Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 117

سورة النساء

اِنۡ یَّدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اِلَّاۤ اِنٰثًا ۚ وَ اِنۡ یَّدۡعُوۡنَ اِلَّا شَیۡطٰنًا مَّرِیۡدًا ﴿۱۱۷﴾ۙ

They call upon instead of Him none but female [deities], and they [actually] call upon none but a rebellious Satan.

یہ تو اللہ تعالٰی کو چھوڑ کر صرف عورتوں کو پکارتے ہیں اور دراصل یہ صرف سرکش شیطان کو پوجتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِن يَدْعُونَ مِن دُونِهِ إِلاَّ إِنَاثًا ... They invoke nothing but female deities besides Him (Allah), Juwaybir said that Ad-Dahhak said about Allah's statement, "The idolators claimed that the angels are Allah's daughters, saying, `We only worship them so that they bring us closer to Allah.' So they took the angels as gods, made the shapes of girls and decided, `These (idols) resemble the daughters of Allah (i.e., the angels), Whom we worship."' This is similar to Allah's statements, أَفَرَءَيْتُمُ اللَّـتَ وَالْعُزَّى Have you then considered Al-Latand Al-`Uzza! (53:19) وَجَعَلُواْ الْمَلَـيِكَةَ الَّذِينَ هُمْ عِبَادُ الرَّحْمَـنِ إِنَـثاً And they make the angels who themselves are servants of the Most Gracious (Allah) females. (43:19) and, وَجَعَلُواْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً And they have invented a kinship between Him and the Jinn. (37:158) Allah's statement, ... وَإِن يَدْعُونَ إِلاَّ شَيْطَانًا مَّرِيدًا and they invoke nothing but Shaytan, a persistent rebel! means, Shaytan has commanded them to do this and made it seem fair and beautiful in their eyes. Consequently, they are worshipping Shaytan in reality, just as Allah said in another Ayah, أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يبَنِى ءَادَمَ أَن لاَّ تَعْبُدُواْ الشَّيطَـنَ Did I not command you, O Children of Adam, that you should not worship Shaytan. (36:60) Allah said that, on the Day of Resurrection, the angels shall proclaim about the idolators who worshipped them in this life: بَلْ كَانُواْ يَعْبُدُونَ الْجِنَّ أَكْـثَرُهُم بِهِم مُّوْمِنُونَ Nay, but they used to worship the Jinn; most of them were believers in them. (34:41) Allah's statement,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

117۔ 1 اِنّاثً (عورتیں) سے مراد یا تو وہ بت ہیں جن کے نام مؤنث تھے جیسے لات، عزیٰ ، مناۃ، نائلہ وغیرہ۔ یا مراد فرشتے ہیں۔ کیونکہ مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں سمجھتے اور ان کی عبادت کرتے تھے۔ 117۔ 2 بتوں، فرشتوں اور دیگر ہستیوں کی عبادت دراصل شیطان کی عبادت ہے۔ کیونکہ شیطان ہی انسان کو اللہ کے در سے چھڑا کر دوسروں کے آستانوں اور چوکھٹوں پر جھکاتا ہے جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥٥] مشرکوں میں شرک کی جملہ اقسام پائی جاتی ہیں :۔ شرک کی موٹی موٹی تین اقسام ہیں اور وہ تینوں ہی اس جملہ میں آگئی ہیں مثلاً (١) شرک فی الذات۔ اس لحاظ سے مشرکین اپنی دیویوں کو اللہ کی بیویاں اور بیٹیاں سمجھتے تھے اور ان دیویوں کے ناموں سے ہی یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے جیسے الٰہ سے لات اور عزیز سے عزی وغیرہ (٢) شرک فی الصفات۔ اللہ کی یہ صفت ہے کہ جہاں سے بھی اسے کوئی شخص پکارے وہ اس کی فریاد سنتا ہے اور مشرکین کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ دیویاں ان کی فریاد سنتی ہیں (٣) شرک فی العبادت۔ قرآن کی تصریح کے مطابق کسی کو اس عقیدہ سے پکارنا کہ وہ اس کی فریاد سن کر اس کی مشکل دور کرسکتا ہے یا اسے کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے اس کی عین عبادت ہے اور مشرکین بھی ایسا ہی عقیدہ رکھ کر دیویوں کو پکارتے تھے اور یہ صریح شرک ہے۔ نیز وہ اپنی دیویوں کے سامنے عبادت کے وہ سب مراسم بجا لاتے تھے جو صرف اللہ کے لیے سزا وار ہیں۔ [١٥٦] ابلیس کا انسانوں کو گمراہ کرنے کا دعویٰ :۔ شیطان کو پکارنا اس لحاظ سے ہے کہ انسان کو شرک کی جتنی راہیں سجھائی ہیں سب شیطان ہی نے سجھائی ہیں۔ گویا ایسا عقیدہ رکھ کر خواہ کسی کو بھی پکارا جائے وہ پکار بھی شیطانی ہے اور شیطان ہی کو پکارنے کے مترادف ہے اگرچہ سب لوگ شیطان کو اللہ کا باغی اور سرکش سمجھ کر ظاہری طور پر گالیاں ہی دیتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

” اناثا “ یہ ” أُنْثَی “ کی جمع ہے، یعنی مونث۔ ان سے مراد یا تو بت ہیں جن کے اکثر نام (لات، مناۃ، عزیٰ وغیرہ) مؤنث تھے۔ یونانیوں اور ہندوؤں نے بھی عبادت کے لیے دیویاں بنا رکھی ہیں۔ مسلمانوں نے ان کی دیکھا دیکھی ایسی ہستیوں میں ایسے اوصاف مشہور کر رکھے ہیں جیسے وہ نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کی محبوبائیں ہوں، بلکہ ان کے خیال میں جو پہنچ چکے ہیں وہ اپنی وضع قطع بھی عورتوں والی بنا کر رکھتے ہیں، وہی چوڑیاں وہی زیور وغیرہ۔ ” اناثا “ سے مراد فرشتے بھی ہیں، کیونکہ مشرکین فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں اور ان کی مائیں جنوں کی سردارنیوں کو مانتے تھے۔ 2 اِنْ يَّدْعُوْنَ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شرک کی وضاحت اللہ کے سوا کسی دوسرے کو پکارنے کے ساتھ کی ہے، کیونکہ عبادت میں اصل ہے ہی پکارنا، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلدُّعَاءُ ہُوَ الْعِبَادَۃُ ) ” پکارنا ہی تو عبادت ہے “ [ ترمذی، الدعوات، باب ما جاء فی فضل الدعاء : ٣٣٧٠۔ أبوداؤد : ١٤٧٩ ] اور دیکھیے سورة مومن (٦٠) ” جو شخص بھی غیبی مدد کے لیے کسی کو اللہ کے سوا پکارتا ہے وہ مشرک ہے، کیونکہ عبادت اسی پکارنے ہی کا نام ہے، بلکہ عبادت کی جتنی بھی صورتیں ہیں، یعنی قیام، رکوع، سجدہ، نذرو نیاز اور پکارنا وغیرہ، ان سب کا اصل مقصد اسے غیبی قوتوں کا مالک جان کر مانگنا ہی ہوتا ہے، کوئی اللہ کے ساتھ یہ معاملہ کرتا ہے تو اس سے مانگتا ہے، غیر اللہ کے ساتھ کرتا ہے تو اس سے مانگتا ہے۔ شَيْطٰنًا مَّرِيْدًا : بتوں، فرشتوں، دیوی دیوتاؤں اور دوسری ہستیوں کی عبادت کرنے والے اپنے خیال میں جس کی بھی عبادت کرتے رہیں حقیقت میں وہ سرکش شیطان ہی کی عبادت کر رہے ہیں، کیونکہ شیطان ہی انھیں اللہ کے دروازے سے ہٹا کر دوسروں کے آستانوں اور چوکھٹوں پر جھکاتا ہے، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔ جن لوگوں کی یہ پوجا کرتے ہیں، انھیں تو خبر ہی نہیں کہ کوئی ہمیں پکار رہا ہے۔ [ دیکھیے الأحقاف : ٥، ٦۔ یونس : ٢٨، ٢٩ ] یہ لوگ صرف شیطان کے کہنے پر اپنے وہم و گمان سے بنائی ہوئی ہستیوں کو پوج رہے ہیں۔ [ دیکھیے النجم : ٢٣۔ یونس : ٦٦ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنْ يَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اِنٰثًا۝ ٠ۚ وَاِنْ يَّدْعُوْنَ اِلَّا شَيْطٰنًا مَّرِيْدًا۝ ١١٧ۙ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ أنث الأنثی: خلاف الذکر، ويقالان في الأصل اعتبارا بالفرجین، قال عزّ وجلّ : وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثى [ النساء/ 124] ( ان ث) الانثی ( مادہ ) بہ ذکر یعنی نر کی ضد ہے اصل میں انثیٰ و ذکر عورت اور مرد کی شرمگاہوں کے نام ہیں پھر اس معنی کے لحاظ سے ( مجازا) یہ دونوں نر اور مادہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔{ وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى } ( سورة النساء 124) ۔ جو نیک کام کریگا مرد یا عورت (4 ۔ 124) شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو مرد قال اللہ تعالی: وَحِفْظاً مِنْ كُلِّ شَيْطانٍ مارِدٍ [ الصافات/ 7] والمارد والمرِيد من شياطین الجنّ والإنس : المتعرّي من الخیرات . من قولهم : شجرٌ أَمْرَدُ : إذا تعرّى من الورق، ومنه قيل : رملةٌ مَرْدَاءُ : لم تنبت شيئا، ومنه : الأمرد لتجرّده عن الشّعر . وروي : «أهل الجنّة مُرْدٌ» «4» فقیل : حمل علی ظاهره، وقیل : معناه : معرون من الشّوائب والقبائح، ومنه قيل : مَرَدَ فلانٌ عن القبائح، ومَرَدَ عن المحاسن وعن الطاعة . قال تعالی: وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة/ 101] أي : ارتکسوا عن الخیر وهم علی النّفاق، وقوله : مُمَرَّدٌ مِنْ قَوارِيرَ [ النمل/ 44] أي : مملّس . من قولهم : شجرةٌ مَرْدَاءُ : إذا لم يكن عليها ورق، وكأنّ المُمَرَّدَ إشارة إلى قول الشاعرفي مجدل شيّد بنیانه ... يزلّ عنه ظفر الظّافر ومَارِدٌ: حصن معروف وفي الأمثال : تَمرَّدَ ماردٌ وعزّ الأبلق قاله ملک امتنع عليه هذان الحصنان . ( م ر د ) المارد والمرید ۔ جنوں اور انسانوں سے اس شیطان کو کہاجاتا ہے جو ہر قسم کی خیر سے عاری ہوچکا ہو ۔ قرآن پاک میں ہے : وَحِفْظاً مِنْ كُلِّ شَيْطانٍ مارِدٍ [ الصافات/ 7] اور ہر شیطان سرکش سے اس کی حفاظت کے لئے ۔ یہ شجر امرد سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنی ہیں وہ درخت جس کے پتے نہ ہوں ۔ اور اسی سے رملۃ مرداء ہے یعنی ریت کا ٹیلہ جس پر کوئی چیز نہ اگتی ہو اور اس سے امرد اس نوجوان کو کہتے ہیں جس کے ہنوز سبزہ نہ اگاہو ۔ حدیث میں ہے اھل الجنۃ کلم مرد ) کہ اہل جنت سب کے سب امرد ہوں گے ۔ چناچہ بعض نے اس حدیث کو ظاہری معنی پر ہی حمل کیا ہے ۔ اور بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ دو ہر قسم کے عیوب سے پاک ہوں گے ۔ جیسے محاورہ ہے : مرد فلان عن القیائح فلاں ہر قسم کی قباحت سے پاک ہے ۔ مرر فلان عن المجاسن وہ محاسن سے عاری ہے ۔ مرر عن للطاعۃ ۔ سرکشی کرنا ۔ پس آیت کریمہ : وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة/ 101] ومن اھل المدینہ مردو ا عن النفاق کے معنی یہ ہیں ۔ کہ اہل مدینہ سے بعض لوگ ۔۔۔ نفاق پر اڑ کر ہر قسم کی خیر سے محروم ہوگئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : مُمَرَّدٌ مِنْ قَوارِيرَ [ النمل/ 44] شیشے جڑے ہونے کی وجہ سے ہموار ۔ میں ممرد کے معنی ہموار ی چکنا کیا ہوا کے ہیں ۔ اور یہ شجرۃ مردآء سے ماخوذ ہے ۔ گویا ممرد کے لفظ سے اس کی اس صفت کی طرف اشارہ ہے جسے شاعر نے یوں بیان کیا ہے ( سریع ) (406) فی مجلدل شید بنیانہ یزل عنہ ظفرا لطائر ایک مضبوط محل میں جس پر ایسا پلا سڑ لگا گیا ہے کہ اس سے پرند کے ناخن بھی پھسل جاتے ہیں ۔ مارد ایک مشہور قلعے کا نام ہے ۔ مثل مشہور ہے مرد مارد وعزالابلق۔ مارہ ( قلعہ ) نے سرکشی کی اور ابلق ( قلعہ ) غالب رہا ۔ یعنی وہ دونوں قلعے سر نہ ہوسکے ۔ یہ مقولہ ایک باشاہ کا ہے جو ان دونوں قلعوں کو زیر نہیں کرسکا تھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٧) اہل مکہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ لات، عزی، مناۃ ایسے بتوں کو پوجتے ہیں کہ جن میں کچھ بھی جان نہیں گویا یہ صرف شیطان کی پوجا کرتے ہیں جو کہ سخت قسم کا سرکش ہے اور جس کو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک خیر سے دور کردیا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٧ (اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اِنٰثًاج وَاِنْ یَّدْعُوْنَ الاَّ شَیْطٰنًا مَّرِیْدًا ) ُیہاں پہلی مرتبہ مشرکین مکہ کی بات بھی ہو رہی ہے۔ مشرکین مکہ نے اپنی دیویوں کے مؤنث نام رکھے ہوئے تھے ‘ جیسے لات ‘ منات ‘ عزیٰ وغیرہ۔ لیکن اصل میں نہ لات کا کوئی وجود ہے اور نہ ہی منات کی کچھ حقیقت ہے۔ البتہ شیطان ضرور موجود ہے جو ان کی پکار سن رہا ہے

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

145. No one sets up Satan as his 'god' in the sense that he makes him the object of his ritual worship and declares him to be God in so many words. The way to make Satan one's god is to entrust one's reins to him and let oneself be drawn helplessly in whichever direction he wants; the relationship between the two is, then, that of worshipper and worshipped. This shows that either absolute, unreserved obedience to or blind following of anybody is tantamount to 'worshipping' him, so that whoever indulges in this kind of absolute obedience is guilty of worshipping a 'god' other than the One True God.

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :145 شیطان کو اس معنی میں تو کوئی بھی معبود نہیں بناتا کہ اس کے آگے مراسم پرستش ادا کرتا ہو اس کو الوہیت کا درجہ دیتا ہو ، البتہ اسے معبود بنانے کی صورت یہ ہے کہ آدمی اپنے نفس کی باگیں شیطان کے ہاتھ میں دے دیتا ہے ۔ اور جدھر جدھر وہ چلاتا ہے ادھر ادھر چلتا ہے گویا کہ یہ اس کا بندہ ہے اور وہ اس کا خدا ، اس سے معلوم ہوا کہ کسی کے احکام کی بے چون وچرا اطاعت اور اندھی پیروی کرنے کا نام بھی عبادت ہے اور جو شخص اس طرح کی اطاعت کرتا ہے وہ دراصل اس کی عبادت بجا لاتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

70: کفار مکہ جن من گھڑت دیویوں کو پوجتے تھے ان سب کو مؤنث سمجھتے تھے، لات، منات، عزی سب کو مؤنث سمجھاجاتا تھا، نیز فرشتوں کو بھی وہ خدا کی بیٹیاں کہا کرتے تھے، آیت میں اشارہ یہ ہے کہ ایک طرف توکفار مکہ عورتوں کو کمتر مخلوق سمجھتے ہیں اور دوسری طرف جن کو اپنا خدا بنارکھا ہے وہ ان کے خیال کے مطابق سب مؤنث ہیں

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:117) ان نافیہ ہے۔ انثا عورتیں۔ انثی کی جمع ہے جس مے معنی عورت کے ہیں۔ معبودان باطل کو اناث کہا ہے کیونکہ مشرکین اپنے بتوں کو انواع و اقسام کے زیوروں سے آراستہ کرتے اور ان کو عورتوں کے نام سے نامزد کرتے تھے۔ جیسے لات، منات، عزی، نائلہ۔ یہ سب مؤنث نام ہیں۔ ضحاک کا بیان ہے کہ مشرکین فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بتاتے تھے اور مدعی تھے کہ ہم ان کو اس لئے پوجتے ہیں کہ یہ بارگاہ الٰہی میں ہمارے قرب کا موجب ہیں چناچہ انہوں نے خوبصورت شکل میں ان کے مجسمے تراشے اور کہا کہ یہ اللہ کی بیٹیوں کی شبیہ ہیں جن کی ہم پرستش کرتے ہیں ۔ قرآن میں ہے وجعلوا المئکۃ الذین ۔۔ انثا۔ اور انہوں نے فرشتوں کو جو کہ خدا کے بندے ہیں عورتیں قرار دیا۔ راغب اصفہانی فرماتے ہیں : معبود ان عرب (لات ، منات و عزی وغیرہ) چونکہ پیتھروں سے بنائے ہوئے تھے۔ اس لئے منجملہ جمادات تھے اور بقول حسن بصری (رح) جس کو ابن جریر اور حاتم نے نقل کیا ہے۔ بےجان چیز جس میں روح نہ پائی جائے۔ اناث میں شامل ہے لہٰذا یہ پتھر کے بت جو سرتاسر منفعل اور غیر فاعل ہیں۔ یعنی یہ اثر تو قبول کرلیتے ہیں لیکن مؤثر ہونے کی ان میں ذرا بھی اہلیت و قوت نہ ہے کیسے عبادت کے لائق ہوسکتے ہیں۔ مریدا۔ صفت مشبہ۔ سرکش۔ ہر خیر سے خالی۔ مارد۔ متمرد۔ اطاعت سے خارج۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 اناثا سے مراد یا تو بت ہیں جن کے نام (اللات منات عزی) سب مئو نث تھے اور یا فرشتے مراد ہیں جنہیں وہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ آیت میں غیر اللہ کے پکارنے کو شرک قرار دیا ہے۔ جو شخص بھی غیبی مدد کے لیے کسی کو اللہ کے سوا پکار تا ہے وہ مشرک ہے کیونکہ عبادت دراصل اسی پکارنے کا نام ہے۔ ( قرطبی۔ ابن کثیر)9 کیونکہ شیطان ہی نے انہیں بتوں یا فرشتوں کی پرستش پر لگایا ہے ْ ( قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ زنانی چیزوں سے مراد بعض بت ہیں جن کے نام اور صورتیں عورتوں کی سی تھیں اور ان کو زیور وغیرہ بھی پہناتے تھے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ یہاں شرک کی ایک اور قسم بیان کی گئی ہے۔ یہاں شرک کی حقیقت بیان کی گئی ہے کہ یہ لوگ دیویوں کی عبادت کرتے ہیں جو حقیقتاً شیطان کی عبادت کرنے کے مترادف ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے۔ دنیا میں سب سے پہلے شرک نوح (علیہ السلام) کی قوم میں پیدا ہوا۔ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے اپنے بزرگوں کے مجسمے تراشے ان میں سب سے بڑے بت کا نام سواع تھا سواع عورت کی شکل پر بنایا گیا اس کا معنی ہے ” انتظام و انصرام کرنے والی دیوی “۔ مشرکین مکہ لات، منات اور عزیٰ کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا وسیلہ بناتے تھے۔ یہ سب کے سب عورتوں کے نام ہیں۔ ہندؤوں اور بدھ مت کے مندروں میں جاکر ملاحظہ فرمائیں جن مورتیوں کو وہ اللہ کا اوتار سمجھتے ہیں ان کی شکلیں نہایت ہی پرکشش، جاذب نظر عورتوں کے مشابہ بنائی گئی ہیں۔ یونان میں بھی دیویوں کی پوجا ہوتی تھی اور بعض قومیں فرشتوں کی اس لیے عبادت کرتی ہیں کہ وہ ان کو اللہ تعالیٰ کی پاک اور خوبصورت بیٹیاں گردانتے ہیں۔ گویا کہ دنیا میں ہر دور کے مشرکوں کی اکثریت عورتوں کی پرستار رہی ہے۔ یہاں تک کہ عیسائی بھی حضرت مریم [ کو اللہ تعالیٰ کی بیوی یا ذات کبریا کا حصہ سمجھ کر اس کی عبادت کرتے ہیں۔ جس کی اللہ تعالیٰ نے یوں تردید فرمائی : اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمان کو کسی نمونے اور اسباب کے بغیر پیدا کرنے والا ہے لہٰذا اس کی اولاد اور بیوی کس طرح ہوسکتی ہے ؟ اس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور وہ سب کچھ جاننے والا ہے۔ [ الانعام : ١٠٢] سورة اخلاص میں بڑے سادہ اور مختصر الفاظ میں ہر قسم کے شرک کی تردید کی گئی ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو پکارنے والے عورتوں اور شیطان کو پکارتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن مشرک شیطان کی عبادت کرتا ہے : ١۔ اے بنی آدم ! شیطان کی عبادت نہ کرو۔ (یٰس : ٦٠) ٢۔ آزر کو شیطان کی عبادت نہ کرنے کی تلقین۔ (مریم : ٤٤) بتوں کے نام عورتوں کے نام پر : ١۔ مشرک ملائکہ کو اللہ کی بیٹیاں سمجھ کر عبادت کرتے ہیں۔ (النجم : ٢٨) ٢۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے دور کے بتوں کے نام۔ (نوح : ٢٣) ٣۔ مشرکین مکہ کے بتوں کے نام۔ (النجم : ١٩، ٢٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ١١٧ تا ١٢٠ ، دور جاہلیت میں عرب یہ سمجھتے تھے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں ۔ پھر وہ ان فرشتوں کی مورتیاں بنانے اور ان کے نام عورتوں کے ناموں سے رکھتے ۔ لات ‘ عزی اور منات وغیرہ ۔ پھر وہ ان بتوں کو پوجتے تھے اور پوجتے اس لئے تھے کہ یہ اللہ کی بیٹیوں کے بت ہیں ۔ یوں وہ بارگاہ الہی میں ان کو تقرب کا ذریعہ بناتے تھے ۔ ابتداء میں اس طرح انہوں نے شرک کا آغاز کیا تھا ۔ اس کے بعد انہوں نے اس کہانی کیا اصلیت کو بھلا دیا اور ان بتوں کی پوجا بذاتہ کرنے لگے ۔ اس کے بعد جب مزید آگے بڑھے تو مطلق پتھروں کی پوجا شروع کردی۔ پارہ چہارم میں ہم نے اس کی کچھ تفصیلات دی ہیں۔ ان میں سے بعض بذات خود شیطان کے بھی پجاری تھے ۔ یہ آیت اس بارے میں نص ہے ۔ کلبی کہتے ہیں کہ خزاعہ کی شاخ بنو ملیح جنوں کی پوجا کرتے تھے ۔ لیکن اس آیت کا مفہوم بڑا وسیع ہے ‘ اس طرح کہ وہ اپنے شرک میں شیطان کو پکارتے تھے اور اس سے امداد طلب کرتے تھے اور شیطان کا قصہ ان کے دادا آدم کے ساتھ مشہور تھا جسے اللہ نے ملعون قرار دیا تھا ۔ اس لئے کہ اس نے انسان کے ساتھ اپنی دشمنی کا اعلان کردیا تھا ۔ جب اللہ تعالیٰ نے اسے راندہ درگاہ کیا تو اسے انسان پر بہت غصہ آگیا اور وہ اس کا سخت دشمن بن گیا اس نے اللہ سے مہلت مانگی کہ وہ اسے موقعہ دے کہ جو اللہ کے محفوظ قلعے میں پناہ نہیں لیتا وہ اسے گمراہ کرسکے ۔ (آیت) ” ان یدعون من دونہ الا انثا وان یدعون الا شیطان مریدا۔ (١١٧) لعنہ اللہ وقال لاتخذن من عبادک نصیبا مفروضا (١١٨) ولاضلنھم ولا منینھم ولامرنھم فلیبتکن اذان الانعام ولامرنھم بلیغیرن خلق اللہ “۔ (١١٩) (٤ : ١١٧ تا ١١٩) (وہ اللہ کو چھوڑ کر دیویوں کو معبود بناتے ہیں ۔ وہ اس باغی شیطان کو معبود بناتے ہیں جس کو اللہ نے لعنت زدہ کیا ہے ۔ (وہ اس شیطان کی اطاعت کر رہے ہیں) جس نے اللہ سے کہا تھا کہ ” میں تیرے بندوں سے ایک مقرر حصہ لے کر رہوں گا ۔ میں انہیں بہکاؤں گا ‘ میں انہیں آرزوؤں میں الجھاؤں گا ‘ میں انہیں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے جانوروں کے کان پھاڑیں گے اور میں انہیں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے خدائی ساخت میں ردوبدل کریں گے ۔ یہ لوگ شیطان کو پکارتے ہیں جو ان کا قدیمی دشمن ہے ۔ وہ ہدایات لیتے ہیں اور اس گمراہی میں اس سے امداد لیتے ہیں ‘ حالانکہ یہ شیطان وہ ذات ہے جس پر اللہ نے لعنت بھیجی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے تصریح کردی ہے کہ اس کا ارادہ یہ ہے کہ وہ بنی آدم کے ایک بڑے حصے کو گمراہ کر کے رہے گا ۔ انہیں جھوٹی تمناؤں اور جھوٹی خواہشات کا گرویدہ بنا دے گا ۔ وہ جھوٹی لذتوں ‘ موہوم کامیابیوں اور آخرت کی خوش آئندہ امیدوں میں گم رہیں گے ۔ نیز وہ شیطان جس نے اعلانیہ اپنے اس ارادے کا اظہار کیا تھا کہ وہ ان انسانوں سے نہایت ہی قبیح اور احمقانہ حرکات کا صدور کرائے گا ۔ وہ نہایت ہی بودے تصورات کے قائل ہوں گے اور محض قصے کہانیوں پر دین کا فیصلہ کریں گے ۔ مثلا یہ کہ وہ بعض جانوروں کے کان پھاڑ کر کہیں گے کہ اب اس پر سواری حرام ہے یا ان کا گوشت کھانا حرام ہے حالانکہ اللہ نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا نیز وہ فطرت انسانی اور خلق الہی میں بےجا تغیرات کریں گے مثلا جسم کے بعض اجزاء کاٹیں گے ۔ انسانوں اور حیوانوں کی شکلیں بدلیں گے مثلا غلاموں کو خصی کریں گے اور ان کے چمڑے پر نشانات بنائیں گے ۔ غرض یہ اور تمام دوسرے غیر فطری افعال وحرکات جس کی اجازت فطرت سلیمہ اور اسلام دونوں نہیں دیتے ۔ انسان کا یہ شعور کہ اس کا قدیم دشمن شیطان ہی شرک اور شرکیہ نظریات کا داعی ہے اور ہی ہے جو بت پرستی کی طرف لوگوں کو آمادہ کرتا ہے ‘ انسان کو کم ازکم ان کی کانا پھوسی سے محتاج کردیتا ہے جو دشمن کی طرف سے ہوتی ہے ۔ اسلام نے زندگی کی اس جنگ کو انسان اور شیطان کے درمیان ایک معرکہ قرار دیا ہے ۔ اور انسان کی پوری قوتوں کو اس طرف متوجہ کیا کہ وہ اس جنگاہ میں شیطان اور اس کرہ ارض پر اس کی پیدا کردہ تمام شرارتوں کے خلاف جدوجہد کریں ۔ وہ اللہ اور حزب اللہ کے جھنڈے کے نیچے جمع ہوں کیونکہ انسان اور شیطان کے درمیان برپا یہ معرکہ ایک دائمی جنگ کا اعلان کیا تو وہ اس جنگ میں تھکتا ہی نہیں ہے ۔ مومن بھی اس سے غافل نہیں ہوتا ‘ نہ مومن اس جنگ سے باہر آسکتا ہے ‘ اس لئے کہ اسے معلوم ہے کہ اس جنگ میں یا تو وہ اللہ کا وہی ہوگا یا وہ شیطان کا دوست ہوگا ۔ اس کے درمیان کوئی تیسرا موقف سرے سے ہے ہی نہیں ۔ شیطان کی ٹیکنیک یہ ہے کہ وہ انسان کے دلوں میں شہوت اور لذت اور عیش وطرب پیدا کرتا ہے ۔ پھر یہ اپنا کام مشرکین اور شرپسندوں اور عیاشوں کے روپ میں کرتا ہے ۔ ایک مسلمان اپنی ذات اور اپنے ہمراہیوں کے ساتھ اس کے مقابلے میں آتا ہے اور پوری زندگی کے اندر یہ طویل اور نہ ختم ہونے والی جنگ جاری رہتی ہے ۔ جو شخص اپنا مددگار اللہ کو بنا لے وہ کامیاب ہوجاتا ہے اور جو شخص شیطان کا ساتھی اور مددگار بن جاتا ہے اور شیطان اس کی امداد کرتا ہے تو وہ ہلاک ہوجاتا ہے ۔ (آیت) ” ومن یتخذ الشیطن ولیا من دون اللہ فقد خسر خسرانا مبینا “۔ (٤ : ١١٩) (شیطان کو جس نے اللہ کے بجائے اپنا ولی و سرپرست بنا لیا وہ صریح نقصان میں پڑگیا) قرآن کریم شیطان کے اس کردار کی بھی تصویر کشی کرتا ہے جو وہ اپنے ساتھیوں کے حوالے سے ادا کرتا ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے کہ گمراہ کرنے میں اس کا طریقہ واردات کیا ہے ؟ (آیت) ” یعدھم ویمنیھم وما یعدھم الشیطن الا غرورا (٤ : ١٢٠) (وہ ان لوگوں سے وعدے کرتا ہے اور انہیں امیدیں دلاتا ہے ‘ مگر شیطان کے سارے وعدے بجز فریب کے اور کچھ نہیں ہیں ۔ ) شیطان کا طریقہ گمراہی یہ ہے کہ وہ انسان کے برے اعمال کو اس کی نظروں میں بہت ہی خوشنما بنا دیتا ہے ۔ یہ کام وہ نہایت ہی فریب کاری سے کرتا ہے ۔ وہ یہ باور کراتا ہے کہ طریق معصیت میں ہی اس کا فائدہ اور دنیوی اور اخروی کامیابی ہے اس طرح انسان شیطان کے ساتھ رفاقت اختیار کرلیتا ہے ۔ وہ اسے باور کراتا ہے کہ ان اعمال کے نتیجے میں اس کو نجات حاصل ہوگی اور یوں انسان خوشی خوشی ہلاکت کی طرف بڑھتا ہے ۔ حالانکہ (آیت) ” ( وما یعدھم الشیطن الا غرورا (٤ : ١٢٠) (شیطان کا وعدہ محض فریب ہوتا ہے ۔ جب شیطان کا طریقہ واردات کی اس قدر واضح انداز میں تصویر کشی کے باوجود یہ ازلی دشمن اپنے پھندے پھیلاتا ہے اور جال بچھاتا ہے اور شکار کو آہستہ آہستہ اس کی طرف ہانکتا ہے ‘ تو اس کے جال اور پھندے میں وہی لوگ پھنستے ہیں جن کی فطرت بدل چکی ہو اور ان کے نفس سے صلاح کے تمام آثار مٹائے جاچکے ہوں ۔ ایسے ہی لوگ مدہوش اور خفتہ ہوتے ہیں اور یہ بات نہیں سوچتے کہ انہیں کس راہ پر چلایا جارہا ہے اور کس فریب میں ان کو پھنسایا جارہا ہے ۔ اہل ہدایت کو بیدار کرنے کے لئے جو ٹچ دیا جا رہا تھا ‘ وہ کام ہی کر رہا تھا اور را ہوار خیال اس معرکے کی نوعیت کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک ہی ان لوگوں کا انجام سامنے آجاتا ہے جن کو شیطان نے اپنے پھندے میں پھنسا لیا ہوتا ہے اور جن کو اس نے اپنے منصوبے کے بارے میں پختہ یقین دہانی کرائی ہوتی ہے اور جن پر اس کا اعلان کردہ جادو چل چکا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کا انجام بھی اسکرین پر آتا ہے جو شیطان کے پھندے سے نکل گئے ‘ اس لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر صحیح طرح ایمان لا چکے تھے ۔ اور جن لوگوں کا ایمان پختہ ہوتا ہے وہ شیطان کے پھندے سے محفوظ ہوتے ہیں ‘ اس لئے کہ شیطان کو اللہ نے ملعون قرار دیا ہے اور اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے جب اسے لوگوں کے اغوا کرنے اور گمراہ کرنے کا موقعہ دیا تھا تو اس وقت ہی اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ دیا تھا کہ میرے مخلص بندوں کا تم کچھ نہ بگاڑ سکو گے ۔ چناچہ وہ ہمیشہ اللہ کے مخلص بندوں کے معاملے میں کمزور رہا ۔ جب تک انہوں نے اللہ کی راسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھا ۔ ذرا غور فرمائیے ! (آیت) ” ومن یتخذ الشیطن ولیا من دون اللہ فقد خسر خسرانا مبینا “۔ (١١٩) یعدھم ویمنیھم وما یعدھم الشیطن الا غرورا (٤ : ١١٩۔ ١٢٠) ( ” جس نے شیطان کو جس نے اللہ کے سوا الہ بنا لیا وہ صریح گھاٹے میں رہا ، وہ ان لوگوں سے وعدے کرتا ہے اور انہیں امیدیں دلاتا ہے ‘ مگر شیطان کے سارے وعدے بجز فریب کے اور کچھ نہیں ہیں ۔ )

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکین مورتیوں کی پوجا کرتے ہیں اور شیطان کے فرمانبر دار ہیں اوپر شرک کا ذکر تھا ان آیات کی بعض صورتوں کا تذکرہ فرمایا ہے۔ شرک اور کفر اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا ہر کام یہ سب شیطان کے سمجھانے سے اور اس کی راہ بتانے سے وجود میں آتا ہے۔ شیطان نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا تھا کہ آدم کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے جو مجھے گمراہ قرار دیا ہے تو میں بنی آدم سے اس کا بدلہ لے لوں گا۔ بنی آدم کا ایک بہت بڑا حصہ اپنی طرف لگا لوں گا تھوڑے بہت ہی لوگ بچیں گے۔ اکثر لوگوں کو اپنی اطاعت پر ڈال دوں گا، جب حضرت آدم (علیہ السلام) دنیا میں آئے اور ان کی ذریت پھیلنی شروع ہوئی اور شیطان مردود بھی دنیا میں آگیا جو اپنی سرکشی کی وجہ سے راندۂ درگاہ ہوچکا تھا تو اس نے انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر ڈالنا شروع کردیا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اور توحید چھڑا کر کفر اور شرک پر لگا دیا۔ بتوں کی پوجا کرنے کی تعلیم دی اور بتوں کے نام بتائے اور ان کے زنا نے نام رکھوائے۔ اہل عرب نے بت تراش رکھے تھے ان میں لات اور منات اور عزیٰ کے نام معروف و مشہور ہیں یہ سب نام نسوانی ہیں یعنی ان کے لفظوں میں تانیث ہے۔ ہندوستان کے مشرکین میں جیسے کالی دیوی اور درگی وغیرہ مشہور ہیں ایسے ہی عربوں میں بتوں کے زنانے نام تھے۔ یہ سب شیاطین کے بنائے ہوئے اور بتائے ہوئے بت ہیں۔ ان بتوں کو سجدے بھی کرتے ہیں ان کی نذریں بھی مانتے ہیں اور ان کے نام پر جانور بھی چھوڑ تے ہیں اور نشانی کے لیے ان کے کان چیر دیتے ہیں یا کانوں میں سوراخ کردیتے ہیں تاکہ یہ نشانی رہے کہ یہ بت کے نام پر چھوڑا ہوا ہے۔ جو کچھ شیطان نے کہا تھا اس نے بنی آدم سے وہ سب کچھ کروا لیا۔ اکثر بنی آدم نے دشمن کی بات مان لی اور خالق ومالک جل مجدہٗ کی ہدایت پر عمل نہ کیا۔ شرک اختیار کرلیا توحید سے منہ موڑ لیا۔ کانوں کا چیرنا اور سوراخ کرنا بہت سے نام نہاد مسلمانوں میں بھی ہے بچوں کے کانوں کو چھید دیتے ہیں، ان میں کوئی بندہ وغیرہ ڈال دیتے ہیں اور اس کا نام بندو رکھ دیتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے بچہ زندہ رہے گا۔ جو قومیں ظاہری طور پر اسلام میں داخل ہوئیں اور اسلام کو پڑھا اور سمجھا نہیں ان لوگوں میں دین سابق کے شرک کے اثرات باقی رہ گئے۔ قبروں کی پرستش بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بتوں کو چھوڑ کر قبروں پر شرک کرنے لگے۔ یہی قبر پرست اگر ان سے بت کو سجدہ کرنے کے لیے کہا جائے تو کبھی نہ کریں گے، اور قبروں کو سجدہ کرنے میں کچھ حرچ نہیں سمجھتے حالانکہ غیر اللہ ہونے میں دونوں برابر ہیں۔ تغییر خلق اللہ : ابلیس نے یہ بھی کہا (وَ لَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ ) کہ میں بنی آدم کو سکھاؤں گا کہ اللہ کی پیدا کی ہوئی صورتوں کو بدل ڈالیں شیطان اس کی بھی تعلیم دیتا ہے اور لوگ اس کی تعلیم پر عمل کرتے ہیں۔ اس کی بہت سی صورتیں ہیں جو بنی آدم میں رواج پائے ہیں، مشہور ترین تو یہی ہے کہ ڈاڑھیاں مونڈی جاتی ہیں آج کی دنیا میں شاید ہی کوئی گھر ایسا خالی ہو جس میں ڈاڑھی نہ مونڈی جاتی ہو اس کے علاوہ گودنا بھی رواج پذیر ہے سوئی سے گود کر رنگ بھر دیتے ہیں۔ اس سے جسم پر کئی طرح کی تصویریں بنا لیتے ہیں۔ ہندوؤں میں تو گود نے کا بہت زیادہ رواج ہے مگر مسلمان بھی گودنے کا کام کرتے ہیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا کہ : لَعَنَ اللّٰہُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَیِّرَاتِ خَلْقَ اللّٰہِ (یعنی اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو گودنے والیوں پر اور گدوانے والیوں پر اور ان عورتوں پر جو (ابرو یعنی بھوؤں کے بال) چننے والی ہیں (تاکہ بھویں باریک ہوجائیں) اور خدا کی لعنت ہو ان عورتوں پر جو حسن کے لیے دانتوں کے درمیان کشادگی کراتی ہیں جو اللہ کی خلقت کو بدلنے والی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی یہ بات سن کر ایک عورت آئی اور ان سے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ اس طرح کی عورتوں پر لعنت بھیجتے ہیں ؟ فرمایا کہ میں ان لوگوں پر کیوں لعنت نہ بھیجوں جن پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت بھیجی، اور جن پر اللہ کی کتاب میں لعنت آئی ہے۔ وہ عورت کہنے لگی کہ میں نے سارا قرآن پڑھ لیا مجھے تو یہ بات کہیں نہ ملی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا کہ اگر تو نے قرآن پڑھا ہوتا تو تجھے ضرور یہ بات مل جاتی کیا نے نے یہ نہیں پڑھا (وَمَا آتَاکُمْ الرَّسُوْلُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا) (اور رسول تم کو جو (ہدایت) دے اسے قبول کرلو اور جس چیز سے روکے اس سے رک جاؤ) ۔ یہ سن کر وہ عورت کہنے لگی کہ ہاں یہ تو قرآن میں ہے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا کہ میں نے جن کاموں کے کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کاموں سے منع فرمایا ہے۔ لہٰذا قرآن کی رو سے بھی ان کاموں کی ممانعت ثابت ہوئی کیونکہ قرآن نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن باتوں کا حکم دیں ان پر عمل کرو اور جن چیزوں سے روکیں ان سے رک جاؤ۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٢٨١) کسی انسان کو خصی کرنا یا خود خصی ہونا یہ بھی تغییر خلق اللہ میں شامل ہے جو شرعاً ممنوع ہے، فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لیس منامن خصی ولا اختصیٰ وہ ہم میں سے نہیں ہے جو کسی کو خصی کرے اور جو خود خصی ہو۔ (رواہ فی شرح السنۃ کمافی المشکوٰۃ صفحہ ٦٩) ختنہ کرنا اور ناخن کاٹنا اور جن بالوں کو صاف کرنے کا شرعاً حکم دیا گیا، جیسے بغلوں کے بال وہ حکم شرعی ہونے کی وجہ سے اس تغیر میں داخل نہیں جس کا شیطان نے حکم دیا ہے بلکہ بعض قوموں کو تو اس نے ان جگہوں کے بالوں کو بڑھانے کا بھی حکم دے رکھا ہے جیسے کہ سکھ کرتے ہیں ہر مسلمان پر لازم کہ اللہ کے حکم پرچلے۔ شیطان مردود سے دوستی کرنے والے کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ صریح نقصان میں چلا گیا اور یہ نقصان آخرت کا عذاب ہے جو شیطان کی دوستی کے نتیجے میں ہمیشہ بھگتنا پڑے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

84 یعنی بظاہر تو فرشتوں اور بزرگوں کی موتیوں کو پکارتے اور ان پر نذریں نیازے چڑھاتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ سب کچھ وہ شیطان کیلئے کر رہے ہیں جو ان مورتیوں سے بولتا ہے کان یدخل فی اجواف الاصنام فیتکلم واعیھا (بحر ج 3 ص 352) یہاں تک شرک اعتقادی کی نفی تھی وقال لا تخذن من عبادک نصیبا مفروضا۔ یہاں سے شرک فعلی کی نفی کی گئی ہے۔ نَصِیْباً مَّفْرُوْضاً مقررہ حصہ یعنی میں تیرے بندوں کو ایسا گمراہ کروں گا کہ وہ شرک کرنے لگیں گے اور اپنے مالوں سے مقررہ حصے غیر اللہ کی نیازوں کے نکالیں گے (شاہ عبدالقادر) ۔ فَلْیُبَتِّکُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ الخ یعنی وہ غیر اللہ کی خوشنودی کے لیے جانور چھوڑیں گے اور بحیرے سائبے وغیرہ بنائیں گے اور بطور علامت ان کے کانوں میں شگاف کردیں گے ای احملھم علی قطع اٰذان البحیرۃ و السائبۃ ونحوہ (قرطبی ج 5 ص 389) فَلَیُغَّیِّرُنَّ خَلْقَ اللہِ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں۔ خَلْقَ اللہ سے مراد اللہ کا دین ہے اور تغیر سے حلال کو حرام کرنا اور حرام کو حلال کرنا مراد ہے۔ قال ابن عباس یعنی دین اللہ و تغییر دین اللہ ھو تحلیل الحرام و تحریم الحلال (خازن ج 1 ص 499) یہاں تک شرف فعلی کی نفی تھی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi