Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 149

سورة الصافات

فَاسۡتَفۡتِہِمۡ اَلِرَبِّکَ الۡبَنَاتُ وَ لَہُمُ الۡبَنُوۡنَ ﴿۱۴۹﴾ۙ

So inquire of them, [O Muhammad], "Does your Lord have daughters while they have sons?

ان سے دریافت کیجئے! کہ کیا آپ کے رب کی تو بیٹیاں ہیں اور ان کے بیٹے ہیں؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Refutation of Those Who attribute Children to Allah and say that the Angels are His Daughters Allah denounces those idolators who attribute daughters to Allah -- exalted be He above that -- and attributed to themselves what they desired, i.e., they wanted male offspring to themselves. وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالاٍّنْثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ And when the news of (the birth of) a female (child) is brought to any of them, his face becomes dark, and he is filled with inward grief! (16:58), i.e., that upsets him, and he would only choose sons for himself. Allah says: `Then how can they attribute to Allah the share that they would not choose for themselves' Allah says: فَاسْتَفْتِهِمْ ... Now ask them, means, quiz them by way of denunciation, ... أَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ وَلَهُمُ الْبَنُونَ Are there (only) daughters for your Lord and sons for them, This is like the Ayah: أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الاٍّنثَى تِلْكَ إِذاً قِسْمَةٌ ضِيزَى Is it for you the males and for Him the females? That indeed is a division most unfair! (53:21-22) أَمْ خَلَقْنَا الْمَلَيِكَةَ إِنَاثًا وَهُمْ شَاهِدُونَ

مشرکین کا اللہ تعالیٰ کے لئے دوہرا معیار ۔ اللہ تعالیٰ مشرکوں کی بیوقوفی بیان فرما رہا ہے کہ اپنے لئے تو لڑکے پسند کرتے ہیں اور اللہ کے لئے لڑکیاں مقرر کرتے ہیں ۔ اگر لڑکی ہونے کی خبر یہ پائیں تو چہرے سیاہ پڑ جاتے ہیں اور اللہ کی لڑکیاں ثابت کرتے ہیں ۔ پس فرماتا ہے ان سے پوچھ تو سہی کہ یہ تقسیم کیسی ہے؟ کہ تمہارے تو لڑکے ہوں اور اللہ کے لئے لڑکیاں ہوں؟ پھر فرماتا ہے کہ یہ فرشتوں کو لڑکیاں کس ثبوت پر کہتے ہیں؟ کیا ان کی پیدائش کے وقت وہ موجود تھے ۔ قرآن کی اور آیت ( وَجَعَلُوا الْمَلٰۗىِٕكَةَ الَّذِيْنَ هُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا ۭاَشَهِدُوْا خَلْقَهُمْ ۭ سَـتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَيُسْــَٔــلُوْنَ 19؀ ) 43- الزخرف:19 ) ، میں بھی یہی بیان ہے ۔ دراصل یہ قول ان کا محض جھوٹ ہے ۔ کہ اللہ کے ہاں اولاد ہے ۔ وہ اولاد سے پاک ہے ۔ پس ان لوگوں کے تین جھوٹ اور تین کفر ہوئے اول تو یہ کہ فرشتے اللہ کی اولاد ہیں دوسرے یہ کہ اولاد بھی لڑکیاں تیسرے یہ کہ خود فرشتوں کی عبادت شروع کر دی ۔ پھر فرماتا ہے کہ آخر کس چیز نے اللہ کو مجبور کیا کہ اس نے لڑکے تو لئے نہیں اور لڑکیاں اپنی ذات کے لئے پسند فرمائیں؟ جیسے اور آیت میں ہے کہ تمہیں تو لڑکوں سے نوازے اور فرشتوں کو اپنی لڑکیاں بنائے یہ تو تمہاری نہایت درجہ کی لغویات ہے ۔ یہاں فرمایا کیا تمہیں عقل نہیں جو ایسی دور از قیاس باتیں بناتے ہو تم سمجھتے نہیں ہو ڈرو کہ اللہ پر جھوٹ باندھنا کیسا برا ہے؟ اچھا گر کوئی دلیل تمہارے پاس ہو تو لاؤ اسی کو پیش کرو ۔ یا اگر کسی آسمانی کتاب سے تمہارے اس قول کی سند ہو اور تم سچے ہو تو لاؤ اسی کو سامنے لے آؤ ۔ یہ تو ایسی لچر اور فضول بات ہے جس کی کوئی عقلی یا نقلی دلیل ہو ہی نہیں سکتی ۔ اتنے ہی پر بس نہ کی ، جنات میں اور اللہ میں بھی رشتے داری قائم کی ۔ مشرکوں کے اس قول پر کہ فرشتے اللہ کی لڑکیاں ہیں حضرت صدیق اکبر نے سوال کیا کہ پھر ان کی مائیں کون ہیں؟ تو انہوں نے کہا جن سرداروں کی لڑکیاں ۔ حالانکہ خود جنات کو اس کا یقین و علم ہے کہ اس قول کے قائل قیامت کے دن عذابوں میں مبتلا کئے جائیں گے ۔ ان میں بعض دشمنان اللہ تو یہاں تک کم عقلی کرتے تھے کہ شیطان بھی اللہ کا بھائی ہے ۔ نعوذ باللہ ۔ اللہ تعالیٰ اس سے بہت پاک منزہ اور بالکل دور ہے جو یہ مشرک اس کی ذات پر الزام لگاتے ہیں اور جھوٹے بہتان باندھتے ہیں ۔ اس کے بعد استثناء منقطع ہے اور بےمثبت مگر اس صورت میں کہ یعفون کی ضمیر کا مرجع تمام لوگ قرار دیئے جائیں ۔ پس ان میں سے ان لوگوں کو الگ کر لیا جو حق کے ماتحت ہیں اور تمام نبیوں رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ یہ استثناء ( انھم لمحضرون ) سے ہے یعنی سب کے سب عذاب میں پھانس لئے جائیں گے مگر وہ بندگان جو اخلاص والے تھے ۔ یہ قول ذرا تامل طلب ہے واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاسْتَفْتِهِمْ اَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ : پچھلی آیات کے ساتھ ان آیات کی مناسبت یہ ہے کہ مشرکین کے بد ترین عقائد میں سے ایک قیامت کا انکار تھا اور ایک شرک تھا، جس کی ایک صورت فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دے کر ان کے بت بنا کر ان کی پرستش کرنا تھی۔ قرآن میں متعدد مقامات پر ان کے اس عقیدے کا ذکر کر کے اس کی تردید کی گئی ہے۔ دیکھیے سورة نساء (١١٧) ، نحل (٥٧، ٥٨) ، بنی اسرائیل (٤٠) ، زخرف (١٦ تا ١٩) اور نجم (٢١ تا ٢٧) یہاں سورت کے شروع میں ان کے انکار قیامت پر فرمایا : (فَاسْتَفْتِهِمْ اَهُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمْ مَّنْ خَلَقْنَا ۭ اِنَّا خَلَقْنٰهُمْ مِّنْ طِيْنٍ لَّازِبٍ ) [ الصافات : ١١ ] ” سو ان سے پوچھ کیا یہ پیدا کرنے کے اعتبار سے زیادہ مشکل ہیں، یا وہ جنھیں ہم نے پیدا کیا ؟ بیشک ہم نے انھیں ایک چپکتے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے۔ “ اب دوسرے عقیدے کی تردید کرتے ہوئے فرماما : (فَاسْتَفْتِهِمْ اَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ وَلَهُمُ الْبَنُوْنَ ) ” پس ان سے پوچھ کیا تیرے رب کے لیے بیٹیاں ہیں اور ان کے لیے بیٹے ؟ “ زمخشری نے فرمایا : ” اس کا عطف سورت کے شروع میں ” فَاسْتَفْتِهِمْ اَهُمْ اَشَدُّ خَلْقًا “ پر ہے، اگرچہ ان کے درمیان بہت فاصلہ ہے۔ “ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے ہوئے وہ تین ظلم کر رہے تھے، ایک یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دے رہے تھے، حالانکہ وہ اس سے پاک ہے، کیونکہ یہ عجز اور محتاجی کی دلیل ہے۔ دوسرا یہ کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹیاں قرار دیں، جب کہ اپنے لیے بیٹے پسند کرتے ہیں۔ تیسرا یہ کہ انھوں نے اللہ کے مقرب فرشتوں کو مؤنث قرار دیا، حالانکہ وہ مذکر و مؤنث کی تفریق سے پاک ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب باتوں پر ان کا رد فرمایا اور سخت غصے کا اظہار فرمایا، چناچہ فرمایا : ” ان سے پوچھو کہ کیا تیرے رب کے لیے بیٹیاں اور ان کے لیے بیٹے ہیں ؟ “ ان کا اپنا حال یہ ہے کہ بیٹی کی خبر پر ان کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے اور اسے زندہ درگور کرنے کی فکر کرنے لگتے ہیں اور اپنے لیے اتنی ناگوار بات کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Events relating to the noble prophets described earlier provided some good counsel and some lessons to learn. Now, once again, the text turns to the essential subject of the affirmation of pure monotheism (tauhid) and the refutation of ascribing partners to the pristine divinity of Allah (shirk). Then, described at this particular place is the shirk of a particular kind. The disbelievers of Arabia believed that angels were the daughters of Allah Ta’ ala, and the daughters of the chieftains of Jinns were the mothers of angels. According to ` Allamah Whidi, this belief was not restricted to the Quraish alone. It also prevailed among the tribes of Juhainah, Banu Salamah, Banu Khuza&ah and Banu Malih (Tafsir Kabir, p. 112, v. 7) In verses beginning with: فَاستَفتِھِم (So ask them... -149) and ending at: إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ (if you are truthful - 157), arguments have been given in support of the refutation of this belief of the disbelievers of Arabia. In gist, it has been said here: To begin with, this belief of yours is totally wrong in terms of your own recognized practice and customs, since you yourself regard daughters to be a source of shame. Now, what is a source of shame for you personally, how could this thing be proved to be good for Allah Ta’ ala? Then, you have declared angels to be daughters of Allah. What proof do you have for saying so? There could be three kinds of arguments to prove a claim: (1) Observation (2) Report, that is, the saying of an entity or person whose veracity is established and (3) Reason. As far as observation is concerned, it is obvious that you have just not seen Allah Ta’ ala creating angels that could have given you the knowledge of the gender of angels. Therefore, you have no proof from observation with you. When it was said: أَمْ خَلَقْنَا الْمَلَائِكَةَ إِنَاثًا وَهُمْ شَاهِدُونَ (Or, did We create the angels as females while they were witnessing? - 150), this is what it means. As for a reported proof, you do not have that too because one only goes by the word of people who are trustworthy and whose veracity is well established. Quite contrary to this, there are those who hold this kind of belief but they are liars. Nothing they say can be a binding argument. When it was said: أَلَا إِنَّهُم مِّنْ إِفْكِهِمْ لَيَقُولُونَ (Beware! They are the ones who, by way of a lie of theirs, [ have the audacity to ] say, Allah has children|" - and they are absolute liars - 151, 152), this is what it means. As for the rational argument, even that does not go in your favor because, in your view, daughters have a lower status as compared to that of the sons. Now, think of the great Being of Allah that holds the superior most status in the entire universe - how can this superior most Being like to have something of a lower status? When it was said: أَصْطَفَى الْبَنَاتِ عَلَى الْبَنِينَ (Is it that Allah has chosen daughters (for Himself) instead of sons? - 153), this is what it means. Now, this leaves only one likelihood unexplored - may be, you have been blessed with some scripture from the heavens through the medium of revelation (wahy) in which you have been asked to believe as you do. So, if this be the case, come out and show us the proof - where is that revelation and where is that Book? When it was said: أَمْ لَكُمْ سُلْطَانٌ مُّبِينٌ فَأْتُوا بِكِتَابِكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ (Or, is it that there is some open authority with you? Then bring your book if you are truthful - 156, 157) this is what it means. An ilzami (الزامی) answer (based on adversary&s assumption) is more appropriate for the obstinate From these verses we learn that it is more appropriate to tackle people bent on obstinacy with an ilzami response. An ilzami response means that their claim should be refuted through the analogy of some other view of things they themselves have. In doing so, it is never necessary to concede that we too subscribe to this other view, in fact, there could be occasion when that other view is also incorrect. But, it is only to drive some sense into the obstinate adversary that it is put to use functionally. Here, to refute their belief, Allah Ta’ ala has used their own view that the existence of daughters is a cause of disgrace. It is obvious that it does not mean that it is so with Allah Ta’ ala as well, nor does it mean that, had they called angels &sons of God& rather than &daughters of God,& it would have been correct. In fact, this is an ilzami response, and its aim is to refute their belief by citing their own claims. Otherwise, the real response to beliefs of this nature is no other but that which finds mention in the noble Qur&an itself - that Allah Ta’ ala is independent and need-free and neither does He need any children, nor does it befit His Most Exalted State of Being.

خلاصہ تفسیر (توحید کے دلائل تو اوپر بیان ہوچکے) سو (اب اس کے بعد) ان لوگوں سے (جو ملائکہ اور جنات کو خدا کا شریک ٹھہراتے ہیں، اس طرح کہ ملائکہ کو نعوذ باللہ خدا کی بیٹیاں اور جنات کے سرداروں کی بیٹیوں کو ان فرشتوں کی مائیں قرار دیتے ہیں جس سے یہ لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرشتوں سے نسبی رشتہ ہے، اور جنات سے زوجیت کا تعلق ہے، سو ان سب سے) پوچھئے کہ کیا خدا کے لئے تو بیٹیاں (ہوں) اور تمہارے لئے بیٹے (ہوں، یعنی جب اپنے لئے بیٹے پسند کرتے ہو تو عقیدہ مذکور میں خدا کے لئے بیٹیاں تجویز کرتے ہو، پس اس عقیدے میں ایک خرابی تو یہ ہے اور) ہاں (دوسری بات سنو کہ) کیا ہم نے فرشتوں کو عورت بنایا ہے اور وہ (ان کے بننے کے وقت) دیکھ رہے تھے (یعنی ایک دوسری برائی یہ ہے کہ فرشتوں پر بلا دلیل مونث ہونے کی تہمت رکھتے ہیں) خوب سن لو کہ وہ لوگ (دلیل کچھ نہیں رکھتے بلکہ محض) سخن تراشی سے کہتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) اللہ صاحب اولاد ہے اور وہ یقینا (بالکل) جھوٹے ہیں (پس اس عقیدے میں تیسری برائی یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی طرف اولاد کی نسبت لازم آتی ہے، ان میں سے پہلی برائی کا قبح عرف سے، دوسری کا نقل سے اور تیسری کا عقل سے ثابت ہے۔ اور چونکہ جاہلوں کے لئے عرفی برائی کا اثبات زیادہ موثر ہوتا ہے، اس لئے پہلی برائی کو دوسرے عنوان سے مکرر فرماتے ہیں کہ ہاں) کیا اللہ تعالیٰ نے بیٹوں کے مقابلہ میں بیٹیاں زیادہ پسند کیں ؟ تم کو کیا ہوگیا تم کیسا (بیہودہ) حکم لگاتے ہو ؟ (جس کو عرفاً خود بھی برا سمجھتے ہو) پھر (علاوہ عرف کے) کیا تم (عقل اور) سوچ سے کام نہیں لیتے ہو (کہ یہ عقیدہ عقل کے بھی خلاف ہے) ہاں (اگر دلیل عقلی نہیں تو) کیا تمہارے پاس (اس پر) کوئی واضح دلیل موجود ہے (اس سے مراد نقلی دلیل ہے) سو تم اگر (اس میں) سچے ہو تو اپنی وہ کتاب پیش کرو اور (عقیدہ مذکورہ میں ملائکہ کو اولاد قرار دینے کے علاوہ) ان لوگوں نے اللہ میں اور جنات میں (بھی) رشتہ داری قرار دی ہے (جس کا بطلان اور بھی زیادہ ہے۔ کیونکہ بیوی جس کام کے لئے ہوتی ہے اس سے حق تعالیٰ پاک ہے، اور جب زوجیت محال ہے تو سسرالی رشتے جو اسی سے نکلتے ہیں وہ بھی محال ہوں گے) اور (جس جس کو یہ لوگ خدا کا شریک ٹھہرا رہے ہیں ان کی تو یہ کیفیت ہے کہ ان میں جو) جنات (ہیں خود ان) کا یہ عقیدہ ہے کہ (ان میں جو کافر ہیں) وہ (عذاب میں) گرفتار ہوں گے (اور عذاب میں کیوں گرفتار نہ ہوں کہ حق تعالیٰ کی نسبت بری بری باتیں بیان کرتے ہیں، حالانکہ) اللہ ان باتوں سے پاک ہے جو جو یہ بیان کرتے ہیں (پس ان کافرانہ بیانات سے وہ گرفتار عذاب ہوں گے) مگر جو اللہ کے خاص (یعنی ایمان والے) بندے ہیں (وہ اس عذاب سے بچیں گے) سو تم اور تمہارے سارے معبود (سب مل کر بھی) خدا سے کسی کو پھیر نہیں سکتے (جیسی تم کوشش کیا کرتے ہو، مگر اسی کو جو کہ (علم الٰہی میں) جہنم رسید ہونے والا ہے اور (آگے ملائکہ کا ذکر فرماتے ہیں کہ ان میں جو ملائکہ ہیں ان کا یہ مقولہ ہے کہ ہم تو بندہ محض ہیں، چناچہ جو خدمت ہمارے سپرد ہے اس میں) ہم میں سے ہر ایک کا ایک معین درجہ ہے (کہ اسی کی بجا آوری میں لگے رہتے ہیں، اپنی رائے سے کچھ نہیں کرسکتے) اور ہم (خدا کے حضور میں حکم سننے کے وقت یا عبادت کے وقت ادب سے) صف بستہ کھڑے ہوتے ہیں اور ہم (خدا کی) پاکی بیان کرنے میں بھی لگے رہتے ہیں (غرض ہر طرح محکوم اور بندے ہیں۔ سو جب فرشتے خود اپنی بندگی کا اعتراف کر رہے ہیں تو پھر ان پر معبود ہونے کا شبہ کرنا بڑی بےوقوفی ہے، پس جنات اور ملائکہ کے حق میں خدائی کا اعتقاد یا حسن وجوہ باطل ہوگیا) ۔ معارف ومسائل انبیاء (علیہم السلام) کے واقعات نصیحت و عبرت کے لئے بیان کئے گئے تھے، اب پھر توحید کے اثبات اور شرک کے ابطال کا اصل مضمون بیان کیا جا رہا ہے، اور یہاں شرک کی ایک خاص قسم کا بیان ہے۔ کفار عرب کا یہ عقیدہ تھا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں، اور جنات کی سردار زادیاں فرشتوں کی مائیں ہیں۔ بقول علامہ واحدی یہ عقیدہ قریش کے علاوہ جہینہ، بنو سلمہ، بنو خزاعہ اور بنو ملیح کے یہاں بھی رائج تھا۔ (تفسیر کبیر، ص ٢١١ ج ٧) (آیت) فَاسْتَفْتِهِمْ (الی قولہ تعالیٰ ) اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ، ان آیتوں میں کفار عرب کے اسی عقیدے کی تردید کے لئے دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ اول تو تمہارا یہ عقیدہ خود تمہارے عرف اور رسم و رواج کے لحاظ سے بالکل غلط ہے۔ اس لئے کہ تم بیٹیوں کو باعث تنگ سمجھتے ہو، اب جو چیز تمہارے اپنے لئے ننگ وعار ہے وہ اللہ تعالیٰ کے لئے کیسے ثابت ہو سکتی ہے ؟ پھر تم نے جو فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دیا ہے، اس کی تمہارے پاس دلیل کیا ہے ؟ کسی دعوے کو ثابت کرنے کے لئے تین قسم کے دلائل ہو سکتے ہیں۔ ایک مشاہدہ، دوسرے نقلی دلیل، یعنی کسی ایسی ذات کا قول جس کی سچائی مسلم ہو، اور تیسرے عقلی دلیل جہاں تک مشاہدہ کا تعلق ہے ظاہر ہے کہ تم نے اللہ تعالیٰ کو فرشتوں کی تخلیق کرتے ہوئے دیکھا ہی نہیں جس سے فرشتوں کا مونث ہونا معلوم ہو سکتا، لہٰذا مشاہدہ کی کوئی دلیل تو تمہارے پاس ہے نہیں (آیت) (اَمْ خَلَقْنَا الْمَلٰۗىِٕكَةَ اِنَاثًا وَّهُمْ شٰهِدُوْنَ کا یہی مطلب ہے) اب رہی نقلی دلیل سو وہ بھی تمہارے پاس نہیں، اس لئے کہ قول ان لوگوں کا معتبر ہوتا ہے جن کی سچائی مسلم ہو، اس کے برخلاف جو لوگ اس عقیدے کے قائل ہیں وہ جھوٹے لوگ ہیں، ان کی بات کوئی حجت نہیں ہو سکتی (آیت) (اَلَآ اِنَّهُمْ مِّنْ اِفْكِهِمْ لَيَقُوْلُوْنَ الخ کا یہی مطلب ہے) رہی عقلی دلیل، سو وہ بھی تمہاری تائید نہیں کرتی، اس لئے کہ خود تمہارے خیال کے مطابق بیٹیاں بیٹوں کے مقابلے میں کم رتبہ رکھتی ہیں، اب جو ذات تمام کائنات سے افضل ہے وہ اپنے لئے کم رتبہ والی چیز کو کیسے پسند کرسکتی ہے ؟ (آیت) (اَصْطَفَى الْبَنَاتِ عَلَي الْبَنِيْنَ کا یہی مطلب ہے) اب صرف ایک ہی صورت رہ جاتی ہے کہ تمہارے پاس کوئی آسمانی کتاب آئی ہو اور اس میں بذریعہ وحی تمہیں اس عقیدے کی تعلیم دی گئی ہو، سو اگر ایسا ہے تو دکھاؤ وہ وحی اور وہ کتاب کہاں ہے ؟ (اَمْ لَكُمْ سُلْطٰنٌ مُّبِيْنٌ، فَاْتُوْا بِكِتٰبِكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ کا یہی مفہوم ہے) ہٹ دھرمی کرنے والوں کے لئے الزامی جواب زیادہ مناسب ہے : ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ جو لوگ ہٹ دھرمی پر تلے ہوئے ہیں ان کو الزامی جواب دینا زیادہ مناسب ہے۔ الزامی جواب کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کے دعوے کو خود انہی کے کسی دوسرے نظریہ کے ذریعہ باطل کیا جائے اس میں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ دوسرا نظریہ ہمیں بھی تسلیم ہے، بلکہ بسا اوقات وہ دوسرا نظریہ بھی غلط ہوتا ہے، لیکن مخالف کو سمجھانے کے لئے اس سے کام لے لیا جاتا ہے۔ یہاں باری تعالیٰ نے ان کے عقیدہ کی تردید کے لئے خود انہی کے اس نظریہ کو استعمال فرمایا ہے کہ بیٹیوں کا وجود باعث ننگ وعار ہے، ظاہر ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی بیٹیوں کا وجود باعث ننگ ہے، نہ یہ مطلب ہے کہ اگر وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیوں کے بجائے خدا کے بیٹے کہتے تو یہ درست ہوتا) بلکہ یہ ایک الزامی جواب ہے۔ جس کا مقصد خود انہی کے مزعومات سے ان کے عقیدے کی تردید کرنا ہے، ورنہ اس قسم کے عقائد کا حقیقی جواب وہی ہے جو قرآن کریم ہی میں کئی جگہ مذکور ہے، کہ اللہ تعالیٰ بےنیاز ہے، اور اسے کسی اولاد کی ضرورت نہ ہے اور نہ اس کی رفعت شان کے یہ مناسب ہے کہ اس کی اولاد ہو۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاسْتَفْتِہِمْ اَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ وَلَہُمُ الْبَنُوْنَ۝ ١٤٩ۙ استفتا الجواب عمّا يشكل من الأحكام، ويقال : اسْتَفْتَيْتُهُ فَأَفْتَانِي بکذا . قال : وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّساءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ [ النساء/ 127] ، فَاسْتَفْتِهِمْ [ الصافات/ 11] ، استفتا اور کسی مشکل مسلہ کے جواب کو فتیا وفتوی کہا جاتا ہے ۔ استفتاہ کے معنی فتوی طلب کرنے اور افتاہ ( افعال ) کے معنی فتی دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّساءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ [ النساء/ 127]( اے پیغمبر ) لوگ تم سے ( یتیم ) عورتوں کے بارے میں فتوی طلب کرتے ہیں کہدو کہ خدا تم کو ان کے ( ساتھ نکاح کرنے کے ) معاملے میں فتوی اجازت دیتا ہے فَاسْتَفْتِهِمْ [ الصافات/ 11] تو ان سے پوچھو۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ ( ابْنُ ) أصله : بنو، لقولهم في الجمع : أَبْنَاء، وفي التصغیر : بُنَيّ ، قال تعالی: يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف/ 5] ، يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات/ 102] ، يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان/ 13] ، يا بنيّ لا تعبد الشیطان، وسماه بذلک لکونه بناء للأب، فإنّ الأب هو الذي بناه وجعله اللہ بناء في إيجاده، ويقال لكلّ ما يحصل من جهة شيء أو من تربیته، أو بتفقده أو كثرة خدمته له أو قيامه بأمره : هو ابنه، نحو : فلان ابن الحرب، وابن السبیل للمسافر، وابن اللیل، وابن العلم، قال الشاعر أولاک بنو خير وشرّ كليهما وفلان ابن بطنه وابن فرجه : إذا کان همّه مصروفا إليهما، وابن يومه : إذا لم يتفكّر في غده . قال تعالی: وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة/ 30] وقال تعالی: إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود/ 45] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف/ 81] ، وجمع ابْن : أَبْنَاء وبَنُون، قال عزّ وجل : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] ، وقال عزّ وجلّ : يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف/ 67] ، يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف/ 31] ، يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، ويقال في مؤنث ابن : ابْنَة وبِنْت، وقوله تعالی: هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود/ 78] ، وقوله : لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود/ 79] ، فقد قيل : خاطب بذلک أکابر القوم وعرض عليهم بناته «1» لا أهل قریته كلهم، فإنه محال أن يعرض بنات له قلیلة علی الجمّ الغفیر، وقیل : بل أشار بالبنات إلى نساء أمته، وسماهنّ بنات له لکون کلّ نبيّ بمنزلة الأب لأمته، بل لکونه أكبر وأجل الأبوین لهم كما تقدّم في ذکر الأب، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل/ 57] ، هو قولهم عن اللہ : إنّ الملائكة بنات اللہ . الابن ۔ یہ اصل میں بنو ہے کیونکہ اس کی جمع ابناء اور تصغیر بنی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف/ 5] کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات/ 102] کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ( گویا ) تم کو ذبح کررہاہوں ۔ يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان/ 13] کہ بیٹا خدا کے ساتھ شریک نہ کرنا ۔ يا بنيّ لا تعبد الشیطانبیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا ۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے اس لئے اسے ابن کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ باپ کو اللہ تعالٰٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تکلیف میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسرے کے سبب اس کی تربیت دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے ۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہوا است بھی اس کا بن کہا جاتا جسے : فلان ابن حرب ۔ فلان جنگ جو ہے ۔ ابن السبیل مسافر ابن اللیل چور ۔ ابن العلم پروردگار وہ علم ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) یہ لوگ خیر وزر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ فلان ابن بطنہ پیٹ پرست فلان ابن فرجہ شہوت پرست ۔ ابن یومہ جو کل کی فکر نہ کرے ۔ قرآن میں ہے : وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة/ 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے میں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں ۔ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود/ 45] میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ۔ إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف/ 81] کہ اب آپکے صاحبزادے نے ( وہاں جاکر ) چوری کی ۔ ابن کی جمع ابناء اور بنون آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف/ 67] کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا ۔ يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف/ 31] ( 3 ) اے نبی آدم ہر نماز کے وقت اپنے تیئں مزین کیا کرو ۔ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے نبی آدم ( دیکھنا کہیں ) شیطان تمہیں بہکانہ دے ۔ اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع بنات آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود/ 78] ( جو ) میری ) قوم کی ) لڑکیاں ہیں تمہارے لئے جائز اور ) پاک ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود/ 79] تمہاری ۃ قوم کی ) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اکابر قوم خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں ۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے کہ بنات سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بناتی اس لئے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اب کی تشریح میں گزر چکا ہے اور آیت کریمہ : وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل/ 57] اور یہ لوگ خدا کے لئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ کے مونی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتی ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

سو اب اس کے بعد مکہ والوں میں سے بنو ملیح سے پوچھیے کہ کیا اللہ کے لیے تو بیٹیاں ہوں اور تمہارے بیٹے۔ انہوں نے جواب میں کہا ہاں اس پر رسول اکرم نے ان سے فرمایا کیا اللہ تعالیٰ کے لیے وہ چیز پسند کرتے ہو جو اپنے لیے پسند نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٩{ فَاسْتَفْتِہِمْ اَلِرَبِّکَ الْبَنَاتُ وَلَہُمُ الْبَنُوْنَ } ” تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ ان سے پوچھیں ‘ کیا تمہارے ربّ کے لیے تو بیٹیاں ہیں اور ان کے لیے بیٹے ! “ یہاں مشرکین ِمکہ ّکے اس عقیدے پر جرح کی جا رہی ہے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ یعنی یہ لوگ خود اپنے لیے تو بیٹے پسند کرتے ہیں اور بیٹیوں کو ناپسند کرتے ہیں لیکن جب یہ لوگ اللہ سے اولاد منسوب کرتے ہیں تو اس کے لیے بیٹیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

86 Another theme starts from here. In the preceding theme that started from v. 11, the Quraish had been put this question: "Ask them: what is more difficult: their own creation or of those things that We have created?" Now, they are being asked this second question. The object of the first question was to warn the disbelievers of their deviation because of which they regarded life-after-death and the meting out of rewards and punishments as impossible, and therefore, mocked the Holy Prophet for it. Now they are being asked this second question to warn them of their ignorance due to which they attributed children to Allah and would join anybody with Allah in any relationship they liked on mere conjecture. >87 Traditions show that in Arabia the tribes of Quraish, Juhainah, Bani Salimah, Khuza'ah, Bani Mulaih, etc., held the belief that the angels were Allah's daughters. This belief of their ignorance has been referred to at several places in the Qur'an, e.g. in An-Nisa': 117, An-Nahl: 57-58, Bani Isra'il: 40, Az-Zukhruf: 16; 19, An-Najm: 21-27.

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :86 یہاں سے ایک دوسرا مضمون شروع ہوتا ہے ۔ پہلا مضمون آیت نمبر 11 سے شروع ہوا تھا جس میں کفار مکہ کے سامنے یہ سوال رکھا گیا تھا ان سے پوچھو ، کیا ان کا پیدا کرنا زیادہ مشکل کام ہے یا ان چیزوں کا جو ہم نے پیدا کر رکھی ہیں ۔ اب انہی کے سامنے یہ دوسرا سوال پیش کیا جا رہا ہے ۔ پہلے سوال کا منشا کفار کو ان کی اس گمراہی پر متنبہ کرنا تھا کہ وہ زندگی بعد موت اور جزا و سزا کو غیر ممکن الوقوع سمجھتے تھے اور اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑاتے تھے ۔ اب یہ دوسرا سوال ان کی اس جہالت پر متنبہ کرنے کے لیے پیش کیا جا رہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف اولاد منسوب کرتے تھے اور قیاسی گھوڑے دوڑا کر جس کا چاہتے تھے اللہ سے رشتہ جوڑ دیتے تھے ۔ سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :87 روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب میں قریش ، جُہینہ ، بنی سَلِمہ ، خزاعہ ، بن مُلیح اور بعض دوسرے قبائل کا عقیدہ یہ تھا کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں ۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ان کے اس جاہلانہ عقیدے کا ذکر کیا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو النساء ، آیت 117 ۔ النحل آیات 57 ۔ 58 ۔ بنی اسرائیل ، آیت 40 ۔ الزخرف ، آیات 16 تا 19 ۔ النجم ، آیات 21 تا 27 ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

29: جیسا کہ سورت کے شروع میں عرض کیا گیا، مکہ مکرمہ کے بت پرست، فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے۔ یہاں سے ان کے اس بے ہودہ عقیدے کی تردید ہورہی ہے۔ یہ بت پرست اپنے لیے بیٹیوں کو پسند نہیں کرتے تھے، بلکہ ان میں سے کچھ لوگ بیٹیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ اول تو یہ فرما رہے ہیں کہ یہ کیسے غضب کی بات ہے کہ تم اپنے لیے تو بیٹیوں کو ناپسند کرتے ہو، اور اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹیوں کا عقیدہ رکھتے ہو۔ پھر آگے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی اولاد کی ضرورت نہیں ہے، نہ بیٹوں کی نہ بیٹیوں کی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٤٩۔ ١٥٧۔ اوپر پہلے کے انبیاء اور ان کی نافرمان امتوں کا ذکر فرما کر تنبیہ کے طور پر قریش کی ایک نافرمانی کا یوں ذکر فرمایا۔ کہ اے رسول اللہ کے تم ان مشرکوں سے پوچھو کہ تم لوگ اللہ کے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں جو کہتے ہو۔ تو جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو پیدا کیا ہے تو کیا اس وقت تم نے دیکھا ہے کہ اللہ کے فرشتے عورتیں ہیں۔ پھر فرمایا جب یہ بات نہیں ہے تو یہ ان لوگوں کا ایک جھوٹ ہے کہ یہ لوگ اللہ کو صاحب اولاد ٹھہرا کر اللہ کے لئے بیٹیاں اور اپنے لئے بیٹے پسند کرتے ہیں۔ ان کو اتنی بھی سمجھ نہیں کہ یہ لوگ کیا بکتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ جو بات یہ لوگ منہ سے نکالتے ہیں۔ اگر وہ جھوٹ نہیں ہے تو اس کے سچ ہونے کی کوئی سند ان کے پاس ہو تو اس کو پیش کریں۔ مطلب یہ ہے کہ جس اللہ نے ان کو ان کی سب ضرورت کی چیزوں کو پیدا کیا۔ یہ لوگ نادانی سے اس کی عبادت میں اپنے ہاتھ کے بنائے ہوئے بتوں کو شریک کرتے ہیں۔ اور پھر بھی اپنے آپ کو بڑا عقل مند کہتے ہیں حالانکہ ان کی عقل مندی کا یہ حال ہے کہ بلاسند اللہ کے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بتاتے ہیں۔ اور ان کی مورتیں بنا کر ان مورتوں کے عورتوں کے مناۃ اور لاۃ نام رکھتے ہیں اور ان کی پوجا کرتے ہیں۔ سورة سبا میں گزر چکا ہے کہ قیامت کے دن فرشتوں سے اللہ تعالیٰ پوچھے گا۔ کہ یہ لوگ کیا تمہاری مورتوں کی پوجا کرتے تھے۔ فرشتے جواب دیں گے۔ کہ شیطان کے بہکانے سے یہ لوگ جو کچھ کرتے تھے وہ شیطان کی پوجا تھی۔ ہم تو ان لوگوں کے شرک سے بیزار اور اللہ کو ایسے شرک سے پاک ذات جانتے ہیں۔ سورة سبا کی آیتوں کو ان آیتوں کے ساتھ ملایا جاوے۔ تو یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ مشرکین مکہ میں کے جن لوگوں نے فرشتوں کی مورتوں کی پوجا عرب میں پھیلائی تھی۔ قیامت کے دن فرشتے ان کی صورت سے بیزار ہوجاویں گے صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث ایک جگہ گزرچکی ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اپنے علم غیب کے موافق اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ کون شخص دنیا میں پیدا ہونے کے بعد دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل کام کرے گا اور کون شخص جنت میں جانے کے قابل۔ اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین میں جو لوگ علم الٰہی کے موافق دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل ٹھہر چکے تھے۔ انہوں نے مرتے دم ایسی ہی باتیں کیں۔ جیسی باتوں کا ذکر ان آیتوں میں ہے اور پھر اسی حال میں مر کر دوزخ کا ایندھن قرار پائے۔ اسی طرح جو لوگ علم الٰہی میں جنت کے قابل قرار پا چکے تھے۔ وہ کچھ عرصہ تک اسی گمراہی کی باتوں میں لگے رہے۔ پھر اس طرح راہ راست پر آئے کہ فتح مکہ کے دن مکہ کے ہر گلی کوچہ بلکہ تمام جزیرہ عرب میں پورا اسلام یہاں تک پھیل گیا کہ مثلاً انصار میں قبیلہ اوس خزرج کے لوگ جو مناۃ بت کی تعظیم میں مشہور تھے۔ آخر کو بت پرستی کے دشمن اور اسلام کے ایسے مددگار بن گئے کہ انصار کی محبت ایمان کی نشانی ٹھہر گئی چناچہ صحیح بخاری ٢ ؎ کی انس (رض) بن مالک کی روایت میں اس کا ذکر تفصیل سے ہے۔ یا تو تمام اہل عرب میں اسی مناۃ بت کی بڑی تعظیم تھی یا فتح مکہ کے وقت اللہ کے رسول کے حکم سے جب حضرت علی (رض) نے اس بت کو توڑا تو اہل عرب میں سے کسی نے حضرت علی (رض) کا ہاتھ نہیں پکڑا۔ (١ ؎ تفسیر ہذا ص ٤۔ ) (٢ ؎ صحیح بخاری باب علامۃ الایمان حب الانصار ص ٧ ج ١)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:149) فاستفتہم اس میں ف عاطفہ ہے اس جملہ کا عطف سابقہ جملہ فاستفتہم اہم اشد خلقا ام من خلقنا پر ہے آیت (37:11) اللہ تعالیٰ نے پہلے (37:11) میں اپنے رسول کو حکم دیا کہ منکرین قیامت سے انکار قیامت کی وجہ پوچھیں اور تقریری سوال کے طور پر فرمایا :۔ ” کیا ان کی تخلیق مشکل ہے اور سخت ہے یا ان کے علاوہ آسمان و زمین، ملائکہ اور گذشتہ اقوام کی تخلیق سخت اور مشکل ہے تو لازمی طور پر ان لوگوں کو اس ہمہ گیر طاقت والے خدا کے عذاب سے ڈرنا چاہیے ۔ جس نے گذشتہ اقوام سے انتقام لیا اور کفر کی وجہ سے ان کو غارت اور تباہ کردیا۔ وہی ہمہ گیر خدا طاقت و قدرت رکھتا ہے تخلیق پر بھی اور دوبارہ زندہ کرنے پر بھی اور عذاب دینے پر بھی۔ اس کے بعد کچھ پیغمبروں کے واقعات بیان فرمائے (بطور کلام معترضہ کے ) پھر اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ ان سے دریافت کریں کہ کیا خدا کے لئے تو بیٹیاں ہیں اور تمہارے لئے بیٹے “۔ (تفسیر مظہری) ۔ فاستفتہم۔ سو ان لوگوں سے پوچھئے ۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب قریش مکہ کی طرف راجع ہے (نیز ملاحظہ ہو 37:11) ۔ الربک۔ ہمزہ استفہام انکاری کے لئے ہے جو اللہ کے لئے بیٹیاں اور مشرکین کے لئے بیٹوں کے ہونے سے متعلق ہے ۔ اور ہمزہ انکار توبیخی یا انکار ابطالی کا بھی ہوسکتا ہے۔ لام حرف جار ملکیت کے لئے ہے۔ ربک مضاف مضاف الیہ۔ تیرا رب۔ تیرا پروردگار کیا تیرے پروردگار کے لئے (تو بیٹیاں ہیں) فائدہ : یہاں رب کی اضافت بجائے ہم کے ک ضمیر واحد مذکر حاضر (جو حضرت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف راجع ہے) آپ کی عظمت اور شرف کے لئے ہے اور کفار سے نفرت کے اظہار کے لئے ہے ورنہ عبارت یوں بھی ہوسکتی تھی۔ الربہم البنات ولہم البنون۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 عرب کے بعض قبائل کا عقیدہ تھا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ اسی کی تردید اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمائی۔ قرآن میں متعدد مقامات پر اسی جاہلی عقیدہ کی تردید کی گئی ہے۔ مثلاً نساء آیت 117، نحل آیت 57، 58، بنی اسرائیل آیت 40، زخرف آیت 16 تا 19 نجم آیت 21، 27،

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 149 تا 166 :۔ استفت ( آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوچھئے) البنات ( بنت) ( بیٹیاں) البنون ( بن) (بیٹے) انات (عورت ، عورت ذات) شھدون (دیکھنے والے) افک (الزام ، بہتان) اصطفی (اس نے پسند کرلیا) مالکم ( تمہیں کیا ہوگیا) نسب (رشتہ) یصفون (وہ بیان کرتے ہیں) فتنین ( بہکانے والے) صال (جانے والا) المسبحون ( حمد وثناء کرنے والے) ۔ تشریح : آیت نمبر 149 تا 166 :۔ جب اللہ کے حکم سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان نبوت فرمایا اس وقت عرب کے لوگ عقیدوں اور عمل کی ہزاروں گندگیوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔ انہوں نے اللہ کی مخلوق کو خالق اور بےحقیقت چیزوں کو معبود کا درجہ دے رکھا تھا۔ چناچہ عرب کے بعض اہم قبیلوں کا یہ عقیدہ تھا کہ نعوذ باللہ فرشتے جو اللہ کی تابع دار مخلوق ہیں اللہ کی بیٹیاں ہیں ۔ اور جب ان سے پوچھا جاتا کہ پھر ان فرشتوں کی مائیں کون ہیں تو کہتے کہ جنات کے سرداروں کی بیٹیاں ان کی مائیں ہیں ۔ گویا اللہ تعالیٰ کا فرشتوں سے نسبی اور جنات کی بیٹیوں سے زوجیت کا رشتہ ہے ( نعوذ باللہ) ان کا یہ کہنا تھا کہ فرشتوں کے ہاتھ میں اللہ نے یہ اختیار دے رکھا ہے کہ جو وہ چاہیں بھلائی پہنچائیں اور جس کو جو دینا چاہیں دے سکتے ہیں ۔ اس کے بر خلاف جنات جو زبردست قوت و طاقت کے مالک ہیں وہ جس جس طرح چاہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔ جنات شر کے اور فرشتے خیر کے معبود ہیں شاید مجوسی آتش پرستوں نے جو خیر و شر کے معبود بنا رکھے ہیں وہ عربوں کے اسی عقیدہ کی نقل ہو ۔ آتش پرست کہتے ہیں کہ ہر چیز اور بھلائی پہنچا نے کی ذمہ داری یزداں کی ہے اور ہر برائی اور شر کو پہنچانے کا اختیار اھرمن کو حاصل ہے۔ آتش پرستوں نے یہیں سے اس عقیدہ کو لے کر دو معبودوں کا تصور قائم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام غلط اور بےبنیاد عقیدوں کی تردید کرتے ہوئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا ہے کہ ذرا آپ ان بد عقیدہ کفار و مشرکین سے یہ پوچھئے کہ وہ اپنے لئے تو اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ ان کے گھر لڑکا پیدا ہو اور لڑکیوں کی پیدائش کو برا سمجھتے ہیں لیکن انہوں نے اللہ کی مخلوق فرشتوں کو اس کی بیٹیاں بنا دیا ۔ فرمایا کہ ان سے پوچھئے کہ جب اللہ تعالیٰ ان فرشتوں کو پیدا کر رہا تھا تو کیا یہ لوگ اس وقت وہاں موجود تھے اور اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ اللہ نے کس کو نر اور کس کو مادہ بنایا ہے۔ ارشاد ہے کہ اللہ پر اس سے بڑا جھوٹ اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ اللہ صاحب اولاد ہے۔ یعنی وہ کائنات کا نظام چلانے میں بیٹے ، بیٹی اور بیوی کا محتاج ہے ( نعوذ باللہ) فرمایا کہ وہ کائنات کے نظام کو چلانے میں کسی طرح کا محتاج نہیں ہے۔ اور یہ تو بڑی بےانصافی کی بات ہے کہ وہ اپنے لئے جس چیز کو ناپسند سمجھتے ہیں اسی کو انہوں نے اللہ کی پسند بنا دیا کیا یہ لوگ غور و فکر سے بالکل ہی دور جا چکے ہیں ۔ اللہ نے فرمایا کہ ان لوگوں کے پاس نہ تو کوئی واضح موجود ہے اور نہ کوئی ایسی کتاب ہے جس میں اللہ نے یہ فرمایا ہو کہ فرشتے میری بیٹیاں ہیں ۔ اگر ان کے پاس کوئی ایسی کتاب ہے تو وہ لا کر دکھائیں لیکن یہ اتنے بڑے جھوٹے لوگ ہیں کہ یہ محض اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے اللہ پر جھوٹے بہتان لگا رہے ہیں اور کسی دلیل کو پیش کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ یہ لوگ جنات کو صاحب اختیار سمجھتے ہیں کہ وہ جس کو جو نقصان پہنچانا چاہیں پہنچا سکتے ہیں یہ بالکل غلط ہے کیونکہ شریر جنات تو خود قیامت کے دن مجرموں کی طرح باندھ کر لائے جائیں گے اور جن لوگوں نے ان کی عبادت و بندگی کی ہوگی اس دن ان کو پتہ چلے گا کہ وہ زندگی بھر ایک بہت بڑے دھوکے میں مبتلا رہے ہیں ۔ فرمایا کہ یہ لوگ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دے کر جس طرح ان کو معبود بنائے ہوئے ہیں اور ان سے اپنی مرادوں کو مانگتے ہیں ان فرشتوں کا یہ حال ہے کہ وہ پوری طرح اللہ کے اختیار میں ہیں وہ اللہ کے تابع دار اور فرماں بردار ہیں وہ ہر وقت صفیں باندھے اس بات کے منتظر رہتے ہیں کہ انہیں اللہ کی طرف سے کیا حکم دیا جا رہا ہے جیسے ہی کوئی حکم ہوتا ہے تو وہ فوراً اس کی تعمیل کرتے ہیں ۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کی حدود ، رتبہ اور مقام کیا ہے۔ اس سے وہ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا سکتے۔ وہ فرشتے ہر وقت اللہ کی حمد وثناء اور تسبیح کرتے رہتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی جب اپنے لئے بیٹے پسند کرتے ہو تو عقیدہ مذکورہ میں خدا کے لئے بیٹیاں کیسے تجویز کرتے ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر 210 ایک نظر میں اس سورت کے سبق 2 میں لائے جانے والے قصص نے جن امور پر روشنی ڈالی اور اللہ اور اس کے بندوں کے تعلق کی جو وضاحت کی اور اللہ کی جانب سے اپنے رسولوں کے مکذبین کو جس طرح پکڑا گیا جو غیر اللہ کی بندگی کرتے تھے اور اللہ کے ساتھ خود اس کی پیدا کی ہوئی مخلوق کو شریک کرتے تھے اور اس حقیقت کی روشنی میں جو درس اول کا موضوع تھی ، اب اس آخری سبق میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت دی جاتی ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ اس موضوع پر مکالمہ کریں کہ ان تمام حقائق کے مقابلے میں ان کے اس افسانوی عقیدے کی کیا حقیقت ہے کہ ملائکہ اللہ کی بیٹیاں ہیں نیز ان کے اس افسانوی عقیدے کی کیا حیثیت ہے جس کے مطابق وہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ اور جنوں کے درمیان کوئی رشتہ داری ہے اور ان کو یاد دلائیں کہ تم تو تمنائیں کرتے تھے کہ ہم میں بھی کوئی رسول آجائے اور تم یہ کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی رسول آجائے تو ہم اس کی ہدایات کو بسر و چشم قبول کریں گے لیکن ان تمہارا حال یہ ہے کہ جب رسول آگیا تو تم نے کفر کا رویہ اختیار کرلیا۔ سورت کا خاتمہ اس ریکارڈ پر ہوتا ہے کہ اللہ نے رسولوں کے ساتھ وعدہ کرلیا ہے کہ وہی غالب رہیں گے اور یہ کہ یہ مشرکین اللہ کی طرف جو نسبتیں کرتے ہیں وہ ان سے پاک ہے اور تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں۔ چناچہ آغاز ہوتا ہے۔ درس نمبر 210 تشریح آیات 149 ۔۔۔ تا۔۔۔ 182 فاستفتھم الربک البنات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کنتم صدقین (149 – 157) ان کے اس غلط عقیدے کا ہر طرف سے گھیراؤ کیا جاتا ہے ۔ ان کے خلاف ان کی زبان میں بات کی جاتی ہے اور ان کے سماج میں جو سوچ تھی اسی کو ان کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ عربوں کے سماج میں لڑکوں کو لڑکیوں کے مقابلے میں زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ اور وہ بچیوں کی پیدائش کو مصیبت سمجھتے تھے۔ لڑکیوں کو لڑکوں کے مقابلے میں کم تر مخلوق سمجھا جاتا تھا۔ اور اس کے باوجود وہ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ فرشتے دیویاں ہیں اور یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ چناچہ اس عقیدے کو ان کی منطق اور سوچ کے مطابق رد کردیا گیا تاکہ وہ دیکھ لیں کہ حقیقت تو دور کی بات ہے خود ان کے تسلیم شدہ معیار کے مطابق بھی ان کا عقیدہ غلط ہے۔ فاستفتھم الربک البنات ولھم النبون (37: 149) ” پھر ذرا ان سے پوچھو کہ تمہارے رب کیلئے تو ہوں بیٹاں اور ان کے لیے ہوں بیٹے “۔ کیا تمہارے دل کو یہ بات لگتی ہے۔ جبکہ تمہارے سماج میں لڑکیاں لڑکوں سے کم تر رتبہ رکھتی ہیں۔ کیا خوب تقسیم ہے تمہاری ، کہ تمہارے لیے ہوں بیٹے اور خالق کے لیے ہوں بیٹیاں یا یہ کہ خود اللہ نے اپنے لیے بیٹیاں چن لیں اور بیٹے تمہارے لیے چھوڑ دئیے۔ یہ دونوں باتیں درست نہیں ہیں۔ تمہارے یہ مزعومات کس قدر پوچ ہیں۔ آج تمہارے اندر یہ افسانوی سوچ کیسے پیدا ہوگئی۔ کہاں سے یہ عقیدہ پھیل گیا کہ فرشتے مونث ہیں۔ کیا انہوں نے ان کی پیدائش کو دیکھا ہے ، اس وقت یہ موجود تھے اور انہوں نے ان کی جنس کو معلوم کرلیا ؟ ام خلقنا الملئکۃ اناثا وھم شھدون (37: 150) “ کیا ہم نے ملائکہ کی تخلیق مونث کے طور پر کی اور یہ اس وقت دیکھ رہے تھے “۔ یہاں اللہ تعالیٰ ان کے اس مقولے اور عقیدے کو ان کے منصوص الفاظ میں نقل کرکے رد کرتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکین کی تردید جو اللہ کے لیے اولاد تجویز کرتے تھے شیطان نے اپنی کوششوں سے انسانوں کو توحید سے ہٹایا اور شرک کا رواج ڈالا، اس سلسلہ میں اس کی جو کوششیں آگے بڑھیں ان کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے بتوں کی عبادت پر تو ڈالا ہی تھا جنات اور فرشتوں کے بارے میں بھی لوگوں کو یہ سمجھایا کہ ان میں اور خالق کائنات جل مجدہ کے درمیان رشتہ داری ہے چناچہ انہوں نے فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں بتادیا، لوگ شیاطین کی بات مانتے چلے گئے اور اللہ تعالیٰ کے ذمہ وہ باتیں لگا دیں جن سے وہ بری ہے اور پاک ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد ہونا اس کی شان یکتا کے خلاف ہے، اس کی شان (لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ ) ہے نہ اس نے کسی کو جنا نہ وہ کسی سے جنا گیا، سورة مریم میں فرمایا (وَمَا یَنْبَغِیْ للرَّحْمٰنِ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا) (اور یہ رحمن کی شان کے لائق نہیں ہے کہ وہ کسی کو اولاد بنائے) مشرکین نے اول تو یہ سخت غلطی کی کہ اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کردی، پھر جب اولاد تجویز کی تو وہ بھی لڑکیاں، اور فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی لڑکیاں بتادیا، اللہ تعالیٰ کی اولاد تجویز کرنے میں بھی جھوٹ تراشا اولاد بھی وہ تجویز کی جو اپنے لیے ناپسند ہے۔ اسی کو یہاں فرمایا کہ آپ ان سے پوچھ لیجیے کہ خالق جل مجدہٗ نے اپنے لیے لڑکیوں کو بطور اولاد کے چن لیا اور تمہیں اپنے لیے لڑکے پسند ہیں، اور تم جو یہ کہہ رہے ہو کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں تمہارا یہ جھوٹ اپنی جگہ رہا اب تو یہ بتاؤ کہ فرشتوں کے لڑکیاں ہونے کا علم تمہیں کہاں سے ہوا ؟ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو پیدا فرمایا تو کیا تم حاضر تھے اور یہ دیکھ رہے تھے کہ وہ مخلوق جو پیدا ہورہی ہے مونث ہے یعنی مادہ ہے یا نر ہے ایک تو تم نے فرشتوں کو مونث بتایا دوسرے انہیں اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں بتایا، تیسرے یہ کیا کہ جب خلاق جل مجدہٗ کے لیے اولاد تجویز کرنے لگے تو بیٹیاں تجویز کردیں جبکہ اپنے لیے بیٹی کو ناپسند کرتے ہو۔ یہ ساری باتیں بےدلیل اور سراپا جھوٹ ہیں، اللہ تعالیٰ کے کوئی اولاد نہیں، نہ بیٹی نہ بیٹا، اور اولاد ہونا اس کی شان اقدس کے خلاف ہے۔ ان مشرکین سے فرمایا (مَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ ) تمہیں کیا ہوا تم کیسے حکم لگاتے ہو، کیا تم سمجھ سے کام نہیں لیتے ؟ کوئی دلیل عقلی یا کوئی دلیل نقلی یعنی اللہ کی بھیجی ہوئی کوئی کتاب تمہارے پاس ہو جس سے تم نے یہ بات نکالی ہے تو وہ پیش کرو، جب تمہارے پاس کئی دلیل نہیں تو یہ شرکیہ باتیں کیوں کرتے ہو اور اپنی طرف سے کیوں جھوٹ بناتے ہو۔ ؟ جب مشرکین مکہ نے یوں کہا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ان سے دریافت کیا کہ ان کی مائیں کون ہیں ؟ اس پر انہوں نے کہہ دیا کہ جنات میں جو سردار ہیں ان کی بیٹیاں فرشتوں کی مائیں ہیں۔ (روح المعانی ص ١٥١: ج ٢٣) اس طرح سے انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اور جنات کے درمیان قرابت داری تجویز کردی اور گویا جنات کے سرداروں کو فرشتوں کا نانا بنا دیا۔ اس کو فرمایا (وَجَعَلُوْا بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْجِنَّۃِ نَسَبًا) (کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اور جنات کے درمیان رشتہ داری تجویز کردی) پھر ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا (وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّۃُ اِِنَّہُمْ لَمُحْضَرُوْنَ ) اور جنات کا اس پر عقیدہ ہے کہ وہ حاضر کیے جائیں گے یعنی قیامت کے دن گرفتار ہوں گے، ان میں جو کافر ہوں گے دوزخ میں ڈالے جائیں گے جن میں ان کے سردار بھی ہوں گے، لہٰذا جو گرفتار ہو کر آئے گا اور دوزخ میں ڈالا جائے گا اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کیسے رشتہ ہوسکتا ہے۔ (سُبْحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یَصِفُوْنَ ) اللہ ان باتوں سے پاک ہے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں (یہ جملہ معترضہ ہے) (اِلَّا عِبَاد اللّٰہِ الْمُخْلَصِیْنَ ) مگر جو اللہ کے خاص بندے ہیں وہ دوزخ سے بچالیے جائیں گے، انسانوں میں سے ہوں یا جنات میں سے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

60:۔ فاستفتہم الخ : یہ فاستفتہم اھم اشد خلقا والے زجر کا اعادہ ہے برائے تنویر اور ابتدائے سورت سے متعلق ہے۔ یہاں سے لے کر الا من ھو صال الجحیم۔ تک فرشتوں اور جنوں کے حال کا اعادہ ہے بطور لف و نشر مرتب۔ مشرکین فرشتوں کو تو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے۔ اور ان کو خدا کے یہاں سفارشی سمجھ کر پکارا کرتے تھے لیکن اپنے لیے بیٹے پسند کرتے تھے۔ یہاں بطور زجر اس دعوی باطلہ پر ان سے دلیل طلب کی گئی۔ یہ دعوی چونکہ خلاف عقل اور سراسر باطل ہے اس لیے اس پر کوئی دلیل قائم نہیں کی جاسکتی۔ فاستخبر ھؤلاء الکفرۃ عن وجہ کون البنات وھن اوضع الجنسین لہ تعالیٰ بزعمہم والبنین الذین ھم ارفعہما لہم فانہم لا یستطیعون ان یثبتوا لہ وجہا لانہ فی غایۃ البطلان لایقولہ من لہ ادنی شیء من العقل (روح ج 23 ص 149) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(149) اے پیغمبر آپ ان کفار سے دریافت کیجئے کہ کیا آپ کے پروردگار کے لئے تو بیٹیاں ہیں اور ان کے لئے بیٹے۔ کچھ معاند اور سرکش لوگ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے معاذ اللہ ان کا رد فرمایا شاید یہود اور نصاریٰ کی بات سن کر کفار عرب نے یہ طریقہ اختیار کیا ہوگا وہ مسیح اور عزیز کو ابن اللہ کہتے تھے انہوں نے استہزاء ملائکہ کو بنات اللہ کہنا شروع کردیا اور وجہ یہ بیان کی کہ چونکہ ملائکہ ظاہر نہیں ہوتے اور وہ پردے میں رہتے ہیں اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں ان کو اس نے پردہ میں رکھ چھوڑا ہے۔