Commentary The delicate order of the verses These verses in which the basic beliefs of Islam, particularly that of the Hereafter, have been emphatically confirmed appear in between the description of events relating to Sayyidna Dawud (علیہ السلام) with an order that is extremely delicate and sublime. Says Imam Razi, if someone is refusing to understand because of obstinacy, the wiser approach is to put away the subject under discussion aside, and start talking about something totally unrelated - and when his mind stands diverted from the first subject, he should be brought around during the flow of conversation to concede to the original proposition. At this place, it is to dwell upon and secure confirmation of the Hereafter that this very method has been used. Being mentioned before the description of the event relating to Sayyidna Dawud (علیہ السلام) there were some postures of obstinacy demonstrated by the disbelievers that concluded at the verse: وَقَالُوا رَبَّنَا عَجِّل لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ يَوْمِ الْحِسَابِ (And they said, |" 0 our Lord, give us our share [ of the punishment ] sooner, before the Day of Reckoning.|" - 38:16). The outcome of all this was to state that those people rejected the existence of the Hereafter and made fun of it. Immediately after that, it was said: اصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُودَ (Observe patience over what they say and remember Our servant, Dawud - 38:17). By saying so, a new subject was introduced. But, the event relating to Sayyidna Dawud (علیہ السلام) has been concluded with the statement: O Dawud, We have made you a vicegerent on earth, so judge between people with truth. (38:26). Now, from here it is in an imperceptible manner that the Hereafter has been positively confirmed by positing that here is the supreme Being of Allah asking his deputy on the earth to establish the rule of law and justice resulting in punishment for the evil and peace for the good - when so, is it not that the same Being would necessarily establish justice and equity in this universe? Most certainly, it is the dictate of His wisdom that He, rather than herd everyone good or bad with the same stick, punishes the doers of evil and rewards the doers of good. This, then, is the purpose of the creation of this universe, and in order that it translates into reality, it is necessary that there be a Qiyamah (the Last Day) and an &Akhirah (the Hereafter) - something that precisely corresponds to His wisdom. Those who reject the Hereafter are virtually saying that this universe has been created aimlessly, devoid of any wisdom behind it, for everyone good or bad will live his or her time and die with nobody around to ask questions - although, one who has faith in the wisdom of Allah Ta’ ala can never accept this line of reasoning.
خلاصہ تفسیر اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو چیزیں ان کے درمیان موجود ہیں ان کو خالی از حکمت پیدا نہیں کیا۔ (بلکہ بہت سی حکمتیں ہیں، جن میں سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ ان سے توحید اور آخرت ثابت ہوتی ہے) یہ (یعنی ان کا خالی از حکمت ہونا) ان لوگوں کا خیال ہے جو کافر ہیں (کیونکہ جب وحید اور آخرت کی جزا و سزا کا انکار کیا تو کائنات کی تخلیق کی سب سے بڑی حکمت کا انکار کیا) سو کافروں کے لئے (آخرت میں) بڑی خرابی ہے۔ یعنی دوزخ (کیونکہ وہ توحید کا انکار کرتے تھے) ہاں (ایک غلطی ان کی یہ ہے کہ قیامت کے منکر ہیں، حالانکہ قیامت میں یہ حکمت ہے کہ نیکوں کو جزا اور مفسدوں کو سزا ملے، اب ان کے انکار قیامت سے لازم آتا ہے کہ اس حکمت کا تحقق نہ ہو بلکہ سب برابر ہیں) تو کیا ہم ان لوگوں کو جو کہ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے ان کی برابر کردیں گے جو (کفر وغیرہ کر کے) دنیا میں فساد کرتے پھرتے ہیں یا (بالفاظ دیگر کیا) ہم پرہیزگاروں کو بدکاروں کے برابر کردیں گے۔ (یعنی ایسا نہیں ہو سکتا، لہٰذا قیامت ضرور آئے گی تاکہ نیکوں کو جزا اور بدکاروں کو سزا ملے، اسی طرح توحید اور آخرت کے ساتھ رسالت پر ایمان رکھنا بھی ضروری ہے، کیونکہ) یہ (قرآن) ایک بابرکت کتاب ہے جس کو ہم نے آپ پر اس واسطے نازل کیا ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں (یعنی ان کے اعجاز میں بھی اور کثیر النفع مضامین میں بھی) اور تاکہ (غور سے اس کی حقیقت معلوم کر کے اس سے) اہل فہم نصیحت حاصل کریں (یعنی اس پر عمل کریں) ۔ معارف ومسائل آیات کی لطیف ترتیب : یہ آیتیں جن میں اسلام کے بنیادی عقائد، خاص طور سے آخرت کا اثبات کیا گیا ہے، حضرت داؤد و سلیمان (علیہما السلام) کے واقعات کے درمیان انتہائی لطیف ترتیب کے ساتھ آئی ہیں۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ہٹ دھرمی کی وجہ سے نہ سمجھ رہا ہو تو اس سے حکیمانہ طریقہ یہ ہے کہ زیر بحث موضوع چھوڑ کر کوئی غیر متعلق بات شروع کردی جائے۔ اور جب اس کا ذہن پہلی بات سے ہٹ جائے تو باتوں ہی باتوں میں اسے پہلی بات ماننے پر مجبور کردیا جائے۔ یہاں آخرت کے اثبات کے لئے یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے واقعہ سے پہلے کفار کی ہٹ دھرمیوں کا ذکر چل رہا تھا جو اس آیت پر ختم ہوا کہ (آیت) وقالوا ربنا عجل لنا قطنا قبل یوم الحساب۔ جس کا یہ حاصل تھا کہ وہ لوگ آخرت کا انکار کرتے اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اس کے فوراً بعد یہ ارشاد ہوا کہ (آیت) اصبر علیٰ ما یقولون واذکو عبدنا داؤد (ان کی باتوں پر صبر کیجئے اور ہمارے بندے داؤد کو، یاد کیجئے) اس طرح ایک نئی بات شروع کردی گئی، لیکن حضرت داؤد (علیہ السلام) کے واقعہ کو اس بات پر ختم کیا گیا کہ ” اے داؤد، ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے، لہٰذا تم لوگوں میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتے رہنا “ اب یہاں سے ایک غیر محسوس طریقہ پر آخرت کا اثبات کردیا گیا کہ جو ذات زمین میں اپنے خلیفہ کو عدل و انصاف قائم کرنے کا حکم دے رہی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ بدکاروں کو سزا ملے اور نیکوں کو راحت، کیا وہ خود اس کائنات میں عدل و انصاف قائم نہیں کرے گا ؟ یقینا اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اچھے اور برے تمام لوگوں کو ایک لاٹھی سے ہانکنے کے بجائے بدکاروں کو سزا دے، اور نیکو کاروں کو انعام عطا فرمائے، یہی اس کائنات کی تخلیق کا مقصد ہے اور اس کے روبکار آنے کے لئے قیامت و آخرت کا وجود اس کی حکمت کے عین مطابق ہے۔ جو لوگ آخرت کا انکار کرتے ہیں وہ گویا زبان حال سے یہ کہتے ہیں کہ یہ کائنات بےمقصد اور خالی از حکمت پیدا کردی گئی ہے۔ اور اس میں اچھے برے تمام لوگ زندگی گزار کر مر جائیں گے اور پھر ان سے کوئی پوچھنے والا نہ ہوگا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی حکمت پر ایمان رکھنے والا اس بات کو کبھی تسلیم نہیں کرسکتا۔