Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 158

سورة الصافات

وَ جَعَلُوۡا بَیۡنَہٗ وَ بَیۡنَ الۡجِنَّۃِ نَسَبًا ؕ وَ لَقَدۡ عَلِمَتِ الۡجِنَّۃُ اِنَّہُمۡ لَمُحۡضَرُوۡنَ ﴿۱۵۸﴾ۙ

And they have claimed between Him and the jinn a lineage, but the jinn have already known that they [who made such claims] will be brought to [punishment].

اور ان لوگوں نے تو اللہ کے اور جنات کے درمیان بھی قرابت داری ٹھہرائی ہے ، اور حالانکہ خود جنات کو معلوم ہے کہ وہ ( اس عقیدے کے لوگ عذاب کے سامنے ) پیش کئے جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا ... And they have invented a kinship between Him and the Jinn, Mujahid said, "The idolators said that the angels were the daughters of Allah. Abu Bakr, may Allah be pleased with him, said, `Then who are their mothers?' They said, `The daughters of the leaders of the Jinn."' Qatadah and Ibn Zayd also said this. Allah -- may He be blessed and exalted -- says: ... وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ ... but the jinn know, meaning, those to whom this is attributed ... إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ know well that they have indeed to appear (before Him). means, that those who say that will be brought forth for punishment on the Day of Reckoning, because of the lies and falsehood that they uttered without knowledge. سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

158۔ 1 یہ اشارہ ہے مشرکین کے اس عقیدے کی طرف کہ اللہ نے جنات کے ساتھ رشتہ ازدواج قائم کیا، جس سے لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ یہی اللہ کی بیٹیاں، فرشتے ہیں۔ یوں اللہ تعالیٰ اور جنوں کے درمیان قرابت داری (سسرالی رشتہ) قائم ہوگیا۔ 158۔ 2 حالانکہ یہ بات کیوں کر صحیح ہوسکتی ہے ؟ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ جنات کو عذاب میں کیوں ڈالتا ؟ کیا وہ اپنی قرابت داری کا لحاظ نہ کرتا ؟ اور اگر ایسا نہیں ہے بلکہ خود جنات بھی جانتے ہیں کہ انہیں عتاب و عذاب الٰہی بھگتنے کے لئے ضرور جہنم میں جانا ہوگا، تو پھر اللہ اور جنوں کے درمیان قرابت داری کس طرح ہوسکتی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩١] جنوں اور اللہ تعالیٰ میں سسرالی رشتہ :۔ مشرکین عرب سے جب پوچھا جاتا کہ اگر فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں تو ان کی مائیں کون ہیں ؟ تو وہ کہہ دیتے کہ && جنوں کی عورتیں && اس طرح گویا وہ ایک اور ظلم ڈھاتے تھے اور جنوں اور اللہ تعالیٰ میں دامادی اور سسرال کا رشتہ قائم کردیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یوں دیا کہ جن ایک مکلف مخلوق ہے۔ جو اپنے اعمال کی جوابدہی کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کئے جائیں گے۔ پھر ان کی اکثریت جہنم میں جائے گی اور تم نے انہیں اللہ کا سسر بنا ڈالا ہے۔ تمہاری بےہودگی کی کوئی انتہا ہے ؟ کیا تم یہ گوارا کرتے ہو کہ اپنے داماد کو آگ میں جھونک دو یا جس کو تم آگ میں جھونکتے ہو اسے اپنا داماد بنانا گوارا کرسکتے ہو ؟ آخر اللہ کے بارے میں تمہاری عقلوں میں اتنا فتور کیوں آجاتا ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَجَعَلُوْا بَيْنَهٗ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَـبًا : اللہ تعالیٰ اور جنوں کے درمیان نسب بنانے سے کیا مراد ہے ؟ ابن کثیر (رض) نے اس کی تفسیر میں دو قول ذکر کیے ہیں، پہلا مجاہد کا قول کہ مشرکین نے کہا، فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ تو ابوبکر (رض) نے پوچھا، تو ان کی مائیں کون ہیں ؟ انھوں نے کہا ” بَنَاتُ سَرَوَاتِ الْجِنِّ “ ” سردار جننیوں کی بیٹیاں۔ “ مگر اس تفسیر میں اللہ تعالیٰ اور جنوں کے درمیان نسبی رشتہ قائم نہیں ہوتا، بلکہ صہری یعنی سسرالی رشتہ قائم ہوتا ہے، کیونکہ جننیوں کی بیٹیاں (نعوذ باللہ) اللہ کی بیویاں ہوں تو جنّ سسر ہوں گے۔ علاوہ ازیں مجاہد کی ابوبکر (رض) سے ملاقات بھی نہیں، اس لیے یہ منقطع ہے۔ دوسرا قول ابن عباس (رض) کا نقل کیا ہے کہ اللہ کے ان دشمنوں نے اللہ تعالیٰ اور ابلیس کو دو بھائی قرار دیا۔ مفسرین نے اس تشریح میں فرمایا کہ یہ ایرانیوں کا عقیدہ تھا کہ خالق دو ہیں، ایک خالق خیر، جسے ” یزداں “ کہتے ہیں اور ایک خالق شر، جسے ” اہرمن “ کہتے ہیں۔ مگر اس تفسیر میں بھی دو خرابیاں ہیں، ایک تو اس کی سند ثابت نہیں، کیونکہ یہ طبری نے عوفی عن ابن عباس کے طریق سے بیان کی ہے، جو ضعیف ہے، دوسرے اس میں اللہ تعالیٰ اور ابلیس کے درمیان بھائی ہونے کے رشتے کا بیان ہے، جب کہ آیت میں عام جنوں کا ذکر ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہاں ” الْجِنَّةِ “ سے مراد فرشتے ہیں، کیونکہ جنّات کو ان کے چھپے ہوئے ہونے کی وجہ سے ” جنّ “ کہتے ہیں، جیسا کہ جنین، جنون وغیرہ الفاظ میں یہی مفہوم پایا جاتا ہے اور فرشتے بھی چھپے ہوتے ہیں، اس لیے یہاں مراد یہ ہے کہ انھوں نے فرشتوں اور اللہ کے درمیان نسبی رشتہ قرار دیا ہے، اس طرح کہ انھیں اللہ کی بیٹیاں قرار دیا۔ مگر اس میں بھی دو خرابیاں ہیں، ایک تو فرشتوں کو ” جنّ “ کہنا بہت بڑا تکلف ہے، کیونکہ جنّ آگ سے پیدا ہوئے ہیں اور فرشتے نور سے۔ دوسری خرابی یہ ہے کہ یہ بات تو اوپر آیت (١٥٣) میں گزر چکی ہے : (اَصْطَفَى الْبَنَاتِ عَلَي الْبَنِيْنَ ) اسے بلا ضرورت دوبارہ ذکر کرنے کا کیا فائدہ ؟ میں نے اس مسئلے میں بہت سی تفاسیر کا مطالعہ کیا، سب کا خلاصہ یہ ہے جو میں نے اوپر بیان کردیا۔ آخر میں مجھے مولانا ثناء اللہ امرتسری کی تفسیر سے اطمینان ہوا، وہ یہ کہ مشرکین جس طرح فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے جنوں کو اللہ کے بیٹے (یا اولاد) کہتے تھے۔ دلیل اس کی اللہ تعالیٰ کا یہی فرمان ہے کہ انھوں نے اللہ کے درمیان اور جنوں کے درمیان نسب قرار دیا۔ ظاہر ہے نسب کا اطلاق سب سے پہلے بیٹوں اور بیٹیوں پر ہوتا ہے۔ مشرکوں سے یہ بات کچھ بعید نہیں اور اللہ سے زیادہ سچا راوی کون ہوسکتا ہے ؟ (واللہ اعلم) وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ اِنَّهُمْ لَمُحْضَرُوْنَ : ” مُحْضَرُوْنَ “ (حاضر کیے گئے) انھی کے متعلق کہا جاتا ہے جو خود آنا نہ چاہتے ہوں۔ یعنی یقیناً جنّوں کو معلوم ہے کہ وہ حساب کے لیے حاضر کیے جانے والے ہیں۔ کیا باپ کا اولاد کے ساتھ یہ معاملہ ہوتا ہے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 158, it was said: وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا (And they have made up between Him and the Jinns some kinship). There are two explanations of this sentence. According to the first Tafsir, this is a description of the false belief held by the Mushriks of Arabia that the daughters of the chieftains of the Jinns are mothers of the angels. As if, God forbid, the daughters of the chieftains of the Jinns have marital relations with Allah Ta’ ala and, as a result of this bond, angels have come to exist. Hence, it appears in an exegetical narration when the Mushriks of Arabia declared angels to be the daughters of Allah, Sayyidna Abu Bakr 4 asked, |"Who is their mother?|" They said, |"Daughters of the Jinns|" (Tafsir ibn Kathir, p. 23, v. 4). But, this Tafsir leaves an unresolved difficulty behind: The verse is talking about the attribution of kinship between Allah Ta’ ala and the Jinns, while the marital relationship of a husband and wife is not based on kinship. For this reason, another Tafsir that has been reported from Sayyidna Ibn ` Abbas, Hasan al-Basri and Dahhak seems to be weightier. According to this Tafsir, some of the people of Arabia also believed that, God forbid, Iblis was a brother to Allah Ta’ ala who was the creator of good while he was the creator of evil. Here, this very false belief has been refuted (please see Tafsir ibn Kathir, Tafsir al-Qurtubi and Tafsir Kabir). Immediately next within verse 158 it was said: وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُ‌ونَ 158) &, while the Jinns already know that they are bound to appear (before Him).& Here, &they& could be referring to the kinds of Mushriks who took Jinns and Shaitans as equals of God, meaning thereby that the Jinns know that these Mushriks will appear before Allah Ta’ ala for being punished, and could also refer to the Jinns themselves. In this situation, the sense of the verse would come to be that &the Shaitans and Jinns you have taken to be associated with Allah in one or the other form already know very well that they are going to face a terrible fate in the Hereafter. For example, Iblis is perfectly aware of his evil end. Now, someone who himself believes that he has to taste his punishment could hardly be the equal of God and taking him to be so would certainly be a gross lack of good sense.

وَجَعَلُوْا بَيْنَهٗ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَـبً آ (اور انہوں نے اللہ تعالیٰ اور جنات کے درمیان نسبی تعلق قرار دیا ہے) اس جملے کی ایک تفسیر تو یہ ہے کہ یہ مشرکین عرب کے اس فاسد عقیدے کا بیان ہے کہ جنات کی سردار زادیاں فرشتوں کی مائیں ہیں۔ گویا معاذ اللہ جنات کی سردار زادیوں سے اللہ تعالیٰ کا زوجیت کا تعلق ہے، اور اسی تعلق کے نتیجے میں فرشتے وجود میں آئے ہیں۔ چناچہ ایک تفسیری روایت میں ہے کہ جب مشرکین عرب نے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیا تو حضرت ابوبکر نے پوچھا کہ ان کی ماں کون ہے ؟ انہوں نے جواب میں کہا کہ جنات کی سردار زادیاں (تفسیر ابن کثیر، ص ٣٢ ج ٤) لیکن اس تفسیر پر یہ اشکال رہتا ہے کہ آیت میں اللہ تعالیٰ اور جنات کے درمیان نسبی تعلق کا ذکر ہے اور زوجیت کا تعلق نسبی نہیں ہوتا۔ اس لئے ایک دوسری تفسیر یہاں زیادہ راجح معلوم ہوتی ہے جو حضرت ابن عباس، حسن بصری اور ضحاک سے منقول ہے، اور وہ یہ کہ بعض اہل عرب کا عقیدہ یہ بھی تھا کہ معاذ اللہ ابلیس اللہ تعالیٰ کا بھائی ہے، اللہ تعالیٰ خالق خیر ہے اور وہ خالق شر، یہاں اسی باطل عقیدے کی تردید کی گئی ہے (ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر و قرطبی و تفسیر کبیر) (آیت) وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ اِنَّهُمْ لَمُحْضَرُوْنَ (اور جنات کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ گرفتار ہوں گے) ” وہ “ سے مراد ایسے مشرکین بھی ہو سکتے ہیں جو جنات اور شیاطین کو خدا کا ہمسر قرار دیتے تھے اور خود جنات بھی۔ دوسری صورت میں مطلب یہ ہے کہ جن شیاطین اور جنات کو تم نے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرا رکھا ہے وہ خود اچھی طرح جانتے ہیں کہ آخرت میں ان کا برا حشر ہونے والا ہے، مثلاً ابلیس، کہ وہ اپنے انجام بد سے خوب واقف ہے، اب جو خود یہ یقین رکھتا ہو کہ مجھے مبتلائے عذاب ہونا ہے اسے خدا کا ہمسر قرار دینا کتنی بڑی حماقت ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَجَعَلُوْا بَيْنَہٗ وَبَيْنَ الْجِنَّۃِ نَسَـبًا۝ ٠ ۭ وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّۃُ اِنَّہُمْ لَمُحْضَرُوْنَ۝ ١٥٨ۙ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جِنَّة : جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] ، وقال تعالی: وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158] . ۔ الجنتہ جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔ نسب النَّسَب والنِّسْبَة : اشتراک من جهة أحد الأبوین، وذلک ضربان : نَسَبٌ بالطُّول کالاشتراک من الآباء والأبناء . ونَسَبٌ بالعَرْض کالنِّسْبة بين بني الإِخْوة، وبني الأَعْمام . قال تعالی: فَجَعَلَهُ نَسَباً وَصِهْراً [ الفرقان/ 54] . وقیل : فلان نَسِيبُ فلان . أي : قریبه، وتُستعمَل النّسبةُ في مقدارَيْنِ مُتجانِسَيْنِ بَعْضَ التَّجَانُسِ يختصُّ كلّ واحد منهما بالآخر، ومنه : النَّسِيبُ ، وهو الانْتِسَابُ في الشِّعْر إلى المرأة بذِكْر العشق، يقال : نَسَبَ الشاعر بالمرأة نَسَباً ونَسِيباً. ( ن س ب ) النسب والنسبۃ کے معنی ابواین میں سے کسی ایک کی طرف سے رشتہ درای کے ہیں اور نسب دوقسم پر ہے نسب بالطول یعنی وہ رشتہ جو آباء اور ابناء کے درمیان پایا جاتا ہے : ۔ دوم نسب بالعرض یعنی وہ رشتہ جو بنو الا عمام یعنی عم زاد بھائیوں کے درمیان ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَجَعَلَهُ نَسَباً وَصِهْراً [ الفرقان/ 54] پھر اس کو صاحب نسب اور صاحب قرابت دامادی بنایا ۔ فلان نسیب فلان وہ فلاں کا قریبی رشتہ دار ہے اور نسبۃ کے معنی ان دو مقدار روں کے درمیان باہمی مناسبت کے بھی آتے ہیں جن میں کسی قسم کی مجانست ہو اسی سے نسیب کا لفظ ہے جس کے معنی اشعاری میں عورت کے محاسن ذکر کر کے اس کے ساتھ عشق کا اظہار کرنے کے ہیں ۔ اور یہ سب انشا عر بالمرء ۃ نسبا ونسیبا کا مصدر ہے ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا حضر الحَضَر : خلاف البدو، والحَضَارة والحِضَارَة : السکون بالحضر، کالبداوة والبداوة، ثمّ جعل ذلک اسما لشهادة مکان أو إنسان أو غيره، فقال تعالی: كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة/ 180] ، نحو : حَتَّى إِذا جاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ الأنعام/ 61] ، وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء/ 8] ، وقال تعالی: وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] ، عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير/ 14] ، وقال : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون/ 98] ، وذلک من باب الکناية، أي : أن يحضرني الجن، وكني عن المجنون بالمحتضر وعمّن حضره الموت بذلک، وذلک لما نبّه عليه قوله عزّ وجل : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] ، وقوله تعالی: يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آياتِ رَبِّكَ [ الأنعام/ 158] ، وقال تعالی: ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران/ 30] ، أي : مشاهدا معاینا في حکم الحاضر عنده، وقوله عزّ وجلّ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف/ 163] ، أي : قربه، وقوله : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة/ 282] ، أي : نقدا، وقوله تعالی: وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس/ 32] ، وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ/ 38] ، شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ، أي : يحضره أصحابه، والحُضْر : خصّ بما يحضر به الفرس إذا طلب جريه، يقال : أَحْضَرَ الفرس، واستحضرته : طلبت ما عنده من الحضر، وحاضرته مُحَاضَرَة وحِضَارا : إذا حاججته، من الحضور، كأنه يحضر کلّ واحد حجّته، أو من الحضر کقولک : جاریته، والحضیرة : جماعة من الناس يحضر بهم الغزو، وعبّر به عن حضور الماء، والمَحْضَر يكون مصدر حضرت، وموضع الحضور . ( ح ض ر ) الحضر یہ البدو کی ضد ہے اور الحضارۃ حاد کو فتحہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ آتا ہے جیسا کہ بداوۃ وبداوۃ اس کے اصل شہر میں اقامت کے ہیں ۔ پھر کسی جگہ پر یا انسان وگیرہ کے پاس موجود ہونے پر حضارۃ کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة/ 180] تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے ۔ وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء/ 8] اور جب تم میراث کی تقسیم کے وقت ۔۔۔ آمو جود ہوں ۔ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] اور طبائع میں بخل ودیعت کردیا گیا ہے ۔ عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير/ 14] تب ہر شخص معلوم کرلے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے اور آیت کریمہ : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون/ 98] میں کنایہ کہ اے پروردگار میں پناہ مانگتا ہوں کہ جن و شیاطین میرے پاس آھاضر ہوں ۔ اور بطور کنایہ مجنون اور قریب المرگ شخص کو محتضر کہا جاتا ہے جیسا کہ آیت : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] اور آیت کریمہ : یوم یاتی بعض ایات ربک میں اس معنی پر متنبہ کیا گیا ہے اور آیت کریمہ ۔ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران/ 30] کے معنی یہ ہیں کہ انسان جو نیکی بھی کرے گا ۔ قیامت کے دن اس کا اس طرح مشاہدہ اور معاینہ کرلے گا جیسا کہ کوئی شخص سامنے آموجود ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف/ 163] اور ان سے اس گاؤں کا حال پوچھ جواب دریا پر واقع تھا ۔ میں حاضرۃ البحر کے معنی دریا کے قریب یعنی ساحل کے ہیں اور آیت کریمہ : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة/ 282] میں حاضرۃ کے معنی نقد کے ہیں ۔ نیز فرمایا : وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس/ 32] اور سب کے سب ہمارے روبرو حاضر کئے جائیں گے ۔ وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ/ 38] وی عذاب میں ڈالے جائیں گے ۔ اور آیت کریمہ : شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ، ہر باری والے کو اپنی باری پر آنا چاہئے میں بانی کی باری کے محتضر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ باڑی والے اس گھاٹ پر موجود ہوں ۔ الحضر ۔ خاص کر گھوڑے کی تیز دوڑے کو کہتے ہیں کہا جاتا ہے : احضر الفرس گھوڑا دوڑا استحضرتُ الفرس میں نے گھوڑے کو سرپٹ دوڑایا ۔ حاضرتہ محاضرۃ وحضارا باہم جھگڑنا ۔ مباحثہ کرنا ۔ یہ یا تو حضور سے ہے گویا ہر فریق اپنی دلیل حاضر کرتا ہے اور یا حضر سے ہے جس کے معنی تیز دوڑ کے ہوتے ہیں جیسا کہ ۔۔۔۔۔۔ جاریتہ کہا جاتا ہے ۔ الحضیرۃ ُ لوگوں کی جماعت جو جنگ میں حاضر کی جائے اور کبھی اس سے پانی پر حاضر ہونے والے لوگ بھی مراہ لئے جاتے ہیں ۔ المحضرُ ( اسم مکان ) حاضر ہونے کی جگہ اور حضرت ُ ( فعل ) کا مصدر بھی بن سکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور بنو ملیح والوں نے تو اللہ تعالیٰ اور جنات میں رشتہ داری قرار دی ہے اور کہتے ہیں کہ جس کا ظہور فرشتے ہیں جو اللہ کی بیٹیاں ہیں اور کہا گیا ہے کہ یہ آیت زنادقہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو ابلیس ملعون کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں کہ اللہ خالق خیر ہے اور ابلیس خالق شر ہے۔ شان نزول : وَجَعَلُوْا بَيْنَهٗ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَـبًا (الخ) جبیر نے بواسطہ ضحاج حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ آیت کریمہ قریش کے تین قبیلوں سلی، جہینہ اور خزاعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور امام بیہقی نے شعب الایمان میں مجاہد سے روایت کیا ہے کہ قریش کے امراء و رؤسا کہنے لگے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا تو ان کی مائیں کون ہیں تو وہ بولے سادات جنات کی بیٹیاں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ اِنَّهُمْ لَمُحْضَرُوْنَ اور ابی بن حاتم نے یزید بن ابی مالک سے روایت کیا ہے کہ لوگ الگ الگ کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرتے تھے تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ وانا لنحن الصافون۔ اس کے بعد ان کو صف بنانے کا حکم ہوا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٨{ وَجَعَلُوْا بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْجِنَّۃِ نَسَبًا } ” اور انہوں نے تو اللہ کے اور ِجنوں کے درمیان بھی نسبی رشتہ قائم کردیا ہے۔ “ { وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّۃُ اِنَّہُمْ لَمُحْضَرُوْنَ } ” حالانکہ جنوں کو خوب معلوم ہے کہ وہ تو گرفتارکرکے حاضر کیے جائیں گے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

89 Though the word used is al jinnah instead of al-mala'ikah, some major commentators have opined that here the word jinn has been used for mala ikah in its literal sense (of hidden creation); mala ikah (angels) also are, in reality, a hidden creation, and the following theme also demands that al jinnah here be taken in the sense of al-mala'ikah

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :89 اصل میں ملائکہ کے بجائے الجنہ کا لفظ استعمال ہوا ہے ، لیکن بعض اکابر مفسرین کا خیال ہے کہ یہاں جِنّ کا لفظ اپنے لغوی مفہوم ( پوشیدہ مخلوق ) کے لحاظ سے ملائکہ کے لیے استعمال کیا گیا ہے ، کیونکہ ملائکہ بھی اصلاً ایک پوشیدہ مخلوق ہی ہیں ۔ اور بعد کا مضمون اسی بات کا تقا ضا کرتا ہے کہ یہاں الجِنہ کے لفظ کو ملائکہ کے معنی میں لیا جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

30: یہ ان مشرکین کے ایک اور بے ہودہ عقیدے کی تردید ہے۔ وہ یہ کہا کرتے تھے کہ جنات کے سرداروں کی بیٹیاں فرشتوں کی مائیں ہیں، گویا العیاذ باللہ وہ اللہ تعالیٰ کی بیویاں ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٥٨۔ ١٦٣۔ شعب الایمان بیہقی تفسیر سدی تفسیر کلبی تفسیر مقاتل وغیرہ میں قتادہ کے قول کے موافق جو شان نزول ان آیتوں کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین مکہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے تھے۔ ایک روز حضرت ابوبکر صدیق اور کچھ مشرک لوگوں سے اس باب میں بحث ہوئی۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ اگر فرشتے اللہ کی بیٹاں ہیں۔ تو ان بیٹیوں کی ماں کون ہے قبیلہ خزاعہ کے لوگوں نے جواب دیا کہ جنوں کے سرداروں کی بیٹیوں سے نعوذ باللہ من ذلک اللہ تعالیٰ نے شادی کی اور اس شادی کے سبب سے یہ لڑکیاں پیدا ہوئیں جن کو فرشتے کہتے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں۔ اور فرمایا اے رسول اللہ کے ان مشرکوں سے پوچھو کہ یہ لوگ اس طرح کی بیہودہ باتیں جو اللہ تعالیٰ کی شان میں منہ سے نکالتے ہیں ان کے پاس ان باتوں کے سچے ہونے کی کوئی سند ہو تو پیش کریں۔ پھر فرمایا کہ جنات خود جانتے ہیں کہ ان مشرکوں کی یہ بیہودہ باتیں جھوٹی ہیں اور اس جھوٹ کے سبب سے یہ مشرک لوگ عذاب الٰہی میں پکڑے جاویں گے۔ پھر عذاب کے ذکر میں سے نیک لوگوں کو مستثنیٰ فرمایا اور آخر کو فرمایا۔ کہ یہ لوگ ایسی گمراہی کی باتوں سے ان ہی لوگوں کو بہکا سکتے ہیں جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل قرار پا چکے ہیں جو لوگ علم الٰہی میں جنت میں جانے کے قابل ٹھہر چکے ہیں اور ان کو گمراہی کی باتوں سے کچھ نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ اوپر کی آیتوں کی تفسیر میں صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث جو گزر چکی ہے وہی حدیث ان آیتوں کی بھی گویا تفسیر ہے۔ حاصل اس تفسیر کا وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔ (١ ؎ تفسیر ہذا ص ٤۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:158) جعلوا۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ جعل مصدر ایسی دستاویز جو کہ بمعنی بنانا۔ ٹھہرانا۔ مقرر کرنا۔ انہوں نے ٹھہرایا ہے۔ انہوں نے قرار دیا ہے۔ ضمیر فاعل کا مرجع کفار قریش ہیں۔ بینہ میں ضمیر واحد مذکر غائب اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہے۔ الجنۃ : یہ جن یجن جنا (باب نصر) سے مشتق ہے۔ جن بمعنی ڈھانپ لینا چھپا لینا ۔ جو اس سے پوشیدہ ہوجانا۔ الجنۃ۔ الجن کی جمع ہے اور معنی مفعول مستعمل ہے۔ یعنی نظروں سے چھپا ہوا۔ پوشیدہ۔ امام راغب (رح) فرماتے ہیں :۔ لفظ جن کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے :۔ (1) انسان کے مقابلہ میں ان تمام روحانیوں کو جن کہا جاتا ہے جو اس سے مستور ہیں۔ اس صورت میں جن کا لفظ ملائکہ اور شیاطین دونوں کو شامل ہے لہٰذا تمام فرشتے جن ہیں اور تمام جن فرشتے نہیں۔ اسی اعتبار سے ابو صالح نے کہا ہے کہ سب فرشتے جن ہیں۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ جن روحانیوں کی ایک قسم ہیں۔ کیونکہ دوحانیوں کی تین اقسام ہیں :۔ (1) اخیار (نیک) اور یہ فرشتے ہیں۔ (2) اشرار (بد) اور یہ شیاطین ہیں۔ (3) اوساط (درمیانی) جن میں بعض نیک اور بعض بد ہیں اور یہ جن ہیں۔ چناچہ سورة الجن میں ہے : وانا منا المسلمون ومنا القسطون ۔ (73114) اور یہ کہ ہم میں بعض فرمانبردار ہیں اور بعض (نافرمان) گنہگار ہیں۔ یہاں الجنۃ سے کونسی مخلوق مراد ہے اس بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں لیکن بہتر قول یہی ہے کہ یہاں الجنۃ سے مراد الملئکۃ ہیں اور جن کا لفظ اپنے لغوی و مفہوم کا یہ اعتقاد ہے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں ۔ نسبا۔ اسم ۔ قرابت دار۔ باپ کے رشتہ دار ۔ یا محض قرابت، رشتہ، نسبۃ و نسبۃ۔ باپ کی قرابت داری۔ جیسا کہ اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ ھو الذی خلق من الماء بشرا فجعلہ نسبا وصھرا۔ (25:54) اور وہ وہی ہے جس نے انسان کو پانی سے پیدا کیا۔ پھر اس کو خاندان والا (باپ کی طرف سے) اور سسرال والا ( سسر کی طرف سے) بنایا۔ یعنی اس کے ودھیالی (دادا کے گھر کے یا دادا کے خاندان کے) اور ننھیالی (نانا کے گھر یا نان کے خاندان کے) رستے بنائے۔ نسب واحد انساب جمع ددھیالی رشتہ دار۔ اسی سے مناسبت (باب مفاعلۃ) ایک جیسا ہونا۔ اور انساب (افتعال) کسی سے اپنی نسبت کرنا۔ ولقد میں عاؤ قسمیہ ہے لام تاکید کا۔ اور قد ماضی کے ساتھ تحقیق کے معنی دیتا ہے :۔ ولقد علمت الجنۃ ای واللہ لقد علمت الجنۃ۔ انھم۔ میں ضمیر جمع مذکر غائب ان کفار کی طرف راجع ہے جو یہ کہتے تھے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ واؤحالیہ بھی ہوسکتا ہے۔ لمحضرون۔ لام تاکید کا ہے محضرون اسم فعول جمع مذکر حاضر، محضر واحد۔ وہ لوگ جو حاضر لائے جائیں گے۔ آیت کا ترجمہ ہوگا :۔ اور (کفار قریش نے) اللہ اور فرشتوں کے درمیان نسب کا رشتیہ قرار دے رکھا ہے خدا کی قسم یہ فرشتے خون جانتے ہیں کہ یہ (فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہنے والے) لوگ (اللہ کے حضور) پیش کئے جانے والے ہیں (اپنے اس افتراء کی سزا پانے کیلئے) فائدہ : آیت 158 سے خطاب سے غیب کی طرف التفات یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ آیات 156157 میں کئے گئے سوال کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے لہٰذا ازراہ توبیخ ان کو خطاب کے درجہ سے فرا دیا گیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 لغوی طور پر ” جن “ سے مراد ہر وہ مخلوق ہے جو پوشیدہ ہو اور نظر نہ آئے، اس لئے اکثر مفسرین (رح) نے اس آیت میں جنوں سے مراد فرشتے لئے ہیں۔ بعض مفسرین (رح) نے ان سے مراد اصطلاحی جن ہی لئے ہیں کیونکہ جیسا کہ یہ حضرات کہتے ہیں عربوں کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جنوں کے ایک قبیلہ میں شادی کی اور اس سے فرشتے پیدا ہوئے، اوالعیاذ باللہ ( شوکانی) یا ” نسا “ سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں شیطان کو شریک بنا لیا۔ ( قرطبی)3 اس سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ جہاں جنوں مراد فرشتے ہیں اور اگر اصطلاحی جن ہی مراد لئے جائیں تو اس فقرہ کا یہ مطلب ہوگا کہ ” جنوں کو خوب علم ہے کہ وہ ( یعنی جو ان میں سے کافر ہیں) عذاب میں پکڑے آئیں گے “۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وجعلوا بینہ۔۔۔۔۔ انھم لمحضرون (158) ” ، “۔ ان کا زعم یہ تھا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں تھیں اور ان سے جن پیدا ہوئے یوں جنوں اور اللہ کے درمیان قرابت ہوگئی۔ جنوں کو تو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ اللہ کی دوسری مخلوق کی طرح ایک مخلوق ہیں۔ اور وہ قیامت کے دن اللہ کے حکم سے حاضر کیے جائیں گے اور رشتہ داروں کے ساتھ یہ سلوک تو نہیں کیا جاتا کہ وہ بطور مجرم پکڑے جاکر پیش کیے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ صراحت کے ساتھ اس عقیدے کی تردید بھی کردی جاتی ہے

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

62: وجعلوا الخ : یہ جنوں کے حال کا اعادہ ہے۔ بعض مشرکین نے اللہ تعالیٰ اور جنات کے درمیان بھی (عیاذا باللہ) رشتہ قائم کر رکھا تھا ان کے خیال میں فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں۔ اور ان کی مائیں شاہان جنات کی شہزادیاں ہیں۔ قال مجاھد والسدی و مقاتل ایضا القائل بذلک کنانۃ و خزاعۃ قالوا ان اللہ خطب الی سادات الجن فزوجوہ من سروات بناتہم فالملائکۃ بنات اللہ من سروات بنات الجن (قرطبی ج 15 ص 135) ۔ یا نسب سے مراد مناسبت ہے۔ یعنی انہوں نے شیاطین کو اللہ کی عبادت میں شریک کرلیا۔ اور ان کو شفیع غالب سمجھنے لگے۔ او ارید جعلوا بینہ سبحانہ و بینہم مناسبۃ حیث اشرکوھم بہ تعالیٰ فی استحقاق العبادۃ (روح ج 23 ص 151) ۔ 63:۔ ولقد علمت الخ : حالانکہ شیاطین کو یقین ہے کہ وہ سب جہنم کا ایندھن ہیں تو بتائیے پھر ان شیاطین کا اللہ تعالیٰ سے کیا رشتہ ہوسکتا ہے اور وہ کس طرح شفیع غالب ہوسکتے ہیں۔ سبحن اللہ عما یصفون، مشرکین جو کچھ کہتے ہیں یعنی فرشتوں اور جنوں کا خدا سے نسبی تعلق ہونا اور فرشتوں اور جنوں کا خدا کے یہاں شفیع غالب ہونا اللہ تعالیٰ ان افتراء ات سے پاک ہے۔ لہذا اللہ کو پکارنے میں ان شریکوں سے پاک سمجھو۔ الا عباد اللہ المخلصین۔ یہ محضرون سے استثناء منقطع ہے۔ کما مر تفسیرہ فی (ص 53) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(158) اور ان معاندین و منکرین نے اللہ تعالیٰ اور جنات کے درمیان ناتا قرار دے رکھا ہے حالانکہ جنات کو اس بات کا پورا یقین ہے کہ ان میں جو بدکردار اور کافر ہیں وہ گرفتار کرکے حاضر کئے جائیں گے۔