Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 125

سورة الصافات

اَتَدۡعُوۡنَ بَعۡلًا وَّ تَذَرُوۡنَ اَحۡسَنَ الۡخَالِقِیۡنَ ﴿۱۲۵﴾ۙ

Do you call upon Ba'l and leave the best of creators -

کیا تم بعل ( نامی بت ) کو پکارتے ہو؟ اور سب سے بہتر خالق کو چھوڑ دیتے ہو؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Will you call upon Ba`l and forsake the Best of creators, Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, Mujahid, Ikrimah, Qatadah and As-Suddi said that; the word Ba`l means lord. Ikrimah and Qatadah said, "This is the language of the people of Yemen." According to another report from Qatadah, it is the language of Azd Shanu'ah. Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam narrated f... rom his father that; it is the name of an idol which was worshipped by the people of a city called Ba`labak (Baalbek) which is to the west of Damascus. Ad-Dahhak said, "It is an idol which they used to worship." أَتَدْعُونَ بَعْلً (Will you call upon Ba`l). means, `will you worship an idol,' ... وَتَذَرُونَ أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ وَاللَّهَ رَبَّكُمْ وَرَبَّ ابَايِكُمُ الاْاَوَّلِينَ   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٢] سیدنا الیاس کا مرکز تبلیغ اور بعل کی پرستش :۔ سیدنا الیاس، سیدنا ہارون کی اولاد سے ہیں۔ ان کا زمانہ نبوت نویں صدی قبل مسیح ہے۔ ان کا مرکز تبلیغ بعلبک نامی شہر تھا جو شام میں واقع تھا۔ آپ کی قوم بعل نامی بت کی پرستار تھی اور یہی بعل ہی ان کا دیوتا تھا۔ بعل کا لغوی معنی مالک، آقا، سردار اور خاون... د ہے اور قرآن میں بعل کا لفظ متعدد مقامات پر خاوند کے معنوں میں استعمال ہوا ہے مگر قدیم زمانے میں سامی اقوام اس لفظ کو الٰہ یا خداوند کے معنوں میں استعمال کرتی تھیں۔ ان لوگوں نے ایک خاص دیوتا کو بعل (یعنی دوسرے دیوتاؤں یا معبودوں کا سردار) کے نام سے موسوم کر رکھا تھا۔ بابل سے لے کر مصر تک پورے شرق اوسط میں بعل پرستی پھیلی ہوئی تھی بنی اسرائیل جب فرعون سے نجات پاکر مصر سے فلسطین آکر آباد ہوئے اور ان لوگوں سے شادی بیاہ ہوئے تو یہ مرض ان میں بھی پھیل گیا۔ بعل کے نام کا ایک مذبح بھی بنا ہوا تھا جس پر قربانیاں کی جاتی تھیں۔ عوام تو درکنار فلسطین کی اسرائیل ریاست بھی بعل پرستی میں مبتلا ہوگئی تھی۔ [٧٣] یعنی اللہ کے علاوہ خالق اور بھی ہوسکتے ہیں۔ مثلاً انسان میدہ، گھی اور چینی کی آمیزش اور ترکیب سے کئی قسم کی مٹھائیاں وجود میں لاتا ہے اور مادے کے خواص معلوم کرکے نت نئی قسم کی ایجادات کو وجود میں لاتا ہے۔ اسی طرح ایک مصنف چند کتابیں یا تحریریں سامنے رکھ کر ایک نئی کتاب کو وجود میں لاتا ہے۔ یہ سب تخلیقی کارنامے ہیں۔ مگر یہ سب کارنامے ایسے ہیں جن کا مواد پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تخلیق نہ مادہ کی محتاج ہے نہ اس کے اوصاف کی کیونکہ مادہ میں وصف پیدا کرنے والا وہ خود ہے پھر اس کے تخلیقی کارنامے اس لحاظ سے انسان کی بساط سے باہر ہیں کہ وہ روح پھونک کر جیتی جاگتی اور نشوونما پانے والی اشیاء تیار کرتا ہے۔ پھر اس کے تخلیقی کارنامے ایسے ہیں جنہیں انسان کا بنانا تو درکنار انسان سمجھ بھی نہیں سکتا۔ مثلاً انسان کی اندرونی ساخت اور اس کے اعضاء وجوارح کے وظائف اور وہ قوتیں جو انسان میں رکھ دی گئی ہیں ایک آنکھ کے نور ہی کو لیجئے کہ وہ کیا چیز ہے اور کیسے پیدا ہوتا ہے اور اگر ضائع ہوجائے تو کیا کوئی بڑے سے بڑا ڈاکٹر اسے بحال کرسکتا ہے ؟ اب سب باتوں کا جواب نفی میں ہے۔ لہذا احسن الخالقین صرف اللہ کی ذات ہی ہوسکتی ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَتَدْعُوْنَ بَعْلًا : قرآن کے متعدد مقامات پر لفظ ” بَعْلًا “ شوہر کے معنی میں آیا ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (٢٢٨) اور نساء (١٢٧) اس کا معنی مالک اور آقا بھی ہے۔ مشرک اقوام اس لفظ کو رب یا معبود کے معنی میں استعمال کرتی ہیں، اس لیے الیاس (علیہ السلام) کی قوم نے اپنے سب سے بڑے بت کا نام ” بعل “ رکھا ہوا ... تھا۔ الیاس (علیہ السلام) نے انھیں سمجھایا کہ کیا تم ” بعل “ نامی بت کو پوجتے ہو ؟ وَّتَذَرُوْنَ اَحْسَنَ الْخَالِقِيْنَ : اور بنانے والوں میں سب سے بہتر یعنی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ دیتے ہو۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اور بھی کوئی پیدا کرنے والا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو سب پیدا کرنے والوں سے بہتر فرمایا ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اشیاء کو جوڑ کر کوئی چیز بنانے پر بھی ” خلق “ کا لفظ بولا جاتا ہے، مثلاً انسان لوہے وغیرہ سے مشینیں اور موٹریں وغیرہ بنا لیتا ہے، مگر ان سب میں وہ اللہ کے بنائے ہوئے مادے کا محتاج ہے۔ اس لیے اس کی بنائی ہوئی ہر چیز بھی اللہ ہی کی (خلق) پیدا کردہ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ ) [ الصافات : ٩٦ ] ” حالانکہ اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا اور اسے بھی جو تم کرتے ہو۔ “ البتہ ابتدا میں کسی چیز کو پیدا کرنا یا چیزیں جوڑ کر ان میں روح ڈال دینا صرف اس پاک پروردگار کا کام ہے۔ (دیکھیے حج : ٧٣) اس لیے اسے ” اَحْسَنَ الْخَالِقِيْنَ “ فرمایا۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The word: بَعل (ba&l) in verse 125: أَتَدْعُونَ بَعْلًا (Do you invoke literally means husband, master etc. But, it was the name of a particular idol that the people of Sayyidna Ilyas (علیہ السلام) had taken to as the object of their worship. The history of the worship of ba` l (Baal) goes way back in time. It was worshipped in the country of Syria during the time of Sayyidna Musa (علیہ السلام... ) and it used to be the most popular idol-god they had. Ba&labakk, (Baalbek or ancient Heliopolis in present Lebanon), the once famous city of Syria was also named after it. Some people think that Hubal, the well-known idol of the pre-Islam people of Hijaz, was this very ba` l (Qasas-ul-Qur’ an, p.28, v.2). In the next sentence of the same verse, it was said: وَتَذَرُ‌ونَ أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ (Do you invoke Ba&l, and ignore the Best of the creators). This refers to Allah Ta ala while the expression: أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ (alzsanul-khaligin: the best of the creators) never means that there could be, God forbid, some other creator as well. On the contrary, the drive and the sense of the statement is that He is the one most exalted of all those false objects of worship they had taken to as being some sort of a creator (Qurtubi). Some commentators have said that the word: خَالِق (khaliq: creator, maker) has been used here in the sense صَانع (sani` : maker), that is, &He is far ahead and far better than all other makers.& What do all other makers really do? They do no more than take different components, put them together and here is something they have made. Bringing something out from nothingness into existence is what they do not have under their power and control - and Allah Ta’ ala does. He has that inherent power to make what is not become what is. (Bayan-ul-Qur’ an) Ascribing the attribute of creation to anyone other than Allah is not permissible At this point, it should be borne in mind that خَلَق (khalq) means to create, that is, to bring something from the state of non-being into the state of being solely on the strength of the creator&s inherent power. Therefore, this attribute is particular to Allah Ta’ ala. Ascribing it to someone else is not permissible. Hence, the custom prevailing in our time that the articles of writers, compositions of poets and paintings of painters are readily referred to as their &creations& is simply not permissible. How can people who write become &creators& of those articles? It is not correct. Allah is the khaliq, the creator. This is Him alone - no one else can be. Therefore, their good writings should be called articles or something else that alludes to their effort, imagination, research work or whatever applies as appropriate - but, not &creation.&  Show more

اَتَدْعُوْنَ بَعْلًا (کیا تم بعل کو پوجتے ہو) بعل کے لغوی معنی شوہر اور مالک وغیرہ ہیں، لیکن یہ اس بت کا نام تھا جسے حضرت الیاس (علیہ السلام) کی قوم نے اپنا معبود بنایا ہوا تھا۔ بعل کی پرستش کی تاریخ بہت قدیم ہے، شام کے علاقہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں اس کی پرستش ہوتی تھی، اور یہ ان...  کا سب سے زیادہ مقبول دیوتا تھا۔ شام کا مشہور شہر بعلبک بھی اسی کے نام سے موسوم ہوا اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اہل حجاز کا مشہور بت ہبل بھی یہی بعل ہے۔ (قصص القرآن، ص ٨٢ ج ٢) وَّتَذَرُوْنَ اَحْسَنَ الْخَالِقِيْنَ (اور اس کو چھوڑ بیٹھے ہو جو سب سے بڑھ کر بنانے والا ہے) اس سے مراد اللہ تعالیٰ ہیں۔ اور ” احسن الخالقین “ (سب سے اچھا خالق) کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معاذ اللہ کوئی دوسرا بھی خالق ہوسکتا ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جن جھوٹے معبودوں کو تم نے خالق قرار دیا ہوا ہے وہ ان سب سے اونچی شان والا ہے۔ (قرطبی) اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہاں خالق اور صانع (بنانے والا) کے معنے میں استعمال ہوا ہے، یعنی وہ تمام صناعوں سے بڑھ کر ہے، اس لئے کہ دوسرے صناع صرف اتنا ہی تو کرتے ہیں کہ مختلف اجزاء کو جوڑ کر کوئی چیز تیار کرلیتے ہیں، کسی چیز کو عدم سے وجود میں لانا ان کے بس سے باہر ہے، اور اللہ تعالیٰ معدوم اشیاء کو وجود بخشنے پر قدرت ذاتی رکھتا ہے۔ (بیان القرآن) غیر اللہ کی طرف تخلیق کی صفت منسوب کرنا جائز نہیں : یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ” خلق “ کے معنی پیدا کرنے کے ہیں، جس کا مطلب ہے کسی شے کو عدم محض سے قدرت ذاتی کے بل پر وجود میں لانا۔ اس لئے یہ صفت اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے، کسی اور کی طرف اس کی نسبت جائز نہیں، لہٰذا ہمارے زمانے میں جو رواج چل پڑا ہے کہ اہل قلم کے مضامین، شاعروں کے شعر اور مصوروں کی تصویروں کو ان کی ” تخلیقات “ کہہ دیا جاتا ہے وہ بالکل جائز نہیں، اور نہ اہل قلم کو ان مضامین کا خالق کہنا درست ہے۔ خالق اللہ کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا، اس لئے ان کے رشحات قلم کو ” کاوش “ یا مضمون وغیرہ کہنا چاہئے ” تخلیق “ نہیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَتَدْعُوْنَ بَعْلًا وَّتَذَرُوْنَ اَحْسَنَ الْخَالِقِيْنَ۝ ١٢٥ۙ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِ... قُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ بعل البَعْلُ هو الذکر من الزوجین، قال اللہ عزّ وجل : وَهذا بَعْلِي شَيْخاً [هود/ 72] ، وجمعه بُعُولَة، نحو : فحل وفحولة . ( ب ع ل البعل کے معنی شوہر کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ { وَهَذَا بَعْلِي شَيْخًا } ( سورة هود 72) اور یہ میرے میاں بھی بوڑھے ہیں اس کی جمع بعولۃ آتی ہے جیسے فحل وفحولۃ وذر [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی: قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] «1» . ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٥{ اَتَدْعُوْنَ بَعْلًا وَّتَذَرُوْنَ اَحْسَنَ الْخَالِقِیْنَ } ” کیا تم بعل کو پکارتے ہو اور بہترین خالق کو چھوڑتے ہو ! “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

71 Lexically, ba al means master, chief and possessor. This word was also used for husband, and has been used in this sense at several places in the Qur'an itself, e.g. in Surah AI-Baqarah: 228, An-Nisa': 127, Hud: 72 and An-Nur: 31. However; in the ancient times the Semetic nations used it in the meaning of deity or lord; they had even given the name of Baal to a special god. The chief male god o... f the Phoenicians, in particular, was Baal and their chief goddess was Ashtoreth, his wife. The scholars differ as to whether Baal meant the sun or Jupiter, and Ashtoreth the moon or Venus. In any case, historically it is certain that Baal worship was prevalent from Babylon to Egypt throughout the Middle East, and the polytheistic communities of the Lebanon and Syria and Palestine, in particular, had become its devotees. When the Israelites settled in Palestine and Jordan after they came out from Egypt, they started contracting marriage and other social relations with the polytheistic nations round about them, in violation of the strict prohibitive injunctions of the Torah, the disease of idol-worship began to spread among them, too. According to the Bible, this moral and religious decline had started appearing among the Israelites soon after the death of Joshua, son of Nun, who was the first caliph of the Prophet Moses: 'And the children of Israel did evil in the sight of the Lord, and served Baalim ...... And they forsook the Lord, and served Baal and Ashtoreth." (Judges, 2: 11-13). And the children of Israel dwelt among the Canaanites, Hittites, and Amorites, and Perizzites and Hivites, and Jebusites. And they took their daughters to be their wives, and gave their daughters to their sons, and served their gods.' (Judges, 3: 5-6). At that time worship of Baal had so deeply affected the Israelites that, according to the Bible, in one of their habitations a public altar had been built at which offerings were made to Baal. A God-worshipping Israelite could not bear the sight; so he pulled down the altar one night. Next morning a great multitude of the people gathered together and demanded that the man who had cast down the altar he put to death. (Judges, 6:25-32). This evil, at last, was put to an end by . Samuel, Saul and the Prophets David and Solomon (peace be upon them); they not only reformed the Israelites generally but also eradicated polytheism and idolworship from their kingdom. But after the death of the Prophet Solomon the mischief was again revived and the Israelite state of northern Palestine was swept away in the Hood of Baal-worship.  Show more

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :71 بعل کے لغوی معنی آقا ، سردار اور مالک کے ہیں ۔ شوہر کے لیے بھی یہ لفظ بولا جاتا تھا اور متعدد مقامات پر خود قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے ، مثلاً سورہ بقرہ آیت 228 ، سورہ نساء آیت 127 ، سورہ ہود آیت 72 ، اور سورہ نور آیت 31 میں ۔ لیکن قدیم زمانے کی سامی اقو... ام اس لفظ کو الٰہ یا خداوند کے معنی میں استعمال کرتی تھیں اور انہوں نے ایک خاص دیوتا کو بعل کے نام سے موسوم کر رکھا تھا ۔ خصوصیت کے ساتھ لبنان کی فنیقی قوم ( Phoenicians ) کا سب سے بڑا نر دیوتا بعل تھا اور اس کی بیوی عستارات ( Ashtoreth ) ان کی سب سے بڑی دیوی تھی ۔ محققین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا بعل سے مراد سورج ہے یا مشتری ، اور عستارات سے مراد چاند ہے یا زہرہ ۔ بہرحال یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے کہ بابل سے لے کر مصر تک پورے مشرق اوسط میں بعل پرستی پھیلی ہوئی تھی ، اور خصوصاً لبنان ، اور شام و فلسطین کی مشرک اقوام بری طرح اس میں مبتلا تھیں ۔ بنی اسرائیل جب مصر سے نکلنے کے بعد فلسطین اور مشرق اردن میں آ کر آباد ہوئے ، اور توراۃ کے سخت امتناعی احکام کی خلاف ورزی کر کے انہوں نے ان مشرک قوموں کے ساتھ شادی بیاہ اور معاشرت کے تعلقات قائم کرنے شروع کر دیے ، تو ان کے اندر بھی یہ مرض پھیلنے لگا ۔ بائیبل کا بیان ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ اور حضرت یوشع بن نون کی وفات کے بعد ہی بنی اسرائیل میں یہ اخلاقی و دینی زوال رو نما ہونا شروع ہو گیا تھا: اور بنی اسرائیل نے خدا کے آگے بدی کی اور بعلیم کی پرستش کرنے لگے ـــــــ اور وہ خداوند کو چھوڑ کر بعل اور عستارات کی پرستش کرنے لگے ( قضاۃ 2:َ11 ۔ 13 ) سو بنی اسرائیل کنعانیوں اور حتّیوں اور اموریوں اور فِرِزّیوں اور یبوسیوں کے درمیان بس گئے اور بیٹیوں سے آپ نکاح کرنے اور اپنی بیٹیاں ان کے بیٹوں کو دینے اور ان کے دیوتاؤں کی پرستش کرنے لگے ( قضاۃ 2:5 ۔ 2 ) اس زمانہ میں بعل پرستی اسرائیلیوں میں اس قدر گھس چکی تھی کہ بائیبل کے بیان کے مطابق ان کی ایک بستی میں علانیہ بعل کا مذبح بنا ہوا تھا جس پر قربانیاں کی جاتی تھیں ۔ ایک خدا پرست اسرائیل اس حالت کو برداشت نہ کر سکا اور اس نے رات کے وقت چپکے سے یہ مذبح توڑ دیا ۔ دوسرے روز ایک مجمع کثیر اکٹھا ہو گیا اور وہ اس شخص کے قتل کا مطالبہ کرنے لگا جس نے شرک کے اس اڈے کو توڑا تھا ( قضاۃ 6:25 ۔ 32 ) ۔ اس صورت حال کو آخر کار حضرت سموایل ، طالوت ، داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام نے ختم کیا اور نہ صرف بنی اسرائیل کی اصلاح کی بلکہ اپنی مملکت میں بالعموم شرک و بت پرستی کو دبا دیا ۔ لیکن حضرت سلیمان کی وفات کے بعد یہ فتنہ پھر ابھرا اور خاص طور پر شمالی فلسطین کی اسرائیلی ریاست بعل پرستی کے سیلاب میں بہہ گئی ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٢٥۔ ١٣٢۔ حسن بصری (رح) کے قول کے موافق ان آیتوں کی تفسیر کا حاصل یہ ہے۔ کہ کنعانی قوم کے ایک ظالم بادشاہ کا جب انتقال ہوگیا تو اس کی بی بی نے اپنے خاوند کی شکل کی ایک مورت بنائی۔ اور ان کا نام بعل رکھا۔ کہ بعل عربی میں عورت کے خاوند کو بھی کہتے ہیں۔ اس کے بعد اس عورت کا دوسرا نکاح ایک اسرائیلی بادش... اہ سے ہوگیا۔ اور اس عورت نے اپنے دوسرے خاوند کو بہکا کر اس بعل بت کی پوجا عام طور پر لوگوں میں جاری کروا دی۔ ان ہی لوگوں کے سمجھانے کے لئے الیاس (علیہ السلام) نے وہ نصیحت کی ہے۔ جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔ حاصل نصیحت یہ ہے۔ کہ اے لوگو جس اللہ نے تم کو اور تمہارے بڑوں کو پیدا کیا۔ اس کا شکریہ کیا یہی ہے کہ تم اس کی عبادت کو چھوڑ کر اس بعل بت کی پوجا کرتے ہو۔ اب آگے فرمایا کہ ان لوگوں نے الیاس (علیہ السلام) کی نصیحت کو نہیں مانا۔ اس لئے دین و دنیا کے عذاب میں پکڑے گئے۔ حسن (رح) بصری کی تفسیر کے موافق دنیا کا عذاب تو یہ ہوا کہ ان لوگوں میں تین برس کا سخت قحط پڑا۔ اور عقبے میں جو سب مشرکوں کا حال ہوگا۔ وہی مصیبت ان لوگوں پر آوے گی۔ چناچہ سورة الاعراف میں گزر چکا ہے۔ کہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں گھس جاوے تو گھس جاوے لیکن ایسے مشرک لوگ جنت میں کسی طرح نہیں جاسکتے۔ اب اس عذاب میں سے ان لوگوں کو مستثنیٰ فرمایا۔ جو الیاس (علیہ السلام) کی نصیحت کو مان کر خالص دل سے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف ہوگئے تھے۔ فرمایا الیاس (علیہ السلام) اللہ کے کامل الایمان بندے تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ ذکر خیر دنیا میں جاری رکھا۔ کہ ہر ایمان دار شخص ان کے نام کے ساتھ (علیہ السلام) کہتا اور لکھتا ہے پھر فرمایا اللہ تعالیٰ سب نیک بندوں کو ان کی نیکیوں کا بدلہ دیتا ہے۔ صحیح بخاری ١ ؎ کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایت اوپر گزر چیا ہے۔ کہ نیک لوگوں کا ذکر خیر آسمان و زمین میں کیونکر اور کن باتوں سے پھیل جاتا ہے۔ صحیح بخاری ٢ ؎ و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری کی حدیث گزر چکی ہے کہ پہلے تو اللہ تعالیٰ نافرمان لوگوں کو مہلت دیتا ہے۔ اور جب مہلت کے زمانہ میں وہ لوگ اپنی نافرمانی سے باز نہیں آتے تو ان کو عذاب میں پکڑ لیتا ہے۔ ان حدیثوں کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ بعل بت کے پوجنے والے لوگوں کو پہلے مہلت دی گئی اور اس مہلت کے زمانہ میں الیاس (علیہ السلام) نے ان کو پوری نصیحت کی اس نصیحت کے بعد بھی جو لوگ شرک سے باز نہ آئے تو وہ دین و دنیا کے وبال میں پھنس گئے۔ اور جو لوگ اس نصیحت کے پابند ہوگئے وہ وبال سے بچ گئے۔ اور ذکر خیر کے ساتھ اللہ کے کلام میں ان کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ (١ ؎ دیکھیں تفسیر ہذا ص ١٢۔ ) (٢ ؎ تفسیر ہذا ص ١٢۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:125) اتدعون بعلا۔ ہمزہ استفہامیہ۔ تدعون مضارع جمع مذکر حاضر دعاء (باب نصر) مصدر سے بمعنی پکارنا۔ مطلب۔ پوجا کرنا۔ اس سے حاجت مانگنا۔ بعلا مفعول ہے تدعون کا۔ ایک بت کا نام ہے جسے جہالت کے زمانہ میں اکثر مشرقی سامی قوموں میں پوجا جاتا تھا۔ بعل بمعنی شوہر بھی آیا ہے مثلاً وھذا بعلی شیخا (11:72) او... ر یہ میرے شوہر بوڑھے ہیں۔ اور ان امراۃ خافت من بعلھا نشوزا (4:128) اور اگر کسی عورت کو اپنے خاوند کی طرف سے لڑنے کا اندیشہ ہو۔ تذرون۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ وذر یذر (فتح) وذر مصدر۔ چھوڑنا۔ تم چھوڑتے ہو۔ اس مصدر سے صرف مضارع اور امر ہی مستعمل ہیں۔ احسن الخالقین۔ احسن۔ بہت اچھا ۔ اسم تفضیل کا صیغہ جمع مذکر ہے۔ منصوب بوجہ تذرون کے مفعول ہونے کے ہے۔ الخلقین مفضل الیہ۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ بحالت نصب۔ پیدا کرنے والے۔ احسن الخالقین۔ پیدا کرنے والوں میں سب سے بہتر  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 بعل کے لفظی معنی آقا اور مالک کے ہیں۔ قرآن کے متعدد مقامات پر یہ لفظ ” شوہر “ کیلئے بھی استعمال ہوا ہے۔ (مثلاً سورة بقرہ آیت 228، سورة نساء، آیت 1127) حضرت الیاس ( علیہ السلام) کی قوم نے اپنے ایک بت کا نام ” بعل “ رکھا تھا یا یہ ان کی ایک دیوی کا نام تھا۔ (شوکانی) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں۔ حضرت ا... لیاس ( علیہ السلام) اولاد میں حضرت ہارون ( علیہ السلام) کے ہیں، شہر بعلبک کی طرف ان کو اللہ نے بھیجا اور وہ پوجتے تھے بت اس کا نام بعل تھا۔ ( موضح)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(125) کیا تم بعل نامی بت کو پوجتے ہو اور اس معبود حقیقی کو چھوڑ بیٹھے ہو جو سب سے بہتر بنانے والا اور پیدا کرنے والا ہے۔ یعنی کچھ بنانے والے ایسے ہیں جو بعض اشیاء کی تحلیل و ترکیب کرلیتے ہیں یعنی قدرت کی پیدا کردہ چیزوں کو ملا کر کوئی کھلونے بنا لیتا ہے کوئی گاڑی یا انجن بنا لیتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ...  تو اشیاء کا موجد اور خالق ہے انسان اصل اشیاء کا ایجاد کرنے والا نہیں ہے اس لئے اللہ تعالیٰ حقیقی بنانے والا ہے اور سب سے بہتر بنانے والا ہے۔  Show more