Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 71

سورة ص

اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنۡ طِیۡنٍ ﴿۷۱﴾

[So mention] when your Lord said to the angels, "Indeed, I am going to create a human being from clay.

جبکہ آپ کے رب نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ میں مٹی سے انسان کو پیدا کرنے والا ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Story of Adam and Iblis Allah Tells, إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَيِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِن طِينٍ (Remember) when your Lord said to the angels: "Truly, I am going to create man from clay." فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ

تخلیق آدم اور ابلیس کی سرکشی ۔ یہ قصہ سورہ بقرہ ، سورہ اعراف ، سورہ حجر ، سورہ سبحان ، سورہ کہف اور اس سورہ ص میں بیان ہوا ہے ۔ حضرت آدم کو پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اپنا ارادہ بتایا کہ میں مٹی سے آدم کو پیدا کرنے والا ہوں ۔ جب میں اسے پیدا کر چکوں تو تم سب اسے سجدہ کرنا تاکہ میری فرمانبرداری کے ساتھ ہی حضرت آدم کی شرافت و بزرگی کا بھی اظہار ہو جائے ۔ پس کل کے کل فرشتوں نے تعمیل ارشاد کی ۔ ہاں ابلیس اس سے رکا ، یہ فرشتوں کی جنس میں سے تھا بھی نہیں بلکہ جنات میں سے تھا ۔ طبعی خباثت اور جبلی سرکشی ظاہر ہو گئی ۔ سوال ہوا کہ اتنی معزز مخلوق کو جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تو نے میرے کہنے کے باوجود سجدہ کیوں نہ کیا ؟ یہ تکبر! اور یہ سرکشی؟ تو کہنے لگا کہ میں اس سے افضل و اعلیٰ ہوں کہاں آگ اور کہاں مٹی؟ اس خطا کار نے اس کے سمجھنے میں بھی غلطی کی اور اللہ کے حکم کی مخالفت کی وجہ سے غارت ہو گیا حکم ہوا کہ میرے سامنے سے منہ ہٹا میرے دربار میں تجھ جیسے نافرمانوں کی رسائی نہیں تو میری رحمت سے دور ہو گیا اور تجھ پر ابدی لعنت نازل ہوئی اور اب تو خیرو خوبی سے مایوس ہو جا ۔ اس نے اللہ سے دعا کی کہ قیامت تک مجھے مہلت دی جائے ۔ اس حلیم اللہ نے جو اپنی مخلوق کو ان کے گناہوں پر فوراً نہیں پکڑتا اس کی یہ التجا پوری کر دی اور قیامت تک کی اسے مہلت دے دی ۔ اب کہنے لگا میں تو اس کی تمام اولاد کو بہکا دوں گا صرف مخلص لوگ تو بچ جائیں گے منظور اللہ بھی یہی تھا جیسا کہ قرآن کریم کی اور آیتوں میں بھی ہے مثلا ( قَالَ اَرَءَيْتَكَ هٰذَا الَّذِيْ كَرَّمْتَ عَلَيَّ ۡ لَىِٕنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ لَاَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهٗٓ اِلَّا قَلِيْلًا 62؀ ) 17- الإسراء:62 ) اور ( اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغٰوِيْنَ 42؀ ) 15- الحجر:42 ) فالحق کو حضرت مجاہد نے پیش سے پڑھا ہے معنی یہ ہیں کہ میں خود حق ہوں اور میری بات بھی حق ہی ہوتی ہے اور ایک روایت میں ان سے یوں مروی ہے کہ حق میری طرف سے ہے اور میں حق ہی کہتا ہوں اوروں نے دونوں لفظ زبر سے پڑھے ہیں ۔ سدی کہتے ہیں یہ قسم ہے ۔ میں کہتا ہوں یہ آیت اس آیت کی طرح ہے ( وَلَوْ شِئْنَا لَاٰتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدٰىهَا وَلٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّيْ لَاَمْلَئَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ 13؀ ) 32- السجدة:13 ) یعنی میرا یہ قول اٹل ہے کہ میں ضرور ضرور جہنم کو اس قسم کے انسانوں اور جنوں سے پر کر دونگا اور جیسے فرمان ہے ( اذھب فمن تبعک ) الخ ، یہاں سے نکل جا جو شخص بھی تیری مانے گا اس کی اور تیری پوری سزا جہنم ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

71۔ 1 یہ قصہ اس سے قبل سورة بقرہ، سورة اعراف، سورة حجر، سورة بنی اسرائیل اور سورة کہف میں بیان ہوچکا ہے اب اسے یہاں بھی اجمالاً بیان کیا جا رہا ہے۔ 71۔ 2 یعنی ایک جسم، جنس بشر سے بنانے والا ہوں۔ انسان کو بشر، زمین سے اس کی مباشرت کی وجہ سے کہا۔ یعنی زمین سے ہی اس کی ساری وابستگی ہے اور وہ سب کچھ اسی زمین پر کرتا ہے۔ یا اس لئے کہ وہ بادی البشرۃ ہے۔ یعنی اس کا جسم یا چہرہ ظاہر ہے

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ : یہ ملأ اعلیٰ میں ہونے والی ایک بحث کا ذکر ہے جو آدم (علیہ السلام) کی پیدائش کے متعلق ہوئی۔ اس مجلس میں فرشتوں کے ساتھ ابلیس بھی تھا اور اسے بھی آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ تفصیل سورة اعراف (١١) میں دیکھیے۔ مفسر رازی نے فرمایا : ” اس قصّے کے یہاں خاص طور پر ذکر کی مناسبت یہ ہے کہ کفار کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے سے روکنے والی چیز ان کا حسد اور کبر تھا، ابلیس پر لعنت کا سبب بھی اس کا آدم (علیہ السلام) پر حسد اور کبر تھا، اس لیے کفار کو یہ قصّہ سنایا۔ “ اللہ تعالیٰ کے آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے بنانے، اس میں اپنی روح پھونکنے، فرشتوں کو آدم کے سامنے سجدے کا حکم دینے اور شیطان کے سجدے سے انکار اور اس کے نتیجے کے متعلق تفصیل پہلے کئی مقامات پر گزر چکی ہے۔ مثلاً دیکھیے سورة بقرہ (٣٠ تا ٣٨) ، حجر (٢٥ تا ٤٣) ، اعراف (١١ تا ٢٥) ، بنی اسرائیل (٦١ تا ٦٥) ، کہف (٥٠) اور سورة طٰہٰ (١١٦ تا ١٢٣) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 71, it was said: إِذْ قَالَ رَ‌بُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ (When your Lord said to the angels...): Mentioned here is the event of the creation of &Adam (علیہ السلام) . Not only that it alludes to the conversation between Allah Ta’ ala and the angels mentioned above, but also invites our attention towards the way Iblis had refused to prostrate himself before Sayyidna &Adam (علیہ السلام) just because of his envy and arrogance, very similarly, the Mushriks of Arabia were not willing to accept his advice because of their envy and arrogance - hence, they were going to meet the same fate as was met by Iblis. (Tafsir Kabir)

(آیت) اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ ، (جب آپ کے پروردگار نے فرشتوں سے کہا، الخ) یہاں تخلیق آدم کا جو واقعہ ذکر کیا گیا ہے اس سے اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کی مذکورہ بالا گفتگو کی طرف اشارہ کے ساتھ ساتھ اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ جس طرح ابلیس نے محض حسد اور تکبر کی وجہ سے حضرت آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا تھا، اسی طرح مشرکین عرب بھی حسد اور تکبر کی وجہ سے آپ کی بات نہیں مان رہے، اور جو انجام ابلیس کا ہوا وہی ان کا بھی ہونا ہے۔ (تفسیر کبیر)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ طِيْنٍ۝ ٧١ ملك ( فرشته) وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] ( م ل ک ) الملک الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے بشر وخصّ في القرآن کلّ موضع اعتبر من الإنسان جثته وظاهره بلفظ البشر، نحو : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان/ 54] ، ( ب ش ر ) البشر اور قرآن میں جہاں کہیں انسان کی جسمانی بناوٹ اور ظاہری جسم کا لحاظ کیا ہے تو ایسے موقع پر خاص کر اسے بشر کہا گیا ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان/ 54] اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا ۔ إِنِّي خالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ [ ص/ 71] کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔ طين الطِّينُ : التّراب والماء المختلط، وقد يسمّى بذلک وإن زال عنه قوّة الماء قال تعالی: مِنْ طِينٍ لازِبٍ [ الصافات/ 11] ، يقال : طِنْتُ كذا، وطَيَّنْتُهُ. قال تعالی: خَلَقْتَنِي مِنْ نارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ [ ص/ 76] ، وقوله تعالی: فَأَوْقِدْ لِي يا هامانُ عَلَى الطِّينِ [ القصص/ 38] . ( ط ی ن ) الطین ۔ پانی میں ملی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں گو اس سے پانی کا اثر زائل ہی کیوں نہ ہوجائے اور طنت کذا وطینتہ کے معنی دیوار وغیرہ کو گارے سے لینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ مِنْ طِينٍ لازِبٍ [ الصافات/ 11] چپکنے والی مٹی سے ۔ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ [ ص/ 76] اور اسے مٹی سے بنایا ۔ فَأَوْقِدْ لِي يا هامانُ عَلَى الطِّينِ [ القصص/ 38] ہامان امیر لئے گارے کو آگ لگو اکر اینٹیں تیار کرواؤ

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧١ { اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیْ خَالِقٌم بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ } ” جب کہا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب نے فرشتوں سے کہ میں بنانے والا ہوں ایک بشر کو مٹی سے۔ “ قصہ آدم و ابلیس کے ذکر کے حوالے سے یہ قرآن کریم کا ساتواں اور آخری مقام ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

59 This is the explanation of the dispute referred to about, and the dispute implies Satan's dispute with God, as becomes evident from the verses that follow. In this regard, one should bear in mind the fact that "the exalted ones" implies the angels, and the dialogue between Allah and Satan was not direct but it took place through some angel. Therefore, no one should havc the misunderstanding that Allah also was included among the exalted ones. This story has already been narrated at the following places about: Al-Baqarah: 30-39, AI-A'raf: 11-25, Al-Hijr: 26-44, Bani Isra'il: 61-65, Al-Kahf: 50, Ta Ha: 116-126. 60 Lexically, bashar means a gross body whose surface is bare and uncovered by anything else. After the creation of man this word has been used for man himself, but mentioning him by the word bashar before his creation and making him from clay clearly means: "I am about to make an image of clay, which will be without any feathers and hair, etc., whose skin will not be covered by wool or hair or feathers like the skin of other animals.

سورة صٓ حاشیہ نمبر :59 یہ جھگڑے کی تفصیل ہے جس کی طرف اوپر کی آیت میں اشارہ کیا گیا ہے اور جھگڑے سے مراد شیطان کا خدا سے جھگڑا ہے جیسا کہ آگے کے بیان سے ظاہر ہو رہا ہے ۔ اس سلسلے میں یہ بات ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ ملاءِ اعلیٰ سے مراد فرشتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے شیطان کا مکالمہ دو بدو نہیں بلکہ کسی فرشتے ہی کے توسط سے ہوا ہے ۔ اس لیے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بھی ملاء اعلیٰ میں شامل تھا ۔ جو قصہ یہاں بیان کیا جا رہا ہے وہ اس سے پہلے حسب ذیل مقامات پر گزر چکا ہے : تفہیم القرآن جلد اول ، ص 61 تا 69 ۔ جلد دوم ، صفحات 10 تا 18 ۔ 504 تا 507 ۔ 627 تا 630 ۔ جلد سوم صفحات 29 ۔ 30 ۔ 129 تا 136 ۔ سورة صٓ حاشیہ نمبر :60 بَشَر کے لغوی معنی ہیں جسم کثیف جس کی ظاہری سطح کسی دوسری چیز سے ڈھکی ہوئی نہ ہو ۔ انسان کی تخلیق کے بعد تو یہ لفظ انسان ہی کے لیے استعمال ہونے لگا ہے ۔ لیکن تخلیق سے پہلے اس کا ذکر لفظ بشر سے کرنے اور اس کو مٹی سے بنانے کا صاف مطلب یہ ہے کہ میں مٹی کا ایک پتلا بنانے والا ہوں جو بال و پر سے عاری ہو گا ۔ یعنی جس کی جلد دوسرے حیوانات کی طرح اون ، یا صوف یا بالوں اور پروں سے ڈھکی ہوئی نہ ہو گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧١۔ ٨١۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ قصہ اس جگہ بیان فرمایا ہے اسی طرح یہ قصہ اس سے پہلے سورة بقرہ سورة اعراف سورة حجر وغیرہ میں بیان فرمایا ہے وہ قصہ یہ ہے کہ اللہ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی پیدائش سے پہلے فرشتوں کو یہ بات جتلائی کہ وہ ایک بشر پیدا کرے گا۔ کھنکھناتے سنے ہوئے گارے سے اور جب اس کے پیدا کرنے اور درست کرنے کا کام پورا ہوجاوے تو چاہے کہ اس کی عزت بڑھانے کے لئے اور خدا کا حکم ماننے کے واسطے اس کو قبلہ ٹھہرا کر فرشتے سجدہ کریں۔ سارے فرشتوں نے اس کا حکم مانا اور سجدہ کیا مگر ابلیس نے حکم نہ مانا اور سجدہ نہ کیا بلکہ تکبر کیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس سے سجدہ نہ کرنے کا سبب پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ یا اللہ تو نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا اور مجھ کو آگ سے۔ اس لئے میں آدم سے بہتر ہوں۔ اس نافرمانی اور حکم الٰہی کے مقابہل میں عقلی قیاس دوڑانے کے جرم میں اللہ تعالیٰ نے اس کو مردود ٹھہرا کر آسمان پر سے نکال دیا اور اگرچہ اس نے موت کی تکلیف سے بچنے کیلئے دوسرے صور تک زندہ رہنے کی مہلت مانگی تھی۔ کیونکہ اسے یہ بات معلوم تھی کہ دوسرے صور کے بعد پھر کسی کو موت نہیں ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کو یہ بات منظور نہ تھی۔ اس واسطے اللہ تعالیٰ نے اس کو پہلے صور تک کی مہلت دی۔ پہلے صور سے جب تمام دنیا فنا ہوگی اس حالت سے سلف میں سے کسی نے شیطان کو مستثنیٰ نہیں کیا۔ اس لئے یہی قول صحیح معلوم ہوتا ہے کہ پہلے صور کے وقت شیطان بھی مرجاوے گا جس طرح ان آیتوں میں ذکر ہے کہ شیطان کو اللہ تعالیٰ نے آگ سے پیدا کیا ہے۔ اسی مضمون کی حضرت عائشہ (رض) کی روایت صحیح ١ ؎ مسلم کے حوالہ سے سورة بقر میں گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فرشتے نور سے پیدا کئے گئے ہیں اور شیطان آگ کے شعلہ سے حاصل کلام یہ ہے کہ آیتوں اور حضرت عائشہ کی صحیح حدیث کے موافق یہی قول صحیح معلوم ہوتا ہے کہ شیطان فرشتوں میں سے نہیں ہے۔ زیادہ تفصیل اس کی سورة بقر میں گزر چکی ہے۔ سورة بقر میں یہ بھی گزر چکا ہے کہ پہلی شریعتوں میں سلام کی طرح سجدہ جائز تھا۔ اب سوا اللہ تعالیٰ کے کسی کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے۔ وکان من الکافرین اس کا مطلب یہ ہے کہ علم الٰہی میں پہلے ہی یہ امر قرار پا چکا تھا کہ نافرمانی کے سبب سے شیطان کافر ٹھہرے گا۔ (١ ؎ صحیح مسلم مع شرح نودی باب فی احادیث متفرقہ ص ٤٣١ ج ٢)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(38:71) اذ قال : اذ یختصمون کا بدل ہے یہ اس اختصام کی تفصیل ہے جس کا اوپر اشارہ کیا گیا ہے۔ اذ سے پہلے فعل اذکر محذوف ہے۔ طین۔ گارا۔ مٹی، پانی اور مٹی کا آمیزہ۔ خلق آدم کا مادہ کہیں طین آیا ہے کہیں تراب اور کہیں صلصال من حما مسنون ان میں کوئی کچھ بھی توارض نہیں۔ کہیں مادہ قریبہ بتلا دیا کہیں مادہ بعید۔ (حضرت تھانوی (رح) ) المادۃ البعیدۃ ھو التراب واقرب منہ الطین واقرب منہ الحماء مسنون واقرب منہ الصلصال فثبت انہ لامنافاۃ بین الکل (تفسیر کبیر)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 71 تا 72 ہمیں اس کا علم نہیں ہے کہ مکالمہ کس انداز میں ہوا ۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کی فرشتوں کے ساتھ مکالمے کی کیفیت کیا ہے اور یہ بھی ہمیں معلوم نہیں ہے کہ فرشتے اللہ سے ہدایات کس طرح اخذ کرتے ہیں۔ نہ ہم فرشتوں کی حقیقت سے باخبر ہوں ۔ نہ ہمیں ان مسائل میں الجھنے کی ضرورت لاحق ہے اور نہ کوئی فائدہ متوقع ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس قصے کا جو مطلب ہے اور اس کے اندر جو فلسفہ ہے اس پر بات کریں۔ اللہ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا۔ جس طرح زمین کی تمام ذی روح چیزوں کو مٹی سے بنایا۔ تمام زندہ مخلوقات کے عناصر ترکیبی مٹی میں موجود ہیں۔ صرف ایک چیز ابھی تک راز ہے کہ روح اور حیات اس کے اندر کہاں سے آئی اور کس طرح آئی۔ اس راز کے سوا انسان کی ذات کے تمام مٹی سے ہیں۔ اور انسان دوسرے حیوانوں کے مقابلے میں انسان قرار پایا۔ وہ اسی روح کی وجہ سے جو اللہ نے اس کی ذات کے اندر پھونکا۔ انسان کی ماں یہ زمین ہے۔ زمین کے عناصر سے اس کی تخلیق ہوئی ہے اور جب اس سے روح جدا ہوتی ہے تو وہ پھر مٹی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ جب اس کے جسد خاکی سے روح نکلتی ہے تو اس سے اس کے آثار علوی نکل جاتے ہیں۔ روح کی پھونک کی کیا حقیقت ہے اس کی اہلیت سے ہم بیخبر ہیں البتہ روح کے آثار ہمارے علم میں ہیں۔ یہ روحانی آثار ہیں جن کی بنا پر یہ حضرت انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہوتا ہے اور اس روح ہی کی وجہ سے وہ روحانی اور عقلی ارتقاء کرتا ہے ۔ یہ روح ہی ہے جس کی وجہ سے انسان ماضی سے تجربات حاصل کرتا ہے۔ اور مستقبل کے لیے راہ عمل متعین کرتا ہے۔ اس طرح انسانی عقل حواس کے مدرکات اور عقل کے مدرکات سے آگے بڑھ جاتی ہے۔ اور اسے وہ روحانی معلومات حاصل ہوتی جو حواس اور عقل کے دائرے سے وراء ہیں۔ عقل اور روحانی ارتقاء انسان کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس زمین پر زندہ ہونے والے تمام دوسرے ذی حیات انسان کے ساتھ اس خاصہ میں شریک نہیں ہیں۔ جب سے انسان پیدا ہوا ہے اس کے ساتھ دوسرے حیوانات بھی پیدا ہوئے۔ لیکن انسان اور زمین کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ حیوانات میں سے کوئی حیوان عقل اور روح کے اعتبار سے انسان جیسی ترقی کر گیا ہو۔ اگر ہم عضویاتی ارتقاء کو تسلیم بھی کرلیں لیکن عقلی ارتقاء کی کوئی مثال نہیں ہے۔ اللہ نے اس بشری مخلوق میں اپنی روح پھونکی ہے۔ کیونکہ اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ حضرت انسان زمین پر اللہ کا خلیفہ ہو اور اس خلافت اور نیابت کی رو سے زمین کے اختیارات اپنے حدودقدرت کی حد تک سنبھال لے۔ یعنی اس کی تعمیر کرے۔ اس کے اندر پوشیدہ قوتوں کو اپنے کام میں لائے اور یہاں خدا کی منشاء کو پورا کرے۔ اللہ نے انسان کو ترقی اور حصول علم دی اور اپنے روز آفرینش سے وہ ترقی کررہا ہے بشرطیکہ وہ اس روح کے منبع سے جڑا رہے یعنی ذات باری سے۔ اور ذات باری سے وہ صراط مستقیم کی طرف گامزن ہونے کی ہدات لیتا رہے لیکن اگر وہ عالم بالا کی ہدایات سے منحرف ہوجائے تو پھر انسان کی ذات میں ترقی اور آگاہی کا جو تموج ہے وہ متوازن نہیں رہتا ۔ اور اس کی سمت بھی درست نہیں رہتی۔ اور بعض اوقات انسان آگے بڑھنے کے بجائے ترقی معکوس کرتا ہے اور یہ تموج پھر اس کی ذاتی اور انسانی سلامتی کے لیے خطرناک صورت اختیار کرلیتا ہے۔ اگر وہ انسانی خصوصیات میں رفعت قہقری اختیار کرلے تو حقیقی ارتقاء کے بجائے وہ زوال کی راہ پر پڑجاتا ہے۔ اگرچہ بظاہر اس کے علوم وفنون زیادہ ہوگئے ہوں۔ وہ تجربات میں بہت آگے جاچکا ہو اور زندگی کے بعض پہلوؤں کے اعتبار سے ترقی کر گیا ہو۔ یہ انسان ! نہایت ہی جھوٹا انسان کائنات کے ان عظیم اور ہولناک اجسام وکرات کی بہ نسبت ! یہ انسان ! جس کی قوتیں نہایت محدود ہیں جس کا عمل بہت قصیر ہے۔ جس کا علم بہت ہی محدود ہے۔ یہ انسان اس قدر عظمت و کرامت حاصل ہی نہ کرسکتا تھا۔ اگر اللہ نے اس میں اپنی روح نہ پھونکی ہوتی اور اس پر اللہ کا یہ مخصوص کرم نہ ہوا ہوتا۔ ذرا سوچو اس انسان کی حیثیت ہی کیا ہے۔ یہ تو اس کائنات کے اندر ایک نہایت ہی چھوٹا سا کیڑا ہے اور یہ لاتعدولا نحصی دوسرے زندہ کیڑوں ، مکوڑوں اور پرندوں اور چرندوں کے ساتھ یہاں رہتا ہے اور یہ زمین کیا ہے ، یہ کسی ایک نظام شمسی میں چھوٹی سی گیند ہے اور اس قسم کی کئی بلین گیندیں اس کائنات میں تیرتی پھرتی ہیں۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ ان کا آغاز کہاں سے ہے اور انتہا کہاں پر ہے یہ انسان ! اس انسان کو فرشتے سجدہ کرتے ہیں۔ اللہ کے فرشتے یہ محض اس نفح روح کی وجہ سے ہے جو نہایت ہی گہراراز ہے اور عظیم راز ہے۔ اس راز ہی کی وجہ سے یہ انسان زمانہ قدیم سے محض حیوان رذیل نہیں ہے۔ اگر اس سے یہ روح اور روحانیات کو منفی کردیا جائے تو یہ ایک حقیر مٹی کا ٹکڑا ہے۔ ملائکہ نے بہرحال امرالہٰی کی تعمیل کی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ابلیس کی حکم عدولی اور سرتابی، حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کرکے مستحق لعنت ہونا اور بنی آدم کو ورغلانے کی قسم کھانا ان آیات میں تخلیق آدم اور پھر فرشتوں کو انہیں سجدہ کرنے کا حکم اور ان کے سجدہ کرنے کا واقعہ اور ابلیس کے انکار کا تذکرہ فرمایا ہے یہ مضمون سورة بقرہ رکوع ٤ اور سورة اعراف رکوع ٢ اور سورة حجر رکوع ٣ اور سورة الاسراء رکوع ٦ میں بھی گزر چکا ہے وہاں جو ہم نے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے اس کی بھی مراجعت کرلی جائے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو فرشتوں سے فرمایا کہ میں طین یعنی کیچڑ سے ایک بشر کو پیدا کروں گا جب میں اسے پیدا کردوں اور پوری طرح بنا دوں اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے لیے سجدہ میں گر جانا۔ اس میں لفظ بشر فرمایا ہے جس کا معنی ہے ایسی کھال والی چیز جو بالوں سے چھپی ہوئی نہ ہو، دوسرے حیوانات ہیں ان کے جسم پر بال ہوتے ہیں جن سے ان کا بدن ڈھکا ہوتا ہے لیکن انسان کے سر اور اس کی داڑھی کے علاوہ اور کسی جگہ پر عام طور سے بڑے بڑے بال نہیں ہوتے کپڑا نہ پہنے تو کھال نظر آتی ہے اور بعض جگہ جو بال نکل آتے ہیں اور بڑھتے چلے جاتے ہیں ان کے صاف کرنے کا حکم دیا گیا البتہ داڑھی رکھنا واجب ہے پھر جب جنت میں جائیں گے تو وہاں مردوں کے بھی داڑھی نہ ہوگی وہاں بشر ہونے کا پورا پورا مظاہرہ ہوجائے گا یہاں کیچڑ سے پیدا فرمانے کا ذکر ہے اور سورة الانعام میں لفظ تراب وارد ہوا ہے اور سورة حجر میں (صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ ) فرمایا ہے کہ ہم نے انسان کو بجتی ہوئی کالی سڑی ہوئی مٹی سے پیدا فرمایا اور سورة رحمن میں فرمایا (مِنْ صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ ) کہ ہم نے انسان کو ایسی مٹی سے پیدا فرمایا جو ٹھینکرے کی طرح بجنے والی تھی۔ ان آیات میں آدم (علیہ السلام) کا پتلا تیار کیے جانے کے تدریجی حالات بتائے ہیں مختلف جگہوں سے مٹی جمع کی گئی پھر اس میں پانی ڈال دیا تو کیچڑ بن گئی اور عرصہ تک اسی طرح پڑے رہنے کی وجہ سے سیاہ اور بدبودار ہوگئی پھر جب پتلا بنا دیا گیا تو وہ پڑے پڑے سوکھ گیا اور ایسا ہوگیا کہ اگر اس پر انگلی ماری جائے بجنے لگے جیسے مٹی سے بنائے ہوئے برتن انگلیاں مارنے سے بجتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ جب میں اس بشر کو پیدا کردوں اور پوری طرح اس کا مجسمہ بنا دوں پھر اس میں روح پھونک دوں تو تم اس کو سجدہ کرنا (اس کی تعظیم کے لیے سجدہ میں گر جانا) فرشتوں نے حکم کے مطابق اس بشر کو جن کا نام پہلے سے آدم تجویز کردیا گیا تھا تعظیمی سجدہ کرلیا ابلیس بھی وہیں رہتا تھا اسے بھی حکم تھا کہ اس نئی مخلوق کو یعنی آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرے، وہ سجدہ کرنے سے منکر ہوگیا، سورة الکھف میں فرمایا ہے (کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّہٖ ) (وہ جنات میں سے تھا سو اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی) اور سورة البقرہ میں فرمایا (اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْن) (اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں سے تھا) یعنی اللہ تعالیٰ کے علم میں پہلے ہی سے یہ بات تھی کہ وہ کفر اختیار کرلے گا کافروں میں سے ہوجائے گا اور سورة الاعراف میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے فرمایا (مَا مَنَعَکَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُکَ ) کہ تجھے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جبکہ میں نے تجھے حکم دیا تھا (معلوم ہوا کہ وہ بھی عمومی حکم میں شامل تھا یا اسے خطاب فرما کر مستقل طور پر بھی حکم دیا تھا) یہاں سورة ص میں فرمایا (قَالَ یَااِِبْلِیسُ مَا مَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ ) (کہ اے ابلیس تجھے کس چیز نے اس بات سے روکا کہ تو اس چیز کو سجدہ کرے جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا) علماء نے فرمایا کہ ہاتھوں سے پیدا کرنا جو فرمایا اس سے معنی مجازی مراد ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ جسمیت اور اعضاء سے پاک ہے اور یوں کہا جاتا ہے کہ اسے اپنے ہاتھ سے بنایا اور یہ اہل تاویل کا قول ہے اور سلف کا فرمانا یہ ہے کہ ہم تاویل نہیں کرتے اور یدین (دونوں ہاتھ) کا جو مطلب ہے اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مفوض کرتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک جو یدین کا مطلب ہے جو اس کی شان کے لائق ہے ہم اسی پر ایمان لاتے ہیں اس طرح یہ جو فرمایا کہ جب میں اس میں اپنی روح پھونک دوں اس کے بارے میں بعض حضرات نے تاویل کی ہے اور فرمایا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب میں اس میں جان ڈال دوں گا تو تم اس کے لیے سجدہ میں گرپڑنا اور دوسرے حضرات نے فرمایا کہ ہم تاویل نہیں کرتے اس پر ایمان لاتے ہیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک جو اس کا مطلب ہے جو اس کی شان کے لائق ہے ہم اسے مانتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

47:۔ ” اِذْ قَالَ الخ “۔ یہاں سے فرشتوں کا حال بیان کیا گیا ہے کہ وہ بھی اللہ کے حکم کے بندے ہیں۔ اس لیے وہ شفیع غالب نہیں ہوسکتے۔ ” فَقَعُوْا “ ، قعوا، وقع یقع (فتح) سے جمع مذکر امر حاضر کا صیغہ ہے۔ ای فاسقطوا لہ (روح) ۔ اللہ نے تخلیق آدم (علیہ السلام) سے قبل فرشتوں سے فرمایا کہ میں مٹی سے بشر کو پیدا کرنے والا ہوں اور خلافت ارضی کو اس کے سپرد کرنے والا ہوں۔ لہذا جب میں اس کی شکل و صورت کو مکمل کر کے اس میں روح پھونک دوں اور وہ ایک کامل انسان کی صورت میں ظاہر ہوجائے تو تم سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑنا۔ سجود لغیر اللہ کی پوری تحقیق سورة یوسف کی تفسیر حاشیہ نمبر ( 83) میں گذر چکی ہے۔ ” فَسَجَدَ الْمَلٰئِکَةُ الخ “ چناچہ جب آدم (علیہ السلام) کی پیدائش مکمل ہوگئی تو تما فرشتے یکبارگی سر بسجود ہوگئے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(71) اے پیغمبر وہ واقعہ یاد کیجئے جب آپ کے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں مٹی سے ایک بشر بنانے والاہوں۔ یعنی اس کی ترکیب اور بناوٹ مٹی سے کروں گا۔