Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 4

سورة ص

وَ عَجِبُوۡۤا اَنۡ جَآءَہُمۡ مُّنۡذِرٌ مِّنۡہُمۡ ۫ وَ قَالَ الۡکٰفِرُوۡنَ ہٰذَا سٰحِرٌ کَذَّابٌ ۖ﴿ۚ۴﴾

And they wonder that there has come to them a warner from among themselves. And the disbelievers say, "This is a magician and a liar.

اور کافروں کو اس بات پر تعجب ہوا کہ ان ہی میں سے ایک انہیں ڈرانے والا آگیا اور کہنے لگے کہ یہ تو جادوگر اور جھوٹا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Idolators were amazed at the Message, Tawhid and the Qur'an Allah tells us that the idolators wondered at the sending of the Messenger of Allah as a bringer of glad tidings and a warner. This is like the Ayah: أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَأ إِلَى رَجُلٍ مِّنْهُمْ أَنْ أَنذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِينَ ءامَنُواْ أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِندَ رَبِّهِمْ ... قَالَ الْكَـفِرُونَ إِنَّ هَـذَا لَسَـحِرٌ مُّبِينٌ Is it a wonder for mankind that We have sent Our revelation to a man from among themselves (saying): "Warn mankind, and give good news to those who believe that they shall have with their Lord the rewards of their good deeds." (But) the disbelievers say: "This is indeed an evident sorcerer!" (10:2) And Allah says here: وَعَجِبُوا أَن جَاءهُم مُّنذِرٌ مِّنْهُمْ ... And they wonder that a warner has come to them from among themselves. meaning, a human being like themselves. ... وَقَالَ الْكَافِرُونَ هَذَا سَاحِرٌ كَذَّابٌ   Show more

مشرکین کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر تعجب ۔ حضور علیہ السلام کی رسالت پر کفار کے حماقت آمیز تعجب کا اظہار ہو رہا ہے جیسے اور آیت میں ہے ( اَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَيْنَآ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْ... دَ رَبِّهِمْ ڼ قَالَ الْكٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِيْنٌ Ą۝ ) 10- یونس:2 ) ، کیا لوگوں کو اس بات سے تعجب ہوا کہ ان میں سے ایک انسان کی طرف ہم نے وحی کی تاکہ وہ لوگوں کو ہوشیار کر دے اور ایمانداروں کو اس بات کی خوش خبری سنا دے کہ اس کے پاس ان کے لئے بہترین لائحہ عمل ہے ۔ کافر تو ہمارے رسول کو کھلا جادوگر کہنے لگے ۔ یہیں پر یہ ذکر ہے کہ انہی میں سے انہی جیسے ایک انسان کے رسول بن کر آنے پر انہیں تعجب ہوا اور کہنے لگے کہ یہ تو جادوگر اور کذاب ہے ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر تعجب کے ساتھ ہی اللہ کی وحدانیت پر بھی انہیں تعجب معلوم ہوا اور کہنے لگے کہ اور سنو اتنے سارے معبودوں کے بدلے یہ تو کہتا ہے کہ اللہ ایک ہی ہے اور اس کا کوئی کسی طرح کا شریک ہی نہیں ان بیوقوفوں کو اپنے بڑوں کی دیکھا دیکھی جس شرک و کفر کی عادت تھی اس کے خلاف آواز سن کر ان کے دل دکھنے اور رکنے لگے اور وہ توحید کو ایک انوکھی اور انجان چیز سمجھنے لگے ۔ ان کے بڑوں اور سرداروں نے تکبر کے ساتھ منہ موڑتے ہوئے اعلان کیا کہ اپنے قدیمی مذہب پر جمے رہو ۔ اس کی بات نہ مانو اور اپنے معبودوں کی عبادت کرتے رہو ۔ یہ تو صرف اپنے مطلب کی باتیں کہتا ہے ۔ یہ اس بہانے اپنی جما رہا ہے کہ یہ تمہارا سب کا بڑا بن جائے اور تم اس کے تابع فرمان ہو جاؤ ۔ ان آیتوں کا شان نزول یہ ہے کہ ایک بار قریشیوں کے شریف اور سردار رؤسا ایک مرتبہ جمع ہوئے ان میں ابو جہل بن ہشام عاص بن وائل اسود بن المطلب اسود بن عبد یغوث وغیرہ بھی تھے اور سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ چل کر آج ابو طالب سے آخری فیصلہ کرلیں وہ انصاف کے ساتھ ایک بات ہمارے ذمہ ڈال دے اور ایک اپنے بھتیجے کے ذمے ۔ کیونکہ یہ اب انتہائی عمر کو پہنچ چکے ہیں چراغ سحری ہو رہے ہیں اگر مر گئے اور ان کے بعد ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی مصیبت پہنچائی تو عرب میں طعنہ دیں گے کہ بڈھے کی موجودگی تک تو کچھ نہ چلی اور ان کی موت کے بعد بہادری آ گئی ۔ چنانچہ ایک آدمی بھیج کر ابو طالب سے اجازت مانگی ان کی اجازت پر سب گھر میں گئے اور کہا سنئے جناب! آپ ہمارے سردار ہیں بزرگ ہیں بڑے ہیں ۔ ہم آپ کے بھتیجے سے اب بہت تنگ آ گئے ہیں آپ انصاف کے ساتھ ہم میں اور اس میں فیصلہ کر دیجئے ۔ دیکھئے ہم آپ سے انصاف چاہتے ہیں وہ ہمارے معبودوں کو برا نہ کہیں اور نہ ہم انہیں ستائیں وہ مختار ہیں جس کی چاہیں عبادت کریں لیکن ہمارے معبودوں کو برا نہ کہیں ۔ ابو طالب نے آدمی بھیج کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بلوایا اور کہا جان پدر دیکھتے ہو آپ کی قوم کے سردار اور بزرگ سب جمع ہوئے ہیں اور آپ سے صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ ان کے معبودوں کی توہین اور برائی کرنے سے باز آ جائیں اور یہ آپ کو آپ کے دین پر چلنے میں آزادی دے رہے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چچا جان کیا میں انہیں بہترین اور بڑی بھلائی کی طرف نہ بلاؤں؟ ابو طالب نے کہا وہ کیا ہے؟ فرمایا یہ ایک کلمہ کہدیں صرف اس کے کہنے کی وجہ سے سارا عرب ان کے ماتحت ہو جائے گا اور سارے عجم پر ان کی حکومت ہو جائے گی ۔ ابو جہل ملعون نے سوال کیا کہ اچھا بتاؤ وہ ایسا کونسا کلمہ ہے؟ ایک نہیں ہم دس کہنے کو تیار ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو لا الہ الا اللہ بس یہ سننا تھا کہ شور و غل کر دیا اور کہنے لگے اس کے سوا جو تو مانگے ہم دینے کو تیار ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم سورج کو بھی لاکر میرے ہاتھ پر رکھ دو تو بھی تو تم سے اس کلمے کے سوا اور کچھ نہیں مانگوں گا ۔ سارے کے سارے مارے غصے اور غضب کے بھنا کر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے واللہ ہم تجھے اور تیرے اللہ کو گالیاں دیں گے جس نے تجھے یہ حکم دیا ہے ۔ اب یہ چلے اور ان کے سردار یہ کہتے رہے کہ جاؤ اپنے دین پر اور اپنے معبودوں کی عبادت پر جمے رہو ۔ معلوم ہو گیا کہ اس شخص کا تو ارادہ ہی اور ہے یہ تو بڑا بننا چاہتا ہے ( ابن ابی حاتم وغیرہ ) ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ان کے بھاگ جانے کے بعد حضور نے اپنے چچا سے کہا کہ آپ ہی اس کلمے کو پڑھ لیجئے اس نے کہا نہیں میں تو اپنے باپ دادوں اور قوم کے بڑوں کے دین پر ہی رہوں گا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ جسے تو چاہے ہدایت نہیں کر سکتا اور روایت میں ہے کہ اس وقت ابو طالب بیمار تھے اور اسی وجہ سے وہ مرا بھی ۔ جس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اس وقت ابو طالب کے پاس ایک آدمی کے بیٹھنے کی جگہ خالی تھی باقی تمام گھر آدمیوں سے بھرا ہوا تھا تو ابو جہل خبیث نے خیال کیا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آ کر اپنے چچا کے پاس بیٹھ گئے تو زیادہ اثر ڈال سکیں گے اس لئے یہ ملعون کود کر وہاں جا بیٹھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دروازہ کے پاس ہی بیٹھنا پڑا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایک کلمہ کہنے کو کہا تو سب نے جواب دیا کہ ایک نہیں دس ہم سب منتظر ہیں فرمایئے وہ کیا کلمہ ہے؟ اور جب کلمہ توحید آپ کی زبانی سنا تو کپڑے جھاڑتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے لو اور سنو یہ تو سارے معبودوں کا ایک معبود بنا رہا ہے ۔ اس پر یہ آیتیں ، عذاب تک ، اتریں ۔ امام ترمذی اس روایت کو حسن کہتے ہیں ۔ ہم نے تو یہ بات نہ اپنے دین میں دیکھی نہ نصرانیوں کے دین میں ۔ یہ بالکل غلط اور جھوٹ اور بےسند بات ہے ۔ یہ کیسے کچھ تعجب کی بات ہے کہ اللہ میاں کو کوئی اور نظر ہی نہ آیا اور اس پر قرآن اتار دیا ۔ جیسے ایک اور آیت میں ان کا قول ہے ( وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ 31؀ ) 43- الزخرف:31 ) یعنی ان دونوں شہروں میں کے کسی بڑے آدمی پر یہ قرآن کیوں نہ اتارا گیا ؟ جس کے جواب میں جناب باری کا ارشاد ہوا کہ کیا یہی لوگ رب کی رحمت کی تقسیم کرنے والے ہیں؟ یہ تو اس قدر محتاج ہیں کہ ان کی اپنی روزیاں اور درجے بھی ہم تقسیم کرتے ہیں ۔ الغرض یہ اعتراض بھی ان کی حماقت کا غرہ تھا ۔ اللہ فرماتا ہے ، یہ ہے ان کے شک کا نتیجہ اور وجہ یہ ہے کہ اب تک یہ چکنی چپڑی کھاتے رہے ہیں ہمارے عذابوں سے سابقہ نہیں پڑا ۔ کل قیامت کے دن جبکہ دھکے دے کر جہنم میں گرائے جائیں گے ۔ اس وقت اپنی اس سرکشی کا مزہ پائیں گے ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنا قبضہ اور اپنی قدرت ظاہر فرماتا ہے کہ جو وہ چاہے کرے ، جسے چاہے جو چاہے دے ، عزت ذلت اس کے ہاتھ ہے ، ہدایت ضلالت اس کی طرف سے ہے ۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے وحی نازل فرمائے اور جس کے دل پر چاہے اپنی مہر لگا دے بندوں کے اختیار میں کچھ نہیں وہ محض بےبس بالکل لاچار اور سراسر مجبور ہیں ۔ اسی لئے فرمایا کیا ان کے پاس اس بلند جناب غالب ، وہاب اللہ کی رحمت کے خزانے ہیں؟ یعنی نہیں ہیں جیسے فرمایا ( اَمْ لَھُمْ نَصِيْبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَاِذًا لَّا يُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِيْرًا 53؀ۙ ) 4- النسآء:53 ) ، اگر اللہ کی حکمرانی کا کوئی حصہ ان کے ہاتھ میں ہوتا تو یہ بخیل تو کسی کو ٹکڑا بھی نہ کھانے دیتے ۔ اور انہیں لوگوں کے ہاتھوں میں اللہ کا فضل دیکھ کر حسد آ رہا ہے؟ ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت اور بہت بڑی سلطنت دی تھی ۔ ان میں سے بعض تو ایمان لائے اور بعض ایمان سے رکے رہے جو بھڑکتی جہنم کے لقمے بنیں گے وہ آگ ہی انہیں کافی ہے اور آیت میں ہے ( قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَاۗىِٕنَ رَحْمَةِ رَبِّيْٓ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْاِنْفَاقِ ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا ١٠٠۝ۧ ) 17- الإسراء:100 ) ۔ یعنی اگر میرے رب کی رحمتوں کے خزانے تمہاری ملکیت میں ہوتے تو تم تو کمی سے ڈر کر خرچ کرنے سے رک جاتے انسان ہے ہی ناشکرا ۔ قوم صالح نے بھی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی کہا تھا کہ الخ ، کیا ہم سب کو چھوڑ کر اسی پر ذکر اتارا گیا ؟ نہیں بلکہ یہ کذاب اور شریر ہے ۔ اللہ فرماتا ہے کل معلوم کرلیں گے کہ ایسا کون ہے؟ پھر فرمایا کیا زمین آسمان اور اس کے درمیان کی چیزوں پر ان کا اختیار ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر آسمانوں کی راہوں پر چڑھ جائیں ساتویں آسمان پر پہنچ جائیں ۔ یہ یہاں کا لشکر بھی عنقریب ہزیمت و شکست اٹھائے گا اور مغلوب و ذلیل ہو گا ۔ جیسے اور بڑے بڑے گروہ حق سے ٹکرائے اور پاش پاش ہوگئے ، جیسے اور آیت میں ہے ( اَمْ يَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِيْعٌ مُّنْتَــصِرٌ 44؀ ) 54- القمر:44 ) ، یعنی کیا ان کا قول ہے کہ ہم بڑی جماعت ہیں اور ہم ہی فتح یاب رہیں گے؟ سنو انہیں ابھی ابھی شکست فاش ہو گی اور پیٹھ دکھاتے ہوئے بزدلی کے ساتھ بدحواس ہو کر بھاگ کھڑے ہوں گے چنانچہ بدر والے دن اللہ کی فرماں روائی نے اللہ کی باتوں کی سچائی انہیں اپنی آنکھوں سے دکھائی اور ابھی ان کے عذابوں کے وعدے کا دن تو آخرت کا دن ہے جو سخت کڑوا اور نہایت دہشت ناک اور وحشت والا ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 یعنی انہی کی طرح کا ایک انسان رسول کس طرح بن گیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣] تعجب کی بات تو تب تھی کہ نبی کوئی اجنبی یا فرشتہ ہوتا : ان کی عقل پر کچھ اس طرح پتھر پڑگئے ہیں کہ انہی میں سے ایک ڈرانے والا آیا ہے جو ان کی زبان جانتا ہے، انہی کی زبان میں انہیں سمجھاتا ہے، تو انہیں اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ ہم جیسا ہی ایک آدمی رسول بن بیٹھا ہے۔ حالانکہ تعجب کی بات تو تب تھی ک... ہ کوئی اجنبی ان میں نبی بنا کر بھیج دیا جاتا جس کی زبان نہ یہ سمجھتے نہ وہ ان کی زبان سمجھتا۔ یا کوئی فرشتہ نبی بنا کر ان پر مسلط کردیا جاتا جو ان کے انکار پر ان کی گردنیں توڑ کر رکھ دیتا۔ [٤] کافر آپ کو جادوگر ان معنوں میں کہتے تھے کہ آپ اللہ کا جو کلام پیش کرتے تھے۔ اس میں اس قدر شیرینی اور تاثیر تھی کہ جو کوئی سنتا وہ آپ کا گرویدہ ہوجاتا اور آپ ہی کا ہو کر رہ جاتا تھا۔ خواہ اسے اس راستہ میں کتنی ہی مشکلات پیش آتیں اور جھوٹا اس لحاظ سے کہتے تھے کہ آپ جو تعلیم پیش کر رہے تھے وہ ان کے معتقدات کے خلاف تھی۔ وہ تو یہ سوچنے کے لئے قطعاً تیار نہ تھے کہ ہمارے معتقدات بھی غلط ہوسکتے ہیں اس کے بجائے وہ آپ کو جھوٹا کہہ دیتے تھے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَعَجِبُوْٓا اَنْ جَاۗءَهُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْهُمْ : یعنی انھیں اس بات پر تعجب ہو رہا ہے کہ ان کے پاس ڈرانے اور خبردار کرنے کے لیے اسے بھیجا گیا جو ان کی جنس انسان سے ہے، ان کی قوم عرب سے ہے اور ان کے قبیلے قریش سے ہے، حالانکہ عجیب بات تو اس وقت ہوتی جب کوئی فرشتہ یا عجمی ان کی طرف بھیجا جاتا۔ تفصیل ک... ے لیے دیکھیے سورة آل عمران (١٦٤) ، توبہ (١٢٨) اور سورة یونس (٢) کی تفسیر۔ وَقَالَ الْكٰفِرُوْنَ ھٰذَا سٰحِرٌ كَذَّابٌ : ” کَفَرَ یَکْفُرُ “ کا معنی انکار بھی ہے اور چھپانا بھی۔ یہاں ” وَقَالُوْا “ (اور انھوں نے کہا) کے بجائے ” وقال الکفرون “ (اور کافروں نے کہا) کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ساحر اور کذّاب کہنا محض ان کے حق کو چھپانے اور جانتے بوجھتے ہوئے اس کے انکار کی وجہ سے ہے، ورنہ یہ تو آپ کو صادق اور امین کہتے تھے۔ دیکھیے سورة یونس کی آیت (١٦) : (فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ ) اور سورة انعام (٣٣) کی تفسیر۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَعَجِبُوْٓا اَنْ جَاۗءَہُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْہُمْ۝ ٠ ۡوَقَالَ الْكٰفِرُوْنَ ھٰذَا سٰحِرٌ كَذَّابٌ۝ ٤ۖۚ عجب العَجَبُ والتَّعَجُّبُ : حالةٌ تعرض للإنسان عند الجهل بسبب الشیء، ولهذا قال بعض الحکماء : العَجَبُ ما لا يُعرف سببه، ولهذا قيل : لا يصحّ علی اللہ التَّعَجُّبُ ، إذ هو علّام الغیوب لا تخفی عليه ... خافية . يقال : عَجِبْتُ عَجَباً ، ويقال للشیء الذي يُتَعَجَّبُ منه : عَجَبٌ ، ولما لم يعهد مثله عَجِيبٌ. قال تعالی: أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا [يونس/ 2] ، تنبيها أنهم قد عهدوا مثل ذلک قبله، وقوله : بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق/ 2] ، وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد/ 5] ، ( ع ج ب ) العجب اور التعجب اس حیرت کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا سبب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوجاتی ہے اسی بنا پر حکماء نے کہا ہے کہ عجب اس حیرت کو کہتے ہیں جس کا سبب معلوم نہ ہو اس لئے اللہ تعالیٰ پر تعجب کا اطلاق جائز نہیں ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ تو علام الغیوب ہے اس بنا پر کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے عجبت عجبا ( س ) میں نے تعجب کیا عجب ہر وہ بات جس سے تعجب پیدا ہوا اور جس جیسی چیز عام طور نہ دیکھی جاتی ہوا ہے عجیب کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا[يونس/ 2] کیا لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ ہم نے وحی بھیجی ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ آنحضرت کی طرف وحی بھیجنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ پہلے سے سلسلہ وحی کو جانتے ہیں نیز فرمایا : ۔ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق/ 2] بلکہ ان لوگوں نے تعجب کیا ہے کہ انہی میں سے ایک ہدایت کرنے والا ان کے پاس آیا ۔ وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد/ 5] اور اگر تم عجیب بات سننی چاہو تو کافروں کا یہ کہنا عجیب ہے ۔ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ سحر والسِّحْرُ يقال علی معان : الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی: سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] والثاني : استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی: هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ، والثالث : ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15] ، ( س ح ر) السحر اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔ اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174) ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ان کفار قریش نے اس بات سے تعجب کیا کہ ان کی قوم میں سے ایک پیغمبر ڈرانے والا آگیا اور کفار مکہ یہاں تک کہنے لگے کہ نعوذ باللہ محمد ساحر اور دعوی نبوت میں جھوٹے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤ { وَعَجِبُوْٓا اَنْ جَآئَ ہُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْہُمْ } ” اور انہیں بڑا تعجب ہوا ہے کہ ان کے پاس آیا ہے ایک خبردار کرنے والا ان ہی میں سے “ { وَقَالَ الْکٰفِرُوْنَ ہٰذَا سٰحِرٌ کَذَّابٌ } ” اور کافر کہتے ہیں کہ یہ ساحر ہے ‘ کذاب ّہے۔ “ یہ بہت سخت الفاظ ہیں ‘ لیکن قرآن نے مشرکین ِمکہ ّکے قول کے...  طور پر انہیں جوں کا توں نقل کیا ہے۔ ان الفاظ سے دراصل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کی اس کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے جو اس سورت کے نزول کے وقت مکہ کے ماحول میں پائی جاتی تھی۔ اس کیفیت کو سمجھنے کے لیے یہ معلومات اپنے حافظے میں پھر سے تازہ کرلیں کہ مکی سورتوں کے پچھلے گروپ کی آٹھ سورتیں (الفرقان تا السجدۃ) اور زیر مطالعہ گروپ کی تیرہ سورتیں (سبا تا الاحقاف) ٤ نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ٨ نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں نازل ہوئیں۔ ان میں سے سورة الصّٰفّٰت البتہ اس دور کی سورت نہیں ہے۔ اس کی چھوٹی چھوٹی آیات ( پانچ رکوعوں میں ١٨٢ آیات ہیں اور ایک رکوع میں ٥٣ آیات بھی ہیں) اور تیز ردھم سے صاف پتا چلتا ہے کہ یہ ابتدائی دور کی سورت ہے۔ بہر حال ان سورتوں کا نزول جس دور (٤ تا ٨ نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) میں ہوا ‘ اس دور میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت بہت شدت اختیار کرچکی تھی اور اسی نسبت سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہونے والے حملوں کی نوعیت میں بھی تبدیلی آچکی تھی۔ ابتدا میں تو اکثر لوگوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتوں پر سنجیدگی سے غور ہی نہیں کیا تھا۔ اس لیے اس زمانے میں اگر کوئی شخص آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں گستاخی کرتا تو وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجنون وغیرہ کہہ دیتا ‘ بلکہ ابتدا میں تو بعض لوگوں کے ہاں اس حوالے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہمدردی کا انداز بھی پایا جاتا تھا۔ اس وقت بعض لوگ تو واقعی سمجھتے تھے کہ غار حرا میں راتیں گزارنے کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی آسیب وغیرہ آگیا ہے۔ چناچہ ایک دفعہ عتبہ بن ربیعہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت ہمدردی کے انداز میں کہا تھا کہ اے میرے بھتیجے ! عرب کے بہت سے کاہنوں اور عاملوں کے ساتھ میرے تعلقات ہیں ‘ اگر تم کہو تو میں ان میں سے کسی کو بلا کر تمہارا علاج کرا دوں۔ البتہ جب مشرکین مکہ نے دیکھا کہ وہ آواز جس کو وہ محض ایک شخص کی پکار سمجھتے تھے اب گھر گھر میں گونجنے لگی ہے اور جس تحریک کو انہوں نے ایک مشت ِغبار سمجھ کر نظر انداز کردیا تھا اب وہ ایک طوفان کا روپ دھار کر ان کے پورے معاشرے کو زیر و زبر کرنے والی ہے تو ان کی مخالفت میں بتدریج شدت آتی گئی۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کے الفاظ (سٰحِرٌ کَذَّابٌ) ایسے ہی شدید مخالفانہ جذبات کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

4 That is, "They are so foolish that when a man from their own kind and from their own clan and brotherhood, whom they knew fully well, was appointed to warn them, they wondered at it, whereas it would have been strange if some other kind of creature had been sent down from heaven to warn human beings, or an utter stranger had arisen among them suddenly and started functioning as a prophet. In tha... t case they would have been perfectly justified to say, "What an odd thing! How can this strange creature know our conditions and feelings and requirements that he should guide us? How can we test and find out the truth about the stranger who has suddenly arisen among us and know whether he is trustworthy or not? And how can we decide whether we should or should not believe in him when we have not judged and seen his character and personality?" 5 The disblievers used the word sahir (sorcerer, magician) for the Holy Prophet in the sense that whoever came in contact with him was so influenced by him that he would become his follower like a possessed person; he would least mind severing of his connections with others or incurring material losses; the father would give up the son and the son the father; the wife would separate from the husband and the husband from the wife; he would at once be prepared to leave his country if it was so required; he would even be ready to pass through the severest persecutions for the sake of the faith. (For further details, see Surah AIAnbiya' : 3 and E. N . 5 thereof).  Show more

سورة صٓ حاشیہ نمبر :4 یعنی یہ ایسے احمق لوگ ہیں کہ جب ایک دیکھا بھالا آدمی خود ان کی اپنی جنس ، اپنی قوم اور اپنی ہی برادری میں سے ان کو خبردار کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے تو ان کو یہ عجیب بات معلوم ہوئی ۔ حالانکہ عجیب بات اگر ہوتی تو یہ ہوتی کہ انسانوں کو خبردار کرنے کے لیے آسمان سے کوئی اور مخل... وق بھیج دی جاتی ، یا ان کے درمیان یکایک ایک اجنبی آدمی کہیں باہر سے آ کھڑا ہوتا اور نبوت کرنا شروع کر دیتا ۔ اس صورت میں تو بلاشبہ یہ لوگ بجا طور پر یہ کہہ سکتے تھے کہ یہ عجیب حرکت ہمارے ساتھ کی گئی ہے ، بھلا جو انسان ہی نہیں ہے وہ ہمارے حالات اور جذبات اور ضروریات کو کیا جانے گا کہ ہماری رہنمائی کر سکے ، یا جو اجنبی آدمی اچانک ہمارے درمیان آگیا ہے اس کی صداقت کو آخر ہم کیسے جانچیں اور کیسے معلوم کریں کہ یہ بھروسے کے قابل آدمی ہے یا نہیں ، اس کی سیرت و کردار کو ہم نے کب دیکھا ہے کہ اس کی بات کا اعتبار کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کر سکیں ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(38:4) منذر : اسم فاعل واحد مذکر۔ انذار (افعال) سے ڈرانے والا۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب جاء ہم اور منھم میں کفار مکہ کی طرف راجع ہوسکتی ہے کیونکہ عجبوا میں ضمیر فاعل بھی کفار کے لئے ہے لیکن یہ جنس بشر کے لئے بھی ہوسکتی ہے کیونکہ کسی نبی کا جنس بشر سے ہونا ان کے نزدیک بعید از فہم تھا۔ اس لئے ان کو حیر... ت تھی کہ یہ ڈرانیوالا ان میں سے یا جنس بشر میں سے کیسے ہوسکتا ہے ؟ ساحر کذاب : معطوف علیہ و معطوف واؤ عطف محذوف، ساحر ہے اور بڑا جھوٹا ہے۔ کذاب مبالغہ کا صیغہ ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 حالانکہ عجیب بات تو اس وقت ہوتی جب کوئی فرشتہ یا عجمی ان میں نبی بنا کر بھیجا جاتا اور پھر یہ اعتراض بھی کرسکتے تھے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار اور مشرک تکبر کی بنیاد پر اللہ کی وحدت اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرتے اور اس کے لیے لیڈر عوام کو روکتے تھے۔ کفار کی اکثریت یہ بات جانتی تھی کہ پہلی امتوں میں جو رسول بھیجے گئے وہ اپنی قوم کے ایک فرد ہی ہوا کرتے تھے۔ یہ حقیقت جاننے کے باوجودکفار پر... اپیگنڈہ کرتے کہ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ رب تعالیٰ اپنے پیغام اور کام کے لیے کسی انسان کو منتخب کرے اگر اس نے کسی انسان کو ہی رسول بنانا ہوتا تو ایسے شخص کو کیوں منتخب کرتا جو مالی لحاظ سے کنگال اور سماجی اعتبار سے یتیم ہے۔ فی الواقع لوگوں میں ہی کسی کو رسول منتخب کرنا ہوتا تو وہ مکہ کے سرداروں یا طائف کے بڑے لوگوں میں سے کسی کو رسول بناتا۔ اس بنا پر وہ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھوٹا اور جادو گر قرار دیتے تھے۔ جادو گر کہنے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان میں غضب کی تاثیر تھی پھر آپ کی شخصیت اتنی پُر کشش تھی کہ جو آپ کا کلام سنتا وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا اور جس نے آپ کی شخصیت کو نظر بھر کر دیکھا وہ آپ کا گرویدہ ہو کر رہ گیا۔ کیونکہ کفار کے دل میں تکبر تھا جس وجہ سے وہ آپ کے کلام اور شخصیت سے متاثر ہونے کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا اقرار کرنے کے لیے تیارنہ تھے۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کی وحدت کا معاملہ ہے یہ عقیدہ ان کے لیے اس لیے تعجب کا باعث تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم نے ہر مشکل اور ضرورت کے لیے الگ الگ خدا بنا رکھے ہیں اتنے خداؤں کے باوجود ہماری حاجات پوری نہیں ہوتیں اور انفرادی اور اجتماعی مشکلات کا مداوا نظر نہیں آتا تو ایک الٰہ ہماری مشکلات کس طرح حل کرسکتا ہے ؟ یہ عجب عقیدہ ہے جس کی یہ رسول دعوت دیتا ہے۔ اس دعوت کی مخالفت میں انہوں نے یہ بات طے کی کہ ہر قبیلے کا سردار اور اپنے اپنے خاندان میں لوگوں کو سمجھائے کہ لوگو ! اپنے اپنے خداؤں اور دیوتاؤں پر پکے رہو ! اگر تم نے کسی قسم کی غفلت اور سستی کا مظاہرہ کیا تو یہ شخص تم پر برتری حاصل کرلے گا۔ یہی اس کا مقصد ہے۔ جہاں تک اس کی دعوت کا تعلق ہے ہم نے کسی مذہب میں یہ بات نہیں سنی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ من گھڑت دعوت اور خود ساختہ عقیدہ ہے۔ مکہ والوں کی یہ بات بھی پہلی دو باتوں کی طرح بےبنیاد تھی۔ کیونکہ مکہ ہی میں ایسے لوگ موجود تھے جو پوری طرح سمجھتے تھے کہ ملت ابراہیم (علیہ السلام) میں ایک الٰہ کی عبادت کے سوا کسی کی عبادت کرنا جائز نہیں۔ اسی بنا پر زید بن عمرو نے کعبۃ اللہ میں بیٹھ کر فی البدیع یہ اشعار کہے تھے۔ أَرَبّا وَاحِدًا أَمْ أَلْفَ رَبّ أَدِینُ إذَا تُقُسّمَتْ الْأُمُورُ ایک خدا کو مانوں یا ہزاروں کو ؟ جب کہ تقدیر کے فیصلے ہوچکے ہیں عَزَلْتُ اللّاتَ وَالْعُزّی جَمِیعًا کَذَلِکَ یَفْعَلُ الْجَلْدُ الصّبُورُ میں نے لات اور عزیٰ سب کو چھوڑ دیا ہے۔ سمجھ دار آدمی ایسا ہی کیا کرتے ہیں وَلَکِنْ أَعْبُدُ الرّحْمَنَ رَبّی لِیَغْفِرَ ذَنْبِی الرّبّ الْغَفُورُ میں اپنے رب ” رحمن “ کی بندگی کرتا ہوں تاکہ وہ میرے گناہوں کو معاف فرما دے اور وہ بڑا بخشنہار ہے۔ فَتَقْوَی اللّہِ رَبّکُمْ احْفَظُوہَا مَتَی مَا تَحْفَظُوہَا لَا تَبُورُوا اللہ کا خوف اختیار کرو تم نے اسے اپنا لیا تو کبھی ناکام نہیں ہو گے [ سیرۃ ابن ہشام : باب شعر زیدحین یستقبل القبلۃ ] نبوت کے انکار کے لیے اہل مکہ مختلف بہانے بنایا کرتے تھے۔ کبھی کہتے کہ نبوت کے منصب جلیلہ کے لیے معاشی اعتبار سے خوشحال، سیاسی لحاظ سے طاقتور اور خاندانی اعتبار سے کسی بڑے قبیلے کا سردار ہونا چاہیے تھا۔ پھر مکہ میں ابو الحکم بن ہشام یعنی ابوجہل اور کبھی طائف کے مختلف سرداروں کے نام لیتے تھے حالانکہ لوگوں کی نظروں میں آپ کے مقابلہ میں کسی دوسرے کا نام جچتاہی نہیں تھا۔ کیونکہ سیرت و صورت کے حوالے سے آپ کا پلہ سب پر بھاری تھا۔ جب اس میں ناکامی کا منہ دیکھتے تو پروپیگنڈہ کرتے کہ روم کے فلاں شخص سے خفیہ پیغام رسانی کے ذریعہ یہ کلام پیش کیا جا رہا ہے۔ قرآن مجید نے پہلے اور دوسرے اعتراض کا یہ جواب دیا کہ نبوت تو سراسر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کا انتخاب ہوتا ہے۔ وہی بہتر جانتا ہے کہ کون سا دل نور الٰہی کا اہل، کونسی زبان اس کے بیان کرنے پر قادر، اور کون سے کندھے اس بار گراں کو اٹھانے کے متحمل ہوسکتے ہیں۔[ الانعام : ١٢٤] اہل مکہ اپنے دل میں یہ حقیقت تسلیم کرتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی اللہ کا رسول ہے لیکن محض تعصبات کی وجہ سے آپ پر ایمان نہیں لاتے تھے۔ جس کا اس موقعہ پر یہ جواب دیا گیا ہے کہ دراصل انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مزا نہیں پایا جب اس کا عذاب نازل ہوگا تو ان کے بل درست ہوجائیں گے۔ مسائل ١۔ کفار تکبر کی بنیاد پر نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھوٹا اور جادوگر کہتے تھے۔ ٢۔ کفار نے منظم طریقے کے ساتھ دعوت توحید کو روکنے کی کوشش کی مگر سو فیصد ناکام رہے۔ تفسیر بالقرآن الٰہ صرف ایک ہی ہے : ١۔ اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور پھر آسمان سے پانی اتار کر باغات اگائے کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٠) ٢۔ اللہ نے زمین کو جائے قرار بنایا اس میں پہاڑ اور دو سمندروں کے درمیان پردہ بنایا کیا اس کے ساتھ اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦١) ٣۔ کون ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے کیا کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٢) ٤۔ خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں اللہ کے سواکون رہنمائی کرتا ہے کیا کوئی اور بھی اس کے ساتھ الٰہ ہے۔ (النمل : ٦٣) ٥۔ پہلے اور دوبارہ پیدا کرنا اور زمین و آسمان سے تمہارے لیے روزی کا بندوبست کرنے والا اللہ ہے کیا اس کے سوا کوئی اور الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٤) ٦۔ آپ فرما دیں سوائے ایک الٰہ کے آسمان وز میں کے غیب کو کوئی نہیں جانتا۔ (النمل : ٦٥) ٧۔ کیا کوئی ہے اس الٰہ کے سوا جو رات ختم کرکے دن لائے ؟ (القصص : ٧١) ٨۔ الٰہ ایک ہی ہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ (البقرۃ : ١٦٣) ٩۔ ا لٰہ تمہارا ایک ہی ہے لیکن آخرت کے منکر نہیں مانتے۔ (النحل : ٢٢) ١٠۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیں میں تمہاری طرح بشر ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے تمہارا الٰہ ایک ہی الٰہ ہے۔ (الکہف : ١١٠) ١١۔ الٰہ تمہارا ایک اللہ ہی ہے۔ (طہ : ٩٨) ١٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمادیں میری طرف وحی کی جاتی ہے تمہارا الٰہ صرف ایک ہی الٰہ ہے۔ (الانبیاء : ١٠٨) ١٣۔ تمہارا صرف ایک ہی الٰہ ہے اسی کے تابع ہوجاؤ۔ (الحج : ٢٤) ١٤۔ ہمارا الٰہ اور تمہارا الٰہ صرف ایک ہی ہے۔ ہم اسی کے لیے فرمانبردار ہیں۔ (العنکبوت : ٤٦) ١٥۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے جو میں تلاش کروں۔ (الاعراف : ١٤٠) ١٦۔ اسکے سوا کوئی الٰہ نہیں مگر وہ اکیلا ہی ہے ( المائدۃ : ٧٣) ١٧۔ اعلان کردیں اللہ ہی ایک الٰہ ہے اور میں تمہارے شرک سے بری ہوں۔ (الانعام : ١٩)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وعجبوآ۔۔۔ منھم (38: 4) ” اور ان لوگوں کو اس بات پر بڑا تعجب ہوا کہ ایک ڈرانے والا خود انہی میں سے آگیا “۔ حالانکہ مناسب ترین بات تو یہی ہے کہ ڈرانے والا انہی میں سے ہو ، وہ بشر ہو اور یہ بات جانتا ہو کہ انسان کیا سوچتے ہیں اور ان کے احساسات کیا ہوتے ہیں ۔ ان کے خلجانات کیا ہوتے ہیں اور ان کے وجود می... ں کیا کشمکش ہے۔ اور ان کے اندر کیا کیا کمزوریاں ہوتی ہیں اور کیا کیا کو تاہیاں ان کے وجود میں ہوتی ہیں۔ ایک انسان ہی یہ جان سکتا ہے کہ انسان میں کہاں کہاں کیا کمزوری ہے۔ کہاں کہاں وہ جذبات اور میلانات کا دباؤ محسوس کرتا ہے۔ اس کی وسعت اور قدرت کی حدود کیا ہیں۔ وہ کس قدر مشقت برداشت کرسکتے ہیں۔ کن کن رکاوٹوں اور مشکلات کے سامنے وہ بےبس ہوجاتے ہیں اور کیا کیا چیزیں ان پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ رسول ایک انسان ہوتا ہے انسانوں سے ہوتا ہے ، انسانوں میں رہتا ہے تو اس کی زندگی ان کے لیے نمونہ ہوتی ہے۔ اور وہ اس کے اسوہ کو اپناتے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارا ہی بھائی ہے اور ہم ہی میں سے ہے ۔ اور یہ کہ قوم اور رسول کے ردمیان انسانی اور سماجی روابط پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ لہذا وہ اس منہاج کو اپنا سکتے ہیں جس پر وہ ہوتا ہے۔ اور لوگوں سے بھی یہ مطالبہ کیا جاسکتا ہے کہ اسے اپناؤ۔ کیونکہ رسول جیسے طرز عمل کو وہ بھی اپنا سکتے ہیں ۔ اس لئے کہ اس نظام پر ایک شخص نے عمل کرکے دکھا دیا ہے ۔ جو خود ان میں سے ہے اور ان جیسا انسان ہے۔ لیکن یہ بات تعجب انگیز ہے کہ معقول ترین اور لازمی امر بھی ہمشہ لوگوں کے لیے باعث تعجب بنارہا ہے۔ وہ اسے انوکھا سمجھتے رہے ہیں اور تکذیب کرتے رہے ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ انسانوں میں سے رسول بھیجنے کی حکمت کو نہ سمجھتے تھے۔ وہ رسالت کے منصب کو بھی نہ سمجھتے تھے۔ بجائے اس کے کہ وہ رسول کو ایک بشر قائد اور راہنما سمجھتے جو ان کو اللہ کی راہ دکھاتا ہے وہ رسول کو ایک عجوبہ ناقابل فہم اور خیالی شخصیت سمجھتے تھے۔ وہ یوں سیدھے سادے انسانوں کو رسول نہ مانتے تھے۔ وہ رسول کو بھی ایسی شخصیت سمجھتے تھے جو خیالی ہو جسے چھوانہ جاسکتا ہو۔ جسے دیکھا نہ جاسکتا ہو۔ وہ ظاہر و باہر نہ ہو ، جو اس کرۂ ارض پر ایک عملی زندگی نہ رکھتا ہو۔ غرض وہ رسولوں کو ایک افسانوی شخصیت کی شکل میں دیکھنا چاہتے تھے۔ اور جس طرح ان کے عقائد تھے وہ رسولوں کو بھی ایسا ہی دیکھنا چاہتے تھے۔ لیکن اللہ کی مرضی یہ تھی کہ انسانوں کے لیے اس کی یہ آخری رسولت نہایت عملی اور واقعیت پسندانہ ہو۔ اس میں لوگوں کے لیے پاکیزہ طیب اور اعلیٰ درجے کی زندگی کا انتظام ہو۔ اور یہ آخری رسالت زمین کے اوپر ایک حقیقت ہو۔ اوہام تخیلات اور محض ہوائی مثالوں پر مبنی نہ ہو۔ حقائق پر مبنی ہو محض اوہام واساطیرنہ ہو۔ وقال۔۔۔ کذاب (38: 4) ” منکرین کہنے لگے یہ تو ساحر ہے سخت جھوٹا ہے “۔ اور کافروں نے یہ بات محض اس لیے کہی کہ وہ اپنے جیسے ایک شخص کی رسالت کا تصور ہی نہ کرسکتے تھے۔ اور پھر انہوں نے یہ بات اس لیے بھی کہی کہ لوگ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متنفر ہوجائیں اور ہو سچائی جو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے کر آئے تھے جو واضح تھی اور پھر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ صدق وصفا میں مشہور تھے ، وہ اس کو لوگوں کی نظروں میں مشتبہ بنانے کے لیے ایسا کرتے تھے۔ اصل حقیقت یہ ہے اور اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ مشرکین مکہ نے کسی بھی مرحلے میں خود اپنی اس بات کو کبھی بھی سچا نہیں سمجھا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جادوگر ہیں یا بہت بڑے جھوٹے ہیں کیونکہ وہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف پروپیگنڈے اور گمراہ کن نشرواشاعت کی جو مہم چلا رہے تھے۔ یہ اس کے ہتھیاروں میں سے ایک اوچھا ہتھیار تھا۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو اپنے مقام و مرتبہ کو اور اپنے غلط عقائد کو بچانا چاہتے تھے ۔ کیونکہ تحریک اسلامی کی صورت میں ان کو خطرہ درپیش تھا اس کی وجہ سے ان کی کھوٹی اور جھوٹی اقدار کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا اور ان کی بناوٹی طریقوں کے وجود تک کو خطرہ لاحق تھا اور کبرائے قریش اسے اچھی طرح سمجھتے تھے۔ ہم نے یہ بات اس سے پہلے بھی نقل کی ہے اور یہاں بھی نقل کررہے ہیں کہ کبرائے قریش نے پروپیگنڈے کی یہ جھوٹی مہم نہایت ہی سنجیدگی اور سوچ سمجھ کر شروع کی تھی ۔ اس طرح وہ اپنے وجود اپنے طور طریقوں اور اپنے نظریات کو بچانا چاہتے تھے ۔ نیز اسطرح موسم حج میں عرب قبائل میں تحریک اسلامی کے اثرات کے پھیلنے کا جو خطرہ کا جو درپیش تھا اسکا وہ سدباب چاہتے تھے محمد ابن اسحاق نے نقل کیا ہے کہ ولید ابن مغیرہ کے پاس کے کچھ معمر لوگ جمع ہوئے موسم حج آنے والا تھا۔ ولید نے ان سے کہا کہ اکابرین قریش آپ کو معلوم ہے کہ موسم حج آرہا ہے اور عرب کے وفود آنے شروع ہوں گے۔ نیز انہوں نے اس شخص کے بارے میں بھی سن رکھا ہوگا ۔ لہذا اس موضوع پر اپنی بات کو ایک کرلو۔ یوں نہ ہو کہ ہر شخص ایک علیحدہ بات کرے اور تم سب ایک دوسرے کی تکذیب کرتے پھرو۔ تو انہوں نے کہا عبدشمس تم ہی کچھ کہو اور ہمیں ایک مضبوط موقف دے دو تاکہ ہم سب ایک ہی بات کریں تو ولید نے کہا تم کہو میں سن کر قیاس کروں گا۔ کسی نے کہا اسے کاہن کہو ، ولید نے کہا یہ تو بات نہیں ہے۔ خدا کی قسم یہ کاہن نہیں ہے۔ ہم نے کاہنوں کو خوب دیکھا ہوا ہے۔ نہ قرآن کاہنوں کا زمزمہ ہے اور نہ ان کا مسجع کلام ہے تو کسی نے کہا اسے پاگل کہو۔ تو انہوں نے کہا کہ یہ مجنون بھی نہیں ہے۔ لوگ مجنونوں اور پاگلوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ نہ وہ مجنونوں کی طرح گلوگیر ہے۔ نہ ذہنی خلجان میں مبتلا ہے اور نہ اسے کوئی وسوسہ ہے۔ تو پھر اسے شاعر کہنا چاہئے۔ تو اس نے کہا کہ اس کا کلام شعر بھی نہیں ہے۔ ہم اشعار کو جانتے ہیں۔ نہ رجز ہے نہ ہزج ہے نہ قریض ہے نہ مقبوض ہے نہ مبسوط ہے۔ لہذا یہ کلام شعر نہیں ہے تو انہوں نے کہا پھر اسے جادوگر ہی کہا جاسکتا ہے۔ تو ولید نے کہا وہ تو جادوگر بھی نہیں ہے ۔ ہم نے جادوگر بھی دیکھے ہوئے ہیں۔ ان کے جادو کے کرشمے بھی دیکھے ہوئے ہیں۔ نہ یہ ان کی پھونک ہے اور نہ ان کی بندش ہے تو ان اکابرین نے کہا عبدشمس پھر تم ہی بتاؤ کہ کیا کہیں اسے ۔ تو اس نے کہا خدا کی قسم اس کی بات میں مٹھاس ہے۔ اس کی جڑیں بہت ہی گہری ہیں۔ اور اس کی شاخوں پر پھل ہیں اور تم ان باتوں میں سے جس کا بھی پروپیگنڈہ کرو معلوم ہوگا کہ تمہاری بات غلط ہے۔ ہاں ممکن حد تک کہا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ تم اسے ساحر کہو کہ وہ جو کلام لایا ہے وہ جادو کی طرح ایک شخص اور اس کے بھائی ایک شخص اور اس کی بیوی ایک شخص اور اس کے خاندان کے درمیان تفریق کرتا ہے۔ لہذا سب یہی ایک بات کرو چناچہ موسم حج میں یہ لوگ راستوں پر بیٹھ گئے ۔ اور جو بھی گزرتا اسے وہ کہتے تھے کہ لوگو ڈرو اس شہر میں ایک جادوگر پیدا ہوگیا ہے۔ اور یہ ازخود حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں تفصیلات بتاتے۔ یہ تھی حقیقت اس بات کی جو وہ کہتے تھے۔ سحر کذاب (38: 4) جبکہ وہ خود جانتے تھے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچ کہتے تھے نہ ساحر تھے اور نہ کذاب تھے۔ نیز وہ اس بات پر بھی تعجب کرتے تھے کہ وہ تمام الہوں کی جگہ ایک ذات کو الہہ ماننے کی دعوت دے رہا ہے۔ حالانکہ سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ اس کائنات کا الہہ ایک ہی ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَعَجِبُوْا اَنْ جَاءَ ھُمْ مُنْذِرٌ مِّنْہُمْ ) (اور انہیں اس بات سے تعجب ہوا کہ ان کے پاس انہیں میں سے ایک ڈرانے والا آگیا) اس میں ان کے لیے دو باتیں تعجب کی تھیں ایک تو یہ کہ انسان اللہ کا پیغمبر بن کر آیا ہے دوسرے یہ کہ ہمارے ہی اندر سے نبی بھیجا گیا ہے اگر ہمارے اندر سے اللہ تعالیٰ کو پیغمبر ب... ھیجنا تھا تو کوئی سردار آدمی ہوتا کما فی سورة الزخرف (لَوْلاَ نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ ) (وَقَالَ الْکٰفِرُوْنَ ھٰذَا سَاحِرٌ کَذَّابٌ) (اور کافروں نے کہا کہ یہ شخص جادوگر ہے بڑا جھوٹا ہے) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزات دیکھ کر انہوں نے یہ بات کہی تھی، کافروں نے یہ بھی کہا (اَجَعَلَ الْاٰلِہَۃَ اِِلٰہًا وَّاحِدًا) (کیا اس نے بہت سے معبودوں کو ایک ہی معبود بنا دیا) (اِِنَّ ھٰذَا لَشَیْءٌ عُجَابٌ) (بلاشبہ یہ بڑے تعجب کی بات ہے) چونکہ قریش مکہ اپنے باپ دادوں کو دیکھتے آئے تھے جو بہت سے معبود مانتے تھے اور ان کی عبادت کرتے تھے اس لیے انہیں یہ بات عجیب معلوم ہوئی کہ صرف ایک ہی معبود کی عبادت کی جائے اور ایک معبود کے علاوہ سارے معبودوں کو باطل معبود قرار دے دیا جائے خیر کی بات رواج سے اٹھ جاتی ہے اور بری بات عام ہوجاتی ہے رواج میں جگہ پکڑ لیتی ہے تو اچھی بات سن کر جو خلاف رواج ہو تعجب ہونے لگتا ہے اسی لیے قریش مکہ کو توحید کی بات سن کر تعجب ہوا۔ )  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4:۔ وعجبوا الخ : یہ زجر ہے یہاں سے بل ھم فی شک من ذکری، تک کفار مکہ کے استکبار وعناد کا ذکر ہے۔ منذر منہم : انہیں اس پر بھی حیرت اور تعجب ہے کہ انہی میں سے ایک بشر کو رسول بنا کر ان کی طرف بھیج دیا گیا ہے۔ (منذر منہم) رسول بشر من انفسہم (جامع البیان ص 389) ۔ 5:۔ وقال الکفرون الخ : یہ شکوی ہے کفار ک... ے عناد کا۔ کافروں نے کہا یہ تو کوئی جادوگر ہے۔ اس کے ہاتھ پر جادوگروں کی طرح شعبدے ظاہر ہوتے ہیں اور وحی و نبوت کے دعوے میں جھوٹا ہے۔ خدا پر جھوٹ باندھتا ہے۔ (العیاذ باللہ) ۔ معجزات کو جادو کے شعبدات قرار دینا اور ایک ایسے راست گو انسان کی طرف جھوٹ کی نسبت کرنا جس نے ساری زندگی میں کبھی جھوٹ نہ بولا ہو۔ سراسر ضد وعناد پر مبنی ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(4) اور ان دین حق کے منکروں نے اس بات پراچنبھا اور تعجب کیا کہ ان کے پاس انہی میں سے ایک ڈرانے والا آیا اور اس پر یہ کافرکہنے لگے کہ یہ شخص ایک جادوگر ہے جھوٹا۔ یعنی نبوت اور بشریت میں منافات سمجھ کر تعجب کرنے لگے کہ ہم ہی جیسا ایک آدمی جو ہم ہی میں سے ہے ہم کو ڈرانے والا نبی بن کر آگیا۔ لہٰذا کہنے ... لگے کہ یہ شخص معجزات اور خوارق نہیں دکھاتا یہ تو جادوگر ہے اور دعویٰ نبوت میں جھوٹا ہے حالانکہ علاوہ اور معجزات کے قرآن شریف خود ایک مستقل معجزہ تھا بہرحال ! خوارق کو جادو بتایا اور آپ کی نبوت کی تکذیب کی۔  Show more