Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 6

سورة يس

لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اُنۡذِرَ اٰبَآؤُہُمۡ فَہُمۡ غٰفِلُوۡنَ ﴿۶﴾

That you may warn a people whose forefathers were not warned, so they are unaware.

تاکہ آپ ایسے لوگوں کو ڈرائیں جن کے باپ دادےنہیں ڈرائے گئے تھے سو ( اسی وجہ سے ) یہ غافل ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

In order that you may warn a people whose forefathers were not warned, so they are heedless. This refers to the Arabs, for no warner had come to them before him. The fact that they alone are mentioned does not mean that others are excluded, just as mentioning some individuals does not mean that all others are excluded. We have already mentioned the Ayat and Mutawatir Hadiths which state that the mission of the Prophet is universal, when we discussed the meaning of the Ayah: قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (Say: "O mankind! Verily, I am sent to you all as the Messenger of Allah.") (7:158)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول اس لئے بنایا ہے اور یہ کتاب اس لئے نازل کی ہے تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قوم کو ڈرائیں جن میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا، اس لئے ایک مدت سے یہ لوگ دین حق سے بیخبر ہیں۔ یہ مضمون پہلے بھی کئی جگہ گزر چکا ہے کہ عربوں میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے براہ راست کوئی نبی نہیں آیا۔ یہاں بھی اس چیز کو بیان کیا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٥] مکہ میں شعیب کے دو ہزار سال بعد آپ مبعوث ہوئے :۔ اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں اور دونوں ہی درست ہیں۔ مَااُنْذِرَمیں اگر ما کو نافیہ سمجھا جائے جیسا کہ اس کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ چونکہ ان کی طرف کوئی نبی نہیں آیا لہذا یہ لوگ گہری غفلت اور جہالت میں پڑے ہوئے ہیں اور اگر ما کو موصولہ سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کے قدیمی آباء و اجداد مدتوں پہلے جس چیز سے ڈرائے گئے تھے اسی چیز سے آپ ان کو ڈرائیں۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ سیدنا ابراہیم، سیدنا اسماعیل اور سیدنا شعیب انہی کے آباء و اجداد کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور آخری نبی شعیب تھے انہیں بھی دو ہزار سال کا عرصہ گزر چکا تھا اور اتنی مدت بعد رسول اللہ ان کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ خ آپ کی بعثت سے پہلے عرب کی حالت :۔ اور یہ اس طویل مدت کا ہی اثر تھا کہ یہ لوگ انتہائی جہالت اور غفلت میں پڑے ہوئے تھے۔ ان کے عادات و خصائل سخت بگڑ چکے تھے۔ شرک اس قدر عام تھا کہ کعبہ کے اندر تین سو ساٹھ بت موجود تھے اور ہر قبیلہ کا الگ الگ بت بھی موجود تھا۔ ان میں اکثر لوگوں کا پیشہ لوٹ مار اور رہزنی تھا۔ شراب کے سخت رسیا تھے۔ فحاشی اور بےحیائی عام تھی۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑے کھڑے کردینا ان کا معمول تھا۔ پھر ان کے قبائلی نظام کی وجہ سے قبیلوں میں ایسی جنگوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا جو ختم ہونے میں آتا ہی نہ تھا۔ غرض ہر لحاظ سے یہ قوم ایک اجڈ، تہذیب سے ناآشنا اور ایک ناتراشیدہ اور اکھڑ قوم تھی جس کی اصلاح و ہدایت کے لئے آپ کو مبعوث فرمایا گیا تھا۔ اسی صورت حال سے اس بات کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ آپ کی یہ ذمہ داری کس قدر سخت اور عظیم تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَاۗؤُهُمْ : یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس لیے رسول بنایا اور یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ آپ اس قوم کو ڈرائیں جس میں اس سے پہلے کوئی نبی نہیں آیا، اس لیے وہ دین حق سے بیخبر ہیں۔ یہی مضمون سورة سجدہ (٤) میں ملاحظہ فرمائیں۔ ابن کثیر نے فرمایا کہ ” لِتُنْذِرَ قَوْمًا “ میں قوم سے مراد عرب ہیں، جن کے آباء کو ڈرایا نہیں گیا، مگر اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف عرب ہی کے لیے بھیجے گئے تھے۔ اس کا جواب ابن کثیر نے یہ دیا ہے کہ اکیلے عرب کے ذکر سے دوسری اقوام کی طرف مبعوث ہونے کی نفی نہیں ہوتی، جس طرح بعض افراد کے ذکر سے عموم کی نفی نہیں ہوتی۔ یہاں بہت سی آیات اور متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ آپ تمام اقوام کی طرف مبعوث ہیں اور آپ کی بعثت قیامت تک کے لیے ہے۔ دیکھیے سورة اعراف (١٥٧) اور سورة سبا (٢٨) مفسر سلیمان الجمل نے فرمایا : ” لِتُنْذِرَ قَوْمًا “ سے مراد عرب اور غیر عرب تمام اقوام ہیں اور ” اٰبَاۗؤُهُمْ “ سے مراد قریب کے آباء ہیں، یعنی قریب زمانے میں نہ عرب کی طرف کوئی نبی آیا نہ غیر عرب کی طرف۔ ہاں بعید زمانے میں عرب کی طرف اسماعیل، ہود، صالح اور شعیب (علیہ السلام) مبعوث ہوئے اور غیر عرب کی طرف سب سے آخر میں عیسیٰ (علیہ السلام) مبعوث ہوئے، جن کی بعثت کو تقریباً چھ سو برس گزر چکے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے زمانے کے تمام لوگوں کی طرف مبعوث ہیں، خواہ عرب ہو یا عجم، کیونکہ ان کے قریب آباء کی طرف کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا۔ انبیاء کی آمد پر مدت دراز گزرنے کی وجہ سے یہ سب لوگ اصل دین سے بیخبر ہیں۔ “ یہ تفسیر بھی بہت عمدہ ہے۔ اس پر وہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا جو ابن کثیر (رض) کی تفسیر پر وارد ہوتا ہے۔ ایک اور سوال یہ ہے کہ زمانۂ فترت (جس میں کوئی رسول نہیں آیا) کے لوگوں کو شرک اور گمراہی کی وجہ سے عذاب کیوں ہوگا، جب کہ اللہ تعالیٰ کا قاعدہ ہے : (وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا) [ بني إسرائیل : ١٥ ] ” اور ہم کبھی عذاب دینے والے نہیں، یہاں تک کہ کوئی پیغام پہنچانے والا بھیجیں۔ “ جواب اس کا سورة بنی اسرائیل میں اسی مذکورہ بالا آیت (١٥) کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The word: آباء (fathers) in verse 6: لِتُنذِرَ‌ قَوْمًا مَّا أُنذِرَ‌ آبَاؤُهُمْ (so that you may warn a people whose fathers were not warned) means the Arabs. The sense is that no warner, that is, a prophet, has come to their ancestors since a long time, the reference being to the ones nearer among them. Since the coming of their patriarch, Sayyidna Ibrahim علیہ السلام and with him, Sayyidna Isma&il (علیہ السلام) no prophet had appeared among the Arabs for several centuries, even though, the work of calling people to the true faith with warnings and glad tidings kept going on as mentioned in the verse of the Qur&an:& وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ‌ (and there was no community without a warner having passed among them - 35:24) also confirms the same truth - that Divine mercy has never kept any nation or community deprived of the essential call and warning at any time and in any region. But, it is obvious that teachings of prophets when communicated by their deputies do not bring about the same effect as it is witnessed when the prophets do it in person. Therefore, in the present verse, it was said about the Arabs that no warner came to them. As fall out of this situation, there was no regular system of education in Arabia where people could learn and teach which was why they came to be called: أُمِّيِّينَ (ummiyyun: the unlettered ones).

(آیت) لتنذر قوماً ما انذر اباؤہم، مراد اس سے عرب ہیں۔ معنی یہ ہیں کہ ان کے آباء و اجداد میں کوئی نذیر یعنی پیغمبر عرصہ دراز سے نہیں آیا۔ اور آباء و اجداد سے مراد قریبی آباء و اجداد ہیں، ان کے جد اعلیٰ حضرت ابراہیم اور ان کے ساتھ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد کتنی صدیوں سے عرب میں کوئی پیغمبر نہیں آیا تھا۔ اگرچہ دعوت و تبلیغ اور انذار وتبشیر کا سلسلہ برابر جاری رہا جس کا ذکر قرآن کریم کی آیت میں بھی ہے جو خلاصہ تفسیر میں آ چکی ہے اور آیت (آیت) ان من امة الا خلا فیہا نذیر کا بھی یہی مقتضی ہے کہ رحمت خداوندی نے کسی قوم و ملت کو دعوت و انذار سے کسی زمانے اور کسی خطہ میں محروم نہیں رکھا۔ مگر یہ ظاہر ہے کہ انبیاء کی تعلیمات ان کے نائبوں کے ذریعہ پہنچنا وہ اثر نہیں رکھتا جو خود نبی یا پیغمبر کی دعوت وتعلیم کا ہوتا ہے۔ اس لئے آیت مذکورہ میں عربوں کے متعلق یہ فرمایا گیا کہ ان میں کوئی نذیر نہیں آیا۔ اسی کا یہ اثر تھا کہ عرب میں عام طور پر پڑھنے پڑھانے اور تعلیم کا کوئی مستحکم نظام نہیں تھا، اسی وجہ سے ان کا لقب امین ہوا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَاۗؤُہُمْ فَہُمْ غٰفِلُوْنَ۝ ٦ نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] أب الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب/ 6] ( اب و ) الاب ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ { النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ } [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔ غفل الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق/ 22] ( غ ف ل ) الغفلتہ ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق/ 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦ { لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَآؤُہُمْ فَہُمْ غٰفِلُوْنَ } ” تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خبردار کردیں اس قوم کو جن کے آباء و اَجداد کو خبردار نہیں کیا گیا ‘ پس وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ “ یہ مضمون اس سے پہلے سورة السجدۃ کی آیت ٣ میں بھی آچکا ہے۔ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے چونکہ اس قوم میں کوئی نبی یا رسول نہیں آیا ‘ اس لیے نہ تو انہیں نبوت و رسالت کے بارے میں کچھ معلوم ہے اور نہ وہ کتاب و شریعت سے واقف ہیں۔ یہاں پر فَہُمْ غٰفِلُوْنَ کے الفاظ میں رعایت کا انداز بھی پایا جاتا ہے ‘ یعنی چونکہ اس قوم میں اس سے پہلے نہ تو کوئی پیغمبر آیا ہے اور نہ ہی کوئی الہامی کتاب ان لوگوں تک پہنچی ہے اس لیے ان کا ” غافل “ ہونا بالکل قرین قیاس تھا۔ لیکن اب جبکہ ان میں پیغمبر بھی مبعوث ہوچکا ہے اور ایک حکمت بھری کتاب کی آیات بھی ان تک پہنچ چکی ہیں تو اس کے بعد ان کی گمراہی کا کوئی جواز نہیں۔ لیکن یہ لوگ ہیں کہ اب بھی گمراہی سے چمٹے ہوئے ہیں اور چونکہ انہوں نے ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو ٹھکرا دیا ہے اس لیے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

4 Another translation can be: "You should warn the people of the same of which their forefathers had been warned, because they live in heedlessness." if the first meaning, as given above in the text, is taken, the forefathers would imply the forefathers of the immediate past, for in the ancient time several Prophets had appeared in Arabia. And if the second meaning is adopted, it would imply this: Revive and refresh the message that had been conveyed to the forefathers of this nation y the Prophets in the past, for these people have forgotten it." Obviously, there s no contradiction between the two translations, and, as to meaning, each is correct in its own place! A doubt may rise here: How could the forefathers of a nation to whom no warner had been sent at a particular time in the past, be held responsible for their deviation at that time? The nswer is: When Allah sends a Prophet in the world, the influence of his message and teaching spreads far and wide, and is handed down by one generation to the other. As long as this influence remains and there continue arising among the followers of the Prophet such people as keep his message of guidance fresh, the period pf time cannot be said to be without the guidance. And when the influence of the Prophet's teaching dies out, or the teaching is tampered with, the appointment of another Prophet becomes inevitable. Before the advent of the Holy Prophet the influence of the teachings of the Prophets Abraham, Ishmael, Shu'aib and Moses and Jesus (peace be upon all of them i could be seen everywhere in Arabia and from time to time there had been arising among the Arabs, or coming from outside, men, who revived their teachings. When the influence was about to die out, and the real teaching was also distorted, AIlah raised the Prophet Muhammad, and made such arrangements that his message can neither be wiped out nor tampered with. (For further explanation, see E N. 5 of Surah Saba above).

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :4 اس آیت کے دو ترجمے ممکن ہیں ۔ ایک وہ جو اوپر متن میں کیا گیا ہے ۔ دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم ڈراؤ ایک قوم کے لوگوں کو اسی بات سے جس سے ان کے باپ دادا ڈرائے گئے تھے ، کیونکہ وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ پہلا مطلب اگر لیا جائے تو باپ دادا سے مراد زمانۂ قریب کے باپ دادا ہوں گے ، کیونکہ زمانۂ بعید میں تو عرب کی سر زمین میں متعدد انبیاء آچکے تھے اور دوسرا مطلب اختیار کرنے کی صورت میں مراد یہ ہو گی کہ قدیم زمانے میں جو پیغام انبیاء کے ذریعہ سے اس قوم کے آباؤ اجداد کے پاس آیا تھا اس کی اب پھر تجدید کرو ، کیونکہ یہ لوگ اسے فراموش کر گئے ہیں ۔ اس لحاظ سے دونوں ترجموں میں درحقیقت کوئی تضاد نہیں ہے اور معنی کے لحاظ سے دونوں اپنی اپنی جگہ درست ہیں ۔ اس مقام پر یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قوم کے اسلاف پر جو زمانہ ایسا گزرا تھا جس میں کوئی خبردار کرنے والا ان کے پاس نہیں آیا ، اس زمانے میں اپنی گمراہی کے وہ کس طرح ذمہ دار ہو سکتے تھے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کوئی نبی دنیا میں بھیجتا ہے تو اس کی تعلیم و ہدایت کے اثرات دور دور تک پھیلتے ہیں اور نسلاً بعد نسلٍ چلتے رہتے ہیں ۔ یہ آثار جب تک باقی رہیں اور نبی کے پیروؤں میں جب تک ایسے لوگ اٹھتے رہیں جو ہدایت کی شمع روشن کرنے والے ہوں ، اس وقت تک زمانے کو ہدایت سے خالی نہیں قرار دیا جا سکتا ۔ اور جب اس نبی کی تعلیم کے اثرات بالکل مٹ جائیں یا ان میں مکمل تحریف ہو جائے تو دوسرے نبی کی بعثت ناگزیر ہو جاتی ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب میں حضرت ابراہیم و اسماعیل اور حضرت شعیب اور حضرت موسیٰ علیہم السلام کی تعلیم کے اثرات ہر طرف پھیلے ہوئے تھے اور وقتاً فوقتاً ایسے لوگ اس قوم میں اٹھتے رہے تھے ، یا باہر سے آتے رہے تھے جو ان اثرات کو تازہ کرتے رہتے تھے ۔ جب یہ اثرات مٹنے کے قریب ہو گئے اور اصل تعلیم میں بھی تحریف ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور ایسا انتظام فرمایا کہ آپ کی ہدایت کے آثار نہ مٹ سکتے ہیں اور نہ محرف ہو سکتے ہیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، سورۃ سبا ، حاشیہ نمبر 5 )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: یعنی مکہ مکرمہ اور اس کے اطراف میں مدت سے کوئی پیغمبر نہیں آیا تھا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

36:6 لتنذر۔ لام تعلیل کا ہے۔ تنذر واحد مذکر حاضر (منصوب بوجہ عمل لام) تاکہ تو ڈرائے۔ اس کا تعلق یا تنزیل سے ہے یعنی یہ قرآن اس لئے نازل ہوا ہے کہ آپ ڈرائیں۔ یا اس کا تعلق لمن المرسلین کے مفہوم سے ہے یعنی ہم نے آپ کو اس لئے بھیجا ہے تاکہ تو ڈرائے۔ ما انذر۔ انذر ماضی مجہول واحد مذکر غائب انذار (افعال) مصدر وہ ڈرایا گیا۔ ما کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) ما نافیہ ہے اور ما انذر اباء ہم کے معنی ہوں گے جن کے باپ دادا کو نہیں ڈرایا گیا۔ (2) یہ موصولہ ہے بمعنی جس چیز (عذاب الٰہی، عذاب آخرت، تباہی وغیرہ) سے ڈرانے کے لئے ان کے آبائو اجداد کے پاس پیغمبروں کو بھیجا گیا تھا۔ اس عذاب سے ڈرانے کے لئے آپ کو ان کے پاس بھیجا گیا ہے۔ (3) یہ مصدریہ ہے یعنی جیسے ان کے آبائو اجداد کو ڈرایا گیا تھا ویسے آپ سن کو ڈرائیں ما کا نافیہ ہونا زیادہ صحیح ہے کیونکہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد مکہ میں کوئی پیغمبر مبعوث نہیں ہوا تھا۔ اس لئے مکہ والوں کو پیغمبر کی ضرورت زیادہ تھی۔ فہم غافلون۔ میں فاء ترتیب کا ہے۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب کی دو صورتیں ہیں۔ (1) اگر ما نافیہ لیا جائے تو ضمیر کا مرجع اباء ہم ہوگا۔ (2) ما کی دوسری صورتوں کے مدنظر فہم غفلون کا تعلق لتنذر سے ہوگا۔ تاکہ تو اس قوم کو ڈرائے اس چیز سے کہ جس سے ان کے ابا و اجداد کو ڈرایا گیا تھا۔ کیونکہ وہ اس سے غافل ہیں۔ فہم غافلون متعلق نبفحی الا نذار علی الوجہ الاول : ای لم ینذر اباء ہم فہم بسبب ذلک غفلون۔ وعلی الوجوہ الاخرۃ متعلق بقولہ تعالیٰ لتنذر ای فہم غافلون عما انذرنا بہ اباء ہم (شو کافی) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 باپ دادا سے مراد قریب کے باپ دادا ہیں کیونکہ عربوں میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کے بعد کوئی پیغمبر نہیں آیا تھا۔ یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جب ماانذر میں ما کو نافیہ قرار دیا جائے اور اگر اسے موصولہ بمعنی جو مان لیا جائے تو ترجمہ یہ ہوگا اس لئے کہ تو عرب کے ان لوگوں کو ڈرائے جن کے باپ دادا ڈرائے گئے تھے کیونکہ وہ دین کی باتوں سے غافل ہوچکے تھے۔ اس صورت میں آباء سے مراد قدیم آباء ہونگے جن کی طرف حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کی بعثت ہوئی۔ ( تنبیہ) قرآن کی دوسری آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سب کے لئے عام تھی اور صحیح احادیث میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ میری نبوت عام ہے۔ پس یہاں لتنذر قوما کی تخصیص محض قریش کے جواب میں ہے۔ ( ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَآؤُھُمْ ) آپ کو جو نبوت سے نوازا گیا ہے اور آپ پر جو قرآن مجید نازل کیا گیا ہے یہ اس لیے ہے کہ آپ ان لوگوں کو ڈرائیں جن کے باپ دادوں کو نہیں ڈرایا گیا یعنی آپ کے اولین مخاطب اہل مکہ ہیں ماضی قریب میں ان کے پاس کوئی نبی نہیں آیا جو انہیں ڈراتا، یوں تو یہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد ہیں انہوں نے انہیں دین حق کی تبلیغ کی تھی، توحید سمجھائی تھی، شرک سے بچنے کی تاکید کی تھی لیکن بعد میں یہ لوگ کفر اور شرک پر لگ گئے۔ (ھذا اذا کانت مانافیہ کما ھو المتبادر وقال ابن عطیۃ یحتمل ان تکون ما مصدریۃ تکون نعتًا لمصدرٍ مؤکد ای لتنذر قومًا انذارًا مثل انذار الرسول اٰباءھم الابعدین) (یہ اس وقت ہے جب ما نافیہ ہو جیسا کہ ظاہر ہے اور ابن عطیہ نے کہا ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہو کہ مصدر موکد کی صفت ہو یعنی تاکہ آپ قوم کو ڈرائیں جیسا کہ ان کے دور کے آباء کو رسولوں نے ڈرایا۔ ) (فَھُمْ غٰفِلُوْنَ ) (سو یہ لوگ غافل ہیں) ان کے باپ دادوں کو ڈرانے کے لیے کوئی نبی نہیں بھیجا گیا لہٰذا وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اب آپ ان کو ڈرائیے اور سمجھایئے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

3:۔ لتنذر الخ : یہ المرسلین سے متعلق ہے آپ کو اس لیے بھیجا گیا ہے تاکہ آپ ایک ایسی قوم کو ڈرائیں جن کے باپ دادا کے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا اور وہ تعلیمات الٰہیہ سے بیخبر ہیں۔ مراد مشرکین عرب ہیں۔ حضرت اسمعیل (علیہ السلام) کے بعد ان میں کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا۔ جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد فرمایا لتنذر قوما ما اتھم من نذیر من قبلک حیث لم یبعث بمکۃ نبی بعد اسماعیل (علیہ السلام) فھم اشدا احیتاجا الی الرسالۃ من غیرہم (مظہری ج 8 ص 6) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(6) آپ کو پیغمبر اس لئے بنایا اور یہ قرآن حکیم آپ پر اس لئے نازل کیا تاکہ آپ اس قوم کو اور ان لوگوں کو ڈرائیں جن کے باپ دادا عرصہ سے نہیں ڈرائے گئے سو اسی وجہ سے وہ غافل اور بیخبر ہیں۔ یعنی عرب میں عرصہ سے کوئی مستقل نبی نہیں آیا اگرچہ حضرت ابراہیم اور اسماعیل (علیہم السلام) کے زمانے کے احکام تشریعی موجود تھے لیکن مردرزمانہ کی وجہ ان میں تحریف و تغیر ہوچکی تھی اور چونکہ آپ کی بعثت عام تھی اس لئے فرمایا لتنذرقوما ما انذر ابائوھم