Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 113

سورة النساء

وَ لَوۡ لَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکَ وَ رَحۡمَتُہٗ لَہَمَّتۡ طَّآئِفَۃٌ مِّنۡہُمۡ اَنۡ یُّضِلُّوۡکَ ؕ وَ مَا یُضِلُّوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَہُمۡ وَ مَا یَضُرُّوۡنَکَ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ وَ اَنۡزَلَ اللّٰہُ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ عَلَّمَکَ مَا لَمۡ تَکُنۡ تَعۡلَمُ ؕ وَ کَانَ فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکَ عَظِیۡمًا ﴿۱۱۳﴾ الثلٰثۃ

And if it was not for the favor of Allah upon you, [O Muhammad], and His mercy, a group of them would have determined to mislead you. But they do not mislead except themselves, and they will not harm you at all. And Allah has revealed to you the Book and wisdom and has taught you that which you did not know. And ever has the favor of Allah upon you been great.

اگر اللہ تعالٰی کا فضل و رحم تجھ پر نہ ہوتا تو ان کی ایک جماعت نے تو تجھے بہکانے کا قصد کر ہی لیا تھا مگر دراصل یہ اپنے آپ کو ہی گمراہ کرتے ہیں یہ تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اللہ تعالٰی نے تجھ پر کتاب و حکمت اتاری ہے اور تجھے وہ سکھایا ہے جسے تو نہیں جانتا تھااور اللہ تعالٰی کا تجھ پر بڑا بھاری فضل ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُهُ لَهَمَّت طَّأيِفَةٌ مُّنْهُمْ أَن يُضِلُّوكَ وَمَا يُضِلُّونَ إِلاُّ أَنفُسَهُمْ وَمَا يَضُرُّونَكَ مِن شَيْءٍ وَأَنزَلَ اللّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ ... Had not the grace of Allah and His mercy been upon you, a party of them would certainly have made a decision to mislead you, but they mislead none except their own selves, and no harm can they do to you in the least. Allah has sent down to you the Book, and the Hikmah, .... وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ ... and taught you that which you knew not, before this revelation was sent down to you. Similarly, Allah said, وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَأ إِلَيْكَ رُوحاً مِّنْ أَمْرِنَا مَا كُنتَ تَدْرِى مَا الْكِتَـبُ And thus We have sent to you (O Muhammad) a Ruh (a revelation, and a mercy) of Our command. You knew not what is the Book) until the end of the Surah. (42:52-53) Allah said, وَمَا كُنتَ تَرْجُو أَن يُلْقَى إِلَيْكَ الْكِتَـبُ إِلاَّ رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ And you were not expecting that the Book (this Qur'an) would be sent down to you, but it is a mercy from your Lord. (28:86) So Allah said; ... وَكَانَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا And ever great is the grace of Allah unto you (O Muhammad).

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

113۔ 1 یہ اللہ تعالیٰ کی اس خاص حفاظت و نگرانی کا ذکر ہے جس کا اہتمام انبیاء (علیہم السلام) کے لئے فرمایا ہے جو انبیاء پر اللہ کے فضل خاص اور اس کی رحمت خاصہ کا مظہر ہے طائفہ (جماعت) سے مراد وہ لوگ ہیں جو بنو ابیرق کی حمایت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ان کی صفائی پیش کر رہے تھے جس سے یہ اندیشہ پیدا ہو چلا تھا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس شخص کو چوری کے الزام سے بری کردیں گے، جو فی الواقع چور تھا۔ 113۔ 2 یہ دوسرے فضل واحسان کا تذکرہ ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کتاب وحکمت (سنت) نازل فرما کر اور ضروری باتوں کا حکم دے کر فرمایا گیا جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا (وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ۭ مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِيْمَانُ ) 042:052 اور اسی طرح بھیجا ہم نے تیری طرف (قرآن لے کر) ایک فرشتہ اپنے حکم سے تو نہیں جانتا تھا کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے ؟ " (وَمَا كُنْتَ تَرْجُوْٓا اَنْ يُّلْقٰٓى اِلَيْكَ الْكِتٰبُ اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ ) 028:086" اور تجھے یہ توقع نہیں تھی کہ تجھ پر کتاب اتاری جائے گی، مکر تیرے رب کی رحمت سے (یہ کتاب اتاری گئی) ان تمام آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فضل واحسان فرمایا اور کتاب وحکمت بھی عطا فرمائی ان کے علاوہ دیگر بہت سی باتوں کا آپ کو علم دیا گیا جن سے آپ بیخبر تھے یہ بھی گویا آپ کے عالم الغیب ہونے کی نفی ہے کیونکہ جو خود عالم الغیب ہو اسے تو کسی اور سے علم حاصل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی اور جسے دوسرے سے معلومات حاصل ہوں وحی کے ذریعے سے یا کسی اور طریقے سے وہ عالم الغیب نہیں ہوتا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥١] آپ پر اللہ نے بہت بڑا فضل کیا تھا :۔ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت یہ تھی کہ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اصل صورت حال سے بذریعہ وحی مطلع فرما دیا۔ ورنہ اس کے نتائج صرف یہی نہ تھے کہ مجرم بچ جاتا اور ایک بےقصور مجرم قرار پاتا بلکہ اس کے نتائج بڑے دوررس تھے جو عوام الناس کی نظروں میں مسلمانوں کی ساکھ اور ان کے کردار کو مجروح بنا سکتے تھے، ایسے لوگ جو آپ کو بہکا کر اپنے حق میں فیصلہ کرانا چاہتے تھے اپنی ہی عاقبت خراب کر رہے تھے۔ اس سے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اور اللہ کے ہاں مجرم وہ تھے نہ کہ آپ خ مقدمہ میں چالاکی سے دوسرے کا مال ہتھیانا :۔ جو شخص کسی حاکم کو دھوکہ دے کر اپنے حق میں فیصلہ کرا لیتا ہے۔ وہ دراصل خود اپنے آپ کو اس غلط فہمی میں مبتلا کرتا ہے کہ ان تدبیروں سے وہ فی الواقع اس چیز کا حقدار بن گیا۔ حالانکہ اللہ کے نزدیک حق جس کا ہوتا ہے اسی کا رہتا ہے اور فریب خوردہ حاکم کے فیصلہ سے حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ چناچہ آپ نے فرمایا کہ && میں بھی تمہاری طرح ایک انسان ہی ہوں۔ تم لوگ میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو اور ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی زیادہ چرب زبان ہو اور میں اس کے دلائل سن کر اس کے حق میں فیصلہ دے دوں تو اس طرح اگر میں اس کے بھائی کے حق سے کوئی چیز اس چرب زبان کے حق میں فیصلہ کر کے دے دوں تو یاد رکھو کہ میں اسے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں۔ && (بخاری، کتاب الاحکام، باب موعظۃ الامام للخصوم) ربط مضمون کے لحاظ سے اس جملہ کا وہی مطلب ہے جو اوپر مذکور ہوا تاہم اس کا حکم عام ہے اور اس کا مطلب ایسے فضائل ہیں جو دوسرے کسی پیغمبر کو بھی نہیں ملے اور وہ فضائل آپ نے خود ان الفاظ میں بتائے ہیں : جابر بن عبداللہ (انصاری) (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ مجھے پانچ چیزیں ایسی ملی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی پیغمبر کو نہیں ملیں۔ ایک یہ کہ ایک ماہ کی مسافت پر دشمن پر میرا رعب طاری رہتا ہے دوسرا یہ کہ ساری زمین میری لیے مسجد اور پاک بنائی گئی ہے۔ لہذا میری امت کا ہر شخص جہاں نماز کا وقت آئے نماز پڑھ لے تیسرے یہ کہ اموال غنائم میرے لیے حلال ہوئے جو مجھ سے پہلے کسی کے لیے جائز نہیں تھے۔ چوتھے یہ کہ شفاعت کبریٰ (قیامت کے دن) ملی اور پانچویں یہ کہ پہلے ہر نبی کس خاص قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا جبکہ میں تمام لوگوں کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ (بخاری۔ کتاب الصلٰوۃ۔ باب قول النبی جعلت لی الارض مسجدا و طھورا اور سیدنا ابوہریرہ (رض) کی حدیث میں مندرجہ ذیل چھ باتیں مذکور ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے چھ باتوں میں دوسرے پیغمبروں پر فضیلت دی گئی ہے مجھے جو امع الکلم عطا کئے گئے۔ یعنی ایسا کلام جس میں الفاظ کم اور معانی بہت ہوں دوسرے دشمن پر رعب سے میری مدد کی گئی تیسرے مجھ پر غنیمتیں حلال کی گئیں۔ چوتھے میرے لیے ساری زمین پاک کرنے والی اور نماز کی جگہ بنائی گئی۔ پانچویں میں تمام لوگوں (جنوں اور انسانوں) کی طرف بھیجا گیا ہوں اور چھٹے مجھ پر نبوت ختم کی گئی۔ (مسلم کتاب المساجد۔ باب المساجد و مواضع الصلٰوۃ)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ ۔ : اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت آپ پر یہ تھی کہ آپ کو وحی کے ذریعے سے اصل واقع کی حقیقت سے آگاہ کردیا۔ ورنہ وہ طائفہ جو بنو ابیرق کا حامی تھا، آپ کو قائل کر کے انھیں بری کرانے ہی والا تھا، اس کا نتیجہ صرف یہی نہ تھا کہ ایک مجرم بچ جاتا اور ایک بےگناہ مجرم بن جاتا، بلکہ اس کے نتائج بہت دور رس تھے، جس سے مسلمانوں کی ساکھ اور کردار مجروح ہوجاتا۔ فرمایا ایسے لوگ درحقیقت اپنی عاقبت برباد کر کے اپنا ہی نقصان کر رہے تھے، آپ کا محافظ خود اللہ تعالیٰ تھا، آپ کو وہ نہ دھوکا دے سکتے تھے نہ آپ کا کچھ نقصان کرسکتے تھے۔ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ ۭ : یعنی آپ کو وحی کے ذریعے سے وہ کچھ سکھایا جو آپ جانتے نہ تھے، بلکہ جس کی آپ امید بھی نہ رکھتے تھے۔ دیکھیے سورة عنکبوت (٤٨، ٤٩) ، سورة قصص (٨٦) ، سورة شوریٰ (٥٢) اور سورة ہود (٤٩) یہ ہے اللہ کا آپ پر فضل عظیم۔ بعض لوگ اس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عالم الغیب ہونے کی دلیل پکڑتے ہیں حالانکہ یہی الفاظ اللہ نے ہر انسان کے متعلق ارشاد فرمائے ہیں (عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ) [ العلق : ٥ ] ” پھر ہر انسان کا عالم الغیب ہونا بھی ثابت ہوجائے گا۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Addressing the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in the ninth verse (113), it has been said: It was Allah&s grace and mercy that He revealed to you the reality behind the event of theft, otherwise these people would have misled you into error. But, since you are not alone, Allah&s grace and mercy is with you, these people can never mislead you into error. On the contrary, they themselves fall into error. Be sure that these people cannot harm you in any way whatsoever because Allah has revealed the Book and wisdom to you and taught you what you did not know. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and Ijtihad From verse 105 which begins with the words: إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ (Surely we have revealed to you the book with the truth) helps estab¬lish five rulings: 1. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had the right to arrive at his judgement in situations not covered by an explicit authority given in the Holy Qur&an. In situations of major importance, there were many decisions he took by his Ijtihad. 2. The second rule that emerges from here is inseparably linked with the authenticity of Ijtihad. It means that, in the sight of Allah, an Ijtihad can be considered trustworthy only when it is based on and is deduced from Qur&anic principles and the clear authority of its text. Simple opinions or views are not trustworthy, nor can they be termed as Ijtihad in the sense recognized in Shari’ ah. 3. The third rule of guidance we get to know is that the Ijtihad done by the Holy Prophet al was not like that done by Mujtahid Imams where the probability of an error of judgement always remains. As for the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، when he took a decision on the basis of his Ijtihad any possible error in the judgment would always stand corrected by Allah Almighty. Therefore, when he took a decision based on his Ijtihad and nothing against it came from Almighty Allah, then, this was an indicator that the decision taken finds favour with Allah and is correct in His sight. 4. The fourth rule of guidance we come to know is: at the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) understood from the Qur&an was nothing but what Almighty Allah had Himself made him understand. A possibility of misunderstanding just did not exist there. This is contrary to the case of other ` Ulama and Mujtahidin whose understanding of the Qur&-an cannot be attributed to Almighty Allah in the sense that it was what Allah had told them. You will realize the difference when you carefully look at بِماٰ اَراکَ اللہُ (with the insight Allah has given to you) which refers to the noble Prophet صلی اللہ علیہ وسلم in this very verse. This is why - when someone said to Sayyidna ` Umar (رض) عنہ (Decide as Allah shows you to) - he scolded him by saying: This is special to the Prophet of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) 5. The fifth ruling we deduce from here is that pursuing or advo¬cating a false case or a false claim or to second or support them is totally Haram (forbidden). The Reality of Repentance Verse no which begins with the words: وَمَن يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ tells us that all sins, whether they affect others or affect one&s own self, that is, whether they violate the rights of human beings (Huququl-‘Ibad) or rights of Allah (Huququllah), can be forgiven by one&s repenting and praying for forgiveness. But; it is necessary to know the reality of showing repentance and seeking forgiveness. Mere verbal declarations of &I seek Allah&s forgiveness& (Astaghfirullah) and &I turn to Him in repentance& (Wa atubu ilaihi) are not acts of genuine repentance as such. Therefore, according to a consensus of ` Ulama, the person who is involved in some sin, is not ashamed of it and does not leave it or, at least, does not resolve to leave it in the future, then, his verbal declar¬ation of Astaghfirullah is an open mockery of repentance. In short, for repentance (Taubah) to be genuine, three things are necessary: 1. Being ashamed of past sins. 2. Immediately leaving the sin one is in. 3. Resolving to stay away from sin in future. However, forgiveness for sins related to the rights of the servants of Allah has to be sought from the wronged party itself; or, one should, to begin with, pay what was due or fulfill what was denied. These are binding conditions of genuine repentance. Attributing one&s sins to others brings added punishment From verse 112 – اَلخ وَمَن يَكْسِبْ خَطِيئَةً أَوْ إِثْمًا ثُمَّ يَرْ‌مِ بِهِ we know that a person who himself commits a sin, then goes on to ascribe it to an innocent man, does something terrible - he doubles and hardens his sin. He has made himself deserving of severe punishment, the punishment of his own sin, then the added punishment for lying and accusing falsely. The Reality of Qur&an and Sunnah In verse 113: وَأَنزَلَ اللَّـهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ (And Allah has revealed to you the Book and the wisdom and has taught you what you did not know), by pairing al-Kitab (the Book) and al-Hikmah (the Wisdom) it has been pointed out that . Hikmah which is the name of the Sunnah and teachings of the noble Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was also sent down by none but Allah Almighty. The difference is that its words are not from Allah and that is why they are not part of the Qur&an. But, its meanings and that of the Qur&an are certainly from Allah, therefore, it is obligatory to act in accordance with both. This explains what some jurists say about Wahy (Revelation) being of two kinds: Matluww - that which is recited, and Ghayr-Matluww - that which is not recited. Wahy Matluww or the revelation which is recited is the name of the Qur&an - the words and meanings of which are both from Allah. And Ghayr-Matluww or that which is not recited is the name of the Hadith of the Rasul the words of which are from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and the meanings of which are from Allah. Another problem which gets resolved from the words: وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ (and taught you what you did not know) (113) is that the noble Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) did not have the all-comprehending knowledge of the entire universe equal to Almighty Allah, as some ignorant people do insist. The truth is that the measure of his knowledge was corre¬sponding to what Allah bestowed upon him. However, there is no doubt that the knowledge bestowed upon the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) exceeds the combined knowledge of all created beings.

نویں آیت (یعنی نمبر ٣١١) میں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے فرمایا گیا کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و رحمت آپ کے ساتھ نہ ہوئی جس نے بذریعہ وحی آپ کو واقعہ کی حقیقت بتلا دی تو یہ لوگ آپ کو غلطی میں مبتلا کردیتے، مگر چونکہ اللہ تعالیٰ کا فضل و رحمت آپ کے ساتھ ہے، اس لئے وہ ہرگز آپ کو غلطی میں نہیں ڈال سکتے، بلکہ خود ہی گمراہی میں مبتلا ہوتے ہیں اور آپ کو یہ ذرہ برابر بھی نقصان نہیں پہنچاسکتے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب اور دانشمندی کی باتیں نازل فرمائی ہیں جن کو آپ نہیں جانتے تھے۔ قرآن و سنت کی حقیقت :۔ آیت نمبر ٣١١ یعنی وانزل اللہ علیک الکتب والحکمة وعلمک مالم تکن تعلم الخ میں کتاب کے ساتھ حکمت کو بھی داخل فرما کر اس طرف اشارہ کردیا گیا ہے کہ حکمت جو نام ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت اور تعلیمات کا یہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی نازل کی ہوئی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ اس کے الفاظ اللہ کی طرف سے نہیں ہیں، اسی لئے داخل قرآن نہیں اور معانی اس کے اور قرآن کے دونوں اللہ کی جانب سے ہیں اس لئے دونوں پر عمل کرنا واجب ہے۔ اس سے اس کلام کی حقیقت معلوم ہوگئی جو بعض فقہاء نے لکھا ہے کہ وحی کی دو قسمیں ہیں متلو (جو تلاوت کی جاتی ہے) اور غیر متلو (جو تلاوت نہیں کی جاتی) وحی متلو قرآن کا نام ہے جس کے معانی اور الفاظ دونوں اللہ کی جانب سے ہیں اور غیر متلو حدیث رسول کا نام ہے جن کے الفاظ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہیں اور معانی اللہ کی طرف سے ہیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا علم ساری مخلوقات سے زائد ہے :۔ دوسرا مسئلہ علمک مالم تکن تعلم الخ سے یہ ثابت ہوا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ کے برابر تمام کائنات کا علم محیظ نہ تھا، جیسے بعض جاہل کہتے ہیں بلکہ جتنا علم حق تعالیٰ عطا فرماتے وہ مل جاتا تھا ہاں اس میں کلام نہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو علم عطا ہوا وہ ساری مخلوقات کے علم سے زائد ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَوْلَا فَضْلُ اللہِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُہٗ لَہَمَّتْ طَّاۗىِٕفَۃٌ مِّنْھُمْ اَنْ يُّضِلُّوْكَ۝ ٠ۭ وَمَا يُضِلُّوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَضُرُّوْنَكَ مِنْ شَيْءٍ۝ ٠ۭ وَاَنْزَلَ اللہُ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ۝ ٠ۭ وَكَانَ فَضْلُ اللہِ عَلَيْكَ عَظِيْمًا۝ ١١٣ «لَوْلَا» يجيء علی وجهين : أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] . والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن . ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) همم الهَمُّ الحَزَنُ الذي يذيب الإنسان . يقال : هَمَمْتُ الشّحم فَانْهَمَّ ، والهَمُّ : ما هممت به في نفسک، وهو الأصل، وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِها[يوسف/ 24] ( ھ م م ) الھم کے معنی پگھلا دینے والے غم کے ہیں اور یہ ھممت الشحم فا نھم کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں میں نے چربی کو پگھلا یا چناچہ وہ پگھل گئی اصل میں ھم کے معنی اس ارادہ کے ہیں جو ابھی دل میں ہو قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِها[يوسف/ 24] اور اس عورت نے ان کا قصد کیا وہ وہ اس کا قصد کرلیتے۔ طَّائِفَةُ وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی: فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك . الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو ) ( ضل)إِضْلَالُ والإِضْلَالُ ضربان : أحدهما : أن يكون سببه الضَّلَالُ ، وذلک علی وجهين : إمّا بأن يَضِلَّ عنک الشیءُ کقولک : أَضْلَلْتُ البعیرَ ، أي : ضَلَّ عنّي، وإمّا أن تحکم بِضَلَالِهِ ، والضَّلَالُ في هذين سبب الإِضْلَالِ. والضّرب الثاني : أن يكون الإِضْلَالُ سببا لِلضَّلَالِ ، وهو أن يزيّن للإنسان الباطل ليضلّ کقوله : لَهَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَما يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 113] ، أي يتحرّون أفعالا يقصدون بها أن تَضِلَّ ، فلا يحصل من فعلهم ذلك إلّا ما فيه ضَلَالُ أنفسِهِم، وقال عن الشیطان : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء/ 119] ، وقال في الشّيطان : وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس/ 62] ، وَيُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 60] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ ص/ 26] ، وإِضْلَالُ اللهِ تعالیٰ للإنسان علی أحد وجهين : أحدهما أن يكون سببُهُ الضَّلَالَ ، وهو أن يَضِلَّ الإنسانُ فيحكم اللہ عليه بذلک في الدّنيا، ويعدل به عن طریق الجنّة إلى النار في الآخرة، وذلک إِضْلَالٌ هو حقٌّ وعدلٌ ، فالحکم علی الضَّالِّ بضَلَالِهِ والعدول به عن طریق الجنّة إلى النار عدل وحقّ. والثاني من إِضْلَالِ اللهِ : هو أنّ اللہ تعالیٰ وضع جبلّة الإنسان علی هيئة إذا راعی طریقا، محمودا کان أو مذموما، ألفه واستطابه ولزمه، وتعذّر صرفه وانصرافه عنه، ويصير ذلک کالطّبع الذي يأبى علی الناقل، ولذلک قيل : العادة طبع ثان «2» . وهذه القوّة في الإنسان فعل إلهيّ ، وإذا کان کذلک۔ وقد ذکر في غير هذا الموضع أنّ كلّ شيء يكون سببا في وقوع فعل۔ صحّ نسبة ذلک الفعل إليه، فصحّ أن ينسب ضلال العبد إلى اللہ من هذا الوجه، فيقال : أَضَلَّهُ اللهُ لا علی الوجه الذي يتصوّره الجهلة، ولما قلناه جعل الإِضْلَالَ المنسوب إلى نفسه للکافر والفاسق دون المؤمن، بل نفی عن نفسه إِضْلَالَ المؤمنِ فقال : وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَداهُمْ [ التوبة/ 115] ، فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ [ محمد/ 4- 5] ، وقال في الکافروالفاسق : فَتَعْساً لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمالَهُمْ [ محمد/ 8] ، وما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفاسِقِينَ [ البقرة/ 26] ، كَذلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكافِرِينَ [ غافر/ 74] ، وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ [إبراهيم/ 27] ، وعلی هذا النّحو تقلیب الأفئدة في قوله : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ [ الأنعام/ 110] ، والختم علی القلب في قوله : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وزیادة المرض في قوله : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة/ 10] . الاضلال ( یعنی دوسرے کو گمراہ کرنے ) کی دوصورتیں ہوسکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کا سبب خود اپنی ضلالت ہو یہ دو قسم پر ہے ۔ (1) ایک یہ کہ کوئی چیز ضائع ہوجائے مثلا کہاجاتا ہے اضللت البعیر ۔ میرا اونٹ کھو گیا ۔ (2) دوم کہ دوسرے پر ضلالت کا حکم لگانا ان دونوں صورتوں میں اضلال کا سبب ضلالۃ ہی ہوتی ہے ۔ دوسری صورت اضلال کا سبب ضلالۃ ہی ہوتی ہے ۔ دوسری صورت اضلال کی پہلی کے برعکس ہے یعنی اضلال بذاتہ ضلالۃ کا سبب بنے اسی طرح پر کہ کسی انسان کو گمراہ کرنے کے لئے باطل اس کے سامنے پر فریب اور جاذب انداز میں پیش کیا جائے جیسے فرمایا : لَهَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَما يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 113] ، ان میں سے ایک جماعت تم کو بہکانے کا قصد کرچکی تھی اور یہ اپنے سوا کسی کو بہکا نہیں سکتے۔ یعنی وہ اپنے اعمال سے تجھے گمراہ کرنے کی کوشش میں ہیں مگر وہ اپنے اس کردار سے خود ہی گمراہ ہو رہے ہیں ۔ اور شیطان کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء/ 119] اور ان کو گمراہ کرتا اور امیدیں دلاتا رہوں گا ۔ اور شیطان کے بارے میں فرمایا : ۔ وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس/ 62] اور اس نے تم میں سے بہت سی خلقت کو گمراہ کردیا تھا ۔ وَيُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 60] اور شیطان تو چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر رستے سے دور ڈال دے ۔ وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ ص/ 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمہیں خدا کے رستے سے بھٹکادے گی ۔ اللہ تعالیٰ کے انسان کو گمراہ کرنے کی دو صورتیں ہی ہوسکتی ہیں ( 1 ) ایک یہ کہ اس کا سبب انسان کی خود اپنی ضلالت ہو اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف اضلال کی نسبت کے یہ معنی ہوں گے کہ جب انسان از خود گمرہ ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں اس پر گمراہی کا حکم ثبت ہوجاتا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آخرت کے دن اسے جنت کے راستہ سے ہٹا کر دوزخ کے راستہ پر ڈال دیا جائے گا ۔ ( 2 ) اور اللہ تعالٰ کی طرف اضلال کی نسببت کے دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ باری تعالیٰ نے انسان کی جبلت ہی کچھ اس قسم کی بنائی ہے کہ جب انسان کسی اچھے یا برے راستہ کو اختیار کرلیتا ہے تو اس سے مانوس ہوجاتا ہے اور اسے اچھا سمجھنے لگتا ہے اور آخر کا اس پر اتنی مضبوطی سے جم جاتا ہے کہ اس راہ سے ہٹا نایا اس کا خود اسے چھوڑ دینا دشوار ہوجاتا ہے اور وہ اعمال اس کی طبیعت ثانیہ بن جاتے ہیں اسی اعتبار سے کہا گیا ہے کہ عادت طبعہ ثانیہ ہے ۔ پھر جب انسان کی اس قسم کی فطرت اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہے اور دوسرے مقام پر ہم بیان کرچکے ہیں کہ فعل کی نسبت اس کے سبب کی طرف بھی ہوسکتی ہے لہذا اضلال کی نسبت اللہ تعالیٰ کیطرف بھی ہوسکتی ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گمراہکر دیا ور نہ باری تعالیٰ کے گمراہ کر نیکے وہ معنی نہیں ہیں جو عوام جہلاء سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اللہ تعالیٰ کی طرف گمراہ کرنے کینسبت اسی جگہ کی ہے جہاں کافر اور فاسق لوگ مراد ہیں نہ کہ مومن بلکہ حق تعالیٰ نے مومنین کو گمراہ کرنے کی اپنی ذات سے نفی فرمائی ہے چناچہ ارشاد ہے ۔ وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَداهُمْ [ التوبة/ 115] اور خدا ایسا نہیں ہے کہ کسی قومکو ہدایت دینے کے بعد گمراہ کردے ۔ فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ [ محمد/ 4- 5] ان کے عملوں کر ہر گز ضائع نہ کریگا بلکہ ان کو سیدھے رستے پر چلائے گا ۔ اور کافر اور فاسق لوگوں کے متعلق فرمایا : فَتَعْساً لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمالَهُمْ [ محمد/ 8] ان کے لئے ہلاکت ہے اور وہ ان کے اعمال کو برباد کردیگا : وما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفاسِقِينَ [ البقرة/ 26] اور گمراہ بھی کرتا ہے تو نافرمانوں ہی کو ۔ كَذلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكافِرِينَ [ غافر/ 74] اسی طرح خدا کافررں کو گمراہ کرتا ہے ۔ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ [إبراهيم/ 27] اور خدا بےانصافوں کو گمراہ کردیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ [ الأنعام/ 110] اور ہم ان کے دلوں کو الٹ دیں گے ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے انکے دلوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة/ 10] ان کے دلوں میں ( کفر کا ) مرض تھا خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔ میں دلوں کے پھیر دینے اور ان پر مہر لگا دینے اور ان کی مرض میں اضافہ کردینے سے بھی یہی معنی مراد ہیں ۔ ضر الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] ، فهو محتمل لثلاثتها، ( ض ر ر) الضر کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو حکمت ( نبوۃ) قال اللہ تعالی: وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم/ 12] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «الصمت حکم وقلیل فاعله» أي : حكمة، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران/ 164] ، وقال تعالی: وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] ، قيل : تفسیر القرآن، ويعني ما نبّه عليه القرآن من ذلک : إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة/ 1] ، أي : ما يريده يجعله حكمة، وذلک حثّ للعباد علی الرضی بما يقضيه . قال ابن عباس رضي اللہ عنه في قوله : مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] ، هي علم القرآن، ناسخه، مُحْكَمه ومتشابهه . قرآن میں ہے : ۔ وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم/ 12] اور ہم نے ان کو لڑکپن میں ہی دانائی عطا فرمائی تھی ۔ اور آنحضرت نے فرمایا کہ خاموشی بھی حکمت ہے ۔ لیکن بہت تھوڑے لوگ اسے اختیار کر ٹے ہیں ۔ یہاں ( آیت اور حدیث میں ) حکم کے معنی حکمت کہ میں قرآن میں ہے : ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران/ 164] اور ان ( لوگوں ) کو کتاب اور دانائی سکھایا کرے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] اور تمہارے گھروں میں جو خدا کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو ۔ میں حکمت سے مراد تفسیر قرآن ہے یعنی جس پر کہ قرآن نے آیت إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة/ 1] میں تنبیہ کی ہے کہ اللہ جس چیز کو چاہتا ہے حکمت بنادیتا ہے تو اس میں ترغیب ہے کہ لوگوں کو اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیئے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ۔ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] میں حکمت سے ناسخ منسوخ محکم اور متشابہات کا علم مراد ہے ۔ علم ( تعلیم) اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو عظیم وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] ، ( ع ظ م ) العظم عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنوی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٣) اور اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نبوت اور جبریل امین (علیہ السلام) کو آپ کے پاس بھیج کر اللہ کی طرف سے فضل اور رحمت نہ ہوتی تو طعمہ کی قوم نے تو آپ کو صحیح حکم سے غلطی میں ڈالنے کا ارادہ کرلیا تھا۔ لیکن اس کا نقصان اسی پر ہے جو جھوٹی گواہی دے اور ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) قرآن کریم نازل کیا، جس میں حلال و حرام اور تمام فیصلوں کو بیان کردیا ہے اور آپ کو بذریعہ قرآن حکیم ان احکام وحدود سے آگاہ کیا جن سے آپ نزول قرآن سے پہلے آگاہ نہ تھے اور نبوت کی وجہ سے آپ پر بڑا فضل ربی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٣ (وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ وَرَحْمَتُہٗ لَہَمَّتْ طَّآءِفَۃٌ مِّنْہُمْ اَنْ یُّضِلُّوْکَ ط) ۔ وہ لوگ تو اس پر کمر بستہ تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غلط فہمی میں مبتلا کر کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے غلط فیصلہ کروائیں ‘ عدالت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ظلم پر مبنی فیصلہ صادر ہوجائے ‘ گنا ہگار چھوٹ جائے اور جو اصل مجرم نہیں تھا ‘ بالکل بےگناہ تھا ‘ اس کو پکڑلیا جائے۔ (وَمَا یُضِلُّوْنَ الاّآ اَنْفُسَہُمْ وَمَا یَضُرُّوْنَکَ مِنْ شَیْءٍ ط) ۔ ہم ایسے مواقع پر بر وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مطلع کرتے رہیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

142. Even if some people succeeded in their design to obtain from the Prophet (peace be on him) a wrong judgement in their favour by presenting a false account of events, the real loss would have been theirs rather than the Prophet's (peace be on him). For the real criminals in the sight of God are the perpetrators of that fraud and not the Prophet (peace be on him) who might in good faith have delivered a verdict that actually did not conform to the facts. Whoever obtains a judgement in his favour by tricking the courts deludes himself into believing that by such tricks he can bring right to his side; right remains with its true claimant regardless of judgements obtained by fraud and deception. (See also Towards Understanding the Qur'an, vol. I, Surah 2, n. 197.)

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :142 یعنی اگر وہ غلط روداد پیش کر کے تمہیں غلط فہمی میں مبتلا کر نے میں کامیاب ہو بھی جاتے اور اپنے حق میں انصاف کے خلاف فیصلہ حاصل کر لیتے تو نقصان انہی کا تھا ، تمہارا کچھ بھی نہ بگڑتا ۔ کیونکہ خدا کے نزدیک مجرم وہ ہوتے نہ کہ تم ۔ جو شخص حاکم کو دھوکہ دے کر اپنے حق میں فیصلہ کرتا ہے وہ دراصل خود اپنے آپ کو اس غلط فہمی میں مبتلا کرتا ہے کہ ان تدبیروں سے حق اس کے ساتھ ہو گیا ، حالانکہ فی الواقع اللہ کے نزدیک حق جس کا ہے اسی کا رہتا ہے اور فریب خوردہ حاکم کے فیصلہ سے حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ ( ملاحظہ ہو سورہ بقرہ حاشیہ نمبر ۱۹۷ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

67: اس سے بشر اور اس کے حمایتی مراد ہیں جو یہ چاہتے تھے کہ یہودی کو بے گناہ سزا دلوا دیں

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 مگر اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت سے ان کے بہکانے کا کوئی اثر نہ ہوا اللہ کی رحمت یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو واقعہ کی حقیقت سے مطلع فرمادیا۔11 کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کا خاص انتظام کیا ہے۔ 1 یعنی وحی کے ذریعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہ علم دیا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پہلے حاصل نہیں تھا۔ (دیکھئے سورت اشوریٰ آیت 52) اور یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑافضل ہے۔ ( قرطبی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 17 ۔ آیات 113 تا 115 ۔ اسرار و معارف : ولولا۔۔۔۔۔ وساءت مصیرا۔ اور اے میرے حبیب ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) اگر آپ پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی جو ہر حال میں اور ہر آن آپ کو نصیب ہے تو ان منافقین میں تو ایک ٹولہ یہ سوچ بھی رکھتا ہے کہ معاذ اللہ آپ کو گمراہ کردے اور اللہ کا دین چھڑوا کر رسومات اور بدعات میں مبتلا کردے۔ لیکن آپ تو مجسمہ رحمت ہیں آپ تو نہ صرف اللہ کا فضل و احسان پانے والے ہیں بلکہ بانٹنے والے ہیں اس لیے آپ سے ٹکرا کر اپنی پیشانی کو توڑ لیتے ہیں۔ خود گمراہ ہو رہے ہیں۔ یہاں سے جان لیا جائے کہ شیخ اگر کامل نہ ہوا تو بدعات کا شکار ہوجائیگا۔ اور خوشامدی اپنی لذت کے حصول کے لیے اسے گمراہ کریں گے جس کے نتیجہ میں ایک ثیر مخلوق خدا کے گمراہ ہونے کا خطرہ پیدا ہوجائے گا۔ بلکہ ایسا ہورہا ہے اور ہم اپنے گردوپیش دیکھ رہے ہیں۔ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کہ اللہ نے آپ پر کتاب نازل فرمائی۔ دوسرے آپ کو حکمت یعنی کتاب کے معانی اور تفسیر بتائی اور تیسری بات یہ ہے کہ ایسے علوم بخش دئیے جن سے آپ آگاہ نہ تھے ، کتاب اللہ بہت بڑا راستہ ہے۔ حدیث اس کے نشیب و فراز کی نشاندہی کرتی ہے۔ سلوک کا علم اس کی روشنی ہے۔ جیسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کی کتاب عطا ہوئی حکمت یعنی اس کی تعبیر و تفسیر عطا ہوئی اور قوت مشاہدہ عطا ہوئی جس نے وہ ساری حقیقتیں نظر کے سامنے کھول کے رکھ دیں۔ جو کتاب اللہ نے ارشاد فرمائی تھیں۔ یعنی پہلی بات تو عصمت نبوی تھی کہ آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکتے تھے۔ جسے اللہ نے اپنی رحمت اور فضل سے تعبیر فرمایا دوسری بات تعلیم کتاب و حکمت قرآن حکیم اور حدیث شریف اور تیسری بات علمک مالم تکن تعلیم۔ یعنی وہ علوم عطا فرمائے جو بغیر اللہ کی عطا کے آدمی کسی بھی ظاہری طریقے سے حاصل نہیں کرسکتا۔ اور وہ ہیں مشاہدات ان حقائق کا نظر آجانا جن کو کتاب اللہ نے بیان فرمایا ہے اور یہ وہ نعمت ہے جو بغیر اللہ کی عطا کے کسی بھی دنیاوی طریقے سے حاصل نہیں کی جاسکتی جس طرح آپ کے مشاہدات واقعہ معراج شریف میں مذکور ہیں اسی طرح زندگی کے ہر حال میں موجود ہیں۔ اسی طرح صحابہ کرام سے بیشمار واقعات جو بالائے آسمان یا آخرت سے تعلق رکھنے والے ہیں ملتے ہیں ہاں اگر کافر بھی مجاہدہ کرے تو کشف سے بھی دنیا ہی کو دیکھ سکے گا جو دوسرے اسباب سے بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ جیسے آجکل ٹیلی وژن یا ٹیلی فون نہ برزخ میں جھانک سکتا ہے اور نہ بالائے آسمان یہ صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان ہے کہ ایسے علوم عطا ہوئے جو بجز عطائے باری ممکن نہ تھے۔ اور یہی نعمت نسلاً بعد نسل برکات نبوت کی امین ہے کہ قرآن کریم اور حدیث نبوی پر عمل کے ساتھ مجاہدہ نصیب ہو۔ کسی شیخ کامل کی صحبت نصیب ہو تو یہ علوم نصیب ہوں گے جو خود انسان کے حق پر ہونے کی دلیل ہیں ورنہ محض رسمی گدی نشینی سوائے گمراہی کے خطرے کے اور کچھ نہیں دے سکے گی۔ اور اے میرے حبیب ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) یہ آپ پر اللہ کا بہت بڑا احسان ہے کہ آپ کو نہ صرف اس دنیا کی باتیں تعلیم فرمائیں اعمال پر مرتب ہونے والے نتائج سے آگاہ فرمایا بلکہ مشاہدہ بھی عطا فرما دیا اور چونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی نبوت باقی ہے۔ وہی کتاب ہے۔ حدیث پاک وہی ہے تو برکات و مشاہدات بھی یقینا وہی ہوں گے اور اس قاعدے کو اگر الٹ کر دیکھا جائے تو علم مشاہدہ گیا تو علوم کتاب بھی گئے صرف باتیں رہ جائیں گی اور پھر عمل بھی ہاتھ سے چلا جائے گا۔ اس لیے یہ نعمت اور اس کا حصول نہ صرف دین کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے بلکہ دین کو قائم رکھنے کے لیے اس کی ضرورت ہے۔ یا اپنے کو دین پر قائم رکھنے کے لیے اس کی ضرورت ہے۔ رہے یہ لوگ تو ان کے اکثر مشورے ہی خیر سے خالی ہوتے ہیں۔ ورنہ مشورہ ہمیشہ بہتری اور خیر کے لیے کیا جاتا ہے۔ کسی نقصان سے یا کسی دشمن کے شر سے بچنے کے لیے یا پھر کوئی نفع حاصل کرنے کی خاطر پہلے کو دفع مضرت اور دوسرے کو جلب منفعت کہتے ہیں یہ دونوں حالتیں خیر ہیں مگر ان کے مشورے دوسروں کو نقصان پہنچانے کے لیے ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے برا سوچنے کے لیے ہوتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا دینے کے لیے ہوتے ہیں۔ ان کی اکثر و بیشتر مشاورت تک ، سوچ تک خیر سے خالی ہے مشاورت کی خیر یہ ہے کہ لوگوں کو ایثار کا سبق دیا جائے۔ امر بصدقۃ سے صرف فرض یعنی زکوۃ یا نفل صدقہ مراد نہ ہوگا۔ بلکہ ایثار کا درس دیا جائے۔ یعنی دوسروں کے حقوق ادا کرے اور اپنے بعض حقوق جو دوست یا رشتہ ادا نہیں کرپاتے معاف کردیا کرے ورنہ تو کبھی اصلاح معاشرہ ممکن ہی نہیں۔ ہمارے ہاں اب کام ہی الٹ ہے ہر آدمی اپنا حق طلب کرنے میں بڑا تیز ہے۔ لیکن فرض ادا کرنے کی فکر کوئی نہیں کرتا۔ حالانکہ وہی امور جو بعض لوگوں کے لیے فرض یا ذمہ داری کا درجہ رکھتے ہیں وہ دوسرے کا حق بن جاتے ہیں اس لیے زیادہ زور ادائے فرائض پہ دیا جانا ضروری ہے۔ جب یہ کام پوری ذمہ داری سے ہوگا تو بیشتر لوگوں کو ان کا حق مل جائے گا لین اس سب کے باوجود بھی اگر کسی ایک کو کمی محسوس ہو تو برداشت بھی چاہئے۔ ایثار بھی کوئی شے ہے لوگوں کو اس پر کیسے آمادہ کیا جائے۔ ایسے مشورے اپنے اندر خیر رکھتے ہیں یا لوگوں کو بدعات و رسومات سے نکال کر سنت پر گامزن کردے ایسا جذبہ پیدا ہو جو غیر حق کو رد کردے قبول ہی نہ کرے۔ یا پھر لوگوں میں صلح قائم رکھنے کے لیے مشاورت کی جائے کہ جہاں لوگ مل کر رہتے ہیں وہاں ضرور اختلافات بھی پیدا ہوتے ہیں سو ان کی اصلاح کا بھی ایک مناسب اور موزوں نظام ہونا ضروری ہے۔ لیکن یہ جس قدر بھلائی ہے یا جتنی نیکی ہے اس کی بنیاد رضائے الہی کی طلب ہو اور کرنے والا اس غرض سے کر رہا ہو کہ اس وجہ سے میرا رب مجھ سے راضی ہوگا ورنہ صورت نیکی کی ضرور ہوگی۔ اس میں اثر نیکی والا نہ ہوگا۔ یعنی اس پر وہ اجر نصیب نہیں ہوگا جو نیکی پہ ہوتا ہے۔ اور منافق کا مرض یہی ہے کہ وہ ہر کام دکھاوے کا کرتا ہے۔ اللہ کی رضا کے لیے کام کرنے کو تو بڑا مضبوط ایمان چاہئے۔ ہاں جو واقعی اللہ کی رضا کے لیے یہ کام کریں گے ہم ان کو بہت بڑا اجر عطا فرمائیں گے۔ اور ان پر انعامات کی بارش ہوگی۔ رہے وہ لوگ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت حال ان پر واضح ہوچکی ہے۔ ہدایت گمراہی پر غالب نظر آ رہی ہے۔ اور حق اور باطل کا فرق سامنے آ چکا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت ثابت ہوچکی مگر اس کے باوجود وہ اپنی الگ رائے رکھتے ہیں اور ایمان والوں سے جدا اپنی راہ بناتے ہیں یعنی سب سے پہلا اجماع آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر ہے کہ مومنین کے اجماع کو بھی یہاں بطور دلیل لایا گیا ہے۔ کہ دیکھو کیسے کیسے نیک اور قابل رشک لوگ حق ہونے کی شہادت دے رہے ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد سے سے پہلا اجماع خلافت ابوبکر صدیق (رض) پر منعقد ہوا۔ امام شافعی نے بھی اس آیہ کریمہ سے اجماع امت کا دلیل ہونا ثابت کیا ہے اور حدیث پاک سے اجماع امت کا حجت ہونا ویسے ثابت ہے تو اتنے دلائل کے بعد جو راہ سے ہٹے گا ہم اس کو ادھر ہی پھیر دیں گے جدھر اس کی پسند ہے یعنی پھر توفیق ہدایت بھی نصیب نہ ہوگی اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں گستاخی میں یا اجماع امت سے مخالفت میں کوئی آگے بڑھ گیا تو ممکن ہے غیرت الہی واپس ہی نہ آنے دے کہ اپنی پسند سے گیا ہے اب ادھر رہکر ہی دیکھ لے ، اور اس راہ کی بدولت تو جہنم میں داخل ہوگا وہ اس راستے پر چل نکلا کہ ایسے لوگوں میں شامل ہوجائے گا جنہیں ہم جہنم میں جھونکیں گے اور جہنم بہت تکلیف دہ جگہ ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 131 لغات القرآن : ھمت، ارادہ کرلیا۔ مایضرونک، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہ نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔ فضل اللہ، اللہ کا فضل و کرم۔ تشریح : اس آیت کا بھی تعلق اوپر والے واقعہ سے ہے۔ اگر کوئی فریق چکنی چپڑی باتیں بنا کر اور واقعات کو تو ڑ مروڑ کر نئی شکل سے اور قاضی سے فیصلہ اپنے حق میں لے لے تو یہ گناہ سراسر فریق مذکور کے نام پر لکھا جائے گا۔ قاضی کا کوئی قصور نہیں۔ حالانکہ خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کتاب اور حکمت کی تعلیم موجود تھی اور وہ علم جو کسی اور کے پاس نہ تھا، اسکے باوجود آپ کو غلط فہمی میں مبتلا کرنے کی کوشش کی گئی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ ساری حقیقت آپ کے سامنے کھول کر رکھ دی اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت فرمائی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ لیکن خدا کے فضل سے ان کی رنگ آمیز باتوں کا آپ پر کوئی اثر نہیں ہوا اور آئندہ بھی نہ ہوگا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : خطاب جاری ہے۔ پہلے بیان ہونے والے واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اے پیغمبر ! اگر اللہ تعالیٰ کا آپ پر فضل و کرم نہ ہوتا تو ان میں سے ایک گروہ نے تمہیں عدل و انصاف کے راستے سے ہٹا دینے کا پکا منصوبہ بنا لیا تھا۔ اگر آپ ان کی مرضی کے مطابق فیصلہ صادر فرما دیتے تو اس سے آپ کی سیرت پر حرف گیری ہوتی اور عدل و انصاف کا ترازو جھک جاتا۔ تاہم آپ کی ذات اقدس کا حقیقتاً نقصان نہ ہوتا کیونکہ آپ نے ظاہری شواہد کے مطابق فیصلہ کرنا تھا۔ معلوم ہوا کہ اگر جج سے غلط معلومات اور جھوٹی شہادتوں کے ذریعے ناحق فیصلہ کروالیا جائے تو وہ عنداللہ گناہ گار نہیں ہوگا۔ البتہ آدمی کو شعوری اور لاشعوری طور پر ہونے والے گناہوں کی اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہنا چاہیے۔ جیسا کہ اوپر کی آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا ہے۔ لیکن سچ کو جھوٹ بنانے اور دوسروں پر الزام لگانے والے مجرم دنیا اور آخرت میں ضرور نقصان اٹھائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بروقت اس واقعہ کی حقیقت بتائی اور کتاب و حکمت عطا فرما کر وہ کچھ سکھلا دیا جو آپ اس سے پہلے نہیں جانتے تھے۔ کسی شخص کو اللہ کی طرف سے کسی غلطی پر بروقت رہنمائی ہونا اس کا بڑا ہی فضل ہوا کرتا ہے۔ آپ پر اللہ تعالیٰ کا اتنا فضل ہوا کہ دنیا اور آخرت میں آپ کا کوئی ثانی نہیں ہوگا ” مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمْ “ کے الفاظ سے ان لوگوں کے باطل عقیدہ کی نفی ہوتی ہے جو آپ کی ذات کے بارے میں یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ آپ جو ہوچکا اور جو کچھ ہونے والا ہے سب کچھ جانتے تھے جیسا کہ ایک مکتبہ فکر کے ترجمان نے ابن جریر کے ضعیف قول سے اپنے عقیدے کو تقویت دینے کی ناکام کوشش کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ماکان اور ماھُوْکَاءِنْ کا علم عطا فرمایا گیا تھا پھر انہوں نے مسلم شریف کی حدیث سے غلط مفہوم اخذ کرنے کی کوشش کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب کچھ جانتے تھے حالانکہ خود ہی لکھتے ہیں : ” قرآن مجید نے کئی موقعوں پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عالم الغیب ہونے کی نفی کی ہے یہاں تک آپ کے بارے میں سورة الشورٰی میں فرمایا کہ اسی طرح ہم نے بذریعہ وحی بھیجا آپ کی طرف ایک جانفزا کلام اپنے حکم سے نہ آپ یہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا ہے۔ لیکن ہم نے بنا دیا اس کتاب کو (سراپا) نور ہم ہدایت دیتے ہیں اس کے ذریعہ جس کو چاہتے ہیں اپنے بندوں سے۔ اور بلاشبہ آپ رہنمائی فرماتے ہیں صراط مستقیم کی طرف۔ “ (قُلْ لَّآ أَمْلِکُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّلَّا ضَرًّا إِلَّا مَاشَآء اللّٰہُ ط وَلَوْ کُنْتُ أَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ ج وَمَامَسَّنِيَ السُّوْٓءُ ج إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِیْرٌ وَّبَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ ) [ الأعراف : ١٨٨] ” آپ کہہ دیجیے کہ ” مجھے خود اپنے نفع یا نقصان کا اختیار نہیں مگر اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہ ہوتا ہے اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت سی بھلائیاں حاصل کرلیتا اور مجھے کبھی کوئی تکلیف نہ پہنچتی میں تو محض ایک ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں، ان کے لیے جو ایمان لے آئیں۔ “ (وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَایَعْلَمُھَا إِلَّاھُوَط وَیَعْلَمُ مَافِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ط وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ إِلَّا یَعْلَمُھَا وَلَاحَبَّۃٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْأَرْضِ وَلَارَطْبٍ وَّلَایَابِسٍ إِلَّا فِيْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ ) [ الانعام : ٥٩] ” اور غیب کی چابیاں اسی کے پاس ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا بحرو بر میں جو کچھ ہے اسے وہ جانتا ہے اور کوئی پتہ تک نہیں گرتا جسے وہ نہ جانتا ہو نہ ہی زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ ہے جس سے وہ باخبر نہ ہو اور تر اور خشک جو کچھ بھی ہو سب کتاب مبین میں موجود ہے۔ “ مسائل ١۔ دوسرے کو گمراہ کرنے والا خود گمراہ اور نقصان میں رہتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کتاب و حکمت عطا فرمائی اور وہ کچھ سکھلایا جو آپ پہلے نہیں جانتے تھے۔ تفسیر بالقرآن نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف سازشیں : ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل اور ملک بدر کرنے کی سازش۔ (الانفال : ٣٠) ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کی ہدایت سے پھیر دینے کی سازش۔ (البقرۃ : ١٠٩) ٣۔ منافقین کی سازش مسجد ضرار۔ (التوبہ : ١٠٧) (مزید دیکھیے البقرہ ١٠٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ١١٣۔ یہ کوشش ان مختلف النوع کوششوں میں سے ایک ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دشمن اسلام کے خلاف کر رہے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سچائی انصاف اور صراط مستقیم سے بدراہ کردیں لیکن اللہ کا فضل وکرم ہمیشہ آپ کے شامل حال رہتا اور آپ کو اللہ بچا لیتے اور جو لوگ سازشیں کرتے وہ خود سازش کا شکار ہوجاتے اور خود ہی گمراہ ہوتے ۔ اور سیرت الرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اس قسم کے بیشمار واقعات موجود ہیں کہ سازشوں نے سازش کی اور اللہ نے ان کی سازش کو ناکام بنا دیا اور ان کی کوششیں ناکام ہوگئیں ۔ اللہ تعالیٰ یہاں حضور کو اطمینان دلاتے ہیں کہ اس کا فضل اور رحمت رسول اللہ کے شامل حال رہے گی اور وہ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے ۔ اس مناسبت میں کہ اللہ تعالیٰ نے سازشیں کرنے والوں کی سازش سے آپ کو محفوظ رکھا اور آپ اس سے بچ گئے کہ آپ کے احکام کی وجہ سے ظالم بچ جائے اور بےگناہ کو سزا ہوجائے اللہ تعالیٰ اپنے ایک عظیم فضل کو یاد دلاتے ہیں ۔ وہ یہ کہ اللہ نے آپ کو تاج رسالت پہنایا ۔ (آیت) ” وانزل اللہ علیک الکتب والحکمۃ واعلمک مالم تکن تعلم وکان فضل اللہ علیک عظیما “۔ (٤ : ١١٣) (اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے اور تم کو کو وہ کچھ بتایا ہے جو تمہیں معلوم نہ تھا ‘ اور اس کا فضل تم پر بہت ہے) یہ احسان دراصل جنس انسان پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری رسالت انسانوں کی ہدایت کے لئے بھیجی ۔ یہ کوئی معمولی احسان نہ تھا بلکہ یہ انسان کے لئے ایک نیا جنم تھا اور اس سے انسانیت کو ایسی زندگی ملی جس طرح کوئی انسان پہلی مرتبہ انسانیت اور روح پاتا ہے ۔ یہ احسان جس کی وجہ سے انسان کو جاہلیت کی پستیوں سے اٹھایا گیا اور اسے اسلامی نظام حیات کے ذریعے دنیا میں برتری اور ترقی دے کر نہایت ہی اونچے مقام تک پہنچایا گیا اسے اللہ تعالیٰ نے فضل عظیم سے تعبیر کیا۔ اسلامی نظام زندگی کے احسان اور بھلائی کا صحیح طرح اندازہ صرف وہی شخص کرسکتا ہے جس نے اسلام اور جاہلیت کا تقابلی مطالعہ کیا ہو ۔ ماضی اور حال کو دیکھا ہو اور جس نے اسلام کی طرح جاہلیت کو بھی چکھا ہو۔ اس احسان کا تذکرہ سب سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا گیا اس لئے کہ سب سے پہلے اسلام کو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پایا سب سے پہلے اس کا مزہ چکھا اور سب سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جانا اور آپ سب سے زیادہ اسلام کے جاننے والے اور اسے چکھنے والے تھے ۔ (آیت) ” وعلمک مالم تکن تعلم وکان فضل اللہ علیک عظیما (٤ : ١١٣) (تم کو وہ کچھ بتایا جو تم نہ جانتے تھے اور اللہ کا فضل تم پر بہت بڑا ہے)

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ وَ رَحْمَتُہٗ لَھَمَّتْ طَّآءِفَۃٌ مِّنْھُمْ اَنْ یُّضِلُّوْکَ ) اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرکے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت آپ کے ساتھ نہ ہوتی جس نے بذریعہ وحی آپ کو حقیقت حال سے باخبر فرمادیا تو کچھ لوگ یہ ارادہ کر ہی چکے تھے کہ آپ کو غلطی میں مبتلا کردیں۔ ان لوگوں نے جو کچھ کیا اس کے ذریعہ خود ہی راہ حق سے ہٹے، یہ لوگ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی اور آپ کو وہ چیزیں بتائیں جنہیں آپ نہیں جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔ فائدہ : یہ جو فرمایا (لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بَمَآ اَرٰکَ اللّٰہُ ) اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بعض مرتبہ اپنے اجہتاد سے فیصلے فرماتے تھے یہ فیصلے اسی فہم پر مبنی تھے جو آپ اصولی طور پر قرآن مجید سے سمجھتے تھے۔ ان میں غلطی کا امکان نہ تھا اور اگر کبھی کوئی لغزش ہوگئی جو آپ کے بلند مرتبہ کے شایان شان نہ تھی تو اللہ تعالیٰ اس پر متنبہ فرما دیتے تھے۔ آپ کے علاوہ دیگر قضاۃ اور ائمہ جو اپنے اجتہاد سے فیصلہ کریں یا امور غیر منصوصہ میں کوئی اجتہاد کریں تو ان کو بھی لازم ہے کہ قرآن و حدیث کے اصول و فروع کو سامنے رکھ کر اجتہاد کریں خالص اپنی ذاتی رائے اور ذاتی خیال معتبر نہیں۔ پھر ان کے اجتہاد پر غلطیوں کا بھی امکان ہے۔ اسی لیے آپس میں مجتہدین کا اختلاف ہوا۔ باوجود غلطیاں ہوجانے کے ثواب پھر بھی ملتا ہے کیونکہ اجتہاد کا کام یہ حضرات دینی ضرورت سے اللہ کی رضا کے لیے کرتے ہیں۔ امور منصوصہ میں اجتہاد جائز نہیں۔ خوب سمجھ لیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

81 چوری کی یہ مذکورہ واردات جس کی حقیقت سے آپ آگاہ نہیں تھے جس کے اصل چور کا آپ کو علم نہیں تھا اور جس میں چور کے رشتہ داروں نے چور کو بےگناہ ثابت کرنے کے لیے جو رات کو بیٹھ کر منصوبہ بنایا تھا اسے بھی آپ نہیں جانتے تھے لیکن اس واقعہ کی پوری حقیقت سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مطلع کردیا اور یہ اللہ تعالیٰ کا آپ پر بہت بڑا احسان اور اس کا عظیم فضل ہے کیونکہ اگر آپ اصل حقیقت سے آگاہ نہ ہوتے تو آپ ایک بےگناہ کو چوری کی سزا دیدیتے اور اصل چور کو بری کردیتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ لوگوں کے دلوں میں آپ کی نبوت کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوجاتے۔ آیت کی مزید تحقیق :۔ اس آیت سے بریلوی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کلی علم غیب پر استدلال کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں لفظ مَا استعمال ہوا ہے جو عموم کے لیے ہوتا ہے تو مطلب یہ ہوا کہ تمام وہ چیزیں جو آپ کو معلوم نہ تھیں وہ ساری کی ساری اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتادیں تو اس سے معلوم ہوا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے کلی علم غیب عطا کردیا تھا مگر اس آیت سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے کلی علم غیب پر استدلال سراسر باطل ہے۔ اولاً اس لیے کہ یہ استدلال اس بات پر مبنی ہے کہ ما اس آیت میں عموم اور استغراق حقیقی کے لیے ہے حالانکہ ماہر جگہ عموم اور استغراق کے لیے نہیں آتا بلکہ اس میں خصوص کا بھی احتمال ہوتا ہے۔ امام ابو البرکات نسفی حنفی فرماتے ہیں۔ و من و ما یحتملان العموم والخصوص و اصلھما العموم (رسالہ منار مع شرح نور الانوار ص 97) ۔ یعنی اگرچہ اصل دونوں میں عموم ہے لیکن دونوں میں خصوص کا احتمال بھی ہوتا ہے اس کی شرح میں ملا جیون فرماتے ہیں۔ یعنی انھما فی اصل الوضع للعموم و یستعملان فی الخصوص بعارض القرائن۔ اور ایسی مثالیں خود قرآن میں بکثرت موجود ہیں جن میں کلمہ ما عموم کے لیے نہیں چناچہ ایک جگہ ارشاد ہے۔ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْا نُوْا تَعْلَمُوْنَ (بقرہ رکوع 18) اور وہ (پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم کو وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے اس آیت میں خطاب براہ راست صحابہ کرام (رض) سے اور ان کی وساطت سے ساری امت تا قیامت اس آیت کی مخاطب ہے اگر یہاں کلمہ مَا کو عموم اور استغراق حقیقی پر محمول کیا جائے جیسا کہ بریلوی حضرات کا خیال ہے تو اس سے لازم آئے گا کہ تمام صحابہ کرام بلکہ امت محمدیہ کا ہر فرد تا قیامت غیب دان ہو اور اسے ماکان و ما یکون کا کلی علم غیب حاصل ہو۔ حالانکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں اسی طرح ایک جگہ فرمایا۔ وَعُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْا اَنْتُمْ وَ لَا اٰ بَاءُکُمْ (انعام رکوع 11) ۔ اور سکھایا گیا تم کو وہ کچھ جو تم نہ جانتے تھے اور نہ تمہارے باپ دادا۔ اس آیت کے سیاق وسباق سے ظاہر ہے کہ اس میں خطاب یہود سے ہے جیسا کہ اکثر مفسرین نے لکھا ہے اور اگر خطاب مسلمانوں سے ہو تو بھی اگر مَا کو یہاں استغراق حقیقی کے لیے لیا جائے تو اس سے ان تمام یہودیوں کو یا تمام مسلمانوں کو غیب دان ماننا پڑے گا۔ جو اس آیت کے مخاطب ہیں ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ مَا ہر جگہ عموم کیلئے نہیں ہوتا۔ ثانیاً مفسرین کرام نے بھی اس آیت میں مَا کو خصوص پر محمول کیا ہے اور اس سے مخصوص امور ہی مراد لیے ہیں اور استغراق حقیقی پر اسے کسی نے بھی محمول نہیں کیا حضرت عبداللہ بن عباس اور مقاتل کہتے ہیں مَا سے مراد شریعت ہے۔ قال ابن عباس و مقاتل ھو الشرع (بحر ج 3 ص 347) مفسر قرطبی، امام بغوی، امام نفسی اور علامہ خازن فرماتے ہیں۔ مَا سے امور دین اور احکام شریعت مراد ہیں وَ عَلَّمَکَ مَا لَم تَکُنْ تَعْلَم یعنی من الشرائع و الاحکام (قرطبی ج 5 ص 382) یعنی من احکام الشرع و امور الدین (معالم و خازن واللفظ لہ ج 1 ص 496) من امور الدین والشرائع (مدارک ج 1 ص 195) ۔ امام ماوردی کہتے ہیں مَا سے کتاب و حکمت مراد ہے۔ وذکر الماوردی الکتاب والحکمۃ (بحر ج 3 ص 347) ان حوالوں سے بخوبی واضح ہوگیا کہ مَا یہاں عموم کے لیے نہیں ہے بلکہ اس سے مراد امور دین اور احکام شریعت ہیں۔ اگر کہا جائے کہ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ مَا سے مراد علم غیب ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جن مفسرین نے علم غیب یا اخبار اولین وآخرین لکھا ہے انہوں نے صحیح اور مختار قول امور دین اور احکام شریعت ہی کو قرار دیا ہے اور دوسرے قول یعنی علم غیب کو کلمہ تمریض قیل سے ذکر کر کے اس کے ضعیف اور غیر معتبر ہونے کی طرف اشارہ کردیا نیز اس ضعیف قول میں بھی کلی علم غیب کا کوئی ذکر نہیں بلکہ اس سے بھی بعض غیب ہی مراد ہے۔ ثالثاً مَا کو یہاں عموم واستغراق پر محمول کرنا آیت کے سیاق وسباق کے بالکل منافی ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے۔ اِنَّا اَنْزَلْنَا اِلَیَْ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ الخ سے حکم سلطانی بیان فرمایا کہ اللہ کے نازل کردہ احکام اور اس کے مقرر کردہ قوانین کے مطابق فیصلے کیا کرو اس کے بعد جھوٹی تہمت لگانیوالوں اور جھوٹی گواہی دینے والوں کو زجریں کیں اور پھر فرمایا وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ ۔ لہذا ما سے یہاں وہی کچھ مراد ہے جو حضرات مفسرین نے بیان کیا ہے یعنی احکام شریعت لہذا علم غیب کلی مراد لینا سراسر غلط اور باطل ہے نیز اس آیت سے تھوڑا سا پہلے فرمایا۔ وَلَوْ لَا فَضْلُ اللہِ عَلَیْکَ وَ رَحْمَتُہٗ الخ یعنی اگر آپ پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو ان منافقوں کی ایک جماعت آپ کو صحیح فیصلے سے بھٹکا دیتی۔ اگر آپ کو کلی علم غیب تھا تو پھر کس طرح ممکن تھا کہ منافق آپ کو بھٹکا دیتے اسی طرح وَلَا تَکُنْ لِلْخَائِنِیْنَ خَصِیْمًا سے آپ کو جو تنبیہ کی گئی یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کو کلی علم غیب نہیں تھا ورنہ آپ ان جھوٹے منافقین کی کیوں طرف داری کرتے۔ رابعاً سورة نساء جس میں یہ آیت ہے اس کے بعد تقریباً 24 سورتیں اور نازل ہوئیں اگر اس آیت سے آپ کو کلی علم غیب حاصل ہوچکا تھا تو پھر ان چوبیس سورتوں کے نازل کرنے کی کیا ضرورت تھی نیز سورة نساء سے بعد میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے سورة نور، منافقون تحریم اور توبہ وغیرہ ہیں۔ سورة نور میں افک عائشہ (رض) کا واقعہ مذکور ہے جس کی وجہ سےحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرصہ تک پریشان رہے سورة منافقون میں عبداللہ بن ابی اور دوسرے منافقین کی سازش کا ذکر ہے جس کا آپ کو پتہ نہ چل سکا سورة تحریم میں آپ کے شہد نہ کھانے کی قسم کا ذکر ہے جسے توڑنے کا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا اور سورة توبہ میں مسجد ضرار کے سلسلے میں آپ کو اس مسجد میں جانے سے روک دیا حالانکہ آپ اس مسجد کے بانیوں کو مومن مخلص سمجھ کر اس میں جا کر نماز ادا کرنے کا وعدہ فرماما چکے تھے۔ یہ آیتیں تفصیل کے ساتھ وَمَا کَانَ اللہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلیَ الْغَیْبِ (آل عمران رکوع 18) کی تفسیر میں مذکور ہوچکی ہیں یہ تمام آیتیںحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی سے علم غیب کی نفی کرتی ہیں اس لیے اگر زیر بحث آیت سےحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے کلی علم غیب ثابت کیا جائے تو اس سے بعد میں نازل ہونے والی ان آیتوں کی تکذیب لازم آئیگی جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کلی علم غیب کی نفی کرتی ہیں تفصیل بالا سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ اس آیت سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے کلی علم غیب ثابت نہیں ہوسکتا۔ ایک من گھڑت قاعدہ : بعض مبتدع مولوی کہتے ہیں کہ مَا عموم کیلئے ہے اور عَلَّمَ کا فاعل اللہ تعالیٰ ہے اور مفعول نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اللہ تعالیٰ مفیض عام ہے اورحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں استعداد تام تو اس سے ثابت ہوا کہحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کلی غیب معلوم تھا۔ اس کا جواب سورة علق میں عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ میں الانسان سے بعض مفسرین کے نزدیک نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہیں اور بعض بدعتی مولوی بھی اسی کو ترجیح دیتے ہیں تو یہاں بھی فاعل اللہ ہے اور مفعول نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور سورة علق کی یہ آیتیں بھی بالاتفاق سارے قرآن سے پہلے نازل ہوئی تھیں تو اگر مَا کو عموم اور استغراق حقیقی کے لیے لیا جائے اور عَلَّمَ ماضی کا صیغہ ہے جو گذشتہ زمانہ میں وقوع فعل پر دلالت کرتا ہے تو مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت سے پہلے یا اس کے نزول کے ساتھ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام علوم غیبیہ سکھا دئیے تھے تو (معاذ اللہ) پھر سارے قرآن کے نازل کرنے کی کیا ضرورت تھی کیونکہ یہ تحصیل حاصل ہے نیز یہ قانون بھی کسی کتاب میں نہیں لکھا ہوا کہ فاعل اللہ تعالیٰ ہو اور مفعولحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات ہو تو وہاں ہمیشہ عموم ہی مراد لیا جاتا ہے بلکہ شرک پھیلانے کے لیے ان مولویوں نے یہ قاعدہ اپنی طرف سے وضع کیا ہے۔ غلط استدلال :۔ مخالفین عموم علم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بعض حدیثوں سے بھی استدلال کرتے ہیں۔ مثلاً صحیح مسلم میں ہے۔ اخبرنا لما کان و ما یکون۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ علوم غیبیہ کلیہ یعنی کل ما کان و ما یکون مثلا کل فوجداری اور دیوانی احکام ہندی، بنگالی، جرمنی وغیرہ کا بیان کرنا تھوڑے سے وقت میں ناممکن ہے بلکہ یہاں مَا سے مراد بعض من امور عظام ہیں یعنی بعض نہایت اہم امور جیسا کہ دوسری روایت میں اس کی تصریح موجود ہے۔ نیز وہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا۔ شب معراج میں اللہ تعالیٰ نے میری پشت پر ہاتھ رکھا۔ فتجلی لی کل شیء تو میرے لیے سب کچھ روشن ہوگیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سات صحابہ نے یہ الفاظ بیان کیے ہیں فعلمت الذی سالنی عند کما ھو مصرح فی الدر المنثور اور لفظ تجلی لی کل شیء کے بارے میں خازن نے بیہقی سے نقل کیا ہے کہ اس کے تمام طرق ضعیف ہیں لہذا ان حدیثوں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کل علم غیب پر استدلال کرنا غلط اور باطل ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اور جو شخص کوئی چھوٹا گناہ کرے یا کسی بڑے گناہ کا مرتکب ہو پھر اس گناہ کی تہمت کسی بےگناہ اور ناکردہ گناہ پر لگا دے تو ایسے شخص نے یقینا بہت بڑے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ اپنے سر پر لاد لیا اور اپنے سر پر بڑے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ دھر لیا اور اے پیغمبر ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ پر اللہ تعالیٰ کا فل اور اس کی رحمت نہ ہوتی اور اس معاملہ میں آپ پر اس کی خاص عنایت نہ ہوتی تو چور کے حمایتیوں میں سے تو ایک گروہ نے آپ کو غلطی میں مبتلا کرنے کا ارادہ ہی کرلیا تھا اور یہ ارادہ کرنے والے بجز اس کے کہ اس ارادے سے اپنے آپ کو وبال میں مبتلا کرلیں آپ کو کسی قسم کی غلطی اور گمراہی میں نہیں ڈال سکتے اور نہ آپ کو کسی قسم کا نقصان پہونچا سکتے ہیں اور آپ کو کوئی کسی غلطی میں کسی طرح مبتلا کرسکتا ہے اور آپ کو کوئی ضرر کیسے پہونچا سکتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ آپ پر کتاب نازل فرمائی ہے اور اس نے آپ کو حکمت و دانش کی تعلیم دی ہے اور آپ کو اس نے وہ باتیں سکھائیں اور بتائیں جن کو آپ خود نہی جاسکتے تھے اور ان کو نزول وحی سے پہلے آپ نہیں جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا بڑا ہی فضل ہے۔ (تیسیر) خطیئۃ اور اتم کا ترجمہ کئی طرح کیا گیا ہے ہم نے صغیرہ اور کبیرہ کو اختیار کرلیا ہے۔ بھت کے معنی تحیر کے ہیں جیسا کہ ہم نے تیسرے پارے میں عرض کیا تھا۔ بھتان اس کذب کو کہتے یں جو کسی بےگناہ کی طرف منسوب کر کے اس کو حیرت میں ڈال دیا جائے مطلب یہ ہے کہ اگر کسی ناکردہ گناہ کی طرف کوئی گناہ خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو کوئی شخص منسوب کر دے تو یہ گناہ کی طرف منسوب کرنا خود بہت بڑا بہتان اور کھلے ہوئے گناہ کا اپنے سر پر لاد لینا ہے جب اس معاملہ میں خاص بشیر نے یا طعمہ نے ایک بےگناہ لبید یا زید یہودی کی طرف اپنی کی ہوئی چوری کو منسوب کردیا تو اس چور نے علاوہ چوری کے گناہ کے ایک اور بہتان اور گناہ سرپر لاد لیا اور چونکہ بعض لوگ اس واقعہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور طعمہ یا بشیر کی حمایت کے لئے آپ کو آمادہ کر رہے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں بھیج کر آپ کو صحیح معاملہ سے آگاہ فرما دیا اس لئے فرمایا کہ یوں تو اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت آپ پر ہمیشہ ہی سایہ فگن رہتی ہے لیکن اس معاملہ خاص میں اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت آپ کی دستگیری نہ کرتی تو چور کے طرف دار آپ کو غلط فہمی میں مبتلا کردیتے کیونکہ ایک گروہ نے ان لوگوں میں سے ایسا ارادہ کرلیا تھا حالانکہ ایسے لوگ آپ کو تو کیا بہکاتے خود ہی اس برے ارادے کی وجہ سے اپنی جانوں کو مبتلائے عذاب کرلیتے اور آپ کو ذرا سا بھی نقصان اس معاملہ خاص میں نہ پہنچا سکتے۔ معاملہ خاص کی قید ہم نے اس بنا پر لگائی کہ ضرر مطلق کی نفی مراد نہیں ہے بلکہ ضرر خاص اور وہ یہ کہ مثلاً کوئی غلط فیصلہ حاصل کرلیں اور بھلا آپ کو نقصان پہونچا یا آپ کو غلطی میں ڈال دینا کیسے ممکن ہوسکتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کتابت عنایت فرمائی ہے جس میں منجملہ اور باتوں کے اس واقعہ کی صحیح اطلاع بھی ہے۔ پھر یہ حکمت و دانش کا نزول بھی آپ پر فما دیا ہے جس کا مقتضا عدل و انصاف اور اصابت رائے ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ وہ مفید اور بصیرت افروز باتیں تعلیم کی ہیں جن سے آپ پہلے واقف نہ تھے اور نہ ان کو ہمارے علاوہ کوئی اور سکھا سکتا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ اس سے اسرار الٰہیہ مراد ہوں اور ہوسکتا ہے کہ دنیا اور آخرت کا بیان مراد ہو اور ہوسکتا ہے کہ حلال و حرام مراد ہو جیسا کہ قتادہ نے کہا ہے اور ہوسکتا ہے کہ احکام شرائع اور احکام دین مراد ہوں۔ آخر میں فرمایا کہ اے پیغمبر ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ پر اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے اور جب کسی پر اللہ تعالیٰ کا فضل عظیم ہو تو اس کو کب کوئی نقصان پہونچا سکتا ہے۔ فضل عظیم سے مراد بعض حضرات نے نبوت لی ہے کیونکہ نبوت سے بڑھ کر کوئی فضل نہیں ہے ۔ (واللہ اعلم) حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ کوئی شخص تم میں سے اپنے فیصلہ کو یوں نہ کہا کرے کہ جو اللہ نے مجھ کو بتایا میں نے اس کے موافق فیصلہ کیا ہے کیونکہ یہ چیز نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی فرما سکتے تھے ہاں ! ہم کو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے لیکن کوئی شخص اپنے فیصلے کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ فیصلہ خدا نے مجھ کو بتایا ہے چونکہ اوپر کی آیتوں میں بنو ابیرق اور ان کے طرف داروں کے باہمی مشورے کا ذکر تھا۔ اب آگے اس کے متعلق ایک مکمل ضابطہ بیان فرماتے ہیں۔ تاکہ معلوم ہوجائے کہ باہمی مشاورت کن امور پر ہونی چاہئے اور وہ کون سی باتیں ہیں جن میں باہم مشورہ کرنا باعث خیر و برکت ہوتا ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)