Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 156

سورة الصافات

اَمۡ لَکُمۡ سُلۡطٰنٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۱۵۶﴾ۙ

Or do you have a clear authority?

یا تمہارے پاس اس کی کوئی صاف دلیل ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Will you not then remember Or is there for you a plain authority! means, `evidence to prove what you say.' فَأْتُوا بِكِتَابِكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَمْ لَكُمْ سُلْطٰنٌ مُّبِيْنٌ : دعوے کو ثابت کرنے کے لیے یا عینی شہادت ہوتی ہے یا کوئی نقلی دلیل۔ عینی شہادت کا رد یہ کہہ کر فرمایا کہ جب ہم نے فرشتوں کو پیدا کیا تو کیا تم موجود تھے ؟ ظاہر ہے موجود نہیں تھے۔ اب کسی معتبر نقلی دلیل کا مطالبہ فرمایا کہ کیا تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسی ... کتاب ہے جس میں لکھا ہے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں ؟ جب یہ بھی نہیں تو صاف ظاہر ہے کہ تمہارے عقائد من گھڑت اور جھوٹ ہیں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمْ لَكُمْ سُلْطٰنٌ مُّبِيْنٌ۝ ١٥٦ۙ سلط السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السّ... َلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] ، ( س ل ط ) السلاطۃ اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔ مبینبَيَان والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] . وسمي ما يشرح به المجمل والمبهم من الکلام بيانا، نحو قوله : ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] ، ويقال : بَيَّنْتُهُ وأَبَنْتُهُ : إذا جعلت له بيانا تکشفه، نحو : لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ، وقال : نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] ، وإِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] ، وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] ، أي : يبيّن، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ اور مجمل مہیم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے جیسے ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] پھر اس ( کے معافی ) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ بینہ وابنتہ کسی چیز کی شروع کرنا ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] تاکہ جو ارشادت لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] کھول کر ڈرانے والا ہوں ۔إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] شیہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . اور جهگڑے کے وقت بات نہ کرسکے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥٦۔ ١٥٧) کیا جو تم کہتے ہو اسے سوچتے نہیں کیا تمہارے پاس اے مکہ والو اس کے بارے میں کوئی کتاب ہے جس میں اس پر واضح دلیل ہو کہ نعوذ باللہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہوت تو وہ کتاب پیش کرو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٦{ اَمْ لَکُمْ سُلْطٰنٌ مُّبِیْنٌ} ” کیا تمہارے پاس کوئی واضح سند موجود ہے ؟ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:156) ام لکم سلطان مبین۔ ام بطور حرف اضراب استعمال ہوا ہے ای بل ألکم حجۃ واصحۃ نزلت من السماء بان الملئکۃ بناتہ تعالیٰ بلکہ کیا تمہارے پاس کوئی آسمان سے نازل شدہ واضح دلیل ہے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ فائدہ : پہلے فرمایا الربک البنات ولہم البنون یہ صورت عقلاً محال ہے لہٰذا یہ ان کا دع... وی عقلا باطل ہوا۔ پھر فرمایا :۔ ام خلقنا الملئکۃ انثا وہم شھدون ۔ یہ صورت عینی شہادت کی ہے لیکن چونکہ ایسا نہیں ہے لہٰذا یہ دعوی بھی باطل ٹھہرا۔ تیری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ :۔ اس امر کی کوئی واضح دلیل کسی معتبر کی طرف سے ہو اور وہ معتبر ذات خدا وند تعالیٰ کی ہوسکتی ہے۔ لہٰذا فرمایا کہ :۔ اگر تمہارے پاس کوئی ایسا دستاویزی ثبوت ہے تو پیش کرو۔ ام لکم سلطن امبین ۔ فاتوا بکتابکم ان کنتم صدقین ۔ ایس کوئی کتاب بھی تو ان کے پاس نہیں ہے لہٰذا یہاں بھی وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہیں۔ لہٰذا ان کا یہ دعوی کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں ہر لحاظ سے باطل ہے اور وہ محض ہٹ دھرمی اور جہالت کی بناء پر اس پر اڑے ہوئے ہیں۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی کیا تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسی کتاب آئی ہے جس میں یہ لکھا ہے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ام لکم ۔۔۔۔۔ صدقین (37: 156 – 157) ” پھر کیا تمہارے پاس اپنی باتوں کے لیے کوئی صاف سند ہے تو لاؤ اپنی وہ کتاب اگر تم سچے ہو “۔ ان کا دوسرا افسانہ یہ تھا کہ اللہ اور جنوں کے درمیان رشتہ داری ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(156) کیا تمہارے پاس کوئی واضح اور صریح دلیل ہے۔