Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 140

سورة النساء

وَ قَدۡ نَزَّلَ عَلَیۡکُمۡ فِی الۡکِتٰبِ اَنۡ اِذَا سَمِعۡتُمۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ یُکۡفَرُ بِہَا وَ یُسۡتَہۡزَاُ بِہَا فَلَا تَقۡعُدُوۡا مَعَہُمۡ حَتّٰی یَخُوۡضُوۡا فِیۡ حَدِیۡثٍ غَیۡرِہٖۤ ۫ ۖاِنَّکُمۡ اِذًا مِّثۡلُہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ جَامِعُ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ الۡکٰفِرِیۡنَ فِیۡ جَہَنَّمَ جَمِیۡعَۨا ﴿۱۴۰﴾ۙ

And it has already come down to you in the Book that when you hear the verses of Allah [recited], they are denied [by them] and ridiculed; so do not sit with them until they enter into another conversation. Indeed, you would then be like them. Indeed Allah will gather the hypocrites and disbelievers in Hell all together -

اور اللہ تعالیٰ تمہارے پاس اپنی کتاب میں یہ حکم اتار چکا ہے کہ تم جب کسی مجلس والوں کو اللہ تعالٰی کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے اور مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع میں ان کے ساتھ نہ بیٹھو! جب تک کہ وہ اس کے علاوہ اور باتیں نہ کرنے لگیں ، ( ورنہ ) تم بھی اس وقت انہی جیسے ہو یقیناً اللہ تعالٰی تمام کافروں اور سب منافقوں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ ايَاتِ اللّهِ يُكَفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَ تَقْعُدُواْ مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُواْ فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ ... And it has already been revealed to you in the Book that when you hear the verses of Allah being denied and mocked at, then sit not with them, until they engage in talk other than that; certainly in that case you would be like them. The Ayah means, if you still commit this prohibition after being aware of its prohibition, sitting with them where Allah's Ayat are rejected, mocked at and denied, and you sanction such conduct, then you have participated with them in what they are doing. So Allah said, (But if you stayed with them) إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ (certainly in that case you would be like them), concerning the burden they will earn. What has already been revealed in the Book -- as the Ayah says -- is the Ayah in Surah Al-An`am, which was revealed in Makkah, وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِى ءَايَـتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ And when you see those who engage in false conversation about Our verses (of the Qur'an) by mocking at them, stay away from them. (6:68) Muqatil bin Hayyan said that; this Ayah (4:140) abrogated the Ayah in Surah Al-An`am, referring to the part that says here, إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ ((But if you stayed with them) certainly in that case you would be like them), and Allah's statement in Al-An`am, وَمَا عَلَى الَّذِينَ يَتَّقُونَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَىْءٍ وَلَـكِن ذِكْرَى لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ Those who fear Allah, keep their duty to Him and avoid evil, are not responsible for them (the disbelievers) in any case, but (their duty) is to remind them, that they may have Taqwa. (6:69) Allah's statement, ... إِنَّ اللّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا Surely, Allah will collect the hypocrites and disbelievers all together in Hell. means, just as the hypocrites participate in the Kufr of disbelievers, Allah will join them all together to reside in the Fire for eternity, dwelling in torment, punishment, enchained, restrained and in drinking boiling water.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

140۔ 1 یعنی منع کرنے کے باوجود اگر تم ایسی مجلسوں میں جہاں آیات الٰہی کا استہزاء کیا جاتا ہو بیٹھو گے اور اس پر نکیر نہیں کرو گے تو پھر تم بھی گناہ میں ان کے برابر ہوگئے۔ جیسے ایک حدیث میں آتا ہے ' جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اس دعوت میں شریک نہ ہو جس میں شراب کا دور چلے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایسی مجلسوں اور اجتماعات میں شریک ہونا، جن میں اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کا قولاً یا عملاً مذاق اڑایا جاتا ہو جیسے آجکل کے امراء، فیشن ایبل اور مغرب زدہ حلقوں میں بالعموم ایسا ہوتا ہے، سخت گناہ ہے (اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُھُمْ ۭ ) 004:140 کی وعید قرآنی اہل ایمان کے اندر کپکپی طاری کردینے کے لئے کافی ہے بشرطیکہ دل کے اندر ایمان ہو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨٦] یہ حکم مکہ میں سورة انعام کی آیت نمبر ٦٨ میں نازل ہوا تھا جو یہ تھا کہ & جو لوگ ہماری آیات میں کج بحثیاں کرتے ہیں آپ ان سے الگ رہیے تاآنکہ وہ کسی دوسری بات میں لگ جائیں اور اگر کبھی شیطان آپ کو یہ بات بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھو۔ & یعنی جو لوگ ایسی مجالس میں بیٹھیں جہاں علانیہ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تضحیک اور استہزاء کیا جا رہا ہو یا سرے سے انکار ہی کیا جا رہا ہو اور وہ ایسی باتیں ٹھندے دل سے سن کر وہیں بیٹھے رہیں اور ان کی غیرت ایمانی کو ذرا بھی حرکت نہ ہو تو ان میں اور ان کافروں میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ ایسی صورت میں ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اپنی ناراضگی کا اظہار کر دے، ان کی زبانیں بند کر دے اور اگر دلائل سے انہیں حق بات کا قائل کرسکتا ہو تو ضرور کرے اور اگر یہ دونوں کام نہیں کرسکتا تو کم از کم خود وہاں سے اٹھ کر چلا جائے۔ چناچہ آپ نے فرمایا & تم میں سے جو شخص کوئی برا (خلاف شرع) کام ہوتا دیکھے تو اسے چاہیے کہ بزور بازو اسے مٹا دے اور اگر وہ ایسا نہیں کرسکتا تو زبان سے ہی منع کر دے اور اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو کم از کم دل میں ہی اسے برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور تر درجہ ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب کون النہی عن المنکر من الایمان) اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ اگر دل میں بھی برا نہ جانے تو سمجھ لے کہ اس میں رائی برابر بھی ایمان نہیں۔ واضح رہے کہ سورة انعام مکہ میں نازل ہوئی تھی اور مکہ میں اللہ کی آیات کا تمسخر اڑانے والے کفار مکہ تھے اور یہ سورة نساء مدینہ میں نازل ہوئی، یہاں اللہ کی آیات کا تمسخر اڑانے والے یہود مدینہ اور منافقین تھے گویا اللہ کے رسولوں، اور اللہ کی آیات کا مذاق اڑانا ہر طرح کے کافروں کا پرانا دستور ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتٰبِ اس سے پہلے سورة انعام (٦٨) میں یہ حکم نازل ہوچکا تھا، چناچہ فرمایا : ” اور جب تو ان لوگوں کو دیکھے جو ہماری آیات کے بارے میں (فضول) بحث کرتے ہیں تو ان سے کنارہ کر، یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ بات میں مشغول ہوجائیں اور اگر کبھی شیطان تجھے ضرور ہی بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھ۔ “ [ الأنعام : ٦٨ ] حدیث میں ایسی مجلس میں بیٹھنے سے بھی منع کیا گیا ہے جہاں اللہ کے حکم کی صریح نافرمانی ہو، چناچہ فرمایا : ” جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اس دسترخوان پر نہ بیٹھے جس پر شراب کا دور چلتا ہو۔ “ [ أحمد : ١؍٢٦، ح : ١٢٦، و حسنہ الألبانی فی غایۃ المرام ] ایسے واضح احکام کے باوجود منافقین کی یہ روش تھی کہ مسلمانوں کی مجلسوں کو چھوڑ کر یہودیوں اور مشرکوں کی مجلسوں میں شریک ہوتے جہاں آیات الٰہی کا مذاق اڑایا جاتا۔ زیر تفسیر آیت میں ان کی اسی روش کی طرف اشارہ ہے، ویسے آیت عام ہے اور ہر ایسی مجلس میں شرکت حرام ہے جہاں قرآن و سنت کا مذاق اڑایا جاتا ہو، چاہے وہ کفار و مشرکین کی مجلس ہو یا اہل بدعت اور فساق و فجار کی۔ جب برائی کو ہاتھ سے بھی نہ روک سکے، نہ زبان سے تو پھر خاموش بیٹھ کر سنتے رہنا اور دل میں برا بھی نہ جاننا تو کمزور ترین ایمان کے بھی منافی ہے، بلکہ فرمایا ” تم بھی اس وقت ان جیسے ہو گے۔ “ اسی لیے شاہ عبد القادر (رض) نے فرمایا : ” جو شخص ایک مجلس میں اپنے دین کے عیب سنے، پھر انھی میں بیٹھے، اگرچہ آپ نہ کہے وہی منافق ہے۔ “ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the third verse (140): وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ (... and He has revealed to you in the Book), by referring to another verse of the Holy Qur&an which had already been revealed& as a verse of the Surah al-An&-am before the event of Hijrah in Makkah al-Mukkarrmah, it has been re-emphasized that Allah had sent, much earlier, the command that they should not even sit in the company of disbelievers and sinners. Now, surprising as it is, these heedless people have gone much beyond that by establishing friendly relations with them assuming that they were the bearers of honour and the wielders of power in their own right. The verse of Surah al-Nisa& under discussion (140) and the verse of Surah al-An&-am (68) which has been referred to in the Surah al-Nis-a& both carry the same sense. That is, should some people sitting in a group be engaged in denying and deriding the verses revealed by Allah, then, as long as they stay occupied with this vain exercise, sitting in their company to participate or observe is also forbidden (haram). However, the words of Surah a1-An` am have some generaliza¬tion, and a little more detail for it says: وَإِذَا رَ‌أَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِ‌ضْ عَنْهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِ‌هِ ۚ وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَ‌ىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿٦٨﴾ And when you see those who indulge in Our verses adversely, turn away from them, until such time that they may get busy with some subject other than that. And if Satan makes you forget, do not sit with the unjust people after the recollection. (6:68) Here, in the verse cited above, the reference is to disputation in Divine verses which includes disbelief and mockery as well. Also included here is the act of distorting the meaning of a verse, that is, deducing such meanings from the verses of the Holy Qur&an which are contrary to the tafsir or explanation given by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and his blessed Companions, or are against the consensus of the Muslim Community. Therefore, Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) as reported by Dahhak, has said that included within the sense of this verse are those who explain the Qur&an (tafsir) erroneously or distort its meaning تَحرِیف (tahrif) or invent what is not there (bid&ah). The actual words of this report are being given below: دَخَلَ فِی ھٰذ، ہِ الاٰیَۃ، کُلُّ مُحدِّثِ فِی الِّدینِ ، وَ کُلُّ مُتدِ (علیہ السلام) عِ اِلٰی یَوم القِیٰمَۃِ (Mazhari, p.263, v.2) The impermissibility of listening to opinion-based explanations of the Holy Qur&an: From here we find out that a person who, while talking, explaining or teaching the Holy Qur&an, is not observant of the exegetical authen¬ticity credited to the most righteous elders of the early period (i.e. the Companions of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) or their pupils) instead, indulges in giving meanings of the Qur&an contrary to those stated by them, then, participation in the درس Dars (teaching sessions) or Tafsir (Exegesis) of such a person shall be impermissible under the authority of the Qur&an, being a sin rather than a source of reward. In Tafsir al-Bahr al-Muhit, Aba Hayyan has said: These verses tell us that what is sinful to say verbally remains equally sinful when heard through the ears voluntarily. He has even put it in a poetic exhortation: وَ سَمعَکَ صُن عَن سِمَاعَ القَبیِح کَصَونِ اللِّسَانِ عَنِ النُّطقِ بِہِ Protect your ears from hearing the evil As you protect your tongue from saying it. After looking at the element of some generalization in the verse of Surah al-An’ am, we can now turn to the other element of additional remarks about the possibility of someone having joined the company of such people unknowingly. In that case, once it is realised, the person should immediately leave that gathering. The point is that one should not sit with unjust people when alerted to the situation. Now, in both verses of Surah al-Nis-a& and Surah al-An’ am it has been declared that as long as they remain occupied with their cross-comments, sitting in their company is forbidden. Here, we face another aspect of the problem which is: When they stop talking in that partic¬ular strain and digress to some other topic, would sitting with them and taking part in mutual discourse at that time become permissible, or not? The Qur&an has elected not to be explicit on this situation, therefore, on this subject, there is a difference of views among scholars. Some have said that the reason for this prohibition was the disparagement and distortion of Divine verses - when that stopped, the prohibition stopped too. Therefore, once they start talking about something else, sitting in their company is no sin. Some others have said that (sitting in) the company of such disbelieving, sinning and unjust people is not correct even after that. This is the position taken by Hasan al-Basri, may the mercy of Allah be upon him, the argument in support of his position comes from the following sentence of Surah al-An&am: فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَ‌ىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ. It means: Once you remember, do not sit with the unjust people. It is obvious that an unjust person remains what he is even after having terminated the questionable conversation. Therefore, abstaining from sitting in his company is necessary. (Jasas) Qadi Thanaullah Panipati has, in his al-Tafsir al-Mazhari, found consistency in both views by saying that should comments laced with disbelief, mockery and distortion of the Qur&an cease and be replaced by some other topic of conversation, then, even at that time, sitting unnecessarily in the company of such people shall, after all, remain forbidden. But, should such participation be prompted by some relig¬ious contingency or physical need, it would be permissible. Seclusion is better than bad company Imam Abu Bakr al-Jassas (رح) has said in Ahkam al-Qur&an: Should a Muslim, who is charged with the duty of forbidding the evil, witness sin being committed in a gathering, then, he should stop it by force, if he has the strength to do that. And should he be lacking in this capa¬bility, then, he should, in the least, show his displeasure, the lowest degree of which is that he should rise and leave such company. This is the reason why Sayyidna ` Umar ibn ` Abdul-` Aziz had some people arrested on the charge that they were drinking wine. On investigation, it was found that one of them was fasting. He did not drink the wine, but he was sitting in the company of those drunkards. Sayyidna ` Umar ibn ` Abdul-` Aziz punished him too for his unexplained sitting in that sort of company. (al-Bahr al-Muhit p.375, v.3) It is useful to know that Ibn Kathir has reported at this point in his Tafsir the following hadith from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) where he has said: مَن کَانَ یُؤمِنُ بِاللہِ وَالیَومِ الاٰخِرِ فلَا یجلِس عَلٰی مَآیِٔدَۃِ یُدَارُ عَلَیھا الخَمَرُ One who believes in Allah and the Last Day should not sit to dine where liquor is being served. (Ibn Kathir, p.567, v.1) What has been said about leaving a gathering as part of a debated issue summarized above is hemmed by a condition. The condition is that leaving such a gathering shall not entail some sin according to Shari’ ah. For example, joining the Jama ah (congregation) in a Masjid is necessary. Should something contrary to the Shari` ah start happening there, one should not abandon praying with the Jama&ah because of that; instead, simple emotional displeasure against what is undesirable shall be considered sufficient. Similarly, there could be some other gathering the necessity of which stands proved in the Shari` ah. If some people there start doing things which are contrary to the Shari` ah, then, leaving that gathering just because of the sin being committed by others would amount to committing a sin of your own. This is neither reasonable, nor correct. Therefore, Hasan al-Basri (رح) said: If we were to keep giving up what we must do just because of the sins of other people, we shall be paving the way for all sorts of sinners to come and destroy the Sunnah and Shari` ah. To Sum Up The nature of socialization with disbelieving or falsely-believing people takes some of the following forms: 1. By condescending to their infidelistic assaults. This is infidelity (kufr). 2. By showing repugnance when confronted with open expres¬sions of disbelief. This, if done without a valid excuse admitted by the Shari’ ah, is &fisq& or sinfulness, contrary to the required behaviour of unalloyed righteousness. 3. For some worldly need. This is allowed. 4. To disseminate injunctions of Islam. This is an act of worship, ` Ibadah. 5. Under compulsion, exigency or emergency or helplessness (idtirar). This is excusable. Accommodating disbelief is disbelief Towards the later part of the verse (140), it was said: إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ (You, in that case, would be like them). It means: &If you kept sitting in such a gathering where the Word of Allah is being rejected or ridiculed or distorted, quite unruffled, almost willingly, then, you too, by becoming an accomplice in their sin, have become like them.& The sense of &having become like them can be explained either as: °God forbid, if your own thoughts and feelings are such that you show your liking for and are satisfied with their expressions of disbelief, then, in reality, you too are a disbeliever (k afir), because liking kufr is nothing but kufr.& Otherwise, if that is not the case, &being like them& would mean: °By your participation in the activity of those who are busy hurting Islam and Muslims through their falsification of the Faith, you too, by your abetment of their conspiracy, have become, God forbid, like them.& The censure on hypocrites appearing earlier continues through the present verses. Their blameworthy approach to matters of Faith has been clearly identified here and is self-explanatory through the trans¬lation given.

آیت قدنزل علیکم فی الکتب الخ۔ میں قرآن مجید کی ایک اور آیت کا جو سورة انعام میں قبل از ہجرت مکہ مکرمہ میں نازل ہوچکی تھی حوالہ دے کر یہ بتلایا گیا ہے کہ ہم نے تو اصلاح انسانی کے لئے پہلے ہی یہ حکم بھیج دیا تھا کہ کفار و فجار کی مجلس میں بھی مت بیٹھو اور تعجب ہے کہ یہ غافل لوگ اس سے بھی آگے بڑھ گئے، کہ ان سے دوستی کرنے لگے، اور ان کو عزت و قوت کا مالک سمجھنے لگے۔ سورة نساء کی متذکرہ آیت اور سورة انعام کی وہ آیت جس کا حوالہ سورة نساء میں دیا گیا ہے دونوں کا مفہوم مشترک یہ ہے کہ اگر کسی مجلس میں کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار یا ان پر استہزاء کر رہے ہوں تو جب تک وہ اس بیہودہ شغل میں لگے رہیں، ان کی مجلس میں بیٹھنا اور شرکت کرنا بھی حرام ہے، پھر سورة انعام کی آیت کے الفاظ میں کچھ تعمیم اور مزید تفصیل ہے، کیونکہ اس کے الفاظ یہ ہیں : ” یعنی جب تم دیکھو ان لوگوں کو جو جھگڑتے ہیں ہماری آیتوں میں تو ان سے کنارہ ہے کرو یہاں تک کہ وہ مشغول ہوجائیں کسی اور بات میں اور اگر بھلا دے تم کو شیطان تو مت بیٹھو یاد آجانے کے بعد ظالموں کے ساتھ۔ “ اس میں آیات آلہیہ میں جھگڑا کرنا مذکور ہے جس میں کفر و استہزاء بھی داخل ہے اور آیت کی تحریف معنوی یعنی آیات قرآنی کے ایسے معانی نکالنا جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کی تفسیر کے خلاف یا اجماع امت کے خلاف ہوں یہ بھی اسی میں داخل ہیں، اسی لئے حضرت عبداللہ بن عباس سے بروایت ضحاک منقول ہے کہ اس آیت کے مفہوم میں وہ لوگ بھی داخل ہیں جو قرآن کی تفسیر غلط یا اس میں تحریف کرنے والے یا بدعات نکالنے والے ہیں ان کے الفاظ یہ ہیں : دخل فی ھذہ الایة کل محدیث فی الدین وکل مبتدع الی یوم القیمة (مظہری ص ٣٥٢ ج ٢) تفسیر بالرائے کرنیوالے کی مجلس میں شرکت جائز نہیں :۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص قرآن کریم کے درس یا تفسیر میں تفسیر سلف صالحین کا پابند نہیں، بلکہ ان کے خلاف معانی بیان کرتا ہے اس کے درس و تفسیر میں شرکت بنص قرآن ناجائز اور بجائے ثواب کے گناہ ہے، تفسیر بحرمحیط میں ابحیان نے فرمایا کہ ان آیات سے معلوم ہوا کہ جس بات کا زبان سے کہنا گناہ ہے اس کا کانوں سے بااختیار خود سننا بھی گناہ ہے۔ اور اس پر یہ شعر نقل کیا ہے ” یعنی اپنے کانوں کو بری بات سننے سے بچاؤ جس طرح زبان کو بری بات کہنے سے بچاتے ہو۔ “ دوسری بات سورة انعام کی آت میں یہ زیادہ ہے کہ اگر کسی وقت بھولے یا بیخبر ی سے کوئی آدمی ایسی مجلس میں شریک ہوگیا، پھر خیال آیا تو اسی وقت اس مجلس سے علیحدہ ہوجانا چاہئے خیال ہوجانے کے بعد ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھے۔ سورة نساء اور سورة انعام کی دونوں آیتوں میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جب تک وہ لوگ اس بیہودہ گفتگو میں مشغول رہیں، اس وقت تک ان کی مجلس میں بیٹھنا حرام ہے۔ اس مسئلہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب وہ اس گفتگو کو ختم کر کے کوئی اور بات شروع کردیں تو اس وقت ان کے ساتھ مجالست اور شرکت جائز ہے یا نہیں ؟ قرآن کریم نے اس کو صراحت سے بیان نہیں فرمایا، اسی لئے علماء کا اس میں اختلاف ہے، بعض نے فرمایا کہ ممانعت کی علت آیات الہیہ کی توہین اور تحریف تھی جب وہ ختم ہوگئی تو ممانعت بھی ختم ہوگئی، اسی لئے دوسری باتیں شروع ہوجانے کے بعد ان کی مجلس میں بیٹھنا گناہ نہیں، اور بعض نے فرمایا کہ ایسے کفار و فجار اور ظالم لوگوں کی صحبت و مجالست بعد میں بھی درست نہیں، حضرت حسن بصری کا یہی ارشاد ہے، انہوں نے سورة انعام کے اس جملہ سے استدلال فرمایا ہے : فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظلمین یعنی یاد آجانے کے بعد ظالموں کے ساتھ نہ بیٹھیں، اور ظاہر ہے کہ ظالم اس گفتگو کو ختم کردینے کے بعد بھی ظالم ہی ہے اسی لئے اس کی صحبت و مجالست سے بعد میں بھی احتراز لازم ہے۔ (حصاص) اور تفسیر مظہری میں قاضی صاحب (رح) نے دنوں میں تطبیق اس طرح فرمائی ہے کہ جب کفر و استہزاء اور تحریف قرآن کی گفتگو بند ہو کر کوئی دوسری بات شروع ہوجائے تو اس وقت بھی ایسے لوگوں کی مجلس میں شرکت بلا ضرورت تو حرام ہے اور اگر کوئی ضرورت شرعی یا طبعی داعی ہو تو جائز ہے۔ بروں کی صحبت سے تنہائی بھلی :۔ امام ابوبکر حصاص نے احکام القرآن میں فرمایا کہ اس آیت سے ثابت ہوا کہ جس مجلس میں کوئی گناہ ہو رہا ہو تو مسلمان پر نہی عن المنکر کے ضابطہ سے یہ لازم ہے کہ اگر اس کو روکنے کی قدرت ہی تو قوت کے ساتھ روک دے اور یہ قدرت نہیں ہے تو کم از کم اس گناہ سے اپنی ناراضگی کا اظہار کرے جس کا ادنی درجہ یہ ہے کہ اس مجلس سے اٹھ جائے، یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ایک مرتبہ چند لوگوں کو اس جرم میں گرفتار کیا وہ شراب پی رہے تھے ان میں سے ایک شخص کے بارے میں ثابت ہوا کہ وہ روزہ رکھے ہوئے ہے، اس نے شراب نہیں پی، لیکن ان کی مجلس میں شریک تھا، حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس کو بھی سزا دی کہ وہ ان کی مجلس میں بیٹھا ہوا کیوں تھا۔ (بحرمحیط، صفحہ ٥٧٣ جلد ٣) تفسیر ابن کثیر میں اس جگہ یہ حدیث نقل فرمائی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یعنی جو شخص اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ ایسے دستر خوان یا کھانے کی میز پر بھی نہ بیٹھے جہاں شراب کا دور چلتا ہو۔ “ مذکورہ بحث میں مجلس سے اٹھ جانے کے متعلق جو کہا گیا ہے اس کے لئے یہ شرط ہے کہ شرعی حیثیت سے اس مجلس کے چھوڑ دینے میں کوئی گناہ لازم نہ آتا ہو، مثلاً مسجد میں جماعت کی شرکت ضروری امر ہے، اگر وہاں کوئی خلاف شرع کام ہونے لگے تو جماعت اس کی وجہ سے ترک نہ کرے بلکہ صرف قلبی ناراضگی پر اکتفا کرے، اس طرح کوئی اور ضروری مجلس جس کی ضرورت شریعت سے ثابت ہے، اگر وہاں کچھ لوگ کوئی خلاف شرع کام کرنے لگیں، تو دوسروں کے گناہ کی وجہ سے اس مجلس کو چھوڑ کر خود گناہ کا ارتکاب کرنا معقول اور درست نہیں، اسی لئے حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ اگر ہم، لوگوں کے گناہ کی وجہ سے اپنے ضروری کام ترک کردیا کریں، تو ہم فساق و فجار کے لئے سنت و شریعت کے مٹانے کا راستہ ہموار کردیں گے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ اہل باطل کے ساتھ مجالست کی چند صورتیں ہیں : اول ان کے کفریات پر رضا کے ساتھ، یہ کفر ہے، دوم اظہار کفریات کے وقت کراہیت کے ساتھ یہ بلا عذر فسق ہے، سوم کسی ضررت دنیوی کے واسطے مباح ہے، چہارم تبلیغ احکام کے لئے عبادت ہے، پنجم اضطرار اور بےاختیاری کے ساتھ اس میں معذور ہے۔ کفر پر راضی ہونا کفر ہے :۔ آخر آیت میں ارشاد فرمایا : انکم اذا مثلھم یعنی اگر تم ایسی مجلس میں بطیب خاطر شریک رہے جس میں آیات آلہیہ کا انکار یا استہزاءیا تحریف ہو رہی ہو تو تم بھی ان کے گناہ کے شریک ہو کر انہی جیسے ہوگئے، مراد یہ ہے کہ خدانخواستہ تمہارے جذبات و خیالات بھی ایسے ہیں کہ تم ان کے کفریات کو پسند کرتے اور اس پر راضی ہوتے تو حقیقتا تم بھی کافر ہو، کیونکہ کفر کو پسند کرنا بھی کفر ہے، اور اگر یہ بات نہیں تو ان کی مثل ہونے کے یہ معنی ہیں کہ جس طرح وہ اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور دین کی تکذیب میں لگے ہوئے ہیں تم اپنی اس شرکت کے ذریعہ ان کی امداد کر کے معاذ اللہ ان کی مثل ہوگئے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰيٰتِ اللہِ يُكْفَرُ بِھَا وَيُسْتَہْزَاُ بِھَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَھُمْ حَتّٰي يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِہٖٓ ۝ ٠ۡۖ اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُھُمْ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِيْنَ وَالْكٰفِرِيْنَ فِيْ جَہَنَّمَ جَمِيْعَۨا۝ ١٤٠ۙ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ اسْتِهْزَاءُ : ارتیاد الْهُزُؤِ وإن کان قد يعبّر به عن تعاطي الهزؤ، کالاستجابة في كونها ارتیادا للإجابة، وإن کان قد يجري مجری الإجابة . قال تعالی: قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة/ 65] ، وَحاقَ بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود/ 8] ، ما يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [ الحجر/ 11] ، إِذا سَمِعْتُمْ آياتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِها وَيُسْتَهْزَأُ بِها[ النساء/ 140] ، وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ [ الأنعام/ 10] والِاسْتِهْزَاءُ من اللہ في الحقیقة لا يصحّ ، كما لا يصحّ من اللہ اللهو واللّعب، تعالیٰ اللہ عنه . وقوله : اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15] أي : يجازيهم جزاء الهزؤ . ومعناه : أنه أمهلهم مدّة ثمّ أخذهم مغافصة «1» ، فسمّى إمهاله إيّاهم استهزاء من حيث إنهم اغترّوا به اغترارهم بالهزؤ، فيكون ذلک کالاستدراج من حيث لا يعلمون، أو لأنهم استهزء وا فعرف ذلک منهم، فصار كأنه يهزأ بهم كما قيل : من خدعک وفطنت له ولم تعرّفه فاحترزت منه فقد خدعته . وقد روي : [أنّ الْمُسْتَهْزِئِينَ في الدّنيا يفتح لهم باب من الجنّة فيسرعون نحوه فإذا انتهوا إليه سدّ عليهم فذلک قوله : فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 34] «2» وعلی هذه الوجوه قوله عزّ وجلّ : سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة/ 79] . الا ستھزاء اصل میں طلب ھزع کو کہتے ہیں اگر چہ کبھی اس کے معنی مزاق اڑانا بھی آجاتے ہیں جیسے استجا بۃ کے اصل منعی طلب جواب کے ہیں اور یہ اجابۃ جواب دینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة/ 65] کہو کیا تم خدا اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ۔ وَحاقَ بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود/ 8] اور جس چیز کے ساتھ یہ استہزاء کیا کرتے ۔ تھے وہ ان کو گھر لے گی ۔ ما يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [ الحجر/ 11] اور ان کے پاس کوئی پیغمبر نہیں آتا تھا مگر اس کے ساتھ مذاق کرتے تھے ۔إِذا سَمِعْتُمْ آياتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِها وَيُسْتَهْزَأُ بِها[ النساء/ 140] کہ جب تم ( کہیں ) سنو کہ خدا کی آیتوں سے انکار ہوراہا ہے ا اور ان کی ہنسی ارائی جاتی ہے ۔ وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ [ الأنعام/ 10] اور تم سے پہلے بھی پیغمبروں کے ساتھ تمسخر ہوتے ہے ۔ حقیقی معنی کے لحاظ سے استزاء کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف صحیح نہیں ہے جیسا کہ لہو ولعب کا استعمال باری تعالیٰ کے حق میں جائز نہیں ہے لہذا آیت : ۔ اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15]( ان ) منافقوں سے ) خدا ہنسی کرتا ہے اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت وسر کشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ میں یستھزئ کے معنی یا تو استھزاء کی سزا تک مہلت دی اور پھر انہیں دفعتہ پکڑ لیا یہاں انہوں نے ھزء کی طرح دھوکا کھا یا پس یا اس مارج کے ہم معنی ہے جیسے فرمایا : ۔ ان کو بتریج اس طرح سے پکڑیں گے کہ ان کو معلوم ہی نہ ہوگا ۔ اور آہت کے معنی یہ ہیں کہ جس قدر وہ استہزار اڑا رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے استہزار سے باخبر ہے تو گو یا اللہ تعالیٰ بھی ان کا مذاق اڑارہا ہے ۔ مثلا ایک شخص کسی کو دھوکہ دے ۔ اور وہ اس کے دھوکے سے باخبر ہوکر اسے اطلاع دیئے بغیر اسے سے احتراز کرے تو کہا جاتا ہے ۔ خدعنہ یعنی وہ اس کے دھوکے سے باخبر ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ان للستھزبین فی الدنیا الفتح لھم باب من الجنتہ فیسر عون نحوہ فاذا انتھرا الیہ سد علیھم ۔ کہ جو لوگ دنیا میں دین الہٰی کا مذاق اڑاتے ہیں قیامت کے دن ان کے لئے جنت کا دروازہ کھولا جائیگا جب یہ لوگ اس میں داخل ہونے کے لئے سرپ دوڑ کر وہاں پہنچیں گے تو وہ دروازہ بند کردیا جائیگا چناچہ آیت : ۔ فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 34] تو آج مومن کافروں سے ہنسی کریں گے ۔ میں بعض کے نزدیک ضحک سے یہی معنی مراد ہیں اور آیت سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة/ 79] خدا ان پر ہنستا ہے اور ان کے لئے تکلیف دینے والا عذاب تیار ہے ۔ میں بھی اسی قسم کی تاویل ہوسکتی ہے ۔ قعد القُعُودُ يقابل به القیام، والْقَعْدَةُ للمرّة، والقِعْدَةُ للحال التي يكون عليها الْقَاعِدُ ، والقُعُودُ قد يكون جمع قاعد . قال : فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء/ 103] ، الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران/ 191] ، والمَقْعَدُ : مكان القعود، وجمعه : مَقَاعِدُ. قال تعالی: فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] أي في مکان هدوّ ، وقوله : مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران/ 121] كناية عن المعرکة التي بها المستقرّ ، ويعبّر عن المتکاسل في الشیء بِالْقَاعدِ نحو قوله : لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء/ 95] ، ومنه : رجل قُعَدَةٌ وضجعة، وقوله : وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء/ 95] وعن التّرصّد للشیء بالقعود له . نحو قوله : لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف/ 16] ، وقوله : إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة/ 24] يعني متوقّفون . وقوله : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق/ 17] أي : ملك يترصّده ويكتب له وعليه، ويقال ذلک للواحد والجمع، والقَعِيدُ من الوحش : خلاف النّطيح . وقَعِيدَكَ الله، وقِعْدَكَ الله، أي : أسأل اللہ الذي يلزمک حفظک، والقاعِدَةُ : لمن قعدت عن الحیض والتّزوّج، والقَوَاعِدُ جمعها . قال : وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور/ 60] ، والْمُقْعَدُ : من قَعَدَ عن الدّيون، ولمن يعجز عن النّهوض لزمانة به، وبه شبّه الضّفدع فقیل له : مُقْعَدٌ «1» ، وجمعه : مُقْعَدَاتٌ ، وثدي مُقْعَدٌ للکاعب : ناتئ مصوّر بصورته، والْمُقْعَدُ كناية عن اللئيم الْمُتَقَاعِدِ عن المکارم، وقَوَاعدُ البِنَاءِ : أساسه . قال تعالی: وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة/ 127] ، وقَوَاعِدُ الهودج : خشباته الجارية مجری قواعد البناء . ( ق ع د ) القعود یہ قیام ( کھڑا ہونا کی ضد ہے اس سے قعدۃ صیغہ مرۃ ہے یعنی ایک بار بیٹھنا اور قعدۃ ( بکسر ( قاف ) بیٹھنے کی حالت کو کہتے ہیں اور القعود قاعدۃ کی جمع بھی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء/ 103] تو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرو ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران/ 191] جو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ المقعد کے معنی جائے قیام کے ہیں اس کی جمع مقاعد ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55]( یعنی ) پاک مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ یعنی نہایت پر سکون مقام میں ہوں گے اور آیت کریمہ : ۔ مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران/ 121] لڑائی کیلئے مور چوں پر میں لڑائی کے مورچے مراد ہیں جہاں سپاہی جم کر لڑتے ہیں اور کبھی کسی کام میں سستی کرنے والے کو بھی قاعدۃ کہا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء/ 95] جو مسلمان ( گھروں میں ) بیٹھ رہتے اور لڑنے سے جی چراتے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے ۔ اسی سے عجل قدعۃ ضجعۃ کا محاورہ جس کے معنی بہت کاہل اور بیٹھنے رہنے والے آدمی کے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء/ 95] خدا نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے ۔ اور کبھی قعدۃ لہ کے معیً کیس چیز کے لئے گھات لگا کر بیٹھنے اور انتظار کرنے کے بھی آتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف/ 16] میں بھی سیدھے رستے پر بیٹھوں گا ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة/ 24] ہم یہیں بیٹھے رہینگے یعنی یہاں بیٹھ کر انتظار کرتے رہینگے اور آیت کر یمہ : ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق/ 17] جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں ۔ میں قعید سے مراد وہ فرشتہ ہے جو ( ہر وقت اعمال کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور انسان کے اچھے برے اعمال میں درج کرتا رہتا ہے یہ واحد وجمع دونوں پر بولا جاتا ہے اسے بھی قعید کہا جاتا ہے اور یہ نطیح کی جد ہے ۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ سے تیری حفاظت کا سوال کرتا ہوں ۔ القاعدۃ وہ عورت جو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے نکاح اور حیض کے وابل نہ رہی ہو اس کی جمع قواعد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور/ 60] اور بڑی عمر کی عورتیں ۔ اور مقعدۃ اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جو ملازمت سے سبکدوش ہوچکا ہو اور اپاہج آدمی جو چل پھر نہ سکے اسے بھی مقعد کہہ دیتے ہیں اسی وجہ سے مجازا مینڈک کو بھی مقعد کہا جاتا ہے اس کی جمع مقعدات ہے اور ابھری ہوئی چھاتی پر بھی ثدی مقعد کا لفظ بولا جاتا ہے اور کنایہ کے طور پر کمینے اور خمیس اطوار آدمی پر بھی مقعدۃ کا طلاق ہوتا ہے قواعد لبنآء عمارت کی بنیادیں قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة/ 127] اور جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادی اونچی کر رہے تھے قواعد الھودج ( چو کھٹا ) ہودے کی لکڑیاں جو اس کے لئے بمنزلہ بنیاد کے ہوتی ہیں ۔ حَتَّى حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] . ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع، وفي كلّ واحد وجهان : فأحد وجهي النصب : إلى أن . والثاني : كي . وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي : مشیت فدخلت البصرة . والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي : «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔ خوض الخَوْضُ : هو الشّروع في الماء والمرور فيه، ويستعار في الأمور، وأكثر ما ورد في القرآن ورد فيما يذمّ الشروع فيه، نحو قوله تعالی: وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ : إِنَّما كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ [ التوبة/ 65] ، وقوله : وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خاضُوا[ التوبة/ 69] ، ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ [ الأنعام/ 91] ، وَإِذا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آياتِنا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ [ الأنعام/ 68] ، وتقول : أَخَضْتُ دابّتي في الماء، وتخاوضوا في الحدیث : تفاوضوا . ( خ و ض ) الخوض ( ن ) کے معنی پانی میں اترنے اور اس کے اندر چلے جانے کے ہیں بطور استعارہ کسی کام میں مشغول رہنے پر بولا جاتا ہے قرآن میں اس کا زیادہ تر استعمال فضول کاموں میں لگے رہنا ہر ہوا ہے چناچہ فرمایا : وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ : إِنَّما كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ [ التوبة/ 65] اور اگر تم ان سے ( اس بارے میں ) دریافت کرو تو کہیں گے کہ ہم عورتوں ہی بات چیت اور دل لگی کرتے تھے ۔ وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خاضُوا[ التوبة/ 69] اور جس طرح وہ باطل میں ٖڈوبے رہے اسی طرح تم باطل میں ڈوبے رہے ۔ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ [ الأنعام/ 91] پھر ان کو چھوڑ دو کہ اپنی بیہودہ بکواس میں کھیلتے رہیں ۔ وَإِذا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آياتِنا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ [ الأنعام/ 68] اور جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں کے بارے میں بیہودہ بکواس کر رہے ہیں تو ان سے الگ ہوجاؤ ۔ یہاں تک کہ اور باتوں میں مشغول ہوجائیں ۔ کہا جاتا ہے : ۔ میں نے اپنی سواری کو پانی میں ڈال دیا ۔ باہم باتوں میں مشغول ہوگئے ۔ حدیث وكلّ کلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له : حدیث، قال عزّ وجلّ : وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم/ 3] ، وقال تعالی: هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية/ 1] ، وقال عزّ وجلّ : وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف/ 101] ، أي : ما يحدّث به الإنسان في نومه، حدیث ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری قرآن میں ہے ؛وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم/ 3] اور ( یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية/ 1] بھلا ترکو ڈھانپ لینے والی ( یعنی قیامت کا ) حال معلوم ہوا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف/ 101] اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ میں احادیث سے رویا مراد ہیں نِّفَاقُ ، وهو الدّخولُ في الشَّرْعِ من بابٍ والخروجُ عنه من بابٍ ، وعلی ذلک نبَّه بقوله : إِنَّ الْمُنافِقِينَ هُمُ الْفاسِقُونَ [ التوبة/ 67] أي : الخارجون من الشَّرْعِ ، وجعل اللَّهُ المنافقین شرّاً من الکافرین . فقال : إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] نفاق جس کے معنی شریعت میں دو رخی اختیار کرنے ( یعنی شریعت میں ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے نکل جانا کے ہیں چناچہ اسی معنی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجہ میں ہوں گے ۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ جمع الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج/ 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] ، ( ج م ع ) الجمع ( ف ) کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے وقد نزل علیکم فی الکتاب ان اذاسمعتم ایات اللہ یکفربھا و یستھمزا بھافلا تقعدوا معھم حتی یخوضوا فی حدیث غیرہ۔ اللہ اس کتاب میں تمہیں پہلے ہی حکم دے چکا ہے کہ جہاں تم سنو کہ اللہ کی آیات کے خلاف کفر بکا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے وہاں نہ بیٹھو جب تک کہ لوگ دوسری بات میں نہ لگ جائیں) ۔ آیت میں ان لوگوں کی مجالست اور ہم نشینی کی ممانعت ہے جو کھلم کھلا کفر بکتے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی آیات کا استہزاء کرتے اور مذاق اڑاتے ہوں۔ آیت میں لفظ حتی کے اندر دو معنوں کا احتمال ہے۔ اول یہ کہ یہ کفر بکنے والوں کے ساتھ بیٹھنے کی ممنانعت کی غایت اور انتہا کے معنی دے رہا ہے یعنی جب یہ لوگ کفر بکنا اور اللہ کی آیات کا مذاق اڑانا چھوڑ دیں گے تو ممانعت کا حکم بھی ختم ہوجائے گا اور ان کی ہم نشینی جائز ہوجائے گی۔ دوم یہ کہ کفر بکنے والے جب مسلمانوں کو دیکھتے تو کفر بکنا اور اللہ کی آیات کا مذاق اڑانا شروع کردیتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ ان کے ساتھ بیٹھا نہ کرو تاکہ وہ اپنے کفر کا اظہار نہ کریں اور کفر میں اور آگے نہ بڑھ جائیں نیز انہیں اللہ کی آیات کے مذاق اڑانے کا موقع بھی ہاتھ نہ آسکے اس لئے کہ یہ سب کچھ ان کے ساتھ تمہاری مجالست کی بنا پر ہوتا ہے۔ لیکن پہلا مفہوم زیادہ واضح ہے حسن سے مروی ہے کہ آیت اس صورت میں مجالست کی اباحت کی مقتضی تھی جب ایسے لوگ دوسری باتوں میں لگ جائیں یہ اباحت بھی اب قول باری فلاتقعدبعدالذکری مع القوم الظالمین، یاد آجانے کے بعد ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو) کی بنا پر منسوخ ہوچکی ہے۔ ایک قول ہے کہ اس سے مراد مشرکین عرب ہیں ایک اور قول کے مطابق اس سے مراد منافقین ہیں جن کا اس آیت میں ذکر ہوا ہے ایک اور قول کے مطابق اس سے مراد تمام ظالمین ہیں۔ اسلام کا تمسخر اڑانے والوں میں بیٹھے رہو تو تم بھی انہی کی طرح ٹھہرائے جائو گے قول باری ہے انکم اذا مثلھم، اب اگر تم ایسا کرتے ہو تو تم بھی انہی کی طرح ہو) اس کی تفسیر میں دو قول ہیں اول یہ کہ عصیان میں تم انہی ہی کی طرح ہو جائو گے اگرچہ تمہارا یہ عصیان کفر کے درجے تک نہیں پہنچے گا دوم یہ کہ اگر تم ایسا کرتے ہو تو تم ظاہری طور پر گویا ان کے اس حال پر اپنی رضامندی اور پسندیدگی کا اظہا ر کرتے ہو۔ جبکہ کفر اور اللہ کی آیات کے استہزاء پر اپنی رضا مندی اور پسندیدگی کا خاموش اظہار بھی کفر ہے لیکن جو شخص اس حالت سے نفرت کرتے ہوئے ان کے ساتھ بیٹھے گا وہ کفر میں مبتلا نہیں ہوگا اگرچہ ان کے ساتھ بیٹھے بغیر اس کا گزارہ نہ ہوتا ہو۔ آیت میں اس پر دلالت ہو رہی ہے کہ منکر کے ارتکاب کی صورت میں اس کے مرتکب پر تنقید کرنا اور اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرنا واجب ہے۔ اگر کسی شخص کے لئے ایسے شخص کی مجالست ترک کرنا یا اس فکر کو دور کرنا یا اس جگہ سے اٹھ کھڑا ہونا ممکن نہ ہو تو اس کے انکار اور ناپسندیدگی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ جب تک وہ شخص اس حالت میں رہے اس وقت تک اس سے کراہت کا اظہار کرتا رہے حتی کہ اس کی اس حالت کا خاتمہ ہوجائے اور وہ کسی اور کام میں مصروف ہوجائے۔ ولیمہ، جنازہ وغیرہ میں منکرات سے بیزاری کا اظہار کیا جائے اگر یہ پوچھا جائے کہ جس شخص کے سامنے کسی منکر کا ارتکاب ہو رہا ہو تو آیا اس پر یہ لازم ہوگا کہ وہ اس جگہ سے اتنی دور چلا جائے جہاں سے وہ نظر نہ آسکے اور نہ ہی اس کی آواز سنائی دے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس رویے کو اپنانے کے حق میں بھی ایک قول ہے بشرطیکہ اس طرح کرنے کی وجہ سے اس پر عائد ہونے والا کوئی حق ترک نہ ہوجائے مثلا کوئی شخص گانے اور عیش و طرب کی باتوں سے دوری اختیار کرتے ہوئے باجماعت نماز کی ادائیگی کا تارک بن جائے یا جنازے کے ساتھ بین اور ماتم کی بنا پر اس کے ساتھ نہ جائے یا ولیمہ میں لہو و لعب کی بنا پر وہاں جانے سے پرہیز کرے وغیر ہ وغیرہ۔ اگر دور چلے جانے میں یہ صورتیں پیش نہ آئیں تو اس کا منکرات سے دور چلے جانا بہتر ہوگا لیکن اگر دوسری صورت ہو یعنی کسی حق کی ادائیگی کا معاملہ ہو تو ایسی صورت میں وہ منکر کی طرف دھیان نہیں دے گا بلکہ اس سے روکتے ہوئے اور بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے اپنے اوپر عائد ہونے والے حق کی ادائیگی کرے گا۔ کچھ لوگوں کا یہ قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان منافقین نیز کفر بکنے والوں اور اللہ کی آیات کا مذاق اڑانے والوں کی مجالست سے صرف اس لئے منع کیا ہے کہ اس طرح ایسے لوگوں سے اپنے انس کا اظہار ہوتا ہے اور ان کی مجلس میں ہونے والی باتوں میں ان کے ساتھ شرکت ہوجاتی ہے۔ امام ابوحنیفہ نے اس شخص کے متعلق جو کسی دعوت ولیمہ میں شرکت کر رہا ہو اور وہاں لہو و لعب شروع ہوجائے فرمایا ہے کہ اسے وہاں سے نکل نہیں جانا چاہیے آپ نے مزید فرمایا کہ ایک دفعہ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ حسن سے روایت ہے کہ وہ ایک دفعہ ابن سیرین کے ساتھ ایک جنازہ میں گئے وہاں ماتم ہو رہا تھا، ابن سیرین واپس آگئے اور حسن سے جب اس کا ذکر کیا گیا تو حسن نے کہا ” ہم جب کسی باطل چیز کو دیکھ کر اس سے بچنے کے لئے کسی حق بات سے بھی دست بردار ہوجاتے ہیں تو یہ باطل چیز ہمارے دین میں تیزی سے سرایت کر جاتی ہے اس لئے ہم واپس نہیں ہوئے “۔ حسن اس لئے واپس نہیں ہوئے کہ جنازے میں شرکت ایسا حق ہے جس کی ترغیب دی گئی ہے اور اس کا حکم بھی ملا ہے اس لئے کسی اور کی طرف سے ایک معصیت کے ارتکاب کی بنا پر اس حق کو چھوڑا نہیں جاسکتا۔ اسی طرح ولیمے میں شرکت کا معاملہ ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں شرکت کی ترغیب دی ہے اس لئے کسی اور کی طرف سے معصیت کے ارتکاب کی بنا پر اس سے دست بردار ہونا جائز نہیں ہوگا بشرطیکہ شرکت کرنے والا اس معصیت کو ناپسند کرتا ہو۔ بانسری کی آواز پر کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی گئیں ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ہے انہیں ابودائود نے انہیں احمدبن عبداللہ العزانی نے انہیں ولید بن مسلم نے انہیں سعید بن عبدالعزیز نے سلیمان بن موسیٰ سے انہوں نے نافع سے کہ حضرت ابن عمر (رض) کو بانسری کی آواز سنائی دی آپ نے اپنی انگلیاں کانوں میں دے دیں اور راستے سے دور ہٹ گئے پھر نافع سے پوچھا کہ اب بانسری کی آواز آرہی ہے۔ نافع نے نفی میں جواب دیا تو آپ نے کانوں سے انگلیاں ہٹالیں اور فرمایا کہ میں ایک دفعہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جا رہا تھا آپ کو اس طرح بانسری کی آواز آئی آپ نے بھی اس طرح کیا جس طرح میں نے کیا تھا۔ حضرت ابن عمر (رض) کا یہ اقدام بہتر پہلو کو اختیار کرنے کی بنا پر تھا تاکہ بانسری کی آوازکا اثر دل میں نہ گھر کر جائے اور طیبعت اسے سننے کی عادی نہ ہوجائے جس سے اس کی کراہت ہی دل سے نکل جائے، رہ گئی یہ بات کہ اس کی آواز سے پہلو تہی کرنا واجب ہو تو اس میں وجوب کا کوئی حکم نہیں ہے۔ قول باری ہے ولن یجعل اللہ للکافرین علی المومنین سبیلاً اللہ نے کافروں کے لئے مسلمانوں پر غالب آنے کی ہرگز کوئی سبیل نہیں رکھی ہے) حضرت علی (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ آخرت میں کوئی سبیل نہیں رکھی ہے۔ سدی سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لئے مسلمانوں پر غالب آنے کی ہرگز کوئی حجت اور دلیل نہیں رکھی ہے یعنی کافروں نے مسلمانوں کو جس طرح قتل کیا تھا اور انہیں ان کے گھروں سے نکال دیا تھا اس میں وہ ظالم تھے ان کے پاس اس کے حق میں کوئی دلیل اور حجت نہیں تھی۔ شوہر مرتد ہوجائے تو بیوی کو طلاق واقع ہوجائے گی ظاہر آیت سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ اگر شوہر مرتد ہوجائے تومیاں بیوی کے درمیان علیحدگی واقع ہوجائے گی اس لئے عقد نکاح کی بنا پر شوہر کو بیوی پر یہ بالادستی حاصل ہوتی ہے کہ وہ اسے اپنے گھر میں روک سکتا ہے اس کی تادیب کرسکتا ہے اور اسے گھر سے نکلنے سے منع کرسکتا ہے اور عورت پر عقد نکاح کے تقاضوں کے مطابق اس کی اطاعت ضروری ہے جس طرح یہ قول باری ہے الرجال قوامون علی النساء مرد عورتوں پر قوام ہیں) ۔ اس لئے ظاہر قول باری ولن یجعل اللہ للکافرین علی المومنین سبیلاً ۔ اس بات کا متقضی ہے کہ شوہر کے ارتداد کی بنا پر دونوں میں علیحدگی ہوجائے اور اس طرح مرتد شوہر کی مسلم بیوی پر عقد نکاح کی وجہ سے حاصل شدہ بالادستی ختم ہوجائے کیونکہ جب تک عقد نکاح باقی رہے گا اس کے حقوق ثابت رہیں گے اور اس پر مرد کی بالادستی باقی رہے گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ قو ل باری میں علی المومنین کے الفاظ میں اس لئے عورتیں اس میں داخل نہیں ہوں گی تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ تذکیر کے لفظ کا اطلاق مذکر اور مونث دونوں پر ہوتا ہے جس طرح یہ قول باری ہے ان اصلوۃ کانت علی المومنین کتاباً موقوتاً ۔ بیشک نماز ایسا فرض ہے جو پابندی وقت کے ساتھ اہل ایمان پر لازم کیا گیا ہے) اس حکم میں مرد اور عورتیں دونوں مراد ہیں۔ اسی طرح یہ آیت ہے یایھا الذین امنوا اتقواللہ) اے ایمان لانے والو ! اللہ سے ڈرو) اسی طرح اور دوسری آیتیں ہیں۔ اس آیت سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ اگر کافر ذمی کی بیوی مسلمان ہوجائے اور شوہر مسلمان نہ ہو تو ان دونوں کے درمیان علیحدگی کرا دی جائے گی، حربی کے بارے میں بھی یہی استدلال ہے کیونکہ ایسے شوہر کے تحت ایک مسلمان بیوی کا رہنا کبھی بھی جائز نہیں ہوسکتا۔ امام شافعی کے اصحاب اس آیت سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ اگر کوئی ذمی کسی مسلمان غلام کی خریداری کرے گا تو اس کی یہ خریداری باطل ہوگی کیونکہ خریداری کی وجہ سے ذمی کو مسلمان پر بالادستی حاصل ہوجائے گی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ امام شافعی کے اصحاب نے جو بات کہی ہے وہ اس طرح نہیں ہے اس لئے کہ خریداری وہ سبیل نہیں ہے جس کی آیت میں نفی کی گئی ہے اس لئے کہ خریداری ملکیت نہیں ہوتی ہے۔ ملکیت خریداری کے بعد پیدا ہوتی ہے اور پھر اس وقت وہ ذمی اس مسلمان غلام پر سبیل یعنی بالادستی حاصل کرلیتا ہے اس لئے آیت میں خریداری کی نفی نہیں ہے بلکہ سبیل اور بالادستی کی نفی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ خریداری حصول سبیل پر منتج ہوتی ہے اس لئے جس طرح آیت میں سبیل کا انتفاء ہے اسی طرح خریداری کا انتفاء بھی واجب ہے تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ صورت حال اس طرح نہیں کیونکہ اس میں کوئی امتناع نہیں ہے کہ کافر خریدار کا مسلمان غلام پر غلبہ اور سبیل منتفی ہو لیکن اس سبیل پر منتج ہونے والی خریداری جائز ہو۔ معترض نے آیت ہی سے خریداری کی نفی مراد لی ہے اب اگر وہ خریداری کی نفی کے لئے آیت میں سے کسی اور معنی اور مفہوم کا ضمیمہ لگائے گا تو اس سے اس پر لازم آئے گا کہ اس نے آیت سے ہٹ کر استدلال کیا ہے جس سے یہ ثابت ہوجائے گا کہ آیت خریداری کی صحت کو مانع نہیں ہے۔ ایک اور پہلو بھی ہے وہ یہ کہ کافر خریدار خریداری کی صحت کی بنا پر مسلمان غلام پر تسلط اور غلبہ یعنی سبیل کا مستحق قرار نہیں پاتا اس لئے کہ خریدار کو اس غلام سے خدمت لینے کی ممانعت ہوتی ہے اور وہ اس غلام میں صرف اتنا ہی تصرف کرسکتا ہے کہ اسے فروخت کرنے کے ذریعے اپنی ملکیت سے خارج کر دے اس لئے اسے اس پر بالادستی یعنی سبیل حاصل نہیں ہوتی۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤٠) مسلمانو ! جس وقت تم مکہ مکرمہ میں تھے تو قرآن کریم میں تمہارے پاس یہ فرمان بھیجا گیا تھا کہ جب تم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کے ساتھ کفر اور تضحیک سنو تو ان کے پاس مت بیٹھو یہاں تک کہ وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کے علاوہ دوسری گفتگو نہ شروع کردیں اور اگر بغیر کراہت کے تم ان کے ساتھ بیٹھو گے تو کفر اور دین کا مذاق اڑانے میں تم بھی ان کے ساتھ شریک سمجھے جاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ مدینہ منورہ کے منافقین عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو اور کفار مکہ ابوجہل اور اس کے ساتھیوں اور کفار مدینہ منورہ کعب اور اس کے ساتھیوں کو جہنم میں جمع کرے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٠ (وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتٰبِ ) (اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ یُکْفَرُ بِہَا وَیُسْتَہْزَاُ بِہَا) (فَلاَ تَقْعُدُوْا مَعَہُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖ ز ) یہ سورة الانعام کی آیت ٦٨ کا حوالہ ہے جس میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا تھا کہ جب تمہارے سامنے کافر لوگ اللہ کی آیات کا استہزاء کر رہے ہوں ‘ قرآن کا مذاق اڑا رہے ہوں تو تم وہاں بیٹھو نہیں ‘ وہاں سے اٹھ جاؤ۔ یہ مکیّ آیت ہے۔ چونکہ اس وقت مسلمانوں میں اتنا زور نہیں تھا کہ کفار کو ایسی حرکتوں سے زبردستی منع کرسکتے اس لیے ان کو بتایا گیا کہ ایسی محفلوں میں تم لوگ مت بیٹھو۔ اگر کسی محفل میں ایسی کوئی بات ہوجائے تو احتجاجاً وہاں سے اٹھ کر چلے جاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ ایسی باتوں سے تمہاری غیرت ایمانی میں بھی کچھ کمی آجائے یا تمہاری ایمانیِ حس کند پڑجائے۔ ہاں جب وہ لوگ دوسری باتوں میں مشغول ہوجائیں تو پھر دوبارہ ان کے پاس جانے میں کوئی حرج نہیں۔ دراصل یہاں غیر مسلموں سے تعلق منقطع کرنا مقصود نہیں کیونکہ ان کو تبلیغ کرنے کے لیے ان کے پاس جانا بھی ضروری ہے۔ (اِنَّکُمْ اِذًا مِّثْلُہُمْ ط) اگر اس حالت میں تم بھی ان کے ساتھ بیٹھے رہوگے تو پھر تم بھی ان جیسے ہوجاؤ گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

170. A person who professes Islam and yet enjoys the company of those who indulge in blasphemy against God, and who bears with equanimity their scoffing at God and His Messenger, is no different' from the unbelievers mentioned here. (For the injunction in this verse, see also Surah al-An'am 6: 68 below.)

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :170 یعنی اگر ایک شخص اسلام کا دعویٰ رکھنے کے باوجود کافروں کی ان صحبتوں میں شریک ہوتا ہے جہاں آیات الہٰی کے خلاف کفر بکا جاتا ہے ، اور ٹھنڈے دل سے ان لوگوں کو خدا اور رسول کا مذاق اڑاتے ہوئے سنتا ہے ، تو اس میں اور ان کافروں میں کوئی فرق نہیں رہتا ۔ ( جس حکم کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے وہ سورہ انعام آیت ٦۸ میں بیان ہوا ہے ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:140) وقد نزل علیکم۔ کا اشارہ سورة انعام کی آیت 6:186 کی طرف ہے جہاں ارشاد حق تعالیٰ ہے واذا رأیت الذین یخرضون فی ایتنا فاعرض عنھم حتی یخوضوا فی حدیث غیرہ ۔۔ الخ۔ سورة الانعام مکی ہے اور یہ ہدایت مشرکین مکہ کی ایسی مجلس میں بیٹھنے کی ممانعت کے متعلق ہے جہاں میں وہ آیات الٰہی پر نکتہ چینیاں کرتے تھے۔ موجودہ سورة النساء میں کم و بیش یہودیوں کی ایسی ہی مجالس میں بیٹھنے سے ممانعت فرمائی گئی ہے جو اپنی ان مجلسوں میں آیات الٰہی کا مذاق اڑاتے تھے۔ نکتہ چینی کیا کرتے تھے اور انکار کرتے تھے۔ یہ سورة مدنی ہے۔ اذا سمعتم۔ کے لفظی معنی ہیں جب تم سنو۔ لیکن اس کا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ : جب تم دیکھو۔ (کہ اللہ کی آیات کا انکار کیا جارہا ہے اور مذاق اڑایا جا رہا ہے) تو فلا تقعدوا معہم ان کے پاس مت بیٹھو۔ یخرضوا۔ مضارع جمع مذکر غائب اصل میں یخوضون تھا۔ حتی حرف جر کے بعد ان مقدرہ کے عمل سے نون اعرابی ساقط ہوگیا۔ وہ مشغول رہیں (ایسی باتوں میں ۔ خوض مصدر باب نصر۔ حتی یخرضوا فی حدیث غیرہ۔ (ان کے پاس مت بیٹھیں) اس وقت تک کہ وہ (یہ کفر و استہزاء چھوڑ کر) کسی دوسری بات کو چھیڑیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 اسے پہلے سورت انعام ہیں یہ حکم نازل ہوچکا تھا۔ (دیکھئے آیت 68) لیکن ان کے باوجود منافقین کی پرورش تھی کہ مسلمانوں کو چھوڑ کر یہودیوں اور مشرکوں کی مجلسوں میں شریک ہوتے اور مشرکوں کی مجلسوں میں شریک ہوتے اور وہاں آیات الیٰ کا مذاق اڑیا جاتا، آیت میں اس روش کی طرف اشارہ ہے ویسے آیت عام ہے اور ہر ایسی مجلس میں شرکت حرام ہے جہاں قرآن وسنت کا مذاق اڑایا جاتا ہو۔ چاہے وہ مجلس کفار و مشرکین کی ہو یا ان اہل بدعت کی۔5 جو شخص ایک مجلس میں اپنے دین کے عیب سے پھر اس میں بیٹھے اگرچہ آپ نہ کہے وہ منا فق ہے۔ (موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 140 تا 141 لغات القرآن : سمعتم، تم نے سن لیا۔ یستھزء، مذاق کرتا ہے، مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ لا تقعدوا، تم نہ بیٹھو۔ حتی یخوضوا، جب تک مشغول نہ ہوجائیں۔ فی حدیث غیرہ، کسی اور بات میں۔ یتربصون، وہ رکتے ہیں۔ انتظار کرتے ہیں۔ الم نستحوذ، کیا ہم نے تمہیں گھیر نہیں لیا تھا۔ تشریح : ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ہدایت فرمائی ہے کہ وہ ایسی محفلوں میں نہ بیٹھیں ۔ جہاں اسلام اور دین کا مذاق اڑایا جا رہا ہو۔ اگر وہ ایسی محفلوں میں شریک ہوں گے تو وہ ان مذاق اڑانے والوں ہی میں شامل سمجھے جائیں گے۔ جہاں اسلام کا مذاق اڑایا جائے یا نظام اسلامی کے خلاف تدبیریں اور سازشیں کی جائیں وہاں بیٹھنا ایک مومن کے لئے مناسب نہیں ہے۔ دنیا کی کوئی انجمن اس بات کی اجازت نہیں دے سکتی کہ اس کے ممبر کسی مخالف ممبر بلکہ دشمن انجمنوں کی مجلسوں میں شریک ہوں۔ اسلام بھی اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اس شرکت کی پانچ ہی صورتیں ہیں۔ (1) کفر کی باتوں کو دلچسپی سے سننا۔ اگر ہاں میں ہاں ملائی جائے یا خاموسی سے سنا جائے تو وہ کفر ہے جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہے۔ اس کا علاج ایسی محفل سے اٹھ جانا بلکہ شرکت ہی نہ کرنا ہے۔ (2) مجبوری کی حالت میں نفرت و کراہیت کے ساتھ بیٹھا رہنا۔ اگر بلا عذر ہے تو بہت بڑا گناہ ہے جب کہ عذر و بےاختیاری کے ساتھ معذور ہے۔ (3) کسی ضرورت یا عذر شرعی یا مجبوری کے تحت بیٹھے رہنے کی اجازت ہے۔ (4) اصلاحی کام کی یا حکومت اسلامیہ کی ضرورت کی بناء پر معلومات حاصل کرنے اور خبریں لینے کے لئے ایسی جگہوں پر بیٹھنا عبادت ہے۔ (5) اصلاح اور تبلیغ کے لئے بھی عبادت ہے۔ اسلام ظاہر بھی دیکھتا ہے اور باطن بھی۔ کوئی شخص خواہ بڑا مومن ہو لیکن اگر کفر کی محفلوں میں دلچسپی لے یا ان میں گھل مل کر بیٹھے تو مسلمان اسے منافق سمجھ کر منافق کا معاملہ کرسکتے ہیں۔ اگر واقعی وہ منافق ہے یا منافق ہوجائے تو اس کا حشر کافروں کے ساتھ ہوگا بلکہ اس سے بھی بدتر ہوسکتا ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے منافقوں کی خاص پہچان بتائی ہے کہ وہ دو کشتیوں پر سوار ہیں جب مسلمانوں کی جیت ہوتی ہے تو مسلمان بن کر وہاں بھی اپنا حصہ لگانے کو آگے آگے آجاتے ہیں اور اگر کافروں کی جنت ہوتی ہے تو وہاں بھی کافروں کے ہمدرد اور معاون بن کر حصہ لگانے کو آگے آگے پہنچ جاتے ہیں۔ غرضیکہ جہاں جیسا موقع ہو ویسی ہی بات کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے منافق دنیا میں کامیاب ہوجائیں لیکن قیامت کے دن اللہ مومنین کو اور منافقین کو الگ الگ کرکے دونوں کو اپنا حکم سنائے گا۔ ایک کو جنت کا۔ دوسرے کو جہنم کا۔ اللہ نے کوئی رخنہ ایسا نہیں چھوڑا کہ کفار اور منافقین کسی تدبیر سے اس دن مومنوں پر غلبہ اور عزت حاصل کرسکیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یہ استہزاء کرنے والے مکہ میں مشرکین تھے اور مدینہ میں یہود تو علانیہ اور منافقین صرف غرباء وضعفاء مسلمین کے روبرو پس جس طرح وہاں مشرکین کی مجالست ایسے وقت میں ممنوع تھی یہاں یہود اور منافقین کی مجالست سے نہی ہے۔ 3۔ اہل باطل کے ساتھ مجالست کی چندصورتیں ہیں اول ان کی کفریات پر رضا کے ساتھ یہ کفر ہے دوم اظہار کفریات کے وقت کراہت کے ساتھ مگر بلاعذر۔ یہ فسق ہے سوم کسی ضرورت دنیوی کے واسطے یہ مباح ہے۔ چہارم تبلیغ احکام کے لیے یہ عبادت ہے۔ پنجم اضطرار وبے اختیاری کے ساتھ اس میں معذوری ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ منافق اور برے لوگوں کی مجالس کے بارے میں اسی سورت کی آیت ١١٤ میں نشان دہی کی گئی ہے کہ ان کی اکثر مجلسیں خیر اور نیکی کے کام سے خالی ہوتی ہیں۔ وہاں ایسی مجالس سے اجتناب کا اشارہ دیا گیا تھا اور یہاں واضح حکم دیا ہے کہ جب تم کسی مجلس میں اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار اور مذاق ہوتا ہوا سنو۔ تو ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے کے بجائے وہاں سے اٹھ جاؤ۔ (الانعام : ٦٨) سوائے اس کے کہ تمہارے سمجھانے یا تمہاری حاضری کا احساس کرکے وہ لوگ اس قسم کی گفتگو ترک کردیں جس کا مطلب ہے کہ سماجی، معاشرتی ضرورت کے تحت ایسے لوگوں کی مجلس میں بیٹھنا گناہ نہیں لیکن اگر تم اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ کفر اور مذاق ہوتا ہوا دیکھو اور بیٹھے رہو۔ تو تم بھی ان جیسے شمار ہوگے۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے منافقین اور کفار کو ڈھیل دے رکھی ہے لیکن جہنم میں ان سب کو اکٹھا کردیا جائے گا۔ کیونکہ دنیا میں کافر اور منافق حقیقتًا ایک جیسا کردار اور عقیدہ رکھتے تھے لہٰذا قیامت میں ان کا انجام اور مقام جہنم ہوگا۔ دوسرے مقام پر فرمایا کہ منافق جہنم کے نچلے طبقہ میں ہوں گے۔ (النساء : ١٤٥) مسائل ١۔ جس مجلس میں اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار اور مذاق کیا جارہا ہو اس میں بیٹھنا کفر و استہزاء کا ساتھ دینا ہے۔ تفسیر بالقرآن بری مجالس کا بائیکاٹ کرو : ١۔ جہاں اللہ کی آیات سے مذاق ہو وہاں نہ جاؤ۔ (الانعام : ٦٨) ٢۔ دین کو کھیل تماشا بنانے والوں کو چھوڑ دو ۔ (الانعام : ٧٠) ٣۔ سازشیوں کی مجلسیں اچھی نہیں ہوتیں۔ (النساء : ١١٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کافروں کی مجلس میں بیٹھنے کی ممانعت اور منافقین کی دوغلی باتوں کا تذکرہ ان آیات میں اول تو مسلمانوں کو ایک اہم حکم قرآنی یاد دلایا جو اس آیت سے پہلے نازل ہوچکا تھا اور وہ یہ ہے (وَ اِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖ وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ) یعنی جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیات میں (لہو و لعب کے طور پر) مشغول ہوتے ہیں تو تم ان سے اعراض کرلو (یعنی ان کو چھوڑ دو ) یہاں تک کہ وہ کسی دوسری بات میں مشغول ہوجائیں اور اگر تمہیں شیطان بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالم کے ساتھ نہ بیٹھو) یہ آیت سورة انعام کی ہے جو مکی سورت ہے۔ کافر اور مشرک بطور لہو و لعب قرآنی آیات کا تذکرہ کرتے اور بطور مجلسی مشغلہ کے باتیں کرتے تھے۔ اور آیات قرآنیہ پر طعن کرتے تھے اور مسلمانوں کو حکم ہوا کہ جب ایسا موقعہ ہو تو ان کو چھوڑ کر چلے جائیں ان کے ساتھ نہ بیٹھیں۔ جب تک وہ اس مشغلے کو چھوڑ کر کسی اور مشغلے میں نہ لگیں ان سے دور ہی رہیں۔ سورۃ انعام کی آیت کے مضمون کو یہاں سورة نساء میں یاد دلایا اور فرمایا کہ تمہیں پہلے یہ حکم دیا جا چکا ہے کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق بنایا جا رہا ہے تو اس عمل میں جو لوگ مشغول ہوں ان کے ساتھ نہ بیٹھو اگر تم ایسے موقعہ پر وہاں سے نہ ہٹے تو تم بھی انہیں جیسے ہوجاؤ گے۔ کھلے کافر بھی آیت قرآنیہ پر اعتراض کرتے تھے اور منافقین بھی اس مشغلہ کو اختیار کرتے تھے۔ مسلمانوں کو تنبیہ فرمائی کہ تم ایسے موقعہ پر ان کے ساتھ نہ بیٹھو۔ اٹھ کر چلے جاؤ کیونکہ اگر اعتقاد میں ان کے ساتھ شریک ہوجاؤ گے تو ان ہی جیسے کافر ہوجاؤ گے اور اگر اعتقاد میں شریک نہ ہوئے تو گناہ کی شرکت تو بہر حال ہو ہی جائے گی۔ قال صاحب الروح والمراد من المماثلۃ فی الجزاء المماثلۃ فی لاثم لانھم قادرون علی الاعراض والانکار لا عاجزون کما فی مکۃ اور فی الکفر علی معنی ان رضیتم بذالک وھو مبنی علی ان الرضی بکفر الغیر کفر من غیر تفصیل۔۔ الخ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ بعض حضرات نے آیت بالا سے اس پر استدلال کیا ہے کہ فاسقوں اور اہل بدعت کے ساتھ بیٹھنا اٹھنا حرام ہے۔ حضرت ابن مسعود (رض) اور ابراہیم نخعی نے اس کو اختیار کیا ہے حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) کا بھی یہی مذہب ہے۔ ایک روزے دار شخص شراب پینے والوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) نے اس کی پٹائی کی اور یہی آیت تلاوت کی۔ صاحب روح المعانی یہ بھی لکھتے ہیں کہ آیت بالا سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو لوگ کفریہ کاموں میں لگے ہوئے ہوں ان کی مخالفت اس طرح سے فرض ہے کہ وہاں سے اٹھ کر چلا جائے محض قلب یا چہرہ سے اعراض کرنا کافی نہیں ہے۔ (صفحہ ١٧٤: ج ٥) اگر کافر کسی جگہ جمع ہوں اور ان کی باتوں اور اعتراضوں کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے کوئی شخص وہاں چلا جائے تو یہ ممانعت کے دائرہ میں نہیں آتا کیونکہ اہل کفر اور اہل بدعت سے مناظرہ مجادلہ کرنا مشروع ہے۔ البتہ بہت سے وہ لوگ جو ہندوؤں یا نصرانیوں کی مجلسوں میں ہوتے ہیں اور ان سے اسلام کے خلاف باتیں سنتے ہیں اور اسلام کی باتوں کا وہ لوگ جو مذاق اڑاتے ہیں اسے بیٹھے ہوئے سنتے رہتے ہیں اور جہالت کی وجہ سے یا کافروں کی قوت ظاہرہ کی وجہ سے ان باتوں کا جواب دینے سے عاجز ہوتے ہیں ایسے لوگوں پر فرض ہے کہ وہاں سے اٹھ جائیں آج کل بہت سے ممالک مثلا انگلینڈ وغیرہ میں ایسا پیش آجاتا ہے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْکٰفِرِیْنَ فِیْ جَھَنَّمَ جَمِیْعَا) (کہ اللہ تعالیٰ منافقوں کو اور کافروں سب کو دوزخ میں جمع کرنے والا ہے) پھر مسلمان ان کی طرف کیوں مائل ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کو اہل جنت کے پاس رہنا چاہیے انہیں کی مجلس میں بیٹھنا چاہیے۔ پھر منافقوں کا طریقہ کار اور کردار بیان فرمایا اور فرمایا کہ یہ لوگ بظاہر تو یہ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں لیکن چونکہ اندر سے مسلمان نہیں ہیں اس لیے وہ اس انتظار میں رہتے ہیں کہ مسلمانوں پر کوئی مصیبت آپڑے (یہ مصیبت بعض مرتبہ کھلے کافروں کے ساتھ جنگ کرنے کی صورت میں رونما ہوجاتی ہے) جب مسلمان کافروں سے لڑنے لگے اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوگئی تو یہ منافق مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ دیکھو کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے ؟ لہٰذا جو کچھ غنیمت تمہیں ملی ہے اس میں سے ہم کو بھی حصہ دو ، اور اگر کافروں کو کوئی حصہ مل گیا یعنی لڑائی میں انہیں غلبہ حاصل ہوگیا تو یہ منافق کافروں سے کہتے ہیں کہ کیا مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہو کر ہم تم پر غالب نہیں آگئے تھے ؟ پھر کیا ہم نے تمہیں غالب کرنے کے راستے نہیں بتائیے اور محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے صحابہ کے بھیدتم تک نہیں پہنچائے اور کیا ہم نے تم کو مسلمانوں سے نہیں بچایا ؟ ہماری کارکردگی ہی سے تو تم کو غلبہ ہوا ہے ہم نے مسلمانوں کو تمہارے خلاف اٹھنے سے روکا اور وہ جب لڑائی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تو ہم ان کا ساتھ چھوڑ کر چلے گئے۔ تمہارے فتح یابی میں ہمارا دخل ہے۔ لہٰذا اپنے منافع میں ہم کو بھی شریک کرو چونکہ منافق نفاق کو اسی لیے اختیار کرتا ہے کہ دونوں جماعتوں سے فائدہ اٹھائے اور چٹ اور پٹ دونوں اس کی رہیں اس لیے اس زمانہ کے منافقین یہ چال چلتے تھے جس کا اوپر ذکر ہوا۔ ایسے لوگوں کو متنبہ کرنے کے لیے ارشاد فرمایا (وَ اللّٰہُ یَحْکُمْ بَیْنَکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ) کہ اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان قیامت کے دن فیصلے فرما دے گا۔ اہل ایمان کو جنت عطا فرمائے گا اور منافقوں اور کافروں کو دوزخ کی سزا دے گا۔ یہ دنیا کی ذرا سی زندگی اگر نفاق اور مکرو فریب اور دغا بازی کے ساتھ بظاہر کچھ اچھی گذارلی تو یہ کوئی خوش ہونے کی چیز نہیں ہے۔ اس کے بعد منافقوں اور کافروں کے لیے دوزخ کا عذاب دھرا ہوا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi