Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 24

سورة الصافات

وَ قِفُوۡہُمۡ اِنَّہُمۡ مَّسۡئُوۡلُوۡنَ ﴿ۙ۲۴﴾ الرّبع

And stop them; indeed, they are to be questioned."

اور انہیں ٹھہرا لو ( اس لئے ) کہ ان سے ( ضروری ) سوال کیئے جانے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

But stop them, verily, they are to be questioned. means, stop them so that they may be questioned about the things they did and said in this world. As Ad-Dahhak said, narrating from Ibn Abbas, this means, `detain them, for they are to be brought to account.' Abdullah bin Al-Mubarak said, "I heard Uthman bin Za'idah say, `The first thing about which a man will be asked is the company that he kept. Then by way of rebuke, it will be said to them: مَا لَكُمْ لاَا تَنَاصَرُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

24۔ 1 یہ حکم جہنم میں لے جانے سے قبل ہوگا، کیونکہ حساب کے بعد ہی جہنم میں جائیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْـُٔـوْلُوْنَ : جہنم کے صراط کی طرف لے جاتے ہوئے حکم ہوگا کہ انھیں ٹھہراؤ، کیونکہ ان سے ان کے اعمال کے متعلق سوال ہوگا، اس وقت دنیا میں ان کے کفرو شرک اور دوسرے برے اعمال میں شریک دوست اور ان کے جھوٹے معبود بھی ان کے ساتھ ہوں گے، جیسا کہ فرمایا : (وَيَوْمَ يُحْشَرُ اَعْدَاۗءُ اللّٰهِ اِلَى النَّارِ فَهُمْ يُوْزَعُوْنَ ) [ حٰم السجدۃ : ١٩ ] ” اور جس دن اللہ کے دشمن آگ کی طرف اکٹھے کیے جائیں گے، پھر ان کی الگ الگ قسمیں بنائی جائیں گی۔ “ ” يُوْزَعُوْنَ “ کا ایک معنی یہ ہے کہ ان کی الگ الگ قسمیں بنائی جائیں گی اور ایک معنی یہ ہے کہ انھیں روکا جائے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقِفُوْہُمْ اِنَّہُمْ مَّسْـُٔـوْلُوْنَ۝ ٢٤ۙ وقف يقال : وَقَفْتُ القومَ أَقِفُهُمْ وَقْفاً ، ووَاقَفُوهُمْ وُقُوفاً. قال تعالی: وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْؤُلُونَ [ الصافات/ 24] ومنه استعیر : وَقَفْتُ الدّارَ : إذا سبّلتها، والوَقْفُ : سوارٌ من عاج، وحمارٌ مُوَقَّفٌ بأرساغه مثلُ الوَقْفِ من البیاض، کقولهم : فرس مُحجَّل : إذا کان به مثلُ الحَجَل، ومَوْقِفُ الإنسانِ حيث يَقِفُ ، والمُوَاقَفَةُ : أن يَقِفَ كلُّ واحد أمره علی ما يَقِفُهُ عليه صاحبه، والوَقِيفَةُ : الوحشيّة التي يلجئها الصائد إلى أن تَقِفَ حتی تصاد . ( و ق ف ) وقعت القوم ( ض) وقفا ر ( متعدی ) لوگوں کو ٹھہر انا اور دقفو ا وقو قا لازم ٹھہر نا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْؤُلُونَ [ الصافات/ 24] اور ان کو ٹھہرائے رکھو کہ ان سے کچھ پوچھنا ہے اور سی سے بطور استعارہ وقفت الدار آتا ہے جس کے معنی مکان کو وقف کردینے ہیں ۔ نیز الوقف کے معنی ہاتھی دانت کا کنگن بھی آتے ہیں اور حمار موقف اس گدھے کو کہتے ہیں جس کی کلائوں پر کنگن جیسے سفید نشان ہوں جیسا کہ فرس محجل اس گھوڑے کا کہا جاتا ہے جس کے پاؤں میں حجل کی طرح سفیدی ہو ۔ مرقف الانسان انسان کے ٹھہرنے کی جگہ کو کہتے ہیں اور الموافقتہ کا مفہوم یہ ہے کہ ہر آدمی اپنے معاملہ کو اسی چیز پر روک دے جس پر کہ دوسرے نے روکا ہے ۔ ( ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑا ہونا ) الوقیفتہ بھگا یا ہوا شکار جو شکاری کے تعاقب سے عاجز ہوکر ٹھہر جائے ۔ یہاں تک کہ وہ اسے شکار کرلے ۔ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤{ وَقِفُوْہُمْ اِنَّہُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ } ” اور انہیں ذرا روکو ! ابھی ان سے کچھ پوچھا جائے گا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٤۔ ٣٤۔ ترمذی ٣ ؎ تاریخ بخاری مستدرک حاکم دارمی اور تفسیر ابن جریر وغیرہ میں حضرت انس (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیا میں جو کوئی کسی کو برے کام کے راستہ پر لگاوے گا۔ اس کو اور برے راستہ لگنے والے ان دونوں کو قیامت کے دن خدا کے رو برو جواب دہی کرنی پڑے گی۔ یہ فرمانے کے بعد آپ نے یہ آیت پڑھی۔ اگرچہ ترمذی نے اس روایت کو غریب کہا ہے۔ لیکن یہ روایت کئی طریق سے ہے۔ جس کے سبب سے ایک ایک سند کو دوسرے سے تقویت ہوجاتی ہے۔ صحیح سند سے ترمذی ١ ؎ میں ابوہریرہ (رض) کی روایت سے دوسری حدیث ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ چار باتوں کی جواب دہی کے لئے ہر ایک شخص کو خدا تعالیٰ کے رو برو کھڑا رہنا پڑے گا۔ ایک تو ہر شخص سے پوچھا جاوے گا۔ کہ اس نے اپنی عمر کس کس کام میں گزاری۔ دوسری بات یہ کہ اگر کچھ علم پڑھا تو اس علم کے موافق کیا عمل کیا۔ تیری بات یہ کہ کس کس طریقہ سے دنیا میں مال کمایا اور کہاں کہاں خرچ کیا۔ چوتھی بات یہ کہ خاص کر جوانی کی عمر کس کام میں صرف کی۔ ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ ابوبرزہ (رض) اسلمی کی روایت کے موافق چار باتوں کا بڑا حساب و کتاب تو جدا ہوگا۔ اور انس کی روایت کے موافق فقط ایک بات کا حساب جدا ہوگا۔ اب جن مفسروں نے اس آیت کی یہ تفسیر کی ہے۔ کہ حساب و کتاب کے اور دوزخ میں لے جانے کے حکم ہونے کے بعد بعضے لوگوں کو روکا جاوے گا اور وہ جواب دہی ہوگی جس کا ذکر اس آیت میں ہے۔ یہ تفسیر اس تفسیر کے موافق ہے جو خود صاحب وحی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انس کی روایت میں اس آیت کی تفسیر فرمائی ہے اور جن مفسروں نے ابوبرزہ (رض) کی روایت کو اس آیت کی تفسیر خیال کر کے اس آیت کی تفسیر میں یہ لکھا ہے کہ ان لوگوں کو عقائد اور اعمال کے سوال و جواب اور حساب و کتاب کے لئے پل صراط پر گزرنے سے پہلے روکا اور ٹھہرایا جاوے گا۔ اول تو وہ تفسیر انس (رض) کی روایت کی مخالف ہے دوسری بات یہ ہے کہ قرآن شریف کا مطلب بھی اس پہلی تفسیر کے موافق ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو دوزخ میں لے جانے کا حکم دے کر پھر ان لوگوں کے کھڑا کئے جانے اور روکے جانے کا حکم دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ بڑا حساب و کتاب ہوجانے اور دوزخ میں لے جانے کا حکم ہوجانے کے بعد ایک خاص جواب دہی کے لئے پل صراط پر گزرنے سے پہلے ان لوگوں کو روکا جاوے گا۔ علاوہ اس کے ترمذی کی ابوبرزہ (رض) کی روایت میں اس جواب دہی کا ذکر بھی تو نہیں ہے۔ جس جواب دہی کا ذکر آیت میں ہے۔ پھر جو باتیں اس حدیث میں ہیں۔ وہ بدوں کسی تعلق کے آیت کی تفسیر کیوں کر قرار پا سکتی ہیں۔ ہاں قرآن شریف کی جن آیتوں میں ان چار باتوں میں سے کسی بات کا ذکر ہے۔ ان آیتوں کی تفسیر اس حدیث کو قرار دیا جاوے تو آیت اور حدیث میں تعلق پیدا ہوسکتا ہے۔ بہت سی آیتوں میں یہ جو ذکر ہے کہ دوزخ میں داخل ہونے کے بعد بہکنے والے لوگ اپنے بہکانے والوں کو برا کہویں گے اور وہ ان کو برا کہویں گے۔ جب برے لوگ پل صراط سے نہ گزر سکیں گے اور پل صراط پر سے کٹ کر دوزخ میں گر پڑیں گے وہ اس وقت کا ذکر ہے اس آیت میں جس برا بھلا کہنے کا ذکر ہے یہ ذکر پل صراط پر سے گزرنے سے پہلے کا ہے۔ جس وقت اچھے برے لوگ حساب و کتاب کے لئے خدا تعالیٰ کے رو برو ہوں گے۔ چناچہ آیت کے مطلب سے خود معلوم ہوتا ہے۔ کہ ان لوگوں کو دوزخ میں لے جانے کا حکم دے کر پھر فرشتوں سے اللہ تعالیٰ فرماوے گا۔ ان لوگوں کو کھڑا رکھو ان سے پوچھنا ہے۔ اور پھر دوزخ میں داخل ہوجانے کے بعد اس طرح کے مشرک لوگ خدا تعالیٰ کے رو برو نہ آسکیں گے۔ چناچہ سورة فد افلح المومنون میں گزر چکا ہے کہ اس طرح مشرک لوگ دوزخ کے عذاب کی تکلیف سے تنگ آ کر ربنا غلیت علینا شقوتنا اور ربنا اخرجنا منھا۔ کہہ کہہ کر ایک مدت تک چلاویں گے۔ تو آخر اللہ تعالیٰ ان کو بغیر رو برو بلانے کے یہی جواب دے گا۔ اخسؤا فیھا ولا تکلمون۔ جس کا مطلب یہ ہے۔ کہ تم لوگ بات کرنے کے قابل نہیں ہو۔ اس لئے جس حالت میں ہو اسی حالت میں پڑے رہو۔ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ جن جماعتوں اور ان کے جھوٹے معبودوں کو دوزخ کے راستہ سے لگا دینے کا حکم ہوگا۔ ان کے دوزخ میں جھونکے جانے سے پہلے فرشتوں کو یہ بھی حکم ہوگا کہ ان جماعتوں کو ذرا ٹھہراؤ کچھ ان سے پوچھنا ہے۔ پھر ان سے یہ پوچھا جاوے گا۔ کہ جس عذاب کو دنیا میں تم لوگ جھٹلاتے تھے آج ایک دوسرے کی مدد کر کے تم اس عذاب کو کیوں نہیں ٹال دیتے۔ اب بہکنے والے اپنے بہکانے والوں کی طرف متوجہ ہو کر کہویں گے کہ تم ہی ہم کو بڑے زور شور سے ہر وقت بہکاتے رہتے تھے۔ یمین کے معنی عربی میں قوت کے ہیں تاتوننا عن الیمین کا مطلب یہ ہوا۔ کہ تم لوگ بڑے زور شور سے ہم کو نیک باتوں سے روکتے تھے۔ بہکانے والے جواب دیویں گے کہ تم پر ہمارا زیادہ زور نہیں چلتا تھا۔ تمہارے دل میں عقبی کی باتوں کا پورا بھروسہ نہیں تھا اس لئے تم ہمارے کہنے میں آ کر ہم جیسے ہوگئے۔ اب سوا اس کے کچھ علاج نہیں کہ ہم اور تم دونوں اس عذاب کو بھگتیں۔ آگے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نافرمان لوگوں کو اسی طرح قائل و معقول کر کے سزا دیتا ہے۔ کیونکہ اس کی بارگاہ میں کسی پر ظلم نہیں ہے۔ صحیح ١ ؎ مسلم کے حوالہ سے ابوذر (رض) کی روایت سے حدیث قدسی ایک جگہ گزر چکی ہے۔ کہ ظلم اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک پر حرام کرلیا ہے۔ اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے۔ کہ بارگاہ الٰہی میں ظلم نہیں ہے اس واسطے قیامت کے دن نافرمان لوگوں کو پورا قائل کیا جا کر جرم کے موافق سزا دی جاوے گی۔ (٣ ؎ ترمذی شریف تفسیر سورة صافات ص ١٧٧ ج ٢۔ ) (١ ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فی شان الحساب و القصاص ص ٧٧ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم مع شرح نودی باب تحریم الظلم (ص ٣١٩ ج ٢)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:24) وقفوہم۔ وائو عاطفہ ۔ قفوا فعل امر۔ جمع مذکر حاضر وقف اور وقوف مصدر۔ (باب ضرب) سے وقف فعل ثلاثی مجرد ۔ (مثال واوی) سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے اس کا مضارع باب ضرب سے یوقف ہوگا۔ مثال کے قاعدہ کے مطابق :۔ ” کہ مضارع حاضر معروف کی علامت مضارع کو حذف کیا جاوے۔ اگر اس کا مابعد متحرک ہے تو آخر حرف کو جزم دے دو “۔ لہٰذا تقف (مضارع واحد مذکر حاضر) کی تاء (علامت مضارع) کو حذف کر کے فاء کو جزم دی۔ قف ہوگیا۔ اس سے جمع مذکر حاضر کا صیغہ قفوا ہوگیا۔ یا اصل میں اوقفوا تھا۔ وائو حرف علت بوجہ کسرہ ما قبل گرگیا۔ اور الف حرف علت بوجہ کسرہ مابعد کے گرگیا۔ قفوا بن گیا۔ یہ فعل لازم بھی استعمال ہوتا ہے اور متعدی بھی۔ یعنی کھڑا ہونا۔ یا کھڑا کرنا۔ یہاں بطور فعل متعدی مستعمل ہے ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ ان کو کھڑا کرو ان کو ٹھہرائو۔ ان کو روکو۔ انہم مسئولون۔ ان حرف مشبہ بفعل، ہم ضمیر جمع مذکر غائب (اسم ان) اور مسئولون۔ اسم مفعول جمع مذکر۔ ان کی خبر۔ لہٰذا جملہ اسمیہ ہوا۔ ان سے پوچھا جائے گا۔ ان سے باز پرس ہوگی !

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 علماء نے لکھا ہے کہ پہلے حکم ہوگا کہ ان کو صراط جہنم کی طرف لے جائو، پھر صراط پر روک لیا جائے اور ان سے تفریح و توبیخ کے طور پر کہا جائے گا جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جس نے کسی چیز کی طرف دعوت دی وہ اس کے ساتھ کھڑا کیا جائے گا اور اس سے جدا نہیں ہو سکے گا اور جس نے کسی شخص کو دعوت دی ( وہ بھی اس کے ساتھ کھڑا کیا جائے گا) پھر یہ آیت تلاوت کی۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

11:۔ وقفوھم الخ :۔ جب فرشتے ان کو جہنم کی طرف لے کر چلیں گے اس وقت حکم صادر ہوگا، ان کو روکو، ان سے کچھ پوچھنا ہے۔ مشرکین ( اتباع و متبوعین) کی مزید تذلیل و اہانت کے لیے انہیں واپس کر کے ان سے سوال کیا جائے گا۔ ما لکم لا تناصرون، کیا بات ہے ؟ آج تم ایک دوسرے کی مدد کیوں نہیں کرتے ؟ آج ہی تو مدد کرنے اور مدد لینے کا موقع ہے۔ آج تمہارے مزعومہ سفارشی تمہیں اللہ کے عذاب سے کیوں نہیں بچاتے۔ بل ھم الیوم مستسلمون، آج وہ کسی کی کیا مدد کریں گے۔ آج تو وہ مارے ندامت کے ذلت ورسوائی سے سرافگندہ ہیں اور سزا کھانے کے لیے منقاد ہیں۔ ای لایقدر بعضہم علی نصر بعض بل ہم منقادون للعذاب او مخذلون (روح ج 23 ص 81) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(24) اور ان کو روکے رہو کیونکہ ان سے کچھ پوچھا جائے گا یعنی جہنم میں جانے سے ذرا روکو تاکہ ان سے کچھ پوچھ گچھ کی جائے۔