Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 55

سورة ص

ہٰذَا ؕ وَ اِنَّ لِلطّٰغِیۡنَ لَشَرَّ مَاٰبٍ ﴿ۙ۵۵﴾

This [is so]. But indeed, for the transgressors is an evil place of return -

یہ تو ہوئی جزا ، ( یاد رکھو کہ ) سرکشوں کے لئے بڑی بری جگہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Final Return of the Doomed Having mentioned the final of the blessed, Allah follows that with mention of the final return of the doomed when they are resurrected and brought to account. Allah says: هَذَا وَإِنَّ لِلطَّاغِينَ ... This is so! And for the Taghin, which refers to those who disobey Allah, may He be glorified, and oppose the Messengers of Allah, peace be upon them, ... لَشَرَّ مَأبٍ will be an evil final return. means, the worst final return. Then Allah explains it by saying,

اہل نار کے احوال ۔ اوپر نیکوں کا حال بیان کیا تو یہاں بروں کا حال بیان فرما رہا ہے جو اللہ کی نہیں مانتے تھے ، نبی کی نافرمانی کرتے تھے ان کے لوٹنے کی جگہ بہت بری ہے اور وہ جہنم ہے جس میں یہ لوگ داخل ہوں گے اور چاروں طرف سے انہیں آتش دوزخ گھیر لے گی ۔ یہ نہایت ہی برا بچھونا ہے ۔ حمیم اس پانی کو کہتے ہیں جس کی حرارت اور گرمی انتہا کو پہنچ چکی ہو ۔ اور غساق کہتے ہیں اس ٹھنڈک کو جس کی سردی انتہا کو پہنچ چکی ہو ۔ پس ایک طرف آگ کا گرم عذاب دوسری جانب ٹھنڈک سرد عذاب اور اسی طرح قسم قسم کے ، جوڑ جوڑ کے عذاب ، جو ایک دوسرے کی ضد ہوں ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر ایک ڈول غساق کا دنیا میں بہایا جائے تو تمام اہل دنیا بدبو دار ہو جائیں ۔ حضرت کعب احبار فرماتے ہیں غساق نامی جہنم میں ایک نہر ہے جس میں سانپ بچھو وغیرہ کا زہر جمع ہوتا ہے پھر وہ گرم ہو کر اونٹنے لگتا ہے اس میں جہنمیوں کو غوطے دیئے جائیں گے جس سے ان کا سارا گوشت پوست جھڑ جائے گا اور پنڈلیوں میں لٹک جائے گا ۔ جسے وہ اس طرح گھسیٹتے پھریں گے جیسے کوئی شخص اپنا کپڑا گھسیٹ رہا ہو ( ابن ابی حاتم ) غرض سردی کا عذاب الگ ہو گا گرمی کا الگ ہو گا حمیم پینے کو زقوم کھانے کو کبھی آگ کے پہاڑوں پر چڑھایا جاتا ہے تو کبھی آگ کے گڑھوں میں دھکیلا جاتا ہے اللہ ہمیں بچائے ۔ اب جہنمیوں کا جھگڑا ان کا تنازع اور ایک دوسرے کو برا کہنا بیان ہو رہا ہے جیسے اور آیت میں ہے ( دَخَلَتْ اُمَّةٌ لَّعَنَتْ اُخْتَهَا 38؀ ) 7- الاعراف:38 ) ، ہر گروہ دوسرے پر بجائے سلام کے لعنت بھیجے گا ۔ ایک دوسرے کو جھٹلائے گا اور ایک دوسرے پر الزام رکھے گا ۔ ایک جماعت جو پہلے جہنم میں جا چکی ہے وہ دوسری جماعت کو داروغہ جہنم کے ساتھ آتی ہوئی دیکھ کر کہے گی کہ یہ گروہ جو تمہارے ساتھ ہے انہیں مرحبا نہ ہو اس لئے کہ یہ بھی جہنمی گروہ ہے ۔ وہ آنے والے ان سے کہیں گے کہ تمہارے لئے مرحبا ہو تم ہی تو تھے کہ ہمیں ان برے کاموں کی طرف بلاتے رہے جن کا انجام یہ ہوا ۔ پس بری منزل ہے ۔ پھر کہیں گے کہ اے باری تعالیٰ جس نے ہمارے لئے اس کی تقدیم کی تو اسے دوگنا عذاب کر ۔ جیسے فرمان ہے ( قَالَتْ اُخْرٰىهُمْ لِاُوْلٰىهُمْ رَبَّنَا هٰٓؤُلَاۗءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ ڛ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ 38؀ ) 7- الاعراف:38 ) ، یعنی پچھلے پہلوں کے لئے کہیں گے کہ پروردگار انہوں نے ہمیں گمراہ کر دیا تو انہیں آگ کا دگنا عذاب کر ۔ اللہ فرمائے گا ہر ایک کے لئے دگنا ہی ہے لیکن تم نہیں جانتے ۔ یعنی ہر ایک کے لئے ایسا عذاب ہے جس کی انتہا اسی کے لئے ہے ۔ چونکہ کفار وہاں مومنوں کو نہ پائیں گے جنہیں اپنے خیال میں بہکا ہوا جانتے تھے تو اس میں ذکر کریں گے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ ہمیں مسلمان جہنم میں نظر نہیں آتے؟ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ابو جہل کہے گا کہ بلال عمار صھیب وغیرہ وغیرہ کہاں ہیں؟ وہ تو نظر ہی نہیں آتے غرض ہر کافر یہی کہے گا کہ وہ لوگ جنہیں دنیا میں ہم شریر گنتے تھے وہ آج یہاں نظر نہیں آتے ۔ کیا ہماری ہی غلطی تھی کہ ہم انہیں دنیا میں مذاق میں اڑاتے تھے؟ لیکن نہیں ایسا تو نہ تھا وہ ہوں گے تو جہنم میں ہی لیکن کہیں ادھر ادھر ہوں گے ہماری نگاہ میں نہیں پڑتے ۔ اسی وقت جنتیوں کی طرف سے ندا آئے گی کہ اے دوزخیو! ادھر دیکھو ہم نے تو اپنے رب کے وعدے کو حق پایا تم اپنی کہو کیا اللہ کے وعدے کے سچے نکلے؟ یہ جواب دیں گے کہ ہاں بالکل سچ نکلے اسی وقت ایک منادی ندا کرے گا کہ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو ۔ اسی کا بیان آیات قرآنیہ ( وَنَادٰٓي اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ اَصْحٰبَ النَّارِ اَنْ قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا ۭقَالُوْا نَعَمْ ۚ فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَيْنَهُمْ اَنْ لَّعْنَةُ اللّٰهِ عَلَي الظّٰلِمِيْنَ 44؀ۙ ) 7- الاعراف:44 ) ہے ۔ پھر فرماتا ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو خبر میں تمہیں دے رہا ہوں کہ جہنمی اسی طرح لڑیں جھگڑیں گے اور آپس میں ایک دوسرے پر لعن طعن کریں گے یہ بالکل سچی واقع اور ٹھیک خبر ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

55۔ 1 یعنی مذکورہ اہل خیر کا معاملہ ہوا۔ اس کے بعد اہل شر کا انجام بیان کیا جا رہا ہے۔ 55۔ 2 طَاغِیْنَ جنہوں نے اللہ کے احکام سے سرکشی اور رسولوں کو جھٹلایا یَصْلُوْنَ کے معنی ہیں یَدْخُلُون داخل ہونگے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ھٰذَا ۭ وَاِنَّ للطّٰغِيْنَ لَـشَرَّ مَاٰبٍ : ” ھٰذَا “ یعنی یہ تو متقین کی جزا ہوئی، اب کفار کا انجام سنو جو اللہ کی حدود سے آگے بڑھنے والے اور اس کے احکام سے سرکشی کرنے والے ہیں کہ ان کے لیے ایک بدترین ٹھکانا ہے، جو جہنم ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ھٰذَا۝ ٠ ۭ وَاِنَّ لِلطّٰغِيْنَ لَـشَرَّ مَاٰبٍ۝ ٥٥ۙ طغی طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔ شر الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف/ 77] ، وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال/ 22] ( ش ر ر ) الشر وہ چیز ہے جس سے ہر ایک کراہت کرتا ہو جیسا کہ خیر اسے کہتے ہیں ۔ جو ہر ایک کو مرغوب ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَرٌّ مَکاناً [يوسف/ 77] کہ مکان کس کا برا ہے وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال/ 22] کچھ شک نہیں کہ خدا کے نزدیک تمام جانداروں سے بدتر بہرے ہیں أوب الأَوْبُ : ضرب من الرجوع، وذلک أنّ الأوب لا يقال إلا في الحیوان الذي له إرادة، والرجوع يقال فيه وفي غيره، يقال : آب أَوْباً وإِيَاباً ومَآباً. قال اللہ تعالی: إِنَّ إِلَيْنا إِيابَهُمْ [ الغاشية/ 25] وقال : فَمَنْ شاءَ اتَّخَذَ إِلى رَبِّهِ مَآباً [ النبأ/ 39] ، والمآب : المصدر منه واسم الزمان والمکان . قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الْمَآبِ [ آل عمران/ 14] ، ( او ب ) الاوب ۔ گو اس کے معنی رجوع ہونا کے ہیں لیکن رجوع کا لفظ عام ہے جو حیوان اور غیر حیوان دونوں کے لوٹنے پر بولا جاتا ہے ۔ مگر اواب کا لفظ خاص کر حیوان کے ارادہ لوٹنے پر بولا جاتا ہے ۔ اب اوبا ویابا ومآبا وہ لوٹ آیا قرآن میں ہے ۔ { إِنَّ إِلَيْنَا إِيَابَهُمْ } ( سورة الغاشية 25) بیشک ہماری طرف لوٹ کر آنا ہے ۔ { فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلَى رَبِّهِ مَآبًا } ( سورة النبأ 39) اپس جو شخص چاہے اپنے پروردگار کے پاس ٹھکانا بنائے ۔ المآب۔ یہ مصدر ( میمی ) ہے اور اسم زمان اور مکان بھی ۔ قرآن میں ہے :۔ { وَاللهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الْمَآبِ } ( سورة آل عمران 14) اور اللہ کے پاس اچھا ٹھکانا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٥ { ہٰذَا ط وَاِنَّ لِلطّٰغِیْنَ لَشَرَّ مَاٰبٍ } ” (متقین کے لیے تو) یہ ہے ! اور یقینا سرکشوں کے لیے لوٹنے کی بہت بری جگہ ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(38:55) ملاحظہ ہو 38:49 ۔ متذکرہ بالا۔ شرماب کی ترکیب حسن ماب (38:25) کی مانند ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : متقین کے مقابلے میں نافرمانوں اور باغیوں کا ٹھکانہ اور سزائیں۔ قرآن مجید کا تسلسل کے ساتھ یہ اسلوب ہے کہ جنتیوں کے انعامات کے مقابلے میں جہنمیوں کی سزاؤں کا ذکر کرتا ہے تاکہ قرآن پڑھنے والا اس بات پر غور کرے کہ اسے کونسا عقیدہ اور کیا کردار اختیار کرنا چاہے۔ لہٰذا جنتیوں کے انعامات کے بیان کے بعد جہنمیوں کی سزا کا ذکر ہوتا ہے۔ باغیوں اور نافرمانوں کا ٹھکانہ جہنم ہوگا جو رہنے کے اعتبار سے بد ترین جگہ ہوگی۔ انہیں پینے کے لیے گرم ترین پانی اور پیپ دی جائے گی اس کے ساتھ ہی انہیں مختلف قسم کے عذاب دیئے جائیں گے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ اِنَّ الْحَمِیمَ لَیُصَبُّ عَلَی رُءُ وسِہِمْ فَیَنْفُذُ الْحَمِیمُ حَتَّی یَخْلُصَ إِلَی جَوْفِہِ فَیَسْلِتَ مَا فِی جَوْفِہِ حَتَّی یَمْرُقَ مِنْ قَدَمَیْہِ وَہُوَ الصَّہْرُ ثُمَّ یُعَادُ کَمَا کَانَ )[ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ شَرَابِ أَہْلِ النَّارِ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا بیشک گرم پانی جہنمیوں کے سروں میں ڈالا جائیگاتو وہ پانی ان کے سروں کو چھیدتے ہوئے انکے پیٹوں میں پہنچے گا تو ان کی آنتیں پاؤں کے راستے پگھل کر نکل جائیں گی پھر انہیں اسی طرح لوٹا دیا جائے گا۔ “ (عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ (رض) اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُاِلٰی کَعْبَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُُہُ النَّارُاِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی حُجْزَتِہٖ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی تَرْقُوَتِہٖ ) [ رواہ مسلم : باب فی شدۃ حر النار ] ” حضرت سمرہ بن جندب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جہنم کی آگ نے بعض لوگوں کے ٹخنوں تک، بعض کے گھٹنوں تک اور بعض کو کمر تک گھیرا ہوگا اور بعض کی گردن تک پہنچی ہوگی۔ “ ” حضرت ابی درداء (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جہنمیوں پر بھوک مسلط کردی جائے گی اور وہ بھوک اس عذاب کے برابر ہوگی جس میں وہ مبتلا ہوں گے اور کھانا طلب کریں گے تو انہیں کھانے میں سوکھی گھاس پیش کی جائے گی جس سے نہ تو وہ موٹے ہو پائیں گے اور نہ ان کی بھوک دور ہوگی وہ کھانا طلب کریں گے تو انہیں ایسا کھانا دیا جائے گا جو ان کے حلق میں اٹک جائے گا۔ وہ کہیں گے کہ دنیا میں جب کھانا حلق میں پھنس جاتا تھا تو ہم پانی کے ساتھ اسے نیچے اتارتے تھے۔ وہ پانی طلب کریں گے تو انہیں گرم پانی لوہے کے پیالوں میں پیش کیا جائے گا جب وہ اسے اپنے چہروں کے قریب کریں گے تو ان کے چہرے جھلس جائیں گے اور جب اسے اپنے پیٹ میں داخل کریں گے تو ان کے پیٹ کٹ کر رہ جائیں گے۔[ باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ طَعَامِ أَہْلِ النَّارِ ] مسائل ١۔ اللہ کے باغیوں اور نافرمانوں کو جہنم میں جھونکا جائے گا۔ ٢۔ جہنم رہنے کے اعتبار سے بد ترین جگہ ہے۔ ٣۔ جہنمیوں کو پینے کے لیے گرم ترین پانی اور پیپ دی جائے گی۔ ٤۔ جہنمیوں کو جہنم میں مختلف قسم کے عذاب دیئے جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن جہنم میں مختلف قسم کے عذاب : ١۔ آنتوں اور کھالوں کا بار بار گلنا۔ (النساء : ٥٦) ٢۔ دوزخیوں کی کھال کا بار بار بدلا جانا۔ (الحج : ٢٠) ٣۔ کانٹے دار جھاڑیوں کا کھانادیا جانا۔ (الغاشیہ : ٦) ٤۔ لوہے کے ہتھوڑوں سے سزا پانا۔ (الحج : ٢١، ٢٢) ٥۔ کھانا گلے میں اٹک جانا۔ (المزمل : ١٣) ٦۔ دوزخیوں کو کھولتا ہوا پانی دیا جانا۔ (الانعام : ٧٠) ٧۔ دوزخیوں کو پیپ پلایا جانا۔ (النّبا : ٢٥) ٨۔ آگ کا لباس پہنایا جانا۔ (الحج : ١٩) ٩۔ دوزخیوں کو پیپ پلایا جانا۔ (النبا : ٢٥) ١٠۔ قیامت کے دن مجرم اپنے ہاتھوں کو کاٹیں گے۔ (الفرقان : ٢٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

سرکشوں کا برا انجام، دوزخ میں ایک دوسرے سے بیزار ہونا اہل سعادت کا اکرام اور انعام بیان کرنے کے بعد فرمایا ھٰذَا یعنی یہ بات جو اوپر بیان ہوچکی اس کو محفوظ رکھو اور یاد رکھو اس کے بعد اہل شقاوت کا حال معلوم کرو اور وہ یہ ہے کہ سرکشوں کا برا ٹھکانہ ہوگا یعنی یہ لوگ دوزخ میں داخل ہوں گے جو بدترین ٹھکانہ ہے اور برا بچھونا ہے (چونکہ دوزخیوں کے نیچے بھی آگ ہوگی اس لیے اسے برا بچھونا فرمایا) یہ عذاب ہے سو اسے چکھ لو، حمیم ہے اور غساق ہے اور اسی طرح کا مختلف قسم کا عذاب ہے۔ مثلاً ضریع ہے اور زمہریر ہے زقوم ہے اور غسلین ہے، صعود ہے اور مقامع ہے وغیرہ ذالک حمیم گرم پانی کو کہتے ہیں سورة محمد میں فرمایا (وَسُقُوْا مَآءً حَمِیْمًا فَقَطَّعَ اَمْعَآءَ ھُمْ ) (اور انہیں کھولتا ہوا گرم پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردے گا) اور غساق کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر اس کا ایک ڈول دنیا میں ڈال دیا جائے تو تمام دنیا والے سڑ جائیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح از ترمذی ص ٥٠٣) غساق کیا چیز ہے اس کے بارے میں صاحب مرقاۃ (شرح مشکوٰۃ) نے چار قول نقل کیے ہیں۔ (١) دوزخیوں کی پیپ اور ان کا دھواں مراد ہے۔ (٢) دوزخیوں کے آنسو مراد ہیں۔ (٣) زمہریر یعنی دوزخ کا ٹھنڈک والا عذاب مراد ہے۔ (٤) غساق سڑی ہوئی اور ٹھنڈی پیپ ہے جو ٹھنڈک کی وجہ سے پی نہ جاسکے گی، (مگر بھوک کی وجہ سے مجبوراً پینی پڑے گی) بہرحال غساق بہت بری چیز ہے جو بہت ہی زیادہ بد بو دار ہے۔ (اَللّٰھُمَ اَعِذْنَا مِنْہُ ) اس کے بعد اہل دوزخ کا ایک باہمی مکالمہ نقل فرمایا اور وہ یہ کہ جو لوگ پہلے سے دوزخ میں جاچکے ہوں گے (علی التعاقب اس طرح کی بہت سی جماعتیں جانے والی ہوں گی) تو بعد میں آنے والی جماعت کو دیکھ کر پہلے داخل ہونے والی جماعت کہے گی، یہ ایک جماعت اور آئی جو تمہارے ساتھ عذاب بھگتنے کے واسطے یہیں گھسنے کے لیے آرہی ہے ان کے لیے کوئی مرحبا نہیں یعنی ان کے آنے کی کوئی خوشی نہیں یہ بھی جہنمی ہم بھی جہنمی ہمیں ان سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ بعد میں آنے والی جماعت جواب میں کہے گی (جو دنیا میں پہلی جماعت کی پیروکار تھی اور اس کے بہلانے اور ورغلانے سے کفر اختیار کیے ہوئے تھی) بلکہ تمہارے لیے کوئی مرحبا نہیں ہے تم یہ عذاب ہمارے آگے لائے یعنی تم نے ہمیں کفر پر ڈالا اور جمایا جس کے نتیجے میں ہم یہاں عذاب بھگتنے کے لیے داخل کیے گئے اس کے بعد وہ بعد میں آنے والی جماعت (جو اتباع تھے) اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنے متبوعین یعنی بڑوں اور سرداروں کی سزا کے لیے یہ درخواست پیش کریں گے کہ اے ہمارے رب جو شخص ہمارے لیے عذاب کو آگے لایا اسے دوزخ میں دوگنا عذاب دیجیے۔ یہاں دنیا میں ایک دوسرے سے تعلق بھی رکھتے ہیں چھوٹے لوگ اپنے بڑوں کی بات بھی مانتے ہیں اور ان کے کہنے سے کفر پر جمے رہتے ہیں لیکن جب وہاں دوزخ میں داخل ہوں گے تو ایک دوسرے پر لعنت کریں گے اور چھوٹے لوگ اپنے سرداروں کے لیے دوہرے عذاب کی درخواست کریں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

40:۔ ” و ان للطاغین۔ تا۔ تخاصم اھل النار۔ یہ تخویف اخروی ہے۔ فرمانبردار مومنین کے مقابلے میں سرکشوں کا انجام ناہیت برا ہوگا۔ ” طاغین “ سے سرکش کفار و مشرکین کے سردار و رؤسا مراد ہیں جو ان کو شرک کی دعوت دیتے تھے۔ وہ جہنم میں داخل ہوں گے۔ اور ان سے کہا جائے گا۔ یہ دنیا میں تمہاری سرکشی کی سزا ہے۔ اب اس کا مزہ چکھو۔ کھولتا ہوا پانی اور دوزخیوں کے زخموں سے بہنے والی پیپ انہیں پینے کے لیے دی جائے گی۔ اور ان کے لیے اس سے ملتے جلتے عذاب اور مشروبات کی اور بھی کئی قسمیں تیار ہوں گی۔ الغساق ما یغسق من صدید اھل النار (مدارک) ۔ ولھم مذوقات او انواع عذاب اخر (روح ج 23 ص 215) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(55) یہ پرہیزگاروں کی بات تو ہوچکی اور رہے شریر اور سرکش اور سرکشوں کا برا ٹھکانا اور بری بازگشت ہے۔