Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 5

سورة الصافات

رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا وَ رَبُّ الۡمَشَارِقِ ؕ﴿۵﴾

Lord of the heavens and the earth and that between them and Lord of the sunrises.

آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں اور مشرقوں کا رب وہی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضِ ... Verily, your God is indeed One, Lord of the heavens and the earth, This is the One by Whom the oath is sworn, stating that there is no God worthy of worship but He, Lord of the heavens and the earth, ... وَمَا بَيْنَهُمَا ... and all that is between them, means, of created beings. ... وَرَبُّ الْمَشَارِقِ and Lord of every point of the sun's risings. means, He is the Sovereign Who is controlling His creation by subjugating it and all that is in it of stars, planets and heavenly bodies which appear from the east and set in the west. Mentioning the east is sufficient and there is no need for the west to be mentioned too, because it is implied in what is said. This has also been stated clearly elsewhere, in the Ayat: فَلَ أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَـرِقِ وَالْمَغَـرِبِ إِنَّا لَقَـدِرُونَ So I swear by the Lord of all the points of sunrise and sunset in the east and the west that surely We are able. (70:40) رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ (He is) the Lord of the two easts and the Lord of the two wests. (55:17) which refers to the rising and setting points of the sun and the moon in both winter and summer.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣] مشارق ومغارب کتنے ہیں ؟ مشارق سے مراد بیشمار مشرق ہیں۔ سورج ہمیشہ عین مشرقی سمت سے ہی طلوع نہیں ہوتا بلکہ گرمیوں میں اس کا مشرق شمال کی طرف سرکتا جاتا ہے اور سردیوں میں جنوب کی طرف۔ سورج کے مشرق کا زاویہ ہر روز جداگانہ ہوتا ہے اس لحاظ سے سورج کے سال بھر میں ٣٦٥ مشرق ہوئے۔ پھر اس کائنات میں صرف سورج ہی گردش نہیں کر رہا اور بھی ہزاروں سیارے محو گردش ہیں۔ اور ان کے اپنے اپنے مشرق یا طلوع ہونے کے مقامات ہیں۔ علاوہ ازیں ان کے مشرقوں میں بھی سورج کے مشرقوں کی طرح تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ اس لحاظ سے مشرقوں کی تعداد ہمارے حساب سے باہر ہوجاتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے رب المشارق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام سیاروں کی نقل و حرکت کا وہی مالک ہے اور ان پر اسی کا کنٹرول ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ مشارق کا مالک ہے مغارب کا بھی ہے۔ مغارب کا یہاں تو ذکر نہیں تاہم سورة معارج کی آیت نمبر ٤٠ میں مغارب کا بھی ذکر آگیا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا : مراد اس سے پوری کائنات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بار بار اپنے اکیلے رب ہونے کو اکیلا معبود ہونے کی دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے کہ جب ہر چیز کا مالک اور رب میں ہوں اور تم بھی مانتے ہو کہ ہر چیز پیدا میں نے کی اور اس کی پرورش بھی میں ہی کرتا ہوں، تو عبادت کسی اور کی کیوں ہو ؟ داتا اور دستگیر کوئی اور کس طرح بن گیا ؟ مصیبت کے وقت کسی اور کو پکارا کیوں جائے ؟ وَرَبُّ الْمَشَارِقِ : ” الْمَشَارِقِ “ ” مَشْرِقٌ“ کی جمع ہے، طلوع ہونے کی جگہ۔ سورج ہمیشہ مشرقی سمت کے درمیان سے طلوع نہیں ہوتا، بلکہ گرمیوں میں اس کا مشرق شمال کی طرف سرکتا جاتا ہے اور سردیوں میں جنوب کی طرف اور ہر روز سورج کے طلوع ہونے کی جگہ الگ ہوتی ہے، اس لحاظ سے سال بھر میں سورج کے ٣٦٥ مشرق ہوتے ہیں۔ پھر اس کائنات میں صرف سورج ہی گردش نہیں کرتا، چاند اور بیشمار سیارے طلوع و غروب ہوتے ہیں۔ ہر ایک کے طلوع ہونے کے اپنے اپنے مقامات ہیں، جن میں سورج کے مشرقوں کی طرح تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ اس لحاظ سے مشرقوں کی تعداد ہمارے حساب سے باہر ہے۔ یہاں صرف مشارق کے ذکر پر اکتفا فرمایا، کیونکہ ظاہر ہے کہ جو مشرقوں کا رب ہے مغربوں کا رب بھی وہی ہے۔ سورة معارج (٧٠) میں مشارق و مغارب دونوں کے رب کی قسم کھائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے رب المشارق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سورج اور ان تمام سیاروں کی نقل و حرکت کا مالک وہی ہے، کسی اور کا اس میں کچھ دخل نہیں۔ ” رَبُّ الْمَشَارِقِ “ میں ایک اور نکتہ بھی ہے کہ سورج اپنی روزانہ کی گردش میں اس زمین کے مختلف حصوں پر ایک دوسرے کے بعد پے در پے طلوع ہوتا ہے۔ جہاں زمین کا کوئی حصہ سورج کے سامنے آتا ہے وہی اس کا مشرق ہے۔ اس لحاظ سے بھی نہ مشرقوں کا شمار ہے نہ مغربوں کا۔ (الوسیط)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

It was said: رَّ‌بُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَرَ‌بُّ الْمَشَارِ‌قِ (the Lord of the heavens and the earth and what is between them, and Lord of the points of the sunrise. - 37:5). Now, a Being to whom goes the credit of having created and sustained such a mind-boggling range of creations has to be the One most deserving of ownership. And this entire universe is a positive proof of His existence and Oneness. The word: الْمَشَارِ‌قِ (al-mashariq) as used here is the plural form of مَشرِق mashriq or East. Since, the sun rises from a new point every day of the year, therefore, its orientations in the East are many, and it is on this basis that the plural form has been employed here.

( آیت) رب السموٰت والارض و ما بینھما و رب المشارق (وہ پروردگار ہے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان جتنی مخلوقات ہیں ان کا اور پروردگار ہے مشرقوں کا) تو جو ذات اتنی عظیم مخلوقات کی خالق و پروردگار ہو، عبادت کی مستحق بھی وہی ہے، اور یہ ساری کائنات اس کے وجود اور وحدانیت کی دلیل ہے یہاں المشارق، مشرق کی جمع ہے، اور چونکہ سورج سال کے ہر دن میں ایک نئی جگہ سے طلوع ہوتا ہے، اس لئے اس کی مشرقیں بہت ساری ہیں، اسی بنا پر یہاں جمع کا صیغہ لایا گیا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَہُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِ۝ ٥ۭ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے شرق شَرَقَتِ الشمس شُرُوقاً : طلعت، وقیل : لا أفعل ذلک ما ذرّ شَارِقٌ «1» ، وأَشْرَقَتْ : أضاءت . قال اللہ : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص/ 18] أي : وقت الإشراق . والْمَشْرِقُ والمغرب إذا قيلا بالإفراد فإشارة إلى ناحیتي الشَّرْقِ والغرب، وإذا قيلا بلفظ التّثنية فإشارة إلى مطلعي ومغربي الشتاء والصّيف، وإذا قيلا بلفظ الجمع فاعتبار بمطلع کلّ يوم ومغربه، أو بمطلع کلّ فصل ومغربه، قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء/ 28] ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن/ 17] ، بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ، وقوله تعالی: مَکاناً شَرْقِيًّا[ مریم/ 16] ، أي : من ناحية الشّرق . والْمِشْرَقَةُ «2» : المکان الذي يظهر للشّرق، وشَرَّقْتُ اللّحم : ألقیته في الْمِشْرَقَةِ ، والْمُشَرَّقُ : مصلّى العید لقیام الصلاة فيه عند شُرُوقِ الشمس، وشَرَقَتِ الشمس : اصفرّت للغروب، ومنه : أحمر شَارِقٌ: شدید الحمرة، وأَشْرَقَ الثّوب بالصّبغ، ولحم شَرَقٌ: أحمر لا دسم فيه . ( ش ر ق ) شرقت ( ن ) شروقا ۔ الشمس آفتاب طلوع ہوا ۔ مثل مشہور ہے ( مثل ) الاافعل ذالک ماذر شارق واشرقت جب تک آفتاب طلوع ہوتا رہیگا میں یہ کام نہیں کروں گا ۔ یعنی کبھی بھی نہیں کروں گا ۔ قرآن میں ہے : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص/ 18] صبح اور شام یہاں اشراق سے مراد وقت اشراق ہے ۔ والْمَشْرِقُ والمغربجب مفرد ہوں تو ان سے شرقی اور غربی جہت مراد ہوتی ہے اور جب تثنیہ ہوں تو موسم سرما اور گرما کے دو مشرق اور دو مغرب مراد ہوتے ہیں اور جمع کا صیغہ ہو تو ہر روز کا مشرق اور مغرب مراد ہوتا ہے یا ہر موسم کا قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء/ 28] وہی مشرق اور مغرب کا مالک ( ہے ) رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن/ 17] وہی دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا مالک ہے ۔ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] اور مشرقوں کا رب ہے ۔ مَکاناً شَرْقِيًّا[ مریم/ 16] مشر ق کی طرف چلی گئی ِ ۔ المشرقۃ جاڑے کے زمانہ میں دھوپ میں بیٹھنے کی جگہ جہاں سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی دھوپ پڑتی ہو ۔ شرقت اللحم ۔ گوشت کے ٹکڑے کر کے دھوپ میں خشک کرنا ۔ المشرق عید گاہ کو کہتے ہیں کیونکہ وہاں طلوع شمس کے بعد نماز اد کی جاتی ہے ۔ شرقت الشمس آفتاب کا غروب کے وقت زردی مائل ہونا اسی سے احمر شارق کا محاورہ ہے جس کے معنی نہایت سرخ کے ہیں ۔ اشرق الثوب کپڑے کو خالص گہرے رنگ کے ساتھ رنگنا ۔ لحم شرق سرخ گوشت جس میں بالکل چربی نہ ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

جو آسمانوں اور زمین اور تمام مخلوقات کا خالق ہے اور پروردگار ہے سردی گرمی کے لانے کا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥{ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِ } ” جو مالک ہے آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان دونوں کے مابین ہے اور تمام مشرقوں کا۔ “ یہاں ” مشارق “ کے بعد ” مغارب “ کا ذکر نہیں ہوا٭۔ اس لیے کہ زمین کا ہر مقام اور ہر نقطہ مشرق بھی ہے اور مغرب بھی۔ یعنی اگر ہم کسی وقت سورج کو کسی مقام پر غروب ہوتا دیکھ رہے ہیں تو عین اسی وقت اسی مقام سے کسی دوسرے علاقے کے لوگ اسے طلوع ہوتا بھی دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے سورج کے طلوع و غروب کے حوالے سے مشرق اور مغرب کا ذکر الگ الگ بھی ہوسکتا ہے اور یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ زمین کے تمام مقامات مشارق ہی ہیں۔ یعنی ہر جگہ سے کسی نہ کسی وقت سورج طلوع ہوتا نظر آتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

3 The Truth that has been conveyed in these verses is: "The Master and Ruler of the Universe is the real Deity of men: He alone can be, and should be, the .Deity. It would be utterly irrational that the Rabb (i.e.. Master, Ruler, Guardian and Sustainer) of the man should be one but his Ilah (deity) another. The basic reason for worship is that man should naturally bow down before and acknowledge the superiority of him who can bring him harm and good, who can fulfil his needs and requirements, who can make or mar his destiny and has power over his life and survival itself. If man understands this he will automatically understand that to worship the one who has no power and not to worship Him Who has All the powers arc both against reason and nature. The One Who alone is worthy of worship is He Who possesses the powers. As far as the powerless beings are concerned, they are neither worthy of worship, nor is it in any way profitable to worship and pray to them, for it is not in their power to take any action whatever on man's petitions and prayers. To bow before them humbly and to petition them would be as foolish and meaningless an act as to bow before and petition another one who has himself gone before a ruler to make obeisance and submit his petitions. 4 The sun dces not always rise at the same point but at a different point every day. Moreover, it dces not rise at one and the same time for the whole world but rises at different times for the different parts of the earth. That is why the plural "Mashariq" (Easts) has been used to indicate the different points at which the sun rises according to the season of the year. The corresponding word °Magharib" (Wests) has not been used because Mashariq itself points to Magharib However, in Surah Al-Ma'arij, the word magharib also has been used along with tnashariq: Rabb-al-mashariqi wal-magharib.

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :3 سورج ہمیشہ ایک ہی مطلع سے نہیں نکلتا بلکہ ہر روز ایک نئے زاویے سے طلوع ہوتا ہے ۔ نیز ساری زمین پر وہ بیک وقت طابع نہیں ہو جاتا بلکہ زمین کے مختلف حصوں پر مختلف اوقات میں اس کا طلوع ہوا کرتا ہے ۔ ان وجوہ سے مشرق کے بجائے مشارق کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ، اور اس کے ساتھ مغارب کا ذکر نہیں کیا گیا ، کیونکہ مشارق کا لفظ خود ہی مغارب پر دلالت کرتا ہے ، تاہم ایک جگہ رَبُّ المَشَارق و المغارب کے الفاظ بھی آئے ہیں ( المعارج ۔ 40 ) ۔ سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :4 ان آیات میں جو حقیقت ذہن نشین کرائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ کائنات کا مالک و فرمانروا ہی انسانوں کا اصل معبود ہے ، اور وہی درحقیقت معبود ہو سکتا ہے ، اور اسی کو معبود ہونا چاہیے ۔ یہ بات سراسر عقل کے خلاف ہے کہ رب ( یعنی مالک اور حاکم اور مربی و پروردگار ) کوئی ہو اور الٰہ ( عبادت کا مستحق ) کوئی اور ہو جائے ۔ عبادت کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ آدمی کا نفع و ضرر ، اس کی حاجتوں اور ضرورتوں کا پورا ہونا ، اس کی قسمت کا بننا اور بگڑنا ، بلکہ بجائے خود اس کا وجود و بقا ہی جس کے اختیار میں ہے ، اس کی بالا تری تسلیم کرنا اور اس کے آگے جھکنا آدمی کی فطرت کا عین تقاضا ہے ۔ اس وجہ کو آدمی سمجھ لے تو خود بخود اس کی سمجھ میں یہ بات آ جاتی ہے کہ اختیارات والے کی عبادت کرنا ، دونوں صریح خلاف عقل و فطرت ہیں ۔ عبادت کا استحقاق پہنچتا ہی اس کو ہے جو اقتدار رکھتا ہے ۔ رہیں بے اقتدار ہستیاں تو وہ نہ اس کی مستحق ہیں کہ ان کی عبادت کی جائے ، اور نہ ان کی عبادت کرنے اور ان سے دعائیں مانگنے کا کچھ حاصل ہے ، کیونکہ ہماری کسی درخواست پر کوئی کارروائی کرنا سرے سے ان کے اختیار میں ہے ہی نہیں ۔ ان کے آگے عاجزی و نیاز مندی کے ساتھ جھکنا اور ان سے دعا مانگنا بالکل ویسا ہی احمقانہ فعل ہے جیسے کوئی شخص کسی حاکم کے سامنے جائے اور اس کے حضور درخواست پیش کرنے کے بجائے جو دوسرے سائلین وہاں درخواستیں لیے کھڑے ہوں ان ہی میں سے کسی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:5) رب السموت والارض وما بینہما۔ یہ ان کی خبر ثانی ہے۔ یا واحد کا بدل ہے۔ یعنی اور وہ ان آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان سب کا پروردگار ہے۔ یا الہ واحد وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا ۔۔ اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان سب کا پروردگار ہے۔ ورب المشارق۔ اس کا جملہ سابقہ پر عطف ہے اور وہ مشرقوں کا پروردگار ہے المشارق صیغہ جمع اختلاف مطالع کے اعتبار سے ہے ہر روز طلوع آفتاب کا زاویہ دوسرے دن سے کچھ نہ کچھ مختلف ہوتا ہے اور اس طرح سال کے 365 مشرق ہوئے۔ اس طرح 365 مقامات مغرب ہوں گے۔ محض مشارق پر اکتفاء کر کے مراد دونوں لئے گئے ہیں۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ :۔ انہ اکتفی بذکر المشارق لقولہ تقیکم الحر (16:81) یعنی اس نے المشارق پر ہی اکتفا کیا ہے جیسا کہ آیت وجعل لکم سرابیل تقیکم الحر میں۔ آیت کا ترجمہ ہے :۔ اور تمہارے لئے وہ پیراہن بنائے (از قسم قمیص) جو تم کو گرمی سے بچاتے ہیں (حالانکہ پیراہن گرمی اور سردی دونوں سے بچاتے ہیں) ۔ ویسے قرآن مجید میں برب المشرق والمغرب (70:40) آیت رب المشرقین ورب المغربین (55:17) تثنیہ کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ مشرقین سے مراد جاڑے اور گرمی کی فصلوں میں سورج کے طلوع ہونے یا غروب ہونے کا آخری مقام (ان دونوں کے مابین طلوع یا غروب ہونے کے باقی سارے مقامات بھی آگئے ) ۔ مشرق، مشرقین، مشارق کی تشریح کرتے ہوئے صاحب المفردات امام راغب لکھتے ہیں : المشرق والمغرب جب مفرد ہوں تو ان سے شرقی اور غربی جہت مراد ہوتی ہے۔ اور جب تثنیہ ہوں تو موسم سرما اور گرما کے دو مشرق اور دو مغرب مراد ہوتے ہیں ! اور جب جمع کا صیغہ ہو تو ہر روز کا مشرق اور مغرب مراد ہوتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 سورج سال بھر تک روزانہ ایک نئے مقام سے طلوع ہوتا رہتا ہے اور پھر ساری زمین پر وہ بیک وقت طلوع نہیں ہوتا بلکہ زمین کے مختلف حصوں میں وہ مختلف اوقات میں طلوع ہوتا ہے اس لئے آیت میں المشارق ( جمع) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور اس کے قرین ” ورب المغارف “ کو عربی محاورہ کے اعتبار سے حذف کردیا گیا ہے جیسے ” تقیکم الحر “ میں ہے نیز دیکھئے ( معارج 4) مقصد یہ ہے کہ کائنات کے اس نظام پر غور کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ الٰہ ( معبود) ایک ہی ہے جیسے فرمایا ( لو کان فیھما الھۃ الا اللہ لفسدنا) (کبیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ضروری ہوا کہ فرشتوں کی حیثیت بتانے کے بعد اللہ خود اپنی تعریف بھی فرما دے : رب السموت والارض وما بینھما ورب المشارق (38: 5) ” وہ جو زمینوں اور آسمانوں کا اور تمام ان چیزوں کا مالک ہے جو زمین اور آسمان کے درمیان ہیں اور سارے مشرقوں کا مالک ہے “۔ یہ زمین اور آسمان جو انسانوں کے اردگرد قائم ہیں وہ انسانوں کو بتاتے ہیں کہ اس عظیم کائنات کا ایک خالق مدبر ہے۔ اس جہاں میں کوئی ذات اس کے سوا نہیں ہے جس کا یہ دعویٰ ہو کہ اس کی تخلیق اور تدبیر میں اس کا بھی حصہ ہے۔ کوئی عقلمند انسان اس اعتراف سے نہیں بھاگ سکتا کہ اس جہاں کا خالق بےقید قدرتوں کا مالک ہے۔ اور وہ رب ہے اور وہی مالک ہے زمین و آسمان اور ان کے درمیان ہر چیز کا۔ خواہ ہوائیں ہیں ، بادل ہیں ، روشنی ہے ، مخلوقات ہیں ، دیکھی جانے والی مخلوقات ہیں یا ایسی مخلوقات ہیں جو نظر نہیں اسکتیں اور آئے دن ان کے بارے میں انسانوں کے علم میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ لیکن ان کی اکثریت اب بھی نظروں سے اوجھل ہے۔ آسمان اور زمین اور ان کے درمیان کی مسافتیں اسی قدر وسیع ، اس قدر عظیم ہیں اور ان کے درمیان پائی جانے والی مخلوقات اس قدر متنوع ، خوبصورت اور باہم ہم آہنگ ہیں کہ ایک زندہ دل انسان اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اور اس کائنات سے گہرے تاثر اور عبرت پکڑنے اور اس پر غور و فکر کے بغیر وہی شخص گزر سکتا ہے جس کا دل مر چکا ہو۔ اس لیے ایسے شخص پر پھر یہ خوشگوار تاثرات کوئی اثر نہیں کرتے اور اس کا دل و دماغ ان عجائبات کو دیکھ کر بھی جوش میں نہیں آتا۔ رب المشارق (37: 5) ” مشرقوں کا مالک “۔ ہر ستارے کے لیے ایک مشرق ہے اور ہر سیارے کا بھی ایک مشرق ہے۔ لہٰذا اس کائنات میں بیشمار مشارق ہیں۔ ان وسیع اجرام فلکی میں ان گنت مشارق ہیں۔ اس تعبیر میں اس زمین کی طرف بھی گہرا اشارہ ہے جس پر ہم رہتے ہیں۔ زمین جب سورج کے سامنے حرکت محوری کا عمل کرتی ہے ، تو کسی نہ کسی وقت اس کا ایک حصہ مشرق ہوتا ہے ۔ اسی طرح کسی نہ کسی وقت اس کا ایک حصہ مغرب ہوتا رہتا ہے۔ اور یہ عمل پے در پے چلتا رہتا ہے۔ جونہی کوئی حصہ سورج کے سامنے آتا ہے وہ مشرق ہوتا ہے۔ اور اس کے بالمقابل حصہ مغرب ہوتا ہے۔ جوں جوں حرکت اور گردش ہوتی رہتی ہے ، مشرق بھی بدلتا رہتا ہے اور مغرب بھی۔ یہ وہ حقیقت ہے جس سے نزول قرآن کے وقت لوگ بیخبر تھے۔ لیکن اللہ نے ان کو اس قدر قدیم زمانے میں خبر دے دی۔ یہ نہایت ہی گہرا نظام ہے ، جس کے مطابق اس زمین پر مشارق رواں دواں ہیں اور یہ خوبصورتی جو طلوع آفتاب کے وقت اس زمین پر بکھر جاتی ہے ، یہ اس قابل ہے کہ انسانی دل کو خوشگوار ، تاثر اور گہرے غور وفکر کے تاثرات سے بھر دیں۔ اور انسان چلا اٹھے کہ صانع کائنات کی کیا شان ہے اور انسان چلا اٹھے کہ بیشک اللہ وحدہ خالق کائنات ہے کہ اس عجیب صفت کے آثار اور اس کی مسافت اور طبیعت یہ بتاتی ہے کہ اس کا بنانے والا ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اللہ کی صفت رب المشارق کو لایا گیا ہے۔ عنقریب ہم کواکب ، شہاب ثاقب ، شیاطین اور ان کے بھگائے جانے پر بحث کریں گے ، اس موقعہ پر رب المشارق کے کچھ اور مفہوم اور مناسبتیں بھی بیان کریں گے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر اس معبود کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا (رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِ ) وہ آسمانوں کا اور زمین کا رب ہے اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کا بھی رب ہے اور مشارق کا بھی رب ہے۔ مشارق مشرق کی جمع ہے، یہاں (رَبُّ الْمَشَارِقِ ) فرمایا ہے۔ اور سورة المعارج میں (فَلَآ اُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشٰرِقِ وَالْمَغٰرِبِ ) فرمایا ہے اور سورة الرحمن میں (رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَیْنِ ) فرمایا ہے۔ مشارق اور مغارب جمع ہے اور (الْمَشْرِقَیْن) اور (الْمَغْرِبَیْنِ ) تثنیہ ہیں، اور سورة المزمل میں (رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ ) فرمایا ہے۔ اس میں واحد کا صیغہ تو جنس کے اعتبار سے ہے اور تثنیہ سردی اور گرمی کے موسموں کے اعتبار سے کیونکہ سردی کے دنوں میں آفتاب کے طلوع اور غروب ہونے کی جگہ اس جگہ کے علاوہ ہے جو گرمی میں غروب ہونے اور طلوع ہونے کی جگہ ہے اور جمع اس اعتبار سے ہیں کہ مشرق اور مغرب بدلتے رہتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(5) وہ پروردگار ہے یعنی مالک و متصرف ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ ان دونوں کے مابین ہے اس سب کا مالک و متصرف ہے اور تمام مشرقوں کا مالک اور متصرف ہے یہاں صرف مشارق کا ذکر فرمایا دوسری جگہ مغارب کا بھی ذکر آیا ہے اور کہیں دو مشرقوں اور مغربوں کے ذکر ہے مشارق سے مراد یا تو آفتاب کے طلوع ہونے کے نقاط ہیں یا تمام ستاروں کے طلوع ہونے کے مقامات میں تمام ستارے مراد لئے جائیں تب تو ظاہر ہے کہ ستارے کے طلوع کی ایک مشرق جداگانہ اور دوسری مشرق سے ممتاز ہے اور اگر صرف آفتاب کے لئے جمع فرمایا تو پھر حضرت شاہ صاحب (رح) اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں شمال سے جنوب تک مشرقیں ہیں سورج کو جدا اور دوسری طرف اتنی ہی مغربیں ہیں۔ خلاصہ : یہ ہے کہ آفتاب ہر روز ایک نئی جگہ اور نئے نقطہ سے طلوع ہوتا ہے اور نئی جگہ اور نئے نقطہ پر غروب ہوتا ہے جہاں سے آج نکلا ہے کل وہاں سے نہیں نکلے گا اور جہاں آج غروب ہوا ہے کل وہاں غروب نہیں ہوگا۔