وہ ہرگز اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتے کہ یہ کلام آپ خود گھڑ گھڑ کر لا رہے ہیں ، یا کسی دوسرے انسان سے سیکھ سیکھ کر سنا رہے ہیں ۔ ( اس مضمون کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، صفحات 272 تا 274 ۔ 285 تا 286 ۔ 641 تا 643 جلد سوم ، صفحات 317 تا 318 ۔ 476 ۔ 602 ۔ 639 تا 642 ۔ 665 تا 670 ۔ 711 تا 713 ۔ 724 تا 728 ۔ 730 تا 732 )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36:3) انک لمن المرسلین۔ یہ جواب قسم ہے اور کفار کے اس اعتراض کے جواب میں جس کا ذکر اور جگہ قرآن مجید میں ہے ویقول الذین کفروا لست مرسلا۔ (13:43) اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ تم خدا کے رسول نہیں ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 اس کا یہ مطلب نہیں کہ معاذ اللہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے پیغمبر ہونے میں کوئی شک تھا، بلکہ اس سے مقصود ان کفار قریش کی تردید ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کرتے تھے ( لست مرسلا) تم اللہ کے بھیجے ہوئے نہیں ہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

انک لمن المرسلین۔۔۔۔ علی صراط مستقیم (36: 3 – 4) ” تم یقیناً رسولوں میں سے ہو ، سیدھے راستے پر ہو “۔ اللہ تعالیٰ کو قسم اٹھانے کی ضرورت کیا ہے ؟ لیکن قرآن اور حروف قرآن کی یہ قسم ، ان چیزوں کو جلالت شان عطا کرتی ہے جن کی قسم اٹھائی گئی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ کسی عظیم الشان اور اہم چیز کی قسم اٹھاتا ہے یہاں تک کہ اس چیز کی اہمیت ایک شاہد اور ثابت کنندہ کی ہوجاتی ہے۔ انک لمن المرسلین (36: 3) ” تم یقیناً رسولوں میں سے ہو “۔ جس انداز سے یہ آیت آئی ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے ہاں رسولوں کا بھیجنا اور انتخاب پہلے سے طے شدہ ہے۔ یہاں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خلیفہ بیان کی صورت میں بتایا جاتا ہے کہ آپ کا نام رسولوں کی فہرست میں ہے اور یہاں مکذبین اور منکرین کو خطاب کرنے کی بجائے رسول اللہ کو خطاب فرمایا جاتا ہے۔ اس میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ رسول اور منصب رسالت ، اس قدر بلند وبالا ہیں کہ جن پر کوئی کلام اور مباحثہ اور مجادلہ نہیں ہوسکتا۔ بس اللہ کی جانب سے رسول کو اطلاع دے دینا ہی مکمل ثبوت ہوتا ہے۔ انک لمن المرسلین۔۔۔۔۔۔ علی صراط مستقیم (36: 3- 4) ” تم یقیناً رسولوں میں سے ہو ، سیدھے راستے پر ہو “۔ رسولوں کے تعین اور تقرر کے بعد بتایا جاتا ہے کہ رسالت کی نوعیت کیا ہے ؟ یہ کہ وہ ایک سیدھا راستہ ہے۔ یہ رسالت تلوار کی دھار کی طرح سیدھی ہوتی ہے ۔ اس میں کوئی ٹیڑھ پن اور کوئی انحراف نہیں ہوتا۔ نہ اس میں کوئی پیچیدگی ہوتی ہے اور نہ کوئی لچک ہوتی ہے۔ یہ ایسی سچائی پر مشتمل ہوتی ہے جو بالکل واضح ہوتی ہے۔ اور اس میں کوئی التباس نہیں ہوتا۔ نہ وہ خواہشات نفاسیہ کی تابع ہے۔ اور نہ وہ مصلحتوں کی سمت میں قبلہ بدلتی ہے۔ جو شخص بھی اس سچائی کی تلاش کرے اور مخلص ہو ، یہ اسے مل جاتی ہے۔ یہ رسالت چونکہ سیدھا راستہ بتاتی ہے اس لیے اس میں نہ کوئی اشکال ہے ، نہ پیچیدگی ہے ، اور نہ کوئی چکر ہے۔ یہ مسائل کو مشکل نہیں بناتی۔ نہ لوگوں کو مشکلات میں ڈالتی ہے ، اس کے اندر جدلیاتی مسائل پر مکالمہ نہیں ہوتا۔ اور نہ فلسفیانہ تصورات میں الجھایا جاتا ہے۔ یہ سچائی کو نہایت ہی سادہ شکل میں پیش کرتی ہے۔ اور اس قدر سادہ شکل میں جس میں کوئی شبہ اور کوئی غلط مبحث نہیں ہوتا۔ اس قدر سادہ کہ اسے مزید تشریح کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ الفاظ کو جوڑ توڑ ، اور باتوں سے بات نکالنا اس میں پیش ہوتا ہے اور نہ پیچیدہ اور ذولیدہ افکار کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ اسی رسالت کے ساتھ موجودہ ہدایات اور ظاہری احکام پر عمل کرتے ہوئے زندگی بسر کی جاسکتی ہے۔ یہ امی اور عالم دونوں کے لیے ہدایت ہے۔ یہ دیہاتی اور شہری دونوں کے لیے ہدایت ہے۔ ہر شخص اور ہر طبقہ اس کے اندر اپنی ضرورت کی ہدایت پاتا ہے ۔ اور اس کے ساتھ اس کی زندگی کی اصلاح ہوجاتی ہے۔ اسکا نظام زندگی درست ہوجاتا ہے۔ زندگی کے طور طریقے درست ہوجاتے ہیں اور انسانوں کے باہم تعلقات نہایت ہی آسانی کے ساتھ سر انجام پاتے ہیں۔ پھر یہ رسالت اس کائنات کی فطرت اور اس کائنات کے اندر جاری وساری قانون الٰہی کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہے۔ انسان اور انسان کے ماحول میں پائے جانے والی اشیاء کے ساتھ بھی یہ رسالت ہم آہنگ ہے۔ یہ نہ دنیا کی اشیاء کے ساتھ متصادم ہے ، نہ انسان کو یہ رسالت حکم دیتی ہے کہ وہ فطرت کے ساتھ متصادم ہو۔ یہ اپنے منہاج پر درست استوار ہے۔ اور اس کائنات کے ساتھ متوازی ہے۔ یہ معاون ہے ، یہ ایک ایسا نظام دیتی ہے جو مکمل کائنات ہے۔ یہ رسالت اللہ تک پہنچنے کا صحیح راستہ بتاتی ہے ، اور اللہ تک پہنچاتی ہے۔ اس رسالت کے متبعین کو کبھی یہ خطرہ درپیش نہیں ہوتا کہ وہ راستہ بھلا دیں۔ نہ ان کی راہ میں کوئی ٹیڑھ آتی ہے جو اس وادی میں داخل ہوتا ہے۔ وہ اس کے نشیب و فراز سے ہوتا ہوا سیدھا رضائے الٰہی اور اپنے خالق عظیم تک جا پہنچتا ہے۔ اس رسالت نے یہ قرآن دیا پ ہے ۔ جو اس سیدھی راہ کا پورا نقشہ بناتا ہے اور ایک گائیڈ ہے۔ جب انسان اس کتاب کی راہنمائی میں چلے تو وہ سچائی کی سیدھی فکر پالیتا ہے۔ وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور پھر اس کی قدروں کے بارے میں یہ کتاب فیصلہ کن ہدایت دیتی ہے اور ہر چیز کو اس کی صحیح جگہ پر رکھ دیتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آپ اللہ کے رسول ہیں، قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے تاکہ آپ ان لوگوں کو تبلیغ کریں جن کے باپ دادوں کے پاس ڈرانے والے نہیں آئے لفظ یٰسٓ متشابہات میں سے ہے جس کا معنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، منکرین جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا انکار کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کی قسم کھا کر ان کی تردید فرمائی اور فرمایا (اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ) (بلاشبہ آپ پیغمبروں میں سے ہیں) اور مزید یہ فرمایا (عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْم) (کہ آپ سیدھے راستہ پر ہیں) آپ کے دشمن جو آپ کے بارے میں غلط باتیں کہتے ہیں اور آپ جس راہ پر ہیں یعنی توحید اور عبودیت للہ، اس سے جو مخاطبین بدکتے ہیں ان کا خیال نہ کیجیے اللہ تعالیٰ کی گواہی کافی ہے کہ آپ صراط مستقیم پر ہیں۔ جو لوگ آپ کی رسالت کے منکر تھے اور قرآن کریم کو بھی اللہ تعالیٰ کی کتاب نہیں مانتے تھے ان لوگوں کی تردید کرتے ہوئے فرمایا : (تَنْزِیْلَ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ ) اس میں مصدر مفعول مطلق ہے جو نَزَّل محذوف کی وجہ سے منصوب ہے، ارشاد فرمایا کہ یہ قرآن ایسی ذات پاک کی طرف سے اتارا گیا ہے جو زبردست ہے رحم فرمانے والا ہے۔ العزیز فرما کر یہ بتادیا کہ منکرین چین سے نہ بیٹھیں، نڈر نہ ہوں جس نے یہ قرآن نازل فرمایا ہے وہ باعزت ہے غلبہ والا ہے اور انکار پر سزا دینے پر پوری طرح قدرت رکھتا ہے، اور الرَّحِیْمِفرما کر یہ بتادیا کہ گرفت میں جو دیر لگ رہی ہے وہ اس کی شان رحمت کا مظاہرہ ہے اس دیر لگنے سے یہ نہ سمجھیں کہ عذاب میں مبتلا ہونا ہی نہیں ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) بیشک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیغمبروں میں سے ہیں۔