Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 51

سورة الزمر

فَاَصَابَہُمۡ سَیِّاٰتُ مَا کَسَبُوۡا ؕ وَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡ ہٰۤؤُلَآءِ سَیُصِیۡبُہُمۡ سَیِّاٰتُ مَا کَسَبُوۡا ۙ وَ مَا ہُمۡ بِمُعۡجِزِیۡنَ ﴿۵۱﴾

And the evil consequences of what they earned struck them. And those who have wronged of these [people] will be afflicted by the evil consequences of what they earned; and they will not cause failure.

پھر ان کی تمام برائیاں ان پر آپڑیں اور ان میں سے بھی جو گناہ گار ہیں ان کی کی ہوئی برائیاں بھی اب ان پر آپڑیں گی یہ ( ہمیں ) ہرا دینے والے نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَأَصَابَهُمْ سَيِّيَاتُ مَا كَسَبُوا وَالَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْ هَوُلاَأء ... So, the evil results of that which they earned overtook them. And those who did wrong of these... means, the people who are addressed here, ... سَيُصِيبُهُمْ سَيِّيَاتُ مَا كَسَبُوا ... will also be overtaken by the evil results (torment) for that which they earned; just as happened to those earlier peoples. ... وَمَا هُم بِمُعْجِزِينَ and they will never be able to escape. This is like the Ayah in which Allah tells us how Qarun reacted when his people told him: ... لااَ تَفْرَحْ إِنَّ اللَّهَ لااَ يُحِبُّ الْفَرِحِينَ وَابْتَغِ فِيمَأ ءَاتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الاٌّخِرَةَ وَلاَ تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِن كَمَأ أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلاَ تَبْغِ الْفَسَادَ فِى الاٌّرْضِ إِنَّ اللَّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ قَالَ إِنَّمَأ أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ عِندِى أَوَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَهْلَكَ مِن قَبْلِهِ مِنَ الْقُرُونِ مَنْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَأَكْثَرُ جَمْعاً وَلاَ يُسْأَلُ عَن ذُنُوبِهِمُ الْمُجْرِمُونَ ... Do not exult, verily, Allah likes not those who exult. But seek, with that (wealth) which Allah has bestowed on you, the home of the Hereafter, and forget not your portion of lawful enjoyment in this world; and do good as Allah has been good to you, and seek not mischief in the land. Verily, Allah likes not the corrupters." He said: "This has been given to me only because of the knowledge I possess." Did he not know that Allah had destroyed before him generations, men who were stronger than him in might and greater in the amount (of riches) they had collected? But the criminals will not be questioned (immediately) of their sins. (28:76-78) And Allah says: وَقَالُواْ نَحْنُ أَكْثَـرُ أَمْوَلاً وَأَوْلَـداً وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ And they say: "We are more in wealth and in children, and we are not going to be punished." (34:35)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

51۔ 1 برائیوں سے مراد ان کی برائیوں کی جزا ہے ان کو مشاکلت کے اعتبار سے سیئات کہا گیا ہے ورنہ برائی کی جزا برائی نہیں ہے جیسے وجزاء سیئۃ سیئۃ مثلھا میں ہے فتح القدیر 49۔ 2 یہ کفار مکہ کو تنبیہ ہے چناچہ ایسا ہی ہوا یہ بھی گزشتہ قوموں کی طرح قحط قتل واسارت وغیرہ سے دو چار ہوئے اللہ کی طرف سے آئے ہوئے ان عذابوں کو یہ روک نہیں سکے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٩] مال کی کشادگی اللہ کی رضا کی دلیل نہیں :۔ پہلی قومیں بھی اس غلط فہمی میں مبتلا رہیں کہ ہماری آسودہ حالی اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارا پروردگار ہم سے راضی اور خوش ہے۔ پھر اس بات کو وہ اپنے آبائی شرکیہ دین کی صداقت پر دلیل لاتے تھے۔ سو انہیں ان باتوں کا جو انجام دیکھنا پڑا وہ سب کو معلوم ہے اور اب جو مشرکین انہی کی ڈگر پر چل رہے ہیں تو یہ بھی ایسے ہی انجام سے دوچار ہونے والے ہیں۔ یہ کہیں بھاگ کر اللہ کی گرفت سے بچ نہیں سکتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاَصَابَهُمْ سَـيِّاٰتُ مَا كَسَبُوْا ۭ : ” سَـيِّاٰتُ “ سے مراد ان کے اعمال کے برے نتائج اور وبال ہیں، یعنی ان کے اعمالِ بد کے نتائج ان پر مختلف عذابوں کی صورت میں آپڑے۔ وَالَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْ هٰٓؤُلَاۗءِ ۔۔ : یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے اور بعد کے تمام کفار کو تنبیہ ہے کہ اگر پہلے لوگوں کی طرح وہ بھی ناشکری اور ظلم (کفر و شرک) سے باز نہ آئے تو ان کے اعمال کے برے نتائج بہت جلد ان پر آپڑیں گے۔ وَمَا هُمْ بِمُعْجِزِيْنَ : ” بِمُعْجِزِيْنَ “ کی باء نفی کی تاکید کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے کہ ” وہ ہرگز عاجز کرنے والے نہیں ہیں۔ “ یعنی جب ان کے اعمال کے برے نتائج اور وبال مختلف عذابوں کی صورت میں ان پر آئے تو یہ نہ انھیں روک سکیں گے اور نہ کسی صورت یہ ہوگا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو عاجز اور بےبس کرکے اس کی گرفت سے نکل کر بھاگ جائیں، یا چھپ جائیں۔ چناچہ ان میں سے جو زندہ رہے ان پر دنیا ہی میں قحط، خوف، جنگ، قید اور قتل کی صورت میں اللہ کے عذاب آئے اور فوت ہونے والوں کے لیے عذاب شدید انتظار میں ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَصَابَہُمْ سَـيِّاٰتُ مَا كَسَبُوْا۝ ٠ ۭ وَالَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْ ہٰٓؤُلَاۗءِ سَيُصِيْبُہُمْ سَـيِّاٰتُ مَا كَسَبُوْا۝ ٠ ۙ وَمَا ہُمْ بِمُعْجِزِيْنَ۝ ٥١ ( صاب) مُصِيبَةُ والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء/ 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. قال تعالی:إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ [ التوبة/ 50] ، وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ [ النساء/ 73] ، فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ [ النور/ 43] ، فَإِذا أَصابَ بِهِ مَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ [ الروم/ 48] ، قال : الإِصَابَةُ في الخیر اعتبارا بالصَّوْبِ ، أي : بالمطر، وفي الشّرّ اعتبارا بِإِصَابَةِ السّهمِ ، وکلاهما يرجعان إلى أصل . مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء/ 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ [ التوبة/ 50] اے پیغمبر اگر تم کو اصائش حاصل ہوتی ہے تو ان کی بری لگتی ہے اور اگر مشکل پڑتی ہے ۔ وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ [ النساء/ 73] ، اور اگر خدا تم پر فضل کرے فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ [ النور/ 43] تو جس پر چاہتا ہے اس کو برسادیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے ۔ فَإِذا أَصابَ بِهِمَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ [ الروم/ 48] پھر جب وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اسے برسا دیتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ جباصاب کا لفظ خیر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے تو یہ صوب بمعنی بارش سے مشتق ہوتا ہے اور جب برے معنی میں آتا ہے تو یہ معنی اصاب السمھم کے محاورہ سے ماخوز ہوتے ہیں مگر ان دونوں معانی کی اصل ایک ہی ہے ۔ سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے كسب ( عمل رزق) الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی: أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] ، وقوله : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] ( ک س ب ) الکسب ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں عجز والعَجْزُ أصلُهُ التَّأَخُّرُ عن الشیء، وحصوله عند عَجُزِ الأمرِ ، أي : مؤخّره، كما ذکر في الدّبر، وصار في التّعارف اسما للقصور عن فعل الشیء، وهو ضدّ القدرة . قال : وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة/ 2] ، ( ع ج ز ) عجز الانسان عجز کے اصلی معنی کسی چیز سے پیچھے رہ جانا یا اس کے ایسے وقت میں حاصل ہونا کے ہیں جب کہ اسکا وقت نکل جا چکا ہو جیسا کہ لفظ کسی کام کے کرنے سے قاصر رہ جانے پر بولا جاتا ہے اور یہ القدرۃ کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے : وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة/ 2] اور جان رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہیں کرسکو گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥١ { فَاَصَابَہُمْ سَیِّاٰتُ مَا کَسَبُوْا } ” پس انہیں اس کے بدنتائج پہنچ گئے جو وہ کماتے تھے۔ “ { وَالَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْ ہٰٓؤُلَآئِ } ” اور ان میں سے بھی جو لوگ ظلم (شرک) کی روش اختیار کریں گے “ { سَیُصِیْبُہُمْ سَیِّاٰتُ مَا کَسَبُوْالا وَمَا ہُمْ بِمُعْجِزِیْنَ } ” ان کو پہنچ کر رہیں گے ان کے کرتوتوں کے برے نتائج ‘ اور وہ (اللہ کو) عاجز کردینے والے نہیں ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:51) اصابھم : ماضی واحد مذکر غائب اصابۃ (افعال) مصدر ۔ جس کے معنی پالینے کے ہیں۔ اصاب وہ آپہنچا۔ وہ آپڑا۔ اس نے پالیا۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب کا مرجع الذین من قبلہم۔ میں ۔ وہ ان پر آپڑیں۔ سیئات ماکسبوا۔ بدیاں جو انہوں نے کمائی تھیں (بصورت ما موصولہ) ۔ اعمال بد۔ (بصورت ما مصدریہ) نیز ملاحظہ ہو 39:48 ۔ اصابھم سیئات ما کسبوا۔ ان کے بد اعمال ان کو آلیں گے۔ بد اعمال سے مرادان کی سزا ہے۔ یعنی ان کے بد اعمال کی سزا ان پر آپڑے گی۔ سیئات کی سزا کو سیئات صرف تقابل کی وجہ سے قرار دیا۔ سمی جزاء السیئۃ سیئۃ للازدواج کقولہ تعالیٰ وجزاء سیئۃ سیئۃ مثلہا (42:40) والذین ظلموا من ھؤلائ : الذین ظلموا سے مراد مشرکین ہیں جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے ان الشرک لظلم عظیم (31:13) بیشک شرک بہت بڑا ظلم ہے ۔ من بیانیہ ہے۔ ومن للبیان فانھم کلہم کانوا ظلمین (روح المعانی) من بیانیہ ہے۔ کیونکہ وہ سب کے سب ہی ظالم تھے۔ ھؤلائ۔ اسم اشارہ ۔ جمع یہ سب ۔ من ھؤلاء سے مراد مشرکین مکہ ہیں اور یہ ظالم لوگ بھی ۔۔ بعض کے نزدیک من تبعیحیہ ہے اور اس صورت میں والذین ظلموا من ھؤلاء کا ترجمہ ہوگا :۔ اور ان میں سے جو شرک پر مصر رہے (اخیر دم تک) ۔ سیصیبھم : س مستقبل قریب کے لئے ہے یصیب صیغہ واحد مذکر غائب مضارع معروف۔ اصابۃ (افعال) سے بمعنی پہنچنا۔ آجانا۔ آپڑنا۔ یہ اصاب السہم سے ہے۔ جس کا مطلب ہے تیر ٹھیک نشانہ پر جالگا۔ مصیبۃ اصل میں اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جاکر بیٹھ جائے۔ اس کے بعد (عرف عام میں) ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے۔ سیئات ما کسبوا۔ ان کے اعمال بد کی جزائ۔ یعنی عنقریب ان کی بد اعمالیوں کی سزا اب پر آپڑے گی (چنانچہ کفار مکہ سات سال تک قحط میں مبتلا رہے۔ پھر بدر میں ان کے بڑے بڑے سردار مارے گئے ۔ اور واصل جہنم ہوئے صرف وہ لوگ محفوظ رہے جنہوں نے توبہ کرلی۔ اور مسلمان ہوگئے) وما ہم بمعجزین : ما نافیہ ہے معجزین اسم فاعل جمع مذکر۔ عاجز بنا دینے والے۔ ہرا دینے والے۔ اور یہ اللہ کو ہرا نہیں سکتے۔ یعنی اللہ کی گرفت سے چھوٹ نہیں سکتے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی خدا سے بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتے بلکہ اسی کی طرف واپسی ہوگی اور اسے پورا اختیار ہوگا کہ انہیں جو سزا دینا چاہے، دے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ چناچہ بدر میں خوب سزا ہوئی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

52:۔ ” فاصابہم الخ “ وہ اپنے کیے کی سزا پا کر رہے۔ ” والذین ظلموا الخ “ یہ مشرکین قریش کے لیے تخویف دنیوی ہے۔ جس طرھ اقوام گذشتہ کے مشرکین کو دنیا ہی میں اپنے کیے کی سزا مل گئی اسی طرح مشرکین قریش بھی دنیا میں اپنے کیے کی سزا مل گئی اسی طرح مشرکین قریش بھی دنیا میں اپنے کیے کی سزا پائیں گے۔ اور وہ اللہ کے عذاب کو نہ ورک سکیں گے اور نہ اس کے عذاب سے بچ ہی سکیں گے۔ چناچہ چنانچہ اللہ کا یہ عذاب مشرکین قریش پر قتل و قحط کی صورت میں نازل ہوا۔ ای سیصیبہم مثل ما اصاب اولئک فقتل صنادیدہم ببدر و حبس عنہم الرزق فقحطوا سبع سنین (مدارک ج 4 س 48) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(51) پھران پہلوں پر ان بداعمالیوں اور بری کمائیوں کا اثر اور وبال آپڑا اور ان موجودہ لوگوں میں سے بھی جو ظالم ہیں ان کی کمائیوں کی برائی اور ان کی بداعمالی کا اثر اور وبال ان پر پڑنے والا ہے اور ان کو پہنچے گا اور بہت جلد ان کو پہنچ کر رہے گا اور یہ اللہ تعالیٰ کو تھکانے اور عاجز کرے والے نہیں ہیں۔ یعنی یہ کفار مکہ بھی عنقریب اپنے برے اعمال اور بری کمائیوں کا پھل پانے والے ہیں جیسا کہ قحط میں اور بدر کے دن قتل میں مبتلا کئے گئے اور اللہ تعالیٰ کو عاجز نہ کرسکے آگے پھر قدرت کا اظہار فرمایا۔