Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 47

سورة الزمر

وَ لَوۡ اَنَّ لِلَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مَا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا وَّ مِثۡلَہٗ مَعَہٗ لَافۡتَدَوۡا بِہٖ مِنۡ سُوۡٓءِ الۡعَذَابِ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ وَ بَدَا لَہُمۡ مِّنَ اللّٰہِ مَا لَمۡ یَکُوۡنُوۡا یَحۡتَسِبُوۡنَ ﴿۴۷﴾

And if those who did wrong had all that is in the earth entirely and the like of it with it, they would [attempt to] ransom themselves thereby from the worst of the punishment on the Day of Resurrection. And there will appear to them from Allah that which they had not taken into account.

اگر ظلم کرنے والوں کے پاس وہ سب کچھ ہو جو روئے زمین پر ہے اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور ہو تو بھی بدترین سزا کے بدلے میں قیامت کے دن یہ سب کچھ دے دیں اور ان کے سامنے اللہ کی طرف سے وہ ظاہر ہوگا جس کا گمان بھی انہیں نہ تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَوْ أَنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا ... And those who did wrong, (means, the idolators). ... مَا فِي الاْاَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ ... if they had all that is in earth and therewith as much again, ... لاَافْتَدَوْا بِهِ مِن سُوءِ الْعَذَابِ ... they verily, would offer it to ransom themselves therewith from the evil torment; means, that which Allah has decreed for ... them on the Day of Resurrection. But the ransom will not be accepted from them, even if it were to be an earth-full of gold as He mentioned elsewhere (3:91). ... يَوْمَ الْقِيَامَةِ ... on the Day of Resurrection, Then Allah says: ... وَبَدَا لَهُم مِّنَ اللَّهِ مَا لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ and there will become apparent to them from Allah what they had not been reckoning. which means, when they come to realize what Allah's punishment for them will be, which they had never before imagined.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

47۔ 1 لیکن پھر بھی وہ قبول نہیں ہوگا جیسا کہ دوسرے مقام پر وضاحت ہے (فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ۚ وَھُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ) 3 ۔ ال عمران :85) ' وہ زمین بھر سونا بھی بدلے میں دے دیں، تو وہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے کہ ولا یوخذ منہا عدل وہاں معاوضہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ 47۔ 1 یعنی...  عذاب کی شدت اور اس کی ہولناکیاں اور اس کی انواع واقسام ایسی ہوں گی کہ کبھی ان کے گمان میں نہ آئی ہوں گی۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٣] شرک کا فدیہ : اس آیت میں ظالموں سے مرادیہی مشرک ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کی صفات دوسروں میں بانٹتے پھرتے ہیں۔ پھر ایسی من گھڑت باتوں کا خوب پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ اللہ اکیلے کی توحید بیان کی جائے تو سمجھتے ہیں کہ یہ درپردہ ہمارے اولیاء کی توہین کی جارہی ہے ایسے لوگوں کا قیامت کے دن یہ حشر ہوگا کہ اگر ... زمین و آسمان کے سب خزانے ان کے قبضہ میں ہوں تو وہ بھی چاہیں گے کر یہ سب کچھ دے دلا کر اس عذاب سے چھٹکارا حاصل کرلیں جو ان کے ان گناہوں کے سلسلہ میں ان کو لاحق ہوگا۔ لیکن یہ صورت بھی ناممکن ہوگی اور انہیں اپنے گناہوں کی سزا بھگتنا ہی پڑے گی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْ اَنَّ لِلَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ۔۔ : ظلم کرنے والوں سے مراد مشرک ہیں، انھی کا ذکر مسلسل آ رہا ہے۔ مشرکین کے اقوال و احوال کا ذکر اور ان کا رد کرنے کے بعد ان کا انجام بیان فرمایا کہ آخرت کے دن اگر ان کے پاس وہ سب کچھ ہو جو زمین میں ہے اور اس کے ساتھ اتنا اور بھی ہو تو قیامت کے دن کے برے عذاب سے بچ... نے کے لیے اسے ضرور ہی فدیے میں دے دیں گے اور ان کی خواہش ہوگی کہ یہ سب کچھ دے کر ان کی جان عذاب سے بچ جائے۔ (دیکھیے یونس : ٥٤) مگر ان کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی۔ دیکھیے سورة بقرہ (٤٨ اور ١٢٣) ، آل عمران (٩١) ، مائدہ (٣٦، ٣٧) ، انعام (٧٠) ، رعد (١٨) اور سورة حدید (١٥) ۔ وَبَدَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ ۔۔ : یعنی جس طرح جنت والوں کو وہ نعمتیں ملیں گی جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں، نہ کسی کان نے سنیں اور نہ کسی آدمی کے دل میں ان کا خیال آیا (دیکھیے سجدہ : ١٧) ایسے ہی کفار کے سامنے اللہ کی طرف سے ایسے ایسے عذاب آئیں گے جن کا وہ گمان بھی نہ کرتے تھے۔ ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ وہ قیامت کے دن اپنے متعلق جو جھوٹی امیدیں رکھے ہوئے تھے اور اپنے حاجت رواؤں اور مشکل کشاؤں کی دستگیری کے متعلق ان کے جو گمان تھے اس دن ان کے سامنے اللہ کی طرف سے اس کے برعکس وہ کچھ پیش آئے گا جس کا وہ گمان بھی نہیں کرتے تھے اور جن اعمال کو وہ نیکیاں سمجھتے تھے وہ برائیوں کی صورت میں ان کے سامنے ظاہر ہوں گے۔ سفیان ثوری سے مروی ہے کہ انھوں نے یہ آیت پڑھی اور فرمایا : ” وَیْلٌ لِأَھْلِ الرِّیَاءِ ، وَیْلٌ لِأَھْلِ الرِّیَاءِ “ ” دکھاوے والوں کے لیے ہلاکت ہے، دکھاوے والوں کے لیے ہلاکت ہے۔ “ (الوسیط) کیونکہ قیامت کے دن انھیں امید کے برعکس معاملہ پیش آئے گا، جیسا کہ ریا کار عالم، شہید اور سخی والی حدیث میں مذکور ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 47, it was said: وَبَدَا لَهُم مِّنَ اللَّـهِ مَا لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ (And there will appear to them from Allah what they have never imagined.) The famous tabi` i, Sufyan Thawri recited this verse and said, &Ruined are those who did good deeds only to pretend their piety before people. (He repeated this sentence twice) This verse is about them. They did good deeds in their mo... rtal life to impress people, who took them to be good people. Even they themselves used to deceive themselves by thinking that these deeds will become a source of salvation for them in the Hereafter. But, as these were never performed with unalloyed sincerity (&ikhlas), they deserve no reward in the sight of Allah. So, once they are in the life after death, the punishment would come upon them suddenly against their expectation.& (Qurtubi) An important instruction concerning &mushajarat& (disagreements among Sahabah) Someone asked Rabi& Ibn-u1_-Khaitham about the shahadah (martyrdom) of Sayyidna Husain (رض) . He sighed and recited the verse (46): قُلِ اللَّـهُمَّ فَاطِرَ‌ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ ( O Allah, Creator of the heavens and the earth, Knower of the unseen and the seen, You will judge between Your servants...) and said, &whenever you have a doubt in your heart about the mutual difference of the noble Sahabah, do recite this verse.& Tafsir Ruh-ul-Ma’ ani reports this statement and then says: This teaches us the best etiquette in regard to this issue, and is something one should always bear in mind.  Show more

(آیت) وَبَدَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مَا لَمْ يَكُوْنُوْا يَحْتَسِبُوْنَ ۔ حضرت سفیان ثوری نے اس آیت کو پڑھ کر فرمایا کہ ہلاکت ہے ریاکاروں کے لئے، ہلاکت ہے ریاکاروں کے لئے۔ یہ آیت انہیں سے متعلق ہے جو دنیا میں نیک کام لوگوں کو دکھانے کے لئے کرتے تھے۔ اور لوگ بھی ان کو نیک سمجھتے تھے وہ خود بھی اس دھو... کہ میں تھے کہ یہ اعمال ان کے لئے نجات آخرت کا ذریعہ بنیں گے۔ مگر چونکہ ان میں اخلاص نہیں تھا اس لئے اللہ کے نزدیک ایسے نیک اعمال کا کوئی اجر وثواب نہیں، اس لئے وہاں اچانک ان کے گمان کے خلاف عذاب و عتاب ہونے لگے گا۔ (قرطبی)   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَوْ اَنَّ لِلَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا وَّمِثْلَہٗ مَعَہٗ لَافْتَدَوْا بِہٖ مِنْ سُوْۗءِ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝ ٠ ۭ وَبَدَا لَہُمْ مِّنَ اللہِ مَالَمْ يَكُوْنُوْا يَحْتَسِبُوْنَ۝ ٤٧ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: ق... ُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ فدی الفِدَى والفِدَاءُ : حفظ الإنسان عن النّائبة بما يبذله عنه، قال تعالی: فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِداءً [ محمد/ 4] ، يقال : فَدَيْتُهُ بمال، وفدیته بنفسي، وفَادَيْتُهُ بکذا، قال تعالی: إِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة/ 85] ، وتَفَادَى فلان من فلان، أي : تحامی من شيء بذله . وقال : وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات/ 107] ، وافْتَدى: إذا بذل ذلک عن نفسه، قال تعالی: فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ [ البقرة/ 229] ، وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة/ 85] ، والمُفَادَاةُ : هو أن يردّ أسر العدی ويسترجع منهم من في أيديهم، قال : وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ [ الرعد/ 18] ، لَافْتَدَتْ بِهِ [يونس/ 54] ، ولِيَفْتَدُوا بِهِ [ المائدة/ 36] ، وَلَوِ افْتَدى بِهِ [ آل عمران/ 91] ، لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ [ المعارج/ 11] ، وما يقي به الإنسان نفسه من مال يبذله في عبادة قصّر فيها يقال له : فِدْيَةٌ ، ككفّارة الیمین، وكفّارة الصّوم . نحو قوله : فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ [ البقرة/ 196] ، فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة/ 184] ( ف د ی ) الفدٰی والفداء کے معنی کسی کی جانب سے کچھ دیگر اسے مصیبت سے بچالینا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِداءً [ محمد/ 4] پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا چاہئے ۔ یا کچھ مال لے لر ۔ چناچہ محاورہ فدیتہ بمال میں نے کچھ خرچ کر کے اسے مسیبت سے بچالیا فدیتہ منفسی میں نے اپنی جان کے عوض اسے چھڑالیا فاواہُ بکذا ۔ اس نے کچھ دے کت اسے چھڑا لیا قرآن میں ہے ۔ إِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة/ 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلہ دے کر انہیں چھڑا بھی لیتے ہو ۔ تفادیٰ فلان من فلان کسی کا فدیہ دے کر اس کو چھڑالینا ۔ وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات/ 107] اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ دیا ۔ افتدیٰ کے معنی خواہ اپنے کو مال کے عوض چھڑانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ [ البقرة/ 229] رہائی پانے کے بدلے میں وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ [ الرعد/ 18]( تو وہ سب کے سب ) اور ان کے ساتھ ہی اتنے اور ( نجات کے ) بدلے میں صرف کر ڈالیں ۔ لَافْتَدَتْ بِهِ [يونس/ 54] تو ( عذاب سے بچنے کے لئے ( سب ) دے ڈالے ۔ ولِيَفْتَدُوا بِهِ [ المائدة/ 36] تاکہ بدلہ دیں۔ وَلَوِ افْتَدى بِهِ [ آل عمران/ 91] اگر بدلے میں دیں لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ [ المعارج/ 11] کہ کسی طرح اس دن کے عذاب کے بدلے میں ( سب کچھادے ڈالے یعنی بیٹے اور جو مال کسی عبادت میں کوتاہی کرنے کی وجہ سے خرچ کر کے انسان خود اپنے کو گناہ سے بچاتا ہے اسے بھی فدیتہ کہا جاتا ہے جیسا کہ کفار یمین اور صوم کے متعلق فرمایا ۔ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ [ البقرة/ 196] تو اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقے دے یا قربانی کرے ۔ فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة/ 184] روزے کے بدلے محتاج کو کھانا کھلادیں ۔ ساء ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] ، أي : قبیحا، وکذا قوله : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ، عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] ، أي : ما يسوء هم في العاقبة، وکذا قوله : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] ، وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] ، وأما قوله تعالی: فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ، ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] ، فساء هاهنا تجري مجری بئس، وقال : وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ [ الممتحنة/ 2] ، وقوله : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، نسب ذلک إلى الوجه من حيث إنه يبدو في الوجه أثر السّرور والغمّ ، وقال : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] : حلّ بهم ما يسوء هم، وقال : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ، وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وكنّي عن الْفَرْجِ بِالسَّوْأَةِ «1» . قال : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] ، فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] ، يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] ، لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما [ الأعراف/ 20] . ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ اور آیت :، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی ( طرح ) کا بدلہ دیا جائیگا ۔ میں سوء سے اعمال قبیحہ مراد ہیں ۔ اسی طرح آیت : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ان کے برے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] انہیں پر بری مصیبت ( واقع ) ہو ۔ میں دائرۃ السوء سے مراد ہر وہ چیز ہوسکتی ہے ۔ جو انجام کا رغم کا موجب ہو اور آیت : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] اور وہ بری جگہ ہے ۔ وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66]( دوزخ ) ٹھہرنے کی بری جگہ ہے ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اور کبھی ساء بئس کے قائم مقام ہوتا ہے ۔ یعنی معنی ذم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] مگر جب وہ ان کے مکان میں اتریگا تو جن کو ڈرسنایا گیا تھا ان کے لئے برادن ہوگا ۔ وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ان کے عمل برے ہیں ۔ ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] مثال بری ہے ۔ اور آیت :۔ سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ( تو) کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ میں سیئت کی نسبت وجوہ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ حزن و سرور کا اثر ہمیشہ چہرے پر ظاہر ہوتا ہے اور آیت : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] تو وہ ( ان کے آنے سے ) غم ناک اور تنگدل ہوئے ۔ یعنی ان مہمانوں کو وہ حالات پیش آئے جن کی وجہ سے اسے صدمہ لاحق ہوا ۔ اور فرمایا : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ایسے لوگوں کا حساب بھی برا ہوگا ۔ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کیلئے گھر بھی برا ہے ۔ اور کنایہ کے طور پر سوء کا لفظ عورت یا مرد کی شرمگاہ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] اپنے بھائی کی لاش کو کیونکہ چھپائے ۔ فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا ۔ يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] کہ تمہار ستر ڈھانکے ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں ۔ لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما[ الأعراف/ 20] تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں ۔ کھول دے ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا قِيامَةُ والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] ، القیامتہ سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔ بدا بَدَا الشیء بُدُوّاً وبَدَاءً أي : ظهر ظهورا بيّنا، قال اللہ تعالی: وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر/ 47] ( ب د و ) بدا ( ن ) الشئ یدوا وبداء کے معنی نمایاں طور پر ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر/ 47] اور ان کیطرف سے وہ امر ظاہر ہوجائے گا جس کا ان کو خیال بھی نہ تھا ۔ حسب ( گمان) والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت/ 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] ( ح س ب ) الحساب اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور اگر مشرکین کے پاس دنیا بھر کی تمام چیزیں ہوں اور ان چیزوں جتنی چیزیں اور بھی ہوں تو وہ لوگ قیامت کے دن سخت عذاب سے خود کو چھڑانے کے لیے اس کو فدیہ میں بلا تامل دینے لگیں اور ان کے سامنے عذاب الہی ایسا ظاہر ہوگا جس کا ان کو گمان بھی نہ تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٧ { وَلَوْ اَنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّمِثْلَہٗ مَعَہٗ لَافْتَدَوْا بِہٖ مِنْ سُوْٓئِ الْعَذَابِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ } ” اور اگر ان ظالموں کے پاس وہ سب کچھ ہوتا جو بھی زمین میں ہے اور اس کے ساتھ اتنا اور بھی ہوتا تو وہ قیامت کے دن ُ برے عذاب سے بچنے کے لیے وہ سب ف... دیہ میں دے دیتے۔ “ روزِ محشر اگر ان کے پاس تمام روئے زمین کی دولت ہو بلکہ اتنی اور بھی ہو تو وہ چاہیں گے کہ وہ سب کچھ دے دیں اور انہیں کسی طرح جہنم کے عذاب سے بچالیا جائے۔ انسان کی اس کیفیت کا مشاہدہ تو یہاں دنیا میں بھی کیا جاسکتا ہے۔ جب کبھی انسان کی جان پر بن جاتی ہے تو وہ ایک گھونٹ پانی کے لیے اپنا سب کچھ دینے کو تیار ہوجاتا ہے۔ بہر حال یہاں یہ اسلوب صرف انسانوں کے سمجھانے کے لیے آیا ہے ‘ ورنہ اس دن نہ تو کسی کے پاس کچھ دینے کو ہوگا اور نہ ہی کوئی کسی کو کچھ دے سکے گا۔ { وَبَدَا لَہُمْ مِّنَ اللّٰہِ مَا لَمْ یَکُوْنُوْا یَحْتَسِبُوْنَ } ” اور (اُس روز ) ان کے سامنے اللہ کی طرف سے وہ کچھ آجائے گا جس کا انہیں گمان بھی نہیں تھا۔ “ آج وہ سمجھتے ہیں کہ جہنم اور اس کے عذابوں کی حقیقت کچھ بھی نہیں ‘ بلکہ ان کا خیال ہے کہ جس طرح بچوں کو کوئی بات منوانے کے لیے فرضی چیزوں سے ڈرایا جاتا ہے اسی طرح ہمیں بھی خالی ڈراوے دیے جا رہے ہیں اور جہنم کا ’ ہوا ‘ دکھایا جا رہا ہے۔ لیکن اس دن جہنم کو اس کے تمام تر عذابوں اور سختیوں کے ساتھ ان کے سامنے لایا جائے گا اور پھر ان سے پوچھا جائے گا : { اَلَیْسَ ہٰذَا بِالْحَقِّط قَالُوْا بَلٰی وَرَبِّنَاط } ( الانعام : ٣٠) کہ جو کچھ اب تم اپنے سامنے دیکھ رہے ہو کیا یہ حقیقت نہیں ؟ تو اس وقت وہ تسلیم کریں گے کہ ہاں کیوں نہیں ‘ ہمارے پروردگار کی قسم ! واقعی یہ تو ایک حقیقت ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٧۔ ٤٨۔ حشر کے منکر لوگوں کے حق میں قیامت کو جو فیصلہ ہوگا اوپر اس کا ذکر تھا ان آیتوں میں اس عذاب کا ذکر ہے جو اس فیصلہ کا موافق ان لوگوں کو بھگتنا پڑے گا حاصل مطلب یہ ہے کہ جس عذاب کو یہ لوگ دنیا میں مسخرا پن سمجھتے تھے قیامت کے دن وہ عذاب ہوگا کہ ان کا وہم و گمان بھی دنیا میں یہاں تک نہیں پہنچتا ... تھا کہ ان کے لئے ایسا سخت عذاب آخرت میں تیار رکھا گیا ہے۔ اس عذاب کی سختی سے بےتاب ہو کر ان میں کا ہر شخص یہ آروز کرے گا کہ اگر اس کے پاس تمام دنیا کے مال و اسباب سے دوگنا مال و اسباب ہوتا تو اس کو جرمانہ کے طور پر داخل کر کے اس عذاب سے نجات حاصل کرلیتا۔ مگر اس دن تو سوائے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے اعتقاد کے اور کوئی چیز عذاب سے بچانے والی نظر نہ آئے گی۔ صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم میں انس بن مالک سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول نے فرمایا قیامت کے دن کم سے کم دوزخ کے عذاب والے شخص سے اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ اگر تیرے پاس تمام دنیا کا مال و اسباب ہو تو اس کو معاوضہ میں دے کر اس عذاب سے نجات حاصل کرے گا وہ شخص کہے گا کہ ہاں اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا جب تو دنیا میں پیدا نہیں ہوا تھا اسی وقت تجھ کو شرک سے منع کیا گیا تھا جب تو دنیا میں اس مناہی کو ٹال گیا تو اب تیری نجات کی کوئی صورت نہیں یہ شرک کی منہی وہی عالم ارواح کی ہے جس کا ذکر مسند امام ٢ ؎ احمد مستدرک حاکم وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عباس اور ابی بن کعب کی معتبر روایتوں میں ہے جس کا ذکر سورة الاعراف میں تفصیل سے گزر چکا ہے صحیح بخاری ٣ ؎ و مسلم کے حوالہ سے ابو سعید خدری کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ ذرہ برابر ایمان والا شخص بھی قیامت کے دن دوزخ سے نکل کر جنت میں داخل ہوگا۔ ان حدیثوں کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اس دن سوا اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے اعتقاد کے اور کوئی چیز کچھ کام نہ آئے گی کیونکہ ذرہ برابر توحید سے جو کام نکلے گا وہ تمام دنیا کے مال و اسباب سے نہ نکل سکے گا۔ (٣ ؎ صحیح بخاری باب صفۃ الجنۃ والنار ص ٩٧٠ ج ٢۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:47) ما فی الارض : ما موصولہ ہے یعنی دنیا میں جو کچھ ہے از قسم اموال و ذخائر۔ جمیعا سارے کا سارا۔ یعنی اگر ظالموں (مشرکین) کے پاس دنیا کے سب کے سب اموال و ذخائر ہوں۔ مثلہ معہ۔ (اور) اس کے ساتھ اتنا اور ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع اسم موصول ما ہے۔ لافتدوا۔ لام جواب شرط کے لئے ہے (لو کے جوا... ب میں) افتدوا ماضی جمع مذکر غائب افتداء (افتعال) مصدر سے تو وہ عذاب کی سختی سے اپنے آپ کو چھڑانے کے لئے بطور فدیہ (یہ اموال و ذخائر) دینے کو تیار ہوجاتے۔ سوء العذاب۔ عذاب کی سختی۔ یوم القیمۃ۔ یوم بوجہ ظرف منصوب ہے۔ بدا۔ ماضی واحد مذکر غائب بدا یبدوا (نصر) بداء وبداء ۃ وبدو۔ مصدر ۔ ظاہر ہونا۔ باد صفت واحد بادون جمع ۔ بدا کھلم کھلا ظاہر ہوگیا۔ یہاں بمعنی مستقبل آیا ہے۔ یعنی کھلے طور پر ظاہر ہوجائے گا۔ مالم یکونوا یحتسبون ۔ ما اسم موصول ہے یکونوا یحتسبون مجارع نفی جحد بلم بمعنی ماضی۔ احتساب (افتعال) مصدر۔ انہوں نے گمان بھی نہیں کیا تھا۔ وبدالہم ۔۔ یحتسبون : ای ظھر لہم من سخط اللّٰہ وعذابہ مالم یکن قط فی حسبانھم وہ اللہ تعالیٰ کے اس غصہ اور عذاب کو دیکھیں گے جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی دے کر اپنی خلاصی کرانے کیلئے تیار ہوجائیں۔2 یعنی ایسے ایسے عذاب نمودار ہوں گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 47 تا 52 : بدا ( ظاہر ہوا) یحسبون (وہ گمان کرتے ہیں) کسبوا (انہوں نے کمایا) حاق ( چھا گیا) ما اغنی ( کام نہ آیا) یصیب ( پہنچے گا) معجزین ( عاجز اور بےبس کرنے والے) یبسط ( وہ کشادہ کرتا ہے ، کھولتا ہے) یقدر ( وہ تنگ کردیتا ہے) تشریح : آیت نمبر 47 تا 52 :۔ قیام کے ہولناک دن جب الل... ہ تعالیٰ اہل ایمان ، عمل صالح اور نیکی اختیار کرنے والوں اور کافروں اور مشرکین کے بےبنیاد عقیدوں اور عمل سے متعلق فیصلے فرمائیں گے تو ان میں سے ظالموں کا یہ حال ہوگا کہ عذاب الٰہی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بوکھلا جائیں گے اور اگر انکے پاس زمین کے سارے خزانے بلکہ اس سے بھی زیادہ خزانے ہوں گے تو وہ اس عذاب سے بچنے کے لئے سب کچھ دینے پر تیار ہوجائیں گے ۔ ان کے سامنے وہ تمام عذاب موجود ہوں گے جن کا وہ دنیا میں تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ مگر انہوں نے اس دنیا میں جو کچھ کیا ہوگا اس کا پورا ریکارڈ ان کے سامنے آجائے گا اور وہ دنیا میں جس طرح دین اسلام کا مذاق اڑایا کرتے تھے اس کا وبال ان پر چاروں طرف سے ٹوٹ پڑے گا اور ان کو گھیرلے گا ۔ فرمایا کہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اس کائنات میں اصل اللہ ہی کی ذات ہے وہی سب کا کار ساز ہے چناچہ جب ان پر کوئی مصیبت یا آفت پڑجاتی ہے تو وہ ایک اللہ ہی کو پکارتے ہیں اور جب ہم ان پر کرم کردیتے ہیں اور ہر طرح کی مصیبتوں کو ٹال دیتے ہیں تو وہ ان پر ٹکر کرنے کے بجائے اتراتے ہوئے کہنے لگتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہماری کوشش اور جدوجہد کا نتیجہ ہے اور یہ کہتے ہوئے نہیں شرماتے کہ یہ سب کچھ تو ہمارے علم اور تدبیر کی وجہ سے ہوا ہے اگر ہم فلاں تدبیر اور کوشش نہ کرتے تو اس مصیبت سے نجات حاصل نہ کرسکتے حالانکہ یہ سب نعمتیں جو اللہ نے عطاء فرمائی ہیں ایک آزمائش اور امتحان ہیں کہ انسان نعمتیں پانے کے بعد اللہ کا شکر ادا کرتا ہے یا ناشکرے پن کے طریقے اختیار کرتا ہے ، اگر وہ شکر ادا کرتا ہے تو اللہ اس کو اور نعمتیں دیتا چلا جاتا ہے اور اگر نا شکری کرتا ہے تو اللہ اس کو سخت مصیبت میں ڈال دیتا ہے۔ فرمایا کہ ایسا بہت پہلے سے ہوتا چلا آیا ہے لیکن ان کا نا شکرا پن ان کے کسی کام نہ آسکا اور وہی چیزیں جن پر انہیں ناز تھا ان کے کسی کام نہ آسکیں گی۔ جس طرح قارون جو نہایت مال دار شخص تھا اور کہتا تھا کہ مجھے جو کچھ ملا ہے وہ میری تدبیر اور علم کی وجہ سے ملا ہے حالانکہ رزق میں کشادگی اور تنگی دونوں قدرت کے فیصلے ہیں مگر جب قارون نے اتران شروع کیا تو اللہ نے اس کو اس کے مال و دولت اور اس کے لائو لشکر کو زمین میں دھنسا کر ختم کردیا جس کا آج کوئی نام لیوا تک موجود نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان تمام واقعات میں عبرت و نصیحت حاصل کرنے کے بیشمار مواقع موجود ہیں مگر ان سے وہی عبرت و نصیحت حاصل کرتے ہیں جن کے دلوں میں ایمان کی شمع روشن ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : پہلی آیت میں ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ فیصلہ کرنے والا ہے لہٰذا قیامت کے دن ظالموں کے بارے میں جو فیصلہ ہوگا اس کا اعلان۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ظالموں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ صادر فرمائے گا۔ ظالم سے مراد ہر قسم کے ظالم ہیں۔ ان میں سرفہرست وہ ظالم ہیں جنہوں نے اللہ ... تعالیٰ کی ذات اور صفات میں دوسروں کو شریک کیا ہوگا جس طرح یہودیوں نے عزیر (علیہ السلام) کو رب کا بیٹا قراردیا۔ عسائیوں نے حضرت مریم، حضرت عیسیٰ اور ذات کبریا کو شامل کر کے تثلیث کا عقیدہ بنایا۔ مشرکین مکہ ملائکہ کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی صفات بتوں اور فوت شدگان میں تصور کرتے تھے۔ جیسا کہ لاکھوں کلمہ گو لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نور من نور اللہ کہتے ہیں اور علی ہجویری کو داتا گنج بخش اور عبدالقادر جیلانی (رض) کو پیر دستگیر اور نامعلوم فوت شدگان اور زندہ بزرگوں کے بارے میں مشرک کیا کیا کہتے اور عقیدہ رکھتے ہیں۔ ایسے ظالموں کو جب جہنم میں جھونکا جائے گا۔ تو یہ اس بات کی خواہش کریں گے کہ کاش ! ہمارے پاس زمین کے خزانے اور اتنا کچھ اور ہو تو ہم جہنم کے عذاب سے بچنے کے لیے سب کچھ دینے کے لیے تیار ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے سامنے وہ کچھ ظاہر فرمائے گا جس کا آج یہ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ان کے برے اعمال ایک ایک کر کے ان کے سامنے لائے جائیں گے اور جس عذاب کو یہ مذاق سمجھتے تھے وہ ان کو ہر جانب سے گھیرے ہوئے ہوگا۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ َیُؤْتٰی بالرَّجُلِ مِنْ أَھْلِ النَّارِ فَیَقُوْلُ لَہٗ یَا ابْنَ آدَمَ کَیْفَ وَجَدْتَّ مَنْزِلَکَ فَیَقُوْلُ أَیْ رَبِّ شَرُّّ مَنْزِلٍ فَیَقُوْلُ لَہٗ أَتَفْتَدِيْ مِنْہُ بِطِلَاعِ الْأَرْضِ ذَھَبًا فَیَقُوْلُ أَيْ رَبِّ نَعَمْ فَیَقُوْلُ کَذَبْتَ فَقَدْ سَأَلْتُکَ أَقَلَّ مِنْ ذٰلِکَ وَأَیْسَرَ فَلَمْ تَفْعَلْ فَیُرَدُّ إِلَی النَّارِ ) [ مسند أحمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب باقی المسند السابق ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ایک جہنمی لایا جائے گا اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا۔ اے ابن آدم تو نے اپنا ٹھکانہ کیسا پایا ؟ وہ جواب دے گا اے میرے رب ! بدترین ٹھکانہ ہے اللہ تعالیٰ اسے کہیں گے کیا تو زمین بھر کر سونا فدیہ کے طور پردے گا ؟ وہ کہے گا ہاں میرے رب۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹ بولتا ہے میں نے تو تجھ سے اس سے کم اور آسان کام کا مطالبہ کیا تھا جو تو نے نہ کیا پھر اسے جہنم میں داخل کردیا جائے گا۔ “ 1 اللہ تعالیٰ نے انسان کے شرف اور مقام کے پیش نظر اسے صرف اپنے سامنے جھکنے کا حکم دیا ہے لیکن مشرک اس کی ناقدری کرتے ہوئے دردر کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔ 2 اللہ تعالیٰ نے انسان کو صرف اپنی بارگاہ سے مانگنے کا حکم دیا لیکن مشرک ہر جگہ جھولی پھیلائے پھرتا ہے۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن ظالم خواہش کریں گے کہ زمین اور اس کے برابر چیز دے کر ہماری جان چھوٹ جائے۔ ٢۔ قیامت کے دن ظالموں کے تمام اعمال ان کے سامنے لائے جائیں گے۔ ٣۔ قیامت کے دن ظالموں کو ہر طرف سے گھیر لیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن مذاق کرنے والے اور ان کا انجام : ١۔ وہ چیز ان کو گھیرہی لے گی جس کی بنا پر یہ مذاق کرتے تھے۔ (ہود : ٨) ٢۔ جب وہ ہماری نشانیاں دیکھتے ہیں تو مذاق کرتے ہیں۔ (الصّٰفّٰت : ١٤) ٣۔ وہ تعجب کرتے ہیں اور مذاق کرتے ہیں۔ (الصّٰفّٰت : ١٢) ٤۔ جب نوح (علیہ السلام) کی قوم کے لوگ ان کے پاس سے گزرتے تھے تو مذاق کرتے تھے۔ (ہود : ٣٨) ٥۔ کفار نے رسولوں سے باطل دلائل کے ساتھ جھگڑا کیا تاکہ وہ حق کو نیچا دکھائیں اور میری آیات، تنبیہات کا مذاق اڑائیں (الکہف : ٥٦) ٦۔ جہنم ان کے کفر اختیار کرنے کا بدلہ ہے جو میری آیات اور میرے رسولوں کا مذاق اڑاتے رہے۔ (الکہف : ١٠٦)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 47 تا 48 ایک ہولناک صورت حال کا جامہ پہنادیا گیا ہے۔ یہ قرآن ہی کرسکتا ہے ، یہ ظالم جو اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں اور شرک ظلم عظیم ہے ۔ اگر قیامت کے دن ان کے قبضے میں یہ پوری زمین ہو اور اس جیسی ایک اور زمین بھی اور وہ اس کے اور مافیہا کے واحد مالک ہوں تو وہ قیامت کے دن کے عذاب سے بچنے کے ل... یے وہ سب کچھ دینے کے لیے تیار ہوں گے۔ اور اس عذاب سے یہ لوگ رہائی نہ پاسکیں گے۔ ان جامع الفاظ کے اندر ایک دوسری دھمکی بھی چھپی ہوئی ہے۔ وبدالھم من اللہ مالم یکونوا یحتسبون (39: 47) ” اور اللہ کی طرف سے ان کے سامنے وہ کچھ آئے گا جس کا انہوں نے کبھی اندازہ ہی نہیں کیا ہے “۔ یہاں اس بات کا تذکرہ نہیں کیا گیا کہ وہاں ان کے سامنے اللہ کی طرف سے کیا غیر متوقع انکشافات ہوں گے ؟ لیکن اتنی بات ظاہر ہے کہ جو کچھ ظاہر ہوگا وہ بہت ہی خوفناک ہوگا اور وہ ان کو مدہوش کردے گا۔ اور وہ حواص باختہ پھریں گے۔ ایک طرف اللہ ہے اور دوسری طرف یہ ضعفاء ہیں اور اللہ کی طرف سے ان کے سامنے خوفناک انکشافات ہوں گے یہاں ان کو متعین نہیں کیا گیا۔ وبدالھم۔۔۔۔ یستھزءون (39: 48) ” وہاں اپنی کمائی کے سارے نتائج ان پر کھل جائیں گے اور وہی چیز ان پر مسلط ہوجائے گی جس کا یہ مذاق اڑاتے رہے ہیں “۔ اس سے بھی ان کی حالت مزید بگڑ جائے گی۔ جب ان کے سامنے اپنے کرتوتوں کے نتائج بھیانک شکل میں آئیں گے۔ اور جس عذاب کا وہ مذاق اڑاتے تھے وہ انہیں گھیرلے گا۔ اور وہ نہایت ہی کربناک حالت میں ہوں گے۔ اعاذنا اللہ منھا۔ اب اس موقف کے بعد جب وہ اپنے رب کے سامنے حاضر کئے جائیں گے ، اس رب کے سامنے جس کے ساتھ یہ لوگ شرک کرتے تھے اور جب اللہ وحدہ کا ذکر کیا جاتا تو ان کے دل سکڑ جاتے اور جب ان کے شرکاء کا ذکر ہوتا تو وہ کھل جاتے تھے۔ ان مضامین کے بعد ان کی عجیب حالت کی تصویر کھینچی جاتی ہے۔ یہ اللہ کی وحدانیت کا تو انکار کرتے ہیں لیکن جب یہ کسی بڑی مصیبت میں پھنستے ہیں تو صرف اللہ وحدہ کو نہایت عاجزی سے پکارتے ہیں۔ لیکن جب ان سے یہ مصیبت ٹل جائے تو پھر تکبر کرتے ہوئے انکار کرتے ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

48:۔ ” ولو ان الخ “ یہ تخویف اخروی ہے دنیا میں تو ضد میں آکر توحید کو نہ مانا اور اللہ کے سوا اوروں کو معبود بنایا اور سیدھی راہ بتانے والوں کی ایک نہ سنی آخرت میں ان کا حال یہ ہوگا کہ وہ خواہش کریں گے کہ اگر آج ساری دنیا کی دولت اور اتنی ہی اور دولت ان کے پاس ہو تو وہ فدیہ دے کر قیامت کے عذاب سے بچ...  جائیں۔ قیامت کے دن اللہ کی طرف سے انہیں ایسی ایسی سزائیں ملیں گی۔ جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوں گی اور ان کے سارے کرتوت اور جرائم ان کے سامنے ہوں گے اور جس عذاب کا مذاق اڑایا کرتے تھے وہ انہیں گھیر لے گا۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(47) اور اگر جو لوگ ظلم یعنی کفروشرک کے خوگر ہیں ان کے پاس وہ سب کچھ ہو جو زمین میں ہے اور اتنا ہی اس کے ساتھ اور بھی یعنی روئے زمین کی سب چیزوں کی دگنا تو یہ لوگ مال دولت قیامت کے بدترین اور سخت عذاب سے بچنے کے لئے اپنے فدیہ میں دے ڈالیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے سامنے وہ چیز ظاہر ہوگی جس کا ... وہ گمان بھی نہ رکھتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آج اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرکے ظلم کررہے ہیں اور ظالم بنے ہوئے ہیں ان کی یہ حالت ہوگی کہ روئے زمین کی تمام دولت کا دگنا بھی اگر کسی کے پاس ہو تو وہ بھی قیامت کے دن اس کو اپنے فدیہ میں دے کر اس بری طرح کی سزا اور عذاب سے اپنے کو چھڑا لیں جو قیامت میں ان کو بھگتنا پڑے گا اگرچہ وہ قبول نہ ہوگا اور قیامت کے دن کی سزا بھگتنی ہی پڑے گی اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے کچھ ایسے واقعات و حالات ظاہر ہوں گے جن حالات و واقعات کے پیش آنے کا ان کو وہم و گمان تک نہ تھا۔  Show more