Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 62

سورة يس

وَ لَقَدۡ اَضَلَّ مِنۡکُمۡ جِبِلًّا کَثِیۡرًا ؕ اَفَلَمۡ تَکُوۡنُوۡا تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۶۲﴾

And he had already led astray from among you much of creation, so did you not use reason?

شیطان نےتو تم میں سے بہت ساری مخلوق کو بہکا دیا ۔ کیا تم عقل نہیں رکھتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says: وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنكُمْ جِبِلًّ كَثِيرًا ... And indeed he did lead astray a great multitude of you. meaning, a large number of people. This was the view of Mujahid, Qatadah, As-Suddi and Sufyan bin Uyaynah. ... أَفَلَمْ تَكُونُوا تَعْقِلُونَ Did you not then understand! means, `did you not have any understanding, when you went against the command of your Lord to worship Him alone, with no partner or associate, and you preferred to follow the Shaytan?'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

62۔ 1 یعنی اتنی عقل بھی تمہارے اندر نہیں کہ شیطان تمہارا دشمن ہے، اس کی اطاعت نہیں کرنی چاہئے۔ اور میں تمہارا رب ہوں، میں ہی تمہیں روزی دیتا ہوں اور میں ہی تمہاری رات دن حفاظت کرتا ہوں لہذا تمہیں میری نافرمانی نہیں کرنی چاہیے۔ تم شیطان کی عداوت کو اور میرے حق عبادت کو نہ سمجھ کر نہایت بےعقلی اور نادانی کا مظاہرہ کر رہے ہو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٥٧] باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام بنی آدم سے عہد لیا تھا، اور یہ عہد ألَسْتُ بِرَبِّکُمْتھا، پھر اللہ نے سمجھنے سوچنے کے لئے تمہیں عقل بھی دی تھی، پھر اللہ تعالیٰ اس عہد کی یاددہانی کے لئے اپنے رسول اور کتابیں بھی بھیجتا رہا پھر یہی شیطان بنی آدم کی ایک کثیر تعداد کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ لہذا اے عہد فراموش مجرمو ! تم نے اپنی عقل سے کچھ بھی کام نہ لیا تو اب اس کا نتیجہ تمہارے سامنے ہے۔ جہنم تمہاری منتظر ہے۔ رسولوں کی دعوت سے انکار اور ضد کی سزا یہی ہے کہ اب اس جہنم میں داخل ہوجاؤ۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَفَلَمْ تَكُوْنُوْا تَـعْقِلُوْنَ : یعنی کیا تم اتنی عقل نہ رکھتے تھے کہ جب شیطان تمہارا دشمن تھا تو تم اس کے بتائے ہوئے راستے پر نہ چلتے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيْرًا۝ ٠ ۭ اَفَلَمْ تَكُوْنُوْا تَـعْقِلُوْنَ۝ ٦٢ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ جبلت وجَبَلَهُ اللہ علی كذا، إشارة إلى ما رّكب فيه من الطبع الذي يأبى علی الناقل نقله، وفلان ذو جِبِلَّة، أي : غلیظ الجسم، وثوب جيد الجبلة، وتصور منه معنی العظم، فقیل للجماعة العظیمة : جِبْلٌ. قال اللہ تعالی: وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس/ 62] ، أي : جماعة تشبيها بالجبل في العظم وقرئ : جِبِلًّا مثقّلا . قال التوزي : جُبْلًا وجَبْلًا وجُبُلًّا وجِبِلًّا . وقال غيره : جُبُلًّا جمع جِبِلَّة، ومنه قوله عزّ وجل : وَاتَّقُوا الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالْجِبِلَّةَ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء/ 184] ، أي : المجبولین علی أحوالهم التي بنوا عليها، وسبلهم التي قيّضوا لسلوکها المشار إليها بقوله تعالی: قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلى شاكِلَتِهِ [ الإسراء/ 84] ، وجَبِلَ : صار کالجبل في الغلظ . اور پہاڑ کی مختلف صفات کے اعتبار سے استعارہ ہر صفت کے مطابق اشتقاق کرلیتے ہیں مثلا معنی شجاعت کے اعتبار سے کہا جاتا ہے ؟ کہ فلاں نہ ہلنے ولا پہاڑ ہی اس کی فطرت ہی ایسی ہے یعنی تبدیل نہیں ہوسکتی ۔ فلاں بھدے جسم کا ہے ۔ عمدہ اور مضبوط بنا ہوا کپڑا ۔ اور بڑئی و عظمت کے معنی کا اعتبار کرتے ہوئے بڑی جماعت کو جبل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس/ 62] اور اس نے تم میں سے بہت سی خلقت کو گمراہ کردیا تھا ۔ ایک قرات میں جبلا تشدید کے ساتھ ہے توذی نے کہا ہے کہ جبلا وجبلا وجبلا وجبلا کے ایک ہی معنی ہیں ؟ اور دوسرے علماء نے کہا ہے جبلا جبلۃ کی جمع ہے اور اسی سے آیت وَاتَّقُوا الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالْجِبِلَّةَ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء/ 184]: میں جبلۃ سے مراد کے وہ احوال ہیں جن پر ان کو پیدا کیا تھا اور وہ راستے جن پر چلنے کے وہ فطرۃ پابند تھے جس کی طرف آیت کریمہ : ۔ قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلى شاكِلَتِهِ [ الإسراء/ 84] کہدو کہ ہر شخص اپنے طریق کے مطابق عمل کرتا ہے ۔ میں اشارہ پایا جاتا ہے جبل فلان پہاڑ کی طرح غلیظ الجسم ہے ۔ كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔ عقل العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] ، ( ع ق ل ) العقل اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور اے انسانو شیطان تم میں سے پہلے ایک بڑی مخلوق کو گمراہ کرچکا ہے تو کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ اس نے تمہارے ساتھ کیا برتاؤ کیا کہ اس کی پھر تم اقتدا نہ کرو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٢ { وَلَقَدْ اَضَلَّ مِنْکُمْ جِبِلًّا کَثِیْرًاط اَفَلَمْ تَکُوْنُوْا تَعْقِلُوْنَ } ” اور وہ تو تم میں سے بہت بڑی تعداد کو گمراہ کر کے لے گیا ‘ تو کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے تھے ! “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

54 That is, "If you had been deprived of reason and you had served your enemy instead of your Lord, you could have the reason to offer an excuse. But you, in fact, had been blessed with reason by Allah and you were using it to advantage in all the affairs of the world, and you had been warned by Allah through the Prophets as well, yet, when you were deceived by your enemy and he succeeded in leading you astray, you could not be excused from the responsibility of your folly."

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :54 یعنی اگر تم عقل سے محروم رکھے گئے ہوتے اور پھر اپنے رب کو چھوڑ کر اپنے دشمن کی بندگی کرتے تو تمہارے لیے عذر کی کوئی گنجائش تھی ۔ لیکن تمہارے پاس تو خدا کی دی ہوئی عقل موجود تھی جس سے تم اپنے دنیا کے سارے کام چلا رہے تھے ۔ اور تمہیں خدا نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ سے متنبہ بھی کر دیا تھا ۔ اس پر بھی جب تم اپنے دشمن کے فریب میں آئے اور وہ تمہیں گمراہ کرنے میں کامیاب ہو گیا تو اپنی اس حماقت کی ذمہ داری سے تم کسی طرح بری نہیں ہو سکتے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:62) لقد اضل۔ اضل ماضی واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے۔ اضلال (افعال) مصدر۔ بمعنی گمراہ کرنا۔ سیدھے راستہ سے ہٹانا۔ اس نے گمراہ کیا۔ اس نے بہکایا۔ اس نے بھٹکایا۔ ضمیر فاعل شیطان کی طرف راجع ہے لقد میں لام تاکید کے لئے ہے قد ماضی پر داخل ہو کر تحقیق کے معنی دیتا ہے اور تقریب کا فائدہ بھی دیتا ہے گویا قد اضل ماضی قریب کا صیغہ ہے۔ لقد اضل تحقیق اس نے گمراہ کردیا۔ یا گمراہ کیا۔ جبلا کثیرا۔ موصوف وصفت مل کر اضل کا مفعول۔ جبلا۔ خلق، بڑی جماعت، جبل (پہاڑ) کے معنی میں چونکہ بڑھائی اور عظمت کا تصور موجود ہے اس لئے بڑی جماعت کو جبل کہنے لگے۔ یعنی ایسی جماعت جو کہ اپنی بڑھائی میں مثل پہاڑ کے ہو۔ افلم تکونوا تعقلون۔ ہمزہ استفہامیہ ہے (زجرو توبیح کے معنوں میں آیا ہے) فا عطف کے لئے ہے (معطوف علیہ مقدر ہے۔ ایء کنتم تشاھدون ھلاک الامم الخالیۃ بطاعۃ ابلیس فلم تکونوا تعقلون شیئا اصلا کیا تم نے شیطان کی پیروی کی وجہ سے کئی سابقہ امتوں کی ہلاکت دیکھی اور تم نے اس سے کوئی سبق نہ سیکھا۔ یہ ماضی منفی استمراری کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی کیا تم اتنی عقل نہ رکھتے تھے کہ جب شیطان تمہارا دشمن تھا تو تم اس کے بتائے ہوئے راستے پر نہ چلتے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : رب رحمٰن نے بنی آدم سے عہد لینے کے ساتھ ہی بتادیا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے اس لیے اس سے بچنا اور صرف میرا ہی حکم ماننا اور میری ہی بندگی کرنا۔ خالق حقیقی سے عہد کرنے کے باوجود لوگوں کی اکثریت نے شیطان کی پیروی کی۔ جسے شیطان کی عبادت قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ عبادت میں اطاعت شرط اوّل ہے۔ البتہ ہر اطاعت بندگی اور عبادت میں شامل نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے ناصرف لوگوں سے اپنی عبادت کرنے کا عہد لیا تھا بلکہ انہیں اس بات سے بھی آگاہ کیا تھا کہ شیطان تمہارا دشمن ہے اس سے ہر صورت بچے رہنا۔ لیکن لوگوں کی اکثریت شیطان کے پیچھے چل کر گمراہ ہوئی اور انہوں نے اتنی بھی عقل اور غیرت نہ کی کہ وہ اپنے ازلی دشمن کے پیچھے نہ چلے۔ یاد رہے کہ اللہ کے سوا کسی سے دعا کرنا، اس کے سامنے جھکنا، سجدہ کرنا اور نذرو نیاز پیش کرنا اور شریعت کو چھوڑ کر کسی دوسرے کا حکم ماننا۔ حقیقت میں یہ شیطان کی عبادت کرنا ہے۔ عبادت میں ہر قسم کی تابعداری شامل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت کرنا کفر اور شرک ہے جس سے منع کیا گیا ہے ایسے لوگوں کو کہا جائے گا کہ یہ جہنم ہے جس کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا۔ لہٰذا شیطان کی عبادت کرنے کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوجاؤ۔ مسائل ١۔ لوگوں کی اکثریت کو شیطان گمراہ کردیتا ہے۔ ٢۔ عقل مند وہ ہے جو شیطان کی پیروی کرنے سے بچا رہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

37:۔ ولقد اضل الخ : اس شیطان نے بیشمار اولاد آدم کو گمراہ کیا یہ اس کی انسان دشمنی کی ایک واضح دلیل ہے لیکن پھر بھی تم نے عقل سے کام نہ لیا اور نہ غور کیا کہ شیطان ہمارا دشمن ہے اور ہمیں جہنم میں دھکیلنا چاہتا ہے اس لیے اس کے فریب سے بچنا چاہئے۔ اور اس کی بات ماننے کے بجائے اپنے خالق حقیقی کی خالص عبادت کرنی چاہئے۔ اور اس کے احکام کا اتباع کرنا چاہئے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(62) اور وہ شیطان تم میں سے یعنی تمہاری بنی نوع میں سے ایک کثیر مخلوق کو گمراہ کرچکا ہے تو پس کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے تھے جیسا کہ انبیائے سابقین کے جھٹلانے والوں کے واقعات سے تم کو معلوم ہوچکا تھا کہ شیطان نے کتنے ہی انسانوں کو گمراہ کر کے برباد کیا ہے یہ سب تم کو بتادیا گیا تھا تو کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے تھے کہ ایسے گمراہ دشمن کا کہنا نہ مانتے۔