Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 59

سورة ص

ہٰذَا فَوۡجٌ مُّقۡتَحِمٌ مَّعَکُمۡ ۚ لَا مَرۡحَبًۢا بِہِمۡ ؕ اِنَّہُمۡ صَالُوا النَّارِ ﴿۵۹﴾

[Its inhabitants will say], "This is a company bursting in with you. No welcome for them. Indeed, they will burn in the Fire."

یہ ایک قوم ہے جو تمہارے ساتھ ( آگ میں ) جانے والی ہے کوئی خوش آمدید ان کے لئے نہیں ہے یہی تو جہنم میں جانے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

This is a troop entering with you (in Hell), no welcome for them! Verily, they shall enter in the Fire! Here Allah tells us what the people of Hell will say to one another. This is like the Ayah: كُلَّمَا دَخَلَتْ أُمَّةٌ لَّعَنَتْ أُخْتَهَا Every time a new nation enters, it curses its sister nation (that went before), (7:38) which means, instead of greeting one another, they will curse one another, accuse one another of being liars and reject one another. When a new group arrives, the keepers of Hell will say, هَذَا فَوْجٌ مُّقْتَحِمٌ مَّعَكُمْ لاَ مَرْحَبًا بِهِمْ إِنَّهُمْ صَالُوا النَّارِ (This is a troop entering with you (in Hell), no welcome for them! Verily, they shall enter in the Fire!), meaning, because they are of the people of Hell.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

59۔ 1 جہنم کے دروازوں پر کھڑے فرشتے ائمہء کفر اور پیشوایان ضلالت سے کہیں گے، جب پیروکار قسم کے کافر جہنم میں جائیں گے یا ائمہ کفر و ضلالت آپس میں یہ بات، پیروکاروں کی طرف اشارہ کرکے کہیں گے۔ 59۔ 2 یہ لیڈر، جہنم میں داخل ہونے والے کافروں کے لئے، فرشتوں کے جواب میں یا آپس میں کہیں گے رَحْبَۃ کے معنی وسعت و فراخی کے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٩] یہاں ازواج کا لفظ ہم مثل چیزوں کے معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی اسی طرح کی اور بھی کئی گندی اور ناگوار چیزیں انہیں کھانا یا پینا پڑیں گی یا ایسی چیزوں سے انہیں عذاب دیا جائے گا۔ [٦٠] اہل جہنم کا باہمی مکالمہ اور ایک دوسرے پر الزام :۔ یہ اہل دوزخ کے دوزخ میں داخل ہونے کے وقت کا ایک مکالمہ پیش کیا گیا ہے پہلا گروہ تو بڑے لوگوں اور سرداروں اور پیشواؤں کا ہوگا۔ انہیں فرشتے جہنم کے کنارے لا کھڑا کریں گے۔ پھر ان کے بعد ان کے پیروکاروں کی عظیم جماعت کو لایا جائے گا۔ سردار حضرات اس عظیم جماعت کو دیکھتے ہی کہنے لگیں گے۔ یہ ایک اور جماعت جہنم میں داخل ہونے کے لئے بیتابی سے آگے بڑھتی چلی آرہی ہے۔ ان پر اللہ کی مار اور پھٹکار یہ کہاں سے آگئے ؟ جب پچھلی جماعت پہلوں کی یہ بات سنے گی تو وہ کہیں گے کہ اللہ کی مار اور پھٹکار تم پر ہو۔ تمہیں تو ہمارے پیشوا تھے اور یہاں جہنم میں لانے کا سبب بنے ہو۔ اور اب تم ہی ہم پر لعنت اور پھٹکار بھی کہہ رہے ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ھٰذَا فَوْجٌ مُّقْتَحِمٌ مَّعَكُمْ : ابن کثیر نے فرمایا، یہاں اللہ تعالیٰ نے جہنمیوں کی ایک دوسرے سے کی جانے والی باتوں کا ذکر فرمایا ہے، جیسا کہ فرمایا : ( ۭكُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّةٌ لَّعَنَتْ اُخْتَهَا ) [ الأعراف : ٣٨ ] ” جب بھی کوئی جماعت داخل ہوگی اپنے ساتھ والی کو لعنت کرے گی۔ “ یعنی وہ سلام کے بجائے ایک دوسرے پر لعنت کریں گے اور ایک دوسرے کو جھوٹا اور کافر کہیں گے۔ چناچہ وہ جماعت جو دوسری جماعت سے پہلے داخل ہوگی جب اس کے بعد والی جماعت جہنم کے دربان فرشتوں کے ساتھ داخل ہوگی تو پہلے والی جماعت فرشتوں سے کہے گی، یہ ایک گروہ ہے جو تمہارے ساتھ گھستا چلا آ رہا ہے، انھیں کوئی خوش آمدید نہیں، یقیناً وہ آگ میں داخل ہونے والے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ھٰذَا فَوْجٌ مُّقْتَحِمٌ مَّعَكُمْ۝ ٠ ۚ لَا مَرْحَبًۢا بِہِمْ۝ ٠ ۭ اِنَّہُمْ صَالُوا النَّارِ۝ ٥٩ فوج الفَوْجُ : الجماعة المارّة المسرعة، وجمعه أَفْوَاجٌ. قال تعالی: كُلَّما أُلْقِيَ فِيها فَوْجٌ [ الملک/ 8] ، هذا فَوْجٌ مُقْتَحِمٌ مَعَكُمْ [ ص/ 59] ، فِي دِينِ اللَّهِ أَفْواجاً [ النصر/ 2] . ( ف و ج ) الفوج کے معنی تیزی سے گزر نیوالی جماعت کے ہیں اس کی جمع افواج ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما أُلْقِيَ فِيها فَوْجٌ [ الملک/ 8] جب اس میں ان کی کوئی جماعت ڈالی جائے گی ۔ هذا فَوْجٌ مُقْتَحِمٌ مَعَكُمْ [ ص/ 59] ایک فوج ( ہے تماہرے ساتھ ) داخل ہوگی ۔ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْواجاً [ النصر/ 2] غول کے غول خدا کے دین میں قحم الِاقْتِحَامُ : توسّط شدّة مخیفة . قال تعالی: فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ [ البلد/ 11] ، هذا فَوْجٌ مُقْتَحِمٌ [ ص/ 59] ، وقَحَّمَ الفرسُ فارسَهُ : توَغَّلَ به ما يخاف عليه، وقَحَمَ فلان نفسه في كذا من غير رويّة، والمَقَاحِيمُ : الذین يَقْتَحِمُون في الأمر، قال الشاعر : مَقَاحِيمُ في الأمر الذي يتجنّب ويروی: يتهيّب . ( ق ح م ) الاقتحام کے معنی کسی خوف ناک جگہ میں گھس جانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ [ البلد/ 11] مگر وہ گھاٹی پر سے ہوکر نہ گزرا ۔ هذا فَوْجٌ مُقْتَحِمٌ [ ص/ 59] یہ ایک فوج ہے جو داخل ہوگی ۔ قحم الفرس فارسہ گھوڑا اپنے سوار کو لے کر خطرناک جگہ میں جا گھسا ۔ قحم فلان نفسہ فی کذا اس نے اپنے تئیں بےسوچے سمجھے خطرہ میں ڈال دیا ۔ مقاحیم ( واحد مقحام ) بےخطر کسی ( خوف ناک ) امر میں گھس جانے والے شاعر نے کہا ہے (351) مقاحیم فی الامر الذی یتجنب وہ قابل اجتناب یعنی خوفناک امور میں بےدھڑک گھسنے والے ہیں ایک روایت میں یتھیب ہے ۔ رحب الرُّحْبُ : سعة المکان، ومنه : رَحَبَةُ المسجد، ورَحُبَتِ الدّار : اتّسعت، واستعیر للواسع الجوف، فقیل : رَحْبُ البطن، ولواسع الصدر، كما استعیر الضيّق لضدّه، قال تعالی: ضاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِما رَحُبَتْ [ التوبة/ 118] ، وفلان رَحِيبُ الفناء : لمن کثرت غاشیته . وقولهم : مَرْحَباً وأهلا، أي : وجدت مکانا رَحْباً. قال تعالی: لا مَرْحَباً بِهِمْ إِنَّهُمْ صالُوا النَّارِ قالُوا بَلْ أَنْتُمْ لا مَرْحَباً بِكُمْ [ ص/ 59- 60] . ر ح ب ) الرحب ( اسم ) جگہ کی وسعت کو کہتے ہیں ۔ اسی سے رحبۃ المسجد ہے جس کے معنی مسجد کے کھلے صحن کے ہیں اور رحبت الدار کے معنی گھر کے وسیع ہونے کے ۔ پھر یہ رحب کا لفظ استعارہ پیٹ یا سینہ کی وسعت کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جیسے رحب البطن ( بسیارخور ) رحب الصدر ( فراخ سینہ ) عالی ظرف کو کہتے ہیں ۔ جیسا کہ اس کے برعکس ضیق الصدر کا لفظ مجازا تنگ سینہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ضاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِما رَحُبَتْ [ التوبة/ 118] اور زمین باوجود وسعت کے تم پر تنگ ہوگئی ۔ اور بطور استعارہ جس کے نوکر چاکر بہت زیادہ ہوں اسے رحیب الفناء کہا جاتا ہے ۔ مرحبا واھلا تو نے کشادہ جگہ پائی اور اپنے اہل میں آیا ( یہ لفظ خوش آمدید کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ) قرآن میں ہے :َ لا مَرْحَباً بِهِمْ إِنَّهُمْ صالُوا النَّارِ قالُوا بَلْ أَنْتُمْ لا مَرْحَباً بِكُمْ [ ص/ 59- 60] ان پر خدا کی مار بیشک یہ بھی دوزخ ہی میں آ رہے ہیں ( یہ سن کر وہ کہیں گے ) بلکہ تم پر خدا کی مار ۔ صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اللہ تعالیٰ ان کو ترتیب وار دوزخ میں داخل کرے گا جس وقت ایک جماعت دوزخ میں داخل ہوگی تو اس سے پہلے اس کے ہمراہ جو جماعت داخل ہوچکی ہوگی وہ اس پر لعنت کرے گی اللہ تعالیٰ پہلی جماعت سے فرمائے گا وہ تو دوزخ میں داخل ہوئی تو ایک جماعت اور آئی جو تمہارے ساتھ جہنم میں داخل ہورہی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٩ { ہٰذَا فَوْجٌ مُّقْتَحِمٌ مَّعَکُمْ } ” یہ ایک فوج ہے جو تمہارے ساتھ دھنسی چلی آرہی ہے۔ “ جہنم میں پہلے سے موجود لوگ ہر نئے آنے والے گروہ کے بارے میں یوں کہیں گے کہ ہم تو پہلے ہی یہاں انتہائی مصیبت میں ہیں۔ جگہ بھی تنگ ہے ‘ گرمی اور حبس بھی بہت ہے اور اوپر سے تم بھی ہمارے اوپر دھنسے چلے آرہے ہو۔ { لَا مَرْحَبًام بِہِمْ } ” ان کے لیے کوئی کشادگی نہ ہو ! “ یعنی یہ جو نئی کھیپ آرہی ہے ان کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں۔ ” مرحبا “ کے لغوی معنی فراخی اور کشادگی کے ہیں۔ یہ کسی کو خوش آمدید کہنے کا کلمہ (greeting) ہے۔ یعنی آئیے آئیے ! آپ کے لیے یہاں بہت جگہ اور ہر قسم کی سہولت موجود ہے (چشم ِما روشن دل ماشاد ! ) لیکن ان کے لیے وہاں کوئی خیر مقدم نہیں ہوگا۔ یعنی نہ تو کوئی ” مرحبا “ (خوش آمدید) کہنے والا ہوگا اور نہ ہی ” مرحبا “ کہنے کے لائق وہ ماحول ہوگا۔ { اِنَّہُمْ صَالُوا النَّارِ } ” یہ ہیں آگ میں گھسے آنے والے ۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(38:59) مقتحم۔ اسم فاعل واحد مذکر۔ ہولناک مقام میں گھس پڑنے والا۔ اقتحام (افتعال) مصدر۔ فعل لازم۔ کسی خوفناک مقام میں یا چیز میں گھس پڑنا۔ قحم الفرس فارسہ۔ تقحیم (تفعیل) مصدر سے متعدی۔ گھوڑا سوار کو لے کر خطر ناک مقام میں گھس پڑا۔ قحم نفسہ۔ قحم (فتح) مصدر۔ فعل متعدی۔ اس نے اپنے آپ کو بغیر سوچے سمجھے کسی کام میں ڈال دیا۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ فلا اقتحم العقبۃ (90:11) مگر وہ شخص بےدھڑک اور جوش کے ساتھ (دین کی) گھاٹی پر سے ہو کر نہ گزرا۔ مرحبا۔ خوش آمدید۔ لامرحبا بھم۔ ان کو کوئی خوش آمدید نہیں ۔ دور ہوں یہ۔ صالوا النار مضاف مضاف الیہ۔ آگ میں گھسنے والے۔ آگ میں داخل ہونے والے۔ آگ میں جلنے والے۔ صلی یصلی صلی (باب سمع) سے مصدر۔ اور صلی یصلی صلی (باب ضرب) فلانا النار۔ آگ میں ڈالنا۔ صالوا اصل میں صالون تھا۔ بوجہ اضافت نون جمع گرگیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یہ فرشتوں کا کلام ہے جو وہ دوزخیوں کے سرداروں سے اس وقت کہیں گے جب وہ دوزخ میں داخل ہو رہے ہوں گے اور باہران کے تابعدار کھڑے ہوں گے۔ 10 یہ دوزخیوں کے سرداروں کا کلام ہے جو وہ اپنے تابعداروں کے متعلق کہیں گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جہنم کے عذابوں میں ایک عذاب یہ بھی ہوگا کہ جہنمی آپس میں لڑتے رہیں گے۔ جہنمیوں کا ایک گروہ جہنم کے کنارے کھڑا ہوگا تو دوسرا گروہ پہنچ جائے گا۔ آنے والا گروہ پہلے کھڑے ہوئے گروہ کو طعنہ دے گا کہ اگر تم ٹھیک ہوتے تو ہمیں یہ وقت نہ دیکھنا پڑتا۔ تمہاری وجہ سے جہنم کا ہمیں سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو بد ترین ٹھکانہ ہے۔ اس کے بعد اپنے رب سے فریاد کریں گے کہ اے اللہ ! ہم سے پہلے آنے والوں کو جہنم میں دوگنا عذاب دیجیے۔ پھر کہیں گے کیا وجہ ہے کہ وہ لوگ ہمیں یہاں نظر نہیں آتے جن کو ہم شرارتی سمجھا کرتے تھے۔ کیا ہم نے انہیں مذاق سمجھا یا ہماری آنکھوں کو ان سے پھیر دیا گیا ہے۔ جہنمیوں کا آپس میں لڑناجھگڑنا ہر صورت ہوگا۔ دنیا میں جنہیں کمزور اور برے سمجھتے تھے ان کو دیکھ کر حسرت کا اظہار کریں گے کہ ہائے افسوس ! جن لوگوں کو ہم اپنے سے کمزور سمجھتے تھے اور عقیدہ و عمل کے لحاظ سے برا جانتے تھے وہ تو ہم سے بہتر ثابت ہوئے۔ حق کا انکار کرنے والوں کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے کہ وہ معلم اور نیک لوگوں کو شرارتی قرار دیتے ہیں۔ ” اس کے بعد یہ ایک دوسرے کی طرف منہ کریں گے اور آپس میں بحث و تکرار شروع کردیں گے۔ پیروی کرنے والے اپنے پیشیواؤں سے کہیں گے تم ہمارے پاس سیدھے رخ سے آتے تھے۔ وہ جواب دیں گے تم تو خود ہی ایمان لانے والے نہ تھے۔ ہمارا تم پر کوئی زور نہ تھا کیونکہ تم خود ہی سرکش تھے۔ آخر کار ہم اپنے رب کے اس فرمان کے مستحق ہوگئے کہ ہم عذاب کا مزا چکھنے والے ہیں۔ سو ہم نے تمہیں بہکایا ہم خود بہکے ہوئے تھے۔ اس طرح وہ سب اس دن عذاب میں اکٹھے ہوں گے۔ ہم مجرموں کے ساتھ یہی سلوک کیا کرتے ہیں۔ “ (الصافات : ٣٧ تا ٣٤) مسائل ُ ١۔ جہنم میں داخل ہونے والی ہر جماعت اپنے سے پہلے لوگوں کے ساتھ جھگڑا کرے گی۔ ٢۔ بعد میں داخل ہونے والے جہنمی پہلے لوگوں کے بارے میں بد دعائیں کریں گے۔ ٣۔ دنیا میں نیک لوگوں کے ساتھ مذاق کرنے والے کفار اور مشرکوں کو حسرتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تفسیر بالقرآن جہنمیوں کا آپس میں ایک دوسرے کو الزام دینا اور جھگڑنا : ١۔ دنیا میں بھی لعنت ان کے پیچھے لگی رہی اور قیامت کو بھی لگی رہے گی (ھود : ٩٩) ٢۔ دنیا میں بھی ان پر لعنت ہے اور قیامت کو بھی ان پر لعنت ہوگی۔ (ھود : ٦٠) ٣۔ اے ہمارے پروردگار ان کو دوگنا عذاب دے اور ان کو لعنت سے دوچار فرما۔ (الاحزاب : ٦٨) ٤۔ قیامت کے دن جہنمی ایک دوسرے کا انکار کریں گے اور ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے۔ (العنکبوت : ٢٥) ٥۔ اللہ کی کافروں پر لعنت ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے جہنم کو بھڑکا رکھا ہے۔ (الاحزاب : ٦٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

41:۔ ” ھٰذَا فَوْج الخ “۔ جب رؤسائے مشرکین اور داعیانِ شرک جہنم میں داخل ہوجائیں گے تو ان کے بعد ان کے اتباع و اذناب کی فوج جہنم میں داخل کی جائے گی اور ان کے متبوعین سے کہا جائے گا یہ فوج بھی تمہارے ساتھ جہنم میں داخل ہوگی تو وہ کہیں گے ان پر خدا کی مار وہ بھی دوزخ میں داخل ہو رہے ہیں۔ ” قالوا بل انتم الخ “ اس کے جواب میں اتباع اپنے سرداروں سے کہیں گے بلکہ تم پر خدا کی مار ہو تم ہی نے ہمیں گمراہ کیا اور تمہاری وجہ ہی سے ہم اس برے انجام کو پہنچے ہیں۔ ” ھٰذَا فَوْجٌ مّقْتَحِمٌ“ کلام الخزنۃ لرؤساء الکفرۃ فی اتباعہم و ” لا مرحبا بہم انہم صالوا النار “ کلام الرؤساء (مدارک) ۔ ” اَنْتُمْ قَدَّمْتُمُوْہُ لَنَا “ یعنی و تقول الاتباع للقادۃ انتم بداتم بالکفر قبلنا و شرتموہ لنا و قیل معناہ انتم لنا ھذا العذاب بدعاء کم ایانا الی الکفر (خازن و معالم ج 6 ص 52) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(59) یہ ایک اور جماعت تمارے ساتھ عذاب میں شریک ہونے کے اوپر تلے گھسی چلیآتی ہے ان کا برا ہو یہ بھی جہنم ہی میں آرہے ہیں۔ یعنی جب اس گروہ کو آتا دیکھیں گے تو کہیں گے یہ ایک گروہ ہے جو تم میں گھسا چلا آتا ہے ان کو خدا کی مار اور ان کا برا ہو یہ بھی سب جہنم میں ہی آرہے ہیں یعنی ان کے آنے سے کوئی خوشی نہیں بلکہ یہ تو ہماری طرح عذاب میں ہی داخل ہونے کو آرہے ہیں یہ سن کر وہ آنے والے یعنی تابع کہیں گے۔