Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 157

سورة الصافات

فَاۡتُوۡا بِکِتٰبِکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۵۷﴾

Then produce your scripture, if you should be truthful.

تو جاؤ اگر سچے ہو تو اپنی ہی کتاب لے آؤ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Then bring your Book if you are truthful! means, `produce evidence for that derived from a Book revealed from heaven by Allah, to prove that He has taken what you say (i.e., offspring). What you say is totally irrational.'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

157۔ 1 یعنی عقل تو اس عقیدے کی صحت کو تسلیم نہیں کرتی کہ اللہ کی اولاد ہے، اور وہ بھی مؤنث، چلو کوئی نقلی دلیل ہی دکھا دو ، کوئی کتاب جو اللہ نے اتاری ہو، اس میں اللہ کی اولاد کا اعتراف یا حوالہ ہو ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٠] دعویٰ کے اثبات کے لئے دو طرح کے دلائل & عینی شہادت اور نقلی دلیل :۔ کسی دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے دو طرح کے دلائل ہی کام دے سکتے ہیں۔ ایک عینی شہادت جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے مشرکین عرب سے پوچھا کہ جب ہم نے فرشتوں کو پیدا کیا تھا تو اس وقت تم موجود تھے اور یہ دیکھا تھا کہ انہیں عورتیں بنا کر پیدا کیا گیا ہے ؟ ظاہر ہے کہ مشرکین عرب کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا اور حقیقت یہ ہے کہ فرشتوں میں نرو مادہ کی تمیز ہے ہی نہیں اور دوسری دلیل کوئی نقلی دلیل بھی ہوسکتی ہے۔ یعنی کسی آسمانی کتاب میں یہ لکھا ہو کہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے عورتیں بنا کر پیدا کیا ہے اور وہ اس کی بیٹیاں ہیں۔ اگر مشرکین عرب کوئی ایسی تحریر بھی نہ دکھا سکیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان کے عقائد من گھڑت & لغو اور باطل ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاْتُوْا بِكِتٰبِكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝ ١٥٧ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» . والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : 5- أتيت المروءة من بابها «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٧{ فَاْتُوْا بِکِتٰبِکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ } ” تو لائو تم اپنی کتاب اگر تم (اپنے دعوے میں) سچے ہو ! “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

88 That is, "There can be only two bases for regarding the angels as the daughters of Allah: Either such a thing could be said on the basis of observation, or the one who asserted it should possess a Divine book in which Allah Himself might have stated that the angels were His daughters. Now, if those who held such belief could neither make a claim to have observed such a thing nor did they possess any divine book that might contain such a thing, there could be no greater stupidity than this that one should base one's religious belief on mere conjecture, and attribute to AIlah, Lord of the worlds, such things as were patently ridiculous. "

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :88 یعنی ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دینے کے لیے دو ہی بنیادیں ہو سکتی ہیں ۔ یا تو ایسی بات مشاہدے کی بنا پر کہی جا سکتی ہے ، یا پھر اس طرح کا دعویٰ کرنے والے کے پاس کوئی کتاب الٰہی ہونی چاہیے جس میں اللہ تعالیٰ نے خود یہ فرمایا ہو کہ ملائکہ میری بیٹیاں ہیں ۔ اب اگر اس عقیدے کے قائلین نہ مشاہدے کا دعویٰ کر سکتے ہیں ، اور نہ کوئی کتاب الہٰی ایسی رکھتے ہیں جس میں یہ بات کہی گئی ہو ، تو اس سے بڑی جہالت و حماقت اور کیا ہو سکتی ہے کہ محض ہوائی باتوں پر ایک دینی عقیدہ قائم کر لیا جائے اور خداوند عالم کی طرف ایسی باتیں منسوب کی جائیں جو صریحاً مضحکہ انگیز ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ حاصل مقام کا یہ ہوا کہ جس کے تم مدعی ہو اس میں تین تو قبح ہیں اور دلیل ایک بھی نہیں، نہ مشاہدہ اور نہ عقل اور نہ نقل۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(157) سو اگر تم سچے ہو تو وہ اپنی کتاب لائو۔ یعنی تم بیٹیوں کو اپنے لئے تو عیب اور ذلت و رسوائی کا سبب اس بات کی کوئی نقلی دلیل ہے اور تم سچے ہو تو اس کتاب کو لاکر پیش کرو کیونکہ عقلی دلیل تو تمہارے پاس نہیں عقل تو اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد ہی سے انکار کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کو اولاد سے پاک بتاتی ہے۔