Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 63

سورة ص

اَتَّخَذۡنٰہُمۡ سِخۡرِیًّا اَمۡ زَاغَتۡ عَنۡہُمُ الۡاَبۡصَارُ ﴿۶۳﴾

Is it [because] we took them in ridicule, or has [our] vision turned away from them?"

کیا ہم نے ہی ان کا مذاق بنا رکھا تھا یا ہماری نگاہیں ان سے ہٹ گئی ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And they will say: "What is the matter with us that we see not men whom we used to count among the bad ones Did we take them as an object of mockery, or have (our) eyes failed to perceive them?" Here Allah tells us that when they are in Hell, the disbelievers will notice that they do not see people who they thought were misguided, while they thought of themselves as believers. They will say, `why do we not see them with us in the Fire?' Mujahid said, "This is what Abu Jahl will say; he will say, `what is the matter with me that I do not see Bilal and `Ammar and Suhayb and so-and-so...' This is an example; all the disbelievers are like this, they think that the believers will go to Hell, so when the disbelievers enter Hell, they will wonder why they do not see them there, and they will say, مَا لَنَا لاَا نَرَى رِجَالاًا كُنَّا نَعُدُّهُم مِّنَ الاْاَشْرَارِ أَتَّخَذْنَاهُمْ سِخْرِيًّا (What is the matter with us that we see not men whom we used to count among the bad ones Did we take them as an object of mockery), means, in this world, أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الاَْبْصَارُ (or have (our) eyes failed to perceive them), means, they will try to console themselves with this wishful thinking, so they will say, perhaps they are here in Hell with us, but we have not laid eyes on them. Then they will find out that they (the believers) are in the lofty levels of Paradise, as Allah says: وَنَادَى أَصْحَـبُ الْجَنَّةِ أَصْحَـبَ النَّارِ أَن قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدتُّم مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا قَالُواْ نَعَمْ فَأَذَّنَ مُوَذِّنٌ بَيْنَهُمْ أَن لَّعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّـلِمِينَ And the dwellers of Paradise will call out to the dwellers of the Fire (saying): "We have indeed found true what our Lord had promised us; have you also found true what your Lord promised (warned)" They shall say: "Yes." Then a crier will proclaim between them: "The curse of Allah is on the wrongdoers." until: ادْخُلُواْ الْجَنَّةَ لاَ خَوْفٌ عَلَيْكُمْ وَلاَ أَنتُمْ تَحْزَنُونَ Enter Paradise, no fear shall be on you, nor shall you grieve. (7:44-49) إِنَّ ذَلِكَ لَحَقٌّ تَخَاصُمُ أَهْلِ النَّارِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

63۔ 1 یعنی دنیا میں، جہاں ہم غلطی پر تھے ؟ 63۔ 2 یا وہ بھی ہمارے ساتھ ہی یہیں کہیں ہیں، ہماری نظریں انہیں نہیں دیکھ پا رہی ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٣] یعنی چودھری اور سردار قسم کے لوگ آپس میں کہیں گے کہ جن لوگوں کو ہم حقیر اور کمتر درجہ کے لوگ سمجھا کرتے تھے کیا بات ہے وہ ہمیں آج کہیں دکھائی نہیں دے رہے۔ اب اس کی دو ہی صورتیں ممکن ہیں ایک یہ کہ شاید وہ یہیں کہیں ہوں اور ہماری نظروں سے اوجھل ہوں اور دوسری یہ کہ ممکن ہے کہ ہم غلطی پر ہوں جو انہیں حقیر سمجھ کر ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے، اور وہ حقیقتًا اچھے لوگ ہوں اور وہ اس عذاب سے بچ گئے ہوں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَتَّخَذْنٰهُمْ سِخْرِيًّا : یعنی اب دو ہی صورتیں ہیں، یا تو ہم غلطی پر تھے کہ انھیں ناحق مذاق کا نشانہ بناتے رہے، یا وہ بھی یہیں کہیں جہنم میں ہیں، مگر ہماری نگاہیں ان سے پھر گئی ہیں، جو وہ ہمیں نظر نہیں آ رہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَتَّخَذْنٰہُمْ سِخْرِيًّا اَمْ زَاغَتْ عَنْہُمُ الْاَبْصَارُ۝ ٦٣ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ سخر التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية/ 13] ( س خ ر ) التسخیر ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية/ 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔ زيغ الزَّيْغُ : المیل عن الاستقامة، والتَّزَايُغُ : التمایل، ورجل زَائِغٌ ، وقوم زَاغَةٌ ، وزائغون، وزاغت الشمس، وزَاغَ البصر، وقال تعالی: وَإِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] ، يصحّ أن يكون إشارة إلى ما يداخلهم من الخوف حتی اظلمّت أبصارهم، ويصحّ أن يكون إشارة إلى ما قال : يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ [ آل عمران/ 13] ، وقال : ما زاغ الْبَصَرُ وَما طَغى [ النجم/ 17] ، مِنْ بَعْدِ ما کادَ يَزِيغُ [ التوبة/ 117] ، فَلَمَّا زاغُوا أَزاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ [ الصف/ 5] ، لمّا فارقوا الاستقامة عاملهم بذلک . ( ز ی غ ) الزیغ کے معنی حالت استقامت سے ایک جانب مائل ہوجانا کے ہیں اور التزایغ کے معنی تمایل یعنی بہت زیادہ مائل ہوجانا ایک دوسرے سے مائل ہونا رجل زائغ مائل ہونے والا ۔ اس کی جمع زاغۃ وزائغون آتی ہے ۔ زاغت الشمس ۔ سورج مائل بزوال ہوگیا زاغ البصر نگاہ نے غلطی کی ، ایک طرف ہٹ گئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَإِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ خوف و ہراس کی وجہ سے انہیں کچھ نظر نہیں آئے گا اور یہ بھی کہ یہ آیت :۔ يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ [ آل عمران/ 13] کے ہم معنی ہو یعنی نگاہیں صحیح طور پر کسی چیز کا ادارک نہیں کرسکیں گی ۔ نیز فرمایا : ما زاغ الْبَصَرُ وَما طَغى [ النجم/ 17] نظر نہ تو حقیقت سے ایک طرف ہٹی اور نہ ہی اس نے حد سے تجاوز کیا ۔ مِنْ بَعْدِ ما کادَ يَزِيغُ [ التوبة/ 117] اس کے بعد کہ ۔۔۔۔ پھرجانے کو تھے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَلَمَّا زاغُوا أَزاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ [ الصف/ 5] کے معنی یہ ہیں کہ جب وہ از خود صحیح راہ سے ہٹ گئے تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے دلوں کو اسی طرف جھکا دیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٣۔ ٦٤) کیا ہم نے دنیا میں ناحق ان کا مذاق اڑایا تھا یا ان کے دیکھنے سے ہماری نگاہیں چکرا رہی ہیں کہ وہ ہمیں یہاں نظر نہیں آرہے یہ دوزخیوں کا آپس میں لڑنا جھگڑنا بالکل سچی بات ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٣ { اَتَّخَذْنٰہُمْ سِخْرِیًّا } ” کیا ہم نے انہیں خواہ مخواہ ہنسی مذاق بنا لیا تھا “ یعنی کیا ہم نے انہیں غلط سمجھا تھا ؟ اور ہم ان کا جو مذاق اڑایا کرتے تھے کیا وہ سب بلاوجہ اور بےمحل تھا ؟ اور کیا اصل میں وہ برے لوگ نہیں تھے ؟ { اَمْ زَاغَتْ عَنْہُمُ الْاَبْصَارُ } ” یا ہماری نگاہیں ان سے چوک رہی ہیں ؟ “ یعنی کیا وہ لوگ یہاں جہنم میں موجود ہی نہیں یا پھر ہم انہیں دیکھ نہیں پا رہے۔ اہل جہنم کی یہ ساری گفتگو اہل ِایمان کے بارے میں ہوگی جو اس وقت جنت کی نعمتوں سے فیض یاب ہو رہے ہوں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(38:63) اتخذنھم سخریا۔ ہمزہ استفہامیہ ہے اس کی وجہ سے ہمزہ وصل ساقط ہوگیا ہے۔ أ اتخذنھم ہم نے ان کو ٹھہریا ماضی کا صیغہ جمع متکلم ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ سخریا۔ یہ سخر (باب سمع و سخر سے اسم ہے بمعنی ٹھٹھا۔ ہنسی، دل لگی۔ اور سخر یسخر (فتح) سخری سے مصدر بحالت نصب بھی۔ جس کے معنی مسخر ہونے اور بس میں آنے کے ہیں۔ لیکن یہاں اول الذکر ہی زیادہ موزوں ہے۔ سخریا۔ اتخذھم کا مفعول ثانی ہے ہم ضمیر جمع مذکر گا ئب مفعول اول ہے۔ اس لئے منصوب ہے۔ اتخذنھم سخریا جن کو ہم نشانہ تضحیک بنایا کرتے تھے ۔ جن کی ہم نے ہنسی بتا رکھی تھی۔ اور ہمزہ استفہامیہ کے ساتھ۔ کیا ہم نے یونہی ان کی ہنسی بنا رکھی تھی۔ (ان کا مذاق بنا رکھا تھا) ۔ ام۔ یا۔ بلکہ۔ زاغت۔ ماضی واحد مؤنث غائب زیغ (باب ضرب) بمعنی کج ہونا۔ چوک جانا۔ پھرجانا۔ الابصار۔ ای ابصارنا۔ ہماری نظریں (ان سے) چوک گئی ہیں۔ اتخذنھم ۔۔ الابصار کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔ مثلاً :۔ (1) اتخذنا استفہام توبیخی تعجبی ہے اور ایک جملہ محذوف ہے پوری عبارت اس طرح تھی (مالنا لاندی رجالا) اتخذنا ہم سخریا (الیسوا فیہا) ام زاغت الابصار (فلا نداھم) کیا بات ہے کہ ہم ان لوگوں کو نہیں دیکھتے جن کا ہم نے مذاق بنایا تھا کہ وہ یہاں نہیں ہیں یا ہماری نظریں چوک رہی ہیں اس لئے ہم ان کو نہیں دیکھتے۔ اس صورت میں ام بمعنی ” یا “ ہے۔ (2) یا أتخذنھم استفہام انکاری ہے اور ام بمعنی بل (حرف اضراب ہے) اس صورت میں ام کے ماقبل سے اعراض اور مابعد کی تصحیح مقصود ہے یعنی یہ نہیں کہ ہم ان کو یہاں اس لئے نہیں دیکھ رہے کہ ہم دنیا میں ان کا یوں ہی مذاق بنایا تھا۔ بلکہ بات یہ ہے کہ وہ یہاں موجود ہیں صرف ہماری نظریں اپنی چوک کی وجہ سے ان کو نہیں دیکھ رہیں ۔ مالنا لانراھم فی النار الیسوا فیہا فلذلک لانراھم بل ازاغت عنھم ابصارنا فلا نراھم وہم فیہا۔ فائدہ : آیات 59 تا 63 میں کونسا کلام کس کا ہے ؟۔ آیت 59 یہ جہنمی لوگ (گمراہ کرنے والے پیشوا اور اکابر کفار) اپنے تابعین کے ایک گروہ کو جہنم کی طرف آتا دیکھ کر آپس میں ایک دوسرے سے کہیں گے اس میں ضمیر جمع مذکر حاضر ان کے اپنے ساتھیوں کے لئے ہے اور ضمیر جمع مذکر غائب آنے والی جماعت کے افراد کے لئے۔ آیت 60:۔ آنے والی جماعت کا خطاب ہے پیشوا یا ن بالا سے۔ آیت 61:۔ یہ آنے والی جماعت کی اپنے رب سے اپنے پیشوایان بالا کے برخلاف بددعا ہے۔ آیت 62:63: یہ آنے والی جماعت کا کلام ہے یا ان کا اور ان کے پیشوایان متذکرہ بالا سب کا کلام ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 مراد ہیں وہ اہل ایمان جنہیں کافر و مشرک لوگ دنیا میں حقیر و ذلیل سمجھ کر ان کا مذاق اڑا کرتے تھے۔3 یعنی کیا وہ واقعی سچے تھے اور ہم نے ان کا مذاق ناحق اڑایا اور آج وہ اپنی حق پرستی کی بدولت جنت میں داخل ہوگئے ہیں یا وہ یہیں کہیں دوزخ میں ہیں اور ہمیں نظر نہیں آرہے ؟

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(63) کیا ہم نے بلاوجہ ان کا مذاق بنارکھا تھا اور ان سے ٹھٹھا کرتے تھے یا اس وقت ان کو دیکھنے سے ہماری آنکھیں خطا کررہی ہیں اور آنکھیں دیکھنے سے چوک گئیں اور چکراگئی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جوان کا مذاق ہم اڑاتے تھے وہ بلا وجہ کا مذاق تھا یا وہ بھی اس عذاب میں موجود ہیں مگر نگاہ نہیں پڑ رہی ان پر جیسا کہ کثرت اژدھا میں ایسا ہوتا ہے شاید ان اشرار سے مراد ان کی عمار، بلال صہیب اور خباب وغیرہ (رض) فقرائے مہاجرین ہوں گے کیونکہ منکر ایک دوسرے کو دیکھ کر پہچانیں گے لیکن کوئی مسلمان ان کا جاننے والا نظر نہیں آئے گا تب ان کو تعجب ہوگا۔