Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 21

سورة ص

وَ ہَلۡ اَتٰىکَ نَبَؤُا الۡخَصۡمِ ۘ اِذۡ تَسَوَّرُوا الۡمِحۡرَابَ ﴿ۙ۲۱﴾

And has there come to you the news of the adversaries, when they climbed over the wall of [his] prayer chamber -

اور کیا تجھے جھگڑا کرنے والوں کی ( بھی ) خبر ملی؟ جبکہ وہ دیوار پھاند کر محراب میں آگئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Story of the Two Litigants Allah tells, وَهَلْ أَتَاكَ نَبَأُ الْخَصْمِ إِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ

مفسرین نے یہاں پر ایک قصہ بیان کیا ہے لیکن اس کا اکثر حصہ بنو اسرائیل کی روایاتوں سے لیا گیا ہے ۔ حدیث سے ثابت نہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ایک حدیث ہے لیکن وہ بھی ثابت نہیں کیونکہ اس کا ایک راوی یزید رقاشی ہے گو وہ نہایت نیک شخص ہے لیکن ہے ضعیف ۔ پس اولیٰ یہ ہے کہ قرآن میں جو ہے اور جس پر یہ شامل ہے وہ حق ہے ۔ حضرت داؤد کا انہیں دیکھ کر گھبرانا اس وجہ سے تھا کہ وہ اپنے تنہائی کے خاص خلوت خانے میں تھے اور پہرہ داروں کو منع کیا تھا کہ کوئی بھی آج اندر نہ آئے اور یکایک ان دونوں کو جو دیکھا تو گھبرا گئے ۔ عزنی الخ ، سے مطلب بات چیت میں غالب آ جانا دوسرے پر چھا جانا ہے ۔ حضرت داؤد سمجھ گئے کہ یہ اللہ کی آزمائش ہے پس وہ رکوع سجدہ کرتے ہوئے اللہ کی طرف جھک پڑے ۔ مذکور ہے کہ چالیس دن تک سجدہ سے سر نہ اٹھایا پس ہم نے اسے بخش دیا ۔ یہ یاد رہے کہ جو کام عوام کے لئے نیکیوں کے ہوتے ہیں وہی کام خواص کے لئے بعض مرتبہ بدیوں کے بن جاتے ہیں ۔ یہ آیت سجدے کی ہے یا نہیں؟ اس کی بات امام شافعی کا جدید مذہب تو یہ ہے کہ یہاں سجدہ ضروری نہیں یہ تو سجدہ شکر ہے ۔ ابن عباس کا قول ہے کہ ص ضروری سجدوں میں سے نہیں ہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے ( بخاری وغیرہ ) نسائی میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں سجدہ کر کے فرمایا یہ سجدہ حضرت داؤد کا تو توبہ کے لئے تھا اور ہمارا شکر کے لئے ہے ۔ ترمذی میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے خواب میں دیکھا گویا میں ایک درخت کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہوں اور نماز میں میں نے سجدے کی آیت تلاوت کی اور سجدہ کیا تو میرے ساتھ اس درخت نے بھی سجدہ کیا اور میں نے سنا کہ وہ یہ دعا مانگ رہا تھا یعنی اے اللہ! میرے اس سجدے کو تو میرے لئے اپنے پاس اجر اور خزانے کا سبب بنا اور اس سے تو میرا بوجھ ہلکا کر دے اور اسے مجھ سے قبول فرما جیسے کہ تو نے اپنے بندے داؤد کے سجدے کو قبول فرمایا ۔ ابن عباس فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر نماز ادا کی اور سجدے کی آیت کو پڑھ کر سجدہ کیا اور اس سجدے میں وہی دعا پڑھی جو اس شخص نے درخت کی دعا نقل کی تھی ۔ ابن عباس اس آیت کے سجدے پر یہ دلیل وارد کرتے تھے کہ قرآن نے فرمایا ہے اس کی اولاد میں سے داؤد سلیمان ہیں جنہیں ہم نے ہدایت کی تھی پس تو اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ہدایت کی پیروی کر پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اقتداء کے مامور تھے اور یہ صاف ثابت ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے سجدہ کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ سجدہ کیا ۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا گویا میں سورہ ص لکھ رہا ہوں جب آیت سجدہ تک پہنچا تو میں نے دیکھا کہ قلم اور دوات اور میرے آس پاس کی تمام چیزوں نے سجدہ کیا ۔ انہوں نے اپنا یہ خواب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا پھر آپ اس آیت کی تلاوت کے وقت برابر سجدہ کرتے رہے ( احمد ) ابو داؤد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر سورہ ص پڑھی اور سجدے کی آیت تک پہنچ کر منبر سے اتر کر آپ سجدہ تک پہنچے تو لوگوں نے سجدے کی تیاری کی آپ نے فرمایا یہ تو ایک نبی کی توبہ کا سجدہ تھا لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم سجدہ کرنے کے لئے تیار ہوگئے ہو چنانچہ آپ اترے اور سجدہ کیا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے اسے بخش دیا ۔ قیامت کے دن اس کی بڑی منزلت اور قدر ہو گی نبیوں اور عادلوں کا درجہ وہ پائیں گے ۔ حدیث میں ہے عادل لوگ نور کے ممبروں پر رحمٰن کے دائیں جانب ہوں گے ۔ اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں ۔ یہ عادل وہ ہیں جو اپنی اہل و عیال میں اور جن کے وہ مالک ہوں عدل و انصاف کرتے ہیں ۔ اور حدیث میں ہے سب سے زیادہ اللہ کے دوست اور سب سے زیادہ اس کے مقرب وہ بادشاہ ہوں گے جو عادل ہوں اور سب سے زیادہ دشمن اور سب سے سخت عذاب والے وہ ہوں گے جو ظالم بادشاہ ہوں ۔ ( ترمذی وغیرہ ) حضرت مالک بن دینار فرماتے ہیں قیامت کے دن حضرت داؤد علیہ السلام کو عرش کے پائے کے پاس کھڑا کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ اے داؤد جس پیاری درد ناک میٹھی اور جاذب آواز سے تم میری تعریفیں دنیا میں کرتے تھے اب بھی کرو ۔ آپ فرمائیں گے باری تعالیٰ اب وہ آواز کہاں رہی؟ اللہ فرمائے گا میں نے وہی آواز آج تمہیں پھر عطا فرمائی ۔ اب حضرت داؤد علیہ السلام اپنی دلکش اور دلربا آواز نکال کر نہایت وجد کی حالت میں اللہ کی حمد و ثناء بیان کریں گے جسے سن کر جنتی اور نعمتوں کو بھی بھول جائیں گے اور یہ سریلی آواز اور نورانی گلا انہیں سب نعمتوں سے ہٹا کر اپنی طرف متوجہ کرے گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 مِحْرَاب سے مراد کمرہ ہے جس میں سب سے علیحدہ ہو کر یکسوئی کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتے۔ دروازے پر پہرے دار ہوتے، تاکہ کوئی اندر آکر عبادت میں مخل نہ ہو۔ جھگڑا کرنے والے پیچھے سے دیوار پھاند کر اندر آگئے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٤] خصم کا لغوی مفہوم :۔ خصم بمعنی دعویدار، مدعی اور مدعا علیہ، دونوں یا ان دونوں میں سے کوئی ایک۔ فریق مخالف۔ خواہ ایک فرد ہو یا زیادہ ہوں۔ نیز ایسا جھگڑا یا مقدمہ بھی جس میں فریقین کے حقوق زیر بحث ہوں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَهَلْ اَتٰىكَ نَبَؤُا الْخَصْمِ : ” نَبَؤُا “ کسی اہم خبر کو کہتے ہیں۔ ” الْخَصْمِ “ واحد، تثنیہ اور جمع سب پر بولا جاتا ہے۔ ” تَسَوَّرُوا “ ” سُوْرٌ“ دیوار کو کہتے ہیں اور ” تَسَوَّرُوا “ کے ضمن میں ” دَخَلُوْا “ کا معنی شامل ہونے کی وجہ سے ” الْمِحْرَابَ “ کو اس کا مفعول بنایا گیا ہے، یعنی دیوار پھاند کر ” محراب “ میں داخل ہوئے۔ ” الْمِحْرَابَ “ عبادت کے لیے مخصوص کمرہ۔ ” وَلَا تُشْطِــطْ “ بےانصافی نہ کر۔ ” شَطَطٌ“ زیادتی، ظلم۔ ” أَشَطَّ الْحَاکِمُ إِذَا جَارَ “ (افعال) حاکم نے بےانصافی کی۔ ” نَعْجَةً “ ” أُنْثٰی مِنَ الضَّانِ “ بھیڑ یا دنبی۔ ” عَزَّ یَعِزُّ “ (ض) غالب آنا۔ ” الْخُلَطَاۗءِ “ ” خَلِیْطٌ“ کی جمع ہے، شریک۔ مگر ” خَلِیْطٌ“ عام ہے، اس میں وہ لوگ بھی آجاتے ہیں جنھوں نے اپنا مال ملایا ہوا ہو، مگر ہر ایک اپنے اپنے مال کا الگ الگ مالک ہو۔ ” وَقَلِيْلٌ“ بہت کم۔ ” مَّا “ کے ساتھ تاکید کی وجہ سے ” بہت ہی کم۔ “ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے داؤد (علیہ السلام) کو یاد کرنے کا حکم دیا اور یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے بات کا آغاز اس طرح کیا کہ کیا تیرے پاس ان جھگڑنے والوں کی خبر آئی ہے ؟ مقصد اسے سننے کا شوق دلانا ہے۔ اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ : جب وہ جھگڑنے والے دیوار پھاند کر داؤد (علیہ السلام) کے پاس ان کے عبادت کے لیے مخصوص کمرے میں آگئے۔ اس سے ظاہر ہے کہ وہ پہرے وغیرہ کی وجہ سے دروازے کی طرف سے داخل نہیں ہو سکے، ورنہ انھیں دیوار پھاندنے کی ضرورت نہیں تھی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In these verses, Allah Ta&ala has mentioned an event relating to Sayyidna Dawud (علیہ السلام) . The way in which this event has been described in the noble Qur&an, it tells only this much that Allah Ta’ ala had put him to some test by sending two disputing parties into his place of worship. Alerted thereby, Sayyidna Dawud (علیہ السلام) sought forgiveness from Allah Ta’ ala, and fell in prostration, and He forgave him. Since the real purpose of the noble Qur&an at this place is to communicate that Sayyidna Dawud (علیہ السلام) used to turn to Allah Ta&ala in every matter of concern he faced, and should he ever sense the least slip issuing forth from him, he would immediately seek forgiveness for it. Therefore, no details have been given as to what that test was, and what was that slip he committed against which he sought forgiveness, something that Allah Ta&ala forgave him for. Therefore, some investigative and cautious commentators have said in their explanation of these verses that Allah Ta&ala has not given a detailed description of this slip and test relating to this great prophet of His due to some particular wise consideration. Hence, we too should not go about pursuing it, and whatever has been mentioned in the noble Qur&an should be precisely what we should believe in. Even a great research-oriented commentator of the class of Ibn Kathir has elected to follow this rule and has observed silence as far as details of this event are concerned. Then there is no doubt that this is the ideal course of caution, moderation and sound policy. Therefore, the learned from among the early forbears of Islam (salaf) used to say: ابھموا ما ابھمہ اللہ (What Allah has left ambiguous, you too let it remain ambiguous). In this, there is wisdom, and expedient consideration. Then, it is obvious that it means the ambiguity of matters that do not relate to what we do and what we take as halal and haram and, as for matters that concern the collective deeds of Muslims, any ambiguity existing there has already been removed by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) through his word and deed. But, there are other commentators who have tried to determine the exact nature of this test and trial in the light of pre-Islam narratives. In this connection, there is that vulgar yarn that Sayyidna Dawud (علیہ السلام) happened to have cast a look at the wife of Uriah, who was one of his military officers, that put the desire of marrying her in his heart and he, in order to get Uriah killed, entrusted with him a dangerous mission in which he was really killed and later on, he married his wife. It was to admonish him on this act of his that these two angels were sent in human form and shape. But, this narrative is doubtlessly from among the absurdities that had found currency among Muslims under the influence of Jews. This narrative has been taken from the Bible, the Book of Samuel II, chap. 11. The only difference is that, in the cited reference, an open charge has been leveled against Sayyidna Dawud (علیہ السلام) that he had (refuge with Allah) committed adultery with the wife of Uriah prior to marriage. As for these narratives accommodated in some exegetical works, the part relating to adultery has been deleted. It appears that someone looked at the Judaic narrative, took out the allegation of adultery, and did an edit-copy-paste job while explaining the above mentioned verses of the noble Qur&an - although, this book of Samuel itself is inherently baseless, while this narrative has the status of absolute lie and fabrication. For this reason, all authentic commentators have sternly rejected it. In addition to Hafiz Ibn Kathir, ` Allamah Ibn Jauzi, Qadi Abu-s-Saud, Qadi al-Baidawi, Qadi ` Iyad, Imam Razi, ` Allamah Abu Hayyan al-Andalusi, Khazin, Zamakhshari, Ibn Hazm, ` Allamah Khafaji, Ahmad Ibn Nasr, Abu Tammam, ` Allamah ` Alusi and many others have declared it to be a lie and fabrication. Hafiz Ibn Kathir writes: |"Some commentators have mentioned a tale at this point most of which has been taken from Judaic narrations. Nothing the following of which is obligatory is proved in this matter on the authority of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Only Ibn Abi Hatim has reported a Hadith here, but its authority is unsound.|" In short, in the light of many proofs - some detail of which is available in Tafsir Kabir of Imam Razi and Zad-ul-Masir of Ibn-ul-Jauzi - this Hadith report goes out of the pale of discussion totally as far as the Tafsir of this verse is concerned. Maulana Ashraf Thanavi (رح) has explained this element of test by saying that these two adversaries climbed over the wall, barged in and started addressing him so insolently that they started off by asking Sayyidna Dawud (علیہ السلام) to be just and not to be unjust. This audacity would have been reason enough for an ordinary person who would have answered them only by punishing them. Allah Ta’ ala tested Sayyidna Dawud (علیہ السلام) by seeing whether he too is enraged and punishes him or listens to them demonstrating the high moral traits of pardon and forbearance. Sayyidna Dawud (علیہ السلام) came out successful in this test, except a little slip that remained - when he was giving his verdict, rather than address the perpetrator of injustice, he addressed the one oppressed which betrayed a certain element of partisanship - but, he immediately got alerted, fell down in prostration and Allah Ta’ ala forgave him. (Bayan-ul-Qur’ an) According to the explanation of this &slip& given by some commentators, when Sayyidna Dawud (علیہ السلام) found the defendant silent, it was without listening to what he had to say, and rather having listened to the plaintiff only, he said things as part of his advice that virtually appeared to be supportive of the plaintiff - although, he should have first asked the defendant as to what his stand was. This statement of Sayyidna Dawud (علیہ السلام) was, though, simply advisory in nature, and time has not yet arrived for the final judgment in the case, however, for a great prophet of his caliber, it was not befitting. To this very thing he was later alerted and fell into prostration. (Ruh-ul- Ma’ ani) Some others have said that Sayyidna Dawud (علیہ السلام) had managed his time in a manner that every twenty four hours of a day and night one or the other member of his household would be found engaged in some act of devotion to Allah like ` ibadah, dhikr and tasbih. On a certain day, he submitted before Allah Ta’ ala, &My Lord, there is not a single moment of day and night during which one or the other member of the household of Dawud is not busy with ` ibadah, Salah, tasbih and dhikr before Thee!& Allah Ta’ ala said, &0 Dawud, all this comes from My taufiq. If I do not help you do it, you cannot do it on your own - and one of these days I am going to leave you on your own.& Thereafter, came a day when something different took place. That was a time when Sayyidna Dawud (علیہ السلام) was supposed to be engaged in worship. When this unforeseen thing happened, his timetable was shattered, and he got busy with resolving a dispute. No other member of the household of Sayyidna Dawud (علیہ السلام) was engaged in remembering Allah at that time. Sayyidna Dawud (علیہ السلام) was alerted immediately. He recalled the self-congratulatory statement that had slipped out of his tongue. He realized he had made a mistake. Therefore, he sought the forgiveness of Allah and fell in prostration. This explanation is supported by a saying of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) which has been reported in the Mustadrak of Hakim with sound chains of authority. (Ahkam-ul- Qur&an) It has been unanimously agreed upon in these explanations that this litigation was not hypothetical. In fact, it was real and the form of the litigation had nothing to do with the test or slip of Sayyidna Dawud (علیہ السلام) . Contrary to this, many commentators have explained it in a manner that postulates that parties to this dispute were not human beings. Rather, they were angels, and Allah Ta’ ala had sent them to present such a simulated form of litigation as would alert Sayyidna Dawud (علیہ السلام) to his slip. Accordingly, these commentators say that as far as this story of the killing of Uriah and marrying his wife is concerned, it is incorrect. But, conditions that actually prevailed among the people of Bani Isra&il were such that asking someone - &divorce you wife and give her in marriage to me& - was not considered offensive. This kind of request had also become customary at that time, and was not taken to be impolite as well. It was in this prevailing climate and on this basis that Sayyidna Dawud (علیہ السلام) had made his request to Uriah whereupon Allah Ta’ ala alerted him by sending these two angels. Some others have said that this was a simple matter. Uriah had already sent a proposal to a woman. Sayyidna Dawud (علیہ السلام) happened to send his proposal to the same woman. This hurt Uriah. Thereupon, as admonition, Allah Ta’ ala sent these two angels and alerted him to his slip in a subtle manner. Qadi Abu Ya` la has based his argument on the words of the Qur&an: وَعَزَّنِي فِي الْخِطَابِ (And he overpowered me in speech - 23). He says that this sentence supports the view that this matter came to pass only in connection with: خِطبَہ۔ (khitbah: proposal of marriage), for Dawud (علیہ السلام) has not yet married her. (Zad-ul- Masir by Ibn-ul Jauzi, p. 116, v. 7) Most commentators have preferred the last two explanations, and they find support in some reports from the Sahabah (please see Ruh-ul-Ma’ ani, Tafsir Abi-s- Saud, Zad-ul-Masir, Tafsir Kabir etc.) But, the truth of the matter is that any detail of this test or slip is neither proved from the Qur&an, nor from some Sahih Hadith. Therefore, at least this much stands settled that this widely known story of having Uriah killed is incorrect. But, about the actual event, all probabilities mentioned above exist, and no one of these can be called absolute and certain. Therefore, the safest way out is what Hafiz Ibn Kathir has taken: &That which Allah Ta’ ala has left ambiguous should be left as is. We should not force out its details through our guesses and conjectures - particularly when no deed of ours hinges on it. Certainly there is some wisdom in this ambiguity as well. Therefore, one should believe in as much as has been mentioned in the Qur&an. As for the details, let these be resigned to Allah. Nevertheless, since there are many benefits that issue forth from this event, more attention should be paid to these. Therefore, let us now turn to an explanation of the verses where, insha&Allah, these beneficial notes will keep appearing as we go along. In the first verse (21), it was said: إِذْ تَسَوَّرُ‌وا الْمِحْرَ‌ابَ (when they entered the sanctuary by climbing over the wall?). The word: مِحْرَ‌اب (mihrab) is essentially applied to an elevated chamber, or the front elevation of a house. Later, the front portion of a mosque or any other House of Worship came to be called by that name in particular. In the Qur&an, this word has been used in the sense of a place of worship. ` Allamah Suyuti has written that contemporary arched mihrabs of mosques in vogue now were not present during the time of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (Ruh-al-Ma’ ani).

خلاصہ تفسیر اور بھلا آپ کو ان اہل مقدمہ کی خبر بھی پہنچی ہے (جو داؤد (علیہ السلام) کے پاس مقدمہ لائے تھے) جبکہ وہ لوگ (داؤد (علیہ السلام) کے) عبادت خانہ کی دیوار پھاند کر داؤد (علیہ السلام) کے پاس آئے (کیونکہ دروازے سے پہرہ داروں نے اس لئے نہیں آنے دیا کہ وہ وقت آپ کی عبادت کا تھا، مقدمات کے فیصلے کا نہیں) تو وہ (ان کے اس بےقاعدہ آنے سے) گھبرا گئے (کہ کہیں یہ لوگ دشمن نہ ہوں جو قتل کے ارادے سے اس طرح تنہائی میں آ گھسے ہوں) وہ لوگ (ان سے) کہنے لگے کہ آپ ڈریں نہیں، ہم دو اہل معاملہ ہیں کہ ایک نے دوسرے پر (کچھ) زیادتی کی ہے (اس کے فیصلے کے لئے ہم آئے ہیں، چونکہ پہرہ داروں نے دروازہ سے نہیں آنے دیا۔ اس لئے اس طرح آنے کے مرتکب ہوئے) سو آپ ہم میں انصاف سے فیصلہ کر دیجئے، اور بےانصافی نہ کیجئے، اور ہم کو (معاملہ کی) سیدھی راہ بتلا دیجئے (اور پھر ایک شخص بولا کہ صورت مقدمہ یہ ہے کہ) یہ شخص میرا بھائی ہے (یعنی دینی بھائی جیسا کہ در منثور میں حضرت ابن مسعود سے منقول ہے اور) اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس (کل) ایک دنبی ہے۔ سو یہ کہتا ہے کہ وہ بھی مجھ کو دے ڈال اور بات چیت میں مجھ کو دباتا ہے (اور میری بات کو منہ زوری سے چلنے نہیں دیتا) داؤد (علیہ السلام) نے کہا کہ یہ جو تیری دنبی اپنی دنبیوں میں ملانے کی درخواست کرتا ہے تو واقعی تجھ پر ظلم کرتا ہے اور اکثر شرکاء (کی عادت ہے کہ) ایک دوسرے پر (یوں ہی) زیادتی کیا کرتے ہیں، مگر ہاں جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور نیک کام کرتے ہیں، اور ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں (یہ بات آپ نے مظلوم کی تسلی کے لئے ارشاد فرمائی) اور داؤد (علیہ السلام) کو خیال آیا کہ (اس مقدمہ کو اس طرح پیش کر کے) ہم نے ان کا امتحان کیا ہے، سو انہوں نے اپنے رب کے سامنے توبہ کی اور سجدہ میں گر پڑے اور (خاص طور پر خدا کی طرف) رجوع ہوئے، سو ہم نے ان کو وہ (امر) معاف کردیا، اور ہمارے یہاں ان کے لئے (خاص) قرب اور (اعلیٰ درجہ کی) نیک انجامی (یعنی جنت کا درجہ علیا) ہے۔ معارف ومسائل ان آیتوں میں باری تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کا واقعہ ذکر فرمایا ہے۔ قرآن کریم میں یہ واقعہ جس انداز سے بیان کیا گیا ہے، اس سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی عبادت گاہ میں دو فریقوں کو جھگڑتے ہوئے بھیج کر ان کا کوئی امتحان کیا تھا۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اس امتحان پر متنبہ ہو کر اللہ تعالیٰ سے استغفار کیا اور سجدے میں گر پڑے، اور اللہ تعالیٰ نے ان کی مغفرت فرما دی۔ قرآن کریم کا اصل مقصد چونکہ یہاں یہ بیان کرنا ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) اپنے ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع فرماتے تھے، اور کبھی ذرا سی لغزش بھی ہوجائے تو فوراً استغفار کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ اس لئے یہاں یہ تفصیل بیان نہیں کی گئی کہ وہ امتحان کیا تھا ؟ حضرت داؤد (علیہ السلام) سے وہ کونسی لغزش ہوئی تھی جس سے انہوں نے استغفار کیا ؟ اور جسے اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا۔ اسی لئے بعض محقق اور محتاط مفسرین نے ان آیات کی تشریح میں یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خاص حکمت و مصلحت سے اپنے جلیل القدر پیغمبر کی اس لغزش اور امتحان کی تفصیل کو کھول کر بیان نہیں فرمایا، اس لئے ہمیں بھی اس کے پیچھے نہیں پڑنا چاہئے۔ اور جتنی بات قرآن کریم میں مذکور ہے، صرف اسی بات پر ایمان رکھنا چاہئے۔ حافظ ابن کثیر جیسے محقق مفسر نے اپنی تفسیر میں اسی پر عمل کرتے ہوئے واقعہ کی تفصیلات سے خاموشی اختیار کی ہے۔ اور کوئی شک نہیں کہ یہ سب سے زیادہ محتاط اور سلامتی کا راستہ ہے۔ اسی لئے علماء سلف سے منقول ہے کہ ابھموا ما ابھمہ اللہ، یعنی جس چیز کو اللہ نے مبہم چھوڑا ہے تم بھی اس کو مبہم رہنے دو ۔ اسی میں حکمت و مصلحت ہے اور یہ ظاہر ہے کہ اس سے مراد ایسے معاملات کا ابہام ہے جن سے ہمارے عمل اور حلال و حرام کا تعلق نہ ہو اور جن معاملات سے مسلمانوں کے عمل کا تعلق ہو اس ابہام کو خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قول و عمل سے رفع کردیا ہے۔ البتہ دوسرے مفسرین نے روایات وآثار کی روشنی میں اس امتحان اور آزمائش کو متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سلسلہ میں ایک عامیانہ روایت تو یہ مشہور ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی نظر ایک مرتبہ اپنے ایک فوجی افسر اور یا کی بیوی پر پڑگئی تھی۔ جس سے ان کے دل میں اس کے ساتھ نکاح کرنے کی خواہش پیدا ہوئی، اور انہوں نے اور یا کو قتل کرانے کی غرض سے اسے خطرناک ترین مشن سونپ دیا جس میں وہ شہید ہوگیا اور بعد میں آپ نے اس کی بیوی سے شادی کرلی۔ اس عمل پر تنبیہ کرنے کے لئے یہ دو فرشتے انسانی شکل میں بھیجے گئے۔ لیکن یہ روایت بلاشبہ ان خرافات میں سے ہے جو یہودیوں کے زیر اثر مسلمانوں میں بھی پھیل گئی تھیں۔ یہ روایت دراصل بائبل کی کتاب سموئیل دوم باب نمبر ١١ سے ماخوذ ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بائبل میں کھلم کھلا حضرت داؤد (علیہ السلام) پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے معاذ اللہ اور یا کی بیوی سے نکاح سے قبل ہی زنا کا ارتکاب کیا تھا۔ اور ان تفسیری روایتوں میں زنا کے جز کو حذف کردیا گیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے اس اسرائیلی روایت کو دیکھا اور اس میں سے زنا کے قصے کو نکال کر اسے قرآن کریم کی مذکورہ آیتوں پر چسپاں کردیا۔ حالانکہ یہ کتاب سموئیل ہی سرے سے بےاصل ہے اور یہ روایت قطعی کذب وافتراء کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی وجہ سے تمام محقق مفسرین نے اس کی سخت تردید کی ہے۔ حافظ ابن کثیر کے علاوہ علامہ ابن جوزی، قاضی ابو السعود، قاضی بیضاوی، قاضی عیاض، امام رازی، علامہ ابو حیان اندلسی، خازن، زمحشری، ابن حزم، علامہ خفاجی، احمد بن تصر، ابو تمام اور علامہ آلوسی وغیرہ نے بھی اسے کذب وافتراء قرار دیا ہے۔ حافظ ابن کثیر (رح) لکھتے ہیں :۔ ” بعض مفسرین نے یہاں ایک قصہ ذکر کیا ہے جس کا اکثر حصہ اسرائیلیات سے ماخوذ ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بارے میں کوئی ایسی بات ثابت نہیں جس کا اتباع واجب ہو، صرف ابن ابی حاتم نے یہاں ایک حدیث روایت کی ہے۔ مگر اس کی سند صحیح نہیں ہے۔ “ غرض بہت سے دلائل کی روشنی میں جن کی کچھ تفصیل امام رازی کی تفسیر کبیر اور ابن جوزی کی زاد المسیر وغیرہ میں موجود ہے، یہ روایت تو اس آیت کی تفسیر میں قطعاً خارج از بحث ہوجاتی ہے۔ حکیم الامت حضرت تھانوی نے اس آزمائش اور لغزش کی تشریح اس طرح فرمائی ہے کہ مقدمہ کے یہ دو فریق دیوار پھاند کر داخل ہوئے، اور طرز مخاطبت بھی انتہائی گستاخانہ اختیار کیا کہ شروع ہی میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کو انصاف کرنے اور ظلم نہ کرنے کی نصیحتیں شروع کردیں، اس انداز کی گستاخی کی بنا پر کوئی عام آدمی ہوتا تو انہیں جواب دینے کے بجائے الٹی سزا دیتا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کا یہ امتحان فرمایا کہ وہ بھی غصہ میں آ کر انہیں سزا دیتے ہیں یا پیغمبرانہ عفو و تحمل سے کام لے کر ان کی بات سنتے ہیں۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) اس امتحان میں پورا اترے، لیکن اتنی سی فروگذاشت ہوگئی کہ فیصلہ سناتے وقت ظالم کو خطاب کرنے کے بجائے مظلوم کو مخاطب فرمایا۔ جس سے ایک گونہ جانبداری مترشح ہوتی تھی مگر اس پر فوراً متنبہ ہوا اور سجدے میں گر گئے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا۔ (بیان القرآن) بعض مفسرین نے لغزش کی یہ تشریح کی ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے مدعا علیہ کو خاموش دیکھا تو اس کا بیان سنے بغیر صرف مدعی کی بات سن کر اپنی نصیحت میں ایسی باتیں فرمائیں جن سے فی الجملہ مدعی کی تائید ہوتی تھی، حالانکہ پہلے مدعا علیہ سے پوچھنا چاہئے تھا کہ اس کا موقف کیا ہے ؟ حضرت داؤد (علیہ السلام) کا یہ ارشاد اگرچہ صرف ناصحانہ انداز میں تھا اور ابھی تک مقدمہ کے فیصلے کی نوبت نہیں آئی تھی، تاہم ان جیسے جلیل القدر پیغمبر کے شایان شان نہیں تھا۔ اسی بات پر آپ بعد میں متنبہ ہو کر سجدہ ریز ہوئے۔ (روح المعانی) بعض حضرات نے فرمایا کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اپنا نظم اوقات ایسا بنایا ہوا تھا کہ چوبیس گھنٹے میں ہر وقت گھر کا کوئی نہ کوئی فرد عبادت، ذکر اور تسبیح میں مشغول رہتا تھا، ایک روز انہوں نے باری تعالیٰ سے عرض کیا کہ پروردگار ! دن اور رات کی کوئی گھڑی ایسی نہیں گزرتی جس میں داؤد کے گھر والوں میں سے کوئی نہ کوئی آپ کی عبادت، نماز اور تسبیح و ذکر میں مشغول نہ ہو، باری تعالیٰ نے فرمایا کہ داؤد ! یہ سب کچھ میری توفیق سے ہے، اگر میری مدد شامل حال نہ ہو تو یہ بات تمہارے بس کی نہیں ہے، اور ایک دن میں تمہیں تمہارے حال پر چھوڑ دوں گا۔ اس کے بعد یہ واقعہ پیش آیا کہ وہ وقت حضرت داؤد (علیہ السلام) کے مشغول عبادت ہونے کا تھا۔ اس ناگہانی قضیہ سے ان کے اوقات کا نظام مختل ہوگیا حضرت داؤد (علیہ السلام) جھگڑا چکانے میں مشغول ہوگئے، آل داؤد (علیہ السلام) کا کوئی اور فرد بھی اس وقت عبادت اور ذکر الٰہی میں مصروف نہ تھا۔ اس سے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو تنبہ ہوا کہ وہ فخریہ کلمہ جو زبان سے نکل گیا تھا، یہ مجھ سے غلطی ہوئی تھی۔ اس لئے آپ نے استغفار فرمایا اور سجدہ ریز ہوگئے۔ اس توجیہہ کی تائید حضرت ابن عباس کے ایک ارشاد سے بھی ہوتی ہے جو مستدرک حاکم میں صحیح سند کے ساتھ منقول ہے۔ (احکام القرآن) ان تمام تشریحات میں یہ بات مشترکہ طور پر تسلیم کی گئی ہے کہ مقدمہ فرضی نہیں، بلکہ حقیقی تھا اور صورت مقدمہ کا حضرت داؤد (علیہ السلام) کی آزمائش یا لغزش سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کے برخلاف بہت سے مفسرین نے اس کی ایسی تشریح فرمائی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ مقدمہ کے یہ فریقین انسان نہیں، بلکہ فرشتے تھے، اور انہیں اللہ تعالیٰ نے اس لئے بھیجا تھا کہ وہ ایسی فرضی صورت مقدمہ پیش کریں جس سے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو اپنی لغزش پر تنبہ ہوجائے۔ چنانچہ ان حضرات کا یہ کہنا ہے کہ اور یا کو قتل کرانے اور اس کی بیوی سے نکاح کرلینے کا وہ قصہ تو غلط ہے، لیکن حقیقت حال یہ تھی کہ بنی اسرائیل میں سے کسی شخص سے یہ فرمائش کرنا معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا کہ ” تم اپنی بیوی کو طلاق دے کر اس کا نکاح مجھ سے کردو “ اس زمانے میں اس فرمائش کا عام رواج بھی تھا۔ اور یہ بات خلاف مروت بھی نہ سمجھی جاتی تھی۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اسی بنا پر اور یا سے یہی فرمائش کی تھی، جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ دو فرشتے بھیج کر آپ کو تنبیہ فرمائی۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ بات صرف اتنی تھی کہ اور یا نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام دیا ہوا تھا، حضرت داؤد (علیہ السلام) نے بھی اسی عورت کو اپنا پیغام دے دیا، اس سے اور یا کو بہت رنج ہوا اللہ تعالیٰ نے اس پر تنبیہ کے لئے یہ دو فرشتے بھیجے اور ایک لطیف پیرایہ میں اس لغزش پر تنبیہ فرمائی۔ قاضی ابویعلی نے اس توجیہہ پر قرآن کریم کے الفاظ وَعَزَّنِيْ فِي الْخِطَابِ ، سے استدلال فرمایا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ یہ جملہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ معاملہ محض خطبہ (منگنی) کے سلسلہ میں بھی آیا تھا۔ اور ابھی حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اس سے نکاح نہیں فرمایا تھا۔ (زادالمسیر لابن الجوزی۔ ص ٦١١۔ ج ٧) اکثر مفسرین نے ان آخری دو تشریحات کو ترجیح دی ہے اور ان کی تائید بعض آثار صحابہ سے بھی ہوتی ہے۔ (ملاحظہ ہو روح المعانی، تفسیر ابی السعود، زاد المسیر، تفسیر کبیر وغیرہ) لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس آزمائش اور لغزش کی تفصیل نہ قرآن کریم سے ثابت ہے، نہ کسی صحیح حدیث سے۔ اس لئے اتنی بات تو طے شدہ ہے کہ اور یا کو قتل کروانے کا جو قصہ مشہور ہے وہ غلط ہے، لیکن اصل واقعہ کے بارے میں مذکورہ بالا تمام احتمالات موجود ہیں اور ان میں سے کسی ایک کو قطعی اور یقینی نہیں کہا جاسکتا۔ لہٰذا سلامتی کی راہ وہی ہے جو حافظ ابن کثیر نے اختیار کی کہ جس بات کو اللہ تعالیٰ نے مبہم چھوڑا ہے، ہم اپنے قیاسات اور اندازوں کے ذریعہ اس کی تفصیل کی کوشش نہ کریں۔ جبکہ اس سے ہمارے کسی عمل کا تعلق نہیں۔ اس ابہام میں بھی یقینا کوئی حکمت ہے۔ لہٰذا صرف اتنے واقعہ پر ایمان رکھا جائے جو قرآن کریم میں مذکور ہے، باقی تفصیلات کو اللہ کے حوالے کیا جائے۔ البتہ اس واقعہ سے متعدد عملی فوائد حاصل ہوتے ہیں زیادہ توجہ ان کی طرف دینی چاہئے۔ اس لئے اب آیات کی تفسیر ملاحظہ فرمائیے جس میں انشاء اللہ ان فوائد کا ذکر آجائے گا۔ اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ ۔ (جب وہ محراب کی دیوار پھاند کر داخل ہوئے) محراب دراصل بالاخانے یا کسی مکان کے سامنے کے حصہ کو کہتے ہیں۔ پھر خاص طور سے مسجد یا عبادت خانے کے سامنے کے حصہ کو کہا جانے لگا۔ قرآن کریم میں یہ لفظ عبادت گاہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ علامہ سیوطی نے لکھا ہے کہ مسجد کے دائرہ نما محرابیں جیسی آج کل معروف ہیں، یہ عہد نبوی میں موجود نہیں تھیں (روح المعانی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَہَلْ اَتٰىكَ نَبَؤُا الْخَصْمِ۝ ٠ ۘ اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ۝ ٢١ۙ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» . والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : 5- أتيت المروءة من بابها «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے خصم الخَصْمُ مصدر خَصَمْتُهُ ، أي : نازعته خَصْماً ، يقال : خاصمته وخَصَمْتُهُ مُخَاصَمَةً وخِصَاماً ، قال تعالی: وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة/ 204] ، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] ، ثم سمّي المُخَاصِم خصما، واستعمل للواحد والجمع، وربّما ثنّي، وأصل المُخَاصَمَة : أن يتعلّق كلّ واحد بخصم الآخر، أي جانبه وأن يجذب کلّ واحد خصم الجوالق من جانب، وروي : ( نسیته في خصم فراشي) «1» والجمع خُصُوم وأخصام، وقوله : خَصْمانِ اخْتَصَمُوا [ الحج/ 19] ، أي : فریقان، ولذلک قال : اخْتَصَمُوا وقال : لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق/ 28] ، وقال : وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء/ 96] ، والخَصِيمُ : الكثير المخاصمة، قال : هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل/ 4] ، والخَصِمُ : المختصّ بالخصومة، قال : بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف/ 58] . ( خ ص م ) الخصم ۔ یہ خصمتہ کا مصدر ہے جس کے معنی جھگڑنے کے ہیں کہاجاتا ہے خصمتہ وخاصمتہ مخاصمۃ وخصاما کسی سے جھگڑا کر نا قرآن میں ہے :۔ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة/ 204] اور وہ حالانکہ سخت جھگڑا لو ہے ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] اور جھگڑنے کے وقت بات نہ کرسکے ۔ اور مخاصم کو خصم کہا جات ہے ، اور خصم کا لفظ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر کبھی تثنیہ بھی آجاتا ہے۔ اصل میں خصم کے معنی کنارہ کے ہیں ۔ اور مخاصمت کے معنی ایک دوسرے سے کو کنارہ سے پکڑنے کے ہیں ۔ اور بوری کو کونے سے پکڑکر کھینچنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے :۔ (114) نسی تھا فی خصم فراشی کہ میں اسے اپنے بسترہ کے کونے میں بھول آیا ہوں خصم کی جمع خصوم واخصام آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ اخْتَصَمُوا[ الحج/ 19] دوفریق جھگڑتے ہیں ۔ میں خصما ن سے دو فریق مراد ہیں اسی لئے اختصموا آیا ہے ۔ الاختصام ( افتعال ) ایک دوسرے سے جھگڑنا ۔ قرآن میں ہے :۔ لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق/ 28] ہمارے حضور رد کد نہ کرو ۔ وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء/ 96] ۔۔۔۔ وہ آپس میں جھگڑیں گے ۔ الخصیم ۔ جھگڑا لو بہت زیادہ جھگڑا کرنے والا جیسے فرمایا :۔ هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل/ 4] مگر وہ ( اس بارے میں ) علانیہ جھگڑنے لگا ۔ الخصم سخٹ جھگڑالو جس کا شیوہ ہ جھگڑنا ہو ۔ قرآن میں ہے :َ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف/ 58] حقیقت یہ ہے ۔ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑا لو، لو ۔ تسوروا۔ ماضی جمع مذکر غائب تسور ( تفعل) مصدر سے جس کے معنی دیوار یا شہر کے اردگرد بلند حفاظت کے لئے بنائی جائے شہر پناہ۔ فصیل، یہاں مراد وہ دیوار جو محروب کے اردگرد حفاظت کے لئے بنائی ہوئی تھی۔ حرب الحَرْبُ معروف، والحَرَب : السّلب في الحرب ثم قد سمّي كل سلب حربا، قال : والحرب فيه الحرائب، وقال : والحرب مشتقة المعنی من الحرب «5» وقد حُرِبَ فهو حَرِيب، أي : سلیب، والتّحریب : إثارة الحرب، ورجل مِحْرَب، كأنه آلة في الحرب، والحَرْبَة : آلة للحرب معروفة، وأصله الفعلة من الحرب أو من الحراب، ومِحرابُ المسجد قيل : سمّي بذلک لأنه موضع محاربة الشیطان والهوى، وقیل : سمّي بذلک لکون حقّ الإنسان فيه أن يكون حریبا من أشغال الدنیا ومن توزّع الخواطر، وقیل : الأصل فيه أنّ محراب البیت صدر المجلس، ثم اتّخذت المساجد فسمّي صدره به، وقیل : بل المحراب أصله في المسجد، وهو اسم خصّ به صدر المجلس، فسمّي صدر البیت محرابا تشبيها بمحراب المسجد، وكأنّ هذا أصح، قال عزّ وجل : يَعْمَلُونَ لَهُ ما يَشاءُ مِنْ مَحارِيبَ وَتَماثِيلَ [ سبأ/ 13] . والحِرْبَاء : دویبة تتلقی الشمس كأنها تحاربها، والحِرْبَاء : مسمار، تشبيها بالحرباء التي هي دویبة في الهيئة، کقولهم في مثلها : ضبّة وکلب، تشبيها بالضبّ والکلب . ( ح ر ب ) الحرب جنگ کا راز ۔ اور فتحۃ را کے ساتھ لڑائی میں کسی کا مال چھیننے کے ہیں پھر ہر قسم کے سب کے حرب کہاجاتا ہے اور حرب معنوی لحاظ سے حرب سے مشتق ہے کہا جاتا ہے ۔ حرب الرجل ان کا سامان چھین لیا گیا فھو حریب یعنی لٹا ہوا ۔ التحریب لڑائی کا بھڑکا نا ۔ رجل محرب جنگجو گویا وہ لڑائی بھڑکانے کا آلہ ہے ۔ الحربۃ بر چھا ۔ اصل میں یہ حرب یا حراب سے فعلۃ کے وزن پر ہے اور مسجد کے محراب کو محراب یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ شیطان اور خواہشات نفسانی سے جنگ کرنے کی جگہ ہے اور یا اس لئے کہ اس جگہ میں کھڑے ہو کر عبادت کرنیوالے پر حق یہ ہے کہ دنیوی کاروبار ۔ اور پریشان خیالیوں سے یک سو ہوجانے ۔ بعض کہتے ہیں کہ اصل میں محراب البیت صدر مجلس کو کہتے ہیں اسی بنا پر جب مسجد میں امام کی گہ بنائی گئی تو اسے بھی محراب کہہ دیا گیا ۔ اور بعض نے اس کے برعکس محراب المسجد کو اصل اور محراب البیت کو اس کی فرع نانا ہے اور یہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْمَلُونَ لَهُ ما يَشاءُ مِنْ مَحارِيبَ وَتَماثِيلَ [ سبأ/ 13] وہ جو چاہتے یہ ان کے لئے بناتے یعنی محراب اور مجسمے ۔ الحرباء گرگٹ کیونکہ وہ سورج کے سامنے اس طرح بیٹھ جاتی ہے گویا اس سے جنگ کرنا چاہتی ہے نیز زرہ کے حلقہ یا میخ کو بھی صوری مشابہت کی بنا پر حرباء کہاجاتا ہے جیسا کہ ضب اور کلب کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے اس کی بعض حصوں کو ضبہ اور کلب کہہ دیتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

جج روزانہ عدالت لگانے کا پابند نہیں اور نہ ہی شوہر روزانہ بیوی کے پاس جانے کا پابند ہے قول باری ہے (وھل اتاک نبا الخصم اذ توسروا المحراب۔ بھلا آپ کو ان اہل مقدمہ کی خبر پہنچی ہے جب وہ دیوار پھاند کر حجرہ میں آگئے) ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسحاق سے روایت بیان کی، انہیں حسن بن ابی الربیع نے، انہیں عبدالرزاق نے، انہیں معمر نے عمروبن عبید سے، انہوں نے حسن سے اس قول باری کی تفسیر میں روایت کی کہ حضرت دائود (علیہ السلام) نے اوقات کو چاردنوں پر تقسیم کررکھا تھا۔ ایک دن بیویوں کے لئے مخصوص تھا۔ ایک دن فیصلوں کے لئے، ایک دن عبادت کے لئے اور ایک دن بنی اسرائیل کے سائلین کے سوالات اور درخواستیں سننے کے لئے ۔ حسن نے باقی ماندہ روایت کا بھی ذکر کیا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ چیز اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ قاضی کے لئے مقدمات کے فیصلوں کی خاطر ہر روز عدالت لگانا ضروری نہیں ہے بلکہ اس کے لئے گنجائش ہے کہ ہر چار دنوں میں سے ایک دن اس کام کے لئے مخصوص کردے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے شوہر پر اپنی بیوی کے نزدیک ہر روز موجود گی ضروری نہیں ہے بلکہ ہر چار دن میں ایک دن باری مقرر کردینا جائز ہے۔ محراب کسے کہتے ہیں ؟ ابوعبیدہ کا قول ہے کہ محراب کسی بٹیھک کی درمیان والی جگہ کو کہتے ہیں۔ اسی لئے محرب المسجد بنا ہے کیونکہ محراب وسط میں ہوتا ہے۔ ایک قول کے مطابق محراب بالا خانہ اور حجرہ کو کہتے ہیں۔ قول باری (اذتسوروالمحراب) اس پر دلالت کرتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

محمد بھلا آپ کو داؤد کے ان اہل مقدمہ کی خبر بھی پہنچی ہے جو حضرت داؤد کے پاس مقدمہ لائے تھے اور عبادت خانہ کی دیوار پھاند کر آپ کے پاس پہنچے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ { وَہَلْ اَتٰٹکَ نَبَؤُا الْخَصْمِ } ” اور کیا آپ کے پاس خبر آئی ہے جھگڑنے والوں کی ؟ “ یہ ایک مقدمہ تھا جو دو دعویداروں نے فیصلے کے لیے حضرت دائود (علیہ السلام) کے سامنے پیش کیا۔ { اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ } ” جب وہ دیوار پھلانگ کر محراب میں داخل ہوگئے۔ “ حضرت دائود (علیہ السلام) تنہائی میں محو عبادت تھے کہ دو اشخاص اچانک آپ ( علیہ السلام) کے حجرے میں آدھمکے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

21 The object why the Prophet David has been mentioned here is to relate the story that begins from here; the object of mentioning his sterling qualities in the introduction was only to point out the high calibre of the Prophet David with whom this incident took place.

سورة صٓ حاشیہ نمبر :21 حضرت داؤد کا ذکر جس غرض کے لیے اس مقام پر کیا گیا ہے اس سے مقصود دراصل یہی قصہ سنانا ہے جو یہاں سے شروع ہوتا ہے ۔ اس سے پہلے ان کی جو صفات عالیہ بطور تمہید بیان کی گئی ہیں ان کا مقصد صرف یہ بتانا تھا کہ داؤد علیہ السلام ، جن کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا ہے ، کس مرتبے کے انسان تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

11: یہاں سے آیت نمبر 24 تک جو واقعہ بیان ہوا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت داود (علیہ السلام) سے کوئی لغزش ہوگئی تھی، اللہ تعالیٰ نے اس لغزش پر تنبیہ کرنے کے لیے یہ دو آدمی غیر معمولی طریقے سے آپ کے پاس اس وقت بھیجے جب آپ اپنی عبادت گاہ میں تھے۔ ان دونوں نے اپنا ایک جھگڑا فیصلے کے لیے آپ کے سامنے پیش کیا۔ آپ نے فیصلہ تو فرما دیا لیکن اس کے ساتھ ہی آپ سمجھ گئے کہ یہ مقدمہ جو آپ کے سامنے پیش کیا گیا ہے، اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ایک لطیف پیرائے میں انہیں تنبیہ کی ہے، اس لیے وہ فوراً سجدے میں گر گئے، اور توبہ اور استغفار میں مشغول ہوگئے۔ قرآن کریم نے یہ تفصیل نہیں بتائی کہ وہ لغزش کیا تھی؟ اور اس مقدمے کے پیش ہونے سے انہیں اس کا خیال کس طرح آیا؟ کیونکہ قرآن کریم تو صرف یہ سبق دینا چاہتا ہے کہ بھول چوک تو انسان کی خاصیت ہے، بڑے بڑے بزرگوں، یہاں تک انبیائے کرام سے بھی معمولی قسم کی لغزشیں ہوجاتی ہیں، لیکن یہ حضرات اپنی کسی لغزش پر اصرار نہیں فرماتے، بلکہ جونہی اپنی غلطی واضح ہوتی ہے، فوراً اللہ تعالیٰ سے رجوع کر کے اس پر توبہ اور استغفار کرتے ہیں۔ یہ عملی سبق حضرت داود (علیہ السلام) کے اس واقعے کی تفصیل جاننے پر موقوف نہیں ہے۔ البتہ جو حضرات مفسرین تفصیل میں گئے ہیں، انہوں نے مختلف باتیں کہی ہیں۔ اس سلسلے میں طرح طرح کی داستانیں بھی گھڑی گئی ہیں جن میں سے ایک بے ہودہ داستان بائبل میں بھی ہے کہ حضرت داود (علیہ السلام) نے اپنے ایک سپہ سالار ’’ اور یا‘‘ کی بیوی سے (معاذ اللہ) زنا کا ارتکاب کیا تھا۔ لیکن یہ داستان تو بیان کرنے کے بھی لائق نہیں ہے۔ ایک جلیل القدر پیغمبر کے بارے میں، جنہیں خود قرآن کریم کے بیان کے مطابق اللہ تعالیٰ کا خاص تقرب حاصل تھا, ایسی بات یقیناً من گھڑت ہے۔ البتہ بعض مفسرین نے یہ روایت بیان کی ہے کہ اس زمانے میں کسی شخص کی بیوی سے نکاح کرنے کی خواہش ظاہر کر کے اس کے شوہر سے یہ فرمائش کرنا معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دیدے۔ یہ ایک عام رواج تھا جس پر کوئی برا بھی نہیں مانتا تھا۔ اور یا کی بیوی چونکہ بہت ذہین تھی، اس لیے حضرت داود (علیہ السلام) نے اپنے معاشرے کے چلن کے مطابق اس سے یہ فرمائش کی تھی کہ وہ اسے طلاق دیدے، تاکہ وہ حضرت داود (علیہ السلام) کے نکاح میں آسکے۔ ایسی فرمائش نہ تو گناہ تھی، کیونکہ شوہر کو حق حاصل تھا کہ وہ یہ بات مانے یا نہ مانے، اور نہ معاشرے کے رواج کے مطابق معیوب تھی، لیکن ایک جلیل القدر پیغمبر کے شایان شان نہیں تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس لطیف پیرائے میں آپ کو تنبیہ فرمائی۔ چنانچہ آپ نے اس پر استغفار فرمایا، اور پھر نکاح کی تجویز پر عمل بھی نہیں کیا۔ یہ تشریح اگرچہ بائبل والے واقعے کی طرح لغو تو نہیں ہے، لیکن کسی مستند روایت سے ثابت بھی نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ لغزش جو کوئی بھی تھی، اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک جلیل القدر پیغمبر کو اس پر نہ صرف یہ کہ معاف فرمایا، بلکہ اس پر اتنا پردہ ڈالا کہ قرآن کریم میں بھی اسے صراحت کے ساتھ بیان نہیں فرمایا، اس لیے اس بات کی چھان بین جسے اللہ تعالیٰ نے خود خفیہ رکھا ہے، نہ تو اس جلیل القدر پیغمبر کی تعظیم کے شایان شان ہے، نہ اس کی کوئی ضرورت ہے، لہذا اسے اتنا ہی مبہم رکھنا چاہئے جتنا قرآن کریم نے اسے مبہم رکھا ہے، کیونکہ جو سبق قرآن کریم دینا چاہتا ہے، وہ اس کے بغیر بھی پوری طرح حاصل ہوجاتا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(38:21) ہل۔ استفہامیہ ہے۔ تعجب تشویق الی السماع کے لئے ہے۔ جب کسی واقعہ کی اہمیت پر مخاطب کو متوجہ کرنا ہو تو اس کا آغاز اس قسم کے استفہام سے کیا جاتا ہے تاکہ سننے والا ہمہ تن گوش متوجہ ہوکر واقعہ کو سنے اور عبرت حاصل کرے۔ اتک : اتی ماضی۔ واحد مذکر غائب ک ضمیر واحد مذکر حاضر ۔ تیرے پس آئی (خبر) نبؤا الخصم۔ مضاف مضاف الیہ۔ نبا خبر۔ الخصم مصدر ہے اسی لئے اس کا اطلاق ایک ، دو ، اور زیادہ پر بھی ہوتا ہے یہاں مراد دو جھگڑنے والے ہیں۔ اس کے جمع کی ضمیر خصم کی طرف راجع کی گئی ہے۔ دو کیطرف جمع کی ضمیر راجع کرنا عربی زبان میں درست ہے جیسے قرآن مجید میں اور جگہ آیا ہے ان تتوبا الی اللّٰہ فقد صغت قلوبکما (66:4) اگر تم دونوں خدا کے آگے توبہ کرو (تو بہتر ہے کیونکہ) تم دونوں کے دل کج ہوگئے ہیں۔ اس میں جمع کی (قلوب کی) اضافت تثنیہ کی طرف کی گئی ہے۔ جملہ وہل اتک نبوا الخصم کا عطف انا سخرنا ۔۔ پر ہے اور یہ عطف القصۃ علی القصۃ کے قبیل سے ہے بعض کے نزدیک اس کا عطف اذکر ۔۔ پر ہے۔ اذ : جب۔ اس کا تعلق الخصم کے مضاف سے ہے جو اس سے قبل محذوف ہے۔ تقدیر کلام یوں ہوگی :۔ وہل اتک نبأ تحاکم الخصم اور کیا آپ کو دو مخالف فریق کا باہمی جھگڑے کا فیصلے کے لئے حاکم کے پاس لے جانے کا قصہ معلوم ہے ؟ تسوروا۔ ماضی جمع مذکر غائب تسور (تفعل) مصدر سے جس کے معنی دیوار یا شہر کے اردگرد بلند حفاظت کے لئے بنائی جائے شہر پناہ۔ فصیل، یہاں مراد وہ دیوار جو محروب کے اردگرد حفاظت کے لئے بنائی ہوئی تھی۔ المحراب اسم مفرد۔ محاریب جمع۔ بالاخانہ۔ کمرہ ۔ یہاں مراد عبادت خانہ ۔ کمرہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13 اکثر علمائے تاویل کا قول ہے کہ یہ جھگڑنے والے دو فرشتے تھے جو آدمی کی شکل میں آئے تاکہ حضرت دائود ( علیہ السلام) کو ان کی غلطی پر متنبہ کریں اور ان کا یہ مقدمہ بطور فرض تھا نہ کہ حقیقتاً ۔ پس ان فرشتوں کا جھوٹ بولنا لازم نہیں آتا جیسا کہ امام رازی (رح) نے اس لزوم کی بناء پر اس تاویل کی تردید کی ہے۔ ( قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 21 تا 26 : الخصم ( جھگڑنے والا ، فریق) تسوروا (انہوں نے دویوار کو پھاند لیا) المحراب (محراب ، عبادت گاہ) فزع (وہ گھبرا گیا) بغی ( اس نے زیادتی کی) لا تشطط ( اشطاط) بےانصافی نہ کر) تسع و تسعون ( ننانوے) نعجۃ ( دنبی ( دنبہ کی مونث) اکفلنی ( میرے حوالے کر دے) عزنی ( اس نے مجھے دبا لیا ، مغلوب کردیا) الخطائ ( شریک ، شرکائ ( تجارتی پارٹنر) خر ( وہ گر پڑا) اناب ( اس نے رجوع کیا ، وہ پلٹا) نسوا ( انہوں نے بھلا دیا) تشریح : آیت نمبر 21 تا 26 :۔ حضرت دائود (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے جلیل القدر پیغمبروں میں سے نبی بھی ہیں اور صاحب کتاب رسول بھی ۔ جالوت جیسے ظالم بادشاہ کو قتل کرنے کے بعد وہ بنی اسرائیل کی آنکھ کا تارا بن گئے تھے۔ حضرت طالوت جن کی سربراہی میں جالوت کے زبردست لشکر کو مٹھی بھر مسلمانوں نے بد ترین شکست دے کر میدان سے بھاگنے پر مجبور کردیا تھا انہوں نے حضرت دائود (علیہ السلام) کی شجاعت و بہادری ، تقویٰ اور پرہیز گاری کو دیکھ کر ان سے اپنی بیٹی کا نکاح کردیا تھا ۔ حضرت طالوت کے انتقال کے بعد حضرت دائود (علیہ السلام) نے نظام حکومت کو سنبھالا اور بڑی تیزی سے کفار و مشرکین کو شکست پر شکست دے کر بنی اسرائیل کی عظیم مملکت کی بنیاد رکھ دی ۔ یہ حضرت دائود (علیہ السلام) کی عظمت ہے کہ آپ نبی اور رسول ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انصاف پسند حکمران ، بادشاہ اور ایک اصول پسند انسان تھے جن کی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی بہت تعریف فرمائی ہے۔ انہوں نے اپنے گھر میں ایک ایسا نظام بنا رکھا تھا کہ چوبیس گھنٹوں میں کوئی ایسا وقت نہ ہوتا تھا جس میں حضرت دائود (علیہ السلام) اور آل دائود میں سے کوئی نہ کوئی اللہ کی عبادت و بندگی میں مشغول نہ ہوتا ۔ حضرت دائود (علیہ السلام) ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے ۔ انہوں نے رات کے اوقات کو بھی اسی طرح تقسیم کر رکھا تھا کہ جس میں ایک تہائی رات عبادت کرتے اور بہت کم آرام فرماتے تھے۔ حضرت دائود (علیہ السلام) نے اپنے دنوں کو اس طرح تقسیم کر رکھا تھا کہ ایک دن دربار عام ہوتا دوسرے دن آپ مقدمات کو سن کر عدل و انصاف سے لوگوں کے درمیان فیصلے کرتے اور ایک دن آپ نے اپنے گھر والوں کے لئے مخصوص کر رکھا تھا ۔ آپ کے اصول اتنے مضبوط تھے کہ اس کے خلاف کسی بات کو پسند نہ فرماتے تھے ۔ ایک رات آپ اپنے محل میں اللہ کی عبادت و بندگی میں مشغول تھے چاروں طرف پہرے دار موجود تھے آپ نے دیکھا کہ دو آدمی دیوار پھاند کر اندر آگئے ہیں ۔ انہوں نے آتے ہی بڑی بےباکی سے کہا کہ آپ گھبرایئے مت ہم دونوں ایک مسئلہ میں فریق ہیں اگر آپ ہمارے درمیان فیصلہ کرا دیں اور ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت دے دیں گے تو ہماری مشکل حل ہو سکتی ہے ۔ حالانکہ حضرت دائود (علیہ السلام) ایک اصول پسند ، عبادت گزار تھے انہوں نے ان دونوں کے آنے پر حیرت تو کی مگر نہ تو ان دونوں کو سزا دی نہ ان کو برا بھلا کہا بلکہ ان کی بات کو نہایت توجہ سے سن کر جو بھی عدل و انصاف کا تقاضا تھا اس کے مطابق فیصلہ فرما دیا ۔ ان دونوں میں سے ایک نے کہا یہ میرا بھائی ہے اس کے پاس نناوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے۔ اب یہ کہتا ہے کہ وہ ایک دنبی مجھے دے دو چونکہ یہ طاقت ور ہے تو اس نے مجھے اس بات میں دبا رکھا ہے۔ اس صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے ؟ حضرت دائود (علیہ السلام) نے فرمایا کہ واقعی اس نے تیری دنبی اپنی دنبیوں کے ساتھ ملانے کی درخواست کر کے بڑی زیادتی کی ہے۔ آپ نے ایک اصول کی بات بھی فرما دی کہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ آپس میں شریک لوگ ایک دوسرے پر زیادتی کر جاتے ہیں ۔ البتہ وہ لوگ جنہوں نے ایمان اور عمل صالح کا راستہ اختیار کر رکھا ہے اگرچہ وہ بہت تھوڑے سے ہیں لیکن وہ اس ظلم و زیادتی سے بچے رہتے ہیں ۔ حضرت دائود (علیہ السلام) کے فیصلے کے بعد وہ دونوں جیسے ہی گئے وہ سوچنے لگے کہ اتنے زبردست پہرے کے باوجود دو آدمیوں کا اچانک ان کی خلوت گاہ اور عبادت گاہ میں آجانا اور بڑی بےباکی سے انصاف کا طلب کرنا بڑا عجیب واقعہ ہے۔ ایک دم حضرت دائود (علیہ السلام) کو احساس ہوا کہ شاید یہ دونوں اللہ کی طرف سے میری آزمائش کے لئے بھیجے گئے تھے۔ ممکن ہے مجھے اپنی سلطنت ، فوج ، مال و دولت اور عبادت پر فخر اور نازہو گیا تھا تو اللہ نے مجھے آگاہ کرنے کے لئے ان کو بھیجا ہوگا کہ ہزار پہروں کے باوجود یہ اللہ کی قدرت تھی کہ دو اجنبی اندر داخل ہوگئے تھے۔ جیسے ہی آپ اس نتیجے تک پہنچے تو نہایت عاجزی سے سجدہ میں گر پڑے اور اپنے قصور کی اللہ سے معافی مانگنے لگے اور سب چیزوں کی طرف سے اپنی طبیعت کو ہٹا کر اللہ کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اللہ جس کو بندوں کی عاجزی و انکساری بہت پسند ہے اس نے حضرت دائود (علیہ السلام) کی توبہ کو قبول کرلیا ان کے قصور کو معاف فرما دیا اور فرمایا کہ بلا شبہ ہمارے پاس ان کا بہترین مقام اور رتبہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے دائود (علیہ السلام) بیشک میں نے تمہیں زمین پر اپنا خلیفہ بنا دیا ہے۔ تم لوگوں کے درمیان حق و انصاف سے فیصلے کرو ۔ اپنی خواہشات کی طرف نہ دیکھو کیونکہ اگر تم نے اپنی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ تمہیں راستے سے بھٹکا دے گا اور جو لوگ اللہ کے راستے سے بھٹک جاتے ہیں ان کو سخت سزا دی جاتی ہے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس دن کا بھلا دیا ہے جب تمام لوگوں کو ایک ایک لمحے کا حساب دینا ہوگا ۔ ان آیات سے متعلق چند باتیں۔ (1) جو دو فریق معاملہ حضرت دائود (علیہ السلام) کی محراب یعنی عبادت گاہ میں داخل ہوئے تھے وہ کون تھے اور کیا چاہتے تھے ؟ تو عرض ہے کہ غالباً یہ دونوں اللہ کی طرف سے بھیجے گئے فرشتے تھے جو ان کو کسی خاص واقعہ یا کسی خاص بات سے آگاہ اور خبردار کرنے آئے تھے۔ اس سلسلہ میں توریت یعنی اسرائیل روایات میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ ایک افسانے سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے کیونکہ ایک جلیل القدر پیغمبر اس سطح تک نہیں گر سکتا کہ وہ اپنی خواہش کے لئے دوسروں کے گھر برباد کر دے۔ یہودیوں کے سازشی ذہن نے یہ قصہ گھڑ کر توریت میں شامل کردیا ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) کسی شادی شدہ عورت پر فریفتہ ہوگئے تھے اور انہوں نے اس کے شوہر سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اپنی بیوی کو آزاد کر دے تا کہ وہ اس سے نکاح کرسکیں ۔ ایسا ممکن تو ہو سکتا تھا کیونکہ بنی اسرائیل میں اس طرح کی خواہش کوئی عیب کی بات نہ تھی بلکہ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ ایک شخص دوسرے کی خواہش کے احترام میں اپنی بیوی کو طلاق دے کر چھوڑ دیتا اور دوسرا اس سے نکاح کرلیا کرتا تھا ۔ ممکن ہے کسی درجہ میں حضرت دائود (علیہ السلام) نے سوچا ہو لیکن ان کے مقام اور رتبہ کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی اس ارادہ سے رک جانے کے لئے آگاہ کیا گیا ہو اور اسی لئے دو فرشتوں کو آدمیوں کی شکل میں بھیجا گیا ہوتا کہ ان کی آزمائش بھی کی جائے اور ان کو اس ارادے سے روک دیا جائے۔ (2) نناوے کے لفظ سے بعض لوگوں نے یہ کہا ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) کے گھر میں نناوے بیویاں تھیں اور ایک اور سے نکاح کرنے کی خواہش تھی ۔ اس سلسلہ میں عرض ہے کہ ایسی کوئی روایت موجود نہیں ہے کہ ان کے گھر نناوے بیویاں تھیں بلکہ ان کے گھر میں کثرت سے بیویوں کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے۔ (3) انبیاء کرام اور ان کے طریقے پر چلنے والوں کا یہ حال ہوتا ہے کہ اگر غفلت میں ان سے کوئی کوتاہی ہوجائے تو وہ فوراً جھک کر عاجزی و انکساری سے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اپنی بےبسی کا اظہار کرتے ہوئے اللہ سے معافی مانگ لیتے ہیں اور اللہ ایسے لوگوں کے قصور کو اسی وقت معاف فرما دیتا ہے۔ حضرت دائود (علیہ السلام) جنہیں اللہ نے ایک بڑا مقام عطاء کیا تھا جب انہیں اس کا احساس ہوا کہ شاید مجھ سے کوتاہی ہوگئی ہے تو وہ فوراً ہی سجدہ میں گر گئے اور اللہ سے معافی مانگنے لگے۔ اسی لئے سورة ص کی اس آیت پر سجدہ کرنا واجب ہے۔ جس طرح حضرت دائود (علیہ السلام) نے اللہ کے سامنے سجدہ کیا تھا۔ چناچہ حضرت سعید ابن جبیر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة ص کی اس آیت پر سجدہ فرمایا تھا ۔ آپ نے فرمایا کہ حضرت دائود (علیہ السلام) نے توبہ کے طور پر سجدہ کیا تھا اور ہم شکر کے طور پر سجدہ کر رہے ہیں ۔ اسی طرح حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ میں سورة ص کی آیت سجدہ کو پڑھا تو آپ منبر سے نیچے اتر آئے جب آپ نے سجدہ کیا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھ کر تمام صحابہ کرام (رض) نے بھی سجدہ کیا ۔ (4) اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ دو صاحب معاملہ لوگ ایک دوسرے پر زیادتی کر جاتے ہیں ۔ طاقت ورکمزور کو کچلنے کی کوشش کرتا ہے اور مال دار مفلس اور غر یب آدمی کو دبانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن جو لوگ اللہ پر ایمان لا کر اس کی رضا و خوشنودی کے لئے اس کی عبادت کرتے ہیں وہ دوسروں پر ظلم و زیادتی سے پوری طرح بچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اگرچہ ایسے لوگ دنیا میں بہت تھوڑی سے ہوتے ہیں مگر وہ سچائی کو قائم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ (5) اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود (علیہ السلام) سے فرمایا کہ تم دنیا میں اللہ کے خلیفہ اور نائب ہو تمہارا کام یہ ہے کہ ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف سے کام لو اور اپنی خواہشات کو بھلا دو کیونکہ اپنی خواہشات کے پیچھے وہی لوگ لگے رہتے ہیں جو گمراہ ہیں اور آخرت میں زندگی کے ہر لمحے کا حساب دینے پر یقین نہیں رکھتے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت داؤد (علیہ السلام) کی حیات مبارکہ کا اہم واقعہ۔ قرآن مجید کا یہ بھی انداز تکلم ہے کہ وہ بعض دفعہ اہم ترین واقعات کو سوالیہ انداز میں شروع کرتا ہے تاکہ سننے والا ہمہ تن گوش ہو کر بات سنے اسی بنا پر حضرت داؤد (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کرنے سے پہلے نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ کیا آپ کے پاس جھگڑنے والے دو آدمیوں کی خبر پہنچی ہے جو داؤد (علیہ السلام) کے خلوت خانہ میں دیوار پھلانگ کر داخل ہوئے تھے۔ یہاں سرمایہ دارانہ ذہن کی عکاسی کرتے ہوئے بتلا یا گیا ہے کہ ایک کے پاس ننانوے دنبیاں تھیں اور اس کے بھائی کے پاس ایک تھی ننانوے دنبی رکھنے والے کی حرص کا یہ عالم تھا کہ اسے اپنے بھائی کے ہاں ایک دنبی بھی گوارا نہ تھی۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے فیصلہ دیا کہ سو دنبی رکھنے والے کا آپ کی دنبی کا مطالبہ کرنا ظلم ہے اور ایمانداروں کے سوا اکثر شراکت دار ایسا ہی کیا کرتے ہیں اس کے ساتھ حضرت داؤد (علیہ السلام) کو اپنی غلطی کا احساس ہوا انہوں نے اپنے رب سے معافی طلب کی اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا۔ کیونکہ وہ اپنے رب کے بہت مقرب اور بہترین مقام کے حامل تھے اس کی تفصیل پہلی آیت کے تفسیر میں گزر چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی شخص دولت کا پجاری اور سرمایہ پرستی کا شکار ہوجائے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ میں مارکیٹ کے سارے کاروبار پر قبضہ کرلوں اور جب چاہوں لوگوں کو بلیک میل کروں اسی ذہنیت کا نتیجہ ہے۔ کہ ہمارے ملک میں کبھی اناج کے لوگوں کو چینی میسر نہیں ہوتی اور کبھی ایک ایک دانے کے پیچھے سرگرداں دکھائی دیتے ہیں اور یہی صورتحال بین الاقوامی مارکیٹ میں دکھائی دیتی ہے کہ سرمایہ دار طبقہ ہوس پرستی کی وجہ سے جب چاہتا ہے کسی چیز کا قحط پیدا کردیتا ہے۔ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے لوگوں کی ہوس کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَوْ أَنَّ لِإِبْنِ آدَمَ وَادِیًا مِّنْ ذَھَبٍ أَحَبَّ أَنْ یَکُوْنَ لَہٗ وَادِیَانِ وَلَنْ یَمْلَأَ فَاہُ إِلَّا التُّرَابُ وَیَتُوْبُ اللّٰہُ عَلٰی مَنْ تَابَ ) [ رواہ البخاری : باب مایتقی من فتنۃ المال ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر آدم کے بیٹے کے پاس سونے کی ایک وادی ہو تو وہ پسند کرے گا کہ اس کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں۔ اس کے منہ کو مٹی کے علاوہ کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ اللہ جس پر چاہتا ہے توجہ فرماتا ہے۔ “ سرمایہ رکھنے والے حضرات میں اکثر طور پر رعونت پیدا ہوجاتی ہے وہ دولت کے بل بوتے پر ہر کسی پر حکم چلانا چاہتا ہے۔ اسی ذہن کی بدولت اہل مکہ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ بھی اعتراض کرتے تھے کہ آپ مال کے اعتبار سے کمزور اور سماجی حوالے سے یتیم ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ضرور ہی کسی شخص کو نبی بنانا تھا تو وہ طائف اور مکہ میں سے کسی سردار کو بناتا۔ (وَقَالُوْا لَوْلاَ نُزِّلَ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ )[ الزخرف : ٣١] ” کہتے ہیں یہ قرآن دو شہروں کے بڑے آدمیوں میں سے کسی ایک پر کیوں نہ نازل کیا گیا۔ “ اسی ذہنیت کی بنیاد پر سو دنبی رکھنے والا شخص اپنے بھائی سے تحکمانہ انداز میں مطالبہ کرتا تھا کہ تجھے اپنے دنبی میرے حوالے کر دینی چاہیے۔ اس زیادتی کے باوجود غریب آدمی حضرت داؤد (علیہ السلام) کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرتے ہوئے ننانوے دنبی رکھنے والے کو بھائی کے لفظ سے پکارتا ہے۔ غریب اور امیر کی زبان میں یہ فرق ہے جو ہر دور میں دکھائی دیتا ہے۔ مسائل ١۔ لوگوں کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ کرنا چاہیے۔ ٢۔ حکمران کو لوگوں کی صحیح راہنمائی کرنی چاہیے۔ ٣۔ بڑے لوگوں کو چھوٹے لوگوں کے حقوق غصب نہیں کرنے چاہیے۔ ٤۔ اکثر شراکت دار ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں۔ ٥۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے اپنے رب کے حضور استغفار کیا۔ ٦۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا۔ ٧۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) اپنے رب کے ہاں بڑے مقام والے تھے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 21 تا 24 اس واقعہ کی تشریح یہ ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) اپنے وقت کا ایک حصہ امور مملکت کو دیتے تھے ، لوگوں کے درمیان فیصلے کیا کرتے تھے۔ کچھ وقت وہ خلوت تنہائی ، عبادت اور حمد و ثنا اور حمد الہٰی کے ترانے پڑھنے کے لیے دیتے تھے۔ جب آپ محراب میں خلوت گزیں ہوتے تو کسی کو اندر آنے کی اجازت نہ ہوتی تھی۔ جب تک کہ آپ خود باہر نہ آجائیں۔ ایک دن یوں ہوا کہ دو افراد دیوار پھلانگ کر اس خلوت گاہ میں گھس آئے۔ آپ ان کے اس طرح گھس آنے سے گھبراگئے۔ کیونکہ کوئی اہل ایمان یا کوئی ذمہ دار شخص یوں ان کی خلوت گاہ میں نہ آسکتا تھا۔ چناچہ ان دو افراد نے بھی آپ کے خوف کو محسوس کیا اور جلدی سے آپ کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت داؤد (علیہ السلام) کی خدمت میں دو شخصوں کا حاضر ہو کر فیصلہ چاہنا اور آپ کا فیصلہ دینا ان آیات میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کا قصہ بیان فرمایا اور اس کے بعد والی آیات میں یہ بتایا کہ ہم نے داؤد کو زمین کا خلیفہ بنانے کا اعلان کیا تھا اور انہیں حکم دیا تھا کہ آپ انصاف کے ساتھ لوگوں میں فیصلہ کریں، یہاں جو قصہ ذکر فرمایا وہ یہ ہے کہ وہ شخص اپنا مقدمہ لے کر حضرت داؤد (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آئے بھی کس طرح ؟ دروازے سے آنے کی بجائے دیوار پھاند کر آئے اور تنہائی میں ان کے پاس پہنچ گئے انہوں نے عبادت کے لیے ایک جگہ بنا رکھی تھی جسے محراب سے تعبیر فرمایا وہ مشغول عبادت بھی تھے جب ان دونوں پر نظر پڑی تو بتقاضائے بشریت گھبرا گئے ان دو شخصوں نے ان کی گھبراہٹ کو محسوس کرلیا اور کہنے لگے کہ آپ ہماری وجہ سے خوف زدہ نہ ہوں ہم کوئی چور ڈاکو نہیں ہیں ہم اپنا مقدمہ لے کر حاضر ہوئے ہیں ہم میں ایک مدعا اور دوسرا مدعی علیہ ہے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے، آپ ہمارا مقدمہ سن لیجیے اور انصاف سے فیصلہ کردیجیے اور فیصلہ میں بےانصافی نہ کیجیے اور ہم کو سیدھی راہ بتا دیجیے۔ پھر ان میں سے ایک بولا کہ یہ میرا (دینی) بھائی ہے اس کے پاس ننانوے یعنی ایک کم سو دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک ہی دنبی ہے اب یہ کہتا ہے کہ وہ بھی مجھے دیدے، اور کہنے میں بھی وہ طریقہ نہیں اختیار کیا جو سوال کرنے والوں کا ہوتا ہے بلکہ مجھے اس سختی کے ساتھ خطاب کیا۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اس نے جو یہ بات اٹھائی کہ تیری جو ایک دنبی ہے وہ تو اسے دیدے اور یہ اسے اپنی دنبیوں میں ملا لے اس کا یہ سوال کرنا ظلم ہے، یہ تو ان دونوں کے مقدمہ کا فیصلہ فرمایا اور ساتھ ہی عام لوگوں کا مزاج اور رواج اور طریقہ کار بھی بیان فرما دیا اور وہ یہ کہ بہت سے لوگ جو شریک ہوتے ہیں، یا مل جل کر رہتے ہیں ان کا یہ طریقہ کار ہوتا ہے کہ ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کرتے ہیں ہاں اہل ایمان اور اعمال صالحہ والے لوگ ایک دوسرے پر زیادتی نہیں کرتے ایسے لوگ ہیں تو سہی مگر کم ہیں۔ اول تو یہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ جل شانہٗ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے واقعہ کو (اصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ ) کے ساتھ شروع فرمایا ہے جس سے واضح ہو رہا ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کو کسی ایسی بات میں مبتلا فرمایا تھا جس میں صبر کی ضرورت تھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ آپ اپنے مخاطبین کی باتوں پر صبر کریں اور داؤد کے قصے کو یاد کریں اس کے بعد یہ بات بیان فرمائی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح میں مشغول رہتے تھے پھر یہ قصہ بیان فرمایا کہ دو شخص ان کے پاس دیوار پھلانگ کر آگئے اور دونوں نے اپنا مقدمہ پیش کیا، انہوں نے ان کا فیصلہ سنا دیا، اس میں یہ بات تلاش کرنے کی ہے کہ اس میں صبر کرنے کی کون سی بات تھی، اس بارے میں روایات حدیث سے کوئی بات واضح نہیں ہوتی، البتہ اتنی بات قرآن مجید کے سیاق اور بیان سے معلوم ہو رہی ہے کہ جو دو شخص ان کے پاس تنہائی میں پہنچ گئے تھے وہ وقت ان کی عبادت کرنے کا تھا فیصلہ خصومات کا وقت نہ تھا پھر وہ دونوں دیواریں کود کر آئے جب داؤد (علیہ السلام) کو ان سے گھبراہٹ ہوئی تو انہوں نے تسلی تو دیدی کہ آپ گھبرائیے نہیں لیکن بےوقت پہنچے پھر دیوار کود کر آئے اور ساتھ ہی یوں کہہ دیا کہ (فَاحْکُمْ بَیْنَنَا بالْحَقِّ ) کہ آپ ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیجیے اور مزید یوں کہا کہ بےانصافی نہ کیجیے اور ساتھ ہی یوں بھی کہہ دیا کہ سیدھی راہ بتا دیجیے ان باتوں سے ایک طرح کی بےادبی ظاہر ہوتی تھی جس سے ابہام ہوتا تھا کہ داؤد (علیہ السلام) ناحق فیصلہ بھی کرسکتے ہیں اور زیادتی بھی کرسکتے ہیں، داؤد (علیہ السلام) نبی ہونے کے ساتھ ساتھ جلیل القدر بادشاہ بھی تھے مدعی اور مدعیٰ علیہ کی باتیں سن کر صبر کیا اور تحمل سے کام لیا ان متواتر گستاخیوں پر کوئی دار و گیر نہیں فرمائی بلکہ بڑی نرمی کے ساتھ ان کا مقدمہ سنا اور فیصلہ فرما دیا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

23:۔ وھل الخ۔ تسوروا : دیوار پھاند کر داخل ہوئے۔ ولا تشطط : حق سے تجاوز نہ کرنا۔ نعجۃ : ولد الضان، دنبے کا بچہ۔ اکفلنیہا : وہ مجھے دیدے۔ عزنی : مجھ پر غالب آگیا۔ یہاں سے لے کر وقلیل ماھم تک ایک واقعہ کا ذکر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت داود (علیہ السلام) ایک دن عبادت خانے میں محو عبادت تھے۔ اور عبادت خانے کے دروازے اندر سے بند تھے کہ اچاند دو آدمی دیوار پھاند کر اندر داخل ہوئے۔ حضرت داوٗد (علیہ السلام) ایک دن عبادت خانے میں محو عبادت تھے۔ اور عبادت خانے کے دروازے اندر سے بند تھے کہ اچانک دو آدمی دیوار پھاند کر اندر داخل ہوئے۔ حضرت داوٗد (علیہ السلام) ان کے بلا اجازت اور پھر اس انداز سے داخل ہونے سے گھبرا گئے کہ شاید قتل کے ارادے سے آئے ہیں۔ آنے والوں نے کہا، گھبراؤ نہیں، ہم ایک جھگڑے کا فیصلہ لینے آئے ہیں۔ آپ صحیح فیصلہ صادر فرما کر ہماری راہنمائی فرمائیں۔ بات یہ ہے کہ یہ میرا بھائی ہے، اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک ہے۔ اور یہ میرا بھائی وہ ایک دنبی بھی مجھ سے زبردستی لینا چاہتا ہے۔ اور گفتگو میں مجھ پر غالب آچکا ہے۔ حضرت داوٗد (علیہ السلام) نے ایک فریق کی بات سن کر فرمایا بیشک اس شخص نے تم پر ظلم کیا ہے اور لوگوں کا دستور ہی یہ ہے کہ اکثر لوگ اپنے ساتھیوں پر ظلم و زیادتی کرتے ہی رہتے ہیں البتہ مؤمنین صالحین ایسا نہیں کرتے۔ لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ اسکے بعد ارشاد ہے وظن داوٗد الخ، داوٗد (علیہ السلام) کو خیال آیا کہ یہ تو میرا امتحان تھا لیکن مجھ سے لغزش ہوگئی اس لیے فورًا سجدے میں گر پڑے اور اللہ سے معافی مانگی۔ اس واقعہ میں چونکہ دیوار پھاندنے والوں اور حضرت داؤود (علیہ السلام) کی لغزش کا بالتعیین ذکر نہیں اس لیے ان دونوں کی تعیین میں مفسرین کے درمیان خاصا اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں دشمنانِ اسلام یہودیوں نے بھی اپنی خود ساختہ خرافات کو مسلمانوں میں رائج کرنے کی کوشش کی ہے۔ بعض مفسرین نے یہودیوں کی ان خرافات کو اپنی تفسیروں میں بلا نکیر ذکر کردیا ہے لیکن اکثر محققین مفسرین نے اس اسرائیلی قصے کو بالکلیہ رد کردیا ہے۔ اس اسرائیلی جھوٹے قصے کی رو سے حضرت داؤود (علیہ السلام) کی ننانوے بیویاں تھیں۔ اور ایک دن اپنے ایک امتی کی بیوی پر اتفاقاً نظر پڑگئی۔ اور اس کے حسن و جمال کی بنا پر وہ اسے چاہنے لگے۔ چناچہ اس کے خاوند کو جہاد میں بھیج کر مروا دیا۔ اور اس کی بیوی سے شادی کرلی اور اللہ تعالیٰ نے فرشتے بھیج کر انہیں اس پر متنبہ فرمایا۔ یہ قصہ سراسر جھوٹا اور حضرت داؤود (علیہ السلام) پر افتراء اور ان کی شان بلند کے قطعا منافی ہے۔ یہ حرکت تو ایک کامل مومن سے بھی سرزد نہیں ہوسکتی۔ چہ جائیکہ ایک جلیل القدر پیغمبر اس کا ارتکاب کرے۔ چونکہ یہ واقعہ عصمت انبیاء (علیہم السلام) کے خلاف ہے۔ اس لیے تمام محققین نے اسے باطل و مردود قرار دیا ہے۔ حضرت علی (رض) سے منقول ہے کہ جو شخص حضرت داود (علیہ السلام) کے بارے میں یہ واقعہ بیان کرے گا میں اس کو ایک سو ساٹھ درے ماروں گا جو انبیاء (علیہم السلام) پر بہتان باندھنے کی سزا ہے۔ قال علی (رض) من حدثکم بحدیث داؤود (علیہ السلام) علی ما یرویہ القصاص جلدتہ مائۃ وستین وھو حد الفریۃ علی الانبیاء (مدارک ج 4 ص 29، 30، خازن ج 6 ص 49، بیضاوی ج 2 ص 245، روح ج 23 ص 185، قرطبی ج 15 ص 181، جامع البیان ص 391) ۔ مفسر ابن کثیر فرماتے ہیں۔ قد ذکر المفسرون ھھنا قصۃ اکثرھا ماخوذ من الاسرائیلیات ولم یثبت فیہا عن المعصوم حدیث یجب اتباعہ (ابن کثیر ج 4 ص 31) ۔ امام قاضی عیاض فرماتے ہیں۔ لا یجوز ان یلتفت الی ما سطرہ الاخباریون من اھل الکتاب الذین بدلوا وغیروا ونقلہ بعض المفسرین ولم ینص اللہ تعالیٰ علی شیء من ذلک ولا ورد فی حدیث صحیح والذی نص علیہ اللہ فی قصۃ داود و ظن داوٗد (انما فتناہ ولیس فی قصۃ داوٗد اور یا خبر ثابت (خازن ج 6 ص 49) ۔ علامہ معین الدین بن صفی رقمطراز ہیں۔ وما یذکرہ القصاص لیس لہ اصل یعتمد علیہ (جامع البیان ص 391) ۔ امام بیضاوی تحریر فرماتے ہیں وما قیل انہ ارسل اور یا الی الجھاد مرادا وامر ان یقدم حتی قتل فتزوجہا، ھراء وافتراء (بیضاوی) ۔ امام ابو حیان فرماتے ہیں۔ و یعلم قطعا ان الانبیاء (علیہم السلام) معصومون من الخطایا لا یمکن وقوعہم فی شیء منہا، ضرورۃ اذ لوجوزنا علیہم شیئا من ذلک بطلت الشرائع ولم نثق بشیء مما یذکرون انہ اوحی اللہ بہ الیہم۔ فما حکی اللہ تعالیٰ فی کتابہ یمر علی ما ارادہ تعالیٰ وما حکی القصاص مما فیہ غض من منصب النبوۃ طرحناہ (بحر ج 7 ص 393) ۔ اب سوال یہ ہے کہ اصل لغزش کیا تھی تو اس کا جواب یہ ہے کہ اصل لغزش جو بھی ہو، وہ ترک اولی کے قبیل سے ہوسکتی ہے، از قبیل گناہ نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ باجماع اہل سنت حضرات انبیاء (علیہم السلام) ہر قسم کے گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں۔ البتہ اپنے منصب جلیل کے پیش نظر وہ ترک اولی کو بھی اپنے حق میں گناہ سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے اس طرح الحاح و تضرع سے اس کی معافی مانگتے ہیں جس طرح ہمیں کبیرہ گناہوں پر مانگنی چاہئے۔ ولا بد من القول بانہ لم یکن منہ (علیہ السلام) الا ترک ما ھو الاولی بعلی شانہ والاستغار منہ وھو لا یخل بالعصمۃ (روح ج 23 ص 186) ۔ اصل لغزش کی تعیین میں مفسرین کے اقول مختلف ہیں۔ بعض کے نزدیک لغزش یہ تھی کہ ان کے پڑوس میں ایک عورت عریاں نہا رہی تھی وہ کھڑکی کی طرف بڑھے تو اچانک بلا قصد و ارادہ ان کی نگاہ اس پر پڑگئی۔ لیکن انہوں نے فورًا نگاہ پھیرلی (قرطبی) یہ فعل اگرچہ گناہ نہیں۔ لیکن یہاں یہ مراد نہیں ہوسکتا کیونکہ اس صورت میں دنبیوں کے ذکر کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہتا۔ بعض نے لکھا ہے کہ حضرت داوٗد (علیہ السلام) نے ایک مسلمان سے کہا تھا کہ تم اپنی بیوی کو میری خاطر طلاق دے دو ۔ اور ایسا کرنا ان کے یہاں جائز اور مروج تھا لیکن حضرت داوٗد (علیہ السلام) کی شان رفیع کے خلاف تھا اس لیے تنبیہہ کی گئی اور بعض نے کہا ہے کہ حضرت داود (علیہ السلام) نے ایک مسلمان کے خطبہ پر خطبہ کیا تھا وغیرہ (روح) ۔ لیکن سب سے زیادہ موزوں اور مناسب توجیہہ وہ ہے جو بعض مفسرین نے لکھ ہے۔ اور رئیس المفسرین حضرت الشیخ قدس سرہ نے جسے ترجیح دی ہے۔ اس توجیہہ میں نہ اسرائیلیات کا سہارا لینے کی ضرورت ہے۔ نہ ظواہر نظم کو ظاہر سے پھیرنے کی حاجت اور لغزش بھی خود سیاق نظم ہی سے متعین ہو رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دیوار پھاند کر اندر داخل ہونے والے انسان نہیں تھے بلکہ فرشتے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت داوٗد (علیہ السلام) کے امتحان کے لیے بھیجا تھا۔ روی ان اللہ تعالیٰ بعث الیہ ملکین فی صورۃ انسانین فطلبا ایدخلا علیہ فوجداہ فی یوم عبادتہ فمنعہما الحرس فتسورا المحراب (مدارک ج 4 ص 29) ۔ اور پھر انہوں نے جو صورت قضیہ حضرت داوٗد (علیہ السلام) کے سامنے پیش کی، وہ نفس الامر میں واقع نہیں تھی بلکہ ایک مفروضہ صورت تھی۔ گویا وہ یوں کہہ رہے ہیں کہ اگر ہمارے درمیان یہ صورت پیش آجائے تو اس کا کیا حکم ہے۔ جس طرح اہل نحو فاعل و مفعول کی تمثیل میں کہتے ہیں ضرب زید عمرا، حالانکہ فی الواقعہ وہاں ضرب نہیں ہوتی۔ قال الحسین بن الفضل، ھذا من الملکین تعریض وتنبیہ کقولہم ضرب زید عمرا وما کان ضرب و لا نعاج علی التحقیق کانہ قال نحن خصمان ھذہ حالنا، قال ابو جعفر النحاس واحسن ما قیل فی ھذا ان المعنی یقول خصمان بغی بعضنا علی بعض علی جہۃ المسئلۃ۔ کما تقول : رجل یقول لامراتہ کذا ما یجب علیہ (قرطبی ج 15 ص 173) اس کے بعد حضرت داوٗد (علیہ السلام) نے مدعی علیہ کو صفائی کا موقع دئیے بغیر ہی اپنا فیصلہ صادر فرمادیا۔ یہی لغزش تھا۔ قالا النحاس : فیقال ان ھذہ کانت خطیئۃ داوٗد علیہ السلا، لانہ قال، لقد ظلمک من غیر تثبیت بینۃ ولا اقرار من الخصم (قرطبی ج 15 ص 175) ۔ وقیل ان ذنب داوٗد الذی استغفر منہ لیس ھو بسبب اور یا والمراۃ وانما ھو بسبب الخصمین وکنہ قضی لاحدھما قبل سماع کلام الاخر (خازن ج 6 ص 50) ۔ حضرت داود (علیہ السلام) پہلے تو یہی سمجھے تھے کہ فریقین انسان ہیں۔ اور قضیہ واقعیہ کے بارے میں فیصلہ لینے آئے ہیں لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ فیصلہ سننے کے بعد دونوں سائل ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور پھر ان کے سامنے ہی آسمان کی طرف چڑھ گئے تو سمجھے کہ یہ تو اللہ کی طرف سے ابتلا تھا جس میں مجھ سے لغزش سرزد ہوگئی اس لیے فورًا سربسجود ہوگئے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی وقیل لما قضی بینہما نظر احدہما الی صاحبہ فضحک ثم صعد الی السماء حیال وجہ فعلم بذلک انہ تعالیٰ ابتلاہ (روح ج 23 ص 182) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(21) اوربھلا اے پیغمبر ان جھگڑنے والوں اور مقدمہ والوں کی بات بھی آپ کو پہنچی ہے جبکہ وہ لوگ عبادت خانے کی دیوار کو پھاند کر۔