Surat Suaad
Surah: 38
Verse: 1
سورة ص
صٓ وَ الۡقُرۡاٰنِ ذِی الذِّکۡرِ ؕ﴿۱﴾
Sad. By the Qur'an containing reminder...
صٓ! اس نصیحت والے قرآن کی قسم ۔
صٓ وَ الۡقُرۡاٰنِ ذِی الذِّکۡرِ ؕ﴿۱﴾
Sad. By the Qur'an containing reminder...
صٓ! اس نصیحت والے قرآن کی قسم ۔
Allah exalted says, ص ... Saad, We have already discussed the separate letters in the beginning of the Tafsir of Surah Al-Baqarah, and there is no need to repeat it here. ... وَالْقُرْانِ ذِي الذِّكْرِ By the Qur'an full of reminding. means, by the Qur'an which includes all that is in it as a reminder and a benefit to people in this life and the Hereafter. Ad-Dahhak said that the Ayah, ذِي الذِّكْرِ (full of reminding) is like the Ayah, لَقَدْ أَنزَلْنَأ إِلَيْكُمْ كِتَـباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ Indeed, We have sent down for you (O mankind) a Book in which there is Dhikrukum. (21:10) i.e., your reminder. This was also the view of Qatadah and of Ibn Jarir. Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, Sa`id bin Jubayr, Isma`il bin Abi Khalid, Ibn Uyaynah, Abu Husayn, Abu Salih and As-Suddi said: ذِي الذِّكْرِ (full of reminding). "Full of honor," i.e., of high standing. There is no contradiction between the two views, because it is a noble Book which includes reminders and leaves no excuse and brings warnings. The reason for this oath is to be found in the Ayah: إِن كُلٌّ إِلاَّ كَذَّبَ الرٌّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ Not one of them but denied the Messengers; therefore My torment was justified. (38:14) Qatadah said, "The reason for it is to be found in the Ayah: بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقَاقٍ Nay, those who disbelieve are in false pride and opposition." This was the view favored by Ibn Jarir. Allah exalted says, بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقَاقٍ
حروف مقطعات جو سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان کی پوری تفسیر سورہ بقرہ کے شروع میں گذر چکی ہے ۔ یہاں قرآن کی قسم کھائی اور اسے پند و نصیحت کرنے والا فرمایا ۔ کیونکہ اس کی باتوں پر عمل کرنے والے کی دین و دنیا دونوں سنور جاتی ہیں اور آیت میں ہے ( لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا فِيْهِ ذِكْرُكُمْ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ 10ۧ ) 21- الأنبياء:10 ) اس قرآن میں تمہارے لئے نصیحت ہے اور یہ بھی مطلب ہے کہ قرآن شرافت میں بزرگ عزت و عظمت والا ہے ۔ اب اس قسم کا جواب بعض کے نزدیک تو ( اِنْ كُلٌّ اِلَّا كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ 14ۧ ) 38-ص:14 ) ، ہے ۔ بعض کہتے ہیں ( اِنَّ ذٰلِكَ لَحَــقٌّ تَخَاصُمُ اَهْلِ النَّارِ 64ۧ ) 38-ص:64 ) ، ہے لیکن یہ زیادہ مناسب نہیں ملعوم ہوتا ۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کا جواب اس کے بعد کی آیت ہے ۔ ابن جریر اسی کو مختار بتاتے ہیں ۔ بعض عربی داں کہتے ہیں اس کا جواب ص ہے اور اس لفظ کے معنی صداقت اور حقانیت کے ہیں ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ پوری سورت کا خلاصہ اس قسم کا جواب ہے ۔ واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے یہ قرآن تو سراسر عبرت و نصیحت ہے مگر اس سے فائدہ وہی اٹھاتے ہیں جن کے دل میں ایمان ہے کافر لوگ اس فائدے سے اس لئے محروم ہیں کہ وہ متکبر ہیں اور مخالف ہیں یہ لوگ اپنے سے پہلے اور اپنے جیسے لوگوں کے انجام پر نظر ڈالیں تو اپنے انجام سے ڈریں ۔ اگلی امتیں اسی جرم پر ہم نے تہ و بالا کر دی ہیں عذاب آ پڑنے کے بعد تو بڑے روئے پیٹے خوب آہو زاری کی لیکن اس وقت کی تمام باتیں بےسود ہیں ۔ جیسے فرمایا ( فَلَمَّآ اَحَسُّوْا بَاْسَنَآ اِذَا هُمْ مِّنْهَا يَرْكُضُوْنَ 12ۭ ) 21- الأنبياء:12 ) ہمارے عذابوں کو معلوم کر کے ان سے بچنا اور بھاگنا چاہا ۔ لیکن یہ کیسے ہو سکتا تھا ؟ ابن عباس فرماتے ہیں کہ اب بھاگنے کا وقت نہیں نہ فریاد کا وقت ہے ، اس وقت کوئی فریاد رسی نہیں کر سکتا ۔ چاہو جتنا چیخو چلاؤ محض بےسود ہے ۔ اب توحید کی قبولیت بےنفع ، توبہ بیکار ہے ۔ یہ بےوقت کی پکار ہے ۔ لات معنی میں لا کے ہے ۔ اس میں ت زائد ہے جیسے ثم میں بھی ت زیادہ ہوتی ہے اور ربت میں بھی ۔ یہ مفصولہ ہے اور اس پر وقف ہے ۔ امام ابن جریر کا قول ہے کہ یہ ت حین سے ملی ہوئی ہے یعنی ولاتحین ہے ، لیکن مشہور اول ہی ہے ۔ جمہور نے حین کو زبر سے پڑھا ہے ۔ تو مطلب یہ ہو گا کہ یہ وقت آہو زاری کا وقت نہیں ۔ بعض نے یہاں زیر پڑھنا بھی جائز رکھا ہے لغت میں نوص کہتے ہیں پیچھے ہٹنے کو اور بوص کہتے ہیں آگے بڑھنے کو پس مقصد یہ ہے کہ یہ وقت بھاگنے اور نکل جانے کا وقت نہیں واللہ الموفق ۔
1۔ 1 جس میں تمہارے لئے ہر قسم کی نصیحت اور ایسی باتیں ہیں، جن سے تمہاری دنیا سنور جائے اور آخرت بھی بعض نے ذی الذکر کا ترجمہ شان اور مرتبت والا، کیے ہیں، امام ابن کثیر فرماتے ہیں۔ دونوں معنی صحیح ہیں۔ اس لئے کہ قرآن عظمت شان کا حامل بھی ہے اور اہل ایمان وتقویٰ کے لئے نصیحت اور درس عبرت بھی، اس قسم کا جواب محذوف ہے کہ بات اس طرح نہیں ہے جس طرح کفار مکہ کہتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ساحر، شاعر یا جھوٹے ہیں، بلکہ وہ اللہ کے سچے رسول ہیں جن پر یہ ذی شان قرآن نازل ہوا۔
صۗ وَالْقُرْاٰنِ ذِي الذِّكْرِ : ” صۗ“ حروف مقطعات میں سے ہے، اس کی وضاحت کے لیے دیکھیے سورة بقرہ کی پہلی آیت۔ وَالْقُرْاٰنِ ذِي الذِّكْرِ :” الْقُرْاٰنِ “ میں الف لام عہد کا ہے، اس لیے ترجمہ ” اس قرآن “ کیا ہے۔ ” الذِّكْرِ “ کا معنی عزّ و شرف بھی ہوسکتا ہے، نصیحت بھی اور اللہ تعالیٰ کا اور ان تمام چیزوں کا ذکر بھی جن کی انسان کو نجات کے لیے ضرورت ہے۔ یہاں تینوں معانی بیک وقت مراد ہوسکتے ہیں، کیونکہ یہ قرآن کمال عزّو شرف والا بھی ہے، نصیحت والا بھی ہے اور اس میں ان تمام چیزوں کا ذکر بھی ہے جن کی ضرورت ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة انبیاء کی آیت (١٠) : (لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا فِيْهِ ذِكْرُكُمْ ) کی تفسیر۔ ” اس نصیحت والے قرآن کی قسم “ اس کا جواب قسم یہاں ذکر نہیں ہوا۔ اگلے جملے ” بَلِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا “ سے نئی بات شروع ہوگئی ہے، جس سے قسم کا جواب سمجھ میں آ رہا ہے۔
Commentary The background of the revelation The background of the revelation of the initial verses of this Surah was that Abu Talib, the uncle of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was doing his best as his guardian, despite that he had not yet embraced Islam. When he fell sick, the chiefs of the tribe of Quraish held a consultative meeting in which Abu Jahl, ` As Ibn Wa&il, Aswad Ibn Muttalib, Aswad Ibn ` Abd Yaghuth and several other chiefs participated. They discussed the situation they faced. Abu Talib was sick. If he were to pass away and they were to take some strong action against the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to restrain his activities in favor of promoting his new faith, the people of Arabia will throw taunts at them and say, &Here are these people who could do nothing against him while his uncle Abu Talib was alive while, now when he has died, they have stood up against him as their target. So, they came to the conclusion that they should decide this thing about Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) while Abu Talib was still alive, so that he would stop speaking ill about their objects of worship. Accordingly, these people came to Abu Talib and said to him that his nephew spoke ill of their objects of worship. They appealed to his sense of justice, and asked him to tell his nephew that he was free to worship any god he liked, but say nothing against their objects of worship. The truth of the matter was that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) himself did not say about these idols anything more than that they were insensate and lifeless. They were not their creators, nor their sustainers, and that nothing that could benefit or harm them was in their control. Abu Talib asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to come in the meeting. To him, he said, &My dear nephew, these people are complaining about you that you speak ill of their objects of worship. Leave them on their faith and, on your part, you keep worshiping your God.& People from the Quraish also kept making their comments following it. Finally, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, &My dear uncle, should I not be inviting them to something that is better for them?& Abu Talib said, &What thing is that?& He said, &I want them to say a particular kalimah (statement) by virtue of which the whole Arabia will be at their feet, and they will become masters of the non-Arab lands beyond it.& Thereupon, Abu Jahl said, &Tell us. What that kalimah is? By your father, not simply one kalimah, we are ready to say ten of them.& To this he replied, &Just say: لا إله إلا اللہ (la ilaha il-lal-lah: There is no god (worthy of worship) but Allah). Hearing this, all of them rose to leave saying, &Are we supposed to leave all objects of worship we have, and take to just one? This is something very strange.& It was on this occasion that these verses of Surah Sad were revealed. (Tafsir Ibn Kathir, pp. 27, 28 v. 4)
خلاصہ تفسیر ص (اس کے معنی تو اللہ کو معلوم ہیں) قسم ہے قرآن کی جو نصیحت سے پر ہے (کہ کفار آپ کی رسالت کا انکار کرتے ہوئے جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ ٹھیک نہیں) بلکہ (خود) یہ کفار (ہی) تعصب اور (حق کی) مخالفت میں (پڑے) ہیں (اور اس تعصب و مخالفت کا وبال ایک روز ان پر پڑنے والا ہے جیسا) ان سے پہلے بہت سی امتوں کو ہم (عذاب سے) ہلاک کرچکے ہیں، سو انہوں نے (ہلاکت کے وقت) بڑی ہائے پکار کی (اور بہت شور و غل مچایا) اور (اس وقت شوروغل سے کیا ہوتا ہے، کیونکہ) وہ وقت خلاصی کا نہ تھا (اس لئے کہ عذاب جب آ چکے تو یہ بھی قبول نہیں ہوتی) اور ان کفار (قریش) نے اس بات پر تعجب کیا کہ ان کے پاس ان (ہی) میں سے (یعنی جو کہ ان کی طرح بشر ہے) ایک (پیغمبر) ڈرانے والا آ گیا (تعجب کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی جہالت سے بشریت کو نبوت کے منافی سمجھتے تھے) اور (اس انکار رسالت میں یہاں تک پہنچ گئے، کہ آپ کے معجزات اور دعویٰ نبوت کے بارے میں) کہنے لگے کہ (نعوذ باللہ) یہ شخص) خوارق عادت کے معاملہ میں) ساحر اور (دعویٰ نبوت کے معاملہ میں) کذاب ہے (اور) کیا (یہ شخص سچا ہوسکتا ہے جبکہ) اس نے اتنے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود رہنے دیا (اور سب کے معبود ہونے کی نفی کردی) واقعی یہ بہت ہی عجیب بات ہے (جس کی وجہ عنقریب آتی ہے) اور (توحید کا مضمون سن کر) ان کفار کے رئیس (مجلس سے اٹھ کر لوگوں سے) یہ کہتے ہوئے چلے کہ (یہاں سے) چلو اور اپنے معبودوں (کی عبادت) پر قائم رہو (کیونکہ اول تو) یہ (توحید کی دعوت) کوئی مطلب کی بات (معلوم ہوتی) ہے (یعنی اس بہانہ سے آپ معاذ اللہ ریاست کے خواہاں ہیں۔ دوسرے توحید کا دعویٰ بھی باطل اور عجیب ہے کیونکہ) ہم نے تو یہ بات (اپنے) پچھلے مذہب میں نہیں سنی، ہو نہ ہو یہ (اس شخص کی) من گھڑت ہے (پچھلے مذہب کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں بہت سے طریقہ کے لوگ ہوئے ہیں، سب سے پیچھے ہم آئے ہیں اور حق پر ہیں، سو ہم نے اس طریقہ کے بزرگوں سے کبھی یہ بات نہیں سنی۔ اور یہ شخص جو نبوت کا مدعی ہے اور توحید کو تعلیم الٰہی بتلاتا ہے، سو اول تو نبوت بشریت کے منافی ہے۔ دوسرے اگر اس سے قطع نظر کی جائے تو) کیا ہم سب میں اس شخص (کو کوئی فوقیت و فضیلت تھی کہ اسی کو نبوت ملی اور اسی) پر کلام الٰہی نازل کیا گیا (بلکہ کسی رئیس پر ہوتا تو مضائقہ نہ تھا۔ آگے حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ان کا یہ کہنا کہ ان پر کیوں نزول ہوا ؟ کسی رئیس پر کیوں نہ ہوا ؟ اس وجہ سے نہیں ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو اس کا اتباع کرتے) بلکہ (اصل بات یہ ہے کہ) یہ لوگ (خود) میری وحی کی طرف سے شک (یعنی انکار) میں ہیں۔ (یعنی مسئلہ نبوت ہی کے منکر ہیں، خصوصاً بشر کو نبی ماننے کے لئے تیار نہیں۔ اور یہ انکار بھی کچھ اس لئے نہیں کہ ان کے پاس کوئی دلیل ہے) بلکہ (اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ) انہوں نے ابھی تک میرے عذاب کا مزہ نہیں چکھا (ورنہ سب عقل ٹھکانے آجاتی۔ آگے دوسرے طرز پر جواب ہے کہ) کیا ان لوگوں کے پاس آپ کے پروردگار زبردست فیاض کی رحمت کے خزانے ہیں (جس میں نبوت بھی داخل ہے، کہ جس کو چاہیں دیں جس کو چاہیں نہ دیں، یعنی اگر رحمت کے سارے خزانے ان کے قبضہ میں ہوتے تب تو ان کو یہ کہنے کی گنجائش تھی کہ ہم نے بشر کو نبوت نہیں دی، پھر وہ نبی کیسے ہوگیا ؟ ) یا (اگر سارے خزانے قبضہ میں نہیں ہیں تو) کیا ان کو آسمان اور زمین اور جو چیزیں ان کے درمیان میں ہیں ان (سب) کا اختیار حاصل ہے (کہ اگر اتنا ہی اختیار ہوتا تب بھی یہ کہنے کی گنجائش تھی کہ یہ آسمان و زمین کے مصالح سے باخبر ہیں، اس لئے جسے چاہیں اسے نبوت ملنی چاہئے۔ اور آگے تعجیز کے طور پر ارشاد ہے کہ اگر ان کو اس پر اختیار ہے) تو ان کو چاہئے کہ سیڑھیاں لگا کر (آسمان پر) چڑھ جاویں (اور ظاہر ہے کہ یہ اس پر قادر نہیں۔ پس جب انہیں اتنی بھی قدرت نہیں تو آسمان و زمین کی معلومات اور ان پر کیا اختیار ہوگا ؟ پھر ان کو ایسی بےسروپا باتیں کہنے کا کیا حق ہے ؟ مگر اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کی مخالفت سے فکر نہ کریں، کیونکہ) اس مقام پر (یعنی مکہ میں) ان لوگوں کی یونہی ایک بھیڑ ہے، منجملہ (مخالفین انبیاء کے) گروہوں کے جو (عنقریب) شکست دیئے جاویں گے (چنانچہ غزوہ بدر میں یہ پیشین گوئی پوری ہوئی اور) ان سے پہلے بھی قوم نوح نے اور عاد نے اور فرعون نے جس (کی سلطنت) کے کھونٹے گڑ گئے تھے اور ثمود نے اور قوم لوط نے اور اصحاب آیکہ نے (جن کے قصے کئی جگہ آ چکے ہیں، ان سب سے) تکذیب کی تھی (اور) وہ گروہ (جس کا اوپر من الاحزاب میں ذکر آیا ہے) یہی لوگ ہیں، ان سب نے صرف رسولوں کو جھٹلایا تھا (جیسے یہ کفار قریش آپ کو جھٹلا رہے ہیں) سو میرا عذاب (ان پر) واقع ہوگیا (پس جب جرم مشترک ہے تو عذاب کے اشتراک سے یہ کیوں مطمئن ہیں ؟ ) اور یہ لوگ (جو تکذیب پر مصر ہیں تو) بس ایک زور کی چیخ (یعنی نفخہ ثانیہ) کے منتظر ہیں جس میں دم لینے کی گنجائش نہ ہوگی (اس سے مراد قیامت ہے) اور یہ لوگ (قیامت کی وعید سن کر تکذیب رسول اور استہزاء کے طور پر) کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب (آخرت میں جو کافروں کو عذاب ہوگا، اس میں سے) ہمارا حصہ تم کو روز حساب سے پہلے ہی دے دے (مطلب یہ کہ قیامت نہیں ہے، اگر ہے تو ہم کو ابھی عذاب مطلوب ہے، جب عذاب نہیں ہوتا تو معلوم ہوا قیامت نہ آوے گی۔ نعوذ باللہ) ۔ معارف و مسائل شان نزول :۔ اس سورت کی ابتدائی آیات کا پس منظر یہ ہے کہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا ابو طالب مسلمان نہ ہونے کے باوجود آپ کی پوری نگہداشت کر رہے تھے، جب وہ ایک بیماری میں مبتلا ہوئے تو قریش کے بڑے بڑے سرداروں نے ایک مجلس مشاورت منعقد کی۔ جس میں ابو جہل، عاص ابن وائل، اسود بن مطلب، اسود بن عبدیغوث اور دوسرے روساء شریک ہوئے۔ مشورہ یہ ہوا کہ ابوطالب بیمار ہیں، اگر وہ اس دنیا سے گزر گئے اور اس کے بعد ہم نے (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے نئے دین سے باز رکھنے کے لئے کوئی سخت اقدام کیا تو عرب کے لوگ ہمیں یہ طعنہ دیں گے کہ جب تک ابوطالب زندہ تھے، اس وقت تک تو یہ لوگ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کچھ نہ بگاڑ سکے، اور جب ان کا انتقال ہوگیا تو انہوں نے آپ کو ہدف بنا لیا۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم ابو طالب کی زندگی ہی میں ان سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاملہ کا تصفیہ کرلیں تاکہ وہ ہمارے معبودوں کو برا کہنا چھوڑ دیں۔ چنانچہ یہ لوگ ابوطالب کے پاس پہنچے، اور جا کر ان سے کہا کہ تمہارا بھتیجا ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہتا ہے آپ انصاف سے کام لے کر ان سے کہئے کہ وہ جس خدا کی چاہیں عبادت کریں، لیکن ہمارے معبودوں کو کچھ نہ کہیں۔ حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود بھی ان کے بتوں کو اس کے سوا کچھ نہ کہتے تھے کہ بےحس اور بےجان ہیں۔ نہ تمہارے خالق ہیں نہ رازق ہیں۔ نہ تمہارا کوئی نفع نقصان ان کے قبضہ میں ہے۔ ابوطالب نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجلس میں بلوایا، اور آپ سے کہا کہ بھتیجے ! یہ لوگ تمہاری شکایت کر رہے ہیں کہ تم ان کے معبودوں کو برا کہتے ہو۔ انہیں اپنے مذہب پر چھوڑ دو ، اور تم اپنے خدا کی عبادت کرتے رہو، اس پر قریش کے لوگ بھی بولتے رہے۔ بالآخر آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ : ” چچا جان ! کیا میں انہیں اس چیز کی دعوت نہ دعوں جس میں ان کی بہتری ہے ؟ “ ابوطالب نے کہا : ” وہ کیا چیز ہے ؟ “ آپ نے فرمایا ” میں ان سے ایک ایسا کلمہ کہلوانا چاہتا ہوں جس کے ذریعہ سارا عرب ان کے آگے سرنگوں ہوجائے اور یہ پورے عجم کے مالک ہو جائیں “ اس پر ابوجہل نے کہا : ” بتاؤ وہ کلمہ کیا ہے ؟ تمہارے باپ کی قسم ! ہم ایک کلمہ نہیں دس کلمے پڑھنے کو تیار ہیں “ اس پر آپ نے فرمایا ” بس لا الہ الا اللہ کہہ دو “ یہ سن کر تمام لوگ کپڑے جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے ” کیا ہم سارے معبودوں کو چھوڑ کر صرف ایک کو اختیار کرلیں ؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔ “ اس موقع پر سورة ص کی یہ آیات نازل ہوئیں۔ (تفسیر ابن کثیر ص، 27، ج ٤)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ صۗ وَالْقُرْاٰنِ ذِي الذِّكْرِ ١ۭ قرآن والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ[ الإسراء/ 78] أي : قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ( ق ر ء) قرآن القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء/ 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ ذو ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . والثاني في لفظ ذو : لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔ ذكر ( نصیحت) وذَكَّرْتُهُ كذا، قال تعالی: وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] ، وقوله : فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة/ 282] ، قيل : معناه تعید ذكره، وقد قيل : تجعلها ذکرا في الحکم «1» . قال بعض العلماء «2» في الفرق بين قوله : فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة/ 152] ، وبین قوله : اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة/ 40] : إنّ قوله : فَاذْكُرُونِي مخاطبة لأصحاب النبي صلّى اللہ عليه وسلم الذین حصل لهم فضل قوّة بمعرفته تعالی، فأمرهم بأن يذكروه بغیر واسطة، وقوله تعالی: اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ مخاطبة لبني إسرائيل الذین لم يعرفوا اللہ إلّا بآلائه، فأمرهم أن يتبصّروا نعمته، فيتوصّلوا بها إلى معرفته . الذکریٰ ۔ کثرت سے ذکر الہی کرنا اس میں ، الذکر ، ، سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ذَكَّرْتُهُ كذا قرآن میں ہے :۔ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ ۔ اور آیت کریمہ ؛فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة/ 282] تو دوسری اسے یاد دلا دے گی ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اسے دوبارہ یاد دلاوے ۔ اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں وہ حکم لگانے میں دوسری کو ذکر بنادے گی ۔ بعض علماء نے آیت کریمہ ؛۔ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة/ 152] سو تم مجھے یاد کیا کر میں تمہیں یاد کروں گا ۔ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة/ 40] اور میری وہ احسان یاد کرو ۔ میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ کے مخاطب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں جنہیں معرفت الہی میں فوقیت حاصل تھی اس لئے انہیں براہ راست اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور دوسری آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو اس نے انعامات کے ذریعہ سے پہچانتے تھے ۔ اس بنا پر انہیں حکم ہوا کہ انعامات الہی میں غور فکر کرتے رہو حتی کہ اس ذریعہ سے تم کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے ۔
(١۔ ٢) یعنی قرآن کریم کو بار بار پڑھو تاکہ ایمان کفر سے اور سنت بدعت سے اور حق باطل سے سچ جھوٹ سے حلال حرام سے اور نیکی برائی سے ممتاز ہوجائے یا یہ کہ ص سے مراد اہل مکہ یا ابوجہل کو ہدایت سے روک دیا گیا یا یہ کہ ص اللہ تعالیٰ کے اسم پاک صادق اس کا مخفف ہے۔ یا یہ کہ اس کے ذریعے سے قسم کھائی گئی ہے قسم ہے قرآن کی جو شرف وبیان والا ہے یعنی جو اس پر ایمان لائے اس کے لیے شرافت والا اور اولین و آخرین کے بیان والا ہے بلکہ یہ کفار مکہ ہی تعصب و برائی اور مخالفت و دشمنی میں پڑے ہوئے ہیں۔ شان نزول : صۗ وَالْقُرْاٰنِ ذِي الذِّكْرِ (الخ) امام احمد، ترمذی، نسائی اور امام حاکم نے تصحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ جس وقت ابوطالب یمار ہوئے تو قریش ان کے پاس آئے اور رسول اکرم بھی تشریف لائے قریش نے ابو طالب سے آپ کی شکایت کی ابو طالب نے آپ سے کہا کہ اے بھتیجے تو اپنی قوم سے کیا چاہتا ہے آپ نے فرمایا میں صرف ان سے ایک بات چاہتا ہوں جس کی وجہ سے سارا عرب ان کا فرمانبردار ہوجائے گ اور ان کو جزیہ دے گا۔ صرف ایک کلمہ ہے ابو طالب نے کہا وہ کیا، آپ نے فرمایا لا الہ الا اللہ تو سب نے کہا صرف ایک اللہ یہ تو عجیب بات ہے تو ان لوگوں کے بارے میں ص والقرآن سے بل لما یذوقوا عذاب تک یہ آیات نازل ہوئیں۔
آیت ١ { صٓ وَالْقُرْاٰنِ ذِی الذِّکْرِ } ” ص ‘ قسم ہے اس قرآن کی جو ذکر والا ہے۔ “ یہاں پر پہلے حرف یعنی صٓ پر آیت مکمل نہیں ہوئی بلکہ یہ حرف پہلی آیت کا حصہ ہے۔ اسی طرح سورة قٓ اور سورة نٓ کے آغاز میں بھی ایک ایک حرف ہے اور ان دونوں سورتوں میں بھی ایسا ہی ہے کہ اکیلا حرف پہلی آیت کا حصہ ہے نہ کہ الگ مستقل آیت۔ البتہ کئی سورتوں میں آغاز کے دو حروف پر آیت مکمل ہوجاتی ہے۔ مثلاً طٰہٰ ‘ یٰسٓ اور حٰمٓ مستقل آیات ہیں۔ اس کے علاوہ کئی ایسی سورتیں بھی ہیں جن کے آغاز میں تین تین حروف مقطعات ہیں لیکن وہ حروف الگ آیت کی حیثیت سے نہیں بلکہ پہلی آیت کا حصہ ہیں۔ مثلاً الٓــــرٰ ۔ اس کے برعکس بہت سی سورتوں کے آغاز میں تین حروف مقطعات ایک مکمل آیت کے طور پر بھی آئے ہیں ‘ مثلاً الٓـــــمّٓ۔ یہاں ان مثالوں سے دراصل یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ قرآن کے یہ معاملات توقیفی (حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بتانے پر موقوف) ہیں ‘ کسی کے اجتہاد یا گرامر کے کسی اصول سے ان کا تعلق نہیں ہے۔ ” بیان القرآن “ کے آغاز میں تعارفِ قرآن کے عنوان کے تحت اس موضوع کی وضاحت کی جا چکی ہے۔ جہاں تک سورة صٓ کی پہلی آیت کے مضمون کا تعلق ہے اس میں ” ذکر والے “ قرآن کی قسم کھائی گئی ہے۔ اس سے پہلے ہم کئی ایسی آیات بھی پڑھ چکے ہیں جن میں قرآن کو ” الذِّکْر “ یا ” ذِکْر “ کہا گیا ہے۔ سورة الحجر کی یہ آیت اس حوالے سے بہت اہم ہے : { اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ ۔ ” یقینا ہم نے ہی یہ ذکر نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں “۔ سورة الانبیاء میں فرمایا گیا : { لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ کِتٰبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ۔ ” (اے لوگو ! ) اب ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب نازل کی ہے ‘ اس میں تمہارا ذکر ہے ‘ تو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ! “ بہر حال ” ذکر “ کے معنی یاددہانی کے ہیں۔ اس لحاظ سے آیت زیر مطالعہ میں القرآن ذی الذکرکا مفہوم یہ ہے کہ یہ قرآن یاد دہانی (reminding) کا حامل ہے ‘ یاد دہانی سے معمور ہے۔ قرآن کی قسم کے بارے میں یہاں ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس قسم کا ” مقسم علیہ “ محذوف ہے۔ یعنی ذکر والے قرآن کی قسم کس بات پر کھائی گئی ہے ‘ اس کا ذکر نہیں ہے۔ اس نکتہ کی وضاحت قبل ازیں سورة یٰسٓ کی آیت ٣ کے تحت یوں کی جا چکی ہے کہ قرآن میں جہاں جہاں بھی قرآن کی قسم کے بعد اس قسم کا مقسم علیہ محذوف ہے ‘ ان تمام مقامات پر سورة یٰسٓ کی آیت ٣ ہی کو ان تمام قسموں کا مقسم علیہ تصور کیا جائے گا۔ سورة یٰسٓ کے آغاز میں قرآن کی قسم اور اس قسم کے مقسم علیہ کا ذکر یوں ہوا ہے : { یٰسٓ۔ وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ ۔ اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ۔ ” یٰسٓ‘ قسم ہے قرآن حکیم کی (کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) یقینا آپ مرسلین میں سے ہیں “۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کے بعد بھی اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ کے کلمات کو محذوف مانتے ہوئے پورے جملے کا مفہوم یوں تصور کیا جائے گا : ” اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ ذکر والا قرآن گواہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ “
1 Although like alI other enigmatic letters (mugatta'at) it is difficult to determine the meaning of the letter Suad also, yet the interpretation of it given by Ibn 'Abbas and Dahhak is quite plausible. According to them, it implies: Sadiq-un fi' qauli-hi, or Sadaqa Muhammad-un: Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) is Truthful: whatever he says is the very Truth. 2 The words dhi-dh-dhikr of the Text can have two meanings: (1) Dhi sharaf: the noble Qur'an; and (2) Dhi at-tadhkir: the Qur'an which is full of admonition, or the Qur'an which serves as a reminder, or arouses a heedless person.
سورة صٓ حاشیہ نمبر :1 اگرچہ تمام حروف مقطعات کی طرح ص کے مفہوم کا تعین بھی مشکل ہے ، لیکن ابن عباس اور ضحاک کا یہ قول بھی کچھ دل کو لگتا ہے کہ اس سے مراد ہے صادقٌ فی قولِہٖ ، یا صَدَق محمدٌ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم صادق ہیں ، جو کچھ کہہ رہے ہیں سچ کہہ رہے ہیں ۔ صاد کے حروف کو ہم اردو میں بھی اسی سے ملتے جلتے معنی میں استعمال کرتے ہیں ۔ مثلاً کہتے ہیں میں اس پر صادر کرتا ہوں ، یعنی اس کی تصدیق کرتا ہوں ، یا اسے صحیح قرار دیتا ہوں ۔ سورة صٓ حاشیہ نمبر :2 اصل الفاظ ہیں ذی الذکر ۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک ذی شرف ، یعنی قرآن بزرگ ۔ دوسرے ذی ا لتذکیر ، یعنی نصیحت سے لبریز قرآن ، یا بھولا ہوا سبق یاد دلانے والا اور غفلت سے چونکانے والا قرآن ۔
1: یہ انہی حروف مقطعات میں سے ہے جن کا صحیح مطلب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ دیکھئے سورۂ بقرہ کی پہلی آیت پر ہمارا حاشیہ۔ اور قرآن کریم میں جو قسمیں کھائی گئیں ہیں، ان کے بارے میں پچھلی سورت (سورۂ صافات) کا پہلا حاشیہ۔
١۔ ٧۔ حضرت عبد (رض) اللہ بن عباس کی روایت سے ترمذی ١ ؎ نسائی مسند امام احمد مصنف ابن ابی شیبہ مستدرک حاکم مسند عبد بن حمید بہیقی اور تفسیر ابن جریر وغیرہ میں جو شان نزول ان آیتوں کی بیان کی گئی ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت عمر (رض) کے اسلام لانے سے قریش میں ایک کھل بلی سی پڑگئی تھی۔ اس لئے ایک جماعت قریش کی ایک روز ابو طالب کے پاس گئی اور ابو طالب سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرح طرح کی شکایت کی ابوطالب نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا۔ کہ اے میرے بھتیجے یہ قوم کے لوگ تمہاری شکایت کرتے ہیں۔ کہ تم ان کے معبودوں کو برا کہتے ہو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا۔ کہ میں قوم کے لوگوں سے ایسی ایک بات چاہتا ہوں کہ اگر یہ لوگ اس کو پورا کر لیویں تو تمام ملک عرب و عجم ان کا فرماں بردار ہوجاوے۔ ان لوگوں نے جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ آخر وہ کیا بات ہے ‘ ذرا کہو تو سہی ‘ تو آپ نے ان کے رو برو کلمہ توحید پڑھا کلمہ توحید سن کر سب اجعل الاٰلھۃ الھا واحدا اور وماسمعنا بھذا فی الملۃ الاخرۃ کہتے ہوئے اٹھ کر چلے گئے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں۔ ترمذی اور حاکم نے اس شان نزول کی حدیث کو صحیح کہا ہے۔ مجلس سے اٹھتے وقت جو لفظ ان مشرکوں نے کہے ان کا مطلب یہی ہے کہ ہم نے اپنے بڑوں سے یہ نہیں سنا کہ ان بتوں کو چھوڑ کر خاص اللہ کی عبادت کی جاوے اس واسطے اس نصیحت کو ہم ایک بنائی ہوئی بات جان کر اپنے ٹھاکروں کی پوجا پر ہم تو جمے ہوئے ہیں۔ مکہ کے قحط کے وقت ان ٹھاکروں کی بےبسی کا حال جو معلوم ہوا۔ اس سے یہ لوگ اپنے بڑوں کی اور اپنی غلطی کو سمجھ سکتے تھے۔ چناچہ کئی بار یہ بات ان کو جتلائی گئی ہے۔ اس لئے ان آیتوں میں ان لفظوں کا کچھ جواب نہیں فرمایا۔ ص حروف مقطعات میں سے ہے جن کی تفسیر سورة بقر میں گزر چکی ہے۔ باقی کی آیتوں کا حاصل مطلب یہ ہے کہ اس قرآن صاحب نصیحت کی قسم ہے کہ ان مشرکین مکہ کا قرآن جھٹلانا مال داری کے غرور اور سرکشی کے سبب سے ہے۔ نہیں تو یہ لوگ اللہ کے رسول کو بچپنے سے جانتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے کہیں جا کر کچھ پڑھا نہیں بالکل ان پڑھ ہیں پھر ان پڑھ آدمی اس طرح کا کلام کیونکر بنا سکتا ہے جس کی فصاحت انسان کی طاقت سے باہر ہو پچھلے انبیاء اور امتوں کے قصے اس میں ایسے ہوں کہ جن کو سوائے اہل کتاب کے کوئی نہیں جانتا۔ غیب کی خبریں اس میں ایسی سچی ہوں کہ جس طرح آنکھوں سے دیکھ کر چیز کو کوئی بیان کرتا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے۔ کہ ان پڑھ نبی پر یہ قرآن اترا ہے۔ اور باتیں اس قرآن میں وہ ہیں کہ ان پڑھ آدمی تو درکنار اہل کتاب بھی بغیر آسمانی کتابوں کی مدد کے وہ باتیں نہیں بتلا سکتے پھر اب اس بات کو کون جھٹلا سکتا ہے۔ کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور جن پر یہ کلام الٰہی نازل ہوا ہے۔ وہ اللہ کے رسول ہیں اس واسطے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ہر ایک نبی کی امت کے ایمان لانے کے موافق ہر نبی کو معجزہ دیا گیا ہے۔ اور مجھ کو اور معجزوں کے علاوہ قرآن کا ایک معجزہ ایسا دیا گیا ہے۔ جس سے مجھ کو امید ہے کہ قیامت کے دن میری پیروی کرنے والے سب امتوں سے زیادہ ہوں گے۔ چناچہ صحیح بخاری ١ ؎ کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی یہ حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے۔ پھر فرمایا کہ اس طرح کی سمجھ میں آجانے کی باتوں کے سمجھانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ کلام الٰہی اور اللہ کے رسول کے جھٹلانے سے باز نہ آویں گے تو ان سے پہلے کے ایسے لوگوں کا جو انجام ہوا وہی ان کا ہوگا صحیح بخاری ٢ ؎ و مسلم کی انس بن مالک کی روایت کے حوالہ سے کئی جگہ گزر چکا ہے۔ کہ اس وعدہ کا ظہور بدر کی لڑائی کے وقت ہوا۔ جس میں بڑے بڑے کلام الٰہی اور اللہ کے رسول کے جھٹلانے والے بڑی ذلت سے مارے گئے۔ اور مرتے ہی عقبٰے کے عذاب میں گرفتار ہوگئے۔ جس عذاب کے جتلانے کے لئے اللہ کے رسول نے ان کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ اب تو اللہ کے وعدہ کو تم نے سچا پا لیا۔ پھر فرمایا یہ لوگ اللہ کے رسول کو جھوٹا اور جادوگر قرار دے کر یہ جو کہتے ہیں۔ کہ اللہ کا کلام انسان پر نہیں اتر سکتا۔ قرآن اللہ کا کلام ہوتا تو اس کو کوئی فرشتہ ہمارے پاس لاتا۔ اس کا جواب ان کو کئی جگہ سمجھا دیا گیا ہے کہ فرشتوں کو اصلی صورت میں دیکھنا ان کی طاقت سے باہر ہے۔ اس لئے کوئی فرشتہ بھی ان کے پاس قرآن لے کر آتا۔ تو ضرور انسان کی صورت میں آتا۔ باقی آیتوں کا مطلب وہی ہے۔ جو شان نزول میں بیان کیا گیا۔ (١ ؎ جامع ترمذی شریف تفسیر سورة ص ‘ ص ١٧٨ ج ٢) (١ ؎ صحیح بخاری باب کیف نزل الوحی ص ٧٤٤ ج ٢) (٢ ؎ دیکھئے تفسیر ہذا جلد ہذا ص ٢٢)
(38:1) ص : حرف مقطعات میں سے ہے۔ والقران : واؤ قسمیہ ہے۔ القران مقسم بہ ہے۔ ذی۔ بمعنی والا۔ صاحب۔ اسم ہے ۔ یہ اسمائے ستہ مکبرہ میں سے ہے۔ یعنی ان چھ اسموں میں سے کہ جب ان کی تصغیر نہ ہو اور وہ غیر یائے متکلم کی طرف مضاف ہوں تو ان پر پیش کی حالت میں واؤ اور زبر کی حالت میں الف اور زیر کی حالت میں ی آتی ہے جیسے ذوا ذا ۔ ذی۔ یہ ہمیشہ مضاف ہوکرہی استعمال ہوتے ہیں۔ اور اسم ظاہری کی طرف مضاف ہوتا ہے ضمیر کی طرف نہیں اس کا تثنیہ بھی آتا ہے اور جمع بھی۔ الذکر۔ نصیحت۔ ذکر۔ پند۔ بیان۔ ذکر یذکر کا مصدر ہے۔ والقران ذی الذکر۔ قسم ہے قرآن نصیحت والے کی۔ یہ جملہ قسمیہ ہے اس کا جواب محذوف ہے تقدیر کلام یوں ہے۔ والقران ذی الذکر ما الامر کما تقول الکفار۔ قسم ہے قرآن نصیحت والے کی امر یوں نہیں جیسا کہ کفار کہتے ہیں۔
ف 3 یا ” جو شرف و عظمت والا ہے “ اس قسم کا جواب مخدوف ہے جیسے لتجثمن یا ان ربک الحق وغیرہ۔
سورة ص رکوع نمبر 1 آیات 1 تا 14 اسرار و معارف : ص۔ اور قسم ہے قرآن کی جو نصیحت سے بھرا ہے یعنی مضامین قرآن جو حق ہیں اور بندوں کی بہتری کے لیے ہیں وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ کفار کے پاس انکار کی کوئی دلیل نہیں بس محض تعصب ہے جس نے انہیں آپ کے مقابل لا کھڑا کیا ہے اور یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ ان سے پہلے بہت سی قومیں اسی جرم میں ہلاک کردی گئیں وہ بھی انبیاء کے مقابل آئے تھے اور ماننے پہ تیار نہ تھے مگر جب اللہ کا عذاب آیا تو پھر بہت چیخے چلائے لیکن اس کا انہیں کوئی فائدہ نہ ہوا کہ خلاصی کا وقت گزر چکا تھا وہ بھی حیران ہوا کرتے تھے اور انہیں بھی اس بات پہ حیرت ہے کہ انہیں میں سے اسی شہر یا اسی برادری میں سے ایک بندہ اللہ کا رسول بن گیا بھلا اس میں ایسی کیا خاص بات تھی پھر انہیں معجزات مجبور کرتے تو کہہ دیتے کہ یہ تو جادو ہے اور رہا دعوی نبوت تو اس میں یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے (معاذ اللہ) بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ دنیا کے بیشمار کاموں کے لیے اور زمین و آسمان کی سلطنت کے لیے جہاں دنیا بھر کے لوگوں نے بیشمار معبود مان رکھے ہیں اور ان ہی کے سہارے زندہ ہیں یہ کہتا ہے کہ صرف ایک ہستی ایسی ہے جس کی عبادت کی جائے یہ تو بہت ہی عجیب بات ہے اور ناقبل فہم بات ہے ان کے روسا بات سن کر چل دیتے ہیں اور دوسروں کو بھی کہتے ہیں چلو یہاں سے چلے جاؤ ان کی باتیں مت سنو اور اپنے معبودوں پر اپنے عقیدے پر جمے رہو کہ ان کی باتوں سے ایسے نظر آتا جیسے یہ سب لوگوں کو اپنے پیچھے لگا کر خود ریاست حاصل کرنے کی فکر میں ہیں کہ دنیا میں بیشمار اقوام گزری ہیں کہیں کسی قوم میں اس طرح کی بات نہیں سنی گئی جس طرح کی بات یہ کہتے ہیں یہ محض انہوں نے خود گھڑ لی ہے۔ بھلا اگر نبوت ہی ملنا تھی تو ہم سب کو یعنی روسا کو چھوڑ کر اس شخص کو مل گئی یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ ان کے خیال میں سارے کمالا سرمایہ دار ہی میں ہوتے ہیں۔ بات یہ نہیں بلکہ انہیں خود میری بات ہی میں شک ہے اور وحی کو درست ماننے پہ تیار نہیں۔ اس لیے انہوں نے ابھی عذاب الہی کی تلخی نہیں چکھی اللہ نے مہلت دے رکھی ہے تو اکڑ رہے ہیں انہیں یہ فیصلہ کرنے کا کیا حق ہے کہ نبی کون ہونا چاہیے آپ کا پروردگار جو بہت زبردست اور بہت عطا کرنے والا کہ اپنی مرضی سے جسے چاہے جو دے حتی کہ نبوت و رسالت بھی۔ اس کی رحمت کے خزانوں پہ یہ قابض ہیں کہ اب یہ بانٹا کرینگے یا ارض و سما کے نظام اور سلطنت میں انہیں کوئی عمل دخل ہے کہ نبوت اسی نظام کو قائم رکھنے کا سبب ہے اگر ایسا ہے تو چڑھ دوڑیں آسمانوں پر جب ایسی کوئی بات نہیں تو انہیں یہ کہنے کا اختیار بھی نہیں کہ نبوت کس کو اور کیوں مل گئی ان کی تو ایسی حیثیت بھی نہیں جیسی طاقت اور شان و شوکت ان سے پہلے کفار کے پاس تھی جو اسی جرم کی وجہ سے تباہ و برباد ہوگئے۔ اسی طرح کفر ا ختیار کیا تھا قوم نوح (علیہ السلام) نے اور قوم عاد نے اور فرعون ہی کو لے لو جس کی سلطتنت کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی یا قوم ثمود اور قوم لوط یا ایکہ کے لوگ یہ سب بڑی بڑی طاقتیں تھیں اور ان سب کا جرم یہی تھا کہ انہوں نے اللہ کے رسولوں کی تکذیب کی اور اللہ کے عذاب میں گرفتار ہو کر برباد ہوگئے۔
الوہاب (بہت عطاء کرنے والا) مھزوم ( شکست کھائے ہوئے) حق ( ثابت ہوگیا ، طے ہوگیا) صیحۃ (چنگھاڑ، زور دار آواز) فواق ( مہلت ، ڈھیل) عجل ( جلدی سے دیدے) قط (حصہ) ذوالاید (قوت والا ، طاقت والا) اواب ( بہت رجوع کرنے والا) محشورۃ ( جمع کئے ہوئے) فصل الخطاب ( فیصلہ کرنے کی قوت و صلاحیت) تشریح : آیت نمبر 1 تا 20 :۔ سورة صاد کی ابتداء بھی حروف مقطعات سے کی گئی ہے ۔ قرآن کریم کی انیتس (29) سورتوں کی ابتداء میں یہ حروف آئے ہیں جن کے معنی اور مراد کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم وہ عظیم کتاب ہے جو حکمت و دانائی اور نصیحت و عبرت سے بھر پور ہے۔ یہ ان لوگوں کے لئے یاددہانی ہے جو دنیا کے لالچ اور نفسانی خواہشات میں مبتلا ہو کر آخرت کی زندگی کو بھلا بیٹھے ہیں ۔ جنہیں اپنی طاقت و قوت پر اس قدر گھمنڈ اور ناز ہے کہ اپنے سامنے کسی کی کوئی حیثیت نہیں سمجھتے ان کے اس غرور وتکبر اور گھمنڈ نے ان کو قرآن جیسی کتاب کے انکار پر مجبور کردیا ہے۔ فرمایا گیا کہ یہ کفار جس قوت و طاقت کو بہت کچھ سمجھ رہے ہیں اگر انسانی تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کریں تو ان کو معلوم ہوجائے گا کہ ان سے پہلی قومیں بہت زبردست طاقت و قوت کی مالک تھیں مگر جب انہوں نے جاہلانہ عقائد ، ضد ، ہٹ دھرمی اور اللہ کے رسولوں کی نافرمانی کی تو ان کو ہلاک کردیا گیا اور اس وقت کا ان کا رونا ، چلانا اور چیخنا ان کے کام نہ آسکا اور وہ عبرت ناک انجام سے دو چار ہوئے۔ قوم نوح ، قوم عاد ، زبردست طاقت و قوت والا فرعون ، قوم ثمود ، قوم لوط اور بن والے یہ سب کے سب طاقت ور حکومتوں ، سلطنتوں ، اونچی اونچی بلڈنگوں، مال، اولاد اور تجاریوں کے مالک تھے لیکن جب انہوں نے اللہ و رسول کی نا فرمانیوں کی انتہاء کردی تب وہ اپنے غرور وتکبر اور نا فرمانیوں کے سمندر میں ڈوب دیئے گئے اور وہ تاریخ کے صفحات پر قصے کہانی بن کر رہ گئے ، چونکہ ان آیات کے پہلے مخاطب کفار عرب تھے اس لئے ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ اب تمہارے اندر اللہ کے محبوب اور آخری نبی و رسول حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود ہیں اگر تم نے ان کے ساتھ وہی روش اور انداز اختیار کیا جس کی وجہ سے تم سے پہلی قوموں کو تباہ و برباد کردیا گیا ہے تو تمہیں اپنے انجام کی فکر کرنی چاہیے۔ مفسرین نے ان آیات کی مزید وضاحت کے لئے اس واقعہ کا ذکر کیا ہے جب مکہ کے تمام سردار مل کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا ابو طالب کے پاس پہنچے اور انہوں نے یہ شکوہ کیا کہ اے ابو طالب تمہارا بھیجتا ہمارے بتوں اور رسموں کو براکہتا ہے تم کسی طرح ان کو سمجھائو کہ وہ اپنی بات کریں مگر ہمارے بتوں ، رسوم اور عبادات اور معاشرہ کی رسموں کی برائی کرنا چھوڑ دیں ۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو ابو طالب نے کہا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرب کے سرداروں نے تمہاری شکایت کی ہے تم اپنا کام کرو کسی سے الجھنے کی ضرورت نہیں ہے آپ نے فرمایا کہ میں تو ان سے صرف ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ اگر وہ اس کو مان لیں تو عرب و عجم کی ساری طاقتیں ان کے قدموں میں ہوں گی۔ ابو طالب نے تمام سرداروں کو جمع کر کے یہ کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو صرف ایک بات کہتے ہیں وہ سن لو ۔ سرداروں نے کہا کہ وہ کون سی بات یا کلمہ ہے جس کی وجہ سے ہم عرب و عجم پر غالب آجائیں گے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ ایک کلمہ یہ ہے ” لا الہ الا اللہ ‘ ‘ اس کلمہ پر ایمان لے آئو ساری دنیا پر تمہاری حکومت ہوگی ۔ سرداروں نے بگڑ کر کہا کہ چلو اٹھو اور اپنے بتوں اور رسم و رواج پر ڈٹے رہو کیونکہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو یہ چاہتے ہیں کہ تین سو ساٹھ بتوں کو چھوڑ کر صرف ایک معبود کی عبادت و بندگی کی جائے ۔ یہ ایسی انوکھی اور نئی بات ہے جو ہم نے آج تک کسی ملت اور قوم سے نہیں سنی ۔ سرداروں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ان تمام باتوں کے پیچھے کچھ اور بات اور غرض ہے ۔ کہنے لگے کہ کس قدر تعجب اور حیرت کی بات ہے کہ ایک ایسے شخص کو ڈرانے والا بنا کر بھیجا گیا ہے جو ہم میں سے ہی جیسا بشر ہے۔ یہ سب جھوٹ ہے اور جادو گری ہے ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے اتنے معبودوں کو چھوڑ کر صرف ایک معبود کو مان لیں ۔ ہم تین سو ساٹھ بت رکھتے ہیں وہ سب مل کر ایک مکہ کا انتظام نہیں سنبھال سکتے وہ ایک معبود کی بات کرتے ہیں بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک اللہ تنہاء پورے نظام کائنات کو چلا سکتا ہے ۔ قریشی سردار اٹھ کر چل دیئے اور کہنے لگے کہ اٹھو اور چلو تم اپنے معبودوں کی عبادت پر ڈٹے رہو اور کسی بات کی پرواہ نہ کرو ۔ وہ کہتے تھے کہ کیا ہمارے درمیان بس یہی ایک شخص رہ گیا تھا جس پر اللہ نے اپنا کلام نازل کیا ہے حالانکہ عرب میں بڑے بڑے صاحب بصیرت سردار لوگ موجود تھے جو اس بات کے مستحق تھے کہ اتنے بڑے کام کے لئے ان کو منتخب کیا جاتا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا یہ لوگ اپنے آپ کو خود مختار اور بڑا سمجھتے ہیں تو یہ ایسا کریں کہ کسی ذریعہ سے یہ عرش الٰہی تک پہنچ کر اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں تا کہ وہاں سے اپنے من پسند لوگوں پر حمتیں نازل کریں ۔ فرمایا کہ یہ لوگ عرش الٰہی یا آسمانوں کی بلندیوں پر کیا پہنچیں گے یہ تو وہ لوگ ہیں جو اپنی اسی سر زمین پر شکست کھا جائیں گے اور اس وقت کوئی چیز ان کے کام نہ آسکے گی ۔ آج یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ جس عذاب کی بات کی جاتی ہے وہ جلد از جلد آجائے تا کہ یہ روز روز کی باتیں ختم ہوں فرمایا کہ عذاب کی جلدی کرنے والے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ جب ایک چنگھاڑ یا دھماکہ ہوگا یعنی صور پھونکے جانے کے بعد قیامت قائم ہوگی تو پھر کسی کو مہلت یا ڈھیل نہیں دی جائے گی ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان کفار و مشرکین کی باتوں پر صبر کیجئے اور اپنی معمولی معمولی سرداریوں پر ناز کر کے سچائیوں کا انکار کرنے والوں کو حضرت دائود (علیہ السلام) کی زندگی ، ان کی سلطنت اور قوت و طاقت کا حال سنایئے اور ان کو بتادیجئے کہ اتنی بڑی سلطنت کے باوجود وہ اللہ کی عبادت و بندگی میں لگے رہتے تھے اور ہر وقت اللہ کی طرف رجوع رکھتے تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سب سے اچھی مثال حضرت دائود (علیہ السلام) کی ہے جو (1) صبر سے کام لیتے تھے۔ (2) صرف اللہ کی طرف دھیان لگائے رہتے تھے۔ (3) وہ صبح شام اللہ کی حمد وثناء اور تسبیح میں لگے رہتے تھے۔ جب وہ زبور کی تلاوت کرتے تو پہاڑ اور پرندے بھی ان کے ہم آواز ہوجاتے تھے۔ (4) ان کی سلطنت ایک مضبوط اور مستحکم حکومت تھی ، ہر طرف ان کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی اور سب پر ان کا حکم چلتا تھا۔ (5) ان کے پاس ایک بہت بڑی فوج تھی۔ (6) وہ نہایت ذہین و ذکی آدمی تھے اور وہ ہر بات کی تہہ تک پہنچ جایا کرتے تھے۔ (7) جب کوئی مقدمہ قیش ہوتا تو وہ اس کا بہترین فیصلہ فرمایا کرتے تھے۔ (8) وہ ہر بات کو اس طرح سمجھاتے تھے کہ سننے والے کے دل میں شک و شبہ نہ رہتا تھا۔ (9) سلطنت کا کاروبار نہایت دیانت ، امانت ، دانائی اور ہوشیاری سے کرتے تھے۔ (10) وہ ہر وقت اللہ کی عبادت و بندگی کرتے تھے۔ ایک اور حدیث میں فرمایا کہ حضرت دائود (علیہ السلام) اپنے ہاتھ سے اپنی روزی پیدا کرتے تھے۔ حضرت ابو دائود (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ جب حضرت دائود (علیہ السلام) کا ذکر آتا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے تھے کہ وہ سب سے زیادہ عبادت کرنے والے شخص تھے۔ ( بخاری ، مسلم) ان آیات اور حضرت دائود (علیہ السلام) کی زندگی کے عظیم پہلوؤں کا ذکر کر کے کفار عرب کو شرم دلائی گئی ہے کہ وہ اسی مال و دولت اور چھوٹی چھوٹی سرداریوں پر اس قدر اچھل کود رہے ہیں جب کہ حضرت دائود (علیہ السلام) عظیم سلطنت کے فرماں روا ہونے کے باوجود ہر وقت اللہ کی مخلوق کی خدمت اور اللہ کی عبادت و بندگی میں لگے رہتے تھے۔ ان کی زندگی کا ہر پہلو اور ان کی عبادت و بندگی کا انداز وہ بہترین نمونہ ہے جس پر عمل کرنے سے دنیا و آخرت کی ہر طرح کی کامیابیاں عطاء کی جاتی ہیں ، لیکن جو لوگ نا فرمانیوں میں لگے رہتے ہیں تو پھر ایسے لوگوں کا عبرت ناک انجام ہوا کرتا ہے۔
1۔ سبب نزول ابتدائی آیات کا یہ ہے کہ ابو طالب کے مرض میں قریش ان کے پاس آئے، اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی تشریف لائے، تو قریش نے ان سے شکایت کی، انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ آپ اپنی قوم سے کیا بات چاہتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا صرف ایک کلمہ چاہتا ہوں جس سے تمام عرب ان کا مطیع ہوجائے اور عجم ان کو جزیہ دینے لگیں، انہوں نے پوچھا وہ ایک کلمہ کون سا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لا الہ الا اللہ کہنے لگے کہ تو سب معبودوں کی نفی کر کے ایک ہی معبود قرار دے دیا، یہ عجب بات ہے۔ اس پر ص سے بل لما یذوقوا عذاب تک نازل ہوا۔
فہم القرآن سورۃ الصّٰفّٰت کے اختتام پر ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ یا کسی اور کو اپنی اولاد قرار نہیں دیا اور اللہ تعالیٰ مشرکوں کی یا وہ گوئی سے مبّرا ہے۔ اس کی طرف سے انبیائے کرام (علیہ السلام) پر ہمیشہ رحمت کا نزول ہوتا رہے گا۔ سورة صٓ ابتدا میں قرآن مجید کو الذّکر قراردیا گیا ہے۔ الذّکر کا معنٰی نصیحت اور خیرخواہی ہے۔ کافر اور مشرک خیر خواہی قبول کرنے کی بجائے اس کی مخالفت میں آکر کہتے ہیں کہ یہ نبی کذّاب اور جادوگر ہے۔ ” ص “ حروف مقطعات میں سے ہے۔ اس حرف کا بھی مفہوم بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن اس کی بھی وہی حقیقت ہے جو دوسرے حروف مقطعات کی ہے۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول کے بغیر اس کا حقیقی مفہوم کوئی نہیں جانتا۔ حرف ” و “ قسم کے لیے لا یا گیا ہے۔ معنٰی یہ ہوگا کہ اس پیکر نصیحت قرآن مجید کی قسم ! یہ لوگ اس قرآن کا انکار اس لیے نہیں کرتے کہ انہیں قرآن سمجھ نہیں آرہا ہے یا قرآن کوئی انوکھی بات کررہا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ غرور اور تکبر کی بنا پر اس کا انکار کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کے سامنے تفصیل کے ساتھ باربار بیان ہوچکا ہے کہ ان سے پہلے جس جس نے حق کے ساتھ تکبر اور اپنے نبی کا انکار کیا اس کا انجام کیا ہوا ؟ جب ان کے تکبر اور انکار کی وجہ سے اللہ کا عذاب نازل ہوا تو وہ چیخ و پکار اور آہ وزاریاں کرتے رہے لیکن اس وقت انہیں مہلت نہ دی گئی۔ لہٰذا مکہ والو ! سوچ لو ! کہ جب تم پر عذاب کا کوڑا برسے گا تو تمہیں بھی مہلت نہ مل سکے گی نہ ہی تمہیں کوئی بچانے والا ہوگا۔ ” کیا ان کو صرف یہی انتظار ہے کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا خود اللہ تعالیٰ آئے یا تیرے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی آئے۔ نشانی سے مردار عذاب ہے جس دن ” اللہ “ کے عذابوں میں سے کوئی عذاب آئے گا تو جو شخص اس سے پہلے ایمان نہ لایا ہوگا یا اس نے ایمان لانے کے بعد کوئی نیکی کا کام کیا ہوگا اس کا ایمان اسے ہرگز فائدہ نہیں دے گا۔ فرما دیجیے کہ تم انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں۔ “ (الانعام : ١٥٩) تکبر کیا ہے ؟ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا یَدْخُلُ الجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ فَقَالَ رَجُلٌ اِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ اَنْ یَّکُوْنَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَ نَعْلُہٗ حَسَنًا قَالَ اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی جَمِیْلٌ یُّحِبُّ الجَمَالَ اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَ غَمْطُ النَّاسِ ) [ رواہ مسلم : باب تحریم الکبر وبیانہ ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ ایک آدمی نے آپ سے عرض کی کہ ایک شخص پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اور جوتے اچھے ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ خوبصورت ہے خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔ تکبر حق بات کو چھپانا اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ “ لغت کے مطابق ” عِزَّۃٍ “ کا معنٰی طاقتور ہونا ،” شِقَاقٍ “ کا معنٰی مخالفت اور دشمنی ہے۔” مَنَاصٍ “ کا معنٰی جھگڑا کرنے کے ہیں۔ گویا کہ قرآن کے مخالفوں میں یہ تینوں باتیں پائی جاتی تھیں جس شخص میں یہ تینوں عیب پائے جائیں اس کا ہدایت قبول کرنا مشکل ہوتا ہے۔ مسائل ١۔ قرآن مجید نصیحت کا مرقع ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سی متکبر قوموں کو تباہ و برباد کردیا ہے۔ ٣۔ قرآن کا انکار کرنے والے کسی معقول عذر کی وجہ سے نہیں بلکہ تکبر کی بنا پر اس کا انکار کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے اوصاف حمیدہ کی ایک جھلک : ١۔ قرآن مجید لاریب کتاب ہے۔ (البقرۃ : ١) ٢۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔ (آل عمران : ١٣٨) ٣۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھلی کتاب ہے۔ (ھود : ١) ٤۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقر ۃ : ١٨٥) ٦۔ قرآن مجید کے نزول کا مقصد لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لانا ہے۔ (ابراہیم : ١) ٥۔ قرآن مجید برہان اور نور مبین ہے۔ (النساء : ١٧٤)
درس نمبر ٢١١ تشریح آیات ﷽ آیت نمبر 1 تا 3 اللہ تعالیٰ حرف ص اور قرآن کریم کی قسم کھاتا ہے۔ اس قرآن کی قسم جو نصیحت سے مالا مال ہے ۔ یہ حرف ص بھی اللہ کا بنایا ہوا ہے اور یہ قرآن بھی اللہ کا کلام ہے ۔ اور یہ اللہ ہی ہے جو انسان کے گلے میں حرف صاد پیدا کرتا ہے اور پھر یہ حرف اور اللہ کے پیدا کردہ دوسرے حروف تہجی مل کر قرآن کے اسالیب کلام پیدا کرتے ہیں ۔ لیکن تمام انسان ایسا کلام پیش کرتے سے عاجز ہیں ۔ کیونکہ قرآن کلام الہی ہے اور اس کے اندر وہ ادبی صنعت کاری ہے جو انسان کے دائرہ قدرت سے باہر ہے اور اللہ کا یہ اعجاز کلام الہی قرآن میں بھی ہے اور دوسری پیدا کردہ چیزوں میں بھی ہے۔ یہ آواز ص جو انسان کے گلے سے نکلتی ہے یہ اس اللہ کی تخلیق سے نکلتی ہے۔ جس نے انسان کا گلا بنایا جس سے اس کے سوا دوسری آوازیں بھی نکلتی ہیں انسانوں کی قدرت میں یہ بات نہیں ہے کہ وہ آواز نکالنے کا کوئی ایسا چلتا پھرتا زندہ آلہ بنالیں اور یہ بھی ایک خارق العادت معجزہ ہے اور اس قسم کے ہزارہا معجزات خود ان کے جسم میں ہیں۔ اگر یہ لوگ صرف اپنے انفس کے اندر پائے جانے والے معجزات ہی پر غور کرتے تو انہیں اس بات پر کوئی اچنبھا نہ ہوتا کہ اللہ نے اپنے بندوں میں سے ایک بندے پر وحی نازل کی ہے اور ایک بندے کو مختار بنایا ہے کیونکہ وحی کے اندر اچنبھے کی کوئی ایسی بات نہیں ہے جس طرح اللہ کے پیدا کردہ انسان اور دوسری چیزوں کے اندر ایک ایک بات معجزہ ہے۔ ص والقراٰن ذی الذکر (38: 1) ” ص قسم ہے نصیحت بھرے قرآن کی “۔ قرآن کریم میں جس طرح قوانین دستور قصص فلسفہ اور تہذیب کی باتیں ہیں اسی طرح نصیحت اور یاد دہانی بھی ہے۔ لیکن نصیحت اور اللہ کی طرف راہنمائی سب دوسرے مضامین کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ قرآن کی اصل غرض نصیحت وہدایت ہے بلکہ نصیحت کے سوا دوسرے مضامین بھی دراصل اللہ تک پہنچانے والے ہیں۔ یوں کہ سب اللہ کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ ذوالذکر کا مفہوم مذکور اور مشہور بھی ہوسکتا ہے اور یہ بھی قرآن کی صفت ہے کہ وہ بہت مشہور ہے۔
منکرین توحید و مکذبین رسالت کے لیے وعید صٓ یہ حروف مقطعات میں سے ہے جس کے معنی اللہ کو ہی معلوم ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ابتدائی آیات کا سبب نزول معلوم کرلینا چاہیے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ جب ابو طالب بیمار ہوئے تو ان کے پاس قریش مکہ آئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی تشریف لائے۔ قریش نے ابو طالب سے شکایت کی (کہ تمہارا بھتیجا ایسی ایسی باتیں کرتا ہے) ابو طالب نے آپ سے پوچھا کہ اے میرے بھائی کے بیٹے تم اپنی قوم سے کیا چاہتے ہو۔ آپ نے فرمایا کہ میں ان کے سامنے ایک کلمہ پیش کرتا ہوں وہ اسے قبول کرلیں تو سارا عرب ان کا فرمانبردار ہوجائے گا اور عجمی لوگ ان کو جزیہ دیا کریں گے ابو طالب نے کہا کہ صرف ایک کلمہ کہلوانا چاہتے ہو ؟ فرمایا ہاں بس ایک کلمہ ! پھر آپ نے فرمایا اے چچا (لاَ اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ ) کہہ لو ! قریش مکہ جو وہاں حاضر تھے انہوں نے کہا کیا ایک ہی معبود کو مان لیں ؟ ہم نے تو یہ بات اس سے پہلے کسی مذہب میں نہیں سنی یہ تو اپنے پاس سے بنائی ہوئی ہے، لہٰذا ان کے بارے میں قرآن مجید نازل ہوگیا یعنی (صٓ وَالْقُرْاٰنِ ذِی الذِّکْرِ ) سے لے کر (اِنْ ھٰآا الاَّ اخْتِلاَقٌ) تک آیات نازل ہوگئیں۔ (رواہ الترمذی اوائل سورة ص قال ھذا حدیث حسن صحیح) (وَالْقُرْاٰنِ ذِی الذِّکْرِ ) (قسم ہے قرآن کی جو نصیحت والا ہے) کافر لوگ جو قرآن کو اور آپ کو جھٹلا رہے ہیں ان کی بات غلط ہے۔
2:۔ والقران۔ تا۔ و شقاق : یہ تمہید مع ترغیب ہے۔ والقران الخ، قسم ہے اور جواب قسم محذوف ہے ای مابقی موضع شبہۃ یعنی یہ پند و نصیحت سے لبریز قرآن اس پر شاہد ہے کہ مسئلہ توحید میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی کفار کے نہ ماننے کی وجہ یہ نہیں کہ مسئلہ میں کوئی شبہ باقی ہے بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ یہ کفار و مشرکین کبر و غرور اور عناد و عداوت میں پرے ہیں۔ اس لیے انکار و جحود پر کمر بستہ ہیں اور ان کے غرور و استکبار کا سبب دنیوی سامان عیش کی فراوانی ہے۔ بل متعت ھؤلاء وآباءھم حتی نسوا الذکر وکانوا قوما بورا (الفرقان رکوع 2) ۔ جب سورة صافات میں بیان ہوچکا کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) فرشتے اور جن سب اللہ کی بارگاہ میں عاجز ہیں اور سب کچھ کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے تو اس سے صاف ظاہر ہوگیا کہ وہ خدا کے یہاں شفیع غالب نہیں ہیں اور اس توضیح و تفصیل سے شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی۔ لیکن اس کے باوجود کفار غرور وعناد کی وجہ سے نہیں مانتے۔ ہذا افادہ الشیخ قدس سرہ۔ بعض مفسرین نے انک لمن المرسلین (بیشک تو البتہ رسولوں میں سے ہے) ۔ بعض نے، ما الامر کما قال کفار مکۃ من تعدد الالہۃ، (بات یوں نہیں جس طرح کفار مکہ کہتے ہیں کہ معبود ایک سے زیادہ ہیں) ۔ بعض نے، ما الامر کما یقولون انک ساحر کذاب (بات یوں نہیں جس طرح مشرکین کہتے ہیں کہ تو جادوگر اور جھوٹا ہے) وغیرہ جواب قمس مقدر مانا ہے (روح، قرطبی، جلالین) ۔ اس ذکر و نصیحت والے قرآن کو تو ماننا چاہئے تھا۔ لیکن کفار ضد میں آکر اس کا انکار کر بیٹھے۔
(1) ص ٓ ۔ قسم ہے اس قرآن کریم کی جو نصیحت سے لبریز اور پر ہے۔ ص کے معنی تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کیونکہ یہ حروف مقطعات میں سے ہے قرآن نصیحت والے کی قسم کا مطلب یہ ہے کہ جو قرآن نصیحت کی باتوں سے لبریز ہے اس کی قسم کھا کر کہا جاتا ہے کہ یہ کلام معجز ہے اور مقابلہ کرنے والوں کو عاجز کردینے والا ہے کہ وہ اس کا جواب نہیں لاسکتے یا قسم کا جواب یہ ہے۔ ماالام کما قال کفار مکۃ من تعدد الا لہ۔ یعنی قسم ہے قرآن کریم نصیحت والے کی واقعہ ایسا نہیں ہے جیسا کہ کفار مکہ کہتے ہیں کہ بہت سے اور متعدد و معبود ہیں یعنی تعداد الہ کا قول باطل ہے ٹھیک نہیں ہے یا یہ کفار جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسبت کہہ رہے ہیں وہ صحیح نہیں ہے جواب قسم کے سلسلے میں کئی قول تھے جو ہم نے ترجمہ اور تیسر میں جمع کردیئے ہیں۔