Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 37

سورة يس

وَ اٰیَۃٌ لَّہُمُ الَّیۡلُ ۚ ۖ نَسۡلَخُ مِنۡہُ النَّہَارَ فَاِذَا ہُمۡ مُّظۡلِمُوۡنَ ﴿ۙ۳۷﴾

And a sign for them is the night. We remove from it [the light of] day, so they are [left] in darkness.

اور ان کے لئے ایک نشانی رات ہے جس سے ہم دن کو کھینچ دیتے ہیں تو یکایک اندھیرے میں رہ جاتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Among the Signs of the Might and Power of Allah are the Night and Day, and the Sun and Moon Allah says: يُغْشِى الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا He brings the night as a cover over the day, seeking it rapidly. (7:54) Allah says here: وَايَةٌ لَّهُمْ اللَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ ... And a sign for them is the night. We withdraw therefrom the day, meaning, `We take it away from it, so it goes away and the night comes.' Allah says: ... فَإِذَا هُم مُّظْلِمُونَ and behold, they are in darkness. As it says in the Hadith: إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ مِنْ ههُنَا وَأَدْبَرَ النَّهَارُ مِنْ ههُنَا وَغَرَبَتِ الشَّمْسُ فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّايِم When the night comes from here, and the day departs from here, and the sun has set, then the fasting person should break his fast. This is the apparent meaning of the Ayah. Allah's saying: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ

گردش شمس و قمر ۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی ایک اور نشانی بیان ہو رہی ہے اور وہ دن رات ہیں جو اجالے اور اندھیرے والے ہیں اور برابر ایک دوسرے کے پیچھے جا رہے ہیں جیسے فرمایا ( يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهٗ حَثِيْثًا 54؀ ) 7- الاعراف:54 ) رات سے دن کو چھپاتا ہے اور رات دن کو جلدی جلدی ڈھونڈتی آتی ہے ۔ یہاں بھی فرمایا رات میں سے ہم دن کو کھینچ لیتے ہیں ، دن تو ختم ہوا اور رات آ گئی اور ہر طرف سے اندھیرا چھا گیا ۔ حدیث میں ہے جب ادھر سے رات آ جائے اور دن ادھر سے چلا جائے اور سورج غروب ہو جائے تو روزے دار افطار کر لے ۔ ظاہر آیت تو یہی ہے لیکن حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب مثل آیت ( يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُوْلِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ ۭ وَهُوَ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ Č۝ ) 57- الحديد:6 ) کے ہے یعنی اللہ تعایٰ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کر دیتا ہے ۔ حضرت امام ابن جریر اس قول کو ضعیف بتاتے ہیں اور فرماتے اس آیت میں جو لفظ ایلاج ہے اس کے معنی ایک کی کمی کر کے دوسری میں زیادتی کرنے کے ہیں اور یہ مراد اس آیت میں نہیں ، امام صاحب کا یہ قول حق ہے ۔ مستقر سے مراد یا تو مستقر مکانی یعنی جائے قرار ہے اور وہ عرش تلے کی وہ سمت ہے پس ایک سورج ہی نہیں بلکہ کل مخلوق عرش کے نیچے ہی ہے اس لئے کہ عرش ساری مخلوق کے اوپر ہے اور سب کو احاطہ کئے ہوئے ہے اور وہ کرہ نہیں ہے جیسے کہ ہئیت داں کہتے ہیں ۔ بلکہ وہ مثل قبے کے ہے جس کے پائے ہیں اور جسے فرشتے اٹھائے ہوئے ہیں انسانوں کے سروں کے اوپر اوپر والے عالم میں ہے ، پس جبکہ سورج فلکی قبے میں ٹھیک ظہر کے وقت ہوتا ہے اس وقت وہ عرش سے بہت قریب ہوتا ہے پھر جب وہ گھوم کر چوتھے فلک میں اسی مقام کے بالمقابل آ جاتا ہے یہ آدھی رات کا وقت ہوتا ہے جبکہ وہ عرش سے بہت دور ہو جاتا ہے پس وہ سجدہ کرتا ہے اور طلوع کی اجازت چاہتا ہے جیسا کہ احادیث میں ہے ۔ صحیح بخاری میں ہے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں سورج کے غروب ہونے کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد میں تھا تو آپ نے مجھ سے فرمایا جانتے ہو یہ سورج کہاں غروب ہوتا ہے؟ میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول ہی خوب جانتا ہے ، آپ نے فرمایا وہ عرش تلے جا کر اللہ کو سجدہ کرتا ہے پھر آپ نے آیت والشمس الخ ، تلاوت کی اور حدیث میں ہے کہ آپ سے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت کا مطلب پوچھا تو آپ نے فرمایا اس کی قرار گاہ عرش کے نیچے ہے ، مسند احمد میں اس سے پہلے کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے واپس لوٹنے کی اجازت طلب کرتا ہے اور اسے اجازت دی جاتی ہے ۔ گویا اس سے کہا جاتا ہے کہ جاں سے آیا تھا وہیں لوٹ جا تو وہ اپنے طلوع ہونے کی جگہ سے نکلتا ہے اور یہی اس کا مستقر ہے ، پھر آپ نے اس آیت کے ابتدائی فقرے کو پڑھا ۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے لیکن قبول نہ کیا جائے اور اجازت مانگے لیکن اجازت نہ دی جائے بلکہ کہاں جائے جہاں سے آیا ہے وہیں لوٹ جا پس وہ مغرب سے ہی طلوع ہوگا یہی معنی ہیں اس آیت کے ۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سورج طلوع ہوتا ہے اسے انسانوں کے گناہ لوٹا دیتے ہیں وہ غروب ہو کر سجدے میں پڑتا ہے اور اجازت طلب کرتا ہے ، ایک دن یہ غروب ہو کر بہ عاجزی سجدہ کرے گا اور اجازت مانگے گا لیکن اجازت نہ دی جائے گی وہ کہے گا کہ راہ دور ہے اور اجازت ملی نہیں تو پہنچ نہیں سکوں گا پھر کچھ دیر روک رکھنے کے بعد اس سے کہا جائے گا کہ جہاں سے غروب ہوا تھا وہیں سے طلوع ہو جا ۔ یہی قیامت کا دن ہو گا جس دن ایمان لانا محض بےسود ہو گا اور نیکیاں کرنا بھی ان کے لئے جو اس سے پہلے ایمان دار اور نیکو کار نہ تھے بیکار ہو گا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مستقر سے مراد اس کے چلنے کی انتہا ہے پوری بلندی جو گرمیوں میں ہوتی ہے اور پوری پستی جو جاڑوں میں ہوتی ہے ۔ پس یہ ایک قول ہوا ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ آیت کے اس لفظ مستقر سے مراد اس کی چال کا خاتمہ ہے قیامت کے دن اس کی حرکت باطل ہو جائے گی یہ بےنور ہو جائے گا اور یہ عالم کل کا کل ختم ہو جائے گا ۔ یہ مستقر زمانی ہے ۔ حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں وہ اپنے مستقر پر چلتا ہے یعنی اپنے وقت اور اپنی میعاد پر جس سے تجاوز کر نہیں سکتا جو اس کے راستے جاڑوں کے اور گرمیوں کے مقرر ہیں انہی راستوں سے آتا جاتا ہے ، ابن مسعود اور ابن عباسی رضی اللہ عنہم کی قرأت لامستقرلھا ہے یعنی اس کے لئے سکون و قرار نہیں بلکہ دن رات بحکم اللہ چلتا رہتا ہے نہ رکے نہ تھکے جیسے فرمایا ( وَسَخَّــرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَاۗىِٕـبَيْنِ ۚ وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ 33؀ۚ ) 14- ابراھیم:33 ) یعنی اس نے تمہارے لئے سورج چاند کو مسخر کیا ہے جو نہ تھکیں نہ ٹھہریں قیامت تک چلتے پھرتے ہی رہیں گے ۔ یہ اندازہ اس اللہ کا ہے جو غالب ہیں جس کی کوئی مخالفت نہیں کر سکتا جس کے حکم کو کوئی ٹال نہیں سکتا ، وہ علیم ہے ، ہر حرکت و سکون کو جانتا ہے ۔ اس نے اپنی حکمت کاملہ سے اس کی چال مقرر کی ہے جس میں نہ اختلاف واقع ہو سکے نہ اس کے برعکس ہو سکے جیسے فرمایا اس نے اپنی حکمت کاملہ سے اس کی چال مقرر کی ہے جس میں نہ اختلاف واقع ہو سکے نہ اس کے برعکس ہو سکے جیسے فرمایا ( فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ۚ وَجَعَلَ الَّيْلَ سَكَنًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْـبَانًا ۭذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ 96؀ ) 6- الانعام:96 ) صبح کا نکالنے والا جس نے رات کو راحت کا وقت بنایا اور سورج چاند کو حساب سے مقرر کیا ، یہ ہے اندازہ غالب ذی علم کا ۔ حم سجدہ کی آیت کو بھی اسی طرح ختم کیا ۔ پھر فرماتا ہے چاند کی ہم نے منزلیں مقرر کر دی ہیں وہ ایک جداگانہ چال چلتا ہے جس سے مہینے معلوم ہو جائیں جیسے سورج کی چال سے رات دن معلوم ہو جاتے ہیں ، جیسے فرمان ہے کہ لوگ تجھ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو جواب دے کہ وقت اور حج کے موسم کو بتانے کے لئے ہے اور آیت میں فرمایا اس نے سورج کو ضیاء اور چاند کو نور دیا ہے اور اس کی منزلیں ٹھہرا دی ہیں تاکہ تم سالوں کو اور حساب کو معلوم کر لو ۔ ایک آیت میں ہے ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنا دیا ہے ، رات کی نشانی کو ہم نے دھندلا کر دیا ہے اور دن کی نشانی کو روشن کیا ہے تاکہ تم اس میں اپنے رب کی نازل کردہ روزی کو تلاش کر سکو اور برسوں کا شمار اور حساب معلوم کر سکو ہم نے ہر چیز کو خوب تفصیل سے بیان کر دیا ہے ۔ پس سورج کی چمک دمک اس کے ساتھ مخصوص ہے اور چاند کی روشنی اسی میں ہے ۔ اس کی اور اس کی چال بھی مختلف ہے ۔ سورج ہر دن طلوع و غروب ہوتا ہے اسی روشنی کے ساتھ ہوتا ہے ہاں اس کے طلوع و غروب کی جگہیں جاڑے میں اور گرمی میں الگ الگ ہوتی ہیں ، اسی سبب سے دن رات کی طولانی میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے سورج دن کا ستارہ ہے اور چاند رات کا ستارہ ہے اس کی منزلیں مقرر ہیں ۔ مہینے کی پہلی رات طلوع ہوتا ہے بہت چھوٹا سا ہوتا ہے روشنی کم ہوتی ہے ، دوسری شب روشنی اس سے بڑھ جاتی ہے اور منزل بھی ترقی کرتی جاتی ہے ، پھر جوں جوں بلند ہوتا جاتا ہے روشنی بڑھتی جاتی ہے ، گو اس کی نورانیت سورج سے لی ہوئی ہوتی ہے آخر چودہویں رات کو چاند کامل ہو جاتا ہے اور اسی کی چاندنی بھی کمال کی ہو جاتی ہے ۔ پھر گھٹنا شروع ہوتا ہے اور اسی طرح درجہ بدرجہ بتدریج گھلتا ہوا مثل کھجور کے خوشے کی ٹہنی کے ہو جاتا ہے جس پر تر کھجوریں لٹکتی ہوں اور وہ خشک ہو کر بل کھا گئی ہو ۔ پھر اسے نئے سرے سے اللہ تعالیٰ دوسرے مہینے کی ابتداء میں ظاہر کرتا ہے ، عرب میں چاند کی روشنی کے اعتبار سے مہینے کی راتوں کے نام رکھ لئے گئے ہیں ، مثلاً پہلی تین راتوں کا نام غرر ہے ، اس کے بعد کی تین راتوں کا نام نفل ہے ، اس کے بعد کی تین راتوں کا نام تسع ہے ، اس لئے کہ ان کی آخری رات نویں ہوتی ہے ، اس کے بعد کی تین راتوں کا نام عشر ہے ، اس لئے کہ اس کا شروع دسویں سے ہے ، اس کے بعد کی تین راتوں کا نام بیض ہے ، اس لئے کہ ان راتوں میں چاندنی کی روشنی آخر تک رہا کرتی ہے ، اس کے بعد کی تین راتوں کا نام ان کے ہاں ورع ہے ، یہ لفظ ورعاء کی جمع ہے ، ان کا یہ نام اس لئے رکھا ہے کہ سولہویں کو چاند ذرا دیر سے طلوع ہوتا ہے تو تھوڑی دیر تک اندھیرا یعنی سیاہی رہتی ہے اور عرب میں اس بکری کو جس کا سر سیاہ ہو شاۃ درعاء کہتے ہیں ، اس کے بعد کی تین راتوں کو ظلم کہتے ہیں ، پھر تین کو ضاوس پھرتین کو دراری پھر تین کو محاق اس لئے کہ اس میں چاند ختم ہو جاتا ہے اور مہینہ بھی ختم ہو جاتا ہے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ان میں سے تسع اور عشر کو قبول نہیں کرتے ، ملاحظہ ہو کتاب غریب المصنف ۔ سورج چاند کی حدیں اس نے مقرر کی ہیں ناممکن ہے کہ کوئی اپنی حد سے ادھر ادھر ہو جائے یا آگے پیچھے ہو جائے ، اس کی باری کے وقت وہ گم ہے اس کی باری کے وقت یہ خاموش ہے ۔ حسن کہتے ہیں یہ چاند رات کو ہے ۔ ابن مبارک کا قول ہے ہوا کے پر ہیں اور چاند پانی کے غلاف تلے جگہ کرتا ہے ، ابو صالح فرماتے ہیں اس کی روشنی اس کی روشنی کو پکڑ نہیں سکتی ، عکرمہ فرماتے ہیں رات کو سورج طلوع نہیں ہو سکتا ۔ نہ رات دن سے سبقت کر سکتی ہے ، یعنی رات کے بعد ہی رات نہیں آ سکتی بلکہ درمیان میں دن آ جائے گا ، پس سورج کی سلطنت دن کو ہے اور چاند کی بادشاہت رات کو ہے ، رات ادھر سے جاتی ہے ادھر سے دن آتا ہے ایک دوسرے کے تعاقب میں ہیں ، لیکن نہ تصادم کا ڈر ہے نہ بےنظمی کا خطرہ ہے ، نہ یہ کہ دن ہی دن چلا جائے رات نہ آئے نہ اس کے خلاف ، ایک جاتا ہے دوسرا آتا ہے ، ہر ایک اپنے اپنے وقت پر غائب و حاضر ہوتا رہتا ہے ، سب کے سب یعنی سورج چاند دن رات فلک آسمان میں تیر رہے ہیں اور گھومتے پھرتے ہیں ۔ زید بن عاصم کا قول ہے کہ آسمان و زمین کے درمیان فلک میں یہ سب آ جا رہے ہیں ، لیکن یہ بہت غریب بلکہ منکر قول ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں فلک مثل چرخے کے تکلے کے ہے بعض کہتے ہیں مثل چکی کے لوہے کے پاٹ کے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 یعنی اللہ کی قدرت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ وہ دن کو رات سے الگ کردیتا ہے، جس سے فوراً اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ دن کو رات سے الگ کردیتا ہے۔ اَظْلَمَ کے معنی ہیں، اندھیرے میں داخل ہونا۔ جیسے اَصْبَحَ اور اَمْسَیٰ اور اَظْھَرَ کے معنی ہیں، صبح شام اور ظہر کے وقت میں داخل ہونا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٣٥] رات کا ذکر دن سے پہلے اور فطری تقویم :۔ قرآن کریم نے جب دن اور رات کا ذکر فرمایا تو پہلے رات کا ذکر فرمایا۔ اس سے دو باتوں کا پتہ چلتا ہے کہ ایک یہ کہ فطری تقویم یہ ہے کہ دن رات کی (یعنی ایک دن یا ٢٤ گھنٹے) کی مدت کا شمار ایک دن سورج غروب ہونے سے لے کر دوسرے دن سورج غروب ہونے تک ہے۔ اور یہ مدت ہمیشہ ٢٤ گھنٹے ہی رہتی ہے خواہ گرمیوں کا موسم ہو یا سردیوں کا اور اس میں ایک سیکنڈ کا بھی فرق نہیں پڑتا اور دوسرے یہ کہ اصل چیز رات اور تاریکی ہی تھی یہ اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لئے سورج پیدا فرما کر روشنی کا بھی انتظام فرما دیا۔ اور اس میں تمہارے لئے اور بھی بیشمار فائدے رکھ دیئے۔ حتیٰ کہ اگر اللہ تعالیٰ رات اور دن کا یہ انتظام نہ فرماتے تو اس زمین پر نہ کوئی نباتات اگ سکتی تھی اور نہ ہی کوئی جاندار زندہ رہ سکتا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاٰيَةٌ لَّهُمُ الَّيْلُ : ” نَسْلَخُ “ ” سَلَخَ یَسْلَخُ “ (ف، ن) بکری کی کھال اتارنا۔ قیامت اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دلائل میں سے مکانی دلیل مردہ زمین بیان فرمائی ہے۔ اب زمانی دلیلوں کا ذکر ہوتا ہے کہ ان کے لیے ایک اور دلیل قیامت کی اور اس بات کی بھی کہ اللہ تعالیٰ جو چاہے کرسکتا ہے، رات ہے، جس پر دن کے نور کا پردہ چڑھا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت کے اظہار کے لیے اپنا ذکر جمع کے صیغے کے ساتھ کرتے ہوئے فرمایا : (نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ ) ہم اس رات سے دن کو کھینچ اتارتے ہیں تو اچانک وہ اندھیرے میں رہ جانے والے ہوتے ہیں۔ یعنی وہ جو اندھیرے کے بعد روشنی اور روشنی کے بعد اندھیرا لانے والا ہے، اس کے لیے تمہیں موت کے بعد زندہ کرنا کیا مشکل ہے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 37, it was said: وَآيَةٌ لَّهُمُ اللَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ‌ (And a sign for them is the night. We strip the [ cover on day from it, and they are suddenly in darkness.). After having described the signs of Divine power in what was created on the earth, the text mentions cosmic creations. The word: سَلخ (salkh) literally means to skin. If the skin from an animal or the cover from things is removed, the thing inside becomes obvious. Allah Ta’ ala has, in this similitude, pointed out that the real element in this world is darkness. Light is transitory, for it spreads over the earth through planets and stars. In a predetermined system, at a fixed time, this light that is spread over the darkness of the world is removed from on top. What remains is darkness. This, in common parlance, is called night.

وآیة لہم الیل نسلخ منہ النہار، زمینی مخلوقات میں قدرت خداوندی کی نشانیاں بیان فرمانے کے بعد آسمانی اور آفاقی مخلوقات کا ذکر ہے۔ سلخ کے لفظی معنی کھال اتارنے کے ہیں، کسی جانور کے اوپر سے کھال یا دوسری چیزوں پر سے غلاف اتار دیا جائے تو اندر کی چیز ظاہر ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مثال میں اشارہ فرمایا ہے کہ اس جہان میں اصل تو ظلمت اور اندھیرا ہے، روشنی عارضی ہے جو سیارات اور ستاروں کے ذریعہ زمین پر چھا جاتی ہے۔ تقدیری نظام میں مقررہ وقت پر یہ روشنی جو دنیا کی اندھیری پر چھائی ہوئی ہوتی ہے اس کو اوپر سے ہٹا لیا جاتا ہے تو ظلمت واندھیری رہ جاتی ہے، اسی کو عرف میں رات کہا جاتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاٰيَۃٌ لَّہُمُ الَّيْلُ۝ ٠ ۚۖ نَسْلَخُ مِنْہُ النَّہَارَ فَاِذَا ہُمْ مُّظْلِمُوْنَ۝ ٣٧ۙ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ ليل يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل : أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ سلخ السَّلْخُ : نزع جلد الحیوان، يقال : سَلَخْتُهُ فَانْسَلَخَ ، وعنه استعیر : سَلَخْتُ درعه : نزعتها، وسَلَخَ الشهر وانْسَلَخَ ، قال تعالی: فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ [ التوبة/ 5] ، وقال تعالی: نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهارَ [يس/ 37] ، أي : ننزع، وأسود سَالِخٌ ، سلخ جلده، أي : نزعه، ونخلة مِسْلَاخٌ: ينتثر بسرها الأخضر . ( س ل خ ) السلخ اس کے اصل معنی کھال کھینچنے کے ہیں ۔ جیسے محاورہ ہے ۔ سلختہ فانسلخ میں نے اس کی کھال کھینچی تو وہ کھچ گئی پھر اسی سے استعارہ کے طور پر زرہ اتارنے اور مہینہ کے گزر جا نے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے سلخت درعہ میں نے اس کی زرہ اتار لی ۔ سلخ الشھر و انسلخ مہینہ گزر گیا ۔ قرآن میں ہے ۔ فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ [ التوبة/ 5] جب غربت کے مہینے گزر جائیں ۔ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهارَ [يس/ 37] کہ اس میں سے ہم دن کو کھینچ لیتے ہیں ۔ نهار والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] ( ن ھ ر ) النھر النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ ظلم) تاریکی) الظُّلْمَةُ : عدمُ النّور، وجمعها : ظُلُمَاتٌ. قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور/ 40] ، ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] ، وقال تعالی: أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل/ 63] ، وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام/ 1] ، ويعبّر بها عن الجهل والشّرک والفسق، كما يعبّر بالنّور عن أضدادها . قال اللہ تعالی: يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة/ 257] ، أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم/ 5] ( ظ ل م ) الظلمۃ ۔ کے معنی میں روشنی کا معدوم ہونا اس کی جمع ظلمات ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور/ 40] ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے ) جیسے دریائے عشق میں اندھیرے ۔ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] ( غرض ) اندھیرے ہی اندھیرے ہوں ایک پر ایک چھایا ہوا ۔ أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل/ 63] بتاؤ برو بحری کی تاریکیوں میں تمہاری کون رہنمائی کرتا ہے ۔ وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام/ 1] اور تاریکیاں اور روشنی بنائی ۔ اور کبھی ظلمۃ کا لفظ بول کر جہالت شرک اور فسق وفجور کے معنی مراد لئے جاتے ہیں جس طرح کہ نور کا لفظ ان کے اضداد یعنی علم وایمان اور عمل صالح پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة/ 257] ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے ۔ أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم/ 5] کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ان مکہ والوں کے استدلال کے لیے ایک نشانی اندھیری رات ہے اس رات پر ہم دن کو اتار لیتے ہیں تو وہ لوگ رات کی تاریکی میں رہ جاتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧ { وَاٰیَۃٌ لَّہُمُ الَّیْلُج نَسْلَخُ مِنْہُ النَّہَارَ فَاِذَا ہُمْ مُّظْلِمُوْنَ } ” اور ان کے لیے ایک نشانی رات بھی ہے ‘ ہم کھینچ لیتے ہیں اس سے دن کو ‘ تو اس وقت یہ اندھیرے میں رہ جاتے ہیں۔ “ یہ ایسے ہے جیسے ایک سیاہ چادر بچھی ہو ‘ جسے ایک چمکدار چادر نے ڈھانپ رکھا ہو۔ پھر اوپر والی سفید اور چمکدار چادر کھینچ لی جائے اور نیچے سے سیاہ چادر نمودار ہوجائے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

32 The alternation of the night and day also is one of those realities which man dces not regard as worthy of much attention only because it is a phenomenon of daily occurrence and experience; whereas if he considers how the day passes and how the night falls, and what is the wisdom in the passing of the day and in the falling of the night, he will himself realize that this is an obvious sign of the existence of an All-Powerful and All-Wise Allah and of His being One and only One. The day cannot pass and the night cannot fall until the sun hides from the earth. The great regularity which is found in the alternation of the day and night, was not possible unless the sun and the earth were bound in one and the same relentless system. Then the deep relationship which exists between the alternation of the day and night and the other creations on the earth clearly points to the fact that this system has been established deliberately by a Being with perfect wisdom. The existence on the earth, of the men and animals and vegetation, and even of water and air and different minerals, is in fact, the result of placing the earth at a particular distance from the sun, with the arrangement that the different parts of the earth should go on successively coming before the sun and hiding from it at definite intervals. If the distance of the earth from the sun had been a little longer, or a little shorter, or there had been a perpetual night on one side of it and a perpetual day on the other, or the alternation of the day and night had been much faster or much slower, or sometimes the day had appeared suddenly and sometimes the night without any system, no life could be possible on this planet, and even the form and appearance of the inorganic substances would have been much different from what it is now. If the mind's eye is not closed, one can clearly perceive in this system the working of a God, Who willed to bring into being this particular kind of creation on the earth and then established relevances, harmonies and relationships between the earth and the sun precisely in accordance with its needs and requirements. If a person regards the concept of the existence of God and His Unity as far removed from reason, he should think for himself and see how much farther removed should it be from reason to ascribe this wonderful creation to many gods, or to think that All this has happened sutomatically under some deaf and blind law of nature. When a person who can accept without question these latter unreasonable explanations, only on the baal: of conjecture and speculation, says that the existence of a system and wisdom and purpose is not a sufficient proof of the existence of God, it becomes difficult for us to believe whether such a person really feels the need and necessity of a rational proof, sufficient or insufficient in any degree whatever, for accepting any concept of creed in the world.

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :32 رات اور دن کی آمد و رفت بھی انہی پیش پا افتادہ حقائق میں سے ہے جنہیں انسان محض اس بنا پر کہ وہ معمولاً دنیا میں پیش آرہے ہیں ، کسی التفات کا مستحق نہیں سمجھتا ۔ حالانکہ اگر وہ اس بات پر غور کرے کہ دن کیسے گزرتا ہے اور رات کس طرح آتی ہے ، اور دن کے جانے اور رات کے آنے میں کیا حکمتیں کار فرما ہیں تو اسے خود محسوس ہو جائے کہ یہ ایک رب قدیر و حکیم کے وجود اور اس کی یکتائی کی روشن دلیل ہے ۔ دن کبھی نہیں جا سکتا اور رات کبھی نہیں آ سکتی جب تک زمین کے سامنے سے سورج نہ ہٹے ۔ دن کے ہٹنے اور رات کے آنے میں جو انتہائی باقاعدگی پائی جاتی ہے وہ اس کے بغیر ممکن نہ تھی کہ سورج اور زمین کو ایک ہی اٹل ضابطہ نے جکڑ رکھا ہو ۔ پھر اس رات اور دن کی آمد و رفت کا جو گہرا تعلق زمین کی مخلوقات کے ساتھ پایا جاتا ہے وہ اس بات پر صاف دلالت کرتا ہے کہ کسی نے یہ نظام کمال درجے کی دانائی کے ساتھ بالارادہ قائم کیا ہے ۔ زمین پر انسان اور حیوان اور نباتات کا وجود ، بلکہ یہاں پانی اور ہوا اور مختلف معدنیات کا وجود بھی دراصل نتیجہ ہے اس بات کا کہ زمین کو سورج سے ایک خاص فاصلے پر رکھا گیا ہے ، اور پھر یہ انتظام کیا گیا ہے کہ زمین کے مختلف حصے تسلسل کے ساتھ مقرر وقفوں کے بعد سورج کے سامنے آتے اور اس کے سامنے سے ہٹتے رہیں ۔ اگر زمین کا فاصلہ سورج سے بہت کم یا بہت زیادہ ہوتا ، یا اس کے ایک حصہ پر ہمیشہ رات رہتی اور دوسرے حصہ پر ہمیشہ دن رہتا ، یا شب و روز کا الٹ پھیر بہت تیز یا بہت سست ہوتا ، یا بے قاعدگی کے ساتھ اچانک کبھی دن نکل آتا اور کبھی رات چھا جاتی ، تو ان تمام صورتوں میں اس کُرے پر کوئی زندگی ممکن نہ ہوتی ، بلکہ غیر زندہ مادوں کی شکل و ہئیت بھی موجودہ شکل سے بہت مختلف ہوتی ۔ دل کی آنکھیں بند نہ ہوں تو آدمی اس نظام کے اندر ایک ایسے خدا کی کارفرمائی صاف دیکھ سکتا ہے جس نے اس زمین پر اس خاص قسم کی مخلوقات کو وجود میں لانے کا ارادہ کیا اور ٹھیک ٹھیک اس کی ضروریات کے مطابق زمین اور سورج کے درمیان یہ نسبتیں قائم کیں ۔ خدا کا وجود اور اس کی توحید اگر کسی شخص کے نزدیک بعید از عقل ہے تو وہ خود ہی سوچ کر بتائے کہ اس کاریگری کو بہت سے خداؤں کی طرف منسوب کرنا ، یا یہ سمجھنا کہ کسی اندھے بہرے قانون فطرت کے تحت یہ سب کچھ آپ ہی آپ پیدا ہو گیا ہے ، کس قدر عقل سے بعید ہونا چاہئے ۔ کسی ثبوت کے بغیر محض قیاس و گمان کی بنیاد پر جو شخص یہ دوسری سراسر نامعقول توجیہات مان سکتا ہے وہ جب یہ کہتا ہے کہ کائنات میں نظم اور حکمت اور مقصدیت کا پا یا جانا خدا کے ہونے کا کافی ثبوت نہیں ہے تو ہمارے لیے یہ باور کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ واقعی یہ شخص کسی نظریے یا عقیدے کو قبول کرنے کے لیے کسی درجے میں بھی ، کافی یا ناکافی ، عقلی ثبوت کی ضرورت محسوس کرتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

14: یہاں یہ حقیقت بیان فرمائی گئی ہے کہ کائنات میں اصل اندھیرا ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے دور کرنے کے لیے سورج کی روشنی پیدا فرمائی ہے۔ جب سورج نکلتا ہے تو وہ اپنی روشنی کا ایک غلاف کائنات کے کچھ حصے پر چڑھا دیتا ہے جس سے روشنی ہوجاتی ہے۔ پھر جب سورج غروب ہوتا ہے تو روشنی کا یہ چھلکا اتر جاتا ہے، اور اندھیرا واپس آجاتا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٧۔ یہ ایک اور قدرت کی نشانی کا ذکر فرمایا کہ ایک نشانی ہماری قدرت کی ان کے واسطے رات ہے ادھیڑ لیتے ہیں ہم اس سے دن کو تو اس وقت وہ اندھیرے میں رہ جاتے ہیں رات کا اندھیرا اور دن کا اجالا دونوں خدا کی قدرت کو ہر روز بتاتے ہیں ایک دوسرے کے پیچھے لگا رہتا ہے رات آتی ہے تو دن چلا جاتا ہے اور جب دن آتا ہے تو رات چلی جاتی ہے رات کو انسان آرام پاتا ہے اور دن کو ہر طرح کام دھندہ کرتا ہے ‘ صحیح بخاری میں حذیفہ (رض) بن الہیمان سے روایت ٢ ؎ ہے (٢ ؎ مشکوۃ ص ٢٠٨ باب مایقول عند الصباح والماء رد المنام) جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نیند کو موت اور سو کر اٹھنے کو دوبارہ جینا فرمایا ہے نیند میں آدمی کے ہوش و ہو اس جاتے رہتے ہیں اس لیے اللہ کے رسول نے نیند کو موت فرمایا اس آیت کو تفسیر میں اوپر کی حدیث کو یہ دخل ہے کہ رات کو سونا اور دن کو پھر جاگ اٹھنا حشر کا ایک نمونہ ہے اس مناسبت سے حشر کے ذکر بعد اللہ تعالیٰ نے رات دن کا ذکر فرمایا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36:37) وایۃ لہم الیل وائو عطف کی ہے ایۃ مبتدا لہم متعلق ایۃ اور الیل خبر۔ یا الیل مبتدا اور ایۃ لہم خبر مقدم۔ الیل سے مراد کوئی خاص رات نہیں بلکہ جنس شب مراد ہے اور ان کے لئے رات (خدا کی قدرت کی ) ایک نشانی ہے۔ نسلخ مضارع جمع متکلم سلخ مصدر (باب نصرو فتح) میں نے اس کی کھال کھینچی تو وہ کھینچ گئی اسی سے استعارہ کے طور پر زرہ اتارنے اور مہینہ کے گذر جانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے مثلاً دوسری جگہ قرآن مجید میں ہے فاذا انسلخ الاشھر الحرم (9:5) جب حرمت والے مہینے گذر جائیں۔ اور نسلخ منہ النھار کے معنی ہوئے ہم اس میں سے دن کو کھینچ لیتے ہیں۔ اصل تاریکی ہے۔ سورج نکلنے سے تاریکی پر دن کی روشنی کا خول رات کی تاریکی پر چڑ ھ جاتا ہے سورج کے کے غروب ہونے پر گویا وہ روشنی کا خول اتر جاتا ہے اور رات کی تاریکی پھر نمودار ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح رات اور دن کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ فاذا میں الفا برائے عطف سببی ہے اذا مفاجاتیہ ہے۔ مظلمون۔ ای داخلون فی الظلام۔ تاریکی میں چلے جاتے ہیں۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ اظلام (افعال) مصدر بمعنی تاریکی میں ہوجانا۔ تاریک ہوجانا۔ ظلم مادہ۔ تاریکی۔ قرآن مجید میں ہے واذا اظلم علیہم قاموا۔ (2:20) اور جب اندھیرا ہوجاتا ہے تو کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں۔ فاذا ہم مظلمون تو وہ یک لخت اندھیرے میں رہ جاتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یہ اثبات حشر پر دوسری دلیل ہے یعنی جس ہستی کے قبضہ ٔ قدرت میں یہ انقلاب عظیم ہے وہ مردوں کو بھی دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے۔ ” سلخ “ کے اصل معنی جانور کی کھال کھینچنے کے ہیں یہاں رات کو دن سے ممیز کرنیکے لئے یہ لفظ بطور استعارہ استعمال ہوا ہے۔ دوسرے مقام پر اسی تبدیلی کو ” تکویر “ کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ دیکھئے سورة زمر آیت 5( کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ بوجہ اصل ہونے ظلمت کے گویا اصل وقت وہی تھا، اور عارض نور آفتاب سے گویا اس کو دن نے چھپا لیا تھا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نباتات اور لوگوں کے اپنے نفوس سے اپنی قدرت کی نشاندہی کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسان کی توجہ آفاق کی نشانیوں کی طرف مبذول کروائی ہے۔ انسان ہی نہیں دنیا میں بسنے والی ہر چیز کی زندگی، رات اور دن کے حساب سے شمار کی جاتی ہے۔ ہر ذی روح اور ہر چیز پر رات اور دن کے مثبت اور منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ دن کی روشنی اور اس کی تپش کے اپنے اثرات اور فوائد ہیں۔ رات کی تاریکی اور اس کی نم ناکی کے اپنے نتائج ہیں جو ہر متحرک اور غیر متحرک چیز پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ رات اور دن میں سب سے بڑی ” اللہ “ کی قدرت کی نشانی یہ ہے کہ رات کی تاریکی ہر چیز کو اپنے دامن میں چھپا لیتی ہے۔ ہر ذی روح نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہے اور صبح طلوع ہونے پر اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہوجاتا ہے یہی انسان کی موت وحیات کا معاملہ ہے۔ جس طرح ہر ذی روح نیند کے بعد اپنے آپ بیدار ہوجاتا ہے اسی طرح ہی قیامت کے دن صور پھونکنے پر ہر کوئی اپنے اپنے مدفن سے نکل کھڑا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیوں میں سورج اور چاند ایسی نشانیاں ہیں جس کی کائنات میں کوئی نظیر موجود نہیں۔ سورج کی وجہ سے رات دن تبدیل ہوتے ہیں اور چاند رات کے ساتھ منسلک کردیا گیا ہے۔ رات کو پوری طرح تاریک رکھنے کے لیے چاند اپنے مدار کے اس حصہ میں داخل ہوجاتا ہے جہاں اس کی روشنی زمین کے حصہ سے غائب ہوجاتی ہے بالآخر چاند کھجور کی سوکھی ہوئی لکڑی کی طرح ٹیڑھا دکھائی دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کے مدار قائم کر رکھے ہیں جو اپنی اپنی منازل طے کرتے ہوئے طلوع اور غروب کے عمل سے دوچار ہوتے ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ سورج چاند کے مدار میں داخل ہوجائے یا چاند سورج کو پالے۔ نامعلوم کتنی صدیاں بیت چکیں لیکن چاند اور سورج، رات اور دن ایک دوسرے سے سبقت نہیں کرسکے اور نہ ہی کبھی ایسا ہوگا۔ یہاں سورج کے بارے میں ارشاد ہوا کہ یہ چاند کو نہیں پاسکتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ چاند سورج کے آگے آگے چلتا ہے کیونکہ رات پہلے ہوتی ہے اور دن رات کے بعد نمودار ہوتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہوا تقویمی حساب ہے جو قیامت تک اسی طرح جاری اور ساری رہے گا لیکن جب اللہ تعالیٰ کا حکم صادر ہوگا تو چاند بےنور ہو کر گرپڑے گا اور سورج اپنی جگہ پر تھم جائے گا۔ چاند اور سورج کے آنے جانے، رات اور دن کی آمدروفت میں انسان کے لیے ایک ایسا سبق ہے جس سے انسان اپنی موت اور زندگی کے بارے میں سوچ سکتا ہے کہ اسی طرح ہی ایک وقت آئے گا کہ میری زندگی کے سورج نے غروب ہونا ہے اور قیامت کے دن مجھے زندہ کیا جائے گا۔ یہاں سورج کے لیے ” مُسْتَقَرٌّ“ کا لفظ استعمال ہوا ہے اہل علم نے اس کے دو مفہوم اخذ کیے ہیں۔ ایک جماعت کا خیال ہے کہ مستقر سے مراد وہ جائے استقرار ہے جہاں پہنچ کر سورج دنیا کے ایک حصہ سے اوجھل ہوجاتا ہے اور اس عمل کو سورج کا سجدہ قرار دیا گیا ہے۔ دوسری جماعت کا خیال ہے کہ مستقر سے مراد وہ مقام ہے جہاں قیامت کے دن سورج کو رک جانے کا حکم ہوگا۔ رات کے بارے میں فرمایا کہ ہم اس سے دن ہٹا دیتے تو اندھیرہ چھا جاتا ہے۔ غور فرمائیں کہ اگر دن آدھی رات کے وقت نکل آئے تو لوگوں اور درندوں، پرندوں کی کیا حالت ہوگی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے لیل ونہار کا ایسا نظام ترتیب دیا ہے کہ دونوں اپنے اپنے وقت کے مطابق آتے جاتے ہیں کبھی اس نظام میں خلل واقع نہیں ہوا۔ (عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حِیْنَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ اَتَدْرِیْ اَیْنَ تَذْھَبُ ھٰذِہٖ قُلْتُ اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَعْلَمُ قَالَ فَاِنَّھَا تَذْھََبُ حَتّٰی تَسْجُدَتَحْتَ الْعَرْشِ فَتَسْتَاْذِنُ فَیُؤْذَنُ لَھَا وَیُوْشِکُ اَنْ تَسْجُدَوَلَاتُقْبَلُ مِنْھَا وَتَسْتَأْذِنُ فَلَا یُوؤذَنُ لَھَا وَیُقَالُ لَھَآ اِرْجِعِیْ مِنْ حَیْثُ جِءْتِ فَتَطْلُعُ مِنْ مَّغْرِبِھَا فَذَالِکَ قَوْلُہٗ وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّلَّھَا قَالَ مُسْتَقَرُّھَا تَحْتَ الْعَرْشِ ) [ رواہ البخاری : باب صِفَۃِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تجھے معلوم ہے جب سورج غروب ہوتا ہے تو کہاں جاتا ہے ؟ میں نے کہا ‘ اللہ اور اس کے رسول کو علم ہے۔ آپ نے فرمایا سورج عرش کے نیچے جاکر سجدہ کرتا ہے اور اجازت طلب کرتا ہے۔ اسے اجازت مل جاتی ہے قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے اور اس کا سجدہ قبول نہ ہو وہ طلوع ہونے کی اجازت طلب کرے گا مگر اسے اجازت نہ ملے۔ اسے حکم ہوگا جدھر سے آیا اسی طرف سے طلوع ہوجا۔ چناچہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سورج اپنے مستقر کی طرف چلا جاتا ہے آپ نے فرمایا اس کا ٹھکانا عرش کے نیچے ہے۔ ‘ ‘ سورج اور چاند کا انجام : ” حضرت ابو سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہمیں ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن سورج اور چاند کو اکٹھا جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ حسن (رح) نے پوچھا ان کا جرم کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا میں تمہیں نبی (رض) کی حدیث سنا رہا ہوں ابو سلمہ کی بات سن کر حسن خاموش ہوگئے۔ “ [ الابانۃ الکبریٰ لابن بطۃ : باب ذکر ما جاءت بہ السنۃ من طاعۃ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] مسائل ١۔ رات اور دن کے آنے جانے میں انسان کے لیے ہدایت کا عظیم سبق ہے۔ ٢۔ چاند اور سورج اپنے اپنے مدار میں رواں دواں ہیں۔ ٣۔ سورج اور چاند ایک دوسرے کو نہیں پاسکتے۔ ٤۔ نہ رات دن پر سبقت کرسکتی ہے اور نہ دن رات سے آگے نکل سکتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے چاند کے لیے منازل اور سورج کے لیے ایک مستقر قائم کیا ہے۔ تفسیر بالقرآن لیل و نہار کا آنا جانا : ١۔ رات دن ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے ہیں۔ (الاعراف : ٥٤) ٢۔ رات دن کو اور دن رات کو ڈھانپ لیتا ہے۔ (الزمر : ٥) ٣۔ رات اور دن کا بڑھنا، گھٹنا۔ (الحدید : ٦) ٤۔ رات آرام اور دن کام کے لیے ہے۔ (الفرقان : ٤٧) ٥۔ رات کے سکون پر غور کرنے کی دعوت۔ (القصص : ٧٢) ٦۔ دن رات کے بدلنے میں غور و خوض کی دعوت۔ (المومنون : ٨٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ تو تھی مردہ زمین جس سے زندگی پھوٹ رہی ہے ۔ اب زمین سے آگے بڑھ کر قرآن آسمان کی طرف متوجہ ہوتا ہے ، آسمانی نطارے ہمارے سامنے پیش ہوتے ہیں اور یہ تمام نظارے دست قدرت کے عجوبے ہیں۔ وایۃ لھو الیل ۔۔۔۔۔۔ فی فلک یسبحون (37 – 40) ” “۔ رات کے آنے کا منظر ، روشنی ختم ہوجاتی ہے اور اندھیرا آہستہ آہستہ چھا جاتا ہے ۔ یہ وہ منظر ہے جسے تمام انسان 24 گھنٹوں میں دہرایا ہوا دیکھتے ہیں ، ماسوائے ان خطوں کے جہاں رات اور دن کا عمل چھ ماہ کے بعد دہرایا جاتا ہے۔ یعنی ان علاقوں میں جو قطبین کے بہت قریب ہیں۔ یہ عمل اگرچہ رات اور دن میں بار بار دہرایا جاتا ہے لیکن اگر اس پر غور کیا جائے تو یہ اللہ کی قدرت کا ایک عجوبہ ہے اور اس قابل ہے کہ انسان اس پر غور و فکر کریں۔ یہاں اس مقام پر اس عجوبے کا انداز تعبیر بھی منفرد ہے۔ یہاں رات کو دن میں ملبوس تصور کیا گیا ہے اور جب دن کا لباس اتر جائے تو رات آجاتی ہے۔ اور لوگ اچانک اندھیروں میں ڈوب جاتے ہیں۔ اسی انداز تعبیر کا ادراک یوں ہو سکتا ہے اور یہ اس وقت پھر مجاز کے بجائے حقیقت نظر آتی ہے ، جب ہم زمین کی گردش محوری پر غور کریں۔ سورج کے سامنے اس کی اس گردش کے بدولت زمین کا ایک نقطہ سورج کے سامنے رہتا ہے اور وہاں دن ہوتا ہے اور جن زمین کا وہ حصہ غائب ہوتا ہے تو اچانک دن کا لباس اتار دیا جاتا ہے اور ماحول پر پھر اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اور یہ منظر نہایت ہی تنظیم کے ساتھ یونہی چلتا رہتا ہے۔ ہر وقت دن کے لباس کو رات کے جسم سے کھینچا جاتا ہے اور رات ظاہر ہوتی رہتی ہے غرض یہ قرآنی تعبیر حقیقی بھی ہے اور نہایت ہی فصیح اور ادیبانہ بھی والشمس تجری لمستقرلھا (36: 38) ” اور سورج ، وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے “۔ سورج بھی گردش محوری رکھتا ہے۔ بالعموم یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اپنی جگہ ابستادہ ہے لیکن تازہ ترین سائنسی معلومات یہ ہیں کہ یہ سورج اپنی جگہ رکا ہوا نہیں ہے بلکہ یہ بھی چل رہا ہے ، عملاً رواں ہے۔ یہ ایک ہی سمت میں جا رہا ہے۔ اس عظیم کائنات اور اس فضا اور خلا میں یہ ایک طرف جا رہا ہے۔ اور یہ 12 میل فی سیکنڈ کے حساب سے ایک ہی سمت میں جا رہا ہے۔ لیکن اس کی حرکت اور رفتار کے بارے میں اللہ ہی جانتا ہے جو خبیر وبصیر ہے اور اللہ صریح طور پر فرماتا ہے کہ اس کی ایک جائے فتراء ہے اور اس کے لیے دوب تابی سے چل رہا ہے۔ کس طرح اور کب وہاں پہنچتا ہے یہ قیامت ہے اور اس کا علم اللہ ہی کو ہے۔ جب ہم یہ تصور کرتے ہیں کہ اس سورج کا حجم زمین سے ایک ملین گنا زیادہ ہے اور یہ سورج اپنی اس کہکشاں کے ساتھ (اور کہکشاں کس قدر عظیم ہے ، ذرا سوچ لیں) ایک فضائے لامتناہی میں اپنے مستقر کے لیے رواں ہے ، تو اس سے اللہ کے علم اور قدرت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ یہ ہے مفہوم اس آیت کا۔ ذلک تقدیر العزیز العلیم (36: 38) ” یہ زبردست ، علیم ہستی کا باندھا ہوا حساب ہے ؛۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رات دن اور شمس و قمر اللہ تعالیٰ کے مظاہر قدرت میں سے ہیں آیات سفلیہ بیان فرمانے کے بعد آیات علویہ کا بیان شروع ہو رہا ہے، رات اور دن کا تعلق چونکہ سورج کے طلوع اور غروب سے ہے اس لیے ان دونوں کو بھی آیات علویہ میں ذکر فرما دیا، ارشاد فرمایا کہ لوگوں کے لیے رات بھی ایک نشانی ہے رات کے آنے جانے سے بھی اپنے خالق کو پہچان سکتے ہیں، سب کو معلوم ہے کہ رات کے آنے جانے میں صرف اللہ تعالیٰ کے حکم تکوینی کو دخل ہے، فرمایا : (نَسْلَخُ مِنْہُ النَّہَارَ فَاِِذَا ھُمْ مُّظْلِمُوْنَ ) (ہم اس سے دن کو کھینچ لیتے ہیں سو وہ اچانک اندھیرے میں رہ جاتے ہیں) یعنی جس جگہ روشنی ہوتی ہے اور دن ہوتا ہے اس جگہ سے ہم روشنی کو کھینچ لیتے ہیں۔ ١ ؂ جب روشنی ختم ہوجاتی ہے تو دن ختم ہوجاتا ہے اور رات آجاتی ہے، دن گیا رات آئی اور لوگوں پر اندھیرا چھا گیا، اب ان میں سے کسی میں بھی یہ طاقت نہیں ہے کہ رات کو ختم کرکے دن کی روشنی لے آئے جس نے رات کو پیدا فرمایا وہی دن کو پیدا فرماتا ہے۔ ١ ؂ قال صاحب الروح ای نکشف ونزیل الضومن مکان اللیل و موضوع القاء ظلّہ وظلمتہ وھو الھواء عبارۃ عن الضوء اما علی التجوز أو علی حذف المضاف وقولہ تعالیٰ (منہ) علی حذف مضاف و ذلک لأن النھار واللیل عبارتان عن زمان کون الشمس فوق الافق وتحتہ ولا معنی لکشف احدھما عن الاٰخر (الیٰ اٰخر ما ذکر)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

26:۔ وایۃ لہم الیل الخ :۔ یہ تیسری عقلی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی ایک دلیل یہ ہے کہ یہ نظام شمسی اس کے قبضہ و تصرف میں ہے۔ دن رات کی آمد و رفت اسی کے اختیار میں ہے۔ جب دن کی روشنی غائب ہوجاتی ہے تو ہر طرف اندھیرا چھا جاتا ہے۔ والشمس تجری الخ اور سورج اپنی آخر حد اور منزل تک باقاعدگی کے ساتھ سفر کر رہا ہے۔ آخری منزل سے یا تو قیامت کا دن مراد ہے یا اس کے سالانہ دورے کی آخری منزل مراد ہے جہاں پہنچ کر وہ دوبارہ اسی جگہ سے اپنا سفر شروع کرتا ہے جہاں سے ایک سال قبل شروع کیا تھا۔ قال قتادۃ و مقاتل تجری الی وقت لہا لا تتعداہ۔ قال الواحدی وعلی ھذا مستقرھا انتہاء سیرھا عند انقضاء الدنیا (روح ج 23 ص 12) لحد لہا موقت مقدر تنتھی الیہ من فلکہا فی اخر السنۃ او لانتہاء امرھا عند انقضاء الدنیا (مدارک ج 4 ص 7) ۔ دن رات کی مقدار اور سورج کی رفتار کا اندازہ اللہ تعالیٰ نے کود مقرر فرمایا جو ایسا غالب ہے کہ اس اندازے میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی اور ایسا علیم اور باخبر ہے کہ اس نے جو اندازے مقرر فرمائے ہیں وہ نہایت مناسب اور صحیح ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(37) اور ان لوگوں کے لئے نشان ہائے قدرت میں سے رات بھی ایک قدرت خداوندی کی نشانی ہے اس رات پر سے ہم دن کو کھینچ کر اتار لیتے ہیں پس یکایک یہ لوگ اندھیرے میں رہ جاتے ہیں۔