Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 57

سورة يس

لَہُمۡ فِیۡہَا فَاکِہَۃٌ وَّ لَہُمۡ مَّا یَدَّعُوۡنَ ﴿۵۷﴾ۚ ۖ

For them therein is fruit, and for them is whatever they request [or wish]

ان کے لئے جنت میں ہر قسم کے میوے ہوں گے اور بھی جو کچھ وہ طلب کریں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لَهُمْ فِيهَا فَاكِهَةٌ ... They will have therein fruits, (means, of all kinds). ... وَلَهُم مَّا يَدَّعُونَ and all that they ask for. means, whatever they ask for, they will find it, all kinds and types. سَلَمٌ قَوْلاً مِن رَّبٍّ رَّحِيمٍ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٥٢] یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کے مطابق مجرموں کے ساتھ اپنے فرمانبرداروں کا اور ان کے حسن اجر کا ذکر فرمایا اور ساتھ ہی یہ فرما دیا کہ مجرموں سے ابھی جواب طلبی اور حساب لینے کا کام باقی ہوگا مگر اس وقت اہل جنت، جنت میں داخل ہوچکے ہوں گے۔ ان میں سے کچھ ایسے ہوں گے جو بلاحساب کتاب جنت میں داخل ہوں گے اور بعض دوسروں سے آسان اور سرسری سا حساب لے کر انہیں جنت میں داخل کیا جاچکا ہوگا۔ وہاں وہ خوشحال زندگی گزار رہے ہوں گے۔ ٹھنڈی چھاؤں میں ان کے تخت بچھائے گئے ہوں گے وہ اور ان کی بیویاں آمنے سامنے تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔ ہر قسم کے میوے اور پھل ان کے پاس حاضر ہوں گے۔ علاوہ ازیں جس چیز کی بھی وہ آرزو کریں گے فوراً حاضر کردی جائے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَهُمْ فِيْهَا فَاكِهَةٌ وَّلَهُمْ مَّا يَدَّعُوْنَ : ” فَاكِهَةٌ“ میں تنوین تکثیر کے لیے ہے، یعنی ان کے لیے جنت میں بہت سے پھل ہوں گے اور انھیں ہر وہ چیز ملے گی جس کی وہ تمنا کریں گے اور مانگیں گے۔ یہ تو جسمانی لذتوں کا حال ہوگا، روحانی لذتوں میں سب سے اونچی لذت کا ذکر اگلی آیت میں فرمایا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The word: يَدَّعُونَ (yadda’ un) appearing in verse 57: وَلَهُم مَّا يَدَّعُونَ (wa lahum ma yadda un) is a derivation from: دَعوَیٰ (da&wah) which means to call, that is, the thing the people of Jannah will call or wish to have, will come to them. The Qur&an has not used the word: يَسْأَلُونَ Yas’ alun: they ask) at this place, because having something after having asked for it is also a sort of exertion, something the Jannah will be free from, in fact, it will be a place where everything needed will be ready and present.

(آیت) ولھم ما یدعون، یدعون دعوت سے مشتق ہے، جس کے معنی بلانے کے ہیں۔ یعنی اہل جنت جس چیز کو بلا دیں گے وہ ان کو مل جائے گی۔ قرآن کریم نے اس جگہ یسئلون کا لفظ نہیں فرمایا، کیونکہ کسی چیز کا سوال کر کے حاصل کرنا بھی ایک محنت مشقت ہے، جس سے جنت پاک ہے بلکہ وہاں ضرورت کی چیز حاضر و موجود ہوگی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَہُمْ فِيْہَا فَاكِہَۃٌ وَّلَہُمْ مَّا يَدَّعُوْنَ۝ ٥٧ۚۖ فكه الفَاكِهَةُ قيل : هي الثّمار کلها، وقیل : بل هي الثّمار ما عدا العنب والرّمّان . وقائل هذا كأنه نظر إلى اختصاصهما بالذّكر، وعطفهما علی الفاکهة . قال تعالی: وَفاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ [ الواقعة/ 20] ، وَفاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ [ الواقعة/ 32] ، وَفاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس/ 31] ، فَواكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ [ الصافات/ 42] ، وَفَواكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ المرسلات/ 42] ، والفُكَاهَةُ : حدیث ذوي الأنس، وقوله : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ«1» قيل : تتعاطون الفُكَاهَةَ ، وقیل : تتناولون الْفَاكِهَةَ. وکذلک قوله : فاكِهِينَ بِما آتاهُمْ رَبُّهُمْ [ الطور/ 18] . ( ف ک ہ ) الفاکھۃ ۔ بعض نے کہا ہے کہ فاکھۃ کا لفظ ہر قسم کے میوہ جات پر بولا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ انگور اور انار کے علاوہ باقی میوہ جات کو فاکھۃ کہاجاتا ہے ۔ اور انہوں نے ان دونوں کو اس لئے مستثنی ٰ کیا ہے کہ ( قرآن پاک میں ) ان دونوں کی فاکہیہ پر عطف کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فاکہہ کے غیر ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے وَفاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ [ الواقعة/ 20] اور میوے جس طرح کے ان کو پسند ہوں ۔ وَفاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ [ الواقعة/اور میوہ ہائے کثیر ( کے باغوں ) میں ۔ وَفاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس/ 31] اور میوے اور چارہ ۔ فَواكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ [ الصافات/ 42] ( یعنی میوے اور ان اعزاز کیا جائیگا ۔ وَفَواكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ المرسلات/ 42] اور میووں میں جوان کو مرغوب ہوں ۔ الفکاھۃ خوش طبعی کی باتیں خوش گئی ۔ اور آیت کریمہ : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ«1»اور تم باتیں بناتے رہ جاؤ گے ۔ میں بعض نے تفکھونکے معنی خوش طبعی کی باتیں بنانا لکھے ہیں اور بعض نے فروٹ تناول کرنا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فاكِهِينَ بِما آتاهُمْ رَبُّهُمْ [ الطور/ 18] جو کچھ ان کے پروردگار نے ان کو بخشا اس کی وجہ سے خوش حال ۔۔۔ میں فاکھین کی تفسیر میں بھی دونوں قول منقول ہیں ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٧۔ ٥٨) ان کے لیے جنت میں ہر طرح کے پھل ہوں گے اور جو کچھ وہاں مانگیں گے اور جس چیز کی خواہش کریں گے وہ انہیں ملے گی اور ان کو پروردگار مہربان کی طرف سے سلام فرمایا جائے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٧ { لَہُمْ فِیْہَا فَاکِہَۃٌ وَّلَہُمْ مَّا یَدَّعُوْنَ } ” اس میں ان کے لیے تمام میوے ہوں گے اور ان کے لیے ہر وہ شے ہوگی جو وہ طلب کریں گے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36:57) ولہم ما یدعون۔ وائو عاطفہ ہے ما مبتدا موخر ما موصولہ ہے۔ اور بعد کا جملہ اس کا صلہ ہے لہم خبر مقدم یدعون مضارع کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے ادعاء (افتعال) مصدر یدعون اصل میں ید تعیون تھا (بروزن یفتعلون) یا کا ضمہ ماقبل کر دے دیا یا اور وائو دو ساکن اکٹھے ہوگئے اجتماع ساکنین کی وجہ سے یا گرگئی تا کو دال سے بدلا اور دال کو دال میں مدغم کیا یدعون ہوگیا۔ الادعاء کے معنی کسی چیز کے متعلق دعوی کرنے کے ہیں کہ یہ میری ہے اور جنگ میں ادعاء کے معنی اپنے کو کسی کی طرف منسوب کرنے کے ہیں (کہ میں فلاں قوم سے ہوں یا فلاں کا بیٹا ہوں وغیرہ) ۔ یہاں یدعون بمعنی یدعون (افتعل بمعنی فعل استعمال ہوا ہے ) ای ما یدعون یاتیہم۔ جو چیز وہ اپنے لئے مانگیں گے ان کو ملے گی۔ یا یدعون بمعنی ادع علی ما شئت (اپنے لئے مجھ سے مانگ جو تجھے چاہیے) سے ماخوذ ہے یعنی جس چیز کی ان کو تمنا ہوگی وہ ان کو ملے گی۔ ای ما یدعون بمعنی ما یتمنونہ جس کی وہ تمنا کریں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مزید فرمایا (لَہُمْ فِیْہَا فَاکِہَۃٌ وَّلَہُمْ مَّا یَدَّعُوْنَ ) (اس میں ان کے لیے میوے ہوں گے اور جو کچھ طلب کریں گے انہیں وہ ملے گا) اس میں یہ بتادیا کہ اہل جنت کی جن نعمتوں کا صریح طور پر تذکرہ کردیا گیا ہے صرف انہی نعمتوں میں انحصار نہیں ہے، وہ لوگ وہاں جو کچھ بھی طلب کریں گے سب کچھ حاضر کردیا جائے گا۔ سورة الزخرف میں فرمایا (وَفِیْہَا مَا تَشْتَہِیْہِ الْاَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْاَعْیُنُ ) (اور اس میں وہ چیزیں ملیں گی جن کی ان کے نفسوں کو خواہش ہوگی اور جن سے آنکھوں کو لذت ہوگی۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(57) اہل جنت کیلئے اس جنت میں ہر قسم کے میوے ہوں گے اور وہ جو کھ مانگیں گے اور جس چیز کی وہ تمنا کریں گے وہ ان کو وہاں ملے گا اور میسر ہوگا۔ یعنی ہر چیز حسب طلب میسر ہوگی۔