Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 60

سورة ص

قَالُوۡا بَلۡ اَنۡتُمۡ ۟ لَا مَرۡحَبًۢا بِکُمۡ ؕ اَنۡتُمۡ قَدَّمۡتُمُوۡہُ لَنَا ۚ فَبِئۡسَ الۡقَرَارُ ﴿۶۰﴾

They will say, "Nor you! No welcome for you. You, [our leaders], brought this upon us, and wretched is the settlement."

وہ کہیں گے بلکہ تم ہی ہو جن کے لئے کوئی خوش آمدید نہیں ہے تم ہی نے تو اسے پہلے ہی سے ہمارے سامنے لا رکھا تھا پس رہنے کی بڑی بری جگہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالُوا بَلْ أَنتُمْ لاَا مَرْحَبًا بِكُمْ ... Nay, you (too)! No welcome for you! means, those who are coming in will say, قَالُوا بَلْ أَنتُمْ لاَا مَرْحَبًا بِكُمْ أَنتُمْ قَدَّمْتُمُوهُ لَنَا ... Nay, you (too)! No welcome for you! It is you who brought this upon us, meaning, `you called us to that which led us to this fate.' ... فَبِيْسَ الْقَرَارُ so evil is this place to stay in! means, evil is this abode and this destination.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

60۔ 1 یعنی تم ہی کفر و ضلالت کے راستے ہمارے سامنے مزین کرکے پیش کرتے تھے، یوں گویا اس عذاب جہنم کے پیش کار تم ہی ہو۔ یہ پیروکار، اپنے پیروی کرنے والوں سے کہیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا بَلْ اَنْتُمْ ۣ لَا مَرْحَبًۢا بِكُمْ : بعد میں داخل ہونے والے ان سے کہیں گے، بلکہ تمہارے لیے کوئی خوش آمدید نہیں، تمھی نے ہمیں اس کام کی دعوت دی جس نے ہمیں اس انجام تک پہنچایا، سو یہ ہمارا اور تمہارا بہت برا ٹھکانا ہے۔ یہ بات وہ محض دل ٹھنڈا کرنے کے لیے کہیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا بَلْ اَنْتُمْ۝ ٠ ۣ لَا مَرْحَبًۢا بِكُمْ۝ ٠ ۭ اَنْتُمْ قَدَّمْتُمُوْہُ لَنَا۝ ٠ ۚ فَبِئْسَ الْقَرَارُ۝ ٦٠ رحب الرُّحْبُ : سعة المکان، ومنه : رَحَبَةُ المسجد، ورَحُبَتِ الدّار : اتّسعت، واستعیر للواسع الجوف، فقیل : رَحْبُ البطن، ولواسع الصدر، كما استعیر الضيّق لضدّه، قال تعالی: ضاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِما رَحُبَتْ [ التوبة/ 118] ، وفلان رَحِيبُ الفناء : لمن کثرت غاشیته . وقولهم : مَرْحَباً وأهلا، أي : وجدت مکانا رَحْباً. قال تعالی: لا مَرْحَباً بِهِمْ إِنَّهُمْ صالُوا النَّارِ قالُوا بَلْ أَنْتُمْ لا مَرْحَباً بِكُمْ [ ص/ 59- 60] . ر ح ب ) الرحب ( اسم ) جگہ کی وسعت کو کہتے ہیں ۔ اسی سے رحبۃ المسجد ہے جس کے معنی مسجد کے کھلے صحن کے ہیں اور رحبت الدار کے معنی گھر کے وسیع ہونے کے ۔ پھر یہ رحب کا لفظ استعارہ پیٹ یا سینہ کی وسعت کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جیسے رحب البطن ( بسیارخور ) رحب الصدر ( فراخ سینہ ) عالی ظرف کو کہتے ہیں ۔ جیسا کہ اس کے برعکس ضیق الصدر کا لفظ مجازا تنگ سینہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ضاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِما رَحُبَتْ [ التوبة/ 118] اور زمین باوجود وسعت کے تم پر تنگ ہوگئی ۔ اور بطور استعارہ جس کے نوکر چاکر بہت زیادہ ہوں اسے رحیب الفناء کہا جاتا ہے ۔ مرحبا واھلا تو نے کشادہ جگہ پائی اور اپنے اہل میں آیا ( یہ لفظ خوش آمدید کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ) قرآن میں ہے :َ لا مَرْحَباً بِهِمْ إِنَّهُمْ صالُوا النَّارِ قالُوا بَلْ أَنْتُمْ لا مَرْحَباً بِكُمْ [ ص/ 59- 60] ان پر خدا کی مار بیشک یہ بھی دوزخ ہی میں آ رہے ہیں ( یہ سن کر وہ کہیں گے ) بلکہ تم پر خدا کی مار ۔ قدم وأكثر ما يستعمل القدیم باعتبار الزمان نحو : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس/ 39] ، وقوله : قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ [يونس/ 2] ، أي : سابقة فضیلة، وهو اسم مصدر، وقَدَّمْتُ كذا، قال : أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقاتٍ [ المجادلة/ 13] ( ق د م ) القدم عموما القدیم کا لفظ قدم باعتبار زمانہ یعنی پرانی چیز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس/ 39] کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ۔ اور آیت کریمہ : قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ [يونس/ 2] ان کے پروردگار کے ہاں ان کا سچا درجہ ہے ۔ میں قدم صدق سے سابقہ فضیلت مراد ہے ۔ اور یہ اسم مصدر ہے اور قدمت کذا کے معنی پہلے کسی کوئی کام کرچکنے یا بھیجنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقاتٍ [ المجادلة/ 13] کیا تم اس سے کہ پیغمبر کے کان میں کوئی بات کہنے سے پہلے خیرات دیا کرو، ڈرگئے ہو بِئْسَ و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام، كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة/ 79] ، أي : شيئا يفعلونه، ( ب ء س) البؤس والباس بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ { بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ } ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے قرر قَرَّ في مکانه يَقِرُّ قَرَاراً ، إذا ثبت ثبوتا جامدا، وأصله من القُرِّ ، وهو البرد، وهو يقتضي السّكون، والحرّ يقتضي الحرکة، وقرئ : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ [ الأحزاب/ 33] «1» قيل «2» : أصله اقْرِرْنَ فحذف إحدی الرّاء ین تخفیفا نحو : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ [ الواقعة/ 65] ، أي : ظللتم . قال تعالی: جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَراراً [ غافر/ 64] ، أَمَّنْ جَعَلَ الْأَرْضَ قَراراً [ النمل/ 61] ، أي : مستقرّا، وقال في صفة الجنّة : ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ«3» ، وفي صفة النّار قال : فَبِئْسَ الْقَرارُ [ ص/ 60] ، وقوله : اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ ما لَها مِنْ قَرارٍ [إبراهيم/ 26] ، أي : ثبات، وقال الشاعر : 365- ولا قرار علی زأر من الأسد «4» أي : أمن واسْتِقْرَارٍ ، ويوم الْقَرِّ : بعد يوم النّحر لاستقرار الناس فيه بمنی، وو ، وقیل : قَرَّتْ ليلتنا تَقِرُّ ، ويوم قَرٌّ ، ولیلة قِرَّةٌ ، وقُرَّ فلان فهو مَقْرُورٌ: أصابه الْقُرُّ ، وقیل : حرّة تحت قِرَّةٍ «2» ، وقَرَرْتُ القدر أَقُرُّهَا : ( ق ر ر ) قرنی مکانہ یقر قرار ا ( ض ) کے معنی کسی جگہ جم کر ٹھہر جانے کے ہیں اصل میں یہ فر سے ہے جس کے معنی سردی کے ہیں جو کہ سکون کو چاہتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ [ الأحزاب/ 33 اور اپن گھروں میں ٹھہری رہو ۔ میں ایک قرات وقرن فی بیوتکن ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں اقررن ہے ایک راء کو تخفیف کے لئے خلاف کردیا گیا ہے جیسا کہ آیت ؛ فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ [ الواقعة/ 65] ، ہے اور ایک ) لام کو تخفیفا حذف کردیا گیا ہے ۔ القرار ( اسم ) ( ٹھہرنے کی جگہ ) قرآن میں ہے : جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَراراً [ غافر/ 64]( جس نے ) زمین کو قرار لگا دبنا یا ۔ اور جنت کے متعلق فرمایا : ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ«3»جو رہنے کے لائق اور جہاں نتھرا ہوا پانی تھا ( پناہ دی ) اور جن ہم کے متعلق فرمایا : فَبِئْسَ الْقَرارُ [ ص/ 60] اور وہ بڑا ٹھکانا ہے ۔ اور آیت کریمہ : اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ ما لَها مِنْ قَرارٍ [إبراهيم/ 26] زمین کے اوپر ہی سے اکھیڑ کر پھینک دیاجائے ۔ اس کو ذرا بھی قرار نہیں ہے ۔۔۔ قرار کے معنی ثبات کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے (352) ولا قرار عل ی زاز من الاسد یعنی شیر کے دھاڑنے پر امن ( چین) حاصل نہیں ہوسکتا ۔ اور یوم النحر سے بعد کے دن کو یوم القر کہاجاتا ہے کیونکہ لوگ اس روز منیٰ میں ٹھہری رہتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

تو پہلی جماعت اس دوسری جماعت سے کہے گی ان پر اللہ کی مار یہ بھی دوزخ میں گھس رہے ہیں تو یہ بعد والی جماعت کہے گی بلکہ تمہارے ہی اوپر اللہ کی مار ہو تم نے ہی تو یہ بےدینی کا راستہ بنایا تھا جس کی وجہ سے ہم نے تمہاری پیروی کی سو یہ ہمارے لیے اور تمہارے لیے برا ٹھکانا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٠ { قَالُوْا بَلْ اَنْتُمْقف لَا مَرْحَبًامبِکُمْ } ” وہ (نئے آنے والے) کہیں گے کہ نہیں بلکہ تم ایسے ہو ! تمہارے لیے نہ ہو کوئی کشادگی ! “ تمہارے لیے کوئی ” مرحبا “ نہیں ‘ کوئی خیر مقدم اور خوش آمدید نہیں ! { اَنْتُمْ قَدَّمْتُمُوْہُ لَنَاج فَبِئْسَ الْقَرَارُ } ” تم نے ہی اسے ہمارے لیے پہلے بھیجا ہے ‘ تو یہ بہت ہی بری جگہ ہے ٹھہرنے کی۔ “ تم نے ہی ہمارے لیے یہ سارا سامان فراہم کیا ہے۔ یہ سارا تمہارا کیا دھرا ہے۔ تم ہماری پہلی نسل ہو اور تم نے ہی ہمیں گمراہ کیا تھا۔ تم لوگوں نے ہی ہمیں تمام غلط عقائد اور برے اعمال سکھائے تھے۔ تمہارے کرتوتوں کے باعث اور تمہاری پیروی کرنے کی وجہ سے ہی آج ہم یہاں جہنم میں آئے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(38:60) قالوا بل انتم ای قالوا بل انتم لامرحبابکم۔ بل حرف اضراب ہے۔ جملہ کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔ (1) قالوا بل انتم یعنی انتم پر وقف ہے۔ وہ کہیں گے ہم نہیں بلکہ تم آگ میں جھلس رہے ہو۔ ای قالوا بل انتم صالوا النار۔ (2) دوسری صورت میں اگر وقف بکم پر کیا جائے تو مطلب ہوگا۔ قالوا بل انتم احق بما قلتم لنا۔ وہ کہیں گے۔ یہ نہیں بلکہ جو تم ہمارے بارے میں کہتے ہیں تم خود اس کے زیادہ حقدار ہو۔ یعنی تم نے جو لامرحبا بہم کہہ کر ہمارے خلاف نفرت کا اظہار کیا ہے تم اس نفرت اور عدم خوش آمدید کے زیادہ مستحق ہو۔ قد متموہ لنا : قد متم ماضی جمع مذکر تقدیم (تفعیل) مصدر۔ آگے لانا۔ سامنے کرنا۔ سامنے لانا۔ واؤ جمع کی ہے یا صالوا کے مصدر الصلی کے لئے ہے ای دخول النار لنا (ہمارا جہنم میں پھینکا جانا) یعنی تم ہی تو ہو جو یہ مصیبت (عذاب یا دوزخ) ہمارے آگے لائے ہو (یعنی تم ہی نے تو یہ سامان ہمارے لئے کیا ہے ہم کو دنیا میں دھوکہ سے کفر کی طرف ورغلاکر) بئس برا ہے۔ فعل ذم سے۔ اس کی گردان نہیں آتی۔ بئس اصل میں بئس تھا۔ بروزن فعل سمع سے۔ عین کلمہ کی اتباع میں اس کے فاء کو کسرہ دیا پھر تخفیف کے لئے عین کلمہ کو ساکن کردیا گیا۔ بئس ہوگیا۔ القرار۔ قرارگاہ۔ ٹھکانا ۔ قر (باب ضرب) مصدر سے بمعنی ظرف ہے نیز مصدر بمعنی ٹھہرنا بھی ہے فبئس القرار۔ پس (جہنم) بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 یعنی تم ہی نے تو ہمیں دنیا میں بہکا یا ورنہ ہم اس آفت میں نہ پھنستے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(60) وہ جواب دیں گے نہیں بلکہ تمہارا ہی برا ہو تم ہی تو یہ عذاب ہمارے آگے لائے ہو سو وہ عذاب برا ٹھکانا اور بری جگہ ہے ٹھہرائو کی یعنی یہ بھی لا مرحبا کا جواب لا مرحبا سے دیں گے۔ نہیں تم پر خدا کی مار ہو تمہاری بدولت تو ہم کو یہ عذاب پیش آیا ہے نہ تم ہم کو بہکاتے اور ن تم یہ بری رسمیں چھوڑ کرجاتے اور نہ تم مبتلا ہوتے ہم کو اس مصیبت میں تمہاری وجہ سے مبتلا ہونا پڑا سو یہ عذاب بہت ہی بری قرار گاہ ہے جس میں ہم تمہاری وجہ سے آرہے ہیں یہ آپس کی تو تو میں میں کے ساتھ یہ تابع اللہ تعالیٰ سے بھی دعا کریں گے۔