Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 39

سورة ص

ہٰذَا عَطَآؤُنَا فَامۡنُنۡ اَوۡ اَمۡسِکۡ بِغَیۡرِ حِسَابٍ ﴿۳۹﴾

[We said], "This is Our gift, so grant or withhold without account."

یہ ہے ہمارا عطیہ اب تو احسان کر یا روک رکھ ، کچھ حساب نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

(Allah said to Suleiman): "This is Our Gift, so spend you or withhold, no account will be asked of you." means, `this that We have given to you of kingship and perfect power, as you asked for, you may give to whomsoever you wish and deny to whomsoever you wish, and you will not be brought to account. Whatever you do is permissible for you, so however you judge, it will be right.' It was reported in the Two Sahihs that when the Messenger of Allah was given the choice between being a servant and a Messenger -- who does what he is commanded to do and distributes things among the people as Allah commands him to do -- or being a Prophet and a king, who can give to whomever he wishes and withhold from whomever he wishes without being held accountable for anything, he chose the former. He consulted with Jibril, peace be upon him, who said, "Be humble." So he chose the former because it has a greater value before Allah and brings a higher status in the Hereafter, even though the second option, Prophethood combined with kingship, is also a great thing both in this world and in the Hereafter, when Allah tells us what He gave to Suleiman, peace be upon him, in this world, He tells us that he will have a great share with Allah on the Day of Resurrection. He says: وَإِنَّ لَهُ عِندَنَا لَزُلْفَى وَحُسْنَ مَأبٍ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

39۔ 1 یعنی تیری دعا کے مطابق ہم نے تجھے عظیم بادشاہی سے نواز دیا، اب انسانوں میں سے جس کو چاہے دے، جسے چاہے نہ دے، تجھ سے ہم حساب بھی نہیں لیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٥] جنوں پر سیدنا سلیمان کی حکمرانی :۔ یعنی جنوں کے معاملہ میں آپ کو مکمل اختیارات حاصل تھے کسی سے کام لیں یا نہ لیں۔ کسی کو معاوضہ دیں یا نہ دیں۔ یہ معاوضہ تھوڑا دیں یا زیادہ دیں۔ یہ سب کچھ آپ کی صوابدید پر منحصر تھا۔ اور اگر اس آیت کو عام سمجھا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے آپ کو بےپناہ مال و دولت عطا کی تھی۔ اور کہہ دیا تھا کہ اسے جیسے چاہو خرچ کرو آپ سے اس کا کچھ مؤاخذہ نہ ہوگا۔ اب ایک طرف اللہ تعالیٰٰ کے انعامات کا یہ حال ہے کہ بےحساب مال و دولت دے کر فرمایا کہ جیسے چاہو خرچ کرو آپ سے کوئی حساب نہیں لیا جائے گا۔ دوسری طرف سیدنا سلیمان کا یہ حال تھا کہ اپنی ذاتی ضروریات کے لئے بیت المال سے ایک پیسہ بھی نہیں لیتے تھے بلکہ اپنے والد بزرگوار کی طرح اپنی کمائی سے کھاتے تھے۔ سیدنا داؤد تو زرہیں بنایا کرتے تھے اور آپ تانبے کی مصنوعات تیار کرتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ھٰذَا عَطَاۗؤُنَا فَامْنُنْ : یعنی ہم نے تمہاری دعا کے مطابق تمہیں عظیم بادشاہی عطا کردی، اب تم جسے چاہو دو جسے چاہو نہ دو اور جتنا چاہو دو ، تم سے کوئی حساب بھی نہیں لیا جائے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ھٰذَا عَطَاۗؤُنَا فَامْنُنْ اَوْ اَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسَابٍ۝ ٣٩ عطا العَطْوُ : التّناول، والمعاطاة : المناولة، والإعطاء : الإنالة . قال تعالی: حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة/ 29] . واختصّ العطيّة والعطاء بالصّلة . قال : هذا عَطاؤُنا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ ص/ 39] ( ع ط و ) العطوا ( ن ) کے معنی ہیں لینا پکڑنا اور المعاد طاہ باہم لینا دینا الاعطاء ( افعال ) قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة/ 29] یہاں تک کہ جزیہ دیں ۔ اور العطیۃ والعطاء خاص کر اس چیز کو کہتے ہیں جو محض تفضیلا دی جائے ۔ منن والمِنَّةُ : النّعمة الثّقيلة، ويقال ذلک علی وجهين : أحدهما : أن يكون ذلک بالفعل، فيقال : منَّ فلان علی فلان : إذا أثقله بالنّعمة، وعلی ذلک قوله : لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 164] والثاني : أن يكون ذلک بالقول، وذلک مستقبح فيما بين الناس إلّا عند کفران النّعمة، ولقبح ذلک قيل : المِنَّةُ تهدم الصّنيعة «4» ، ولحسن ذكرها عند الکفران قيل : إذا کفرت النّعمة حسنت المنّة . وقوله : يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات/ 17] فالمنّة منهم بالقول، ومنّة اللہ عليهم بالفعل، وهو هدایته إيّاهم كما ذكر، ( م ن ن ) المن المن کے معنی بھاری احسان کے ہیں اور یہ دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ایک منت بالفعل جیسے من فلان علیٰ فلان یعنی فلاں نے اس پر گرا انبار احسان کیا ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 164] خدا نے مومنوں پر بڑا احسان گیا ہے ۔ اور دوسرے معنی منۃ بالقول یعنی احسان جتلانا گو انسانی معاشرہ میں معیوب سمجھا جاتا ہے مگر جب کفران نعمت ہو رہا ہو تو اس کے اظہار میں کچھ قباحت نہیں ہے اور چونکہ ( بلاوجہ اس کا اظہار معیوب ہے اس لئے مشہور ہے ، المنۃ تھدم الصنیعۃ منت یعنی احسان رکھنا احسان کو بر باد کردیتا ہے اور کفران نعمت کے وقت چونکہ اس کا تذکرہ مستحن ہوتا ہے اس لئے کسی نے کہا ہے : جب نعمت کی ناشکری ہو تو احسان رکھنا ہیں مستحن ہے اور آیت کریمہ : ۔ يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات/ 17] یہ لوگ تم احسان رکھتے ہیں ۔ کہ مسلمان ہوگئے ہیں ، کہدو کہ اپنے مسلمان ہونے کا مجھ پر احسان نہ رکھو ۔ بلکہ خدا تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا رستہ دکھایا ۔ میں ان کی طرف سے منت بالقوم یعنی احسان جتلانا مراد ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے منت بالفعل یعنی انہیں ایمان کی نعمت سے نواز نامراد ہے۔ مسك إمساک الشیء : التعلّق به وحفظه . قال تعالی: فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 229] ، وقال : وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج/ 65] ، أي : يحفظها، واستمسَكْتُ بالشیء : إذا تحرّيت الإمساک . قال تعالی: فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ [ الزخرف/ 43] ، وقال : أَمْ آتَيْناهُمْ كِتاباً مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ [ الزخرف/ 21] ، ويقال : تمَسَّكْتُ به ومسکت به، قال تعالی: وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوافِرِ [ الممتحنة/ 10] . يقال : أَمْسَكْتُ عنه كذا، أي : منعته . قال : هُنَّ مُمْسِكاتُ رَحْمَتِهِ [ الزمر/ 38] ، وكنّي عن البخل بالإمساک . والمُسْكَةُ من الطعام والشراب : ما يُمْسِكُ الرّمقَ ، والمَسَكُ : الذَّبْلُ المشدود علی المعصم، والمَسْكُ : الجِلْدُ الممسکُ للبدن . ( م س ک ) امسک الشئی کے منعی کسی چیز سے چمٹ جانا اور اس کی حفاطت کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 229] پھر ( عورت کو ) یا تو بطریق شاہستہ نکاح میں رہنے دینا یا بھلائی کے ساتھ چھور دینا ہے ۔ وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج/ 65] اور وہ آسمان کو تھا مے رہتا ہے کہ زمین پر نہ گر پڑے ۔ استمسکت اشئی کے معنی کسی چیز کو پکڑنے اور تھامنے کا ارداہ کرنا کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ [ الزخرف/ 43] پس تمہاری طرف جو وحی کی گئی ہے اسے مضبوط پکرے رہو ۔ أَمْ آتَيْناهُمْ كِتاباً مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ [ الزخرف/ 21] یا ہم نے ان کو اس سے پہلے کوئی کتاب دی تھی تو یہ اس سے ( سند ) پکڑتے ہیں ۔ محاورہ ہے : ۔ کیس چیز کو پکڑنا اور تھام لینا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوافِرِ [ الممتحنة/ 10] اور کافر عورتوں کی ناموس قبضے میں نہ رکھو ( یعنی کفار کو واپس دے دو ۔ امسکت عنہ کذا کسی سے کوئی چیز روک لینا قرآن میں ہے : ۔ هُنَّ مُمْسِكاتُ رَحْمَتِهِ [ الزمر/ 38] تو وہ اس کی مہر بانی کو روک سکتے ہیں ۔ اور کنایہ کے طور پر امساک بمعنی بخل بھی آتا ہے اور مسلۃ من الطعام واشراب اس قدر کھانے یا پینے کو کہتے ہیں جس سے سد رہق ہوسکے ۔ المسک ( چوڑا ) ہاتھی دانت کا بنا ہوا زبور جو عورتیں کلائی میں پہنتی ہیں المسک کھال جو بدن کے دھا نچہ کو تھا مے رہتی ہے ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے حسب الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام/ 96] ( ح س ب ) الحساب کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام/ 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے سلیمان یہ ہماری عنایت کردہ بادشاہت ہے کہ اس کے ذریعے سے ہم نے تمہیں جنات پر بادشاہت دی ہے تو ان سرکشوں میں سے پر چاہو احسان کرو اس کو رہا کر دو یا قید ہی میں پڑا رہنے دو تم سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٩ { ہٰذَا عَطَآؤُنَا فَامْنُنْ اَوْ اَمْسِکْ بِغَیْرِ حِسَابٍ } ” یہ ہماری عطا ہے ‘ پس تم چاہو تو لوگوں پر احسان کرو یا اپنے پاس روکے رکھو ‘ اس پر کوئی حساب نہیں۔ “ ہم نے سلیمان ( علیہ السلام) سے کہہ دیا تھا کہ ہم نے جو نعمتیں تمہیں عطا کر رکھی ہیں ان میں سے جو چاہو لوگوں میں تقسیم کرو اور جو چاہو اپنے پاس رکھو۔ نیز جس کو چاہو دو اور جس کو چاہو نہ دو ۔ اس معاملے میں آپ ( علیہ السلام) سے کوئی حساب نہیں لیا جائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

39 This verse can have three meanings: (1) "This is Our unlimited gift: you have the authority to give of it freely w whomsoever you like and keep it from whomsoever you like;" (2) "this is Our gift: you may give of it to whomsoever you like and keep it from whomsoever you like: you will not be called to account for giving it or keeping it from the people;" and (3) Another meaning of it given by some commentators is: The satans have been placed entirely under your control: you may set free whomsoever you like and restrain whomsoever you like: you will not be held accountable for this."

سورة صٓ حاشیہ نمبر :39 اس آیت کے تین مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ یہ ہماری بے حساب بخشش ہے ، تمہیں اختیار ہے کہ جسے چاہو دو اور جسے چاہے نہ دو ۔ دوسرے یہ کہ یہ ہماری بخشش ہے ، جسے چاہو دو نہ دو ، دینے یا نہ دینے پر تم سے کوئی محاسبہ نہ ہو گا ۔ ایک اور مطلب بعض مفسرین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ یہ شیاطین کلیۃً تمہارے تصرف میں دے دیے گئے ہیں ، ان میں سے جسے چاہو رہا کر دو اور جسے چاہو روک رکھو ، اس پر کوئی محاسبہ تم سے نہ ہو گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

20: حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو یہ دولت مالک بنا کر دے دی گئی تھی، اور یہ اختیار دیا گیا تھا کہ جتنی چاہیں، خود رکھیں، اور جتنی چاہیں، کسی اور کو دیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(38:39) ھذا عطاؤنا ۔۔ الخ ای قلنا لسلیمن ۔۔ الآیۃ۔ ھذا۔ اسم اشارہ قریب واحد مذکر۔ یہ۔ اس کا مشار الیہ ملک و مال و اقتدار کی عطائگی ہے۔ جس کا اوپر ذکر ہوا۔ یہ ہماری عطاء ہے (آپ کو) ۔ فامنن۔ من باب نصر مصدر سے امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ تو احسان کو تو خرچ کر۔ امساک۔ امساک (افعال) سے امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ تو روک رکھ۔ بغیر حساب۔ بغیر حساب کے۔ اس آیت کے مندرجہ ذیل مطلب ہوسکتے ہیں :۔ (1) یہ عطاء ہماری بہت بڑی اور بیحد و حساب ہے اسے خرچ کرو یا رکھ چھوڑو۔ یعنی اس کو خود خرچ کرو یا رکھ چھوڑو۔ دوسروں کا دو یا نہ دو (تمہیں اختیار ہے) اس صورت میں بغیر حساب متعلق بہ عطاؤنا ہے۔ (2) یہ ہماری بخشش (عطائ) ہے اسے خرچ کرو۔ رکھ چھوڑو۔ دوسروں کو دو نہ دو ۔ خرچ کرنے نہ کرنے پر دوسرے کو دینے نہ دینے پر تم سے محاسبہ نہ ہوگا۔ (3) یہ ہماری عطاء ہے یعنی شیاطین پر تمہارا کلیۃ تصرف۔ ان میں سے جسے چاہو چھوڑ دو جسے چاہو روک رکھو۔ اس پر تم سے باز پرس نہ ہوگی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ ہماری دین ہے۔۔۔۔۔ ( لوگوں کو اس میں سے دینے یا نہ دینے میں) تجھ پر کوئی محاسبہ نہیں ہے۔ “۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ھذا۔۔۔ حساب (38: 39) ” یہ ہماری بخشش ہے تجھے اختیار ہے ، جسے چاہے دے اور جس سے چاہئے روک لے کوئی حساب نہیں ہے “۔ یہ اس لیے کہ آپ کو اللہ بہت بڑا اعزاز دینا چاہتا تھا کہ حکومت پر کوئی مالی قدغن عائد نہیں ہے۔ مزید اس پر یہ اضافہ فرمایا کہ حضرت سلیمان ہمارے نزدیک بہت ہی مقرب اور برگزیدہ بندے تھے۔ اور ان کا انجام بہتر ہوگا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

34:۔ ” ھذا الخ “۔ یہ اللہ کی طرف سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے خطاب ہے۔ یہ ملک عظیم اور انعامات بےپایاں ہم نے تجھے دئیے ہیں اب تجھے اختیار ہے کہ اس میں سے اوروں کو بھی دے یا نہ دے۔ قال ابن عباس (رض) اعط من شئت وامنع من شئت بغیر ھساب ای لیس علیک حرج فیما اعطیت وفیما امسکت (کبیر ج 7 ص 205) ۔ ” وان لہ عندنا الخ “: اس دنیوی سلطنت، تسخیر ریح و شیاطین کے علاوہ سلیمان (علیہ السلام) کا ہمارے یہاں مرتبہ بہت بلند ہے اور ان کی عاقبت بھی محمودہ ہے اور وہ ہمارے مقبول اور برگزیدہ بندے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(39) یہ جو کچھ ہم نے دیا ہے اے سلیمان یہ ہماری بخشش اور عطیہ ہے اب تو جس پرچا ہے احسان کر یا روک رکھ تجھ سے کوئی حساب نہیں۔