Surat Yaseen
Surah: 36
Verse: 59
سورة يس
وَ امۡتَازُوا الۡیَوۡمَ اَیُّہَا الۡمُجۡرِمُوۡنَ ﴿۵۹﴾
[Then He will say], "But stand apart today, you criminals.
اے گناہ گارو ! آج تم الگ ہو جاؤ ۔
وَ امۡتَازُوا الۡیَوۡمَ اَیُّہَا الۡمُجۡرِمُوۡنَ ﴿۵۹﴾
[Then He will say], "But stand apart today, you criminals.
اے گناہ گارو ! آج تم الگ ہو جاؤ ۔
The Isolation of the Disbelievers and Their Rebuke on the Day of Resurrection Allah tells وَامْتَازُوا الْيَوْمَ أَيُّهَا الْمُجْرِمُونَ (It will be said): "And O you the criminals! Get you apart this Day." Allah tells us what the end of the disbelievers will be on the Day of Resurrection, when He commands them to get apart from the believers, i.e., to stand apart from the believers. This is like the Ayat: وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَكُواْ مَكَانَكُمْ أَنتُمْ وَشُرَكَأوُكُمْ فَزَيَّلْنَا بَيْنَهُمْ And the Day whereon We shall gather them all together, then We shall say to those who did set partners in worship with Us: "Stop at your place! You and your partners." Then We shall separate them. (10:28) وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يَوْمَيِذٍ يَتَفَرَّقُونَ And on the Day when the Hour will be established -- that Day shall they be separated. (30:14) يَوْمَيِذٍ يَصَّدَّعُونَ On that Day they shall be divided. (30:43) which means, they will be divided into two separate groups. احْشُرُواْ الَّذِينَ ظَلَمُواْ وَأَزْوَجَهُمْ وَمَا كَانُواْ يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَاهْدُوهُمْ إِلَى صِرَطِ الْجَحِيمِ (It will be said to the angels): "Assemble those who did wrong, together with their companions and what they used to worship, instead of Allah, and lead them on to the way of flaming Fire (Hell)." (37:22-23) أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي ادَمَ أَن لاَّ تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
نیک و بد علیحدہ علیحدہ کر دیئے جائیں گے ۔ فرماتا ہے کہ نیک کاروں سے بدکاروں کو چھانٹ دیا جائے گا ، کافروں سے کہدیا جائے گا کہ مومنوں سے دور ہو جاؤ ، پھر ہم ان میں امتیاز کر دیں گے انہیں الگ الگ کر دیں گے ۔ اسی طرح سورہ یونس میں ہے ( ترجمہ ) جس روز قیامت قائم ہو گی اس روز سب کے سب جدا جدا ہو جائیں گے ۔ یعنی ان کے دو گروہ بن جائیں گے ۔ سورہ و الصافات میں فرمان ہے ( اُحْشُرُوا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ 22ۙ ) 37- الصافات:22 ) یعنی ظالموں کو اور ان جیسوں کو اور ان کے جھوٹے معبودوں کو جنہیں وہ اللہ کے سوا پوجتے تھے جمع کرو اور انہیں جہنم کا راستہ دکھاؤ ۔ جنتیوں پر جو طرح طرح کی نوازشیں ہو رہی ہوں گی اس طرح جہنمیوں پر طرح طرح کی سختیاں ہو رہی ہوں گی انہیں بطور ڈانٹ ڈپٹ کے کہا جائے گا کہ کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا تھا کہ شیطان کی نہ ماننا ، وہ تمہارا دشمن ہے؟ لیکن اس پر بھی تم نے مجھ رحمان کی نافرمانی کی اور اس شیطان کی فرمانبرداری کی ۔ خالق مالک رازق میں اور فرمانبرداری کی جائے میرے راندہ درگاہ کی؟ میں تو کہہ چکا تھا کہ ایک میری ہی ماننا صرف مجھ ہی کو پوجنا مجھ تک پہنچنے کا سیدھا قریب کا اور سچا راستہ یہی ہے لیکن تم الٹے چلے ، یہاں بھی الٹے ہی جاؤ ، ان نیک بختوں کی اور تمہاری راہ الگ الگ ہے یہ جنتی ہیں تم جہنمی ہو ۔ جبلا سے مراد خلق کثیر بہت ساری مخلوق ہے لغت میں جبل بھی کہا جاتا ہے اور جبل بھی کہا جاتا ہے ، شیطان نے تم میں سے بکثرت لوگوں کو بہکا دیا اور صحیح راہ سے ہٹا دیا ، تم میں اتنی بھی عقل نہ تھی کہ تم اس کا فیصلہ کر سکتے کہ رحمان کی مانیں یا شیطان کی؟ اللہ کو پوجیں یا مخلوق کو؟ ابن جریر میں ہے قیامت کے دن اللہ کے حکم سے جہنم اپنی گردن نکالے گی جس میں سخت اندھیرا ہو گا اور بالکل ظاہر ہو گی وہ بھی کہے گی کہ اے انسانو! کیا اللہ تعالیٰ نے تم سے وعدہ نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی عبادت نہ کرنا ؟ وہ تمہارا ظاہری دشمن ہے اور میری عبادت کرنا یہ سیدھی راہ ہے ، اس نے تم میں سے اکثروں کو گمراہ کر دیا کیا تم سمجھتے نہ تھے؟ اے گنہگارو! آج تم جدا ہو جاؤ ۔ اس وقت نیک بدا الگ الگ ہو جائیں گے ، ہر ایک گھنٹوں کے بل گر پڑے گا ، ہر ایک کو اس کے نامہ اعمال کی طرف بلایا جائے گا ، آج ہی بدلے دیئے جاؤ گے جو کر کے آئے ہو ۔
59۔ 1 یعنی اہل ایمان سے الگ ہو کر کھڑے ہو۔ یعنی میدان محشر میں اہل ایمان و اطاعت اور اہل کفر و معصیت الگ الگ کردیئے جائیں گے، دوسرا مطلب یہ ہے کہ مجرمین کو ہی مختلف گروہوں میں الگ الگ کردیا جائے گا۔ مثلًا یہودیوں کا گروہ، عیسائیوں کا گروہ، صائبین اور مجوسیوں کا گروہ، زانیوں کا گروہ، شرابیوں کا گروہ وغیرہ وغیرہ۔
[ ٥٤] اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ دنیا میں مجرم اور فرمانبردار سب ملے جلے رہتے ہیں اور ایسا ہی ممکن ہے کہ باپ مجرم اور بیٹا اللہ کا فرمانبردار ہو اور وہ ایک ہی جگہ رہتے ہوں۔ وہاں یہ صورت نہیں ہوگی۔ نہ وہاں نسب کا لحاظ ہوگا۔ بلکہ مجرموں کو حکم دیا جائے گا کہ وہ اللہ کے فرمانبرداروں سے الگ ہوجائیں اور جن لوگوں کا وہ دنیا میں مذاق اڑایا کرتے تھے بچشم خود دیکھ لیں کہ آج ان کو کیسی کیسی نعمتیں اور آرام مہیا ہیں۔ اور دوسرا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اے گروہ مجرمین ! تم باہم مل کر نہ رہو۔ بلکہ الگ الگ کھڑے ہوجاؤ۔ کیونکہ تم سے انفرادی طور پر ٹھیک ٹھاک باز پرس ہونے والی ہے۔
وَامْتَازُوا الْيَوْمَ اَيُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ : جنتیوں کی ہر لحاظ سے تکریم اور رب رحیم کی طرف سے سلام کے ذکر کے بعد بتایا کہ جہنمیوں سے کیا کہا جائے گا، یعنی ان سے کہا جائے گا کہ اے مجرمو ! تم جنتیوں سے الگ ہوجاؤ۔ دنیا میں بیشک تم اکٹھے رہے، مگر آج تمہارا ان سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ چناچہ یہود و نصاریٰ ، مجوس اور مشرکین سب الگ ہوجائیں گے (دیکھیے یونس : ٢٨۔ روم : ١٤ تا ١٦) اور جو جس کی پرستش کرتا تھا اس کے پیچھے چلا جائے گا، صرف موحد باقی رہ جائیں گے۔ دیکھیے سورة قلم کی آیت (٤٢) (يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ ) کی تفسیر۔
In verse 59, it was said: وَامْتَازُوا الْيَوْمَ أَيُّهَا الْمُجْرِمُونَ (And get apart (from the believers) today 0 the guilty ones.- 36:59) On the plains of the Resurrection, initially when people rise from their graves, they will be scattered all mixed up as said in the Qur&an: كَأَنَّهُمْ جَرَادٌ مُّنتَشِرٌ- (kaannahum jaradum-muntashir: as if they are scattered locusts - Al-Qamar, 54:7). But, later on, group by group, they will be separated in terms of their deeds - disbelievers at one place and the believers, at another, and sinners at one place and the righteous and the accepted, at another - as it has been stated elsewhere: وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ (And when the persons will be divided into pairs- at-Takwir, 81:7) In the said verse, this same distinction to be made has been described.
(آیت) وامتاز وا الیوم ایھا المجرمون، میدان حشر میں اول جب لوگ اپنی قبروں سے اٹھیں گے تو سب گڈ مڈ منتشر ہوں گے، جیسا کہ قرآن میں فرمایا کانھم جواد منتشر، یعنی وہ منتشر ٹڈیوں کے دل کی طرح ہوں گے۔ مگر بعد میں ان کے گروہ گروہ اپنے اعمال کے اعتبار سے الگ کردیئے جائیں گے، کفار ایک جگہ مومن دوسری جگہ، فجار فساق الگ، صلحاء اور مقبول بندے الگ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا ہے (آیت) واذ النفوس زوجت یعنی جبکہ نفوس جوڑ جوڑ کردیئے جائیں گے۔ آیت مذکورہ میں بھی اسی امتیاز کا بیان ہے۔
وَامْتَازُوا الْيَوْمَ اَيُّہَا الْمُجْرِمُوْنَ ٥٩ ميز المَيْزُ والتَّمْيِيزُ : الفصل بين المتشابهات، يقال : مَازَهُ يَمِيزُهُ مَيْزاً ، ومَيَّزَهُ تَمْيِيزاً ، قال تعالی: لِيَمِيزَ اللَّهُ [ الأنفال/ 37] ، وقرئ : لِيَمِيزَ اللَّهُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ والتَّمْيِيزُ يقال تارة للفصل، وتارة للقوّة التي في الدّماغ، وبها تستنبط المعاني، ومنه يقال : فلان لا تمييز له، ويقال : انْمَازَ وامْتَازَ ، قال : وَامْتازُوا الْيَوْمَ [يس/ 59] وتَمَيَّزَ كذا مطاوعُ مَازَ. أي : انْفَصَلَ وانْقَطَعَ ، قال تعالی: تَكادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ [ الملک/ 8] . ( م ی ز ) المیر والتمیز کے معنی متشابہ اشیاء کو ایک دوسری سے الگ کرنے کے ہیں ۔ اور مازہ یمیزہ میزا ومیزاہ یمیزا دونوں ہم معنی ہیں چناچہ فرمایا ۔ لِيَمِيزَ اللَّهُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ تاکہ خدا ناپاک کو پاک سے الگ کر دے اور ایک قراءت میں لیمیز اللہ الخبیث ہے ۔ التمیز کے معنی الگ کرنا بھی آتے ہیں اور اس ذہنی قوت پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے فلان لا تمیز لہ فلاں میں قوت تمیز نہیں ہے ۔ انما ز اور امتاز کے معنی الگ ہونے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے :۔ وَامْتازُوا الْيَوْمَ [يس/ 59] اور آج الگ ہوجاؤ اور تمیز کذا ( تفعل ) ماز کا مطاوع آتا ہے اور اس کے معنی الگ اور منقطع ہونے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ تَكادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ [ الملک/ 8] گو یا مارے جوش کے پھٹ پڑے گی ۔ أيا أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء/ 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص/ 28] ( ا ی ی ) ای ۔ جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى } ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں { أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ } ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔ جرم أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] ، ( ج ر م ) الجرم ( ض) اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔
اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے کافرو آج کے دن علیحدہ ہوجاؤ چناچہ اللہ تعالیٰ ان کفار کو اہل ایمان سے جدا کردے گا۔
آیت ٥٩ { وَامْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّہَا الْمُجْرِمُوْنَ } ” اور (اعلان کیا جائے گا : ) اے مجرمو ! آج تم الگ ہو جائو۔ “ پھر تمام کافر اور مشرک لوگوں کو چھانٹ کر الگ کرلیا جائے گا اور انہیں مخاطب کر کے پوچھا جائے گا :
52 This can have two meanings:(1) "Get you apart from the righteous believer:, for in the world even if you belonged to the same community and the same clan and the same brotherhood, here you have no connection and relationship left with them;" and (2) "get you apart from one another: now you can no longer remain a group: all your parties have been disbanded: all your relations and connections have been severed. Now each of you will be held answerable in your personal capacity for your actions and deeds."
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :52 اس کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ مومنین صالحین سے الگ ہو جاؤ ، کیونکہ دنیا میں چاہے تم ان کی قوم اور ان کے کنبے اور برادری کے لوگ رہے ہو ، مگر یہاں اب تمہارا ان کا کوئی رشتہ باقی نہیں ہے ۔ اور دوسرا مفہوم یہ کہ تم آپس میں الگ الگ ہو جاؤ ۔ اب تمہارا کوئی جتھا قائم نہیں رہ سکتا ۔ تمہاری سب پارٹیاں توڑ دی گئیں ۔ تمہارے تمام رشتے اور تعلقات کاٹ دیے گئے ۔ تم میں سے ایک ایک شخص کو اب تنہا اپنی ذاتی حیثیت میں اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہو گی ۔
(36:59) امتازوا۔ امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر امتیاز (افتعال) مصدر، جس کے معنی الگ ہونے اور ممیز ہوجانے کے ہیں۔ تم الگ ہو جائو۔ یعنی اوپر جو اہل جنت اور ان کے انعامات کا ذکر ہے اب مجرموں سے مخاطب ہو کر فرمایا جا رہا ہے۔ اے مجرمو ! تم ادھر الگ آجائو۔ الیوم۔ آج۔ آج کے دن ۔ منصوب بوجہ مفعول ہے۔
ف 9 یعنی ان سے ہٹ کر کھڑے ہو تمہارا ان سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ یا ( آپس میں ایک دوسرے سے) الگ ہوجائو “۔ چناچہ یہود و نصاریٰ ، مجوس اور مشرک سب ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں گے۔ ( دیکھئے روم : 14، یونس 28)
فہم القرآن ربط کلام : جنتیوں کو جنت میں داخل کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کا جہنمیوں کو خطاب۔ محشر کے میدان میں جہنمیوں کو جنتیوں سے الگ کردیا جائے گا۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس موقعہ پر جہنمیوں کو ان کے جرائم کے مطابق گروہوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔ قرآن مجید کی دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اگلے مرحلے میں ہوگا۔ کیونکہ قرآن مجید کا سیاق وسباق بتلا رہا ہے کہ اس موقعہ پر تمام جہنمیوں کو اجتماعی خطاب ہوگا جس میں رب ذوالجلال انہیں وہ عہد یاد دلائیں گے جو عالم ارواح میں پوری بنی نوع انسان سے لیا تھا۔ ” اور جب آپ کے رب نے آدم کے بیٹوں سے ان کی پشتوں میں سے ان کی اولاد کو نکالا اور انہیں خود ان کی جانوں پر گواہ بنایا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ تو انہوں نے کہا کیوں نہیں ہم شہادت دیتے ہیں۔ کہ آپ ہمارے رب ہیں فرمایا ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن کہو کہ ہم اس عہد سے غافل تھے یا یہ کہو کہ شرک تو ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا نے کیا تھا اور ہم ان کے بعد آئے کیا ہمیں ان کی وجہ سے ہلاک کرتا ہے جو ان لوگوں نے کیا ؟ “ (الاعراف : ١٧٢، ١٧٣) (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أَخَذَ اللّٰہُ الْمِیثَاقَ مِنْ ظَہْرِ اٰدَمَ بِنَعْمَانَ یَعْنِی عَرَفَۃَ فَأَخْرَجَ مِنْ صُلْبِہٖ کُلَّ ذُرِّیَّۃٍ ذَرَأَہَا فَنَثَرَہُمْ بَیْنَ یَدَیْہٖ کَالذَّرِّ ثُمَّ کَلَّمَہُمْ قِبَلًا قَالَ أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوا بَلٰی شَہِدْنَا أَنْ تَقُولُوا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِنَّا کُنَّا عَنْ ہَذَا غَافِلِینَ أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَکَ آبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا ذُرِّیَّۃً مِنْ بَعْدِہِمْ أَفَتُہْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ )[ رواہ احمد : مسند عبداللہ بن عباس (رض) ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے عرفہ کے مقام پر آدم اور اس کی اولاد سے وعدہ لیا۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی پشت سے تمام اولاد نکالی جس کو پیدا فرمانا تھا۔ انھیں اپنے سامنے چیونٹیوں کی طرح پھیلایا پھر ان سے کلام فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ ہم اس کی گواہی دیتے ہیں۔ اب قیامت کے دن یہ نہ کہنا کہ ہم تو اس سے غافل تھے یا تم کہو شرک تو ہمارے آباؤ اجداد نے کیا تھا اور ہم ان کی اولاد تھے۔ کیا تو ہمیں باطل کام کرنے والوں کی وجہ سے ہلاک کرتا ہے۔ مسائل ١۔ اسرافیل کے دوسری مرتبہ صور پھونکنے کے ساتھ ہی محشر کے دن کا آغاز ہوجائے گا۔ ٢۔ قیامت کے منکر اس دن اپنے آپ پر افسوس کا اظہار کریں گے۔ تفسیر بالقرآن صراط مستقیم کا تعارف : ١۔ اللہ تعالیٰ میرا اور تمہارا رب ہے۔ تم اسی کی عبادت کرو یہی صراط مستقیم ہے۔ ( مریم : ٣٦) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی جماعت کو چن لیا اور ان کو صراط مستقیم کی ہدایت دی۔ (الانعام : ٨٧) ٣۔ اللہ کی عبادت کرو یہی سیدھا راستہ ہے۔ (یٰسٓ: ٦١) ٤۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر بیخبر ہیں۔ (الروم : ٤٠) ٥۔ اللہ کی خالص عبادت کرنا صراط مستقیم پر گامزن ہونا ہے۔ (آل عمران : ٥١) ٦۔ اللہ کے پاس قیامت کا علم ہے اس میں شک نہیں کرنا چاہیے یہی صراط مستقیم ہے۔ (الزخرف : ٦٨) ٧۔ یقیناً اللہ میرا اور تمہارا پروردگار ہے۔ اسی کی عبادت کرو یہی صراط مستقیم ہے۔ (الزخرف : ٦٤) ٨۔ آپ اسے مضبوطی سے پکڑ لیں جو آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے یہی صراط مستقیم ہے۔ (الزخرف : ٣ ٤) ٩۔ اے اللہ ہمیں صراط مستقیم دکھا۔ ( الفاتحہ : ٦) ١٠۔ اللہ تعالیٰ ہی ایمان والوں کو صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔ (الحج : ٥٤) ١١۔ صراط مستقیم کے سنگ میل۔ (الانعام : ١٥١ تا ١٥٣) ١٢۔ ہر کسی کو صراط مستقیم کی ہی دعوت دینا چاہیے۔ ( الانعام : ١٥٣) ١٣۔ اللہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ : ١٤٢) ١٤۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے ساتھ تمّسک کا نتیجہ صراط مستقیم ہے۔ (آل عمران : ١٠١)
وامتاز والیوم ایھا۔۔۔۔ بما کنتم تکفرون (59 – 64) “۔ ان لوگوں کی تواضع حقارت اور توہین سے کی جائے گی۔ وامتازوالیوم ایھا المجرمون (36: 59) ” اور اے مجرمو ، آج تم چھٹ کر الگ ہو جاؤ “۔ تم اہل ایمان سے دور ہو کر الگ ہوجاؤ۔ الم اعھد۔۔۔۔ عدو مبین (36: 60) ” آدم کے بچو ، کیا میں نے تم کو ہدایت نہ کی تھی کہ شیطان کی بندگی نہ کرو ، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے “۔ ” آدم کے بچو ! “ کے الفاظ سے پکار کر ان کو شرمندہ کیا گیا ہے ، اس لیے کہ شیطان نے ان کے باپ کو جنت سے نکالا تھا ، اس کے باوجود تم اس کی بندگی کرتے ہو حالانکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وانہ اعبدونی ۔۔۔ مستقیم (36: 61) ” میری بندگی کرو ، یہ سیدھا راستہ ہے “۔ یہ راستہ مجھ تک پہنچانے والا ہے اور اس پر چلنے سے میری رضا مندی حاصل ہوتی ہے۔ تم اس دشمن سے نہ ڈرے جس نے تمہاری نسلوں اور گروہوں کو گمراہ کر دیا افلم تکونوا تعقلون (36: 62) ” کیا تم عقل نہیں رکھتے تھے “۔ اور اس موقع پر ان کو دی جانے والی سزا یہاں سنا دی جاتی ہے جو نہایت ہی دردناک ہے۔ اور یہ فیصلہ بھی سختی اور سرزنش کے انداز میں سنایا جاتا ہے۔ ھذا جھنم۔۔۔۔ تکفرون (36: 63 – 64) ” یہ وہی جہنم ہے جس سے تم کو ڈرایا جاتا رہا تھ ، جو کفر تم دنیا میں کرتے رہے ہو اس کی پاداش میں اب اس کا ایندھن بنو “۔ یہ پیشی یہاں ختم ہوجاتی اور اس کی بساط کو لپیٹ نہیں لیا جاتا بلکہ اس موضوع پر بات چیت جاری ہے اور ایک نیا منظر ہمارے سامنے آتا ہے۔
مجرمین سے خطاب اور ان کے عذاب کا تذکرہ اہل جنت کا اکرام اور انعام بیان فرمانے کے بعد اہل دوزخ کی تباہی اور بربادی کو بیان فرمایا جو قیامت کے دن ان کے سامنے آئے گی۔ اول تو یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ان سے خطاب ہوگا کہ اے مجرمو ! آج تم علیحدہ ہوجاؤ، دنیا میں تم اہل ایمان کے ساتھ ملے جلے رہتے تھے اور قبروں سے نکل کر بھی میدان حشر میں اکٹھے جمع ہوئے ہو اب تم ان سے علیحدہ ہوجاؤ کیونکہ ان کو جنت میں جانا ہے اور تم کو دوزخ میں جانا ہے۔ (یہ آیت بہت زیادہ فکر مند بنانے والی ہے، حضرت امام ابوحنیفہ (رض) ایک مرتبہ پوری رات نفل نماز میں کھڑے رہے اور اسی آیت مبارکہ کو پڑھتے رہے) اس میں فکر کی بات یہ ہے کہ جس وقت یہ حکم ہوگا اس وقت میں کن لوگوں میں ہوں گا مجرمین میں ہوں گا یا مومنین میں۔ کافروں سے یہ خطاب بھی ہوگا (اَلَمْ اَعْہَدْ اِِلَیْکُمْ ) (الآیۃ) اے آدم کی اولاد کیا میں نے تمہیں یہ تاکید نہیں کی تھی کہ شیطان کی عبادت مت کرنا یعنی اس کی فرمانبرداری مت کرنا اور اس کے کہنے کے مطابق عمل نہ کرنا، بیشک وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے اور تمہیں تاکید کی تھی کہ میری عبادت کرنا یہ سیدھا راستہ ہے (تم اس سیدھے راستہ سے ہٹ گئے) (وَلَقَدْ اَضَلَّ مِنْکُمْ ) (الآیۃ) اور یہ بات واقعی ہے کہ شیطان نے تم میں سے کثیر مخلوق کو گمراہ کردیا، کیا تم سمجھ نہیں رکھتے تھے۔ (اب اس گمراہی کا بدلہ ملے گا۔ ) (ھٰذِہٖ جَہَنَّمُ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ ) یہ جہنم ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ (اِصْلَوْھَا الْیَوْمَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ ) (آج اس میں داخل ہوجاؤ اس وجہ سے کہ تم کفر کرتے تھے۔ )
36:۔ وامتازو الخ :۔ یہ اہل جنت کے مقابلے میں اہل جہنم کا ذکر ہے اور تخویف اخروی ہے۔ میدان حشر میں کفار و مشرکین کو علی رؤوس الخلائق حکم ہوگا اے مجرمو ! نیک لوگوں سے الگ ہوجاؤ اور ایک طرف اپنی صفیں بنا لو۔ الم اعہد الخ، کفار و مشرکین کی حسرت و ندامت میں اضافہ کرنے کے لیے ان سے کہا جائے گا۔ اے اولادِ آدم ! کیا میں نے اپنے پیغمبروں کی وساطت سے تمہیں یہ پیغام نہیں دیا تھا کہ شیطان کی پیروی نہ کرنا اور اس کے فریب میں آ کر میرے ساتھ شرک نہ کرنا۔ کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور صرف میری ہی عبادت کرنا اور میری عبادت اور پکار میں کسی کو شریک نہ کرنا اور کسی کو میرے یہاں شفیع غالب نہ سمجھنا۔ اعبدونی وحدونی واطیعونی (مدارک ج 4 ص 9) ۔ ھذا صراط مستقیم، یعنی شیطان کے اغوا میں آ کر غیر اللہ کی عبادت نہ کرنا اور صرف اللہ کی عبادت کرنا یہی صراط مستقیم (سیدھی راہ) ہے جس پر تمام انبیاء (علیہم السلام) کو گامزن رہنے کا حکم دیا گیا۔ ای عبادتہ تعالیی اذا لم تنفرو عن عبادۃ غیرہ سبحانہ لا تسمی صراطا مستقیما (روح جلد 23 ص 40) ۔
(59) اور اے مجرمو ! تم آج کے دن جدا ہو جائو۔ یعنی میدان محشر میں جب مومنین کو جنت میں داخل کرنے کا حکم ہوگا تو گناہگاروں کو حکم دیا جائے گا کہ تم الگ ہو جائو آج کے دن اے مجرمو ! یعنی مومنین سے الگ ہو جائو کیونکہ ان کو جنت میں بھیجنا ہے اور تمہارا ٹھکانا دوزخ ہے۔