Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 85

سورة الصافات

اِذۡ قَالَ لِاَبِیۡہِ وَ قَوۡمِہٖ مَاذَا تَعۡبُدُوۡنَ ﴿ۚ۸۵﴾

[And] when he said to his father and his people, "What do you worship?

انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ تم کیا پوج رہے ہو؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

When he said to his father and to his people: "What is it that which you worship?" He denounced his people for their worship of idols and false gods, Allah said: أَيِفْكًا الِهَةً دُونَ اللَّهِ تُرِيدُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ وَقَوْمِهٖ : ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ سوال پوچھنے کے لیے نہیں بلکہ ان کی عبادت کے انکار کے لیے تھا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِذْ قَالَ لِاَبِيْہِ وَقَوْمِہٖ مَاذَا تَعْبُدُوْنَ۝ ٨٥ۚ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کو... ن ہوسکتا ہے ۔ أب الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب/ 6] ( اب و ) الاب ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ { النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ } [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ( ماذا) يستعمل علی وجهين : أحدهما . أن يكون ( ما) مع ( ذا) بمنزلة اسم واحد، والآخر : أن يكون ( ذا) بمنزلة ( الذي) ، فالأوّل نحو قولهم : عمّا ذا تسأل ؟ فلم تحذف الألف منه لمّا لم يكن ما بنفسه للاستفهام، بل کان مع ذا اسما واحدا، وعلی هذا قول الشاعر : دعي ماذا علمت سأتّقيه أي : دعي شيئا علمته . وقوله تعالی: وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 219] ، فإنّ من قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالنّصب فإنّه جعل الاسمین بمنزلة اسم واحد، كأنّه قال : أيّ شيء ينفقون ؟ ومن قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالرّفع، فإنّ ( ذا) بمنزلة الذي، وما للاستفهام أي : ما الذي ينفقون ؟ وعلی هذا قوله تعالی: ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل/ 24] ، و (أساطیر) بالرّفع والنصب ( ماذا ) اور ماذا ، ، بھی دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ اول یہ کہ ، ، مازا کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا لذی کے ہو ( ما بمعنی اول یہ کہ ماذا ، ، کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا بمنزلہ الذی کے ہو ( ما بمعنی ای شئی کے ہو پہلی قسم کی مثال جیسے : عما ذا تسال کہ کسی چیز کے بارے میں سوال کرتے ہو اس صورت میں چونکہ ، ، ماذا اکیلا ، ، استفہام کے لئے نہیں ہے بلکہ ، ، ذا کے ساتھ مل کر ایک اسم بنتا ہے اس لئے ، ، ما ، ، کے الف کو حزف نہیں کیا گیا ۔ اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے یعنی جو چیز تجھے معلوم ہے اسے چھوڑ دے میں اس سے بچنے کی کوشش کرونگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 219] اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ کہ ( خدا کی راہ میں ) کونسا مال خرچ مال کریں ۔ میں جو لوگ کو منصوب پڑھتے ہیں ۔ وہ ماذا کو بمنزلہ ایک اسم کے مانتے ہیں کونسی چیز صرف کریں مگر جن کے نزدیک ہے اور ما استفہا میہ ہے یعنی وہ کونسی چیز ہے جسے خرچ کریں ۔ اس بنا پر آیت کریمہ : ۔ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل/ 24] کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہی تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں ۔ میں اساطیر رفع اور نصب دونوں جائز ہیں ۔ عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٥{ اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ وَقَوْمِہٖ مَاذَا تَعْبُدُوْنَ } ” جب کہ اس نے اپنے والد اور اپنی قوم سے کہا کہ تم لوگ کن چیزوں کو پوجتے ہو ! “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

45 For further details of this story of the Prophet Abraham, please see Surah Al-An'am: 72-90; Maryam: 41-60; AI-Anbiya: 51-75; Ash-Shu'ara; 69-89; Al-'Ankabut: 16-17, and the E.N's thereof.

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:85) اذ۔ پہلے اذ کا بدل ہے یا جاء کا ظرف زمان۔ ماذا۔ اس کی حسب ذیل صورتیں ہیں :۔ (الف) یہ لفظ مرکب ہے اور (1) ما استفہامیہ اور ذا موصولہ ہے جیسے ویسئلونک ما ذا ینفقون قل العفو (قرات ابو عمرو (2:219) ۔ (2) ما استفہامیہ اور ذا اسم اشارہ ہے۔ (3) ما زائدہ اور ذا اسم اشارہ ہے۔ (4) ما استفہامیہ اور ذ... ا فصل کے لئے ہے تاکہ ما نافیہ اور ما استفہامیہ میں امتیار ہوجائے۔ (5) ما استفہامیہ ہے اور ذا زائدہ ہے : (ب) یہ لفظ بسیط ہے اور پورا :۔ (1) اسم جنس ہے۔ (2) اسم موصول۔ (3) پورا حرف استفہام ہے۔ جیسے ویسئلونک ما ذا ینفقون قل العفو (2:219) ۔ ماذا۔ کیا چیز ہے ۔ کیا ہے۔ یہاں استفہام توبیخ کے لئے ہے ! یعنی تمہیں شرم نہیں آتی تم کس کی عبادت کرتے ہو ؟  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی سوچو تو سہی کہ یہ بت وغیرہ جن کی تم عبادت کرتے ہو آخر ہیں کیا چیز ؟

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے باپ اور قوم کو مشتر کہ خطاب۔ سورۃ مریم آیت ٤٢ تا ٤٥ میں موجود ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سب سے پہلے اپنے وا لد گرامی کو سمجھایا کہ اے میرے والد گرامی ! جن کے سامنے آپ اپنی حاجات اور نذر ونیاز پیش کرتے ہیں نہ یہ سنتے ہیں اور نہ دیکھتے...  ہیں اور نہ ہی آپ کو کوئی فائدہ دے سکتے ہیں۔ اسی بات کو ابراہیم (علیہ السلام) نے باپ اور قوم سے مشترکہ خطاب میں یوں بیان فرمایا۔ اے والد گرامی اور میری قوم کے لوگو ! اللہ کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو اور جن کے سامنے تم اپنی حاجات پیش کرتے ہو ان کی کوئی حقیقت اور حیثیت نہیں۔ یہ بتاؤ ! کہ رب العالمین کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ یعنی جو عبادات اور آداب اللہ کے حضور بجالانے چاہییں وہ تم اس کے سوا دوسروں کے سامنے کرتے ہو۔ قرآن مجید کی تلاوت سے یہ بات آشکارہ ہوتی ہے کہ ہر دور کے کلمہ پڑھنے والے مشرک زندہ اور فوت شدہ بزرگوں اور غیر مسلم اپنے دیوتاؤں کے بارے میں ایسے ہی تخیلات رکھتے اور باتیں کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں رکھنے اور کرنی چاہییں۔ ابراہیم (علیہ السلام) مشرکوں کے عقیدہ اور خیالات کے لیے ” اِفْکًا “ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنٰی جھوٹ اور بناوٹی عقائد اور خیالات ہیں۔ اسی بنا پر ایک مشرک کہتا ہے کہ فلاں قبر والا یا دیوتا اولاد دیتا ہے۔ دوسرا کہتا ہے کہ فلاں بزرگ فلاں کام کرتا ہے۔ یہ لوگ جھوٹی کرامات اور من گھڑت افسانے ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرتے رہتے ہیں حالانکہ ان میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ قرآن مجید نے ایسے خیالات اور آداب کو بزرگوں اور دیوتاؤں کی عبادت کرنے کے ساتھ تعبیر کیا ہے۔ یہاں تک کہ زندہ یا فوت شدہ بزرگ یا بت وغیرہ کے سامنے ادب سجدہ کرنا، جھکنا اور نذرونیاز پیش کرنا ہے یہ تو ہر مذہب میں عبادت شمار کیے جاتے ہیں۔ بیشک اسے تعظیم اور ثواب کے طور پر ادا کیا جائے یا عادتاً یا سیاسی اور سماجی رسم کے طور پر کیا جائے۔ حقیقت میں یہ اللہ تعالیٰ کے سوا یا اللہ کے ساتھ دوسروں کی عبادت کرنا ہے۔ جس سے تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) منع کرتے رہے ہیں۔ مزارات پر چڑھاوا چڑھانا اور میّت کے لیے نذرماننا حرام ہے : بریلوی مکتبہ فکر کے مفتی علامہ غلام رسول سعیدی تحریر فرماتے ہیں کہ جو شخص اولیاء اللہ کی نذر ونیاز اس طرح مانتا ہے ” اے سیدی ! اگر میرا گم شدہ شخص لوٹ آئے یا میرا بیمار تندرست ہوگیا یا میری حاجت پوری ہوگئی تو میں آپ کو اتنا سونا، چاندی، کھانا، موم بتیاں یا تیل دوں گا۔ یہ نذرونیاز بالاجماع باطل اور حرام ہے اور اس پر متعدد دلائل ہیں۔ پہلی دلیل یہ ہے کہ یہ مخلوق کی نذر ہے اور مخلوق کی نذر جائز نہیں ہے کیونکہ نذر عبادت ہے اور مخلوق کی عبادت جائز نہیں ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ نذر ماننے والے کا یہ گمان ہے کہ اشیاء میں اللہ نہیں میّت کا تصرّف ہے تو اس کا یہ اعتقاد کفر ہے۔[ شرح صحیح مسلم ازغلام رسول سعیدی : کتاب النذر ] شرکیہ مقام سے بچنا بھی لازم ہے : ” مجھے ثابت بن ضحاک (رض) نے بتایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں ایک آدمی نے بوانہ نامی جگہ پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی۔ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر عرض کی میں نے نذر مانی ہے کہ میں بوانہ کے مقام پر اونٹ ذبح کروں گا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی عبادت کی جاتی تھی ؟ صحابہ نے عرض کیا نہیں۔ آپ نے پھر پوچھا : کیا وہاں کوئی ان کا میلہ لگتا تھا ؟ صحابہ نے نفی میں جواب دیا۔ آپ نے فرمایا : اپنی نذر پوری کرو کیونکہ اللہ کی نافرمانی والی نذر پوری نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی وہ نذر پوری کرنا لازم ہے جس کی انسان طاقت نہیں رکھتا۔ “ [ رواہ أبوداؤد : کتاب الأیمان والنذور ] مسائل ١۔ مشرک اپنے من ساختہ معبودوں کے بارے میں جھوٹی کرامات اور من گھڑت واقعات بیان کرتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی بجائے مشرک غیروں پر زیادہ بھروسہ کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن انبیائے کرام کی دعوت کا مرکزی پیغام : ١۔ نوح (علیہ السلام) کا فرمان کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور دوسروں کو چھوڑ دو ۔ (ھود : ٢٦) ٢۔ ھود (علیہ السلام) نے صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی اور غیر اللہ کی عبادت سے منع کیا۔ (الاعراف : ٦٥) ٣۔ صالح (علیہ السلام) نے صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔ اور غیر اللہ کی عبادت سے منع کیا۔ (الاعراف : ٧٣) ٤۔ شعیب (علیہ السلام) نے صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کی طرف بلایا اور غیر اللہ کی عبادت سے منع کیا۔ (الاعراف : ٨٥) ٥۔ یوسف (علیہ السلام) نے اللہ کی عبادت کرنے کی طرف بلایا۔ (یوسف : ٤٠) ٦۔ عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا۔ (المائدۃ : ٧٢) ٧۔ تمام انبیاء کو صرف اللہ کی عبادت کرنے کا حکم۔ (البینۃ : ٥)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اذ قال ۔۔۔۔ برب العلمین (37: 84 – 87) ” جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا۔ یہ کیا چیزیں ہیں جن کی تم عبادت کر رہے ہو۔ کیا اللہ کو چھوڑ کر جھوٹ گھڑے ہوئے معبود چاہتے ہو۔ آخر رب العالمین کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے “۔ حجرت دیکھ رہے تھے کہ وہ بتوں اور آستھانوں کو پوجتے تھے۔ چناچہ وہ اپنی فطرت...  سلیمہ کی رد سے ان پر شدید گرفت کرتے ہیں کہ تم یہ کیا کر رہے ہو ؟ ماذا تعبدون (37: 84) ” یہ کیا ہیں جن کی تم عبادت کرتے ہو “۔ یعنی یہ کیا چیزیں ہیں ؟ یہ تو اس قابل ہرگز نہیں کہ ان کی بندگی کی جائے یا کوئی ان کا بندہ ہو۔ اور حقیقت یہ ہے کہ انسان ان کے بارے میں کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوسکتا۔ یہ تو محض گھڑے ہوئے ہیں ، افتراء ہیں اور ان کے من گھڑت ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ کیونکہ ان جھوٹے خداؤں کی بندگی کرکے تم عمداً افتراء باندھتے ہو۔ ائفکا الھۃ دون اللہ تریدون (37: 86) ” جھوٹ گھڑے ہوئے معبود تم چاہتے ہو “۔ یہ تمہارا اللہ کے بارے میں کیا تصور ہے۔ تمہار تصور الہ اس قدر گرا ہوا ہے کہ انسانی فطرت سلیمہ پہلی نظر ہی میں اس کا انکار کردیتی ہے۔ فما ظنکم برب العلمین (37: 87) ” آخر رب العالمین کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے ؟ “ اس فقرے سے معلوم ہوتا ہے کہ فطرت سلیمہ ایسے امر کا پہلی ہی نظر میں انکار کردیتی ہے جو عقل و ضمیر کے خلاف ہو اور انسانی عقل اور شعور اس کا انکار کرتے ہوں۔ اب سیاق کلام میں ان کی جانب سے کسی جواب کا تذکرہ نہیں ہے ۔ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ازروئے فطرت سلیمہ اور قلب سلیم جس نتیجے تک پہنچے اگلی کڑی میں وہ بتا دیا جاتا ہے کیونکہ ان کی قوم کھوکھلے من گھڑت عقائد پر تھی۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

37:۔ اذ قال الخ : یہ پہلے اذ سے بدل ہے۔ اور یہ ان کے دل کی سلامتی کا بیان ہے کہ جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم کو شرک کرتے دیکھا تو فورًا اس پر انکار کیا۔ اور فرمایا سوچو تو سہی تم اللہ کے سوا کس کی عبادت کرتے اور کس کو پکارتے ہو ؟ کیا وہ عبادت اور پکارے جانے کے لائق ہیں ؟ افک، بدترین جھوٹ۔ والفک... ، اسوا الکذب (جلالین) ۔ الھۃ، افکا سے بدل الکل ہے۔ کیا تم باطل یعنی معبودان غیر اللہ کے خواہشمند اور طلبگار ہو ؟ پھر اس رب العالمین کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جو حقیقت میں عبادت کا مستحق ہے ؟ کیا اس کی قدرت و عظمت میں اور اس کی ربوبیت عامہ میں تم کسی شک و شبہ میں پڑگئے ہو کہ اس کے سوا اس کی عاجز مخلوق کو بھی کارساز متصرف و مختار اور مستحق عبادت سمجھ بیٹھے ہو ؟ یا مطلب یہ ہے کہ جب تم اللہ سامنے حاضر ہوگے تو تمہارا اس کے بارے میں کیا خیال ہے۔ کیا وہ تمہیں اس کی سزا نہیں دے گا ؟ اس صورت میں یہ تخویف ہوگی۔ ای شء ظنکم بمن ھو حقیق بالعبادۃ لکونہ ربا للعلمین اشککتم فیہ حتی ترکتم عبادتہ الخ ّ (روح ج 23 ص 101) ای ما ظنکم بہ اذا لقیتموہ و قد عبدتم غیرہ، فھو تحذیر (قرطبی ج 15 ص 92) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(85) جبکہ اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے دریافت کیا تم کس چیز کی پرستش کرتے ہو اور تم یہ کیا پوجا کرتے ہو۔