Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 65

سورة الزمر

وَ لَقَدۡ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ وَ اِلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ لَئِنۡ اَشۡرَکۡتَ لَیَحۡبَطَنَّ عَمَلُکَ وَ لَتَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ ﴿۶۵﴾

And it was already revealed to you and to those before you that if you should associate [anything] with Allah , your work would surely become worthless, and you would surely be among the losers."

یقیناً تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے ( کے تمام نبیوں ) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر تو نے شرک کیا تو بلاشبہ تیرا عمل ضائع ہو جائے گا اور بالیقین تو زیاں کاروں میں سے ہو جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Say: "Do you order me to worship other than Allah O you fools!" And indeed it has been revealed to you, as it was to those before you: "If you join others in worship with Allah, surely your deeds will be in vain, and you will certainly be among the losers." This is like the Ayah: وَلَوْ أَشْرَكُواْ لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ But if they had joined in worship others with Allah, all that they used to do would have been of no benefit to them. (6:88) بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُن مِّنْ الشَّاكِرِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

65۔ 1 اگر تو نے شرک کیا ' مطلب ہے، اگر موت شرک پر آئی اور اس سے توبہ نہ کی۔ خطاب اگرچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے جو شرک سے پاک بھی تھے اور آئندہ کے لئے محفوظ بھی۔ کیونکہ پیغمبر اللہ کی حفاظت و عصمت میں ہوتا ہے ان سے ارتکاب شرک کا کوئی امکان نہیں تھا، لیکن دراصل امت کے لئے تعریض اور اس کو سمجھانا مقصود ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٢] واضح رہے کہ انبیاء سے شرک کا صدور محال ہے۔ کیونکہ وہ جن مقاصد کے لئے مبعوث کئے جاتے ہیں ان میں اولین مقصد شرک کی بیخ کنی اور توحید کی ترویج ہوتا ہے۔ اسی بات پر وہ خود قائم رہتے اور دوسروں کو دعوت دیتے ہیں۔ یہاں جو آپ کو مخاطب کرکے یہ بات کہی گئی ہے۔ تو اس سے شرک کی انتہائی مذمت مقصود ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ ۔۔ : سلیمان الجمل نے فرمایا : ” ولقد “ اور ” لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ “ دونوں میں لام کے بعد قسم مقدر ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ بات قسم کھا کر نہایت تاکید کے ساتھ فرمائی ہے۔ “ ” لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ “ (اگر تو نے شرک کیا) کے مخاطب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ہیں اور پہلے پیغمبروں میں سے ہر ایک پیغمبر بھی۔ یعنی آپ کو اور آپ سے پہلے ایک ایک پیغمبر کو مخاطب کرکے وحی کی گئی ہے کہ اگر تو نے شرک کیا توُ تو نے جو بھی اچھا کام کیا ہوگا یقیناً سب ضائع ہوجائے گا اور یقیناً تو خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائے گا۔ مزید دیکھیے سورة انعام (٨٨) ۔ 3 یہاں ایک سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ کوئی نبی شرک نہیں کرے گا، پھر انھیں یہ وحی کرنے کا مطلب کیا ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اس سے شرک کی شامت اور برائی بیان کرنا مقصود ہے کہ اگر بالفرض اللہ تعالیٰ کے اتنے مقرب بندے شرک کا ارتکاب کر بیٹھیں تو ان کا عمل ضائع ہوجائے گا، تو پھر دوسرے لوگوں کی کیا حیثیت ہے۔ گویا پیغمبروں کو سنا کر ان کی قوموں کو ڈرایا گیا ہے۔ 3 شرک کے ساتھ تمام اعمال ضائع ہونے کی یہ وعید ان لوگوں کے لیے ہے جن کی موت کفر و شرک کی حالت میں واقع ہو، جیسا کہ فرمایا : (وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَيَمُتْ وَھُوَ كَافِرٌ فَاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ) [ البقرۃ : ٢١٧ ]” اور تم میں سے جو اپنے دین سے پھر جائے، پھر اس حال میں مرے کہ وہ کافر ہو تو یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت میں ضائع ہوگئے۔ “ توبہ کرلینے والے اس سے مستثنیٰ ہیں۔ دیکھیے سورة فرقان (٦٨ تا ٧٠) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ۝ ٠ ۚ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۝ ٦٥ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ حبط وحَبْط العمل علی أضرب : أحدها : أن تکون الأعمال دنیوية فلا تغني في القیامة غناء، كما أشار إليه بقوله : وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان/ 23] والثاني : أن تکون أعمالا أخروية، لکن لم يقصد بها صاحبها وجه اللہ تعالی، كما روي : «أنه يؤتی يوم القیامة برجل فيقال له : بم کان اشتغالک ؟ قال : بقراءة القرآن، فيقال له : قد کنت تقرأ ليقال : هو قارئ، وقد قيل ذلك، فيؤمر به إلى النار» «1» . والثالث : أن تکون أعمالا صالحة، ولکن بإزائها سيئات توفي عليها، وذلک هو المشار إليه بخفّة المیزان . وأصل الحبط من الحَبَطِ ، وهو أن تکثر الدابة أكلا حتی ينتفخ بطنها، وقال عليه السلام : «إنّ ممّا ينبت الربیع ما يقتل حبطا أو يلمّ» «2» . وسمّي الحارث الحَبَطَ «3» ، لأنه أصاب ذلك، ثم سمي أولاده حَبَطَات . ( ح ب ط ) الحبط حبط عمل کی تین صورتیں ہیں ۔ ( 1) اول یہ کہ وہ اعمال دینوی ہوں اس لئے قیامت کے دن کچھ کام نہین آئیں گے اسی کیطرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ۔ وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان/ 23] اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ ( 2 ) اعمال تو اخروی ہو لیکن انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے نہ کیا گیا ہو جیسا کہ مروی ہے کہ قیامت کے دن آدمی لایا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا کہ تو کس قسم کے عمل کرتا رہا وہ جواب دے گا کہ میں قرآن پاک پڑھتا رہا تو اس سے کہا جائے گا کہ تونے قرآن اس لئے پڑھا تھا کہ تجھے قاری کہا جائے سو لوگ تجھے قاری کہتے رہے حکم ہوگا کہ اس دوزخ میں لے جاؤ ۔ ( 3 ) تیسری صورت یہ ہے کہ اعمال صالحہ کئے ہوں گے لیکن ان کے بالمقابل گناہ کا بارا ستقدر ہوگا کہ اعمال صالحہ بےاثر ہوکر رہ جائیں گے اور گناہوں کا پلہ بھاری رہے گا اسی کی طرف خفۃ المیزان سے اشارہ فرمایا گیا ہے ۔ اصل میں حبط کا لفظ حبط سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کہ جانور اتنا زیادہ کھا جائے کہ اس کا پیٹ اپھر جائے ۔ حدیث میں ہے (70) ان مما ینبت الربیع مایقتل حبطا او یلم بعض اوقات موسم ربیع کی گھاس یا پیٹ میں ابھار کی وجہ سے قتل کردتی ہے اور یا بیمار کردیتی ہے ۔ ایک شخص حارث کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ وہ نفخ بطن سے مرگیا تھا تو اس کا نام الحدث الحبط پڑگیا اور اس کی اولاد کو حبطات کہا جاتا ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے خسر ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، ( خ س ر) الخسروالخسران عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

کیونکہ آپ کی طرف بھی قرآن کریم میں اور جو پیغمبر آپ سے پہلے گزرے ہیں ان کی طرف بھی یہ وحی بھیجی جاچکی ہے کہ اے عام مخاطب اگر تو شرک کرے گا تو حالت شرک میں تیرا سب کیا برباد ہوجائے گ اور تو سزا کے اعتبار سے نقصان اٹھائے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٥ { وَلَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْکَ وَاِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ } ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ کی طرف تو وحی کی جا چکی ہے اور جو (رسول) آپ سے پہلے تھے ان کی طرف بھی (وحی کردی گئی تھی) “ آگے اس وحی کا ُ لب ّلباب بیان کیا جا رہا ہے۔ ملاحظہ کیجیے : { لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ } ” اگر آپ بھی (بالفرض) شرک کریں گے تو آپ کے سارے اعمال بھی ضائع ہوجائیں گے اور آپ بھی نہایت خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔ “ یہ سخت اسلوب دراصل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے نہیں بلکہ مشرکین کے لیے ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے دراصل انہیں سنانا مقصود ہے کہ قانونِ خداوندی اس سلسلے میں بہت واضح اور اٹل ہے۔ شرک جو کوئی بھی کرے گا اسے اس کی سزا ضرور ملے گی ‘ کسے باشد ! اللہ کا قانون کسی کے لیے تبدیل نہیں کیا جاتا : { وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا۔ ( الاحزاب) ” اور تم ہرگز نہیں پائو گے اللہ کے طریقے میں کوئی تبدیلی ! “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

74 That is, "No act which is performed along with shirk will be adjudged as a righteous act, and no one who, being a mushrik, performs many acts as good acts in his personal judgement, will deserve any reward for them, and his whole life work will be deemed to have gone waste."

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :74 یعنی شرک کے ساتھ کسی عمل کو عمل صالح قرار نہیں دیا جائے گا ، اور جو شخص بھی مشرک رہتے ہوئے اپنے نزدیک بہت سے کاموں کو نیک کام سمجھتے ہوئے کرے گا ان پر وہ کسی اجر کا مستحق نہ ہو گا اور اس کی پوری زندگی سراسر زیاں کاری بن کر رہ جائے گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:65) ولقد واؤ حالیہ ہے لقد ماضی کے ساتھ تحقیق کے معنی دیتا ہے۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ ۔۔ الذین من قبلک سے مراد وہ پیغمبر و رسول جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے مبعوث ہوئے تھے۔ والی الذین ای واوحی الی الدین۔ لئن اشرکت لیحبطن عملک ولتکونن من الخسرین ۔ میں لام اول (لئن کی لام) کو اللام الموطئۃ للقسم کہتے ہیں۔ (وہ لام جو قسم کے لئے راہ ہموار کرے) اس سے قبل قسم محذوف ہے ای واللّٰہ لئن ۔۔ الخ لام دوم۔ لام سوم لیحبطن اور لتکونن کی لام جواب قسم کی لام ہیں۔ اور جواب قسم لیحبطن ۔۔ الخ قائم مقام دو جواب کے ہے۔ جواب قسم و جواب شرط۔ (لئن میں ان شرطیہ ہے اور ان اشرکت جملہ شرطیہ ہے اور لیحبطن ۔۔ الخ جواب شرط ہے) ۔ اشرکت۔ ماضی واحد مذکر حاضر۔ اشراک مصدر (افعال) تو نے شرک کیا ان اشرکت اگر تو نے شرک کیا۔ یغبطن۔ مضارع بانون تاکید ثقیلہ۔ واحد مذکر غائب حبط مصدر ۔ (باب سمع) ضرور بےکار جائے گا۔ ضائع ہوجائے گا۔ حبط دم القتیل مقتول کا خون رائیگاں گیا الحبط کے معنی کسی کام کا ضائع اور اکارت ہوجانا کے ہیں۔ تکونن۔ مضارع بانون تاکید ثقیلہ واحد مذکر حاضر۔ تو ضرور ہوجائے گا۔ کون مصدر (باب نصر) الخسرین۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ خسر و خسران مصدر۔ نقصان اٹھانے والے۔ گھاٹا پانے والے۔ زیاں کار۔ اشرکت ، عملک ، تکونن میں ضمیر واحد مذکر حاضر کا مرجع کون ہے۔ اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں :۔ (1) اس کا مرجع عام مخاطب امت میں سے کا ہر ایک شخص ہے۔ یعنی آپ کی طرف اور دیگر پیغمبران کی طرف یہ وحی بھیج دی گئی ہے کہ تمہارا اپنی قوم کے ہر فرد سے یہ خطاب ہو۔ اے مخاطب اگر تو نے شرک کیا تو تیرے سب اعمال اکارت جائیں گے۔ اور تو ضرور گھاٹا پانے والوں سے ہوجائے گا۔ (2) اس کا مرجع لقد اوحی الیک اور من قبلک کے قرینہ سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں مگر اس پر اکثر علماء نے اعتراض کیا ہے کہ انبیاء کی شان میں شرک کا تصور بھی محال ہے ۔ لیکن اس بارے میں تفسیر حقانی کے مصنف کی تشریح قابل غور ہے۔ فرماتے ہیں :۔ ” ولقد اوحی الیک والی الذی من قبلک ۔۔ الخ کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیری طرف اور تجھ سے پہلے انبیاء کی طرف ہم یہ حکم بھیج چکے ہیں کہ اگر تو اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بالفرض یا تجھ سے پہلے انبیاء (فرضا) شرک کریں۔ تو ان کے نیک کام اکارت ہوجائیں ۔ اور بڑی بربادی میں پڑیں۔ یہ کلام شہنشاہی اور جلالی رعب کے قاعدہ پر ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اگلے انبیاء سے شرک سرزد ہونا محال تھا کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) معصوم ہیں مگر مخاطب کے سنانے کو ایسا پر زور حکم سنا دیا کہ یہ نکوہیدہ کا مکسی کو بھی معاف نہیں “۔ مولانا تھانوی (رح) آیت ولا تکونن من المشرکین (6:14) کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :۔ تکالیف شرعیہ کسی سے بھی ساقط نہیں ہوتیں یہاں تک کہ انبیاء سے بھی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 اس سے مقصود مسلمانوں کو متنبہ کرنا ہے کہ شرک اتنا بڑا گناہ ہے کہ اگر بغرض محال نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی جو اللہ تعالیٰ کے محبوب ترین بندے ہیں اس کا ارتکاب کر بیٹھیں تو ان کا سب کیا کرایا اکارت ہوجائے۔ مرتد ہونے سے تمام نیک اعمال باطل اور ضائع ہوجاتے ہیں بشرطیکہ اس کی موت بھی کفر پر ہو۔ اگر تائب ہوجائے تو وہ عمل دوبارہ بحال کردیئے جاتے ہیں۔ ( دیکھئے سورة بقرہ آیت 217)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 65 شرک سے ڈراوے کا خاتمہ توحید پر کاربند ہونے کے حکم پر کیا جاتا ہے۔ یعنی صرف اللہ کی بندگی کرو اور ایمان اور ہدایت پر اللہ کا شکر ادا کرو اور اللہ کی ان نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرو جو اللہ کے بندوں کو ڈھانپ لیتی ہیں اور جن کو وہ گن بھی نہیں سکتے جبکہ وہ ان میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

62:۔ ” ولقد اوحی الخ “ یہ چھٹی دلیل وحی ہے۔ اور اس کے ضمن میں ” والی الذین من قبلک “ سے دلیل نقلی کی طرف اشارہ ہے۔ فرمایا : میرے پیغمبر، تیری طرف بھی وحی کی جا رہی ہے اور تم سے پہلے انبیاء (علیہم السلام) کی طرف بھی وحی کی جا چکی ہے کہ اگر بفرض محال تم نے شرک کا ارتکاب کرلیا تو تمہارے تمام اعمال برباد ہوجائیں گے اور تم خسارہ پانے والوں یعنی اللہ کی رحمت و مغفرت سے محرومین شامل ہوجاؤ گے۔ انبیاء (علیہم السلام) سے شرک کا صدور محال ہے۔ لیکن یہ کلام فرض محال کے طریق پر ہے۔ تاکہ شرک قباحت علی الوجہ الاتم ظاہر ہوجائے اور مشرکین اس امید میں نہ رہیں کہ انہیں معافی مل جائے گی۔ وایاما کان فھو کلام علی سبیل الفرض لتھییج المخاطب المعصوم واقناط الکفرۃ والایذان بغایۃ شناعۃ الاشراک و قبحہ و کونہ بحیث ینھی عنہ من لا یکاد یبارشرہ فکیف بمن عداہ (روح ج 24) ۔ جب شرک پر اتنی سخت وعید ہے تو یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں کہ میں تمہاری بات مان لوں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(65) اور بلا شبہ اے پیغمبر آپ کی طرف اور ان سب پیغمبروں کی طرف جو آپ سے پہلے ہوچکے ہیں یہ وحی کی جاچکی ہے اور یہ حکم بھیجا جاچکا ہے کہ اگر لوفرضنا تم نے بھی شرک کیا تو تمہارے اعمال اکارت اور نیست ونابود ہوجائیں گے اور تم یقینا خسارہ اور گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہوجائو گے۔