Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 27

سورة ص

وَ مَا خَلَقۡنَا السَّمَآءَ وَ الۡاَرۡضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَا بَاطِلًا ؕ ذٰلِکَ ظَنُّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۚ فَوَیۡلٌ لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنَ النَّارِ ﴿ؕ۲۷﴾

And We did not create the heaven and the earth and that between them aimlessly. That is the assumption of those who disbelieve, so woe to those who disbelieve from the Fire.

اور ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو ناحق پیدا نہیں کیا یہ گمان تو کافروں کا ہے سو کافروں کے لئے خرابی ہے آگ کی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Wisdom behind the Creation of This World Allah tells us that He did not create the creatures in vain; He created them to worship Him Alone, then He will gather them on the Day of Gathering and will reward the obedient and punish the disbelievers. Allah says: وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاء وَالاَْرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلً ذَلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا ... And We created not the heaven and the earth and all that is between them without purpose! That is the consideration of those who disbelieve! meaning, those who do not think that the resurrection and the place of return will occur, but they think that there is nothing after this world. ... فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ Then woe to those who disbelieve from the Fire! means, woe to them on the Day when they will be resurrected, from the Fire that is prepared for them. Then Allah explains that because of His justice and wisdom, He does not treat the believers and the disbelievers equally. Allah says: أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ امَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الاَْرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ

ارشاد ہے کہ مخلوق کی پیدائش عبث اور بیکار نہیں یہ سب عبادت خالق کے لئے پیدا کی گئی ہے پھر ایک وقت آنے والا ہے کہ ماننے والے کی سربلندی کی جائے اور نہ ماننے والوں کو سخت سزا دی جائے ۔ کافروں کا خیال ہے کہ ہم نے انہیں یونہی پیدا کر دیا ہے؟ اور آخرت اور دوسری زندگی کوئی چیز نہیں یہ غلط ہے ۔ ان کافروں کو قیامت کے دن بڑی خرابی ہو گی کیونکہ اس آگ میں انہیں جلنا پڑے گا جو ان کے لئے اللہ کے فرشتوں نے بڑھکا رکھی ہے ۔ یہ ناممکن ہے اور ان ہونی بات ہے کہ مومن و مفسد کو اور پرہیزگار اور بدکار کو ایک جیسا کر دیں ۔ اگر قیامت آنے والی ہی نہ ہو تو یہ دونوں انجام کے لحاظ سے یکساں ہی رہے ۔ حالانکہ یہ خلاف انصاف ہے قیامت ضرور آئے گی نیک کار جنت میں اور گنہگار جہنم میں جائیں گے ۔ پس عقلی اقتضا بھی دار آخرت کے ثبوت کو ہی چاہتا ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ظالم پاپی اللہ کی درگاہ سے راندہ ہوا دنیا میں خوش وقت ہے مال اولاد فراغت تندرستی سب کچھ اس کے پاس ہے اور ایک مومن متقی پاک دامن ایک ایک پیسے سے تنگ ایک ایک راحت سے دور رہے تو حکمت علیم و حکیم و عادل کا اقتضاء یہ تھا کہ کوئی ایسا وقت بھی آئے کہ اس نمک حرام سے اس کی نمک حرامی کا بدلہ لیا جائے اور اس صابر و شاکر فرمانبردار کی نیکیوں کا اسے بدلہ دیا جائے اور یہی دار آخرت میں ہونا ہے ۔ پس ثابت ہوا کہ اس جہان کے بعد ایک جہاں یقینا ہے ۔ چونکہ یہ پاک تعلیم قرآن سے ہی حاصل ہوئی ہے اور اس نیکی کا رہبر یہی ہے اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ یہ مبارک کتاب ہم نے تیری طرف نازل فرمائی ہے تاکہ لوگ اسے سمجھیں اور ذی عقل لوگ اس سے نصیحت حاصل کر سکیں ۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں جس نے قرآن کے الفاظ حفظ کر لئے اور قرآن پر عمل نہیں کیا اس نے قرآن میں تدبر و غور بھی نہیں کیا لوگ کہتے ہیں ہم نے پورا قرآن پڑھ لیا لیکن قرآن کی ایک نصیحت یا قرآن کے ایک حکم کا نمونہ میں نظر نہیں آتا ایسا نہ چاہئے ۔ اصل غور و خوض اور نصیحت و عبرت عمل ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

27۔ 1 بلکہ ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اور وہ یہ کہ میرے بندے میری عبادت کریں، جو ایسا کرے گا، میں اسے بہترین جزا سے نوازوں گا اور جو میری عبادت و اطاعت سے سرتابی کرے گا، اس کے لئے جہنم کا عذاب ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٥] روز جزا پر عقلی دلیل : دنیا کھیل تماشا نہیں : یعنی ہم نے اس کائنات کو محض کھیل کے طور پر پیدا نہیں کردیا جس کا کوئی مقصد، کوئی غرض اور کوئی حکمت نہ ہو اور کسی کے اچھے یا برے فعل کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو اور اس کائنات میں انسان کو اس لئے نہیں پیدا کیا کہ بےلگام ہو کر جو کچھ جی چاہے کرتا پھرے اور اس سے کوئی باز پرس نہ ہو۔ یہ دنیا کوئی اندھیر نگری نہیں ہے اور جو شخص روز آخرت اور جزاوسزا کا قائل نہیں وہ دراصل اس دنیا کو ایک کھلونا اور اس کے بنانے والے کو کھلنڈرا سمجھتا ہے اس کا خیال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا بنا کر اور انسان کو پیدا کرکے نعوذ باللہ ایک عبث فعل کا ارتکاب کیا ہے۔ سو ایسے آخرت کے منکروں کے لئے آگ کا عذاب تیار ہے مرنے کے بعد جب وہ دوزخ میں پڑیں گے اس وقت انہیں معلوم ہوگا کہ ان کے پیدا کرنے کی کیا غرض تھی ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاۗءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا : پچھلی آیت میں خواہش پرستی کا اصل سبب یوم حساب کو بھولنا بتایا ہے، اب یوم حساب کے حق ہونے کی چند دلیلیں ذکر فرمائیں۔ سب سے پہلی دلیل یہ ہے کہ کوئی شخص اپنا معمولی سا کھیت بھی کسی نوکر کے حوالے کرے تو ممکن نہیں کہ اس سے باز پرس نہ کرے، تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اتنے عظیم الشّان آسمان و زمین اور ان کے مابین کی چیزیں پیدا کیں، پھر زمین پر انسان کو بسایا اور اس کی ہر چیز اس کے لیے پیدا فرمائی، جیسا کہ فرمایا : (ھُوَ الَّذِىْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِى الْاَرْضِ جَمِيْعًا) [ البقرۃ : ٢٩ ] ” وہی ہے جس نے زمین میں جو کچھ ہے سب تمہارے لیے پیدا کیا۔ “ آسمان کو اس کے لیے چھت بنایا، اس کی ہر ضرورت کا بندوبست فرمایا، پھر وہ اس سے اس کی کارکردگی کے متعلق سوال نہ کرے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ یہ سب کچھ اس نے باطل اور بےمقصد ہی پیدا کیا ہے اور یہ سب کچھ محض کھیل ہے جو اللہ تعالیٰ کھیل رہا ہے۔ نہیں ! تم سب کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہے۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی طریقوں سے بیان فرمائی ہے، جیسا کہ فرمایا : (اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ ) [ المؤمنون : ١١٥ ] ” تو کیا تم نے گمان کرلیا کہ ہم نے تمہیں بےمقصد ہی پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف نہیں لوٹائے جاؤ گے ؟ “ اور فرمایا : (وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لٰعِبِيْنَ ۔ مَا خَلَقْنٰهُمَآ اِلَّا بالْحَقِّ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ ۔ اِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيْقَاتُهُمْ اَجْمَعِيْنَ ) [ الدخان : ٣٨ تا ٤٠ ] ” اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کھیلتے ہوئے نہیں بنایا۔ ہم نے ان دونوں کو حق ہی کے ساتھ پیدا کیا ہے اور لیکن ان کے اکثر نہیں جانتے۔ یقیناً فیصلے کا دن ان سب کا مقرر وقت ہے۔ “ ذٰلِكَ ظَنُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : یعنی اس آسمان و زمین اور ان کے درمیان جو کچھ ہے اس کے باطل اور بےمقصد ہونے کا خیال ان لوگوں کا ہے جو توحید و آخرت کے منکر ہیں۔ فَوَيْلٌ لِّــلَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنَ النَّارِ : یہاں ” فَوَیْلٌ لَّھُمْ “ (تو ان کے لیے بڑی ہلاکت ہے) کہنے کے بجائے ” فَوَيْلٌ لِّــلَّذِيْنَ كَفَرُوْا “ (سو ان لوگوں کے لیے جنھوں نے کفر کیا آگ کی صورت میں بڑی ہلاکت ہے) کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس ویل (بڑی ہلاکت) کا باعث ان لوگوں کا کفر ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The delicate order of the verses These verses in which the basic beliefs of Islam, particularly that of the Hereafter, have been emphatically confirmed appear in between the description of events relating to Sayyidna Dawud (علیہ السلام) with an order that is extremely delicate and sublime. Says Imam Razi, if someone is refusing to understand because of obstinacy, the wiser approach is to put away the subject under discussion aside, and start talking about something totally unrelated - and when his mind stands diverted from the first subject, he should be brought around during the flow of conversation to concede to the original proposition. At this place, it is to dwell upon and secure confirmation of the Hereafter that this very method has been used. Being mentioned before the description of the event relating to Sayyidna Dawud (علیہ السلام) there were some postures of obstinacy demonstrated by the disbelievers that concluded at the verse: وَقَالُوا رَ‌بَّنَا عَجِّل لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ يَوْمِ الْحِسَابِ (And they said, |" 0 our Lord, give us our share [ of the punishment ] sooner, before the Day of Reckoning.|" - 38:16). The outcome of all this was to state that those people rejected the existence of the Hereafter and made fun of it. Immediately after that, it was said: اصْبِرْ‌ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَاذْكُرْ‌ عَبْدَنَا دَاوُودَ (Observe patience over what they say and remember Our servant, Dawud - 38:17). By saying so, a new subject was introduced. But, the event relating to Sayyidna Dawud (علیہ السلام) has been concluded with the statement: O Dawud, We have made you a vicegerent on earth, so judge between people with truth. (38:26). Now, from here it is in an imperceptible manner that the Hereafter has been positively confirmed by positing that here is the supreme Being of Allah asking his deputy on the earth to establish the rule of law and justice resulting in punishment for the evil and peace for the good - when so, is it not that the same Being would necessarily establish justice and equity in this universe? Most certainly, it is the dictate of His wisdom that He, rather than herd everyone good or bad with the same stick, punishes the doers of evil and rewards the doers of good. This, then, is the purpose of the creation of this universe, and in order that it translates into reality, it is necessary that there be a Qiyamah (the Last Day) and an &Akhirah (the Hereafter) - something that precisely corresponds to His wisdom. Those who reject the Hereafter are virtually saying that this universe has been created aimlessly, devoid of any wisdom behind it, for everyone good or bad will live his or her time and die with nobody around to ask questions - although, one who has faith in the wisdom of Allah Ta’ ala can never accept this line of reasoning.

خلاصہ تفسیر اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو چیزیں ان کے درمیان موجود ہیں ان کو خالی از حکمت پیدا نہیں کیا۔ (بلکہ بہت سی حکمتیں ہیں، جن میں سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ ان سے توحید اور آخرت ثابت ہوتی ہے) یہ (یعنی ان کا خالی از حکمت ہونا) ان لوگوں کا خیال ہے جو کافر ہیں (کیونکہ جب وحید اور آخرت کی جزا و سزا کا انکار کیا تو کائنات کی تخلیق کی سب سے بڑی حکمت کا انکار کیا) سو کافروں کے لئے (آخرت میں) بڑی خرابی ہے۔ یعنی دوزخ (کیونکہ وہ توحید کا انکار کرتے تھے) ہاں (ایک غلطی ان کی یہ ہے کہ قیامت کے منکر ہیں، حالانکہ قیامت میں یہ حکمت ہے کہ نیکوں کو جزا اور مفسدوں کو سزا ملے، اب ان کے انکار قیامت سے لازم آتا ہے کہ اس حکمت کا تحقق نہ ہو بلکہ سب برابر ہیں) تو کیا ہم ان لوگوں کو جو کہ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے ان کی برابر کردیں گے جو (کفر وغیرہ کر کے) دنیا میں فساد کرتے پھرتے ہیں یا (بالفاظ دیگر کیا) ہم پرہیزگاروں کو بدکاروں کے برابر کردیں گے۔ (یعنی ایسا نہیں ہو سکتا، لہٰذا قیامت ضرور آئے گی تاکہ نیکوں کو جزا اور بدکاروں کو سزا ملے، اسی طرح توحید اور آخرت کے ساتھ رسالت پر ایمان رکھنا بھی ضروری ہے، کیونکہ) یہ (قرآن) ایک بابرکت کتاب ہے جس کو ہم نے آپ پر اس واسطے نازل کیا ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں (یعنی ان کے اعجاز میں بھی اور کثیر النفع مضامین میں بھی) اور تاکہ (غور سے اس کی حقیقت معلوم کر کے اس سے) اہل فہم نصیحت حاصل کریں (یعنی اس پر عمل کریں) ۔ معارف ومسائل آیات کی لطیف ترتیب : یہ آیتیں جن میں اسلام کے بنیادی عقائد، خاص طور سے آخرت کا اثبات کیا گیا ہے، حضرت داؤد و سلیمان (علیہما السلام) کے واقعات کے درمیان انتہائی لطیف ترتیب کے ساتھ آئی ہیں۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ہٹ دھرمی کی وجہ سے نہ سمجھ رہا ہو تو اس سے حکیمانہ طریقہ یہ ہے کہ زیر بحث موضوع چھوڑ کر کوئی غیر متعلق بات شروع کردی جائے۔ اور جب اس کا ذہن پہلی بات سے ہٹ جائے تو باتوں ہی باتوں میں اسے پہلی بات ماننے پر مجبور کردیا جائے۔ یہاں آخرت کے اثبات کے لئے یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے واقعہ سے پہلے کفار کی ہٹ دھرمیوں کا ذکر چل رہا تھا جو اس آیت پر ختم ہوا کہ (آیت) وقالوا ربنا عجل لنا قطنا قبل یوم الحساب۔ جس کا یہ حاصل تھا کہ وہ لوگ آخرت کا انکار کرتے اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اس کے فوراً بعد یہ ارشاد ہوا کہ (آیت) اصبر علیٰ ما یقولون واذکو عبدنا داؤد (ان کی باتوں پر صبر کیجئے اور ہمارے بندے داؤد کو، یاد کیجئے) اس طرح ایک نئی بات شروع کردی گئی، لیکن حضرت داؤد (علیہ السلام) کے واقعہ کو اس بات پر ختم کیا گیا کہ ” اے داؤد، ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے، لہٰذا تم لوگوں میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتے رہنا “ اب یہاں سے ایک غیر محسوس طریقہ پر آخرت کا اثبات کردیا گیا کہ جو ذات زمین میں اپنے خلیفہ کو عدل و انصاف قائم کرنے کا حکم دے رہی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ بدکاروں کو سزا ملے اور نیکوں کو راحت، کیا وہ خود اس کائنات میں عدل و انصاف قائم نہیں کرے گا ؟ یقینا اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اچھے اور برے تمام لوگوں کو ایک لاٹھی سے ہانکنے کے بجائے بدکاروں کو سزا دے، اور نیکو کاروں کو انعام عطا فرمائے، یہی اس کائنات کی تخلیق کا مقصد ہے اور اس کے روبکار آنے کے لئے قیامت و آخرت کا وجود اس کی حکمت کے عین مطابق ہے۔ جو لوگ آخرت کا انکار کرتے ہیں وہ گویا زبان حال سے یہ کہتے ہیں کہ یہ کائنات بےمقصد اور خالی از حکمت پیدا کردی گئی ہے۔ اور اس میں اچھے برے تمام لوگ زندگی گزار کر مر جائیں گے اور پھر ان سے کوئی پوچھنے والا نہ ہوگا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی حکمت پر ایمان رکھنے والا اس بات کو کبھی تسلیم نہیں کرسکتا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاۗءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَہُمَا بَاطِلًا۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ ظَنُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا۝ ٠ ۚ فَوَيْلٌ لِّــلَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنَ النَّارِ۝ ٢٧ۭ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے بطل البَاطِل : نقیض الحق، وهو ما لا ثبات له عند الفحص عنه، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] ( ب ط ل ) الباطل یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔ ظن والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم/ 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن/ 7] ، ( ظ ن ن ) الظن اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ ويل قال الأصمعيّ : وَيْلٌ قُبْحٌ ، وقد يستعمل علی التَّحَسُّر . ووَيْسَ استصغارٌ. ووَيْحَ ترحُّمٌ. ومن قال : وَيْلٌ وادٍ في جهنّم، قال عز وجل : فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة/ 79] ، وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم/ 2] وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الجاثية/ 7] ، فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا [ مریم/ 37] ، فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا [ الزخرف/ 65] ، وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ، وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ [ الهمزة/ 1] ، يا وَيْلَنا مَنْ بَعَثَنا[يس/ 52] ، يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا ظالِمِينَ [ الأنبیاء/ 46] ، يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا طاغِينَ [ القلم/ 31] . ( و ی ل ) الویل اصمعی نے کہا ہے کہ ویل برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور حسرت کے موقع پر ویل اور تحقیر کے لئے ویس اور ترحم کے ویل کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ اور جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ویل جہنم میں ایک وادی کا نام ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة/ 79] ان پر افسوس ہے اس لئے کہ بےاصل باتیں اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور پھر ان پر افسوس ہے اس لئے کہ ایسے کام کرتے ہیں وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم/ 2] اور کافروں کے لئے سخت عذاب کی جگہ خرابی ہے ۔ ۔ فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا [ الزخرف/ 65] سو لوگ ظالم ہیں ان کی خرابی ہے ۔ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ناپ تول میں کمی کر نیوالا کے لئے کر ابی ہے ۔ وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ [ الهمزة/ 1] ہر طعن آمیز اشارتیں کرنے والے چغلخور کی خرابی ہے ۔ يا وَيْلَنا مَنْ بَعَثَنا[يس/ 52]( اے ہے) ہماری خواب گا ہوں سے کسی نے ( جگا ) اٹھایا ۔ يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا ظالِمِينَ [ الأنبیاء/ 46] ہائے شامت بیشک ہم ظالم تھے ۔ يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا طاغِينَ [ القلم/ 31] ہائے شامت ہم ہی حد سے گبڑھ گئے تھے ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

ہم نے تمام مخلوقات کو عبث بغیر اوامرو نواہی کے نہیں پیدا کیا یہ ان لوگوں کا انکار ہے جو مرنے کے بعد جی اٹھنے کے منکر ہیں۔ سو ایسے منکروں کے لیے سخت ترین عذاب ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧ { وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآئَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا بَاطِلًا } ” اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے مابین ہے ‘ اسے بےکار پیدا نہیں کیا۔ “ یہ مضمون قرآن حکیم میں متعدد بار آیا ہے اور سورة آل عمران کی آیت ١٩١ میں تو اسی لفظ (باطل) کے ساتھ آیا ہے : { رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلاً ج سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ } ” اے ہمارے ربّ ! تو نے یہ سب کچھ بےکار پیدا نہیں کیا ‘ تو ُ پاک ہے ‘ پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے ! “ سورة المو منون میں یوں فرمایا گیا ہے : { اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ } ” کیا تم نے سمجھا تھا کہ ہم نے تمہیں بےکار پیدا کیا تھا اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جائو گے ! “ مطلب یہ کہ عبث اور بےکار کام کرنا اللہ کی شان سے بہت بعید ہے۔ { ذٰلِکَ ظَنُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْاج فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنَ النَّارِ } ” یہ گمان تو ان لوگوں کا ہے جنہوں نے کفر کیا ‘ پس ہلاکت اور بربادی ہے ان کافروں کے لیے آگ کی۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

29 That is, "We have not created anything in the world merely in sport and fun so that it may be without any wisdom and purpose and justice, and there may acme no result from any act, good or bad." This is the conclusion of the preceding discourse as well as an introduction to the following theme. The object of this statement as a conclusion to the discourse is to impress the following truth: °Man has not been left to wander about at will in the world, nor is this world a lawless kingdom that one may do here whatever one likes with impunity." As an introduction to the following theme, the sentence is meant to say: "The person who does not believe in the meting out of the rewards and punishments, and thinks that both the good and the evil people will ultimately end up in the dust after death and that nobody will be called to account, nor will anyone be rewarded for good or punished for evil, in fact, regards the world as a plaything and its Creator a senseless player, and thinks that by creating the world and man in it, the Creator of the Universe has committed a useless thing. The same thing has been stated in different ways at several places in the Qur'an, e.g. °Did you think that We created you without any purpose, and that you would never be brought back to Us?" (AI-Mu'minun: 115). "We have not created the heavens and the earth and whatever lies between them merely in sport: We have created them with the truth, but most of them do not know. For the resurrection of them all the appointed time is the Day of Decision." (Ad-Dukhan: 38-40).

سورة صٓ حاشیہ نمبر :29 یعنی محض کھیل کے طور پر پیدا نہیں کر دیا ہے کہ اس میں کوئی حکمت نہ ہو ، کوئی غرض اور مقصد نہ ہو ، کوئی عدل اور انصاف نہ ہو ، اور کسی اچھے یا برے فعل کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو ۔ یہ ارشاد پچھلی تقریر کا ماحصل بھی ہے اور آگے کے مضمون کی تمہید بھی ۔ پچھلی تقریر کے بعد یہ فقرہ ارشاد فرمانے سے مقصود یہ حقیقت سامعین سے ذہن نشین کرانا ہے کہ انسان یہاں شتر بے مہار کی طرح نہیں چھوڑ دیا گیا ہے ، نہ یہ دنیا اندھیر نگری ہے کہ یہاں جس کا جو کچھ جی چاہے کرتا رہے اور اس پر کوئی باز پرس نہ ہو ۔ آگے کے مضمون کی تمہید کے طور پر اس فقرے سے کلام کا آغاز کر کے یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ جو شخص جزا و سزا کا قائل نہیں ہے اور اپنی جگہ یہ سمجھے بیٹھا رہے کہ نیک و بد سب آخر کار مر کر مٹی ہو جائیں گے ، کسی سے کوئی محاسبہ نہ ہو گا ، نہ کسی کو بھلائی یا برائی کا کوئی بدلہ ملے گا ، وہ دراصل دنیا کو ایک کھلونا اور اس کے بنانے والے کو کھلنڈرا سمجھتا ہے اور اس کا خیال یہ ہے کہ خالق کائنات نے دنیا بنا کر اور اس میں انسان کو پیدا کر کے ایک فعل عبث کا ارتکاب کیا ہے ۔ یہی بات قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مختلف طریقوں سے ارشاد فرمائی گئی ہے ۔ مثلاً فرمایا: اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُم عَبَثاً وَّ اَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ ( المومنون:115 ) کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تم کو فضول پیدا کر دیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹائے جانے والے نہیں ہو؟ وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا لٰعِبِیْنَ o مَا خَلَقْنٰھُمَا اِلَّا بِالْحَقِّ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ o اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ مِیْقَاتُھُمْ اَجْمَعِیْنَo ( الدُّخان: 38 ۔ 40 ) ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور کائنات کو جو ان کے درمیان ہے کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا ہے ۔ ہم نے ان کو بر حق پیدا کیا ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔ درحقیقت فیصلے کا دن ان سب کے لیے حاضری کا وقت مقرر ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(38:27) باطلا ای خلقا باطلہ۔ منصوب بوجہ نائب مفعول یا مفعول سے حال ہونے کے ہے۔ باطل۔ بمعنی بےحکمت۔ عبث، بےفائدہ، جیسا کہ اور جگہ ارشاد ہے :۔ وما خلقنا السماء والارض وما بینھما لاعبین (21:16) اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اس کو اس طرح نہیں بنایا کہ ہم کھیل کر رہے ہیں۔ ذلک۔ یعنی آسمان اور زمین اور مابین کو عبث و بےحکمت پیدا کیا جانا۔ ظن۔ گمان۔ خیال۔ فویل اللذین کفروا۔ ویل۔ اسم ۔ ہلاکت۔ عذاب۔ دوزخ کی ایک وادی پس کافروں کے لئے بربادی ہے۔ من النار۔ میں من تعلیلہ ہے (سببیہ) ای فویل لہم بسبب النار المترتبۃ علی ظنھم وکفرہم پس بربادی ہے ان کے لئے اس آگ (یعنی عذاب دوزخ) کے جو ان کے ظن باطل اور کفر کے نتیجہ میں مرتب ہوئی۔ یا من بیانیہ ہے۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا :۔ سو کافروں کے لئے بربادی ہے یعنی دوزخ ، النار۔ آگ مراد دوزخ۔ اس فقرہ میں کفروا کی دوبارہ صراحت کافروں کی مذمت اور برائی کو ظاہر کرنے کے لئے کی گئی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 عینی محض کھیل تماشہ کے طور پر انہیں نہیں بنایا کہ اس میں نہ کوئی حکمت ہو، نہ اس کا کوئی مقصدہو اور نہ اس میں کئے جانے والے اچھے یا برے اعمال کا کوئی نتیجہ نکلنے والاہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 3 ۔ آیات 27 ۔ تا۔ 40: اسرار و معارف : مگر یہ ارض و سما یہ کائنات اس کا ایک مربوط نظام اور ہر کام کے کسی نہ کسی نتیجے کا اظہار خود اس بات پہ دلالت کرتا ہے کہ اتنا بڑا کام بھی ہرگز بےمقصد اور فضول نہیں ہوسکتا اس سارے نظام میں بھی ہر ایک کا ایک کردار ہے جس کا نتیجہ ہونا چاہیے یہ تو کفار کو وہم ہوچلا ہے کہ بس یہی دنیا ہے اور اگر یہاں مال و دولت یا اقتدار مل گیا تو بات بن گئی مگر انہیں اصل ارمان تب محسوس ہوگا جب انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آگ میں داخل ہونا پڑے گا دنیا کے نظام میں بھی غلط طریقے سے کوئی کام درست نہیں ہوتا تو بھلا کیا ہم غلط کار اور بدکار کو ایک صحیح العقیدہ مومن اور نیک شخص کے برابر شمار کریں گے یا اپنے محبوب بندوں کو بدکاروں کے برابر جانیں گے ہرگز نہیں اور اس بارے میں کسی کو غلط فہمی کا شکار نہ ہونا چاہیے کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل فرم ادی جو برکات کا خزانہ ہے کہ اس کے ارشادات میں غور کریں مگر غور فکر سے نتائج حاصل کرنے کے لیے تو عقل و شعور کی ضرورت ہے لہذا جن کی عقل سلامت ہے اور گناہوں سے تاریک نہیں ہوگئی وہ لوگ ہی بات سمجھ پائیں گے۔ ہم نے داود (علیہ السلام) پر مزید احسان فرماتے ہوئے اسے سلیمان (علیہ السلام) جیسا فرزند عطا فرمایا کیا ہی خوبصورت بندہ تھا اور بہت ہی زیادہ اللہ کی اطاعت کرنے والے تھے بلکہ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اللہ کی بارگاہ میں حضور کے طالب تھے یہاں تک کہ ایک شام بہت ہی اچھے اور خوبصورت گھوڑے شاہی معائنہ کے لیے آپ کی خدمت میں پیش کیے گئے اور آپ نے تا دیر ان کا معائنہ فرمایا اور جب فارغ ہوئے تو فرمایا میں نے اتنی دیر خوبصورت گھوڑوں کو دیکھنے میں صرف کردی اور اللہ کی یاد جو اس کی بارگاہ میں حضور کا سبب تھی اس سے اتنی دیر الگ رہا کہ سورج ڈوب گیا ہے سب گھوڑوں کو دوبارہ لایا جائے چناچہ آپ نے اپنے ہاتھ سے سب کو ذبح کردیا اور بطور قربانی اللہ کے نام پر ان کی گردنیں کاٹ دیں گویا عبادت یا اذکار کا معمول چھوٹ جائے تو بطور کفارہ صدقہ دینا یا نوافل ادا کردینا یا کوئی بھی ایسا کام بطور کفارہ جس کی شرعاً اجازت ہو بہت مستحسن بھی ہے اور آئندہ کے لیے تنبیہ کا کام بھی کرتا ہے۔ پھر ہم نے انہیں ایک اور آزمائش میں ڈالا کہ تخت پر ایک دھڑ لا ڈالا۔ اس کی کوئی تفسیر حدیث شریف میں مذکور نہیں اور نہ ہی قرآن نے اس کی وضاحت فرمائی ہے مفسرین کرام نے کئی واقعات نقل فرمائے ہیں مگر مضمون قرآن اس پہ دلالت کرتا ہے کہ تخت پر ڈالنے سے مراد کسی نااہل کا ان کے تخت پر قابض ہوجانا ہی ہوسکتا ہے اور یہ بہت بڑا امتحان تھا کہ اتنی بڑی سلطنت کا یوں چھن جانا معمولی بات نہ تھی مگر آپ اللہ کے نبی اور محبوب تھے آزردہ خاطر ہونے کی بجائے مزید اللہ کی طرف رجوع ہوگئے کہ حکومت و سلطنت تو مقصد نہ تھا مقصد اللہ کی رضا سے تھا جو بہرحال حاصل تھی چناچہ وہ بات ٹل گئی تو آپ نے دعا کی بار الہا مجھے معاف فرما کہ میں ہمیشہ تیری رضا کا طالب ہی رہو مگر اپنے احکام کے نفاذ کے لیے مجھے اتنی عظیم اور بےمثل سلطنت اور طاقتور حکومت عطا فرما کہ میرے بعد کوئی ایسی حکومت کا تصور بھی نہ کرسکے کہ تو سب کچھ عطا کرسکتا ہے یعنی بہت ہی عظیم الشان حکومت کہ تصور انسانی بھی اسے نہ پا سکے کہ ایسا بھی ہوتا ہے یہ ثابت ہوا کہ اقتدار فی نفسہ تو اچھی چیز نہیں لیکن اقامت دین مقصد ہو تو اس کا حصول بھی تکمیل مقصد کے لیے ضروری اور مستحسن ہے۔ چنانچہ ہم نے انہیں روئے زمین کی ہر شے پر حکومت بخش دی کہ ہوا تک ان کے تابع فرمان ہوگئی اور جہاں تشریف لے جانا چاہتے مزے مزے سے لاؤ لشکر سمیت اڑا کرلے جاتی۔ اور سارے جنات تک ان کے تابع کردئیے کوئی عمارتیں بناتے اور کوئی سمندروں کی تہہ سے جواہرات اور موتی نکال کر لاتے غرض ہر طرح کی خدمت کرتے جو اطاعت میں کوتاہی کرتے آپ انہیں سزا دیتے اور زنجیروں میں جکڑ دیتے تھے۔ اور فرمایا یہ ہماری عطا ہے اور ہم نے آپ کو اس ساری سلطنت کا مالک بنا دیا ہے کسی کو عطا کریں ی انہ اب آپ کے اختیار میں ہے اور اصل مرتبہ کا اظہار تو ہمارے پاس آ کر ہوگا کہ ہمارے نزدیک ان کا کتنا بڑا مرتبہ ہے اور انہیں کتنا خوبصورت انجام نصیب ہوگا۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 27 تا 29 :۔ باطل (فضول ، بےکار) ظن ( گمان ، تصور ، خیال) ویل ( بربادی) ام ( کیا) لیدبروا ( تا کہ وہ غور و فکر کریں) ۔ تشریح آیت نمبر 27 تا 29 :۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کی ہر چیز کو ایک مقصد سے کیا ہے کوئی چیز بےمقصد اور بےقیمت نہیں ہے۔ جس کا مقصد جتنا اعلیٰ اور بہتر ہے اس کی قیمت اور وزن بھی اتنا ہی زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے دنیا کی ہر چیز انسانوں کے لئے بنھائی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تشریح یہ فرمائی ہے کہ شک دنیا تمہارے لئے بنائی گئی ہے لیکن تم آخرت کے لئے بنائے گئے ہو۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے پیدا کرنے کا مقصد تو یہ ہے کہ وہ انسان کے کام آئے لیکن خود انسان کی زندگی کا یہ مقصد نہیں ہے کہ وہ صرف دنیا کا ہو کر رہ جائے اور اسی کو مقصد زندگی بنا لے بلکہ وہ اس دنیا کو کھیتی سمجھ کر اس میں نیکیوں کے بیج بوتا چلا جائے تا کہ یہ فصل اس کے آخرت میں کام آئے اور جب پیچھے پلٹ کر دیکھے تو وہ ایک لہلہاتا ہوا باغ نظر آئے۔ وہ لوگ بڑے بد قسمت ہیں جو زندگی بھر گناہوں میں مبتلا رہتے ہیں اور نیکیوں سے دور دور رہتے ہیں اور اسی کائنات کو سب کچھ سمجھ کر دوبارہ زندہ ہونے اور آخرت پر یقین نہیں رکھتے وہ اپنے کفر کے ساتھ جب اللہ کے سامنے حاضر ہوں گے تو سوائے ذلت و رسوائی کے ان کے ہاتھ کچھ بھی نہ آئے گا اور آخرت کی بربادی اور جہنم کی آگ ان کا مقدر بن کر رہ جائے گا ۔ یقینا اللہ و رسول پر ایمان لا کر عمل صالح کی زندگی گزارنے والے اور زمین میں تباہی و بربادی مچا کر اپنی آخرت کو برباد کرنے والے انجام کے اعتبار سے برابر نہیں ہو سکتے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جس نے نیکی اور پرہیز گاری کی زندگی گزاری ہو وہ اس شخص کے برابر ہوجائے جس نے پوری زندگی گناہوں میں بسر کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے اپنی کتاب قرآن کریم جس میں برکتیں اور رحمتیں ہیں اس لئے نازل کی ہے تا کہ ان آیتوں میں غور کیا جائے اور جو بھی علم ، عقل اور فہم و دانش رکھنے والے ہیں وہ ان آیات سے نصیحت حاصل کریں اور اس بات کو سمجھ لیں کہ اصل زندگی صرف آخرت کی زندگی ہے جو شخص وہاں کامیاب و بامراد ہوگیا وہی خوش نصیب ہے لیکن جس نے یہ سمجھا کہ یہ دنیا ، زمین ، آسمان ، چاند ، سورج ، ستارے فضول اور بےکار پیدا کئے گئے ہیں یا ان کا پیدا کرنے والا کوئی نہیں ہے ہم جس طرح چاہیں زندگی بسر کریں نہ کوئی ہمیں دیکھنے والا ہے اور نہ حساب لینے والا ہے تو ایسے لوگ جب مرنے کے بعد آخرت میں پہنچیں گے تو ان کے اعمال کی نحوست ان کو آخرت میں ذلیل و رسوا کر کے چھوڑے گی ۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ آخرت کے حساب کو بھول گئے اور اپنی خواہشات کے پیچھے چلتے ہیں وہ زینًا یا عملاً سمجھتے ہیں کہ ہم نے دنیا کو بےمقصد پیدا کیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے ذمے کچھ ذمہ داریاں لگائیں ہیں جن کا حساب دینا پڑے گا۔ اس سے پہلی آیت میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کے حوالے سے ہر شخص کو بتلایا اور سمجھایا ہے کہ اپنی خواہش کے پیچھے نہیں لگنا۔ جو اپنی خواہش کے پیچھے چلا وہ گمراہ ہوا۔ اس کی گمراہی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ قیامت کے حساب و کتاب کو بھول چکا ہے۔ جو قیامت کے حساب کو بھول گیا وہ زبان سے کہے یا نہ کہے اس کا عمل اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اس دنیا کے بعد کوئی جہان نہیں جو کچھ دنیا میں ہوا سو ہوا۔ اس سے آگے کچھ نہ ہوگا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں میں کوئی چیز بےکار اور بےمقصد پیدا نہیں کی۔ ایسا تو وہ لوگ سوچتے اور کہتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے انکاری ہیں۔ انکار کرنے والوں کے لیے آگ کا عذاب تیار کیا گیا ہے۔ کیا ایمان داروں اور نیک اعمال کرنے والوں کو دنیا میں فساد کرنے والوں کے برابر کردیا جائے گا ؟ کیا اللہ سے ڈر کرز ندگی گزارنے والوں اور فسق وفجور کرنے والوں کو ایک جیسا سمجھاجائے گا ؟ ظاہر بات ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ یہاں کفار کو مفسدین کہا گیا ہے اسے لیے کہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ دنیا کا نظام یوں ہی چلتا رہے گا اور قیامت قائم نہیں ہوگی گویا کہ وہ اپنے اعمال کی جوابدہی کا انکار کرتے ہیں اس عقیدہ کی بنا پر یہ لوگ دنیا میں فساد کا موجب ہوتے ہیں۔ کائنات کو پیدا کرنے کے بنیادی طور پر دو مقاصد ہیں ایک مقصد تو یہ ہے کہ ہر چیز اپنے خالق کے بتلائے ہوئے طریقہ کے مطابق اس کی عبادت اور اطاعت کرتی رہے۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ ہر چیز اپنے خالق کے حکم کے مطابق انسان کی خدمت کرے۔ جو شخص آخرت کو فراموش کردیتا ہے وہ نہ تو اپنے خالق کا تابعدار رہتا ہے اور نہ ہی ٹھیک طور پر بندوں کے حقوق پورے کرتا ہے۔ ظاہر بات ہے جب حقداروں کے حقوق پورے نہیں ہوں گے تو اس کا نتیجہ فساد ہوگا۔ سوچیں کہ فساد کرنے اور فساد نہ کرنے والے کس طرح برابر ہوسکتے ہیں ؟ (ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ قُلْ سِیْرُوْا فِے الْاَرْضَ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلُ کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّشْرِکِیْنَ ) [ الروم : ٤١، ٤٢] ” لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے تاکہ ان کو ان کے بعض اعمال کا مزا چکھایاجائے شاید کہ وہ باز آجائیں۔ اے نبی ان سے کہو کہ زمین میں چل کر دیکھو پہلے گزرے ہوئے لوگوں کا کیا انجام ہوا ہے، ان میں سے اکثر مشرک تھے۔ “ (الرّوم : ٤١، ٤٢) مسائل ُ ١۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور کسی چیز کو بےمقصد پیدا نہیں کی۔ ٢۔ دنیا کو بےمقصد سمجھنے والے کافر ہیں کفار کو جہنم کی آگ میں جھونکا جائے گا۔ ٣۔ کافر فی الحقیقت فساد کرنیوالے ہیں اور مؤمن امن پسند ہوتے ہیں۔ ٤۔ متقی اور فاسق برابر نہیں ہوسکتے۔ تفسیر بالقرآن مومن اور فاسق برابر نہیں ہوسکتے : ١۔ مومن اور فاسق برابر نہیں ہیں۔ (السجدۃ : ١٨) ٢۔ کیا اندھا اور بینا، بہرا اور سننے والا برابر ہوسکتے ہیں ؟ (ہود : ٢٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ مجرموں اور مومنوں کو برابر نہیں کرے گا۔ (القلم : ٣٥۔ ٣٦) ٥۔ کتاب اللہ پر ایمان لانے والا اور نہ لانے والا برابر نہیں ہوسکتے۔ (الرّعد : ١٩) ٦۔ ایمان دار اور عمل صالح کرنے والا اور بدکار برابر نہیں ہوسکتے۔ (المومن : ٥٨) ٧۔ نیک اعمال کرنے والے اور فساد کرنے والے اور متقین اور گنہگار برابر نہیں ہوسکتے۔ (صٓ: ٢٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 27 تا 29 یہ ہے اصل بات ، ان تین آیات میں وہ عظیم حقیقت بیان کردی گئی ہے ، جس کی قرآن میں بہت اہمیت ہے۔ یہ نہایت ہی گہری ، عمومی اور عظیم الشان حقیقت ہے۔ اس کی جڑیں اور شاخیں اس پوری کائنات کے اندر گہری ہیں اور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی مخلوق کوئی کھیل تماشا نہیں ہے۔ یہ باطل نہ تھی ، نہ ہے اور نہ ہوگی ۔ بلکہ یہ حق ہے۔ یہ کائنات حقائق پر قائم ہے۔ اس ہمہ گیر سچائی سے تمام سچائیاں پھولتی ہیں اور یہ سچائی دراصل اس کائنات اور پھر اس زمین کی حقیقت وماہیت ہے۔ اس دنیا پر انسان کی حکمرانی میں سچائی ، لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کے قیام میں سچائی ، لوگوں کے شعور کی سچائی اور ان کے اعمال میں سچائی کا قیام اس عظیم حق اور سچائی کی شاخیں ہیں۔ لہٰذا جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور شعور کی سچائی رکھتے ہیں اور جو لوگ نیک عمل کرتے ہیں اور ان کا طرز عمل درست ہے وہ مفسدین کی طرح نہیں ہوسکتے ۔ لہذا اس کرۂارض پر وزن اور فساق وفجار کا وزن برابر نہیں ہوسکتا ۔ جس عظیم سچائی کو یہ کتاب لے کر آئی ہے تاکہ لوگ اس کی آیات پر تدبر کریں اور ان میں سے جو عقلمند ہیں وہ اس سے نصیحت حاصل کریں۔ وہ عظیم سچائی ہے۔ اور لوگوں کو چاہئے کہ وہ اس عظیم حقیقت کا وافر حصہ پالیں اور اس پر تدبر کریں۔ کافر درحقیقت اس عظیم سچائی کا تصور بھی نہیں رکھتے ۔ کیونکہ ان کی فطرت ، ان کا شعور اس عظیم سچائی سے محروم ہے جس کے اوپر یہ کائنات قائم ہے۔ اور جس کا حامل قرآن ہے۔ کافر تو رب تعالیٰ کے بارے سوئے ظن رکھتے ہیں۔ اور وہ اس عظیم سچائی کے ادراک سے محروم ہوتے ہیں۔ ذٰلک ظن۔۔۔۔۔ من لنار (38: 27) ” یہ تو ان لوگوں کا گمان ہے جنہوں نے کفر کیا اور ایسے کافروں کے لیے بربادی ہے ، جہنم کی آگ سے “۔ اسلامی شریعت دراصل اللہ کے اس عظیم حق کی تشریح کررہی ہے۔ جس پر یہ پوری کائنات قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں حکام اور خلفاء سے جس سچائی اور عدل کا مطالبہ فرمایا ہے وہ اس کلی حق اور سچائی کا ایک حصہ ہے۔ اس حق کا تقاضا یہ ہے کہ جس طرح وہ کائنات میں قائم ہے اسی طرح انسانوں کے نظام اور معاشرے میں بھی قائم ہوتا کہ یہ عظیم سچائی ادھوری نہ ہو۔ اس کے تمام اطراف قائم ہوجائیں ۔ اس لیے جو لوگ شریعت سے انحراف کرتے ہیں ، عدالت سے انحراف کرتے ہیں۔ وہ دراصل اس سچائی سے انحراف کرتے ہیں جس کے اوپر یہ پوری کائنات قائم ہے۔ اس طرح وہ اس کائنات میں ایک عظیم شروفساد پیدا کردیتے ہیں۔ یوں کائناتی قوتوں کے درمیان تصادم پیدا ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اس صورت میں ان کائناتی قوتوں کے درمیان بھی تصادم کا خطرہ ہوتا ہے اور انسانی قوتوں کے درمیان بھی۔ یوں کائنات اور انسانی معاشرے دونوں میں ٹوٹ پھوٹ کا خطرہوتا ہے۔ کیونکہ ایک ظالم ، باغی اور ناموس الہٰی اور شریعت الہہ سے متصادم ہونے والا شخص سالم اور صراط مستقیم پر قائم نہیں رہ سکتا ۔ اور یہ ضعیف اور ناتواں انسان اگر بغاوت بھی کرے تو اللہ کی عظیم قوتوں کا وہ کیا بگاڑ سکتا ہے۔ وہ اگر کوئی فساد برپا کرے گا اور نقصان کرے گا تو اپنا کرے گا۔ اللہ کی جبار وقہار قوتوں کے مقابلے میں تو وہ بےبس ہوجائے گا۔ یہ وہ عظیم حقیقت ہے جس کے اوپر تمام اہل دانش کو غور کرنا چاہئے اور اصحاب دانش اور عقل کو چاہئے کہ وہ اس سے نصیحت حاصل کریں۔ اس قصے کے درمیان یہ سبق آموز واقعہ بیان ہوا اور اس پر تبصرہ ہوا تاکہ اس اہم بات کی وضاحت کردی جائے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) پر اللہ کے مزید انعامات گنائے جاتے ہیں کہ اللہ نے اپنے فضل وکرم سے ان کی اولاد میں حضرت سلیمان جیسے باکمال شخص پیدا کیے جن پر اللہ کا بہت بڑا کرم ہوا۔ بلکہ کئی قسم کی کرم نوازیاں ہوئیں۔ حضرت سلیمان کی آزمائش ، ان پر اللہ کے کرم کے واقعات کے بعد اللہ کی رحمتوں کی بارش کے واقعات کا ذکر ہوتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مفسدین اور اعمال صالحہ والے، مؤمنین اور متقین اور فجار برابر نہیں ہوسکتے ! یہ تین آیات کا ترجمہ ہے ان سے پہلے داؤد (علیہ السلام) کا ذکر ہو رہا تھا اور عنقریب حضرت سلیمان اور ان کے بعد حضرت ایوب (علیہ السلام) کا ذکر آ رہا ہے ان تین آیات میں بطور جملہ معترضہ توحید و رسالت اور معاد کو بیان فرمایا یہی تینوں چیزیں ہیں جن کی طرف قرآن کریم برابر دعوت دیتا ہے اور ان کے ماننے پر آخرت کی بھلائی کا وعدہ دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو آسمان اور زمین کو پیدا فرمایا اور ان دونوں کے درمیان جو کچھ ہے اسے وجود بخشا یہ سب یوں ہی خواہ مخواہ اور بلا حکمت نہیں ہیں ان کے وجود کو دیکھ کر اول تو خالق کائنات جل مجدہٗ کی معرفت حاصل ہونا چاہیے اور پھر یہ بھی فکر کرنا چاہیے کہ ان چیزوں کے پیدا فرمانے میں حکمت کیا ہے ؟ دنیا میں انسان بھی اور دوسری مخلوق بھی ہے آپس میں رحم بھی ہے، مظالم بھی ہیں، لڑائی جھگڑے بھی ہیں قتل و خون بھی ہیں اللہ تعالیٰ کے مومن بندے بھی ہیں اور کافر و مشرک بھی ہیں، موت بھی ہے اور حیات بھی ہے، یہ کارخانہ جو جاری اور ساری ہے خالق کائنات جل مجدہٗ نے اسے کیوں پیدا فرمایا اگر اس بات میں غور کیا جائے تو سمجھ میں آجائے کہ اس کارخانہ میں جو کچھ بھی ہے سب اللہ تعالیٰ شانہٗ کی حکمت پر مبنی ہے ایمان و کفر، خیر و شر کا سلسلہ جاری ہے لیکن ایک دن یہ دنیا ختم ہوجائے گی قیامت واقع ہوگی سب حاضر ہوں گے اس وقت اہل ایمان کو ایمان کی جزا اور اہل کفر کو کفر کی سزا دی جائے گی جو لوگ وقوع قیامت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے نزدیک موت کے بعد اچھے یا برے اعمال کا بدلہ ملنے والا نہیں ہے ان کی بات کا حاصل یہ ہے کہ جو لوگ مومن ہیں متقی ہیں گناہوں سے بچتے ہیں وہ اور بڑے بڑے فاجر برابر ہوجائیں گے، یعنی نہ انہیں کوئی ثواب ملے گا نہ انہیں کوئی عذاب ملے گا ان لوگوں کا یہ گمان باطل ہے جو ان کے لیے ہلاکت اور بربادی کا سبب ہے اور وہ بربادی یہ ہوگی کہ یہ لوگ دوزخ میں داخل کردئیے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں اہل ایمان اور اعمال صالحہ والے بندوں کا بڑا مرتبہ ہے یہ حضرات جنتی ہوں گے اور زمین میں فساد کرنے والے دوزخ میں جائیں گے اگر ان کافروں اور مفسدوں نے یہ سمجھا ہے کہ اہل ایمان کو نعمتیں نہ ملیں گی اور وہ ہماری طرح ہی ہوں گے مر کر ختم ہوجائیں گے یا یہ سمجھا ہے کہ جو نعمتیں انہیں ملیں گی ہمیں بھی مل جائیں گی یہ ان کی حماقت ہے۔ (یہاں تک توحید اور معاد کا بیان ہوا) اس کے بعد فرمایا کہ ہم نے آپ کی طرف ایک کتاب نازل کی ہے جو مبارک ہے اس کے ماننے اور پڑھنے پڑھانے اور اس پر عمل کرنے میں دنیا اور آخرت کی خیر ہی خیر ہے، آپ کے توسط سے جن لوگوں تک پہنچے ان کو چاہیے کہ اس کی آیات میں فکر کریں اور عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں تاکہ احکام شرعیہ کو جانیں اور ان پر عمل پیرا بھی ہوں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

26:۔ وما خلقنا الخ : یہ عقلی دلیل ہے۔ زمین و آسمان کو اور ساری کائنات کو ہم نے یوں ہی بےمقصد پیدا نہیں کیا۔ بلکہ یہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کے تفرد بالالوہیت پر دلالت کرتی ہے۔ کائنات کے نظم و نسق کو برقرار رکھنا اور نہایت ہی حکیمانہ تدبیر سے نظام کائنات کو چلانا معبود برحق کے سوا کسی اور کا کام نہیں۔ وہ جو کچھ کرتا ہے اپنے ارادے سے کرتا ہے۔ اس لیے کوئی ایسا شفیع غالب نہیں جو اس کے کاموں میں دخل دے سکے۔ کافروں کا یہ گمان کہ یہ کارخانہ کائنات محض بےمقصد ہے۔ یا یہ کہ ان کے معبودانِ باطلہ خدا کے کاموں میں دخل دے سکتے ہیں اور اس کی بارگاہ میں شفیع غالب ہیں، سراسر باطل ہے۔ فویل للذین کفروا الخ، یہ ایسے کافروں کے لیے تخویف اخروی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(27) اور ہم نے آسمان و زمین اور جو کچھ ان دونوں کے مابین ہے اس کو نکما بیکار اور خالی از حکمت نہیں پیدا کیا یہ باطل اور عبث پیدا کرنے کا خیال ان لوگوں کا ہے جو دین حق کے منکر اور کافر ہیں لہٰذا کافروں کے لئے جہنم کی وجہ سے بڑی خرابی ہے۔ یعنی اس عالم کی پیدائش بیشمار حکمتوں پر مبنی ہے خصوصاً حضرت حق تعالیٰ کی توحید کا بہت بڑا ثبوت تخلیق عالم سے ملتا ہے جو شخص تخلیق عالم کو لاحاصل اور نکما کہے وہ توحید باری کامنکر اور کافر ہے تو اس قسم کا گمان کافر ہی کرسکتا ہے لہٰذا کافروں کے لئے بڑی خرابی ہے اور وہ بڑی خرابی آگ ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں نکما یعنی جس کا اثر کچھ نہ نکلے آگے بلکہ اس دنیا کا اثر ہے آخرت میں۔ آگے قیامت کے منکروں پر رد فرمایا کیوں کہ قیامت کا وقوع تو اس لئے ضروری ہے کہ ہر شخص کو اس کے اعمال کا صلہ اور بدلہ دیا جائے یہ……منکرین قیامت یہ چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قیامت واقع نہیں ہوگی۔ جس کا مطلب یہ ہے نہ نیکوں کو صلہ اور نہ بدوں کو سزا اس خیال کا رد فرمایا چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔